کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 16
کیا ؟ زرش نے چونکتے ہوئے کہا
پتا نہیں زری میں اسکے سامنے یہ نہیں کہنا چاہتی تھی لیکن پتا نہیں ۔ مجھے بلکل معلوم نہیں پڑا ۔۔
آپی ۔۔آپ اندازہ لگا سکتی ہئں روہان بھائی کو کس قدر تکلیف ہو گی ۔۔اسکی محبت پر کیا بیتی ہو گی
اور آپ اس کمینے شخص کی جھوٹی محبت پر روئی تھی جس نے آپ کو بیچ راستے پر لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا ۔۔
مجبوری ہو گی؟ ۔۔
کیا مجبوری ۔۔۔خدا کے لیے محبت میں مجبوریاں نہیں دیکھی جاتی در شہوار ۔اور جہاں مجبوریاں ہوں وہاں محبتیں نہیں ہوا کرتی اور آپ اب بھی شیان فراز کی محبت کو مجبوری کا نام دے رہی ہیں ۔۔مجھے دکھ ہو رہا ہے وہ آپ کے پیچھے اپنی دنیا لوٹانے کو تیار ہے
لیکن آپ ۔۔ماضی کی بیتی ہوئی یادوں کو دل میں لیے ہوئی ہیں
کیا بیگاڑا ہے اسنے ۔۔
اانکی آنکھوں میں آنسو تھے ؟
پتا نہیں ۔۔
وہ اٹھ کے چلے گئے تھے ۔۔ناں
ہاں باہر چلا گیا ہے ۔۔
جائیں پلیز۔اور معافی مانگیں ۔۔خدا کے لیے اور چھوڑ دئیں کوئی نہیں آپ کا سوائے روہان کے
زرش کے کہنے پر ۔وہ فورا کمرے سے باہر نکلی ۔۔
نہیں مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا شیان فراز کا نام ۔۔اسکو بہت برا لگا ہو گا ۔۔میں کیسے اس شخص کے لیے رو سکتی ہوں ۔۔روہان ہی میرا حال ہے شہوار وہ سوچتی ہوئی اپنے قدم بڑھا رہی تھی جیسے اسنے کمرے کا دروازہ کھولا
کمرے میں اندھیرہ تھا ۔۔۔وہ۔جیسے اندر داخل ہوئی ۔
اسنے فورا کہا ۔
شہوار اندر آ جاو ۔۔۔
تمھیں کیسے پتا چلا ۔۔میں ہوں شہوار نے جھٹ سے پوچھا
تمھارا احساس ! تمھارے وجود ۔۔کو میں محسوس کر سکتا ہوں ۔۔اور اپنی محبت کو کون نہیں پہنچاتا
وہ اسکے قریب چئیر پر بیٹھی تھی
و۔۔۔وہ میں نے تم سے کچھ کہنا تھا ۔۔ شہوار نے اٹکتے ہوئے کہا
کچھ نہیں ہوتا ۔۔
تم ناراض تو نہیں ۔۔شہوار نے جیسے پوچھا وہ بے اختیار مسکرایا
بھلا میں تم سے ناراض کیسے رہ سکتا ہوں ۔۔
ایم سوری ۔۔مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا ۔
اٹس اوکے
_______________________
ایک منٹ آپ کو میرا نمبر کیس نے دیا۔۔زرش نے غصے سے کہا
عاقب ۔۔ہلکا سا مسکرایا اور کہا
بس ۔۔مل گیا ۔
میں آپ کو وارن کر رہی ہوں مسڑ عاقب اس طرح کی بے شرمیوں کو بند کریں
میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔عاقب نے جیسے کہا وہ بھڑک اٹھی
اپنی حد میں رہیے ۔۔ورنہ میں روہان بھائی کو بتا دوں گی ۔ سن لیا زرش نے یہ کہتے ہوئے غصے سے فون بند کیا
کہ اسی ثناء کے دوران شیان اسکے کمرے میں داخل ہوا
تمھیں باہر چاچی جان بلا رہی ہیں ۔
اسنے چونک کے شیان کی طرف دیکھا
کیوں؟ خریت ہے ۔۔
پتا نہیں شیان نے کہا اور کمرے سے باہر چل دیا
یا اللہ خیر ۔۔زرش نے کہا اور اسکے پیچھے پیچھے نیچے آگئ
نیچے ۔۔شیان ۔فراز صاحب ۔سکینہ بیگم اور شیان کی والدہ موجود تھے ۔۔
وہ سب یہ منظر دیکھ کر ہچکچائی ۔۔اور پھر آگے بڑھی
اسلام و علیکم زرش نے ادب سے سلام لی اور اپنی والدہ کے پہلوں میں بیٹھ گئ
و علیکم اسلام فراز صاحب نے کہا اور اپنے گلے کو صاف کرتے ہوئے زرش سے مخاطب ہوئے
تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے زرش
جی کرئیے تایا جان !
