ہیبت ناک گھر از نازیہ شازیہ – قسط نمبر 1
–**–**–
سارا ایک بہت خوش مزاج اور اچھے اخلاق کی مالک لڑکی تھی اس کی 4 بہت گہری سہیلیاں تھیں عروہ،اقرا ،نائلہ اور صائمہ ، وہ دکھ درد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی تھیں ،ان کی دوستی بے غرض تھی ،سارا کو اپنی سہیلیوں پر بہت ناز تھا ،ایک روز وہ سب سیروتفریح کا پلان بناتی ہیں ان کو ایسی جگہ زیادہ پسند تھی جہاں لوگوں کی بھیڑ کم ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروہ کو ریاضی میں انڈا ملا ہے سارا چلا کر کہتی ہے ہاہاہا سب سہیلیاں قہقہہ لگاتی ہیں ، ہاں بھئی اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا اس بار اقرا بولتی ہے ، بولی جاؤ جو بولنا ہے اور سارا تم سناؤ محبت ہو گئی ہے نہ تمھیں ، اللّه توبہ کتنی بڑی جھوٹی ہے یہ محبت لفظ کا پتا بھی ہے تمھیں ، جی ہاں م،ح،ب،ت کو ملائیں تو محبت لفظ بنتا ہے ،عروہ بولتی ہے ، کار ہنسی کے قہقہوں سے گونج اٹھتی ہے ،واہ بھئی ہماری عروہ تو بہت پڑھی لکھی ہے ،اچانک کار رک جاتی ہے ،اب اسکو کیا ہو گیا نائلہ بولتی ہے ،کچھ نہیں پیٹرول ختم ہوگیا ہے صائمہ جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوتی ہے بولتی ہے ،اب پیٹرول کہاں سے ملے گا سارا اپنی فکرمندی ظاہر کرتی ہے ،اس جنگل جیسی جگہ پر آثار تو کوئی نظر نہیں آرہے پر پھر بھی میں اتر کر دیکھ لوں اس بار اقرا مخاطب ہوئی ،کچھ دیر بعد اقرا آئ ،لڑکیوں یہاں کوئی آدمی وغیرہ تو نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی پیٹرول پمپ دکھائی دے رہا ہے البتہ ایک حویلی نما بڑا سا گھر ہے شاید وہاں سے پیٹرول مل جاۓ ،ہاں اور رات بھی ہونے والی ہے اگر وہاں کوئی ہوا تو اسے کہیں گے کے ہمیں ایک رات یہاں رہنے دے صبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جاۓ گے اس بار صائمہ بولی ،سب نے اس کی راۓ پر اتفاق کیا سواۓ سارا کے ،سارا بولی ،نہیں یار ہمیں نہیں جانا چاہیے اگر وہاں کوئی نہ ہوا اور اگر اس جگہ پر چڑیلیں ہوئی تو ،ویسے باتیں تو بڑی بناتی ہو پر ڈرپوک بہت ہو ،جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں چلتی ہوں تم لوگوں کے ساتھ ،لہٰذا سب اس گھر کی جانب چل پڑتی ہیں ،گھر تو بہت ہی پرانا ہے اور ڈراؤنا بھی سارا کہتی ہے اب بھی وقت ہے واپس چلتے ہیں کہیں بعد میں دیر نہ ہو جاۓ ،چلو بھئی چلو ہم چلتے ہیں تم باہر کھڑی رہی رہو سارا ،نائلہ سب کو تجویز پیش کرتی ہے ،ہاں ہاں سہی ہے سارا تم باہر رہو،سب یک زبان ہو کر بولتی ہیں ،نہیں نہیں میں چل رہی ہوں سارا بولتی ہے ، گھنٹی بجتی ہے دروازہ کوئی نہیں کھولتی ،کوئی ہے کوئی ہے عروہ پوچھتی ہے مگر کوئی جواب نہیں آتا ،جب اقرا اور صائمہ مل کر دروازے کو دھکا دیتی ہیں تو وہ ہلکی سی آواز کے ساتھ کھل جاتا ہے اندر گھر میں جگہ جگہ جالے لگے تھے ،بتیاں جل رہی تھی بجھ رہی تھی ۔
جب دروازہ کھلا تو اندر جگہ جگہ جالے لگے تھے بتیاں کبھی جل رہی تھی کبھی بجھ رہی تھیں ،نہیں نہیں اندر نہیں جانا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یہ کسی بھوتیہ محل سے کم نہیں لگ رہا اور یہ بتیاں جل رہی ہیں بجھ رہی ہیں ان کو کیا ھوگیا ہے ،سارا لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ بولتی ہے ،کچھ نہیں ہے یار اور شاید بجلی کا لوڈ کم یا زیادہ ہو اس لئے ایسا ہو رہا ہے ، صائمہ سارا کو سمجھاتی ہے ،مجھے بہت پیاس لگ رہی ہے ،اقرا بولتی ہے ، چلو ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں کے میں (یعنی نائلہ) ،سارا اور