چوڑی جو کھنکی ہاتھوں میں از پری چہرہ – قسط نمبر 1
–**–**–
مہندی کی تقریب پورے عروج پر تھی-پورا لان برقی قمقموں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا-چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنے لہنگے سنبھالتی ہاتھوں میں مہندی کی تھالیاں لیے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں-مدھم سی آواز میں بجتا میوزک ہر طرف ایک فسوں بکھیر رہا تھا-لڑکے والے مہندی لے کر آچکے تھے اور اِس وقت مہندی کی رسم ہو رہی تھی- ایک طرف بنے اسٹیج پر ہرے اور پیلے غرارے میں ملبوس گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی ماریہ کو چاروں طرف سے عورتوں اور لڑکیوں نے گھیر رکھا تھا-ہانیہ نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن نظر آرہا تھا-وہ بے دلی سے اپنی چوڑیوں سے کھیلنے لگی-چوڑیوں کی کھنک اُس کی پسندیدہ آوازوں میں سے ایک تھی-اُسے چوڑیوں سے عشق تھا-عید ہو یا شادی ہر فنکشن میں وہ چوڑیوں سے اپنی کلایاں بھرتی-عام روٹین میں بھی اُس نے کانچ کی کالی اور سفید چوڑیاں پہنی ہوتیں-فارغ وقت میں وہ اُن سے کھیلتی اور اِس وقت بھی وہ یہی کر رہی تھی-تبھی اُس نے عائشہ کو اپنی طرف آتے دیکھا-
“ہانی کی بچی تم یہاں بیٹھی ہو میں تمہیں ہر جگہ تلاش کر کے آئی ہوں”-عائشہ نے اُس کے سامنے والی چئیر پہ تقریباً گرتے ہوئے کہا-
“ہر جگہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی تم یہاں تلاش کر لیتی تو میں تمہیں پہلے ہی مل جاتی”- وہ شرارت سے بولی تو عائشہ کا دل چاہا کوئی چیز اُٹھا کہ اُس کے سر پہ دے مارے-
“تم کبھی نہیں سدھرو گی ہانی”-عائشہ نے ایک تاسف بھری نگاہ اُس پہ ڈالتے ہوئے کہا-
“تو تم سدھار دو”- وہ اُس کو تنگ کرنے والے انداز میں بولی-عائشہ کا پارہ بہت جلد ہائی ہو جاتا تھا اور ہانیہ اُسے جان بوجھ کہ تنگ کرتی تھی-
“میں پاگل تھوڑی ہوں جو یہ ذمہ داری لوں تم تو پتہ نہیں سدھرو گی کہ نہیں مگر تمہیں سدھارنے کے چکروں میں میرا دماغ ضرور خراب ہو جائے گا”-اُس کی بات پر عائشہ تڑخ کر بولی تو ہانیہ نے چھت پھاڑ قہقہ لگایا جس پر عائشہ اُسے گھور کر رہ گئی-
“عاشی تجھے ایک بات بتاؤں؟ “- ہانیہ کو کچھ یاد آیا تو فورا پوچھنے لگی-
“کونسی بات؟ “-وہ متجسس ہوئی تھی-بے تابی سے ہانیہ کو دیکھنے لگی جس کا انداز بتا رہا تھا کہ کوئی خاص بات ہے-
“مجھے محبت ہو گئی ہے”-اُس نے اپنی طرف سے دھماکہ کیا تھا-
“تمہیں کتنی محبتیں ہونی ہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے ایک ہی بار بتا دو”-عائشہ اُس کی بات پر سخت بدمزہ ہوئی تھی-وہ سمجھ رہی تھی کہ ناجانے کونسی اہم بات بتانے لگی ہے-مگر اتنی فضول بات کی امید نہیں تھی اُسے ہانیہ سے
“یہ سچ والی ہے عاشی میرا یقین کرو”- اُس نے عائشہ کو یقین دلانا چاہا-
“تجھے تو روز سچی محبت ہوتی ہے”-عائشہ نے طنز کیا-
“جیسے کہ تمہیں ماریہ کی بلی سے محبت ہوئی حارث کے طوطے سے ہوئی، کرن کے سرخ سوٹ سے اور بھی پتہ نہیں کس کس چیز سے ہوئی”-وہ انگلیوں پہ گنتے ہوئے بتانے لگی-
“اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے”- عائشہ نے اُس کی پوری بات سنے بغیر اپنی سوچ کہ مطابق مطلب نکالا تھا-وہ ہانی کی ہر خوبصورت چیز پہ فدا ہونے والی عادت سے اچھی طرح واقف تھی-اب بھی وہ یہی سمجھی تھی کہ اُسے کسی کی چیز سے پھر محبت ہو گئی ہے-
“نہیں یار اِس بار مجھے کسی چیز سے نہیں بلکہ ایک انسان سے محبت ہوئی ہے”- اُس نے فورا مطلب کی بات بتا دی کہ اس سے پہلے وہ کوئی اور مطلب نکالتی-
“ہانی۔۔۔۔۔”- عائشہ تو جیسے اُس کی بات پر سپرنگ کی طرح اچھلی تھی-حیرت اور صدمے سے اُس کو دیکھا-
“ہاں عاشی اب مجھے سچی والی محبت ہوئی ہے”-
“کون ہے وہ؟ “-عائشہ نے فورا پوچھا-