ہم نے فیصلہ کیا ہے فراز صاحب نے نظریں چراتے ہوئے کہا
کون سا فیصلہ اور کیسا فیصلہ؟ زرش نے حیرت سے سب کے چہروں کو دیکھا
یہی کہ تمھارا نکاح شیان سے پڑھوادیا جائے ۔۔جیسے یہ الفاظ فراز صاحب کی زبان سے نکلے زرش ایک دم سمٹ کر
رہ گئ ۔۔اسکے وجود پر غصے کی لرزش تھی
“یہ نکاح نہیں ہو سکتا تایا جان ۔۔میں آپ کے حکم کی تعمیل نہیں کر سکتی ” زرش نے غصے سے شیان کو دیکھتے ہوئے کہا
یہ کیا بکواس کر رہی ہو زرش ۔۔سکینہ بیگم نے ۔گفتگو میں دخل اندازی کی
می بس ۔۔آپ مت بولیں ۔۔آپ تو کچھ کہے گی نہیں اسلیے مجھے ہی بتا دینے دئیں
تایا جان میں ہرگز ایک ایسے شخص سے شادی نہیں کرنا چاہوں گی ۔۔جو شک میں ڈوبا ہو جیسے اپنے علاوہ باقی سب جھوٹیں دیکھتے ہوں ۔۔جو دوسروں کے جذباتوں کی قدر نہ کرے ۔اور سب سے بڑھ کر انہوں نے میری آپی کی زندگی برباد کر کے رکھ دی دو سکینڈ بھی نہیں لگائے تھے انھیں اپنی زندگی سے نکالنے میں ۔۔اور آپ کہہ رہیے میں اس شخص سے نکاح کروں نہیں میں مر جاون گی لیکن یہ بات کبھی نہیں قبول کروں گی
زرش نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئ
فراز صاھب بھی غصے سے اٹھ کے چلے گئے
ویسے ۔۔سکینہ تمھاری بیٹی بھی کم نہیں ہے کیا کمی ہے میرے شیان میں جو اسطرح نکھرے دیکھا رہی ہے ہمیں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے ۔۔وہ تو اپنا سوچ کے کہ بن باپ کی بیٹیاں ہیں ۔۔۔تھوڑا ترس کھا لیں ورنہ ہم مرے تو نہیں جا رہے ۔شیان کی والدہ نے اچھا خاچا طنز کیا تھا ۔۔سکینہ بیگم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں
______________________
آج اس نے مجھے اٹھایا نہیں ہے میگی کھانے کے لیے شہوار نے سوچا ۔۔وہ اس سے بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن روہان تب سے خاموش تھا۔۔ جیسے اس سے پہلے مذاق کرتا تھا ۔۔وہ نہیں کر رہا تھا ۔۔
آخر کار شہوار اٹھی اور اسکے قریب گئ ۔۔وہ لیٹا ہوا تھا ۔۔آنکھیں موندی ہوئی ۔۔وہ واپس پلٹی اور پھر رکی ۔۔اور اسکی طرف دوبارہ رخ کیا ۔۔وہ اسکو دیکھنے لگی ۔۔شہوار بے اختیار اپنا ہاتھ اسکی پیشانی پر رکھا ۔۔
جیسے اسنے کروٹ بدلی ۔۔شہوار نے جلدی سے اپنا ہاتھ اسکی پیشانی سے ہٹایا ۔۔
اٹھاوں یا نہ اٹھاوں ۔۔شہوار نے دل میں سوچتے ہوئے کہا
نہیں اٹھاتی ۔۔ وہ یہ کہہ کر پلٹ گئ ۔۔تھی اسے آج کے واقعے سے بہت کوفت ہو رہی تھی اسنے آج روہان کا بہت دل دکھایا تھا ۔۔لیکن روہان نے پھر بھی اسے معاف کر دیا ۔
وہ کمرے کی کھڑکی کے قریب کھڑی باہر کے مناظر کو تک رہی تھی آسمان پر تارے چاند کی روشنی سے چمک دھمک رہے تھے ایک عجیب سی بے سکونی شہوار محسوس کر رہی تھی ۔۔اسکے پاس وہی تھا اور کوئی نہیں تھا جو اسکا غصہ برداشت ۔کرے اسکی تلخ باتوں کو مسکرا دے ہر مشکل وقت میں ایک سہارے کی طرح قدم بہ قدم ۔۔ساتھ ہو ۔
میری زندگی اب روہان علی خان سے شروع ہوتی ہے اور روہان پر ہی ختم ہو جاتی وہ اسطرح چپ اچھا نہیں لگتا تھا وہ ایسے ہئ ہنستا مسکراتے ہوئے اچھا لگتا ۔
لیکن میں کبھی تمھیں نہیں بتاوں گی ۔۔اگر تم مجھے سنگ دل تصور کر رہے ہو ۔۔تو کرو ۔۔لیکن میں کبھی تمھیں اس بات سے آشنا نہیں ہونے دوں گی کہ مجھے تم سے محبت نہیں مجھے تمھاری عادت ہو چکی ہے روہان ۔۔میں ۔تمھارے بغیر ایک سکینڈ نہیں رہ پاوں گی ۔۔
وہ کھڑکی کے ساتھ ٹیک لگائے اسے مسلسل دیکھ رہی تھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
نماز ۔۔فجر جیسے اسکے کانوں میں پڑی تو وہ اٹھی اور وضو کر کے نماز پڑھنے کے لیے بڑھئ
نماز پڑھتے ہوئے بھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو رس رہے تھے ۔۔
جب دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ۔۔پہلی دعا ۔اسکی زبان سے روہان کے لیے تھی ۔۔وہ دعا کرتی کہ وہ ہمیشہ اسکے ساتھ رہے ۔۔نماز پڑھنے کے بعد ۔شہوار فورا کچن کی جانب بڑھی
اور آج پہلی مرتبہ اسنے روہان کے لیے ناشتہ بنایا تھا ۔
______________________
وہ اپنا یونیفارم استری کرنے لگا تھا کہ اس سے پہلے شہوار ہاتھ میں اسکی پریس وردی لیے کھڑی تھی
