کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 14
جیسے شہوار نے ہوسپٹل کے قریب گاڑی روکی ۔وہ وہی دھک رہ گئ باہر ہوسپٹل میں بہت سارے لوگوں کا ہجوم تھا ۔سب آہ پکار کر رہے تھے ۔۔کہی پر لاشوں کو باہر لے جایا جا رہا تھا ۔۔وہ یہ منظر دیکھ کر خود کو سنبھال نہ پائی ۔۔اور لوگ میں سے گزرتی وہ آگے بڑھ رہی تھی ۔۔دل میں ایک عجیب سا ولولہ مچ گیا تھا روہان کی باتیں اسے بار بار یاد آرہی تھی اسے بلکل بھی ہوش نہیں تھی کہ اسکا سر پہ دوپٹہ ہے یا نہیں اسوقت وہ صرف ایک شخص کو بچانا چاہتی تھی اور وہ روہان تھا ۔۔
جیسے شہوار نے اپنا قدم ہوسپٹل میں بڑھایا ۔وہ وہی کھڑی ہو کر رہ گئ
وہ سامنے کھڑا تھا ۔۔اسے کچھ نہیں ہوا تھا وہ ٹھیک تھا ۔روہان اور دیگر پولیس والے لوگوں کو سنبھال رہے تھے ہوسپٹل میں بہت زیادہ رش تھا اور اس موقع کو سنبھالنے کے لیے ۔۔پولیس والے وہاں موجود تھے ۔۔
روہان کو دیکھتے ہی ۔۔شہوار کو سانس میں سانس آئی اسے یوں معلوم ہوا جیسے ۔اسکے حلق میں رکتی ہوئی سانسیں دوبارہ بحال ہو گئ تھی ۔۔اسنے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔ اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا
روہان کی نظر جیسے شہوار پر پڑی ۔وہ بلکل چونک گیا ۔اسے اس حالت میں دیکھ کر ۔۔اور جلدی سے دو چار قدم بڑھاتا ہوا اسکی طرف بڑھا
شہوار وہی کھڑی ۔تھی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے
ش۔۔۔شہوار تم یہاں ؟ کیا ہوا ہے ۔ت۔۔۔تم ٹھیک تو ہو روہان نے جیسے کہا شہوار بے اختیار اسکے گلے لگ گئ ۔۔اور زور زور سے رونے لگی ۔۔
روہان نے اسے مضبوطی سے پکڑا تھا اور ۔۔اس سے پوچھ رہا تھا
ش۔۔۔شہوار کیا ہوا ہے بولو ۔۔مجھے بتاو تو سہی سب کچھ ٹھیک تو ہے؟ کیسی نے کچھ کہا؟
اسے بلکل پروا نہیں تھی کہ کون اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں بس اسے ۔۔روہان کی پروا تھی ۔۔
ت۔۔۔تم نے ایسا کیوں کیا ؟ شہوار نے اٹکتی آواز میں کہا وہ ابھی تک اسکے گلے لگی تھی ۔
کیا ہوا ہے شہوار پلیز بتاو ۔۔ روہان کے دوبارہ پوچھنے پر وہ پیچھے ہٹی اور بچوں کی طرح اسکے سینے پر بے اختیار ضربیں لگائی
بہت مزہ آتا ہے ناں مجھے تنگ کرنے کا بولو روہان علی خان ۔۔مجھ سے بدلہ لینے کا ۔ایسے بھی کوئی تنگ کرتا ہے اتنی فون کالز کی تمھیں لیکن مجال ہے ایک کا بھی آنسر دیا ہو ۔۔میری جان نکلی جا رہی تھی ۔
شہوار نے ۔۔روتے ہوئے کہا
آو۔۔۔میرا فون ۔۔روہان نے یہ کہتے ہوئے اپنی پاکٹ چیک کی ۔۔
افف۔۔لگتا ہے جھرمٹ میں میرا فون گر گیا ۔۔سوری مجھے تمھیں اطلاع کرنی چاہیے تھی اصل میں ٹائم ہی نہیں ملا ۔کل سے ہم یہاں ہے ۔
ایم سو سوری ! روہان نے اسکے چہرے سے آنسو صاف کیے ۔
وہ آگے سے خاموش تھی ۔
مجھے نہیں پتا تھا ۔تم اتنی پریشان ہو جاو گی ! میں وعدہ کرتا ہوں میں کبھی تمھیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا کبھی نہیں ۔۔روہان نے اپنے ہاتھوں میں اسکا چہرہ لیے کھڑا اسے دلاسا دے رہا تھا
چلو ۔باہر آو ۔۔روہان اسکا ہاتھ تھامے ہوسپٹل سے باہر لے کر آیا
تم ٹھیک ہو ؟ روہان نے اس سے پوچھا
شہوار نے ہاں میں سر ہلایا ۔
ایک منٹ روکو میں پانی لاتا ہوں ۔وہ یہ کہتا ہوا واپس مڑا
روہان ۔پیچھے سے جیسے شہوار نے آواز دی وہ وہی رک گیا اور پلٹ کر اسے دیکھا ۔
پلیز کہی مت جاو ۔میرے پاس رہو شہوار نے دھبی ہوئی آواز سے کہا وہ پوری طرح ڈر چکی تھی ۔۔وہ اسے کہی بھی نہیں
جانے دینا چاہتی تھی ۔یہ سنتے ہی وہ بے اختیار مسکرایا اور شہوار کے قریب بڑھا ۔اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور اس پہ بوسہ لیا اور ایک گہری نگاہ شہوار پر ڈالی اور کہا “کچھ نہیں ہو گا روہان علی خان کو ۔۔جب تک اسکے پاس در شہوار ہے دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم سے دور نہیں کر سکتی اسنے اسکے چہرے سے گرتے ہوئے آنسوں کو پھر صاف کیا
وہ بلکل خاموش ساکت کھڑی تھی ۔
_______________________
میں تمھارے لیے دوسرے کمرے کی بکنگ کرواتا ہوں ہوٹل داخل ہوتے ہوئے روہان نے کہا ۔جیسے وہ دونوں ریسپشن کی طرف بڑھنے لگے شہوار نے کہا
