کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 13
نہیں ۔۔نہیں میں بس ابھی نکلنے لگا ہوں روہان نے فون پہ بات کرتے ہوئے کہا اور فورا الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگا ۔جیسے یہ الفظ سہوار نے سنے وہ جھٹ سے بیڈ سے اٹھی اور اسکی طرف دیکھنے لگی
ہاں ۔۔ہاں باقی کی کاروائی وہی سے ہو گی وہ اپنے کام میں مگن تھا
وہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کہاں جا رہا ہے ؟ کیوں جا رہا ہے؟ لیکن خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی اور اسے گور رہی تھی ۔۔روہان نے اپنا سامان پیک کیا اور اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بلیک کورٹ پہن رہا تھا ۔۔اور پھر اسکی طرف متوجہ ہوا
روہان نے جیسے رخ بدلہ وہ بے اختیار مسکرایا شہوار نے اسے دیکھ کر جلدی سے بستر اپنے اوپر اوڑھ لیا تاکہ اسے لگے کہ وہ سوئی ہوئی ہے
مجھے ضروری کام آگیا ہے اسلام آباد جا رہا ہوں ایک دو دن تک واپسی ہو جائے گی ۔
وہ ابھی تک ۔۔بستر اوڑھے تھی ۔۔
اگر کیسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کال کر دینا اور ہاں یہ پیسے ہے یہ رکھ لو ضرورت پڑ سکتی ہے جیسے روہان نے پیسے سامنے میز پر رکھے ۔۔شہوار فورا بیڈ سے اتری اور غصے سے کہا
مجھے تمھارے پیسوں کی کوئی نہیں ضرورت اور کیوں دے رہے ہو مجھے کس وجہ سے ؟
کیا مطلب کس وجہ سے ! بیوی ہو تم میری اور یہ شوہر کا فرث ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی ہر ضرورت پوری کرے ۔مجھے پتا ہے تمھاری پے بہت زیادہ ہے لیکن ۔۔یہ میرا فرض ہے شہوار اور ہر شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے ۔۔پیسے اس میں حرج ہی کیا ہے اسنے آئستگی سے جواب دیا لیکن شہوار اسکے جوب پر بھڑک اٹھی
وہ اور ہوتی ہوں گی بیویاں ۔لیکن میں ان میں سے نہیں ہوں میں تمھارے پیسوں کی محتاج نہیں ہوں سن لیا تم نے
شہوار نے کہا اور الماری کی طرف بڑھ گئ ۔۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اپنا سامان لیے باہر کی جانب بڑھ گیا جیسے وہ باہر نکلا شہوار فورا سے پلٹی ۔۔وہ جا چکا تھا میز پر پیسے پڑے ہوئے تھے وہ وہی الماری کے ساتھ ٹیک لگائے ۔۔کھڑی ہو گئ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔تھے
_____________________
میں پوچھ رہی ہوں ۔یہ فاعل میرے پوچھے میز سے کس نے اٹھائی بولو ۔
شہوار نے اتنے غصے سے کہا کہ سامنے کھڑا آدمی خوف زدہ ہو گیا
و۔۔۔۔وہ میڈم ۔۔س۔۔۔سر نے کہا تھا ۔؟ اسنے اٹکتی آواز میں جواب دیا
کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔کس نے کہا تھا تمھیں وہ غصے سے تلملا اٹھی
و۔۔۔وہ سر رحمان نے کہا تھا کہ آپ کے میز سے وہ فاعل لا کے مجھے دے دے اسکے بدلے مجھے رقم دے گے
جیسے اس آدمی نے دبئ آواز میں سچ بولا شہوار اپنے آپے سے باہر ہو گئ ۔۔اسقدر غصہ تھا کہ پورا آفس خاموش ہو گیا
تم جیسے رشوت خوروں کی وجہ سے وکیل بدنام ہو گئے ہیں۔شہوار نے کہا اور اپنی کبین سے باہر نکل گئ
اور ائیڈوکیٹ رحمان کے آفس بڑھئ بنا اجازت لیے جیسے وہ داخل ہوئی
رحمان بے اختیار اپنی سیٹ سے اٹھا
ک۔۔۔کیا ہوا ہے مس شہوار ۔۔
ہوا تو کچھ نہیں لیکن اب ہو گا ۔۔شہوار نے غصے سے کہا
کیا مطلب ؟ وہ انجان بنا
مطلب تو سمجھاوں گی بہت اچھے طریقے سے پہلے ہہ بتائیے میری کیس فاعل لے کر کیا ۔حاصک کر لیا آپ نے کوئی ثبوت مل گیا آپ کو بولیں جو چوروں کی طرح فاعل چوری کروایئ اگر اتنی ہمت اور جرات ہے نہ ائیڈو کیٹ رحمان صاحب تو پوری ایمان داری سے کیس لڑئیے ۔کیا پتا آپ مجھے مات دے سکے ۔۔اتنا ہی شوق ہے ناں مجھ سے جتینے کا تو پہلے اپنے نفس سے چوری ۔۔اور غلط بیانی جھوٹ کا پیچھا چھوڑ دئیں ۔۔خدا آپ کی یہ خوائیش پوری کر دے گا
شہوار نے کہا اور کیبن سے باہر روانہ ہو گئ
________________________
وہ گھر آ چکی تھی جیسے اسنے دروازہ کھولا ۔وہ کچھ دیر کے لیے وہی کھڑی ہو گئ ۔۔
کیونکہ اس کے آنے سے پہلے روہان گھر آ جاتا تھا اور سامنے عموما صوفہ پہ بیٹھ کر سگریٹ سلگاتا ۔
شہوار نے ایک گہری سانس لی ۔۔اور اندر بڑھی
ایک کال تک نہیں کی ۔۔کہ پہنچ گیا ہوں ۔۔شہوار نے فون کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔
مجھے کیا ؟ اور میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔شہوار نے لاپروائی سے کہا ۔اور اپنا بھیگ کورٹ الماری میں رکھا ۔
اور کام میں مصروف ہو گئ ۔۔
اتنا ٹائم ہو گیا ۔۔پہنچ گیا ہو گا لیکن بتا یا کیوں نہیں مجھے ایک دفعہ ۔۔تو بتا دیتا ۔۔
شہوار کو بار بار ۔۔روہان کے بارے میں خیال آ رہا تھا وہ جتنا خود کو مصروف کرنے کی کوشش کر رہی تھی ہر بار ہر سکینڈ ۔۔روہان کا خیال آ رہا تھا ۔اسے فکر ہو رہی تھی ۔۔
میں کال کر کے پوچھ ۔لوں ۔۔شہوار نے خود سے کہا
کیوں ۔۔میں کیوں کروں اگر اسے پروا ہوتی تو خود مجھے کرتا ۔اعناء کے آگے ۔۔وہ بے بس ہو گئ اور فون کو نیچے رکھ دیا
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ شہوار کے فون کی گھنٹی بجی جیسے اسنے سکرین پر ابھرتے ہوئے نمبر کو دیکھا اسنے جلدی سے فون اٹھایا
اسلام و علیکم ! وہ آواز روہان کی تھی روہان نے پہل کی
اسنے تیخے لہجے میں سلام میں جواب دیا
کیسی ہو ؟ ۔روہان نرم لہجے میں مخاطب تھا
ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا تھا ۔۔بلکے بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں ۔۔اسنے جان بھوج کر
کر کہا یہ سنتے ہی روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
“اچھا میرے بغیر تم اتنا خوش محسوس کرتی ہو ”
“بہت زیادہ ” اسنے پھر طنز کرتے ہوئے جواب دیا تھا “لیکن میں تو آپ کو بہت مس کر رہا ہوں ” روہان ابھی بھی نرم لہجے سے مخاطب تھا وہ شہوار کے طنز لہجے سے دیے ہوئے جواب۔سننے کے باوجود بھی پر سکون تھا ۔
“اچھا تو میں کیا کر سکتی ہوں” شہوار اکھڑی
ٹھیک ہے میں فون رکھتا ہوں اپنا دھیان رکھنا روہان نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا ۔
_______________________
اسلام و علیکم آپی ۔زرش نے گھر داخل ہوتے ہوئے کہا
و علیکم اسلام ! زری بہت اچھا ہوا تم آگئ ویسے بھی میں گھر میں اکیلی تھی شہوار نے گلے لگتے ہوئے کہا
کیوں روہان بھائی کہاں ہیں؟ زرش نے حیرنگی سے پوچھا
اسلام آباد شہوار نے مختصر سے جواب دیا اور کہا چلو آو اندر آو ۔
تو آپ بھی چلی جاتی انکے ساتھ ۔۔زرش نے جیسے کہا شہوار نے جلدی سے جواب دیا
“میں کیوں جاتی ۔اور ویسے بھی میرا دل نہیں کرتا اسکے ساتھ جانے کا ”
کیا مطلب دل نہیں کرتا وہ آپ کے شوہر ہیں زرش نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا
زرش تم پھر شروع ہو گئ ! خدا کے لیے اسکی حمایت میں پھر نہ بولنا ۔شہوار چڑتے ہوئے کہا
کیا ہو گیا ہے آپی یہ حقیقت ہے جو جھٹلائی نہیں جا سکتی وہ آپ کے شوہر ہیں اور اس میں برا ہی کیا ہے روہان بھائی اتنے اچھے ہیں ۔انکی حمایت میں بولنا کون سی بری بات ہے
اچھا تم کیا لو گی شہوار نے موضوع گفتگو تبدیل کیا
______________________
تمھیں معلوم ہے صبح صبح ہی چلا گیا تھا اور ایک دفعہ ۔۔مجھے نہیں بتایا ۔بندہ پہلے بتا دیتا ہے ۔لیکن مجھے اس سے کیا ۔جہاں مرضی جائے ۔مجھے کیا ۔
شہوار نے چائے پیتے ہوئے کہا
اچھا آپ کا کام کیسا جا رہا ہے ۔۔زرش نے شائستگی سے پوچھا
اچھا جا رہا ہے ! اور تمھیں پتا ہے اتنی دیر بعد کال کی تھی ۔ایسے جیسے مجھ پر احسان کر رہا ہوں جیسے میں ترس رہی ہوں۔۔اس سے بات کرنے کو ۔بھلا مجھے کیوں کال کر رہا تھا ۔میں تو انتظار نہیں کر رہی تھی
زرش تب سے ۔شہوار کو دیکھ رہی تھی اسنے جو بھی شہوار سے سوال کیے تھے
سب کا اختتام روہان پر ہی ہوتا وہ ہر بات میں روہان کا نام لے رہی تھی ۔۔زرش تب سے نوٹ کر رہی تھی اور پھر آخر پوچھا
آپ کو پتا ہے آپی آپ اپنے ہر جواب میں ایک شخص کا بارے میں بات کر رہی ہیں اور وہ روہان علی خان ہے میرے ہر سوال کے جواب میں روہان بھائی کا ذکر ضرور ہے
انکی غیر موجودگی ۔آپ کو لگتا پسند نہیں ۔۔جیسے زرش نے کہا
شہوار فورا بولی
ن۔۔نہیں تو میں نے کب ہر سوال کے جواب میں روہان کے بارے میں بات کی ہے ۔۔نہیں تو ۔۔لگتا ہے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔
یہ سنتے ہی ۔زرش نے بےا ختیار قہقا لگایا اپنا چہرہ دیکھے ۔صاف پتا چل رہا ہے آپ روہان بھائی کو کتنا مس کر رہی ہیں