صائمہ پیٹرول ڈھونڈتے ہیں ،جب کہ اقرا اور عروہ پانی ڈھونڈیں گی ،ساتھ ہم یہ بھی دیکھیں گے کے کوئی ہے کے نہیں گھر میں ،اگر کوئی ہوا تو اسے ہم پوچھ بھی لیں گے کیا ہم یہاں رہ سکتے ہیں اور اگر کوئی نہ ہوا تو پھر بھی یہاں ایک رات کے لئے قیام کر لیں گے ،ٹھیک ہے ، سب نائلہ کی راۓ سے اتفاق کرتے ہیں اور اندر کی جانب چل پڑتے ہیں ،اندر کا منظر بہت ہیبت ناک تھا ،سارا صائمہ اور نائلہ پیٹرول ڈھونڈنے کے لیے چل پڑی جبکہ عروہ اور اقرا پانی ڈھونڈنے کے لئے، اور ساتھ ساتھ وہ یہ آوازیں بھی نکال رہی تھی کہ کوئی ہے کوئی ہے اگر کوئی ہے تو جواب دے لیکن کوئی جواب نہ آیا ،اقراء اور عروہ کو فریج مل گئی تھی لہٰذا جب انہوں نے فریج کھولیں تو انہیں ایک پانی کی بوتل ملی ، جب انہوں نے پانی گلاس میں ڈالا تو اچانک پانی خون میں بدل گیا ،عروہ زوردار چیخ مارتی ہے اور اقرا بھی پیچھے ہٹ جاتی ہے ،تم نے چیخ کی آواز سنی ،سارا کہتی ہے ،نائلہ جواب دیتی ہے نہیں میں نے تو نہیں سنی اور صائمہ تم نے ،نہیں میں نے بھی نہیں سنی ،ایک تو سارا تم بھی بس ہم پیٹرول ڈھونڈیں گے اور جلدی سے یہاں سے نکل جاۓ گے( اب انہوں نے اس گھر کے ماحول کی وجہ سے یہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا ) ،اچھا، سارا ہاں میں سر ہلاتی ہے ، ابھی عروہ اور اقرا اس خون آلود گلاس کو دیکھ ہی رہے تھے کے اچانک ان کو چکر آتے ہیں اور وہ دونوں بیہوش ہوجاتی ہیں ،جب اقرا کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ایک کمرے میں تھی جہاں گھپ اندھیرا تھا ، وہ کھڑی ہو کر سوئچ بورڈ( switch board ) ڈھونڈنے لگتی ہے کچھ دیر کی کوشش کے بعد اس کو سوئچ بورڈ مل جاتا ہے ،جیسے ہی وہ بتی جلاتی ہے تو خوف سے اس کی آنکھیں باہر ابل آتی ہیں ، دیوار پر عورتوں اور مردوں کے سر اور دھڑ علیحدہ علیحدہ لٹک رہے تھے جن میں سے تازہ تازہ خون نکل رہا تھا ،اقرا چیخ مارنا چاہ رہی تھی لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں کہیں گم ہو گئی تھی ،اس کے ہاتھ پہ اس کو کوئی گیلی چیز محسوس ہوتی ہے جیسے ہی وہ اپنے ہاتھ کی طرف دیکھتی ہے تو کسی کی خون آلو زبان تھی وہ گھن کھا کر فوری طور پر اس خون آلود زبان کو اپنے ہاتھ سے جھٹک دیتی ہے جیسے ہی وہ منہ اوپر کر کے دیکھتی ہے تو ایک عورت کا منہ چھت کے ساتھ لٹک رہا تھا اور چھری اس کے منہ کہ آر پار تھی اس عورت کی آنکھیں باہر لٹک رہی تھیں ،اقرا اپنا منہ جیسے ہی نیچے کر کہ دوسری طرف دیکھتی ہے ،تو عروہ ایک پلنگ پر لیٹی تھی جو خون سے تر تھا اس کے پاس ایک عورت کھڑی تھی جس کے پیچھے چھری پیوست تھی جس میں سے خون باہر آرہا تھا ،عروہ مسلسل ہاتھ پیر مار رہی تھی مگر پلنگ سے اٹھ نہیں پا رہی تھی ،چھوڑ دو میری دوست کو اقرا روتے ہوئے چلاتی ہے ، وہ عروہ کو بچانا چاہ رہی تھی مگر وہ اس جانب جا نہیں پا رہی تھی ،اسے ایسا لگ رہا تھا کے کوئی دیوار عروہ اور اس کے بیچ حائل تھی ،وہ عورت اپنی کمر سے چھری نکالتی ہے اور اس کو عروہ کے بدن پر پھیرنے لگتی ہے ،اقرا مدد کے لیے دروازہ کی جانب بھاگتی ہے مگر دروازہ بند تھا اقرا بہت زور لگاتی ہے مگر دروازہ نہیں کھلتا ،جب اقرا دوبارہ اس عورت کی جانب اپنا منہ کرتی ہے تو اسے ایسا لگا کے اس کے اندر جان نہیں رہی ،کیوں کے وہ عورت بہت خوفناک تھی اس کی آنکھیں بلکل سفید تھیں جن میں سے خون نکل رہا تھا اس کے ماتھے میں ایک چھری پیوست تھی ،پھر اس عورت نے دوبارہ اپنا چہرہ عروہ کی جانب کیا اور چھری ہوا میں بلند کی اور پھر ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply