کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 19
بس ۔۔۔شہوار اب بس ۔۔اب تم کچھ نہیں بولو ۔گی بہت ہو گیا میں ہر بات برداشت کر سکتا ہوں لیکن اپنی ذات کے خلاف ایک بات برداشت نہیں کر سکتا تمھیں کیا لگتا ہے میں لڑکیوں کو بیچتا ہوں ۔اتنا بے غیرت نہیں ہوں میں ۔۔میری بھی بہن ہے ۔۔اور میں کیسی اور کی بہن کے ساتھ اتنا بدتر سلوک کروں ۔۔نہیں ۔شہوار اور کس ثبوت کی بات کر رہی ہو تم ۔کونسا ثبوت ۔اور تم اس شخص کے ثبوت پر اعتبار کر رہی ہو ۔جو اعتبار کرنے کے لائق نہیں ہے ۔۔لیکن خیر ۔جب رشتوں میں اعتماد اور اعتبار ہی نہ ہو نہ۔تو وہاں شک کی دیوار آ ہی جاتی ہے اور میرے تمھارے رشتے میں کبھی اعتبار ہی نہیں تھا ۔۔تم نے کبھی مجھے اس چیز کے قابل نہیں سمجھا نہ میری محبت کو ۔۔اور نہ ہی میرے جذباتوں کو ۔تم نے ہمیشہ مجھے قصور وار ٹھہرا ہمیشہ ہر مقدمے میں مجھے ۔۔ہی سزہ دی ۔۔اور آج تو تم نے میری ذات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ائیڈوکیٹ در شہوار ۔۔پتا ہے آج مجھے اس بات کا زیادہ تکلیف ہوئی ہے کہ تم نے اس شخص کی بات پر اعتبار کیا ۔۔کیسے جو تمھیں چھوڑ کے جا چکا تھا ۔۔بیچ راستے ۔۔تم اس شخص سے ملتی رہی شہوار لیکن میں نے تمھیں کچھ کہا تم سے پوچھا کیونکہ مجھے تم پر اعتبار تھا ۔۔مجھے یقین تھا لیکن ۔۔تم نے تو ایک سکینڈ میں مجھے ۔۔سب سے برا بدتر قرار دے دیا ۔۔تم نے صرف اس رشتے کو مجبوری کے تحت قبول کیا ہے کبھی دل سے نہیں دل کے رشتوں میں یہ سب نہیں پایا جاتا اور ہمارا آج بھی رشتہ وہی کھڑا ہے ۔۔میں نے جب جب کوشش کی تم نے ہمیشہ ۔ہی ماضی کی تلخ یادوں کو ۔۔یاد کیا۔لیکن اب میں ہار چکا ہوں واقع میں کبھی تمھارے دل میں اپنے لیے محبت قائم نہیں کر سکتا کبھی نہیں ۔آج تم نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ۔۔روہان نے کہا اور کمرے سے فورا باہر چلا گیا۔اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا ۔آج وہ اپنے آنسو کو نہیں روک پایا تھا ۔شہوار نے آج اسے توڑ دیا تھا وہ بکھر چکا تھا ۔۔محبت نے اسے اتنا درد دیا کہ ۔۔آج ہنس کے درد کو سہنے والا شخص اپنے آنسوؤں کو روک نہ پایا ۔سڑھیاں اترتے ہوئے بھی ۔اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔۔
______________________
یار میں ہار گیا ۔۔عاقب میں اپنے آپ میں ہار گیا ۔۔اسنے اس شخص کی بات پر اعتماد کیا ۔۔جس نے اس کی زندگی برباد کی ۔۔مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ ۔وہ میرے خلاف ثبوت لائی ۔۔دکھ تو اس بات کا ہے ۔اس شخص کی باتوں پر یقین کر کے مجھے جھوٹا قرار دیا ۔کہا ۔کہ میں اسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوں ۔۔
اور آج ۔۔یہ آنسو بھی رک نہیں پائے ۔۔