شہوار نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپائے ۔۔یہ کیا مذاق ہے زری ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔میں نہیں کر رہی اسے مس یہ کیا بار بار ایک ہی بات رپیٹ کر رہی ہو
شہوار نے غصے سے کہا ۔
آپی وہ شوہر ہیں آپ کے اس میں کوئی برا نہیں ہے اگر آپ انھیں مس کر رہی ہیں تو کال کر لیں ۔ایسی کوئی بات نہیں ہے
زری۔۔زری چپ کر جاو ۔۔کیا روہان روہان لگایا ہوا ہے ۔۔وہ غصے سے اٹھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی انکے بارے میں بات ۔بس اتنا بتا دئیں انھیں معاف کیا ہے یاں نہیں ۔۔
کیا مطلب ؟ شہوار ہچکچائی
مطلب واضح ہے آپی ۔۔آپ جو روہان بھائی کے ساتھ سرد رویہ رکھ رہی ہیں اس واقعہ کا قصور وار ٹھہرا کر حلانکہ انکا کوئی قصور نہیں ۔۔تو آپ انکے ساتھ اچھی ہوئی ہیں یا نہیں
زرش ۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے ۔تمھیں اب مجھ سے زیادہ روہان کی فکر ہے ۔وہ اکھڑ کر بولی
نہیں آپی ایسی کوئی بات نہیں ہے جتنی آپ عزیز ہیں اتنے ہی روہان بھائی ہیں ۔۔بس انکی محبت ہے جو انکو زیادہ اعلی بنا دیتی ہے ۔۔کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں
لیکن میں نہیں کرتئ ۔۔
جھوٹ مت بولیں آپی ۔۔زرش نے بھی ڈھٹائی سے جواب دیا
نہیں ہے مجھ اس سے محبت اور نہ ہی کبھی ہو گی ۔۔محبت کوئی گڈے گڈی کی کھیل ہے جو جب جی آیا شروع کر دیا اور جب جی آیا ختم ۔۔وہ شخص اب میری زندگی میں آچکا ہے اب اسے نہیں نکال سکتی میں
اتنی سنگ دل ہیں روہان بھائی کے لیے ۔
تم نے جو سمجھنا ہے سمجھ لو ۔۔شہوار نے بے رخی سے جواب دیا ۔
انکی محبت کا اور امتحان مت لیں آپی ۔۔زرش نے آخری کوشش کی ۔
کون سی محبت ۔کوئی محبت نہیں ہے اسکی میرے لیے ایک بیوی کی حثیت سے کرتا ہے ورنہ وہ بھی شیان فراز سے کم نہیں جیسے شہوار نے زرش نے جلدی سے کہا
خدا کے لیے روہان بھائی کو کم از کم شیان سے تو نہ کپئیر کریں ۔انکی محبت کی توہین ہو جائے گی اس جیسے گھٹیا شخص کے ساتھ جوڑے نے ۔۔سے آپی ویسے آپ کو بتا دوں ۔۔
یہ محبت آپ کو بھی ہو گی ایک نہ ایک دن ۔۔ضرور
وہ مزاحقکہ خیز لہجے میں ہنسی اور کہا ۔۔وحم ہے تمھارا زرش ۔۔_
کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی تھی ۔۔پھر زرش نے خاموشی کے تالوں کو توڑا اور کہا
کیا ہوا ہے ؟ زرش نے دل کا حال معلوم کرتے ہوئے کہا
“یہ سنتے ہی ۔شہوار نے اپنی نظریں جھکا لی تاکہ وہ اسکی آنکھوں میں چھپا سچ نہ دیکھ سکے ۔۔
م۔۔مجھے ڈر لگنے لگا ہے ۔اسنے اپنے ہاتھوں کو مسلا
م۔۔مجھے ڈر لگنے لگا ہے ۔۔زری کہ مجھے کہی روہان کی عادت نہ ہو جائے ۔۔اور اگر یہ عادت محبت میں بدل گئ تو میں اسکے بنا ایک سکینڈ نہیں رہ پاوں گی ۔۔”
آپی ۔۔آپی۔۔کہاں گم ہے ۔۔جیسے زرش نے شہوار کو کندھے سے ہلایا ۔۔وہ اچانک ۔۔کھوئے ہوئے خواب سے بیدار ہوئی
ہوں۔۔۔۔ہاں
کیا ہوا ہے آپی آپ خاموش کیوں ہو گئ ۔۔۔
ن۔۔نہیں کچھ نہیں ہوا ۔۔شہوار نے خود کو سنبھالا ۔وہ حقیقت نہیں تھی شکر ہے اسنے زرش کے سامنے نہیں کہا ۔۔
اچھا اب میں چلتی ہوں اپنا دھیان رکھیے گا زرش نے کہا اور چل دی
_______________________
وہ اکیلی بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔اسکے دل و دماغ پر ایک شخص ۔۔کا تصور تھا وہ ۔۔روہان تھا ۔
عادت!!۔نہیں ۔نہیں مجھے نہیں ہو سکتی ۔اس شخص کی عادت ۔
میں کیسے اسکی عادت میں مبتلا ہو سکتی ہوں مجھے اس سے نفرت ہے ۔۔صرف نفرت۔۔نہیں نہیں یہ میرے دل کا ایک وھم ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔۔صرف ایک وحم ۔
وہ خود کو بار بار دلاسے دے رہی تھی اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ ۔۔محبت سے بھی بدتر کیسی کی عادت ہوتی ہے محبت تو انسان دوسری دفعہ کر لیتا ہے ۔اور محبت چھوٹ بھی جاتی ہے لیکن یہ عادت نہیں چھوٹتی کیسی کی عادت ۔۔خاص کر ۔
وہ ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اسکے فون کی پھر گھنٹی بجی اور وہ یقیقنا روہان ہی کی کال تھی
ہیلو ۔۔شہوار نے آئیستہ سے کہا
ڈر تو نہیں لگ رہا ۔۔روہان نے فکر کرنے والے انداز میں کہا
ن۔۔نہیں مجھے کیوں ڈر لگنا ہے ۔۔
اچھا دروازہ اچھے سے لاک کر لینا تھا ! روہان نے ہدایت دی
ہاں کر لیا ہے ۔!