میں نے کر دی ہے ۔۔شہوار نے دھبئ مسکراہٹ سے کہا
شکریہ ۔۔روہان ہلکا سا مسکرایا اور وردی پکڑی ۔
اٹس اوکے نیچے آجاو میں نے تمھارے لیے ناشتہ بنایا ہے
جیسے روہان نے سنا وہ بلکل چونک گیا ۔
تیار ہونے کے بعد وہ نیچے آیا شہوار نے اسے ناشتہ پیش کیا
تھینک یوں شہوار تم نے میرے لیے ناشتہ بنایا
کیسا بنا ہے شہوار نے نرمی سے پوچھا
اچھا ہے ۔۔روہان نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا
آج رات تم کیا کھاو گے جیسے شہوار نے پوچھا روہان فورا بولا
نہیں نہیں تم رہنے دینا ڈنر ۔۔
نہیں ڈالوں گی مرچی ۔۔وہ تو ۔۔تب کی بات تھی اچھا بنا لیتی ہوں میں کھانا ۔شہوار نے قہقا لگایا
اچھا میں تمھیں آج آفس سے خود لینے آوں گا ۔۔روہان نے شائستگی سے کہا
نہیں اسکی کوئی ضرورت نہیں میں آجاوں گی خود
وہ یہ کہتے ہوئے اٹھی ۔۔تھی
نہیں ۔میں آوں گا ۔۔روہان نے گاڑی کی چابیاں لی اور باہر راہداری کی جانب بڑھا
_________________________
ارے آو زرش ۔۔روہان زرش کو دیکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا
سوری روہان بھائی میں آپ کو بنا بتائے آ گئ لیکن میں نے بہت ضروری بات بتانی تھی آپ کو زرش نے معذرت خواہانہ انداز سے کہا
ارے نہیں نہیں اس میں معافی والی کیا بات ہے تم مجھے کبھی بھی مل سکتی ہو کوئی روک
ٹوک نہیں روہان نے تحمل سے جواب دیا اور چائے کا کہا
دراصل میں آپی کے متعلق بات کرنے آئی ہوں آئی نو میں جانتی ہوں کہ انکا آپ کے ساتھ رویہ بڑا سرد ہے لیکن یقین کریں وہ دل کی بہت ہی اچھی ہیں اور کل جو بھی ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔لیکن آپی نے جان بھوج کر نہیں کہا تھا ویسے انکے منہ سے نکل گیا
زرش کی بات سنتے ہی روہان بے اختیار مسکرایا
تمھیں شہوار کے بارے میں صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے میں اسے اچھے سے جانتا ہوں زرش محبت اور بے وفائی ۔یہ برعکس ہیں ایک دوسرے کے جب بے وفائی محبت کے درمیان آئے تو نام و نشان مٹ جاتا ہے محبت کا اور انسان اپنی محبت کو صرف اس چیز سے چھپاتا ہے ۔۔میں نے بھی شہوار کو اسی چیز سے چھپایا ۔۔اور چاہے کل اسنے شیان کا نام لیا ہو لیکن میں اتنا جانتا ہوں وہ کبھی مجھ سے بے وفائی نہیں کرے گی ۔۔چاہے میں اسکی پہلی محبت نہیں تھا ۔لیکن اسکی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا میں ہی ہوں چاہے وہ میرے سامنے یہ ظاہر کرے یا نہ کرے لیکن میں سب کچھ سمجھ جاتا ہوں اور رہی بات اسکے غصے کی تو غصے میں وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے ۔۔اور ناز نکھرے بیوی کے نہیں اٹھاو گا تو کس کے اٹھاون
یہ سنتے ہی زرش بولی
اتنی محبت کرتے ہیں ۔۔آپ آپی سے
بہت زیادہ ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
_________________________
کون ہو تم ؟ شہوار نے غصے سے فون پر کیسی سے بات کرتے ہوئے کہا
مجھے اتنی جلدی بھول گئ ۔۔شہوار میڈم ۔۔کیسی نے مسکراتے ہوئے کہا
_________
کون ہو تم؟ شہوار نے غصے سے کہا
ویسے ۔بھولنا اچھی بات نہیں ہے چلیے آپ کو یاد نہیں آ رہا تھا تو میں اپکو یاد دلا دیتا ہوں آپ کا سابقہ ہونے والا شوہر شیان فراز ۔۔اب پہچانا کہ ۔نہیں اسنے طنزا قہقا لگایا
میں کیسی شیان فراز کو نہیں جانتی ۔سن لیا تم نے اور آئیندہ مجھے کال کرنے کی جرات مت کرنا ۔سمجھے شہوار نے یہ کہتے ہوئے غصے سے فون بند کر دیا ۔
اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔پورے جسم میں لرزش چھا گئ ۔پیشانی سے پسینے کی دھارئیں آنے لگی ۔اسنے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی پیشانی کو صاف کیا ۔
یہ۔۔۔یہ کیوں ۔میری زندگی میں آ رہا ہے ۔۔ن۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی میں ایسا ہونے دوں گی شہوار نے دل میں سوچا ۔وہ پوری طرح ڈر چکی تھی اور ساتھ ہی پڑے پٹی سی ایل سے کال ۔۔کی
وہ کیس فاعل اندر لے کر آو ۔۔شہوار نے خود کو کام میں مصروف کرنے کی کوشش ۔کی اسکے حکم پر ۔دو منٹ بعد ایک آدمی اسکے آفس میں ہاتھ میں فاعل لیے داخل ہوا
مے آئی کم این میم !