روہان۔۔۔روہان میرے یار ۔۔حوصلہ رکھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔مجھے اس بات کی بھابھی سے بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی ائیڈوکیٹ ہو کر بھی جھوٹے شخص پر اعتبار کر لے ۔۔جھگڑے کی بات الگ تھی ۔۔لیکن تمھاری ذات کو ایک ایسے کم تر رے کیٹ سے جوڑا ۔اور اس ثبوت کے تحت جس میں تمھاری آواز کا استعال کیا ہے ۔۔ان کو ایک بار بھی یہ خیال نہیں رہا کہ آجکل کی دنیا کی ٹیکنالوجی اس قدر تیز ہے کہ وہ کیسی کی بھی آواز کو مکس کر سکتے ہیں عاقب نے حیرانگی سے کہا
روہان ۔۔ایسے درد میں رہنے سے سب کچھ ۔۔ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔اسے تمھاری قدر ہی نہیں ۔تو اچھا ہے ناں تم ۔۔اس جگہ کو ہی چھوڑ دو ۔۔
نہیں چھوڑ سکتا یار ۔۔یہ کم بخت محبت ۔۔روک دیتی ہے دل کیا ۔۔اسے تھپڑ ماروں لیکن نہیں میں اپنی محبت کو درد نہیں دیکھ سکتا اسکی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں برداشت کر سکتا ۔وہ نہیں جانتی وہ میری زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے عاقب ۔۔۔روہان کی آنکھیں بلکل نم اور گہری لال تھی ساری رات بیداری میں بسر کرنے سے اسکی آنکھیں سن پو گئ تھی ۔۔ایسا ہی ہوتا ہے ۔محبت کرنے والوں کے ساتھ ۔۔یہ آسان تھوڑئ ہے ۔۔رقص ہے صاحب وہ بھی آگ پر ۔۔اور اس آگ میں اب روہان جل رہا تھا ۔۔
روہان میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تجھے ایسی محبت ہو گی ۔ عاقب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا اپنئ حالت دیکھو ۔۔کیا ہو گئ ہے
یہ سنتے ہی ۔۔روہان بے اختیار مسکرایا ۔۔آتش عشق کا نتجہ ہے غالب۔۔۔
“نہیں کم ہو گا”
بڑھے گا ۔۔روہان نے کہتے ہوئے سر جھٹک دیا
________________________
بہت اچھا کیا ہے آپی ۔آپ نے اس شخص کے ساتھ ۔۔یہی ڈیزرو کرتا ہے ۔۔کون اتنی محبت کرتا ہے بھلا جیسے زرش نے کہا شہوار نے چونک کر اسکی طرف دیکھا
ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں صیح تو کہہ رہی ہوں ۔۔روہان نے اتنی محبت کی ہے تم سے ۔اتنی محبت کہ میں اس شخص کی داد دیتی ہوں مسکرا کر ۔۔آپ کی تلخ باتوں کو سہہ لیتا ہے آپ نے تو آج انکی محبت کی چھیترے چھیترے کر دیے ۔۔انکے جذباتوں کو اپنے ۔۔پیروں تلے روندا ۔
آپ ۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔اس بے وفا کی باتوں پر ۔اعتبار کیسے کر سکتی ۔۔اس گھٹیا شخص کی باتوں پر
سیریسلی آپی ۔۔آپ نے ایک جھوٹے ثبوت سے اتنا گندہ الزام لگایا روہان بھائی پر ایک دفعہ بھی ۔۔نہیں سوچا کہ وہ شاید جھوٹ بول رہا ہو ۔۔
زری اس نے ایڈیو ۔۔ریکارڈر دیا ہے شیان نے
اس گھٹئا شخص نام مت لیں میرے سامنے ۔۔۔آیا بڑا ثبوت دینے والا ۔آپ کو لگتا ہے روہان بھائی نے یہ کیا ہے جیسے زرش نے کہا وہ وہی خاموش ہو گئ شہوار کی آنکھوں میں آنسو آگئے
رو کیوں رہی ہیں ۔۔ جواب دیں ۔
زری چلی جاو ۔۔یہاں سے ۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔خدا کے لیے ۔۔ شہوار نے آنکھیں بند کر لی
زرش خاموش اور وہاں سے چل گئ ۔۔
__________________________
شہوار ۔۔تمھیں لگ رہا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں شیان نے چونکتے ہوئے کہا
سچ سچ بولو۔۔۔شیان ۔۔شہوار نے غصے سے کہا
یہ سنتے ہی شیان نے قہقا لگایا ۔مجھے پہلے ہی پتا تھا تم ۔۔کبھی اپنوں کے خلاف کیس نہیں لڑ سکتی کبھی نہیں ۔۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔۔واہ یہ ہیں آپ ۔۔جو دوسرے مجرموں کو پھانسی تک لاتی ہیں لیکن اپنے مجرموں پر ۔۔پردہ
بکواس بند کرو شیان میں کوئی ۔حمایت نہیں کر رہی میں ۔۔بس کنفرم کر رہی ہوں کیا تم شور ہو کہ روہان ہی اسکے پیچھے ہے وہ آواز کیسی اور کی بھی تو ہو سکتی ہے ۔۔
ابھی یہی گفتگو ۔۔زیر بحث تھی کہ شہوار کے فون کی گھنٹی بجی
شہوار نے فون اٹھایا
مبارک ہو ۔۔میڈم ۔اس رے کیٹ کے مسٹر کا نام پتا چل گیا جیسے اس آدمی نے کہا شہوار نے جلدی سے کہا
کون ہے ؟
میم ۔۔بہت ہی ۔۔پکا کھلاڑی ہے ۔۔وہ ۔اتنے سالوں میں سب کو مات دیتا آیا ہوا ہے آج اسکے رے کیٹ کے شخص نے ہی آکر ۔۔ویڈیو بیان دیا ہے ۔۔شیان فراز ہے ۔۔نام اسکا
جیسے شہوار نے سنا ۔۔۔وہ ایک دم وہی سمٹ کر رہ گئ
کیا؟ ۔۔ک۔۔۔کیا نام بتایا
میم شیان فراز ۔۔۔ہے نام اسکا ۔
تم ۔۔sureہو کہ ۔۔یہی ہے ۔۔شہوار نے لڑکھڑاتی ہوئ زبان سے کہا
جی میڈم ۔۔وہی ہے آدمی نے پر اعتمادی سے کہا
شیان جو اسکے سامنے کھڑا ہوا مسکرا رہا تھا اسے یہ لگ رہا کہ اسکا بندہ شہوار کو کال کر رہا تھا ۔۔جیسے اس نے ہی حکم دیا تھا کہ وہ جب شہوار سے ملنے جائے گا تو وہ اس دوران شہوار کو کال کرے گا اور اسے بتائے گا کہ اس رے کیٹ کا ماسڑ روہان ہے ۔۔
شہوار نے شیان کی طرف ۔۔بے اختیار اور فون بند کیا
میں نے کہا تھا نہ کہ یہ روہان ہی اس سب کے پیچھے کہا
جیسے شیان نے ہنستے ہوئے کہا شہوار نے ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا
شیان پھر بولنے لگا تھا کہ ۔۔شہوار نے پھر ایک تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔۔
ی۔۔۔یہ ۔کیا ہے شہوار شیان نے چونک کہ پوچھا
تمھارا شکریہ ادا کر رہی ہوں شیان تم نے مجھے ۔اسکا نام بتا دیا ۔۔
اور ساتھ ہی ۔۔شہوار نے پولیس والوں کو کال ملائی
ہیلو۔۔پولیس ۔۔جی میں ائیڈوکیٹ در شہوار بات کر رہی ہوں ۔
آپ کے لی خوشخبری ہے ۔۔۔اسلام آباد میں لڑکیوں کی سمگلنگ کرنے والا درندہ شیان فراز بطور ثبوت میرے سامنے کھڑا ہے
سنتے ہی شیان بھڑک اٹھا ۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم شہوار ۔۔م۔۔۔میں ۔۔شیان گھبرا کے پیچھے ہٹا ۔۔
سب لوگ یہ منظر دیکھ کر کھڑے ہونے لگے ۔۔۔وہ کیفے بار میں کھڑے دونوں بات کر رہے تھے ۔
شہوار نے آگے بڑھ کر شیان کو اسکے گریبان سے پکڑا ۔