کھانہ کھایا ۔۔روہان نے نرم لہجے سے پوچھا
ہاں ۔۔جواب مختصر تھا ۔تم نے شہوار نے جیسے سوال کیا وہ جلدی سے بولا
نہیں
کیوں؟۔۔۔
تمھارے بغیر کھانے کی عادت نہیں ۔۔روہان نے گہری سانس لی
یہ ڈائیلوگ بازی بند کرو ۔۔کھا لیا ہو گا ۔۔شہوار نے مسکراہٹ دبائی اچھا اب میں سونے لگی ہوں ۔۔
ایک منٹ ۔۔۔روہان نے جیسے کہا وہ وہی رکی
کیوں کیا ہوا ہے ؟
ایسا کرو ۔فون آن ہی رہنے دو ۔
کیوں؟؟ وہ چونکی
نہیں ۔گھر میں اکیلی ہو ۔۔ایسے ڈر بھی نہیں لگے گا
پاگل تو نہیں ہو گئے روہان بچی نہیں ہوں میں۔شہوار نے طنزا کہا
ڈر تو نہیں لگے گا ۔۔روہان نے پھر پوچھا ۔۔
نہیں لگتا ۔۔تم بند کرو فون ۔۔پاگل۔۔! شہوار نے کہا اورفون بند کر دیا
افف کیسا بندہ ہے یہ۔۔ شہوار نے بے اختیار کہا اورفون رکھ دیا
ابھی اس نے فون رکھا تھا کہ فون سکرین پر میسج ابھرا
:گڈ نائیٹ ۔۔اور کمرے کا دروازہ بھی لاک کرنا یاد سے ۔مائے ڈئیر وائف ”
یہ پڑھتے ۔۔ہی شہوار اپنی ہنسی نہ روک پائی اور کمرے کا دروازہ اٹھ کے لوک کیا اور
“ڈن” کا میسج بھیج دیا
_______________________
رات کے بارہ بجے ۔۔معمول کے مطابق شہوار کی خود بخود آنکھ کھولی ۔۔اسنے صوفہ کی طرف دیکھا لیکن وہ نہیں تھا
افف۔کیسی عادت ڈالی ہے اس روہان نے ۔۔وہ اٹھی اور نیچے کچن میں ائی اور میگی بنانے لگی
وہ میگی لیے میز پر بیٹھی تھی اسنے اپنے فون پر میسج ٹیکسٹ دیکھا
“آج میرے بغیر ہی میگی کھاو ” میسج پڑھتے شہوار نے کہا
کیسا انسان ہے یااللہ مطلب ۔۔اسے ہر چیز کا پتا ہے
___________________________
آپی۔۔آپ نے نیوز دیکھی زرش نے گھبراتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ہے زری سب کچھ ٹھیک تو ہے ۔شہوار نے چونک کر جواب دیا ۔۔
آپی ۔۔اسلام آباد میں ۔ٹارگٹ کلینگ میں بہت سے لوگوں کی موت ہوئی ہے ۔ ان میں سے کی لوگوں کی تو نشاندہی نہیں ہو رہی پلہز آپ ایک دفعہ روہان بھائی کو کال کر لیں کہ وہ تو ٹھیک ہے ناں زرش کی آواز میں فکر لی کہر دوڑی یہ سنتے ہی ۔۔شہوار نے فورا فون بند کیا ۔۔اس سے پہلے وہ کال ملاتی ۔۔اسکے فون کی گھنٹی بجی
ہیلو ۔۔کون بات کر رہا ہے ۔۔جیسے فون پر کیسی انجان آدمی نے پوچھا
شہوار زرا ٹھہری اور پھر جواب دیا ۔
جی میں شہوار ! ۔۔
جیسے اس آدمی نے سنا اسنے فورا کہا ۔۔
جی آپ ہوسپٹل آ جائیں ۔۔لاش کی نشاندہی کرنی ہے جیسے اس آدمی نے کہا شہوار کے ہاتھ سے فون بے اختیار نیچے گر گیا
_____
وہ اپنی حواس میں نہ رہی ۔زرش کی کال پہ کال آ رہی تھی شہوار کو یوں محسوس ہوا جیسے کیسی نے اسکی سانسیں دبوچ لی ہوں ۔اسکے پورے وجود پر کپکپی طاری ہو گئ لرزتے ہوئے ہاتھ اسنے فون کی جانب بڑھائیں ۔اور فون اٹھایا
آپی کیا فون کیسے ہیں روہان بھائی وہ ٹھیک تو ہیں؟ آپی ۔۔۔ آپ خاموش کیوں ہیں کچھ بول کیوں نہیں رہی زرش کا دل پریشانی سے دہل رہا تھا اور اوپر سے شہوار کی خاموشی ۔۔اسے اور زیادہ فکر ہو رہی تھی
ز۔۔۔زری ہوسپٹل سے کال آئی ہے !۔شہوار کی آواز کانپ رہی تھی
کیا ہوا ہے آپی مجھے بتائیں ؟ روہان بھائی تو ٹھیک ہیں ؟ زرش نے اونچی آواز سے کہا
و۔۔وہ لاش کی نشاندہی کرنی ہے زرش ! اسے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔م۔۔۔میں ۔۔ شہوار اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی چہرے سے لگاتار گرتے آنسوں ۔۔اسنے جلدی سے فون بند کیا اور آفس سے باہر نکلی ۔۔
ف۔۔فون ۔۔اٹھاو روہان خدا کے لیے ایک دفعہ کال پک کرو ۔۔وہ ساتھ ساتھ ڈرائیونگ کرتے ہر سکینڈ اسے کال ملا رہی تھی ۔لیکن فون آگے سے بند تھا ۔
روہان ۔۔ایک دفعہ ! کال اٹھاؤ میں مر جاوں گی ۔۔ایک دفعہ ۔اسکے ہلک سے میں الفاظ اٹک رہے تھے ہچکیوں سے اور چہرہ پورا آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا ۔
ن۔۔۔نہیں اسے کچھ نہیں ہو سکتا ۔ کچھ بھی نہیں ۔وہ ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتا ہے ۔۔گاڑی کی سپیڈ معمول سے زیادہ تھی اسے جتنی جلدی ہو سکے اسلام آباد پہچنا تھا ۔ایک آواز کے لیے وہ ترس رہی تھی کہ ایک دفعہ ۔۔روہان اسے کال کر لے ۔
آج جو اسکی حالت تھی وہ ناقابل بیان تھی سٹرینگ پر جمے ہوئے ہاتھ بھی مسلسل کانپ رہے تھے وہ خود کو حوصلہ دے رہی تھی لیکن دل نہیں مان رہا تھا۔
جاری ہے
ہاں ۔۔ہاں باقی کی کاروائی وہی سے ہو گی وہ اپنے کام میں مگن تھا
وہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کہاں جا رہا ہے ؟ کیوں جا رہا ہے؟ لیکن خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی اور اسے گور رہی تھی ۔۔روہان نے اپنا سامان پیک کیا اور اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بلیک کورٹ پہن رہا تھا ۔۔اور پھر اسکی طرف متوجہ ہوا
روہان نے جیسے رخ بدلہ وہ بے اختیار مسکرایا شہوار نے اسے دیکھ کر جلدی سے بستر اپنے اوپر اوڑھ لیا تاکہ اسے لگے کہ وہ سوئی ہوئی ہے
مجھے ضروری کام آگیا ہے اسلام آباد جا رہا ہوں ایک دو دن تک واپسی ہو جائے گی ۔
وہ ابھی تک ۔۔بستر اوڑھے تھی ۔۔
اگر کیسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کال کر دینا اور ہاں یہ پیسے ہے یہ رکھ لو ضرورت پڑ سکتی ہے جیسے روہان نے پیسے سامنے میز پر رکھے ۔۔شہوار فورا بیڈ سے اتری اور غصے سے کہا
مجھے تمھارے پیسوں کی کوئی نہیں ضرورت اور کیوں دے رہے ہو مجھے کس وجہ سے ؟
کیا مطلب کس وجہ سے ! بیوی ہو تم میری اور یہ شوہر کا فرث ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی ہر ضرورت پوری کرے ۔مجھے پتا ہے تمھاری پے بہت زیادہ ہے لیکن ۔۔یہ میرا فرض ہے شہوار اور ہر شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے ۔۔پیسے اس میں حرج ہی کیا ہے اسنے آئستگی سے جواب دیا لیکن شہوار اسکے جوب پر بھڑک اٹھی
وہ اور ہوتی ہوں گی بیویاں ۔لیکن میں ان میں سے نہیں ہوں میں تمھارے پیسوں کی محتاج نہیں ہوں سن لیا تم نے
شہوار نے کہا اور الماری کی طرف بڑھ گئ ۔۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اپنا سامان لیے باہر کی جانب بڑھ گیا جیسے وہ باہر نکلا شہوار فورا سے پلٹی ۔۔وہ جا چکا تھا میز پر پیسے پڑے ہوئے تھے وہ وہی الماری کے ساتھ ٹیک لگائے ۔۔کھڑی ہو گئ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔تھے
_____________________
میں پوچھ رہی ہوں ۔یہ فاعل میرے پوچھے میز سے کس نے اٹھائی بولو ۔
شہوار نے اتنے غصے سے کہا کہ سامنے کھڑا آدمی خوف زدہ ہو گیا
و۔۔۔۔وہ میڈم ۔۔س۔۔۔سر نے کہا تھا ۔؟ اسنے اٹکتی آواز میں جواب دیا
کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔کس نے کہا تھا تمھیں وہ غصے سے تلملا اٹھی
و۔۔۔وہ سر رحمان نے کہا تھا کہ آپ کے میز سے وہ فاعل لا کے مجھے دے دے اسکے بدلے مجھے رقم دے گے
جیسے اس آدمی نے دبئ آواز میں سچ بولا شہوار اپنے آپے سے باہر ہو گئ ۔۔اسقدر غصہ تھا کہ پورا آفس خاموش ہو گیا
تم جیسے رشوت خوروں کی وجہ سے وکیل بدنام ہو گئے ہیں۔شہوار نے کہا اور اپنی کبین سے باہر نکل گئ
اور ائیڈوکیٹ رحمان کے آفس بڑھئ بنا اجازت لیے جیسے وہ داخل ہوئی
رحمان بے اختیار اپنی سیٹ سے اٹھا
ک۔۔۔کیا ہوا ہے مس شہوار ۔۔
ہوا تو کچھ نہیں لیکن اب ہو گا ۔۔شہوار نے غصے سے کہا
کیا مطلب ؟ وہ انجان بنا
مطلب تو سمجھاوں گی بہت اچھے طریقے سے پہلے ہہ بتائیے میری کیس فاعل لے کر کیا ۔حاصک کر لیا آپ نے کوئی ثبوت مل گیا آپ کو بولیں جو چوروں کی طرح فاعل چوری کروایئ اگر اتنی ہمت اور جرات ہے نہ ائیڈو کیٹ رحمان صاحب تو پوری ایمان داری سے کیس لڑئیے ۔کیا پتا آپ مجھے مات دے سکے ۔۔اتنا ہی شوق ہے ناں مجھ سے جتینے کا تو پہلے اپنے نفس سے چوری ۔۔اور غلط بیانی جھوٹ کا پیچھا چھوڑ دئیں ۔۔خدا آپ کی یہ خوائیش پوری کر دے گا
شہوار نے کہا اور کیبن سے باہر روانہ ہو گئ
________________________
وہ گھر آ چکی تھی جیسے اسنے دروازہ کھولا ۔وہ کچھ دیر کے لیے وہی کھڑی ہو گئ ۔۔
کیونکہ اس کے آنے سے پہلے روہان گھر آ جاتا تھا اور سامنے عموما صوفہ پہ بیٹھ کر سگریٹ سلگاتا ۔
شہوار نے ایک گہری سانس لی ۔۔اور اندر بڑھی
ایک کال تک نہیں کی ۔۔کہ پہنچ گیا ہوں ۔۔شہوار نے فون کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔
مجھے کیا ؟ اور میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔شہوار نے لاپروائی سے کہا ۔اور اپنا بھیگ کورٹ الماری میں رکھا ۔
اور کام میں مصروف ہو گئ ۔۔
اتنا ٹائم ہو گیا ۔۔پہنچ گیا ہو گا لیکن بتا یا کیوں نہیں مجھے ایک دفعہ ۔۔تو بتا دیتا ۔۔
شہوار کو بار بار ۔۔روہان کے بارے میں خیال آ رہا تھا وہ جتنا خود کو مصروف کرنے کی کوشش کر رہی تھی ہر بار ہر سکینڈ ۔۔روہان کا خیال آ رہا تھا ۔اسے فکر ہو رہی تھی ۔۔
میں کال کر کے پوچھ ۔لوں ۔۔شہوار نے خود سے کہا
کیوں ۔۔میں کیوں کروں اگر اسے پروا ہوتی تو خود مجھے کرتا ۔اعناء کے آگے ۔۔وہ بے بس ہو گئ اور فون کو نیچے رکھ دیا
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ شہوار کے فون کی گھنٹی بجی جیسے اسنے سکرین پر ابھرتے ہوئے نمبر کو دیکھا اسنے جلدی سے فون اٹھایا
اسلام و علیکم ! وہ آواز روہان کی تھی روہان نے پہل کی
اسنے تیخے لہجے میں سلام میں جواب دیا
کیسی ہو ؟ ۔روہان نرم لہجے میں مخاطب تھا
ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا تھا ۔۔بلکے بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں ۔۔اسنے جان بھوج کر
کر کہا یہ سنتے ہی روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
“اچھا میرے بغیر تم اتنا خوش محسوس کرتی ہو ”
“بہت زیادہ ” اسنے پھر طنز کرتے ہوئے جواب دیا تھا “لیکن میں تو آپ کو بہت مس کر رہا ہوں ” روہان ابھی بھی نرم لہجے سے مخاطب تھا وہ شہوار کے طنز لہجے سے دیے ہوئے جواب۔سننے کے باوجود بھی پر سکون تھا ۔
“اچھا تو میں کیا کر سکتی ہوں” شہوار اکھڑی
ٹھیک ہے میں فون رکھتا ہوں اپنا دھیان رکھنا روہان نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا ۔
_______________________
اسلام و علیکم آپی ۔زرش نے گھر داخل ہوتے ہوئے کہا
و علیکم اسلام ! زری بہت اچھا ہوا تم آگئ ویسے بھی میں گھر میں اکیلی تھی شہوار نے گلے لگتے ہوئے کہا
کیوں روہان بھائی کہاں ہیں؟ زرش نے حیرنگی سے پوچھا
اسلام آباد شہوار نے مختصر سے جواب دیا اور کہا چلو آو اندر آو ۔
تو آپ بھی چلی جاتی انکے ساتھ ۔۔زرش نے جیسے کہا شہوار نے جلدی سے جواب دیا
“میں کیوں جاتی ۔اور ویسے بھی میرا دل نہیں کرتا اسکے ساتھ جانے کا ”
کیا مطلب دل نہیں کرتا وہ آپ کے شوہر ہیں زرش نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا
زرش تم پھر شروع ہو گئ ! خدا کے لیے اسکی حمایت میں پھر نہ بولنا ۔شہوار چڑتے ہوئے کہا
کیا ہو گیا ہے آپی یہ حقیقت ہے جو جھٹلائی نہیں جا سکتی وہ آپ کے شوہر ہیں اور اس میں برا ہی کیا ہے روہان بھائی اتنے اچھے ہیں ۔انکی حمایت میں بولنا کون سی بری بات ہے
اچھا تم کیا لو گی شہوار نے موضوع گفتگو تبدیل کیا
______________________
تمھیں معلوم ہے صبح صبح ہی چلا گیا تھا اور ایک دفعہ ۔۔مجھے نہیں بتایا ۔بندہ پہلے بتا دیتا ہے ۔لیکن مجھے اس سے کیا ۔جہاں مرضی جائے ۔مجھے کیا ۔
شہوار نے چائے پیتے ہوئے کہا
اچھا آپ کا کام کیسا جا رہا ہے ۔۔زرش نے شائستگی سے پوچھا
اچھا جا رہا ہے ! اور تمھیں پتا ہے اتنی دیر بعد کال کی تھی ۔ایسے جیسے مجھ پر احسان کر رہا ہوں جیسے میں ترس رہی ہوں۔۔اس سے بات کرنے کو ۔بھلا مجھے کیوں کال کر رہا تھا ۔میں تو انتظار نہیں کر رہی تھی
زرش تب سے ۔شہوار کو دیکھ رہی تھی اسنے جو بھی شہوار سے سوال کیے تھے
سب کا اختتام روہان پر ہی ہوتا وہ ہر بات میں روہان کا نام لے رہی تھی ۔۔زرش تب سے نوٹ کر رہی تھی اور پھر آخر پوچھا
آپ کو پتا ہے آپی آپ اپنے ہر جواب میں ایک شخص کا بارے میں بات کر رہی ہیں اور وہ روہان علی خان ہے میرے ہر سوال کے جواب میں روہان بھائی کا ذکر ضرور ہے
انکی غیر موجودگی ۔آپ کو لگتا پسند نہیں ۔۔جیسے زرش نے کہا
شہوار فورا بولی
ن۔۔نہیں تو میں نے کب ہر سوال کے جواب میں روہان کے بارے میں بات کی ہے ۔۔نہیں تو ۔۔لگتا ہے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔
یہ سنتے ہی ۔زرش نے بےا ختیار قہقا لگایا اپنا چہرہ دیکھے ۔صاف پتا چل رہا ہے آپ روہان بھائی کو کتنا مس کر رہی ہیں
شہوار نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپائے ۔۔یہ کیا مذاق ہے زری ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔میں نہیں کر رہی اسے مس یہ کیا بار بار ایک ہی بات رپیٹ کر رہی ہو