کم این شہوار نے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا
میم یہ رہی فاعل ۔۔ ہمیں اس رے کیٹ کے خلاف ابھی تک کچھ نہیں پتا چل سکا ۔۔اور جس بندے نے ہمیں خبر بتائی ہے اسکا بھی سیل فون آف ہے ۔میم مجھے تو یہ کیس جھوٹا لگتا ہے جیسے اس نوجوان نے کہا
شہوار نے فورا سے جواب دیا
نہیں کیس جھوٹا نہیں ہے اور نہ ہی اطلاع جھوٹی ہے مجھے اس رے کیٹ کے بارے میں تھوڑی بہت خبر تھی اور جس بندے نے ہمیں خبر دی ہے چاہے وہ آگے نہیں آ رہا لیکن میں اس کیس کی تہہ تک جاوں گی اور اس رے کیٹ کے کینگ کو کیسی بھی حال میں پکڑنا ہے ۔۔جو بھی ہو جائے یہ لڑکیوں کی سمگنلگ اب اور نہیں ہو گی
اسنے فاعل کو چیک کرتے ہوئے کہا
تم اور چھان بین کرو۔۔۔ایسا کرو ۔کہ تم اسلام آباد جاو ۔بس ایک ثبوت کی دیر ہے ثبوت مل گیا تو اس رے کیٹ کو تحس نحس کر دوں گی ۔۔
جی میم ۔۔جیسا آپ کہے ۔۔اسنے کہا اور کیبن سے باہر چلا گیا
________________________
روہان نے ڈرائیور کو گاڑی دے کر بھیج دیا تھا کہ وہ شہوار کو لے آئے ایک کیس کے ۔۔سلسلے میں تھوڑا مصروف تھا ۔
جیسے شہوار گاڑی میں بیٹھی اسنے ڈرائیور سے روہان کے بارے میں پوچھا
اور اسنے روہان کے کیس کے بارے میں بتایا ۔
اسی دوران شہوار کے فون کی گھنٹی پھر بجئ ۔پھر وہی نمبر تھا
شہوار نے غصے سے فون بند کر دیا ۔۔۔
دو تین دفعہ مسلسل سے کال پر کالز آئی ۔اور پھر تھوڑی دیر بعد فون سکرین پر ایک میسج نمودار ہوا
پلیز ایک دفعہ مجھ سے مل لو ۔۔ایک دفعہ ۔۔
شہوار نے یہ دیکھتے ہی فورا فون آف کر دیا ۔۔وہ بہت ڈر چکی تھی راستے میں ہر جگہ چیک پوسٹ پہ پولیس کھڑی تھی ۔۔اور سب کی گاڑیوں کو چیک کیا جا رہا تھا خبر تھی ۔کہ کیسی گاڑی میں باہر سے نامعلوم اسلحہ تھا اور اسی سلسلے میں پولیس ہر گاڑی کی اچھی سے چھان بین کر رہی تھی ۔۔ وہ وہی موجود تھا ۔۔شہوار نے جیسے اسے دیکھا اسکے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئ ۔
جب اسنے ایک لڑکی کے ساتھ سلفی لیتے ہوئے دیکھا ۔ جب شہوار کی گاڑی قریب آئی ایک پولیس کانسٹیبل نے فورا کہا
صاحب کی گاڑی ہے ۔۔آگے جانے دو ۔۔گاڑی تھوڑی اگے روکی گئ شہوار باہر نکلی ۔
جیسے روہان نے شہوار کو اسکی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔وہ اسکی طرف بڑھا
“کب تک آو گے گھر؟”
کیوں آج کوئی خاص دن ہے؟ روہان نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں تو شہوار نے تاثرات چھپائے
وہ کہہ کر پلٹی اور گاڑی میں بیٹھ گئ ۔۔روہان اسے جاتا ہوا دیکھ کر مسکرایا
نہیں بتایا ! بڑی ضدی ہے وہ یہ کہہ کر پلٹا
________________________
میں کیوں اسے اپنی برتھڈے کا بتاتی ۔۔اسے پتا ہونا چاہیے اس دن کا ! نہ بھی ہو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔اور ویسے بھی اسے کونسا یاد ہو گا ۔۔
وہ خود کو دلاسا دے رہی تھی۔۔اور اپنا آفس کا کام کر رہی تھی ۔۔
جو کیس ان دنوں اسکے ہاتھ میں آیا تھا وہ پوری طرح اس میں اینولو تھی
شہوار نے اپنے بھیگ سے فون نکالا جو پاور آف تھا اسنے فون کو جیسے آن کیا
سامنے سکرین پر 10 مس کالز پھر اسی نمبر سے شو ہوئی ۔اسنے تھک کے فون نیچے رکھا
کیا چاہتا ہے یہ انسان مجھ سے ۔۔کیوں میری زندگی برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اسنے اپنے کندھے اچکا دیے
پھر کچھ دیر بعد ۔فون میں سے روہان کا نمبر نکالا اور پہلے لکھے ہوئے نیم کو رئیز کیا جو “کھڑوس ” کے نام سے سیو تھا
اور اب اس پر اسنے بس رئیڈ ہیرٹ ہی لگایا اور نمبر سیو کیا اور پھر اپنی فون سکرین وال پیپر پر اسکی سمکنگ کرتے ہوئے کھینچی تصویر لگا دی ۔۔یہ کرتے ہی وہ چئیر سے اٹھی اور کچن کی جانب بڑھی
اور رات کے کھانے کے لیے تیاری کرنے لگی ۔۔کہ اس بار پھر فون کی گھنٹی بجی
پھر سے وہئ نمبر تھا
برداشت سے باہر ہو کر ۔۔شہوار نے غصے سے فون اٹھایا
اور کہا ” کیا چاہتے ہو تم کیوں بار بار فون کر رہے ہو مجھے ”
اتنا غصہ شہوار پہلے تو تم کبھی میرے ساتھ اتنے غصے سے بات نہیں کرتی تھی شیان نے نرم لہجے میں کہا
اپنی بکواس بند رکھو
تمھارے جیسا گھٹیا قسم کا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا کتنے بے شرم ہو تم ؟ شرم نہیں آتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری شادی ہو چکی ہے ۔
میں تمھاری شادی کو نہیں مانتا وہ زبردستی سے تھی جیسے شیان نے کہا وہ فورا بولی
تمھیں کس نے کہا وہ زبردستی کی شادی تھی با قاعدہ نکاح کی رسم ہوئی تھی میری اور روہان کی اگر تمھیں کوئہ غلط فہمی ہے تو ۔۔پولیس تھانے میں ایک دفعہ پوچھ لینا کہ آئہ سی پی روہان علی خان کی زبردستی نکاح تھا تو تمھارا جو حشر ہو گا نہ کھڑے نہیں ہو پاو ۔۔گے اور بہتری اسی میں ہے کہ تم مجھے کال کرنا بند کر دو ۔۔نہیں تو میں ۔تمھارے ساتھ وہ کروں گی کہ پچھتاو گے ۔۔ شہوار نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا
عجیب قسم کا انسان ہے ۔۔شہوار نے غصے سے فون کو پھینکا….