نہیں رہنے دو ! یہ سنتے ہی روہان نے چونک کے پوچھا
کیا واقعی ؟ ن۔۔نہیں میرا مطلب تم کمفرٹیبل ہو
ہاں۔۔! اسنے مختصر سا جواب دیا ۔
ٹھیک ہے جیسا آپ کا حکم ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا اور ریسپشن سے کمرے کی چابی لی اور اور روم کی جانب بڑھے
کمرے میں داخل ہوتے ہی ۔۔روہان نے اپنا کورٹ اتارا
تم کچھ کھاو گی ؟
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے شہوار بیڈ پر بیٹھی تھی
ٹھیک ہو ؟ شہوار نے سوال کیا
ہاں ! ۔تم ؟ اسے درد تھا ۔۔لیکن اسکے باوجود بھی اس نے ۔شہوار کو نہیں بتایا وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
ہاں ٹھیک ہوں ۔اسنے بھی مختصر سا جواب دیا ۔
کل ہم واپس چلے جائیں گے روہان نے ۔۔آئستگی سے جواب دیا اور صوفہ کی طرف بڑھا ۔۔یہ دیکھتے ہی وہ فورا بیڈ سے اٹھی
ر ۔۔روہان تم بیڈ پہ آجاو میں صوفہ پر سو جاوں گی ۔
نہیں ۔۔نہیں کچھ نہیں ہوتا تم پر بیڈ پر سو میں یہاں کمفرٹیبل ہوں روہان نے جلدی سے کہا
نہیں ۔۔مجھے لگ رہا ہے تمھیں کندھوں میں درد ہے تو تم یہاں ۔۔زیادہ کفرٹیبل سے سو سکتے ہو۔شہوار کے بار بار اصرار کرنے پر ۔۔روہان کو بیڈ پر سونا پڑا تھا
وہ ساری رات نہیں سویا تھا ۔۔وہ اسے دیکھ رہا تھا شہوار کی آنکھوں میں نمی تھی
وہ آج میرے لیے روئی تھی ۔اسے درد ہوا تھا ۔روہان بے اختیار مسکرایا اسے پھر شہوار کی جھگڑے والی باتیں یاد آگئ ۔۔
وہ اب اسکی زندگی بن چکی تھی ۔۔جسکے بغیر ایک منٹ نہیں رہ سکتا تھا
__________________________
اسلام و علیکم عاقب نے جیسے زرش کو دیکھا وہ جلدی سے گاڑی سے نکلا
وہ یونیورسٹی سے واپس آ رہی تھی
و علیکم اسلام وہ تھوڑا سا ہچکچائی اور سلام کا جواب دیا
آپ گھر جا رہی ہیں ۔۔آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔عاقب نے اپنی آنکھوں سے کالے چشمے کا پہرا ہٹایا
نہیں شکریہ میں خود چلی جاوں گی ۔۔
کچھ نہیں ہوتا زرش میں نے بھی تو اسی راستے سے گزرنا ہے آپ کو چھوڑ دوں گا ۔”عاقب نے نرم لہجے میں کہا
وہ یہ سنتے ہی فورا بولی میں آپ کو کتنی دفعہ کہہ چکی ہوں شیان بھائی نے دیکھ لیا تو وہ غصہ کرتے ہیں لیکن آپ ہیں ایک ہی بات پر اٹکے ہیں ۔۔وہ غصے سے کہہ کر ۔آگے بڑھی ۔
اچھا ۔۔میری بات سنیں ۔۔وہ اسکے پیچھے بھاگا تھا ۔
یہ کیا حرکت ہے ۔۔مسڑ عاقب بیچ سڑک میں آپ ایسے بات کر رہے ہیں ۔وہ غصے سے مخاطب تھی
دیکھیے ۔زرش میرا کوئی غلط مطلب نہیں ہے ۔میں بس آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔
لیکن میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دئیں ایک ہفتے سے یونی کے سامنے کھڑے ۔۔رہتے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے مجھے پتا نہیں چلتا ۔
او ۔۔تم نے دیکھ لیا مجھے ۔وہ مسکرایا تھا
جی ۔۔اوارہ گردوں کی نشانی ہوتی ہے یہ ۔۔وہ ابھی بھی سخت لہجے میں عاقب سے مخاطب تھی ۔
لیکن میں اس کیٹگری میں نہیں ہوں ۔یقین کریں جیسے عاقب نے کہا
تو وہ بنا کچھ جواب دیے آگے بڑھ گئ ۔۔
_________________________
روہان اور شہوار گھر پہنچ گئے تھے اس کے آنے سے پہلے گھر میں ساریہ اور زرش انکے انتظار میں موجود تھیں جیسے وہ دونوں گھر داخل ہوئے ۔۔ان دونوں شکر ادا کیا ۔
اسلام و علیکم زرش نے آگے بڑھ کر سلام لی
کیسے ہیں آپ روہان بھائی
میں بلکل ٹھیک روہان مسکرایا
اتنے میں ساریہ بھی آگے بڑھی اور شہوار اور روہان کے گلے لگی
ٹھیک ہو تم دونوں ؟
ہاں ۔۔ساریہ ۔تمھاری بھابھی بلا مجھے کچھ ہونے دئیں گی ۔۔روہان نے جا بھوج کر مذاق میں کہا ۔
ساریہ اور زرش ہنس دی شہوار ہلکا سا مسکرائی ۔
اچھا ۔۔مجھے آفس جانا ہے ۔۔جیسے شہوار نے کہا ۔زرش اور ساریہ دونوں یکجا بولی
لیکن کیوں ابھی تو آئی ہو؟
نہیں ساریہ بہت کام ہے آفس میں کیس فاعل ۔دیکھنی ہے شہوار نے جلدی سے کہا
نہیں تم نہیں جاو گی ۔۔کل چلی جانا ویسے بھی زرش آئی ہے ۔۔ہمارے پاس روکو ۔۔
ہاں ۔۔ٹھیک کہہ رہی ہے ساریہ رک جاو ۔۔روہان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔
ٹھیک ہے شہوار نے مختصر سا جواب دیا ۔۔زرش نے روہان کی طرف دیکھا
اور اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
انھیں کیا ہوا ہے؟
روہان نے نا سمجھتے ہوئے کہہ دیا
“پتا نہیں ”
اچھا میں آپ سب کے لیے چائے لاتی ہوں شہوار نے کہا اور کچن کی جانب بڑھ گئ ۔
وہ خاموشی سے چائے بنانے مین مصروف تھی کہ اسی ثناء کے دوران روہان کچن میں داخل ہوا
میں مدد کر دوں ؟ نہیں میں خود کر لوں گی ۔شہوار نے کام کرتے ہوئے بنا دیکھے جواب دیا
کچھ ہوا ہے ؟ روہان نے نرمی سے پوچھا
کچھ نہیں ہوا ۔ جواب مختصر ملا تھا ۔۔یہ سنتے ہی اسنے ایک گہرا سانس لیا اور شہوار کا رخ اپنی طرف کیا
کیا ہوا ہے ؟ شہوار بولو ۔سچ سچ بتاو کیا ہوا ہے ؟
وہ اب اسے اسکے چہرے پر نظریں جمائے اسے غور سے دیکھ رہا تھا
شہوار نے بے اختیار اپنی نگاہیں جھکا لی۔۔
خدا کے لیے روہان مجھ سے دور رہا کرو ۔۔پلیز۔جیسے یہ الفاظ ۔روہان نے سنے ۔وہ ایک منٹ کے لیے سانس نہ لے پایا ۔درد نے اسکے دل کو دبوچا ۔لیکن پھر بھی وہ مسکرایا
کیوں ۔۔اتنی نفرت کرنے لگی ہو مجھ سے !
پتا نہیں ۔لیکن محبت نہیں۔۔یہ جواب کیسی تیر کی مانند روہان کے دل پر لگا تھا ۔۔وہ اس سے محبت کرتا تھا بے شمار اور وہ ہر روز اسکی محبت کی تذلیل کرتی ۔۔
نہیں میں تو پیچھے نہیں ہٹوں گا البتہ اور قریب آوں گا ۔کیونکہ تم میری بیوی ہو ۔اور تمھارا خیال رکھنا میرا فرض اور میں اپنی محبت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔
اسنے غصے سے اسکی طرف دیکھا اور چائے کے کپ لیے نشست گاہ کی جانب بڑھی
__________________________
اوکے ۔۔سر ٹھیک ہے میں آجاتی یونیورسٹی آجاوں گی پھر ڈسکس کر لیں گے نہیں نہیں سر اس میں تنگی والی کیا بات ہے آپ میرے استاد ہیں آپ کا حکم ماننا میرا فرض ہے ۔
شہوار نے یہ کہتے ہوئے فون بند کیا اور میز سے اپنا ضروری سامان اٹھائے ۔۔باہر کی جانب بڑھی
وہ لاء یونیورسٹی میں اینٹر ہوئی ۔ جہاں پر انھیں سٹوڈنٹس کے سامنے ایک پریزنٹشن پیش کرنی تھی ۔شہوار کے ساتھ ایک اور میل ٹیچر تھا ۔۔ان دونوں نے اکھٹے ہی ۔اس پریزنٹشن کو تیار کرنا تھا
اسلام و علیکم میں ۔۔سر فیضان رحمانی صاحب ۔۔
و علیکم اسلام میں در شہوار جیسے در شہوار نے اپنا تعارف کروایا وہ جلدی سے بولا
او آپ تو سنئیر وکیل ہیں ناں ۔۔
جی ۔۔وہ مسکراتی ہوئے بولی
یہ بہت اچھا ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ موقع ملا ۔۔پریزنٹشن دینے کا ۔
شکریہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔فیضان صاحب میں کہہ رہی تھی ۔کہ یہ پریزنٹشن بیسٹ ہونی چاہیے کیونکہ بہت سے سٹوڈنٹس ہیں تو میں چاہتی ہوں اچھے سے ہو جائیں ۔لیکن میرے آفس جانے سے میں یونئ کے ٹائم تو نہیں آ سکتی ۔ایسا کریں ۔۔جو بھی ایمپورٹنٹ پوائنٹس ڈسکس کرنے ہوں گے وہ کل آپ ہمارے گھر آ جائیے گا ۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپ مناسب سمجھے لیکن ۔وہ آپ کے ہیزبینڈ پولیس میں ہیں یہ سنتے ہی شہوار نے قہقا لگایا
جی ۔۔پولیس میں ہیں لیکن صرف ایک دن کی بات ۔ہے کچھ نہیں ہو گا شہوار نے کہا اور باہر یونی سے نکلی ۔
_____________________
پریزنٹشن ۔۔اچھا ۔۔۔تم دونوں نے اکھٹی دینی ہے ۔۔روہان نے جلدی سے پوچھا
ہاں اکھٹی ۔۔
اچھا ۔۔ہو گیا۔ایک ساتھ کھڑے ہو کر ۔۔میرا مطلب ہے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر ۔روہان نے اٹکتے ہوئے کہا
ہاں اکھٹی کر رہے ہیں تو مطلب ساتھ کھڑے ہوں کر دئیں گے شہوار چونکی
او۔۔۔اچھا ۔۔تو فاصلہ تو بہت کم ہو گا ۔۔اسنے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا
کیا مطلب ؟ شہوار نے حیرت سے روہان کو دیکھا
اب تو ۔۔فیضان صاحب نہیں روہان صاحب ہی پریزنٹشن دئیں گے روہان نے آئیستہ سے کہا
یہ سنتے ہی شہوار فورا بولی
کیا کہا؟
کچھ نہیں روہان نے بات خو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
_______
فیضان صاحب پریزینٹیشن دئیں گے شہوار کے ساتھ! اسنے میز پر پڑی چیزوں پر غصہ نکالا عاقب جو بہت دیر اسے دیکھ رہا تھا آخر کار بولا
ہو گیا جوش پورا نکال لیا غصہ کیا ہو گیا ہے روہان وہ دونوں کولیگیز ہیں تو اور کیا تم پریزنٹشن دو گے جیسے عاقب نے کہا روہان نے ایک عجیب سی مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا یہ دیکھتے ہئ عاقب فورا بولا
نہیں ۔روہان نہیں ۔۔
ہاں ۔۔عاقب ہاں ۔۔اب یہی ہو گا وہ ہنستے ہوئے چئیر سے اٹھا
کمینے تو دے گا پریزنٹشن ! عاقب چونکا
ہاں ۔۔اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے ۔۔اسنے عاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ابھے یار ۔۔تو پاگل تو نہیں ہو گیا
ہاں ! وہ میری ہے تو میں کیسے اسے کیسی اور کے ساتھ کھڑا ہوتا دیکھ سکتا ہوں ۔روہان نے ۔اپنے ہاتھوں کو دباتے ہوئے کہا
تو یار ۔وہ کونسا کیسی اور کی ہے شہوار صرف تمھاری ہے میرے یار اور اس غریب کا کیا جو اتنے دن سے تیاری کر رہا ہے ۔عاقب نے الجھنے ہوئے کہا
اسکا ۔۔! تم فکر مت کرو فیضان صاحب کا بندوبست ہو جائے ۔گا روہان نے لاپروائی سے کہا
اچھا ۔۔پتا ہے لاء کیا ہوتا ہے ؟ عاقب نے جلدی سے سوال کیا وہ پوری طرح ۔روہان کی طرف متوجہ تھا
لو۔۔یہ کونسا مشکل ہے ۔۔قانون سازی پر گفتگو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے عاقب صاحب ۔محبت میں گرفتار انسان کا اپنی محبت کو حاصل کرنے کا حصول ۔۔یہ سنتے ہی ۔۔عاقب نے چونک کر کہا
تو یہ ۔۔پریزنٹشن دے گا ۔میرے یار ۔کیوں جوتے کھانے ہیں ۔۔عاقب اب روہان کے پہلوں میں بیٹھا تھا
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
یہ وہ آتش ہے غالب جو لگائے نہ لگے اور بجائے نہ بجے ۔۔
استغفراللہ ۔۔یا اللہ ۔خیر ۔اب جو آگ لگی گی وہ نہ تو غالب اور نہ ہی کوئی اور بجا پائے گا ۔۔عاقب نے بے اختیار کہا
______________________
یہ لیں صاحب یہ ساری بکس آ گئ ۔۔پولیس کانسٹیبل نے ٹیبل پر ساری لاء کی بکس رکھی ۔۔
روہان سگریٹ سلگا رہا تھا ۔۔اسنے چئیر سے ٹیک ہٹائی اور آگے ہو کر ۔۔بکس دیکھا
ابھے یہ تو بہت زیادہ ہے ؟
سر جی یہ تو بہت کم ہیں دکان والا تو اور دے رہا تھا ۔ویسے سر آپ نے یہ قانون کی کتابیں کیا کرنی ہیں جیسے پولیس کانسٹیبل نے پوچھا وہ فورا بولا
کیا بتاوں کیا کرنا ہے خیر چھوڑو ۔۔ٹائم کتنا ہوا ہے
سر ۔۔12بجنے میں ابھی دس منٹ ہے ۔۔
مطلب پریزنٹشن 2 گھنٹے بعد شروع ہو گی ۔۔اب اتنے سے ٹائم میں یہ ساری کیسی پڑھوں گا ۔۔
ارسلان یہ بکس واپس کر کے ۔۔آو ۔۔اور میرے ساتھ چلو
وہ دونوں ۔۔گاڑی میں بیٹھ کر یونی کی طرف بڑھے جیسے روہان نے یونیورسٹی پہنچا اسکے قدم وہی رک گئے
اسنے اپنی آنکھوں سے چشمے کا پہرا ہٹایا ۔اسقدر روہان کو غصہ آیا تھا کہ پولیس کانسٹیبل دو قدم پڑے ہٹے
ایک سکنڈ سے اوپر اس نے شہوار کا ہاتھ پکڑا اب اسکا ہاتھ نہیں بچے گا وہ یہ کہتا ہوا آگے ان دونوں کی طرف بڑھا
شہوار اور فیضان آپس میں کچھ ڈسکس کر رہے تھے جب روہان نے آکر سلام لی
شہوار نے چونک کر اسے دیکھا
آپ؟ شہوار نے فیضان کے سامنے اسے ادب سے مخاطب کیا
جی میں ۔ و۔۔۔وہ ہو گئ تیاری ۔۔کیوں فیضان صاحب روہان نے ایک انوکھی سے مسکراہٹ سے اسے دیکھا فیضان یہ دیکھ کر ہچکچایا اور اٹکتی ہوئی آواز میں بولا
ج۔۔جی۔ہو گئ تیاری ۔
گڈ ۔۔سب کچھ یاد ہے ناں ۔۔جیسے پھر روہان نے سوال کیا شہوار فورا سے بولی
کیوں کیا ہوا ہے روہان ۔۔فیضان نے بہت اچھے سے تیاری کی ہے ان فکیٹ ہم دونوں نے شہوار نے جان بھوج کر طنز کیا تھا
میں نے بھی بہت اچھی تیاری کی ہے روہان نے دھبی آواز سے کہا
کیا کہا؟ شہوار نے جلدی سے ہوچھا
ن۔۔نہیں کچھ نہیں ٹھیک ہے میں چلتا ہوں بیسٹ آف لک فیضان صاحب کہ آپ میری بیوی کے ساتھ پریزنٹشن دے رہے ہیں اسنے یہ کہتے ہوئے آنکھوں پہ پھر کالہ چشما لگایا اور یونیورسٹی سے باہر آتے ہی اسنے پولیس کانسٹیبل کو کہا
دیکھ لیا بندہ؟
جی سر ۔
جاری ہے
جیسے شہوار نے اپنا قدم ہوسپٹل میں بڑھایا ۔وہ وہی کھڑی ہو کر رہ گئ
وہ سامنے کھڑا تھا ۔۔اسے کچھ نہیں ہوا تھا وہ ٹھیک تھا ۔روہان اور دیگر پولیس والے لوگوں کو سنبھال رہے تھے ہوسپٹل میں بہت زیادہ رش تھا اور اس موقع کو سنبھالنے کے لیے ۔۔پولیس والے وہاں موجود تھے ۔۔
