کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 10
یہ تماشہ نہیں ہے مس ائیڈوکیٹ رانیہ تماشہ تو اب ان درندوں کا بنے گا ۔۔آہ بس اپنے پاس ایک پانی کا گلاس رکھ لیں شاید آپ کو اسکی بہت ضرورت پڑے
رانیہ شرمندگی کے مارے چپ کر کے کھڑی ہو گئ ۔۔
پھر شہوار نے ۔۔ایک ایک نارمل سا وائیٹ بورڈ اور ایک مارکر انم کے ہاتھوں پیش کیا
اور نرم لہجے میں کہا ۔۔
انعم اب جو میں سوال کروں گی ۔۔اگر ۔۔وہ ٹھیک ہے تمھارے ایسا ہوا ہے تو تم بورڈ پر ہاں لکھ دینا اگر غلط بات ہو گی تو ناں لکھ دینا ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔انعم نے پلکے جھپکیں
وئیڈروں کے پسینے چھوٹ رہے ۔۔تھے ۔۔ان کی سب چالیں درھی کی درھی رہ گئ
تو انعم ۔کیا اس رات ۔۔تمھارے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا ۔۔اس میں ۔۔عمران نامی ملزم کا ہاتھ ہے ۔اور اسکے دوستوں کا ۔۔اگر صیح ہے تو ہاں لکھوں ۔۔یہ سنتے ہی انعم نے اپنے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ سے ہاں لکھا ۔
تو مائی لارڈ آپ دیکھ سکتے ہیں انعم صدیقی نے خود اس بات کا بیان دیا ہے کہ عمران ہی ۔۔اس سب کام کے پیچھے تھا
انعم کیا تمھیں یونیورسٹی میں عمران زبردستی بات کرنے کی یا چھونے کی کوشش کرتا تھا ۔۔
اس بار بھی شہوار کے پوچھنے پر اسنے ہاں ہی لکھا ۔
اور آخری وقت میں تمھارے چہرے پر پتھر عمران نے ہی مارا تھا ؟ انعم نے جیسے یہ سوال کیا
ساری کورٹ میں موجود لوگوں کی آئیں بڑھ آئی ۔۔شہوار کی انکھوں میں آنسوں آگئے جب انعم نے اس بار بھی ہاں لکھا
انعم کو دوبارہ واپس لے جایا جانے لگا تھا جب شہوار نے اسے روکا
اور جج صاحب کو ایک چشمدید گواہ بھی پیش کیا ان وئیڈروں کے گھر کا ملازم ہی تھا جس سے وہ ملنے گاوں گئ تھی
اسنے خود عمران کے خلاف بیان دیا تھا کہ اسنے یہ کہتے ہوئے سنا تھا جب عمران کا باپ ۔۔اسے یہاں سے فرار ہونے کا کہہ رہا تھا
یہ سنتے ہی ۔۔اب جج صاحب کے پاس ۔۔فیصلہ سنانے کے علاوہ کوئی حل نہیں بچا تھا جج نئ انصاف کے تقاصوں کو اپناتے ہوئے ملزم عمران کو سزہ موت اسکے ساتھیوں کو عمر ۔۔قید کی سزہ سنوائی ۔
فیصلہ سنتے ہی پورا کورٹ تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا ۔۔بوڑھے ماں باپ کے چہروں پر ۔۔آج جو مسکراہٹ تھی وہ ناقابل بیان تھی ۔۔شہوار کی خوشی کے مارے آنسوں آنکھوں سے بہنےلگے اور آج پھر سچائی کی جیت ہوئی اور ائیڈوکیٹ در شہوار نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کوئہ اسکے سامنے سچائی کو مات نہیں دے سکتا ۔۔
روہان نے ملز عمران کو اور اسخے دیگر دوستوں کو ہتھ کڑیاں لگائی وہ اسے باہر کورٹ سے لے جانے لگا تھا جب شہوار نے اسے روکنے کو کہا
روکیں ایک منٹ ۔وہ انعم کی وئیل چئیر اس درندے کے قریب لائی
اور عمران کو گردن سے پکڑ کر نیچے کیا ۔
انعم نکال ۔۔اس درندے پہ اپنا زور ۔۔جیسے شہوار نے کہا انعم نے ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔
روہان یہ دیکھ کر ۔اسنے فخر محسوس کیا واقعی وہ دھک رہ گیا تھا کہ کیسے شہوار نے کیس کو ہینڈل کیا تھا
________________
اسکے بخار مین مزید اضافہ ہو چکا تھا تکاوٹ سے شہوار کا پورا بدن ٹوٹ رہا تھا
لیکن وہ پھر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ اسی دوران روہان کمرے میں داخل ہوا
کہاں جا رہی ہو ۔۔شہوار ۔۔
کہی نہیں وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگی تھی کہ روہاناسکے آگے کھڑا ہو گیا
تمھیں اتنا بخار ہے اور تم پھر لاء یونورسٹی لکچر دینے چلی ہو ۔خدا کے لیے مجھ غریب پر کوئی رحم کرو اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہو گا روہان نے مسکراتے ہوئے طنزا کیا
میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں روہان ۔۔مجھے سر یوسف نے ریکویسٹ کی ہے کہ میں ایک مہنا لاء کلاس لوں اور وہ میرے استاد ہیں مین انکا کہا نہیں ٹال سکتی مجھے جانے دو وہ آگے جانے لگی تھی کہ روہان نے اسے پھر روکا
تو کل بھی تو جا سکتی ہو ناں ۔۔آج کیوں ۔
جیسے روہان نے کہا وہ چڑی
روہان میرا راستہ چھوڑو خدا کے لیے یہ ہمدردی اپنے پاس رکھو اسنے کہا اور آگے دروازے کی طرف بڑھی اور بخار کی وجہ سے لڑکھڑا گئ
روہان نے آگے ہو کر سہارا دیا
میری ہمدردی کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے تمھیں مسسز روہان کر لو اپنی منمانی جا تو اپنی مرضی سے رہی ہوں تو لینے میں اپنی مرضی سے آوں گا ۔۔روہان نے ابھی تک اسے تھاما ہوا تھا