جاری ہے
پتا نہیں زری میں اسکے سامنے یہ نہیں کہنا چاہتی تھی لیکن پتا نہیں ۔ مجھے بلکل معلوم نہیں پڑا ۔۔
آپی ۔۔آپ اندازہ لگا سکتی ہئں روہان بھائی کو کس قدر تکلیف ہو گی ۔۔اسکی محبت پر کیا بیتی ہو گی
اور آپ اس کمینے شخص کی جھوٹی محبت پر روئی تھی جس نے آپ کو بیچ راستے پر لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا ۔۔
مجبوری ہو گی؟ ۔۔
کیا مجبوری ۔۔۔خدا کے لیے محبت میں مجبوریاں نہیں دیکھی جاتی در شہوار ۔اور جہاں مجبوریاں ہوں وہاں محبتیں نہیں ہوا کرتی اور آپ اب بھی شیان فراز کی محبت کو مجبوری کا نام دے رہی ہیں ۔۔مجھے دکھ ہو رہا ہے وہ آپ کے پیچھے اپنی دنیا لوٹانے کو تیار ہے
لیکن آپ ۔۔ماضی کی بیتی ہوئی یادوں کو دل میں لیے ہوئی ہیں
کیا بیگاڑا ہے اسنے ۔۔
اانکی آنکھوں میں آنسو تھے ؟
پتا نہیں ۔۔
وہ اٹھ کے چلے گئے تھے ۔۔ناں
ہاں باہر چلا گیا ہے ۔۔
جائیں پلیز۔اور معافی مانگیں ۔۔خدا کے لیے اور چھوڑ دئیں کوئی نہیں آپ کا سوائے روہان کے
زرش کے کہنے پر ۔وہ فورا کمرے سے باہر نکلی ۔۔
نہیں مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا شیان فراز کا نام ۔۔اسکو بہت برا لگا ہو گا ۔۔میں کیسے اس شخص کے لیے رو سکتی ہوں ۔۔روہان ہی میرا حال ہے شہوار وہ سوچتی ہوئی اپنے قدم بڑھا رہی تھی جیسے اسنے کمرے کا دروازہ کھولا
کمرے میں اندھیرہ تھا ۔۔۔وہ۔جیسے اندر داخل ہوئی ۔
اسنے فورا کہا ۔
شہوار اندر آ جاو ۔۔۔
تمھیں کیسے پتا چلا ۔۔میں ہوں شہوار نے جھٹ سے پوچھا
تمھارا احساس ! تمھارے وجود ۔۔کو میں محسوس کر سکتا ہوں ۔۔اور اپنی محبت کو کون نہیں پہنچاتا
وہ اسکے قریب چئیر پر بیٹھی تھی
و۔۔۔وہ میں نے تم سے کچھ کہنا تھا ۔۔ شہوار نے اٹکتے ہوئے کہا
کچھ نہیں ہوتا ۔۔
تم ناراض تو نہیں ۔۔شہوار نے جیسے پوچھا وہ بے اختیار مسکرایا
بھلا میں تم سے ناراض کیسے رہ سکتا ہوں ۔۔
ایم سوری ۔۔مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا ۔
اٹس اوکے
_______________________
ایک منٹ آپ کو میرا نمبر کیس نے دیا۔۔زرش نے غصے سے کہا
عاقب ۔۔ہلکا سا مسکرایا اور کہا
بس ۔۔مل گیا ۔
میں آپ کو وارن کر رہی ہوں مسڑ عاقب اس طرح کی بے شرمیوں کو بند کریں
میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔عاقب نے جیسے کہا وہ بھڑک اٹھی
اپنی حد میں رہیے ۔۔ورنہ میں روہان بھائی کو بتا دوں گی ۔ سن لیا زرش نے یہ کہتے ہوئے غصے سے فون بند کیا
کہ اسی ثناء کے دوران شیان اسکے کمرے میں داخل ہوا
تمھیں باہر چاچی جان بلا رہی ہیں ۔
اسنے چونک کے شیان کی طرف دیکھا
کیوں؟ خریت ہے ۔۔
پتا نہیں شیان نے کہا اور کمرے سے باہر چل دیا
یا اللہ خیر ۔۔زرش نے کہا اور اسکے پیچھے پیچھے نیچے آگئ
نیچے ۔۔شیان ۔فراز صاحب ۔سکینہ بیگم اور شیان کی والدہ موجود تھے ۔۔
وہ سب یہ منظر دیکھ کر ہچکچائی ۔۔اور پھر آگے بڑھی
اسلام و علیکم زرش نے ادب سے سلام لی اور اپنی والدہ کے پہلوں میں بیٹھ گئ
و علیکم اسلام فراز صاحب نے کہا اور اپنے گلے کو صاف کرتے ہوئے زرش سے مخاطب ہوئے
تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے زرش
جی کرئیے تایا جان !