“ماریہ کے سسرال سے آیا ہے طلحہ بھائی کا کزن ہے میران شاہ”-وہ مزے سے بولی-
“تو نے اتنی جلدی نام بھی پتہ کر لیا”-عائشہ مشکوک ہوئی تھی-
“ہاں اُس کا کوئی کزن اُس سے باتیں کر رہا تھا تو وہ بار بار اُس کا نام لے رہا تھا تو میں نے سن لیا”-
“ہر وقت جاسوس بنی رہتی ہو مگر ایک بات دیہان سے سن لو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرنے والی اِس معاملے میں”- عائشہ جانتی تھی اب وہ اُسے بھی گھسیٹے گی اس لئے وہ فورا لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے بولی-
“عاشی کی بچی”- ہانیہ چلائی تھی-اُسے عائشہ سے اس قدر طوطا چشمی کی اُمید نہیں تھی-
“ہاں جی مجھ سے واقعی کوئی امید مت رکھنا تمہاری محبت کا تو پتہ نہیں کیا بننا مگر مجھے بہت جوتے پڑنے ہیں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو”-عائشہ نے صاف صاف انکار کر دیا تھا-وہ اپنی بات کہہ کہ وہاں سے چلی گئی-
“اس کو تو میں بتاؤں گی”- وہ دانت پیستے ہوئی بولی-
اُس نے اپنے سامنے رکھا اپنا کلچ اُٹھایا اور اسٹیج پر جانے کے ارادے سے اُٹھی-مگر جونہی مڑی تو ساکت رہ گئی- اُس سے چند قدم دور پڑے ٹیبل کے گرد رکھی کرسی پر بیٹھا میران شاہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا-اُس کا رنگ فق ہوا-اب پتہ نہیں اُس نے کیا کیا سنا تھا دیکھنے کے انداز سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ سب سن چکا ہے-ہانیہ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی-مگر پوری مہندی کی تقریب میں اُس کا ذہن الجھا ہی رہا تھا اور اس کے بعد اس نے میران شاہ کا سامنا کرنے کی غلطی نہیں کی تھی-
!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!
رات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی-ہر سو ہو کا عالم تھا-رات کا تیسرا پہر تھا-مہندی کی تقریب رات کے دو بجے ختم ہوئی تھی-اِس وقت ہر کوئی نیند کے نشے میں اپنے ہواس سے بیگانہ سو رہا تھا مگر اُس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی-اُس نے کئی بار آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہو جاتی-اُس نے بے بسی سے اپنے سے کچھ فاصلے پر سکون سے سوتی عائشہ کو دیکھا-
“عاشی اُٹھو۔۔۔”- ہانیہ نے اُسے ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی-
“کک کیا ہو گیا؟ “-اُس نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے ہانیہ سے پوچھا-
“مجھے نیند نہیں آرہی”- وہ منہ بناتے ہوئے بولی-
“ہائیں ۔۔۔۔اتنی رات کو بھی نہیں آرہی”- وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی-
“نہیں ۔۔۔”-اُس نے بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے-
“وجہ بھی تو بتاؤ نہ”- عائشہ کو کوفت ہوئی-
“میران شاہ مجھے سونے ہی نہیں دے رہا کیا کروں”- اُس نے معصومیت سے جواب دیا-
“ہانی کی بچی۔۔۔۔”-عائشہ نے پاس پڑا تکیہ اُٹھا کر اُس کی دھلائی شروع کر دی-وہ اُس سے بچنے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگی مگر عائشہ اندھا دھند اُس پر تکیے برسا رہی تھی-
“تو نے آدھی رات کو مجھے یہ بتانے کے لیے جگایا ہے”-عائشہ کا بس نہیں چل رہا تھا اُس کو کچا چبا جاتی-ہانیہ نے بمشکل تکیہ اُس کے ہاتھ سے چھینا-
“قسمے عاشی بہت یاد آرہا ہے -بتاؤ کیا کروں؟”-ہانیہ نے تکیہ گود میں رکھ لیا-
“چلو بھر پانی میں ڈوب مرو آئی سمجھ”-عائشہ کہتے ساتھ ہی کمبل میں واپس گھس گئی-
“اور سنو خبردار جو اب مجھے اُٹھانے کی غلطی کی تو”-اُس نے ایک لمہے کے لیے منہ باہر نکال کر اُس کو وارننگ دی اور پھر منہ کمبل میں غائب کر لیا-
ہانیہ نے دل ہی دل میں اُس پر لعنت بھیجی اور دوپٹہ گلے میں ڈالتی کچن میں آگئی-ارادہ تھا کہ کافی بنا کہ پئیے شاید پھر نیند آجائے-
!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!