وہ تھوڑا سا ہچکچائہ اور آگے بڑھ گئ
_________
اف! یہ محبت روہان نے بے اختیار اپنے دل پہ ہاتھ رکھا نہیں کہہ پاتا، نہیں روک پاتا وہ اسے، نہیں دے پاتا جواب اسے، کیوں؟ محبت نہیں دیتی یہ اجازت، وہ محبوب ہے اسے زیب دیتا ہے یہ سب، وہ کر سکتا ہے ظلم، وہ دکھا سکتا ہے دل کو، کیونکہ ہم تو دل دے چکے ہیں اپنا سب کچھ اسکے نام کر چکے ہیں تو پھر کہاں یہ جواز ہے ۔روہان شہوار کے جانے کے بعد چئیر پر بیٹھا سگریٹ سلگانے لگا یادوں کے صندوق کو کھولا کہ اسکے فون کی گھنٹی بجی اسنے سگریٹ کا دوواں ہوا میں اڑتے ہوئے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا اور فورا مخاطب ہوا
جی بولیے! عاقب صاحب
آغاز میں ہی طنز کا سلسلہ شروع کر دیا کیسے دوست ہو دوسری طرف عاقب مسکرا کر بولا
جی۔۔حضور آپ سے ہی یہ طریقہ سیکھا ہے روہان نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا
“چین سموکر پھر سموکنگ کر رہا ہے ” جیسے عاقب نے کہا روہان فورا بولا
خبردار اگر مجھے چین سموکر بھلایا تو اس القاب سے صرف میری مسسز بھلا سکتی ہیں اور کیسی کو میں اجازت نہیں دوں گا ۔۔
عاقب نے یہ سنتے ہی بے اختیار بلند قہقا لگایا
جوڑو ۔۔کا غلام ! سفر کہا تک پہنچا ہے عاقب نے چھپتے الفاظوں میں اسکے دل کی بات سنی ۔۔روہان نے چئیر پر ٹیک لگائی اور ایک لمبی آہ بھری “شاید ابھی تک نفرت ہے ”
محبت کب ہو گی ؟
پتا نہیں۔۔ جواب سرد آواز سے ملا ۔
کیوں ابھی بھی مجرم ۔۔ہو عاقب نے بھی حیرانگی سے آئیستگی سے پوچھا
ہاں ! شاید ۔ جواب مختصر ملا
تو بندوق کی نوک پر کہلاوا لو ۔۔۔روہان علی خان کہہ دے گی کہ ہاں مجھے تم سے محبت ہے جیسے عاقب نے کہا
روہان کا قہقا پورے کمرے میں گونجا ۔
اگر ایسے ۔۔محبتیں ہو جاتی تو ۔۔جب مجھے اس سے پہلی دفعہ محبت ہوئی تھی تب کی بندوق کی نوک اسکے دل پہ رکھ دیتا ۔۔آسان نہیں ہے یہ فراز سفر بہت کھٹن ۔۔بس دعا کیجیے ان کا دل بھی موم ہو جائے روہان نے مایوسی سے سر جھٹکا
ہائے ۔میرا دوست کیا حالت کر دی ہے اس کمبخت محبت نے
ایک بات پوچھو روہان ۔۔۔عاقب نے تجسس بڑے لہجے میں کہا
ہاں پوچھو
جب وہ ۔۔تمھارے ساتھ ۔۔برہمی کا اظہار کرتی ہے تو کیا جواب دیتے ہو
یہ سنتے ہی ۔۔روہان نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا
محبت ہے میری اکثر اسکی باتوں کا جواب مسکراہٹ سے دے دیتا ہوں
عاقب بلکل خاموش ہو گیا
______________________
بلیک شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں ملبوث آنکھوں پہ کالا چشما لگائے ۔! ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ روب دار پرسینلٹی شرٹ کا بلیک کلر اسکے رنگ کو اور پرکشش بنا رہا تھا جیسے آئی ایس پی روہان علی خان یونیورسٹی داخل ہوا سارے ایک دم تھم گئے سب کے چلتے ہوئے قدم وہی رک گئے اس میں کشش ہی کچھ اتنی تھی کہ سب کے قدم ناچاہتے ہوئے بھی رک جاتے جیسے جیسے روہان اپنے قدموں کو بڑھا رہا تھا سب کی نگاہوں کا مرکز وہی بن رہا تھا سب کے دلوں میں ایک ولولا سا مچ گیا
شہوار کلاس میں موجود تھی اور لیکچر دینے میں مصروف تھی جب روہان کلاس کے سامنے آیا ۔۔جیسے شہوار کی نظر اس پر گئ وہ وہی دھک رہ گئ اسکی آنکھیں وہی ٹک رک گئ ۔ روہان نے مسکرا کر اسے اشارے میں کہا “میں تمھیں لینے آیا ہوں” جیسے روہان نے اشارہ کیا وہ غصے سے بورڈ پہ کچھ سمجھانے لگی روہان کے بار بار کہنے پر وہ باہر نہیں آیا تو مجبورا اسے کلاس میں داخل ہونا پڑا روہان کا کلاس میں داخل ہوتے وہاں پر بیٹھے سب سٹوڈنٹس یک دم حیران رہ گئے
ہیلو ۔۔سٹوڈنٹس !۔روہان نے اپنی گہری آواز سے کہا
وہ چونک کے پلٹی ۔اور اسے گور کر دیکھنے لگی اور اسکی طرف بڑھی
کیا چاہیے روہان کیوں آئے ہو یہاں شہوار نے آئیستہ سے کہا
میں نے کہا تھا نہ جا اپنی مرضی سے رہی ہو لینے اپنی مرضی سے آوں گا ۔تو آگیا لینے میں چلو ۔اب بہت پڑھا لی کلاس ۔روہان نے شہوار کا ہاتھ پکڑنا چاہا ۔وہ جلدی سے دو قدم پیچھے ہٹی ۔۔
خدا کے لیے یہ ناٹک بند کرو اور جاو ۔میں آجاوں گی خود ہی شہوار نے دانت پینچتے ہوئے کہا
نہیں میں آپ کو لے کر جاوں گا بیمار ہیں آپ جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔جاو پلیز
“شہوار چلو ” اب بہت ہو گیا ہے
“نہیں جاوں گی کیا کر لو گے ”
چیلنج کر رہی ہو ! روہان نے اپنے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا
ہاں جو سمجھنا ہے سمجھ لو نہیں جاوں گی تمھارے ساتھ ۔
سب کے سامنے لے کر جاوں گا مسسز روہان چیلنج مت کرو مجھے روہان نے دھیمی آواز میں کہا
ہاتھ لگا کر دیکھاو مجھے جیسے شہوار نے کہا وہ فورا وہاں بیٹھے سٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوا ۔اور کہا
سو بوائز اینڈ گرلز آج کا لیکچر بس اتنا ہی – وہ کیا ہے آپ کی ٹیچر مس ائیڈوکیٹ درشہوار زرا ناراض ہو گئ ہیں اپنے ہزبینڈ سے تو کیوں نہ انھیں منایا جائے روہان نے جیسے کہا سارے سٹوڈینس نے ہوکنگ کرنا شروع کر دی
روہان ۔خدا کے لیے تماشہ بند کرو شہوار نے اسکے قریب جا کر جان بھوج کر مسکراتے ہوئے کہا
نہیں ۔آپ نے چیلنج کیا ہے روہان علی خان
اسنے شہوار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔اور سب کے سامنے پوری یونی کے سامنے اسے لے کر گیا سب لڑکے لڑکیاں ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔شہوار اسے مسلسل دیکھ رہی تھی وہ خاموش ہو گئ تھی اسکے سامنے ۔اسکی محبت کے سامنے ۔۔کچھ نہیں کہہ پائی یونی کی سب لڑکیاں آپس میں تذکرے کر رہے تھے ۔
(یار میم کا کتنا ہینڈسم ہیزبینڈ ہیں ! اف اسپر بلیک کلر کتنا سوٹ کر رہا ہے ۔)
وہ سب کی نگاہوں کا مرکز تھے وہ دونوں ۔۔شہوار واقعی اس حالت میں نہیں تھی کہ وہ کھڑی ہو سکے لیکن وہ روہان کے سامنے کبھی بھی اپنی گردن میں خم نہ لاتی ۔جیسے وہ اسے گاڑی کے قریب لایا روہان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسے نرم لہجے میں مخاطب ہوا
بیٹھو اندر
“تم” کس قدر اس سے پہلے شہوار کچھ اور بولتی روہان نے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ۔بس اب کچھ نہیں کہو گی تم پتا ہے میں بہت ڈھیٹ بدتمیز ۔فلا فلا قسم کا انسان ہوں پتا ہے مجھے ! ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں رات کو پھر سے ۔۔یہاں سے سٹارٹ کریں گے۔ابھی کے لیے اتنا ہی ۔۔ٹھیک ہے ۔روہان نے اسے کہا تو وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئ وہ ہلکا سا مسکرایا اور گاڑی ڈرائیو کرنے لگا ۔
اتنا بن ٹھن کے آنے کی کیا ضرورت تھی ۔جیسے شہوار نے کہا وہ فورا متوجہ ہوا
بن ٹھن کے مطلب ! اسنے ناسمجھنے والے انداز میں کہا
مطلب واضح ہے چھوٹے بچے مت بنو
تم ۔۔جیلس ہو رہی ہو ۔۔روہان نے بے اختیار گاڑی روکتے ہوئے کہا
جیلس میں اور وہ بھی تم سے افف کیسے کیسے وحم پال رکھے ہیں تم نے محبت کا اترا نہیں چلو دوسرا تیار ۔مجھے تمھارے لیے جیلس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔و۔۔۔وہ تو مجھے ان بیچاری لڑکیوں کی پروا ہے جنکے سامنے تم ۔۔تیس مار خان کی ائینٹری مار کے ۔آئے ۔ہو ۔شہوار نے جیسے کہا وہ بے اختیار ہلکا سا مسکرا دیا اور کہا ۔اچھا ! اگر انہوں نے یہ دیکھا ہے تو پھر انہوں یہ بھی دیکھا ہو گا ۔۔جب میں اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ۔ان سب کے سامنے سے لے جا رہا تھا ۔ تو ۔۔انکے دلوں میں کوئی ارمان نہیں بنے ہوں گے ۔۔کیونکہ روہان علی خان کے دل میں صرف ایک نے حکومت کی ہے ! اور وہ تم ہو ۔۔اسنے دھک چہرے سے ایک دفعہ پھر روہان کو دیکھا وہ بار بار اسکو اپنی محبت کے بارے میں اعتراف کرواتا تھا ۔۔
____________________________________
نہیں ۔۔ہو گا ایسا امی آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اس گھٹیا شخص سے شادی کروں گی جس نے میری بہن کا پوری دنیا کے سامنے تماشہ بنا کر رکھ دیا اب اسکے ساتھ ۔۔میں نکاح کروا لوں نہیں امی جان میں آپ کی طرح ابھی اتنی بے بس نہیں ہوئی جو اپنے حق کے لیے ۔آواز نہ اٹھا سکے مجھ میں ابھی ہمت ہے ان سب کا مقابلہ کرنے میں اور مہربانی کر کے بتا سکتی ہیں یہ کس کا کیا دھرا ہے کسنے آپ کے ذہین میں یہ سب ڈالا ہے
زرش اپنی بکواس بند کر کیسے ماں کے سامنے زبان چلا رہی ہے زرا سا بھی لحاظ نہیں ہے سکینہ بیگم نے برہمی کا اظہار کیا یہ سنتے ہی وہ فورا بولی
تو امی کیا کروں میں بولیں آپ ۔میں اس شخص سے شادئ ابھی نہیں کبھی زندگی میں نہیں کرنا چاہوں گی جیسے دوسروں کے جذباتوں کا خیال نہ ہو ۔جسکو ساری دنیا جھوٹی لگتی ہو ۔۔جو صرف یہی سوچتا ہو کہ وہی سچائی کا پتلا ہے اس دنیا میں اور اسکی دنیا میں باقی سب جھوٹے اور بس وہی سچا ہے ۔شیان بھائی ۔نے جو بھی آپی کے ساتھ ۔اب وہ ماضی ہے لیکن ماضی اتنی جلدی ۔۔پرانے زخموں کو یادوں کو بھلانے نہیں دیتا ! م۔۔۔مجھے ابھی بھی اپی کی وہ فریادئیں۔۔انکا خود کو سچا ثابت کرنا ۔۔ان ۔۔ان سب حس لوگوں کے سامنے خود سچا ثابت کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا آپ یہ سب کیسے بھول سکتی ہیں لیکن میں کبھی نہیں بھول سکتی اور نہ ہی پاوں گی