ہم نے فیصلہ کیا ہے فراز صاحب نے نظریں چراتے ہوئے کہا
کون سا فیصلہ اور کیسا فیصلہ؟ زرش نے حیرت سے سب کے چہروں کو دیکھا
یہی کہ تمھارا نکاح شیان سے پڑھوادیا جائے ۔۔جیسے یہ الفاظ فراز صاحب کی زبان سے نکلے زرش ایک دم سمٹ کر
رہ گئ ۔۔اسکے وجود پر غصے کی لرزش تھی
“یہ نکاح نہیں ہو سکتا تایا جان ۔۔میں آپ کے حکم کی تعمیل نہیں کر سکتی ” زرش نے غصے سے شیان کو دیکھتے ہوئے کہا
یہ کیا بکواس کر رہی ہو زرش ۔۔سکینہ بیگم نے ۔گفتگو میں دخل اندازی کی
می بس ۔۔آپ مت بولیں ۔۔آپ تو کچھ کہے گی نہیں اسلیے مجھے ہی بتا دینے دئیں
تایا جان میں ہرگز ایک ایسے شخص سے شادی نہیں کرنا چاہوں گی ۔۔جو شک میں ڈوبا ہو جیسے اپنے علاوہ باقی سب جھوٹیں دیکھتے ہوں ۔۔جو دوسروں کے جذباتوں کی قدر نہ کرے ۔اور سب سے بڑھ کر انہوں نے میری آپی کی زندگی برباد کر کے رکھ دی دو سکینڈ بھی نہیں لگائے تھے انھیں اپنی زندگی سے نکالنے میں ۔۔اور آپ کہہ رہیے میں اس شخص سے نکاح کروں نہیں میں مر جاون گی لیکن یہ بات کبھی نہیں قبول کروں گی
زرش نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئ
فراز صاھب بھی غصے سے اٹھ کے چلے گئے
ویسے ۔۔سکینہ تمھاری بیٹی بھی کم نہیں ہے کیا کمی ہے میرے شیان میں جو اسطرح نکھرے دیکھا رہی ہے ہمیں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے ۔۔وہ تو اپنا سوچ کے کہ بن باپ کی بیٹیاں ہیں ۔۔۔تھوڑا ترس کھا لیں ورنہ ہم مرے تو نہیں جا رہے ۔شیان کی والدہ نے اچھا خاچا طنز کیا تھا ۔۔سکینہ بیگم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں
______________________
آج اس نے مجھے اٹھایا نہیں ہے میگی کھانے کے لیے شہوار نے سوچا ۔۔وہ اس سے بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن روہان تب سے خاموش تھا۔۔ جیسے اس سے پہلے مذاق کرتا تھا ۔۔وہ نہیں کر رہا تھا ۔۔
آخر کار شہوار اٹھی اور اسکے قریب گئ ۔۔وہ لیٹا ہوا تھا ۔۔آنکھیں موندی ہوئی ۔۔وہ واپس پلٹی اور پھر رکی ۔۔اور اسکی طرف دوبارہ رخ کیا ۔۔وہ اسکو دیکھنے لگی ۔۔شہوار بے اختیار اپنا ہاتھ اسکی پیشانی پر رکھا ۔۔
جیسے اسنے کروٹ بدلی ۔۔شہوار نے جلدی سے اپنا ہاتھ اسکی پیشانی سے ہٹایا ۔۔
اٹھاوں یا نہ اٹھاوں ۔۔شہوار نے دل میں سوچتے ہوئے کہا
نہیں اٹھاتی ۔۔ وہ یہ کہہ کر پلٹ گئ ۔۔تھی اسے آج کے واقعے سے بہت کوفت ہو رہی تھی اسنے آج روہان کا بہت دل دکھایا تھا ۔۔لیکن روہان نے پھر بھی اسے معاف کر دیا ۔
وہ کمرے کی کھڑکی کے قریب کھڑی باہر کے مناظر کو تک رہی تھی آسمان پر تارے چاند کی روشنی سے چمک دھمک رہے تھے ایک عجیب سی بے سکونی شہوار محسوس کر رہی تھی ۔۔اسکے پاس وہی تھا اور کوئی نہیں تھا جو اسکا غصہ برداشت ۔کرے اسکی تلخ باتوں کو مسکرا دے ہر مشکل وقت میں ایک سہارے کی طرح قدم بہ قدم ۔۔ساتھ ہو ۔
میری زندگی اب روہان علی خان سے شروع ہوتی ہے اور روہان پر ہی ختم ہو جاتی وہ اسطرح چپ اچھا نہیں لگتا تھا وہ ایسے ہئ ہنستا مسکراتے ہوئے اچھا لگتا ۔
لیکن میں کبھی تمھیں نہیں بتاوں گی ۔۔اگر تم مجھے سنگ دل تصور کر رہے ہو ۔۔تو کرو ۔۔لیکن میں کبھی تمھیں اس بات سے آشنا نہیں ہونے دوں گی کہ مجھے تم سے محبت نہیں مجھے تمھاری عادت ہو چکی ہے روہان ۔۔میں ۔تمھارے بغیر ایک سکینڈ نہیں رہ پاوں گی ۔۔
وہ کھڑکی کے ساتھ ٹیک لگائے اسے مسلسل دیکھ رہی تھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
نماز ۔۔فجر جیسے اسکے کانوں میں پڑی تو وہ اٹھی اور وضو کر کے نماز پڑھنے کے لیے بڑھئ
نماز پڑھتے ہوئے بھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو رس رہے تھے ۔۔
جب دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ۔۔پہلی دعا ۔اسکی زبان سے روہان کے لیے تھی ۔۔وہ دعا کرتی کہ وہ ہمیشہ اسکے ساتھ رہے ۔۔نماز پڑھنے کے بعد ۔شہوار فورا کچن کی جانب بڑھی
اور آج پہلی مرتبہ اسنے روہان کے لیے ناشتہ بنایا تھا ۔
______________________
وہ اپنا یونیفارم استری کرنے لگا تھا کہ اس سے پہلے شہوار ہاتھ میں اسکی پریس وردی لیے کھڑی تھی