روہان کو دیکھتے ہی ۔۔شہوار کو سانس میں سانس آئی اسے یوں معلوم ہوا جیسے ۔اسکے حلق میں رکتی ہوئی سانسیں دوبارہ بحال ہو گئ تھی ۔۔اسنے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔ اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا
روہان کی نظر جیسے شہوار پر پڑی ۔وہ بلکل چونک گیا ۔اسے اس حالت میں دیکھ کر ۔۔اور جلدی سے دو چار قدم بڑھاتا ہوا اسکی طرف بڑھا
شہوار وہی کھڑی ۔تھی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے
ش۔۔۔شہوار تم یہاں ؟ کیا ہوا ہے ۔ت۔۔۔تم ٹھیک تو ہو روہان نے جیسے کہا شہوار بے اختیار اسکے گلے لگ گئ ۔۔اور زور زور سے رونے لگی ۔۔
روہان نے اسے مضبوطی سے پکڑا تھا اور ۔۔اس سے پوچھ رہا تھا
ش۔۔۔شہوار کیا ہوا ہے بولو ۔۔مجھے بتاو تو سہی سب کچھ ٹھیک تو ہے؟ کیسی نے کچھ کہا؟
اسے بلکل پروا نہیں تھی کہ کون اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں بس اسے ۔۔روہان کی پروا تھی ۔۔
ت۔۔۔تم نے ایسا کیوں کیا ؟ شہوار نے اٹکتی آواز میں کہا وہ ابھی تک اسکے گلے لگی تھی ۔
کیا ہوا ہے شہوار پلیز بتاو ۔۔ روہان کے دوبارہ پوچھنے پر وہ پیچھے ہٹی اور بچوں کی طرح اسکے سینے پر بے اختیار ضربیں لگائی
بہت مزہ آتا ہے ناں مجھے تنگ کرنے کا بولو روہان علی خان ۔۔مجھ سے بدلہ لینے کا ۔ایسے بھی کوئی تنگ کرتا ہے اتنی فون کالز کی تمھیں لیکن مجال ہے ایک کا بھی آنسر دیا ہو ۔۔میری جان نکلی جا رہی تھی ۔
شہوار نے ۔۔روتے ہوئے کہا
آو۔۔۔میرا فون ۔۔روہان نے یہ کہتے ہوئے اپنی پاکٹ چیک کی ۔۔
افف۔۔لگتا ہے جھرمٹ میں میرا فون گر گیا ۔۔سوری مجھے تمھیں اطلاع کرنی چاہیے تھی اصل میں ٹائم ہی نہیں ملا ۔کل سے ہم یہاں ہے ۔
ایم سو سوری ! روہان نے اسکے چہرے سے آنسو صاف کیے ۔
وہ آگے سے خاموش تھی ۔
مجھے نہیں پتا تھا ۔تم اتنی پریشان ہو جاو گی ! میں وعدہ کرتا ہوں میں کبھی تمھیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا کبھی نہیں ۔۔روہان نے اپنے ہاتھوں میں اسکا چہرہ لیے کھڑا اسے دلاسا دے رہا تھا
چلو ۔باہر آو ۔۔روہان اسکا ہاتھ تھامے ہوسپٹل سے باہر لے کر آیا
تم ٹھیک ہو ؟ روہان نے اس سے پوچھا
شہوار نے ہاں میں سر ہلایا ۔
ایک منٹ روکو میں پانی لاتا ہوں ۔وہ یہ کہتا ہوا واپس مڑا
روہان ۔پیچھے سے جیسے شہوار نے آواز دی وہ وہی رک گیا اور پلٹ کر اسے دیکھا ۔
پلیز کہی مت جاو ۔میرے پاس رہو شہوار نے دھبی ہوئی آواز سے کہا وہ پوری طرح ڈر چکی تھی ۔۔وہ اسے کہی بھی نہیں
جانے دینا چاہتی تھی ۔یہ سنتے ہی وہ بے اختیار مسکرایا اور شہوار کے قریب بڑھا ۔اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور اس پہ بوسہ لیا اور ایک گہری نگاہ شہوار پر ڈالی اور کہا “کچھ نہیں ہو گا روہان علی خان کو ۔۔جب تک اسکے پاس در شہوار ہے دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم سے دور نہیں کر سکتی اسنے اسکے چہرے سے گرتے ہوئے آنسوں کو پھر صاف کیا
وہ بلکل خاموش ساکت کھڑی تھی ۔
_______________________
میں تمھارے لیے دوسرے کمرے کی بکنگ کرواتا ہوں ہوٹل داخل ہوتے ہوئے روہان نے کہا ۔جیسے وہ دونوں ریسپشن کی طرف بڑھنے لگے شہوار نے کہا
نہیں رہنے دو ! یہ سنتے ہی روہان نے چونک کے پوچھا
کیا واقعی ؟ ن۔۔نہیں میرا مطلب تم کمفرٹیبل ہو
ہاں۔۔! اسنے مختصر سا جواب دیا ۔
ٹھیک ہے جیسا آپ کا حکم ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا اور ریسپشن سے کمرے کی چابی لی اور اور روم کی جانب بڑھے
کمرے میں داخل ہوتے ہی ۔۔روہان نے اپنا کورٹ اتارا
تم کچھ کھاو گی ؟
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے شہوار بیڈ پر بیٹھی تھی
ٹھیک ہو ؟ شہوار نے سوال کیا
ہاں ! ۔تم ؟ اسے درد تھا ۔۔لیکن اسکے باوجود بھی اس نے ۔شہوار کو نہیں بتایا وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
ہاں ٹھیک ہوں ۔اسنے بھی مختصر سا جواب دیا ۔
کل ہم واپس چلے جائیں گے روہان نے ۔۔آئستگی سے جواب دیا اور صوفہ کی طرف بڑھا ۔۔یہ دیکھتے ہی وہ فورا بیڈ سے اٹھی
ر ۔۔روہان تم بیڈ پہ آجاو میں صوفہ پر سو جاوں گی ۔
نہیں ۔۔نہیں کچھ نہیں ہوتا تم پر بیڈ پر سو میں یہاں کمفرٹیبل ہوں روہان نے جلدی سے کہا