زرش میری بات تو سن سکینہ بیگم نے پیچھے سے آواز کسی لیکن وہ جا چکی تھی ۔
___________________________
گھڑی رات کا 1 بجا رہی تھی ۔۔جب روہان کی کھولی اور وہ فورا شہوار کی طرف بڑھا جو بیڈ پہ لیٹی سو رہی تھئ
ش۔۔۔شہوار اٹھو ۔۔شہوار ۔۔جیسے دو تئن مرتبہ اسنے آواز لگائی ۔۔شہوار نے کروٹ بدلی اور پھر آئیستگی سے اپنی آنکھیں کھوکیں جس میں اسے روہان کا دھندھلا عکس نظر آیا وہ ہر بڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی
ت۔۔۔تم یہاں ۔۔تم۔یہاں کیا کر رہے ۔۔ہو ۔۔
چپ رہو ۔۔کچھ نہیں کیا میں نے ۔! اچھا چلو نیچے آو ۔جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
نیچے
ہاں چلو ۔میں میگی بنانے لگا ہوں ۔۔تم بھی کھالو ۔
ٹائم دیکھا ہے تم نے ! اور میگی تم نے کھانی ہے میں نے نہیں خود جاو اور خود بناو اور خود ہی کھاو شہوار نے غصے سے کہا اور بستر میں گس گئ
لیکن مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔ روہان نے جیسے کہا ۔اسنے بستر کو اپنے چہرے سے ہٹایا
ہاں تو تمھیں لگی ہے بھوک لیکن مجھے نہیں لگی ۔۔آئی ایس پی صاحب ۔۔کاش اتنے وقت کی پابندی کام میں دیکھا لیتے
نہیں ۔۔۔مجھے ایسا لگا ہے تمھیں بھی بھوک لگی ہو گی ۔چلو نیچے چلتے ہیں ۔۔وہ زبردستی اسے نیچے لے آیا
رات کے 2 بجے ۔۔وہ دونوں میز پر ۔۔بیٹھے میگی کھا رہے تھے ۔۔
شہوار غصے سے اسے گور رہی تھی اسکا دل کر رہا تھا کہ روہان کا سر پھاڑ دے ۔۔
اب میں جاوں ۔۔۔
نہیں ۔۔ابھی میں ۔۔نے ختم نہیں کی اور تم نے بھی نہیں ۔روہان نے کھاتے ہوئے کہا
مجھے نہیں کھانی ۔۔شہوار نے کہا اور چئیر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔روہان بھی جلدی سے کھڑا ہو گیا
چلو چلتے ہیں وہ دونوں سڑھیاں چڑ رہے تھے جب شہوار نے اس سے کہا
ایک بات پوچھوں
ہاں پوچھو ۔
کہی تمھارا بچپن میں کوئی ایکسیڈینٹ تو نہیں ہوا مطلب ۔تمھارا دماغ وغیرہ تو ٹھیک ہے ناں ۔۔جو ایسی حرکتیں کر رہے ہو ۔۔! اب اگر کل تم نے ایسی ھرکت کی تو دیکھ لینا ۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا
وہ اپنے بیڈ کے قریب کھڑی اسے غصے سے انگلی دیکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
وہ بس مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
یہ۔۔۔یہ ہنس کیوں رہے ہو ۔!۔اچھا تمھیں مزہ آتا ہے ناں مجھے تنگ کرنے میں
اس پر بھی وہ اسے ٹکٹکی باندھا کھڑا دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
بھاڑ میں جاو تم ۔۔اور تمھارا پاگل پن۔۔شہوار نے غصے سے کہا اور بیڈ پہ لیٹ گئ
_______________________
وہ آفس میں کام کرنے میں مصروف تھا۔۔جب اسکے فون کی گھنٹی بجی ۔
نمبر دیکھتے ہی ۔۔اسکے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئ روہان نے جلدی سے فون اٹھایا اور کہا
جی ۔۔بولیے ۔۔جناب ۔
آج آپ کے لیے رات کے کھانے میں کیا بناو وہ بڑے میٹھے لہجے میں بولی تھی
یہ سنتے ہی ۔۔وہ اچانک دھک رہ گیا ۔۔اسکے چہرے پر ۔۔ناقابل یقین ۔۔مسکراہٹ تھی
یہ ۔۔کون بول رہا ہے ۔۔روہان نے جیسے کہا وہ فورا بولی
آج رات کیا بناوں ۔۔میں آفس نہیں گئ سوچا کچھ بنا لوں بولو کیا کھاو گے ۔۔
آپ جو بھی کھلا دئیں گے ذہے نصیب ۔۔ہم خوشی خوشی سے کھا لیں گے ۔۔روہان نے ۔نرم لہجے میں کہا
ٹھیک ہے ۔۔شہوار نے کہا اور فون بند کر دیا ۔۔
فون بند ہونے پر وہ کچھ دیر یونہی فون کو تکتا رہا شاید اسے ۔۔سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔کہ واقعی یہ شہوار نے ایسا کچھ کہا ہے ۔۔
_______________________
اسلام و علیکم ۔۔! زرش نے تھانے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
و علیکم اسلام ۔ پولیس کانٹسیبل نے بڑے ۔۔شاتستگی سے جواب دیا
جی وہ ۔۔مجھے آئی ایس پی روہان سے بات کرنی ہیں میں انکے گھر سے ہوں ۔۔
جیسے زرش نے کہا وہ ۔۔فورا بولا ۔
جی ٹھیک ہے ۔۔آپ جا سکتی ہیں پولیس والے نے جیسے کہا اسنے ہلکا سا مسکرا کر کہا جی شکریہ ۔اور روہان کی کیبن کی طرف بڑھ گئ ۔
ایم ۔۔سو سوری ۔۔میں نے دیکھا ۔۔نہیں ۔۔اسکا ٹکراو ۔عاقب سے ہوا تھا ۔۔اسکے ہاتھ میں موجود ساری بکس نیچے گر گئ ۔۔
وہ سیدھا یونی سے یہاں آئی تھی گھر والوں کو بتائے بغیر ۔۔کیونکہ اس سے پہلے شیان نے اس پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی اور وہ اسے شہوار سے ملنے نہیں دیتا تھا ۔۔
اٹس اوکے ۔زرش نے الجھتے ہوئے کہا ۔۔
عاقب نے اسے ۔۔زمین پر گری بکس پکڑائی ۔اور باہر کی طرف بڑھ گیا اور وہ اندر