میں نے کر دی ہے ۔۔شہوار نے دھبئ مسکراہٹ سے کہا
شکریہ ۔۔روہان ہلکا سا مسکرایا اور وردی پکڑی ۔
اٹس اوکے نیچے آجاو میں نے تمھارے لیے ناشتہ بنایا ہے
جیسے روہان نے سنا وہ بلکل چونک گیا ۔
تیار ہونے کے بعد وہ نیچے آیا شہوار نے اسے ناشتہ پیش کیا
تھینک یوں شہوار تم نے میرے لیے ناشتہ بنایا
کیسا بنا ہے شہوار نے نرمی سے پوچھا
اچھا ہے ۔۔روہان نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا
آج رات تم کیا کھاو گے جیسے شہوار نے پوچھا روہان فورا بولا
نہیں نہیں تم رہنے دینا ڈنر ۔۔
نہیں ڈالوں گی مرچی ۔۔وہ تو ۔۔تب کی بات تھی اچھا بنا لیتی ہوں میں کھانا ۔شہوار نے قہقا لگایا
اچھا میں تمھیں آج آفس سے خود لینے آوں گا ۔۔روہان نے شائستگی سے کہا
نہیں اسکی کوئی ضرورت نہیں میں آجاوں گی خود
وہ یہ کہتے ہوئے اٹھی ۔۔تھی
نہیں ۔میں آوں گا ۔۔روہان نے گاڑی کی چابیاں لی اور باہر راہداری کی جانب بڑھا
_________________________
ارے آو زرش ۔۔روہان زرش کو دیکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا
سوری روہان بھائی میں آپ کو بنا بتائے آ گئ لیکن میں نے بہت ضروری بات بتانی تھی آپ کو زرش نے معذرت خواہانہ انداز سے کہا
ارے نہیں نہیں اس میں معافی والی کیا بات ہے تم مجھے کبھی بھی مل سکتی ہو کوئی روک
ٹوک نہیں روہان نے تحمل سے جواب دیا اور چائے کا کہا
دراصل میں آپی کے متعلق بات کرنے آئی ہوں آئی نو میں جانتی ہوں کہ انکا آپ کے ساتھ رویہ بڑا سرد ہے لیکن یقین کریں وہ دل کی بہت ہی اچھی ہیں اور کل جو بھی ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔لیکن آپی نے جان بھوج کر نہیں کہا تھا ویسے انکے منہ سے نکل گیا
زرش کی بات سنتے ہی روہان بے اختیار مسکرایا
تمھیں شہوار کے بارے میں صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے میں اسے اچھے سے جانتا ہوں زرش محبت اور بے وفائی ۔یہ برعکس ہیں ایک دوسرے کے جب بے وفائی محبت کے درمیان آئے تو نام و نشان مٹ جاتا ہے محبت کا اور انسان اپنی محبت کو صرف اس چیز سے چھپاتا ہے ۔۔میں نے بھی شہوار کو اسی چیز سے چھپایا ۔۔اور چاہے کل اسنے شیان کا نام لیا ہو لیکن میں اتنا جانتا ہوں وہ کبھی مجھ سے بے وفائی نہیں کرے گی ۔۔چاہے میں اسکی پہلی محبت نہیں تھا ۔لیکن اسکی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا میں ہی ہوں چاہے وہ میرے سامنے یہ ظاہر کرے یا نہ کرے لیکن میں سب کچھ سمجھ جاتا ہوں اور رہی بات اسکے غصے کی تو غصے میں وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے ۔۔اور ناز نکھرے بیوی کے نہیں اٹھاو گا تو کس کے اٹھاون
یہ سنتے ہی زرش بولی
اتنی محبت کرتے ہیں ۔۔آپ آپی سے
بہت زیادہ ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
_________________________
کون ہو تم ؟ شہوار نے غصے سے فون پر کیسی سے بات کرتے ہوئے کہا
مجھے اتنی جلدی بھول گئ ۔۔شہوار میڈم ۔۔کیسی نے مسکراتے ہوئے کہا
_________
کون ہو تم؟ شہوار نے غصے سے کہا
ویسے ۔بھولنا اچھی بات نہیں ہے چلیے آپ کو یاد نہیں آ رہا تھا تو میں اپکو یاد دلا دیتا ہوں آپ کا سابقہ ہونے والا شوہر شیان فراز ۔۔اب پہچانا کہ ۔نہیں اسنے طنزا قہقا لگایا
میں کیسی شیان فراز کو نہیں جانتی ۔سن لیا تم نے اور آئیندہ مجھے کال کرنے کی جرات مت کرنا ۔سمجھے شہوار نے یہ کہتے ہوئے غصے سے فون بند کر دیا ۔
اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔پورے جسم میں لرزش چھا گئ ۔پیشانی سے پسینے کی دھارئیں آنے لگی ۔اسنے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی پیشانی کو صاف کیا ۔
یہ۔۔۔یہ کیوں ۔میری زندگی میں آ رہا ہے ۔۔ن۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی میں ایسا ہونے دوں گی شہوار نے دل میں سوچا ۔وہ پوری طرح ڈر چکی تھی اور ساتھ ہی پڑے پٹی سی ایل سے کال ۔۔کی
وہ کیس فاعل اندر لے کر آو ۔۔شہوار نے خود کو کام میں مصروف کرنے کی کوشش ۔کی اسکے حکم پر ۔دو منٹ بعد ایک آدمی اسکے آفس میں ہاتھ میں فاعل لیے داخل ہوا
مے آئی کم این میم !