شہوار نے غصے سے کہا ۔
آپی وہ شوہر ہیں آپ کے اس میں کوئی برا نہیں ہے اگر آپ انھیں مس کر رہی ہیں تو کال کر لیں ۔ایسی کوئی بات نہیں ہے
زری۔۔زری چپ کر جاو ۔۔کیا روہان روہان لگایا ہوا ہے ۔۔وہ غصے سے اٹھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی انکے بارے میں بات ۔بس اتنا بتا دئیں انھیں معاف کیا ہے یاں نہیں ۔۔
کیا مطلب ؟ شہوار ہچکچائی
مطلب واضح ہے آپی ۔۔آپ جو روہان بھائی کے ساتھ سرد رویہ رکھ رہی ہیں اس واقعہ کا قصور وار ٹھہرا کر حلانکہ انکا کوئی قصور نہیں ۔۔تو آپ انکے ساتھ اچھی ہوئی ہیں یا نہیں
زرش ۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے ۔تمھیں اب مجھ سے زیادہ روہان کی فکر ہے ۔وہ اکھڑ کر بولی
نہیں آپی ایسی کوئی بات نہیں ہے جتنی آپ عزیز ہیں اتنے ہی روہان بھائی ہیں ۔۔بس انکی محبت ہے جو انکو زیادہ اعلی بنا دیتی ہے ۔۔کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں
لیکن میں نہیں کرتئ ۔۔
جھوٹ مت بولیں آپی ۔۔زرش نے بھی ڈھٹائی سے جواب دیا
نہیں ہے مجھ اس سے محبت اور نہ ہی کبھی ہو گی ۔۔محبت کوئی گڈے گڈی کی کھیل ہے جو جب جی آیا شروع کر دیا اور جب جی آیا ختم ۔۔وہ شخص اب میری زندگی میں آچکا ہے اب اسے نہیں نکال سکتی میں
اتنی سنگ دل ہیں روہان بھائی کے لیے ۔
تم نے جو سمجھنا ہے سمجھ لو ۔۔شہوار نے بے رخی سے جواب دیا ۔
انکی محبت کا اور امتحان مت لیں آپی ۔۔زرش نے آخری کوشش کی ۔
کون سی محبت ۔کوئی محبت نہیں ہے اسکی میرے لیے ایک بیوی کی حثیت سے کرتا ہے ورنہ وہ بھی شیان فراز سے کم نہیں جیسے شہوار نے زرش نے جلدی سے کہا
خدا کے لیے روہان بھائی کو کم از کم شیان سے تو نہ کپئیر کریں ۔انکی محبت کی توہین ہو جائے گی اس جیسے گھٹیا شخص کے ساتھ جوڑے نے ۔۔سے آپی ویسے آپ کو بتا دوں ۔۔
یہ محبت آپ کو بھی ہو گی ایک نہ ایک دن ۔۔ضرور
وہ مزاحقکہ خیز لہجے میں ہنسی اور کہا ۔۔وحم ہے تمھارا زرش ۔۔_
کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی تھی ۔۔پھر زرش نے خاموشی کے تالوں کو توڑا اور کہا
کیا ہوا ہے ؟ زرش نے دل کا حال معلوم کرتے ہوئے کہا
“یہ سنتے ہی ۔شہوار نے اپنی نظریں جھکا لی تاکہ وہ اسکی آنکھوں میں چھپا سچ نہ دیکھ سکے ۔۔
م۔۔مجھے ڈر لگنے لگا ہے ۔اسنے اپنے ہاتھوں کو مسلا
م۔۔مجھے ڈر لگنے لگا ہے ۔۔زری کہ مجھے کہی روہان کی عادت نہ ہو جائے ۔۔اور اگر یہ عادت محبت میں بدل گئ تو میں اسکے بنا ایک سکینڈ نہیں رہ پاوں گی ۔۔”
آپی ۔۔آپی۔۔کہاں گم ہے ۔۔جیسے زرش نے شہوار کو کندھے سے ہلایا ۔۔وہ اچانک ۔۔کھوئے ہوئے خواب سے بیدار ہوئی
ہوں۔۔۔۔ہاں
کیا ہوا ہے آپی آپ خاموش کیوں ہو گئ ۔۔۔
ن۔۔نہیں کچھ نہیں ہوا ۔۔شہوار نے خود کو سنبھالا ۔وہ حقیقت نہیں تھی شکر ہے اسنے زرش کے سامنے نہیں کہا ۔۔
اچھا اب میں چلتی ہوں اپنا دھیان رکھیے گا زرش نے کہا اور چل دی
_______________________
وہ اکیلی بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔اسکے دل و دماغ پر ایک شخص ۔۔کا تصور تھا وہ ۔۔روہان تھا ۔
عادت!!۔نہیں ۔نہیں مجھے نہیں ہو سکتی ۔اس شخص کی عادت ۔
میں کیسے اسکی عادت میں مبتلا ہو سکتی ہوں مجھے اس سے نفرت ہے ۔۔صرف نفرت۔۔نہیں نہیں یہ میرے دل کا ایک وھم ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔۔صرف ایک وحم ۔
وہ خود کو بار بار دلاسے دے رہی تھی اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ ۔۔محبت سے بھی بدتر کیسی کی عادت ہوتی ہے محبت تو انسان دوسری دفعہ کر لیتا ہے ۔اور محبت چھوٹ بھی جاتی ہے لیکن یہ عادت نہیں چھوٹتی کیسی کی عادت ۔۔خاص کر ۔
وہ ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اسکے فون کی پھر گھنٹی بجی اور وہ یقیقنا روہان ہی کی کال تھی
ہیلو ۔۔شہوار نے آئیستہ سے کہا
ڈر تو نہیں لگ رہا ۔۔روہان نے فکر کرنے والے انداز میں کہا
ن۔۔نہیں مجھے کیوں ڈر لگنا ہے ۔۔
اچھا دروازہ اچھے سے لاک کر لینا تھا ! روہان نے ہدایت دی
ہاں کر لیا ہے ۔!