کیا میں اندر آ سکتی ہوں ۔۔روہان نے زرش کو دیکھا وہ اچانک سیٹ سے اٹھ کھڑا ۔۔ہوا ۔۔وہ بلکل شاک میں تھا
…
جاری ہے
رانیہ شرمندگی کے مارے چپ کر کے کھڑی ہو گئ ۔۔
پھر شہوار نے ۔۔ایک ایک نارمل سا وائیٹ بورڈ اور ایک مارکر انم کے ہاتھوں پیش کیا
اور نرم لہجے میں کہا ۔۔
انعم اب جو میں سوال کروں گی ۔۔اگر ۔۔وہ ٹھیک ہے تمھارے ایسا ہوا ہے تو تم بورڈ پر ہاں لکھ دینا اگر غلط بات ہو گی تو ناں لکھ دینا ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔انعم نے پلکے جھپکیں
وئیڈروں کے پسینے چھوٹ رہے ۔۔تھے ۔۔ان کی سب چالیں درھی کی درھی رہ گئ
تو انعم ۔کیا اس رات ۔۔تمھارے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا ۔۔اس میں ۔۔عمران نامی ملزم کا ہاتھ ہے ۔اور اسکے دوستوں کا ۔۔اگر صیح ہے تو ہاں لکھوں ۔۔یہ سنتے ہی انعم نے اپنے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ سے ہاں لکھا ۔
تو مائی لارڈ آپ دیکھ سکتے ہیں انعم صدیقی نے خود اس بات کا بیان دیا ہے کہ عمران ہی ۔۔اس سب کام کے پیچھے تھا
انعم کیا تمھیں یونیورسٹی میں عمران زبردستی بات کرنے کی یا چھونے کی کوشش کرتا تھا ۔۔
اس بار بھی شہوار کے پوچھنے پر اسنے ہاں ہی لکھا ۔
اور آخری وقت میں تمھارے چہرے پر پتھر عمران نے ہی مارا تھا ؟ انعم نے جیسے یہ سوال کیا
ساری کورٹ میں موجود لوگوں کی آئیں بڑھ آئی ۔۔شہوار کی انکھوں میں آنسوں آگئے جب انعم نے اس بار بھی ہاں لکھا
انعم کو دوبارہ واپس لے جایا جانے لگا تھا جب شہوار نے اسے روکا
اور جج صاحب کو ایک چشمدید گواہ بھی پیش کیا ان وئیڈروں کے گھر کا ملازم ہی تھا جس سے وہ ملنے گاوں گئ تھی
اسنے خود عمران کے خلاف بیان دیا تھا کہ اسنے یہ کہتے ہوئے سنا تھا جب عمران کا باپ ۔۔اسے یہاں سے فرار ہونے کا کہہ رہا تھا
یہ سنتے ہی ۔۔اب جج صاحب کے پاس ۔۔فیصلہ سنانے کے علاوہ کوئی حل نہیں بچا تھا جج نئ انصاف کے تقاصوں کو اپناتے ہوئے ملزم عمران کو سزہ موت اسکے ساتھیوں کو عمر ۔۔قید کی سزہ سنوائی ۔
فیصلہ سنتے ہی پورا کورٹ تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا ۔۔بوڑھے ماں باپ کے چہروں پر ۔۔آج جو مسکراہٹ تھی وہ ناقابل بیان تھی ۔۔شہوار کی خوشی کے مارے آنسوں آنکھوں سے بہنےلگے اور آج پھر سچائی کی جیت ہوئی اور ائیڈوکیٹ در شہوار نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کوئہ اسکے سامنے سچائی کو مات نہیں دے سکتا ۔۔
روہان نے ملز عمران کو اور اسخے دیگر دوستوں کو ہتھ کڑیاں لگائی وہ اسے باہر کورٹ سے لے جانے لگا تھا جب شہوار نے اسے روکنے کو کہا
روکیں ایک منٹ ۔وہ انعم کی وئیل چئیر اس درندے کے قریب لائی
اور عمران کو گردن سے پکڑ کر نیچے کیا ۔
انعم نکال ۔۔اس درندے پہ اپنا زور ۔۔جیسے شہوار نے کہا انعم نے ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔
روہان یہ دیکھ کر ۔اسنے فخر محسوس کیا واقعی وہ دھک رہ گیا تھا کہ کیسے شہوار نے کیس کو ہینڈل کیا تھا
________________
اسکے بخار مین مزید اضافہ ہو چکا تھا تکاوٹ سے شہوار کا پورا بدن ٹوٹ رہا تھا
لیکن وہ پھر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ اسی دوران روہان کمرے میں داخل ہوا
کہاں جا رہی ہو ۔۔شہوار ۔۔
کہی نہیں وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگی تھی کہ روہاناسکے آگے کھڑا ہو گیا
تمھیں اتنا بخار ہے اور تم پھر لاء یونورسٹی لکچر دینے چلی ہو ۔خدا کے لیے مجھ غریب پر کوئی رحم کرو اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہو گا روہان نے مسکراتے ہوئے طنزا کیا
میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں روہان ۔۔مجھے سر یوسف نے ریکویسٹ کی ہے کہ میں ایک مہنا لاء کلاس لوں اور وہ میرے استاد ہیں مین انکا کہا نہیں ٹال سکتی مجھے جانے دو وہ آگے جانے لگی تھی کہ روہان نے اسے پھر روکا
تو کل بھی تو جا سکتی ہو ناں ۔۔آج کیوں ۔
جیسے روہان نے کہا وہ چڑی
روہان میرا راستہ چھوڑو خدا کے لیے یہ ہمدردی اپنے پاس رکھو اسنے کہا اور آگے دروازے کی طرف بڑھی اور بخار کی وجہ سے لڑکھڑا گئ
روہان نے آگے ہو کر سہارا دیا
میری ہمدردی کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے تمھیں مسسز روہان کر لو اپنی منمانی جا تو اپنی مرضی سے رہی ہوں تو لینے میں اپنی مرضی سے آوں گا ۔۔روہان نے ابھی تک اسے تھاما ہوا تھا
وہ تھوڑا سا ہچکچائہ اور آگے بڑھ گئ
_________
اف! یہ محبت روہان نے بے اختیار اپنے دل پہ ہاتھ رکھا نہیں کہہ پاتا، نہیں روک پاتا وہ اسے، نہیں دے پاتا جواب اسے، کیوں؟ محبت نہیں دیتی یہ اجازت، وہ محبوب ہے اسے زیب دیتا ہے یہ سب، وہ کر سکتا ہے ظلم، وہ دکھا سکتا ہے دل کو، کیونکہ ہم تو دل دے چکے ہیں اپنا سب کچھ اسکے نام کر چکے ہیں تو پھر کہاں یہ جواز ہے ۔روہان شہوار کے جانے کے بعد چئیر پر بیٹھا سگریٹ سلگانے لگا یادوں کے صندوق کو کھولا کہ اسکے فون کی گھنٹی بجی اسنے سگریٹ کا دوواں ہوا میں اڑتے ہوئے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا اور فورا مخاطب ہوا
جی بولیے! عاقب صاحب
آغاز میں ہی طنز کا سلسلہ شروع کر دیا کیسے دوست ہو دوسری طرف عاقب مسکرا کر بولا
جی۔۔حضور آپ سے ہی یہ طریقہ سیکھا ہے روہان نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا
“چین سموکر پھر سموکنگ کر رہا ہے ” جیسے عاقب نے کہا روہان فورا بولا
خبردار اگر مجھے چین سموکر بھلایا تو اس القاب سے صرف میری مسسز بھلا سکتی ہیں اور کیسی کو میں اجازت نہیں دوں گا ۔۔
عاقب نے یہ سنتے ہی بے اختیار بلند قہقا لگایا
جوڑو ۔۔کا غلام ! سفر کہا تک پہنچا ہے عاقب نے چھپتے الفاظوں میں اسکے دل کی بات سنی ۔۔روہان نے چئیر پر ٹیک لگائی اور ایک لمبی آہ بھری “شاید ابھی تک نفرت ہے ”
محبت کب ہو گی ؟
پتا نہیں۔۔ جواب سرد آواز سے ملا ۔
کیوں ابھی بھی مجرم ۔۔ہو عاقب نے بھی حیرانگی سے آئیستگی سے پوچھا
ہاں ! شاید ۔ جواب مختصر ملا
تو بندوق کی نوک پر کہلاوا لو ۔۔۔روہان علی خان کہہ دے گی کہ ہاں مجھے تم سے محبت ہے جیسے عاقب نے کہا
روہان کا قہقا پورے کمرے میں گونجا ۔
اگر ایسے ۔۔محبتیں ہو جاتی تو ۔۔جب مجھے اس سے پہلی دفعہ محبت ہوئی تھی تب کی بندوق کی نوک اسکے دل پہ رکھ دیتا ۔۔آسان نہیں ہے یہ فراز سفر بہت کھٹن ۔۔بس دعا کیجیے ان کا دل بھی موم ہو جائے روہان نے مایوسی سے سر جھٹکا
ہائے ۔میرا دوست کیا حالت کر دی ہے اس کمبخت محبت نے
ایک بات پوچھو روہان ۔۔۔عاقب نے تجسس بڑے لہجے میں کہا
ہاں پوچھو
جب وہ ۔۔تمھارے ساتھ ۔۔برہمی کا اظہار کرتی ہے تو کیا جواب دیتے ہو
یہ سنتے ہی ۔۔روہان نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا
محبت ہے میری اکثر اسکی باتوں کا جواب مسکراہٹ سے دے دیتا ہوں
عاقب بلکل خاموش ہو گیا
______________________
بلیک شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں ملبوث آنکھوں پہ کالا چشما لگائے ۔! ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ روب دار پرسینلٹی شرٹ کا بلیک کلر اسکے رنگ کو اور پرکشش بنا رہا تھا جیسے آئی ایس پی روہان علی خان یونیورسٹی داخل ہوا سارے ایک دم تھم گئے سب کے چلتے ہوئے قدم وہی رک گئے اس میں کشش ہی کچھ اتنی تھی کہ سب کے قدم ناچاہتے ہوئے بھی رک جاتے جیسے جیسے روہان اپنے قدموں کو بڑھا رہا تھا سب کی نگاہوں کا مرکز وہی بن رہا تھا سب کے دلوں میں ایک ولولا سا مچ گیا
شہوار کلاس میں موجود تھی اور لیکچر دینے میں مصروف تھی جب روہان کلاس کے سامنے آیا ۔۔جیسے شہوار کی نظر اس پر گئ وہ وہی دھک رہ گئ اسکی آنکھیں وہی ٹک رک گئ ۔ روہان نے مسکرا کر اسے اشارے میں کہا “میں تمھیں لینے آیا ہوں” جیسے روہان نے اشارہ کیا وہ غصے سے بورڈ پہ کچھ سمجھانے لگی روہان کے بار بار کہنے پر وہ باہر نہیں آیا تو مجبورا اسے کلاس میں داخل ہونا پڑا روہان کا کلاس میں داخل ہوتے وہاں پر بیٹھے سب سٹوڈنٹس یک دم حیران رہ گئے
ہیلو ۔۔سٹوڈنٹس !۔روہان نے اپنی گہری آواز سے کہا
وہ چونک کے پلٹی ۔اور اسے گور کر دیکھنے لگی اور اسکی طرف بڑھی
کیا چاہیے روہان کیوں آئے ہو یہاں شہوار نے آئیستہ سے کہا
میں نے کہا تھا نہ جا اپنی مرضی سے رہی ہو لینے اپنی مرضی سے آوں گا ۔تو آگیا لینے میں چلو ۔اب بہت پڑھا لی کلاس ۔روہان نے شہوار کا ہاتھ پکڑنا چاہا ۔وہ جلدی سے دو قدم پیچھے ہٹی ۔۔
خدا کے لیے یہ ناٹک بند کرو اور جاو ۔میں آجاوں گی خود ہی شہوار نے دانت پینچتے ہوئے کہا
نہیں میں آپ کو لے کر جاوں گا بیمار ہیں آپ جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔جاو پلیز
“شہوار چلو ” اب بہت ہو گیا ہے
“نہیں جاوں گی کیا کر لو گے ”
چیلنج کر رہی ہو ! روہان نے اپنے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا
ہاں جو سمجھنا ہے سمجھ لو نہیں جاوں گی تمھارے ساتھ ۔
سب کے سامنے لے کر جاوں گا مسسز روہان چیلنج مت کرو مجھے روہان نے دھیمی آواز میں کہا
ہاتھ لگا کر دیکھاو مجھے جیسے شہوار نے کہا وہ فورا وہاں بیٹھے سٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوا ۔اور کہا