اگلا دن بارات کا تھا-نائیٹ فنکشن تھا اس لیے سب آرام سے پورا دن تیاریوں میں مصروف رہے-رات تک سب لوگ تیار تھے-ہانیہ کا لہنگے کے ساتھ کا دوپٹہ نہیں مل رہا تھا-وہ پاگلوں کی طرح ہر کمرے کے چکر لگا رہی تھی-عائشہ نے گلابوں کے تازہ گجرے پہنتے ہوئے اُسے دیکھا جو بوکھلاہٹ کی حدوں کو چھو رہی تھی-
“اگر تمہاری پریڈ ختم ہو گئی ہو تو میں کچھ بولوں؟ “- عائشہ نے اُسے چوتھی بار کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بالاآخر پوچھ بیٹھی-
“ہاں بولو “-وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئی-الماری کے سارے کپڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے-عائشہ نے تاسف سے اُس کی حالت دیکھی-
“تمہارا دوپٹہ وہ آئرن سٹینڈ پہ پڑا ہوا”-اُس نے آئرن سٹینڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ہانیہ بجلی کی سی تیزی سے اُس طرف بڑھی-پریس شدہ دوپٹہ اس وقت سلوٹوں سے بھرا پڑا تھا-ہانیہ نے جلدی جلدی استری کا پلگ لگایا اور اُسے پریس کرنے لگی-شکر تھا کہ لائیٹ تھی-ورنہ ایسے ہی لینا پڑتا –
“پہلے نہیں بول سکتی تھی”-
“تم نے پوچھا کب تھا مجھ سے”-وہ گجروں کو ناک تک لے جاتے ہوئے بولی-تازہ گلابوں کی مہک نے اُس کی روح تک کو تازہ کر دیا تھا-
ہانیہ دوپٹہ پریس کرنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر سیٹ کرنے لگی-اُس نے دوپٹہ اس طرح سے پن اپ کیا تھا لہنگے کے اوپر کہ وہ لہنگا کم ساڑھی زیادہ لگ رہی تھی-نیچے تین انچ کی ہائی ہیل پہنے وہ کافی سے بھی ذیادہ لمبی لگ رہی تھی-لمبے بال جو اوپر سے سٹریٹ تھے مگر نیچے آکر کرل ہو جاتے اُس کی پشت پہ بکھرے ہوئے تھے-کانوں میں نیکلس کے ہم رنگ چھوٹے چھوٹے جھمکے پہنے اور پیشانی پر بندیا ٹکائے وہ بلکل ریڈی تھی-ناک میں چمکتی لونگ اُس کے میک اپ ذدہ چہرے کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی-عائشہ نے اوپر سے نیچے تک اُس کا جائزہ لیا-
“میران شاہ ایمپریس نہیں ہونے والا تم سے جتنی مرضی تیاری کر لو”-وہ شرارت سے بولی تو جواباً ہانیہ نے اُسے گھور کہ دیکھا-
“اپی آبھی جاؤ جلدی باہر”-باہر سے فلزا کی آواز آئی تو وہ دونوں باہر کی طرف لپکیں..
ہانیہ کو چلنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی….
–**–**–
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