کھانہ کھایا ۔۔روہان نے نرم لہجے سے پوچھا
ہاں ۔۔جواب مختصر تھا ۔تم نے شہوار نے جیسے سوال کیا وہ جلدی سے بولا
نہیں
کیوں؟۔۔۔
تمھارے بغیر کھانے کی عادت نہیں ۔۔روہان نے گہری سانس لی
یہ ڈائیلوگ بازی بند کرو ۔۔کھا لیا ہو گا ۔۔شہوار نے مسکراہٹ دبائی اچھا اب میں سونے لگی ہوں ۔۔
ایک منٹ ۔۔۔روہان نے جیسے کہا وہ وہی رکی
کیوں کیا ہوا ہے ؟
ایسا کرو ۔فون آن ہی رہنے دو ۔
کیوں؟؟ وہ چونکی
نہیں ۔گھر میں اکیلی ہو ۔۔ایسے ڈر بھی نہیں لگے گا
پاگل تو نہیں ہو گئے روہان بچی نہیں ہوں میں۔شہوار نے طنزا کہا
ڈر تو نہیں لگے گا ۔۔روہان نے پھر پوچھا ۔۔
نہیں لگتا ۔۔تم بند کرو فون ۔۔پاگل۔۔! شہوار نے کہا اورفون بند کر دیا
افف کیسا بندہ ہے یہ۔۔ شہوار نے بے اختیار کہا اورفون رکھ دیا
ابھی اس نے فون رکھا تھا کہ فون سکرین پر میسج ابھرا
:گڈ نائیٹ ۔۔اور کمرے کا دروازہ بھی لاک کرنا یاد سے ۔مائے ڈئیر وائف ”
یہ پڑھتے ۔۔ہی شہوار اپنی ہنسی نہ روک پائی اور کمرے کا دروازہ اٹھ کے لوک کیا اور
“ڈن” کا میسج بھیج دیا
_______________________
رات کے بارہ بجے ۔۔معمول کے مطابق شہوار کی خود بخود آنکھ کھولی ۔۔اسنے صوفہ کی طرف دیکھا لیکن وہ نہیں تھا
افف۔کیسی عادت ڈالی ہے اس روہان نے ۔۔وہ اٹھی اور نیچے کچن میں ائی اور میگی بنانے لگی
وہ میگی لیے میز پر بیٹھی تھی اسنے اپنے فون پر میسج ٹیکسٹ دیکھا
“آج میرے بغیر ہی میگی کھاو ” میسج پڑھتے شہوار نے کہا
کیسا انسان ہے یااللہ مطلب ۔۔اسے ہر چیز کا پتا ہے
___________________________
آپی۔۔آپ نے نیوز دیکھی زرش نے گھبراتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ہے زری سب کچھ ٹھیک تو ہے ۔شہوار نے چونک کر جواب دیا ۔۔
آپی ۔۔اسلام آباد میں ۔ٹارگٹ کلینگ میں بہت سے لوگوں کی موت ہوئی ہے ۔ ان میں سے کی لوگوں کی تو نشاندہی نہیں ہو رہی پلہز آپ ایک دفعہ روہان بھائی کو کال کر لیں کہ وہ تو ٹھیک ہے ناں زرش کی آواز میں فکر لی کہر دوڑی یہ سنتے ہی ۔۔شہوار نے فورا فون بند کیا ۔۔اس سے پہلے وہ کال ملاتی ۔۔اسکے فون کی گھنٹی بجی
ہیلو ۔۔کون بات کر رہا ہے ۔۔جیسے فون پر کیسی انجان آدمی نے پوچھا
شہوار زرا ٹھہری اور پھر جواب دیا ۔
جی میں شہوار ! ۔۔
جیسے اس آدمی نے سنا اسنے فورا کہا ۔۔
جی آپ ہوسپٹل آ جائیں ۔۔لاش کی نشاندہی کرنی ہے جیسے اس آدمی نے کہا شہوار کے ہاتھ سے فون بے اختیار نیچے گر گیا
_____
وہ اپنی حواس میں نہ رہی ۔زرش کی کال پہ کال آ رہی تھی شہوار کو یوں محسوس ہوا جیسے کیسی نے اسکی سانسیں دبوچ لی ہوں ۔اسکے پورے وجود پر کپکپی طاری ہو گئ لرزتے ہوئے ہاتھ اسنے فون کی جانب بڑھائیں ۔اور فون اٹھایا
آپی کیا فون کیسے ہیں روہان بھائی وہ ٹھیک تو ہیں؟ آپی ۔۔۔ آپ خاموش کیوں ہیں کچھ بول کیوں نہیں رہی زرش کا دل پریشانی سے دہل رہا تھا اور اوپر سے شہوار کی خاموشی ۔۔اسے اور زیادہ فکر ہو رہی تھی
ز۔۔۔زری ہوسپٹل سے کال آئی ہے !۔شہوار کی آواز کانپ رہی تھی
کیا ہوا ہے آپی مجھے بتائیں ؟ روہان بھائی تو ٹھیک ہیں ؟ زرش نے اونچی آواز سے کہا
و۔۔وہ لاش کی نشاندہی کرنی ہے زرش ! اسے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔م۔۔۔میں ۔۔ شہوار اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی چہرے سے لگاتار گرتے آنسوں ۔۔اسنے جلدی سے فون بند کیا اور آفس سے باہر نکلی ۔۔
ف۔۔فون ۔۔اٹھاو روہان خدا کے لیے ایک دفعہ کال پک کرو ۔۔وہ ساتھ ساتھ ڈرائیونگ کرتے ہر سکینڈ اسے کال ملا رہی تھی ۔لیکن فون آگے سے بند تھا ۔
روہان ۔۔ایک دفعہ ! کال اٹھاؤ میں مر جاوں گی ۔۔ایک دفعہ ۔اسکے ہلک سے میں الفاظ اٹک رہے تھے ہچکیوں سے اور چہرہ پورا آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا ۔
ن۔۔۔نہیں اسے کچھ نہیں ہو سکتا ۔ کچھ بھی نہیں ۔وہ ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتا ہے ۔۔گاڑی کی سپیڈ معمول سے زیادہ تھی اسے جتنی جلدی ہو سکے اسلام آباد پہچنا تھا ۔ایک آواز کے لیے وہ ترس رہی تھی کہ ایک دفعہ ۔۔روہان اسے کال کر لے ۔
آج جو اسکی حالت تھی وہ ناقابل بیان تھی سٹرینگ پر جمے ہوئے ہاتھ بھی مسلسل کانپ رہے تھے وہ خود کو حوصلہ دے رہی تھی لیکن دل نہیں مان رہا تھا۔
جاری ہے