کہاں جا رہے ہو شیان فراز اتنی جلدی تو نہیں جانے دوں گی اب تو تمھاری بربادی کا وقت شروع ہوا ہے تمھیں کیا لگا مجھے اصلی مجرم کا پتا نہیں چلے گا تم جیسا گھٹیا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا اپنے ہی ملک کی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ اتنا بھتا کام کرتے ہو شرم نہیں آئی یہ کرتے ہوئے زرا سی بھی کوفت محسوس نہیں ہوئی لیکن تمھیں اس سے کیا غرض وہ کونسا تمھاری بہن کے ساتھ ایسا ہوا ہے ۔۔درد تو وہی محسوس کر سکتے ہیں جنکی بہنیں ہوں لیکن خدا تم جیسے حیوانوں کے ہاں بہنیں نہیں دیتا
یہ۔۔کیا بکواس کر رہی ہو اپنے شوہر کا الزام اب مجھ پر ۔اس روہان نے کیا ہے ۔۔وہ آگے سے بولا ۔
شہوار نے پھر ایک تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا
اب ۔۔اور نہیں ۔۔اب میں روہان کے خلاف کوئی لفظ نہیں سنوں گی ۔۔ اور نام نہ لینا اپنی اس گندی زبان سے میرے شوہر کا ۔۔آگے تمھاری وجہ سے میں اسے بہت درد دے چکی ہوں ۔
ابھی یہی گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران پولیس وہاں آگئ ۔
وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا جیسے روہان نے کیفے میں داخل ہوا ۔وہ تیزی سے دو قدم بڑھاتا ہوا شیان کی برف لپکا ۔
جو شہوار کو تھپڑ مارنے لگے تھا ۔۔لیکن اس سے پہلے روہان نے آکر شیان کا ہاتھ پکڑ لیا
اور اسکے چہرے پہ ان گنت تھپڑ رسید کیے ۔۔ ہاتھ توڑ دوں گا تمھارے ۔۔اسے مارنے لگا تھا ۔۔اسے مارنے لگا تھا
ر۔۔۔روہان۔۔چھوڑو اسے ۔۔وہ ۔مر جائے گا شہوار نے آگے بڑھ کر ۔روہان کو پیچھے کیا ۔شہوار تم چپ کر جاو ۔۔چلی جاو یہاں سے آج اسے میں خود دیکھوں گا ۔جیسے روہان نے کہا شہوار دو قدم پیچھے ہٹی روہان آج اپنے پورے طیش میں تھا ۔۔بہت مشکل سے ساتھ کھڑے پولیس کانسٹیبلز نے ۔۔شیان کو چھڑایا ۔
تم ٹھیک ہو ؟ روہان نے شہوار کی طرف دیکھا
ہ۔۔۔ہوں ۔۔شہوار نے شرمندگی سے نظریں جھکائے
ر۔۔۔روہان ۔۔وہ ابھی کچھ کہنے لگی تھی کہ اس سے پہلے روہان وہاں سے چلا گیا ۔۔
آج اس نے شہوار کی بات نہیں سنی تھی ۔۔وہ چلا گیا تھا ۔شہوار اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو جھلک رہے تھے اسنے روہان کو جو دکھ اور درد دیے تھے ۔۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھی
__________________________
عدالت کی کاروائیاں شروع ہو گئ ۔۔جب یہ بات فراز صاحب اور شیان کی والدہ کو پتا چلی تو ان سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے آج عدالت کی پہلی کاروائی تھی
شیان فراز کو ۔۔کورٹ کے اندر داخل کیا گیا ۔ہر طرف لوگوں کا جھرمٹ تھا ۔۔اور وہ بے بس ماں باپ بھی وہاں موجود تھے جن کی بیٹیوں کو وہ اغواہ کر چکا تھا
عدالت میں لانے سے پہلے شیان کو اسکے مان باپ کے سامنے کھڑا کیا
فراز صاحب نے کچھ سوچے سمجھے بنا ۔۔اسکے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا
مجھے شرم آ رہی ہے کہ تو میری اولاد ہے ۔۔شیان ۔جا آج خدا تجھے سخت سزہ دے ۔۔