نہیں ۔۔مجھے لگ رہا ہے تمھیں کندھوں میں درد ہے تو تم یہاں ۔۔زیادہ کفرٹیبل سے سو سکتے ہو۔شہوار کے بار بار اصرار کرنے پر ۔۔روہان کو بیڈ پر سونا پڑا تھا
وہ ساری رات نہیں سویا تھا ۔۔وہ اسے دیکھ رہا تھا شہوار کی آنکھوں میں نمی تھی
وہ آج میرے لیے روئی تھی ۔اسے درد ہوا تھا ۔روہان بے اختیار مسکرایا اسے پھر شہوار کی جھگڑے والی باتیں یاد آگئ ۔۔
وہ اب اسکی زندگی بن چکی تھی ۔۔جسکے بغیر ایک منٹ نہیں رہ سکتا تھا
__________________________
اسلام و علیکم عاقب نے جیسے زرش کو دیکھا وہ جلدی سے گاڑی سے نکلا
وہ یونیورسٹی سے واپس آ رہی تھی
و علیکم اسلام وہ تھوڑا سا ہچکچائی اور سلام کا جواب دیا
آپ گھر جا رہی ہیں ۔۔آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔عاقب نے اپنی آنکھوں سے کالے چشمے کا پہرا ہٹایا
نہیں شکریہ میں خود چلی جاوں گی ۔۔
کچھ نہیں ہوتا زرش میں نے بھی تو اسی راستے سے گزرنا ہے آپ کو چھوڑ دوں گا ۔”عاقب نے نرم لہجے میں کہا
وہ یہ سنتے ہی فورا بولی میں آپ کو کتنی دفعہ کہہ چکی ہوں شیان بھائی نے دیکھ لیا تو وہ غصہ کرتے ہیں لیکن آپ ہیں ایک ہی بات پر اٹکے ہیں ۔۔وہ غصے سے کہہ کر ۔آگے بڑھی ۔
اچھا ۔۔میری بات سنیں ۔۔وہ اسکے پیچھے بھاگا تھا ۔
یہ کیا حرکت ہے ۔۔مسڑ عاقب بیچ سڑک میں آپ ایسے بات کر رہے ہیں ۔وہ غصے سے مخاطب تھی
دیکھیے ۔زرش میرا کوئی غلط مطلب نہیں ہے ۔میں بس آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔
لیکن میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دئیں ایک ہفتے سے یونی کے سامنے کھڑے ۔۔رہتے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے مجھے پتا نہیں چلتا ۔
او ۔۔تم نے دیکھ لیا مجھے ۔وہ مسکرایا تھا
جی ۔۔اوارہ گردوں کی نشانی ہوتی ہے یہ ۔۔وہ ابھی بھی سخت لہجے میں عاقب سے مخاطب تھی ۔
لیکن میں اس کیٹگری میں نہیں ہوں ۔یقین کریں جیسے عاقب نے کہا
تو وہ بنا کچھ جواب دیے آگے بڑھ گئ ۔۔
_________________________
روہان اور شہوار گھر پہنچ گئے تھے اس کے آنے سے پہلے گھر میں ساریہ اور زرش انکے انتظار میں موجود تھیں جیسے وہ دونوں گھر داخل ہوئے ۔۔ان دونوں شکر ادا کیا ۔
اسلام و علیکم زرش نے آگے بڑھ کر سلام لی
کیسے ہیں آپ روہان بھائی
میں بلکل ٹھیک روہان مسکرایا
اتنے میں ساریہ بھی آگے بڑھی اور شہوار اور روہان کے گلے لگی
ٹھیک ہو تم دونوں ؟
ہاں ۔۔ساریہ ۔تمھاری بھابھی بلا مجھے کچھ ہونے دئیں گی ۔۔روہان نے جا بھوج کر مذاق میں کہا ۔
ساریہ اور زرش ہنس دی شہوار ہلکا سا مسکرائی ۔
اچھا ۔۔مجھے آفس جانا ہے ۔۔جیسے شہوار نے کہا ۔زرش اور ساریہ دونوں یکجا بولی
لیکن کیوں ابھی تو آئی ہو؟
نہیں ساریہ بہت کام ہے آفس میں کیس فاعل ۔دیکھنی ہے شہوار نے جلدی سے کہا
نہیں تم نہیں جاو گی ۔۔کل چلی جانا ویسے بھی زرش آئی ہے ۔۔ہمارے پاس روکو ۔۔
ہاں ۔۔ٹھیک کہہ رہی ہے ساریہ رک جاو ۔۔روہان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔
ٹھیک ہے شہوار نے مختصر سا جواب دیا ۔۔زرش نے روہان کی طرف دیکھا
اور اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
انھیں کیا ہوا ہے؟
روہان نے نا سمجھتے ہوئے کہہ دیا
“پتا نہیں ”
اچھا میں آپ سب کے لیے چائے لاتی ہوں شہوار نے کہا اور کچن کی جانب بڑھ گئ ۔
وہ خاموشی سے چائے بنانے مین مصروف تھی کہ اسی ثناء کے دوران روہان کچن میں داخل ہوا
میں مدد کر دوں ؟ نہیں میں خود کر لوں گی ۔شہوار نے کام کرتے ہوئے بنا دیکھے جواب دیا
کچھ ہوا ہے ؟ روہان نے نرمی سے پوچھا
کچھ نہیں ہوا ۔ جواب مختصر ملا تھا ۔۔یہ سنتے ہی اسنے ایک گہرا سانس لیا اور شہوار کا رخ اپنی طرف کیا
کیا ہوا ہے ؟ شہوار بولو ۔سچ سچ بتاو کیا ہوا ہے ؟
وہ اب اسے اسکے چہرے پر نظریں جمائے اسے غور سے دیکھ رہا تھا
شہوار نے بے اختیار اپنی نگاہیں جھکا لی۔۔
خدا کے لیے روہان مجھ سے دور رہا کرو ۔۔پلیز۔جیسے یہ الفاظ ۔روہان نے سنے ۔وہ ایک منٹ کے لیے سانس نہ لے پایا ۔درد نے اسکے دل کو دبوچا ۔لیکن پھر بھی وہ مسکرایا
کیوں ۔۔اتنی نفرت کرنے لگی ہو مجھ سے !