سو بوائز اینڈ گرلز آج کا لیکچر بس اتنا ہی – وہ کیا ہے آپ کی ٹیچر مس ائیڈوکیٹ درشہوار زرا ناراض ہو گئ ہیں اپنے ہزبینڈ سے تو کیوں نہ انھیں منایا جائے روہان نے جیسے کہا سارے سٹوڈینس نے ہوکنگ کرنا شروع کر دی
روہان ۔خدا کے لیے تماشہ بند کرو شہوار نے اسکے قریب جا کر جان بھوج کر مسکراتے ہوئے کہا
نہیں ۔آپ نے چیلنج کیا ہے روہان علی خان
اسنے شہوار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔اور سب کے سامنے پوری یونی کے سامنے اسے لے کر گیا سب لڑکے لڑکیاں ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔شہوار اسے مسلسل دیکھ رہی تھی وہ خاموش ہو گئ تھی اسکے سامنے ۔اسکی محبت کے سامنے ۔۔کچھ نہیں کہہ پائی یونی کی سب لڑکیاں آپس میں تذکرے کر رہے تھے ۔
(یار میم کا کتنا ہینڈسم ہیزبینڈ ہیں ! اف اسپر بلیک کلر کتنا سوٹ کر رہا ہے ۔)
وہ سب کی نگاہوں کا مرکز تھے وہ دونوں ۔۔شہوار واقعی اس حالت میں نہیں تھی کہ وہ کھڑی ہو سکے لیکن وہ روہان کے سامنے کبھی بھی اپنی گردن میں خم نہ لاتی ۔جیسے وہ اسے گاڑی کے قریب لایا روہان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسے نرم لہجے میں مخاطب ہوا
بیٹھو اندر
“تم” کس قدر اس سے پہلے شہوار کچھ اور بولتی روہان نے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ۔بس اب کچھ نہیں کہو گی تم پتا ہے میں بہت ڈھیٹ بدتمیز ۔فلا فلا قسم کا انسان ہوں پتا ہے مجھے ! ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں رات کو پھر سے ۔۔یہاں سے سٹارٹ کریں گے۔ابھی کے لیے اتنا ہی ۔۔ٹھیک ہے ۔روہان نے اسے کہا تو وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئ وہ ہلکا سا مسکرایا اور گاڑی ڈرائیو کرنے لگا ۔
اتنا بن ٹھن کے آنے کی کیا ضرورت تھی ۔جیسے شہوار نے کہا وہ فورا متوجہ ہوا
بن ٹھن کے مطلب ! اسنے ناسمجھنے والے انداز میں کہا
مطلب واضح ہے چھوٹے بچے مت بنو
تم ۔۔جیلس ہو رہی ہو ۔۔روہان نے بے اختیار گاڑی روکتے ہوئے کہا
جیلس میں اور وہ بھی تم سے افف کیسے کیسے وحم پال رکھے ہیں تم نے محبت کا اترا نہیں چلو دوسرا تیار ۔مجھے تمھارے لیے جیلس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔و۔۔۔وہ تو مجھے ان بیچاری لڑکیوں کی پروا ہے جنکے سامنے تم ۔۔تیس مار خان کی ائینٹری مار کے ۔آئے ۔ہو ۔شہوار نے جیسے کہا وہ بے اختیار ہلکا سا مسکرا دیا اور کہا ۔اچھا ! اگر انہوں نے یہ دیکھا ہے تو پھر انہوں یہ بھی دیکھا ہو گا ۔۔جب میں اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ۔ان سب کے سامنے سے لے جا رہا تھا ۔ تو ۔۔انکے دلوں میں کوئی ارمان نہیں بنے ہوں گے ۔۔کیونکہ روہان علی خان کے دل میں صرف ایک نے حکومت کی ہے ! اور وہ تم ہو ۔۔اسنے دھک چہرے سے ایک دفعہ پھر روہان کو دیکھا وہ بار بار اسکو اپنی محبت کے بارے میں اعتراف کرواتا تھا ۔۔
____________________________________
نہیں ۔۔ہو گا ایسا امی آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اس گھٹیا شخص سے شادی کروں گی جس نے میری بہن کا پوری دنیا کے سامنے تماشہ بنا کر رکھ دیا اب اسکے ساتھ ۔۔میں نکاح کروا لوں نہیں امی جان میں آپ کی طرح ابھی اتنی بے بس نہیں ہوئی جو اپنے حق کے لیے ۔آواز نہ اٹھا سکے مجھ میں ابھی ہمت ہے ان سب کا مقابلہ کرنے میں اور مہربانی کر کے بتا سکتی ہیں یہ کس کا کیا دھرا ہے کسنے آپ کے ذہین میں یہ سب ڈالا ہے
زرش اپنی بکواس بند کر کیسے ماں کے سامنے زبان چلا رہی ہے زرا سا بھی لحاظ نہیں ہے سکینہ بیگم نے برہمی کا اظہار کیا یہ سنتے ہی وہ فورا بولی
تو امی کیا کروں میں بولیں آپ ۔میں اس شخص سے شادئ ابھی نہیں کبھی زندگی میں نہیں کرنا چاہوں گی جیسے دوسروں کے جذباتوں کا خیال نہ ہو ۔جسکو ساری دنیا جھوٹی لگتی ہو ۔۔جو صرف یہی سوچتا ہو کہ وہی سچائی کا پتلا ہے اس دنیا میں اور اسکی دنیا میں باقی سب جھوٹے اور بس وہی سچا ہے ۔شیان بھائی ۔نے جو بھی آپی کے ساتھ ۔اب وہ ماضی ہے لیکن ماضی اتنی جلدی ۔۔پرانے زخموں کو یادوں کو بھلانے نہیں دیتا ! م۔۔۔مجھے ابھی بھی اپی کی وہ فریادئیں۔۔انکا خود کو سچا ثابت کرنا ۔۔ان ۔۔ان سب حس لوگوں کے سامنے خود سچا ثابت کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا آپ یہ سب کیسے بھول سکتی ہیں لیکن میں کبھی نہیں بھول سکتی اور نہ ہی پاوں گی
زرش میری بات تو سن سکینہ بیگم نے پیچھے سے آواز کسی لیکن وہ جا چکی تھی ۔