کم این شہوار نے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا
میم یہ رہی فاعل ۔۔ ہمیں اس رے کیٹ کے خلاف ابھی تک کچھ نہیں پتا چل سکا ۔۔اور جس بندے نے ہمیں خبر بتائی ہے اسکا بھی سیل فون آف ہے ۔میم مجھے تو یہ کیس جھوٹا لگتا ہے جیسے اس نوجوان نے کہا
شہوار نے فورا سے جواب دیا
نہیں کیس جھوٹا نہیں ہے اور نہ ہی اطلاع جھوٹی ہے مجھے اس رے کیٹ کے بارے میں تھوڑی بہت خبر تھی اور جس بندے نے ہمیں خبر دی ہے چاہے وہ آگے نہیں آ رہا لیکن میں اس کیس کی تہہ تک جاوں گی اور اس رے کیٹ کے کینگ کو کیسی بھی حال میں پکڑنا ہے ۔۔جو بھی ہو جائے یہ لڑکیوں کی سمگنلگ اب اور نہیں ہو گی
اسنے فاعل کو چیک کرتے ہوئے کہا
تم اور چھان بین کرو۔۔۔ایسا کرو ۔کہ تم اسلام آباد جاو ۔بس ایک ثبوت کی دیر ہے ثبوت مل گیا تو اس رے کیٹ کو تحس نحس کر دوں گی ۔۔
جی میم ۔۔جیسا آپ کہے ۔۔اسنے کہا اور کیبن سے باہر چلا گیا
________________________
روہان نے ڈرائیور کو گاڑی دے کر بھیج دیا تھا کہ وہ شہوار کو لے آئے ایک کیس کے ۔۔سلسلے میں تھوڑا مصروف تھا ۔
جیسے شہوار گاڑی میں بیٹھی اسنے ڈرائیور سے روہان کے بارے میں پوچھا
اور اسنے روہان کے کیس کے بارے میں بتایا ۔
اسی دوران شہوار کے فون کی گھنٹی پھر بجئ ۔پھر وہی نمبر تھا
شہوار نے غصے سے فون بند کر دیا ۔۔۔
دو تین دفعہ مسلسل سے کال پر کالز آئی ۔اور پھر تھوڑی دیر بعد فون سکرین پر ایک میسج نمودار ہوا
پلیز ایک دفعہ مجھ سے مل لو ۔۔ایک دفعہ ۔۔
شہوار نے یہ دیکھتے ہی فورا فون آف کر دیا ۔۔وہ بہت ڈر چکی تھی راستے میں ہر جگہ چیک پوسٹ پہ پولیس کھڑی تھی ۔۔اور سب کی گاڑیوں کو چیک کیا جا رہا تھا خبر تھی ۔کہ کیسی گاڑی میں باہر سے نامعلوم اسلحہ تھا اور اسی سلسلے میں پولیس ہر گاڑی کی اچھی سے چھان بین کر رہی تھی ۔۔ وہ وہی موجود تھا ۔۔شہوار نے جیسے اسے دیکھا اسکے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئ ۔
جب اسنے ایک لڑکی کے ساتھ سلفی لیتے ہوئے دیکھا ۔ جب شہوار کی گاڑی قریب آئی ایک پولیس کانسٹیبل نے فورا کہا
صاحب کی گاڑی ہے ۔۔آگے جانے دو ۔۔گاڑی تھوڑی اگے روکی گئ شہوار باہر نکلی ۔
جیسے روہان نے شہوار کو اسکی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔وہ اسکی طرف بڑھا
“کب تک آو گے گھر؟”
کیوں آج کوئی خاص دن ہے؟ روہان نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں تو شہوار نے تاثرات چھپائے
وہ کہہ کر پلٹی اور گاڑی میں بیٹھ گئ ۔۔روہان اسے جاتا ہوا دیکھ کر مسکرایا
نہیں بتایا ! بڑی ضدی ہے وہ یہ کہہ کر پلٹا
________________________
میں کیوں اسے اپنی برتھڈے کا بتاتی ۔۔اسے پتا ہونا چاہیے اس دن کا ! نہ بھی ہو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔اور ویسے بھی اسے کونسا یاد ہو گا ۔۔
وہ خود کو دلاسا دے رہی تھی۔۔اور اپنا آفس کا کام کر رہی تھی ۔۔
جو کیس ان دنوں اسکے ہاتھ میں آیا تھا وہ پوری طرح اس میں اینولو تھی
شہوار نے اپنے بھیگ سے فون نکالا جو پاور آف تھا اسنے فون کو جیسے آن کیا
سامنے سکرین پر 10 مس کالز پھر اسی نمبر سے شو ہوئی ۔اسنے تھک کے فون نیچے رکھا
کیا چاہتا ہے یہ انسان مجھ سے ۔۔کیوں میری زندگی برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اسنے اپنے کندھے اچکا دیے
پھر کچھ دیر بعد ۔فون میں سے روہان کا نمبر نکالا اور پہلے لکھے ہوئے نیم کو رئیز کیا جو “کھڑوس ” کے نام سے سیو تھا
اور اب اس پر اسنے بس رئیڈ ہیرٹ ہی لگایا اور نمبر سیو کیا اور پھر اپنی فون سکرین وال پیپر پر اسکی سمکنگ کرتے ہوئے کھینچی تصویر لگا دی ۔۔یہ کرتے ہی وہ چئیر سے اٹھی اور کچن کی جانب بڑھی
اور رات کے کھانے کے لیے تیاری کرنے لگی ۔۔کہ اس بار پھر فون کی گھنٹی بجی
پھر سے وہئ نمبر تھا
برداشت سے باہر ہو کر ۔۔شہوار نے غصے سے فون اٹھایا
اور کہا ” کیا چاہتے ہو تم کیوں بار بار فون کر رہے ہو مجھے ”
اتنا غصہ شہوار پہلے تو تم کبھی میرے ساتھ اتنے غصے سے بات نہیں کرتی تھی شیان نے نرم لہجے میں کہا
اپنی بکواس بند رکھو
تمھارے جیسا گھٹیا قسم کا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا کتنے بے شرم ہو تم ؟ شرم نہیں آتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری شادی ہو چکی ہے ۔
میں تمھاری شادی کو نہیں مانتا وہ زبردستی سے تھی جیسے شیان نے کہا وہ فورا بولی
تمھیں کس نے کہا وہ زبردستی کی شادی تھی با قاعدہ نکاح کی رسم ہوئی تھی میری اور روہان کی اگر تمھیں کوئہ غلط فہمی ہے تو ۔۔پولیس تھانے میں ایک دفعہ پوچھ لینا کہ آئہ سی پی روہان علی خان کی زبردستی نکاح تھا تو تمھارا جو حشر ہو گا نہ کھڑے نہیں ہو پاو ۔۔گے اور بہتری اسی میں ہے کہ تم مجھے کال کرنا بند کر دو ۔۔نہیں تو میں ۔تمھارے ساتھ وہ کروں گی کہ پچھتاو گے ۔۔ شہوار نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا
عجیب قسم کا انسان ہے ۔۔شہوار نے غصے سے فون کو پھینکا….
جاری ہے
Leave a Reply