پتا نہیں ۔لیکن محبت نہیں۔۔یہ جواب کیسی تیر کی مانند روہان کے دل پر لگا تھا ۔۔وہ اس سے محبت کرتا تھا بے شمار اور وہ ہر روز اسکی محبت کی تذلیل کرتی ۔۔
نہیں میں تو پیچھے نہیں ہٹوں گا البتہ اور قریب آوں گا ۔کیونکہ تم میری بیوی ہو ۔اور تمھارا خیال رکھنا میرا فرض اور میں اپنی محبت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔
اسنے غصے سے اسکی طرف دیکھا اور چائے کے کپ لیے نشست گاہ کی جانب بڑھی
__________________________
اوکے ۔۔سر ٹھیک ہے میں آجاتی یونیورسٹی آجاوں گی پھر ڈسکس کر لیں گے نہیں نہیں سر اس میں تنگی والی کیا بات ہے آپ میرے استاد ہیں آپ کا حکم ماننا میرا فرض ہے ۔
شہوار نے یہ کہتے ہوئے فون بند کیا اور میز سے اپنا ضروری سامان اٹھائے ۔۔باہر کی جانب بڑھی
وہ لاء یونیورسٹی میں اینٹر ہوئی ۔ جہاں پر انھیں سٹوڈنٹس کے سامنے ایک پریزنٹشن پیش کرنی تھی ۔شہوار کے ساتھ ایک اور میل ٹیچر تھا ۔۔ان دونوں نے اکھٹے ہی ۔اس پریزنٹشن کو تیار کرنا تھا
اسلام و علیکم میں ۔۔سر فیضان رحمانی صاحب ۔۔
و علیکم اسلام میں در شہوار جیسے در شہوار نے اپنا تعارف کروایا وہ جلدی سے بولا
او آپ تو سنئیر وکیل ہیں ناں ۔۔
جی ۔۔وہ مسکراتی ہوئے بولی
یہ بہت اچھا ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ موقع ملا ۔۔پریزنٹشن دینے کا ۔
شکریہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔فیضان صاحب میں کہہ رہی تھی ۔کہ یہ پریزنٹشن بیسٹ ہونی چاہیے کیونکہ بہت سے سٹوڈنٹس ہیں تو میں چاہتی ہوں اچھے سے ہو جائیں ۔لیکن میرے آفس جانے سے میں یونئ کے ٹائم تو نہیں آ سکتی ۔ایسا کریں ۔۔جو بھی ایمپورٹنٹ پوائنٹس ڈسکس کرنے ہوں گے وہ کل آپ ہمارے گھر آ جائیے گا ۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپ مناسب سمجھے لیکن ۔وہ آپ کے ہیزبینڈ پولیس میں ہیں یہ سنتے ہی شہوار نے قہقا لگایا
جی ۔۔پولیس میں ہیں لیکن صرف ایک دن کی بات ۔ہے کچھ نہیں ہو گا شہوار نے کہا اور باہر یونی سے نکلی ۔
_____________________
پریزنٹشن ۔۔اچھا ۔۔۔تم دونوں نے اکھٹی دینی ہے ۔۔روہان نے جلدی سے پوچھا
ہاں اکھٹی ۔۔
اچھا ۔۔ہو گیا۔ایک ساتھ کھڑے ہو کر ۔۔میرا مطلب ہے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر ۔روہان نے اٹکتے ہوئے کہا
ہاں اکھٹی کر رہے ہیں تو مطلب ساتھ کھڑے ہوں کر دئیں گے شہوار چونکی
او۔۔۔اچھا ۔۔تو فاصلہ تو بہت کم ہو گا ۔۔اسنے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا
کیا مطلب ؟ شہوار نے حیرت سے روہان کو دیکھا
اب تو ۔۔فیضان صاحب نہیں روہان صاحب ہی پریزنٹشن دئیں گے روہان نے آئیستہ سے کہا
یہ سنتے ہی شہوار فورا بولی
کیا کہا؟
کچھ نہیں روہان نے بات خو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
_______
فیضان صاحب پریزینٹیشن دئیں گے شہوار کے ساتھ! اسنے میز پر پڑی چیزوں پر غصہ نکالا عاقب جو بہت دیر اسے دیکھ رہا تھا آخر کار بولا
ہو گیا جوش پورا نکال لیا غصہ کیا ہو گیا ہے روہان وہ دونوں کولیگیز ہیں تو اور کیا تم پریزنٹشن دو گے جیسے عاقب نے کہا روہان نے ایک عجیب سی مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا یہ دیکھتے ہئ عاقب فورا بولا
نہیں ۔روہان نہیں ۔۔
ہاں ۔۔عاقب ہاں ۔۔اب یہی ہو گا وہ ہنستے ہوئے چئیر سے اٹھا
کمینے تو دے گا پریزنٹشن ! عاقب چونکا