___________________________
گھڑی رات کا 1 بجا رہی تھی ۔۔جب روہان کی کھولی اور وہ فورا شہوار کی طرف بڑھا جو بیڈ پہ لیٹی سو رہی تھئ
ش۔۔۔شہوار اٹھو ۔۔شہوار ۔۔جیسے دو تئن مرتبہ اسنے آواز لگائی ۔۔شہوار نے کروٹ بدلی اور پھر آئیستگی سے اپنی آنکھیں کھوکیں جس میں اسے روہان کا دھندھلا عکس نظر آیا وہ ہر بڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی
ت۔۔۔تم یہاں ۔۔تم۔یہاں کیا کر رہے ۔۔ہو ۔۔
چپ رہو ۔۔کچھ نہیں کیا میں نے ۔! اچھا چلو نیچے آو ۔جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
نیچے
ہاں چلو ۔میں میگی بنانے لگا ہوں ۔۔تم بھی کھالو ۔
ٹائم دیکھا ہے تم نے ! اور میگی تم نے کھانی ہے میں نے نہیں خود جاو اور خود بناو اور خود ہی کھاو شہوار نے غصے سے کہا اور بستر میں گس گئ
لیکن مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔ روہان نے جیسے کہا ۔اسنے بستر کو اپنے چہرے سے ہٹایا
ہاں تو تمھیں لگی ہے بھوک لیکن مجھے نہیں لگی ۔۔آئی ایس پی صاحب ۔۔کاش اتنے وقت کی پابندی کام میں دیکھا لیتے
نہیں ۔۔۔مجھے ایسا لگا ہے تمھیں بھی بھوک لگی ہو گی ۔چلو نیچے چلتے ہیں ۔۔وہ زبردستی اسے نیچے لے آیا
رات کے 2 بجے ۔۔وہ دونوں میز پر ۔۔بیٹھے میگی کھا رہے تھے ۔۔
شہوار غصے سے اسے گور رہی تھی اسکا دل کر رہا تھا کہ روہان کا سر پھاڑ دے ۔۔
اب میں جاوں ۔۔۔
نہیں ۔۔ابھی میں ۔۔نے ختم نہیں کی اور تم نے بھی نہیں ۔روہان نے کھاتے ہوئے کہا
مجھے نہیں کھانی ۔۔شہوار نے کہا اور چئیر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔روہان بھی جلدی سے کھڑا ہو گیا
چلو چلتے ہیں وہ دونوں سڑھیاں چڑ رہے تھے جب شہوار نے اس سے کہا
ایک بات پوچھوں
ہاں پوچھو ۔
کہی تمھارا بچپن میں کوئی ایکسیڈینٹ تو نہیں ہوا مطلب ۔تمھارا دماغ وغیرہ تو ٹھیک ہے ناں ۔۔جو ایسی حرکتیں کر رہے ہو ۔۔! اب اگر کل تم نے ایسی ھرکت کی تو دیکھ لینا ۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا
وہ اپنے بیڈ کے قریب کھڑی اسے غصے سے انگلی دیکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
وہ بس مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
یہ۔۔۔یہ ہنس کیوں رہے ہو ۔!۔اچھا تمھیں مزہ آتا ہے ناں مجھے تنگ کرنے میں
اس پر بھی وہ اسے ٹکٹکی باندھا کھڑا دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
بھاڑ میں جاو تم ۔۔اور تمھارا پاگل پن۔۔شہوار نے غصے سے کہا اور بیڈ پہ لیٹ گئ
_______________________
وہ آفس میں کام کرنے میں مصروف تھا۔۔جب اسکے فون کی گھنٹی بجی ۔
نمبر دیکھتے ہی ۔۔اسکے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئ روہان نے جلدی سے فون اٹھایا اور کہا
جی ۔۔بولیے ۔۔جناب ۔
آج آپ کے لیے رات کے کھانے میں کیا بناو وہ بڑے میٹھے لہجے میں بولی تھی
یہ سنتے ہی ۔۔وہ اچانک دھک رہ گیا ۔۔اسکے چہرے پر ۔۔ناقابل یقین ۔۔مسکراہٹ تھی
یہ ۔۔کون بول رہا ہے ۔۔روہان نے جیسے کہا وہ فورا بولی
آج رات کیا بناوں ۔۔میں آفس نہیں گئ سوچا کچھ بنا لوں بولو کیا کھاو گے ۔۔
آپ جو بھی کھلا دئیں گے ذہے نصیب ۔۔ہم خوشی خوشی سے کھا لیں گے ۔۔روہان نے ۔نرم لہجے میں کہا
ٹھیک ہے ۔۔شہوار نے کہا اور فون بند کر دیا ۔۔
فون بند ہونے پر وہ کچھ دیر یونہی فون کو تکتا رہا شاید اسے ۔۔سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔کہ واقعی یہ شہوار نے ایسا کچھ کہا ہے ۔۔
_______________________
اسلام و علیکم ۔۔! زرش نے تھانے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
و علیکم اسلام ۔ پولیس کانٹسیبل نے بڑے ۔۔شاتستگی سے جواب دیا
جی وہ ۔۔مجھے آئی ایس پی روہان سے بات کرنی ہیں میں انکے گھر سے ہوں ۔۔
جیسے زرش نے کہا وہ ۔۔فورا بولا ۔
جی ٹھیک ہے ۔۔آپ جا سکتی ہیں پولیس والے نے جیسے کہا اسنے ہلکا سا مسکرا کر کہا جی شکریہ ۔اور روہان کی کیبن کی طرف بڑھ گئ ۔
ایم ۔۔سو سوری ۔۔میں نے دیکھا ۔۔نہیں ۔۔اسکا ٹکراو ۔عاقب سے ہوا تھا ۔۔اسکے ہاتھ میں موجود ساری بکس نیچے گر گئ ۔۔
وہ سیدھا یونی سے یہاں آئی تھی گھر والوں کو بتائے بغیر ۔۔کیونکہ اس سے پہلے شیان نے اس پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی اور وہ اسے شہوار سے ملنے نہیں دیتا تھا ۔۔
اٹس اوکے ۔زرش نے الجھتے ہوئے کہا ۔۔
عاقب نے اسے ۔۔زمین پر گری بکس پکڑائی ۔اور باہر کی طرف بڑھ گیا اور وہ اندر
کیا میں اندر آ سکتی ہوں ۔۔روہان نے زرش کو دیکھا وہ اچانک سیٹ سے اٹھ کھڑا ۔۔ہوا ۔۔وہ بلکل شاک میں تھا
…
جاری ہے