ہاں ۔۔اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے ۔۔اسنے عاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ابھے یار ۔۔تو پاگل تو نہیں ہو گیا
ہاں ! وہ میری ہے تو میں کیسے اسے کیسی اور کے ساتھ کھڑا ہوتا دیکھ سکتا ہوں ۔روہان نے ۔اپنے ہاتھوں کو دباتے ہوئے کہا
تو یار ۔وہ کونسا کیسی اور کی ہے شہوار صرف تمھاری ہے میرے یار اور اس غریب کا کیا جو اتنے دن سے تیاری کر رہا ہے ۔عاقب نے الجھنے ہوئے کہا
اسکا ۔۔! تم فکر مت کرو فیضان صاحب کا بندوبست ہو جائے ۔گا روہان نے لاپروائی سے کہا
اچھا ۔۔پتا ہے لاء کیا ہوتا ہے ؟ عاقب نے جلدی سے سوال کیا وہ پوری طرح ۔روہان کی طرف متوجہ تھا
لو۔۔یہ کونسا مشکل ہے ۔۔قانون سازی پر گفتگو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے عاقب صاحب ۔محبت میں گرفتار انسان کا اپنی محبت کو حاصل کرنے کا حصول ۔۔یہ سنتے ہی ۔۔عاقب نے چونک کر کہا
تو یہ ۔۔پریزنٹشن دے گا ۔میرے یار ۔کیوں جوتے کھانے ہیں ۔۔عاقب اب روہان کے پہلوں میں بیٹھا تھا
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
یہ وہ آتش ہے غالب جو لگائے نہ لگے اور بجائے نہ بجے ۔۔
استغفراللہ ۔۔یا اللہ ۔خیر ۔اب جو آگ لگی گی وہ نہ تو غالب اور نہ ہی کوئی اور بجا پائے گا ۔۔عاقب نے بے اختیار کہا
______________________
یہ لیں صاحب یہ ساری بکس آ گئ ۔۔پولیس کانسٹیبل نے ٹیبل پر ساری لاء کی بکس رکھی ۔۔
روہان سگریٹ سلگا رہا تھا ۔۔اسنے چئیر سے ٹیک ہٹائی اور آگے ہو کر ۔۔بکس دیکھا
ابھے یہ تو بہت زیادہ ہے ؟
سر جی یہ تو بہت کم ہیں دکان والا تو اور دے رہا تھا ۔ویسے سر آپ نے یہ قانون کی کتابیں کیا کرنی ہیں جیسے پولیس کانسٹیبل نے پوچھا وہ فورا بولا
کیا بتاوں کیا کرنا ہے خیر چھوڑو ۔۔ٹائم کتنا ہوا ہے
سر ۔۔12بجنے میں ابھی دس منٹ ہے ۔۔
مطلب پریزنٹشن 2 گھنٹے بعد شروع ہو گی ۔۔اب اتنے سے ٹائم میں یہ ساری کیسی پڑھوں گا ۔۔
ارسلان یہ بکس واپس کر کے ۔۔آو ۔۔اور میرے ساتھ چلو
وہ دونوں ۔۔گاڑی میں بیٹھ کر یونی کی طرف بڑھے جیسے روہان نے یونیورسٹی پہنچا اسکے قدم وہی رک گئے
اسنے اپنی آنکھوں سے چشمے کا پہرا ہٹایا ۔اسقدر روہان کو غصہ آیا تھا کہ پولیس کانسٹیبل دو قدم پڑے ہٹے
ایک سکنڈ سے اوپر اس نے شہوار کا ہاتھ پکڑا اب اسکا ہاتھ نہیں بچے گا وہ یہ کہتا ہوا آگے ان دونوں کی طرف بڑھا
شہوار اور فیضان آپس میں کچھ ڈسکس کر رہے تھے جب روہان نے آکر سلام لی
شہوار نے چونک کر اسے دیکھا
آپ؟ شہوار نے فیضان کے سامنے اسے ادب سے مخاطب کیا
جی میں ۔ و۔۔۔وہ ہو گئ تیاری ۔۔کیوں فیضان صاحب روہان نے ایک انوکھی سے مسکراہٹ سے اسے دیکھا فیضان یہ دیکھ کر ہچکچایا اور اٹکتی ہوئی آواز میں بولا
ج۔۔جی۔ہو گئ تیاری ۔
گڈ ۔۔سب کچھ یاد ہے ناں ۔۔جیسے پھر روہان نے سوال کیا شہوار فورا سے بولی
کیوں کیا ہوا ہے روہان ۔۔فیضان نے بہت اچھے سے تیاری کی ہے ان فکیٹ ہم دونوں نے شہوار نے جان بھوج کر طنز کیا تھا
میں نے بھی بہت اچھی تیاری کی ہے روہان نے دھبی آواز سے کہا
کیا کہا؟ شہوار نے جلدی سے ہوچھا
ن۔۔نہیں کچھ نہیں ٹھیک ہے میں چلتا ہوں بیسٹ آف لک فیضان صاحب کہ آپ میری بیوی کے ساتھ پریزنٹشن دے رہے ہیں اسنے یہ کہتے ہوئے آنکھوں پہ پھر کالہ چشما لگایا اور یونیورسٹی سے باہر آتے ہی اسنے پولیس کانسٹیبل کو کہا
دیکھ لیا بندہ؟
جی سر ۔
جاری ہے