م۔۔ماں ۔آپ تو مجھے سمجھے شیان نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا
بکواس بند کر شیان ۔صیح کہہ رہے ہیں تیرے ابا ۔لے جاو اسے ہماری نظروں کے سامنے
__________________________
وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلی تھی ۔۔جیسے میڈیا نے شہوار کی گاڑی دیکھی ۔وہ جلدی سے اسکی طرف لپکے ۔
لیکن اس سے پہلے۔اسکی حفاظت کے لیے موجود تھا ۔اور وہ روہان علی خان تھا
م۔۔میم۔۔کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آپ نے اتنے بڑے رے کیٹ کے خلاف ثبوت کیسے حاصل کیا کیونکہ اس رے کیٹ کے خلاف آج تک کیسی نے اتنی جرات نہیں کی تھی
پلیز ۔۔ابھی وہ کچھ نہیں کہے گی سب کیس کی سماعت کے بعد پیچھے پیچھے ہٹیں ۔۔روہان اسکے آگے تھا۔اور وہ اسکے پیچھے تھی ۔۔
لوگوں نے اسے چاروں طرف سے گھیرا تھا لیکن اسے اطمینان تھا ۔۔کیونکہ اسکے ساتھ روہان تھا۔وہ اس
شخص کو دیکھ رہی تھی وہ پوری طرح ٹوٹ چکا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ ہر قدم میں شہوار کے ساتھ تھا وہ بکھر چکا تھا ۔لیکن اسنے پھر بھی شہوار کا ہاتھ تھامے رکھا تھا ۔یہ تھی روہان کی محبت ۔اور شہوار نے ہمیشہ اسکی محبت پر کیچڑ اچھالا۔ہمیشہ اسکے وعدوں کو جھوٹا قرار دیا ۔۔ہمیشہ اسکا دل دکھایا ۔اور وہ ایسا شخص تھا ۔۔جس نے ہنس کے ۔اسکی ہر بات کو برداشت کیا لیکن ۔۔
چلو ۔۔اندر روہان نے اسے آگے کیا
شہوار نے مڑ کے روہان کی طرف دیکھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی
لیکن روہان اسے نظر انداز کیے آگے بڑھ گیا۔۔وہ وہی افسردہ ہو گئ ۔۔وہ اس سے بات نہیں کر رہا تھا ۔اسکی طرف دیکھ نہیں رہا تھا ۔اور شہوار کو بہت درد ہو رہا تھا ۔۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھی اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی لیکن شاید اب روہان اسے معاف نہیں کرنا چاہتا تھا
_________________________
کیس کی کاروائی شروع ہو گئ ۔۔اور ہمیشہ کی طرح سب لوگوں کو ایک حوصلہ تھا انھیں یقین تھا کہ جس عدالت میں ائیڈوکیٹ در شہوار کھڑی ہوتی وہاں ہمیشہ سچائی کی ہی جیت ہوتی ۔تھی ۔اور آج تک کوئی بڑا سا بڑا وکیل انکو مات نہیں دے سکا
جب وہ عدالت میں بولتی تو بڑوں بڑوں کا منہ چپ ہو جاتا
اور آج بھی شہوار نے ایسا ہی کیا ۔۔وہ پورے جوش میں کیس لڑ رہی تھی ۔
اور سارے ثبوت اور گواہوں کی بدولت شیان فراز ۔کو عمر قید کی سزہ سنوائی گئ ۔۔عدالت میں بیٹھے ان ماں باپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے وہ سب آگے بڑھ کے شہوار کو عقیدت سے مل رہے تھے ۔
اسکا شکریہ ادا کر رہے تھے ۔جج نے ان سب لڑکیوم کو جن کو شیان باہر بیچ چکا تھا ۔۔سب کو واپس لانے کے نوٹس جاری کر دیے ۔۔اور آج بھی ہمیشہ کی طرح ۔۔سچائی کی جیت ہوئی ۔۔
شہوار ۔۔۔۔جیسے فراز صاحب نے کہا
شہوار کے قدم وہی منجمد ہو گئے ۔۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی
فراز صاحب نے اسکے آگے اپنے ہاتھ جوڑنے لگے تھے کہ شہوار نے جلدی سے انکے ہاتھوں کو پکڑ لیا
نہیں ۔۔نہیں تایا جان ۔۔ایسا مت کریں آپ بڑے ہیں ۔۔
مجھے معاف کر دو۔شہوار بیٹا میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا ہے ۔۔تمھارے کردار پر ۔بہت جھوٹی انگلیاں اٹھائی ہیں ۔۔خدا کے لیے مجھے معاف کر دو
ارے نہئں نہیں تایا جان ایسا مت کہے میں نے تو آپ کو کب کا معاف کر دیا ۔
یہ کہتے ہوئے فراز صاحب نے اسے اپنے گلے لگالیا
جیتی رہو ۔بیٹا اللہ تمھیں خوش رکھے ۔۔
امی ۔۔۔شہوار سکینہ بیگم کو دیکھتے ہوئے انکے گلے لپک گئ ۔
اور زور زور سے رونے لگی ۔۔
سکینہ بیگم نے بھی اپنے سرد رویے پر معافی مانگی ۔سب ۔۔خوش تھے ۔اور وہ آج بہت خوش تھی بہت زیادہ اسے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں مل چکی تھی اب سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا ۔۔سب کچھ
شہوار کی آنکھیں روہان کو ڈھونڈ رہی تھی ۔وہ وہاں نہیں موجود تھا ۔۔کیس کے بعد وہ اسکے پاس نہیں آیا تھا
شہوار نے اسے کال کی لیکن فون آگے سے بند تھا ۔______________________
وہ خاموشی سے چل رہا تھا ۔۔کچھ نہیں بول رہا تھا
وہ خوش ہے ۔۔بہت خوش ہے ۔اور میں اسی میں خوش ہوں ۔۔کہ وہ خوش ہے ۔۔اسے میرے بغیر جینا آتا ہے لیکن مجھے اسکے بغیر نہیں ۔۔وہ آگے بڑھ سکتی ہے میرے بغیر لیکن میں نہیں ۔۔روہان نے بے اختیار گہرا سانس لیا ۔
رات کے ۔۔بارہ بجنے کو آئے تھے جب وہ گھر آیا
جیسے دروازہ کھولا شہوار جلدی سے اٹھی
جو نشست گاہ میں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی
روہان ۔۔تم کہاں تھے ۔۔وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھی
لیکن وہ آگے سے خاموش تھا
میں نے تم سے کچھ کہنا ہے روہان ۔۔شہوار نے شرمندگی بڑے لہجے میں کہا
مبارک ہو شہوار ۔۔تم کیس جیت گئ ۔۔روہان نے طنزا کرتے ہوئے کہا
ر۔۔۔روہان میں جانتی ہوں
بس ۔۔شہوار اب ۔۔بس ۔۔جب ہمارے رشتے میں کچھ رہا ہئ نہیں تو پھر کونسے شکوے ۔
ن۔۔۔نہیں ۔روہان ۔۔شہوار نے پھر کوشش کی لیکن
روہان نے اسے چپ کروا دیا
اور وہ کمرے میں چلا گیا
اسکا حق بنتا تھا اسکے ساتھ ایسا رویہ رکھنا ۔۔وہ کر سکتا تھا ۔۔اور آج اسکا غصہ جائز بھی تھا
___________
خاموشی نے ان دونوں کے درمیان جگہ لے لی تھی ۔وہ روہان جو ایک منٹ کے لیے چپ نہیں کرتا تھا ہمیشہ شہوار کو تنگ کرنا ۔اسکی باتوں کا مذاق بنانا وہ بلکل چپ ہو گیا تھا شاید یہ قسمت کے کھیل تھے یا محبت کے امتحان ۔۔وہ کمرے میں اکیلا ہی بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا شہوا کمرے میں نہیں آئی تھی وہ صوفہ پر ٹیک لگائے ۔صرف ایک ہی انسان کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے شہوار کی باتیں بار بار یاد آرہی تھی اور جب جب یاد آتی ۔۔وہ اور درد محسوس کرتا ۔آنکھیں نم ہو جاتی ۔۔محبت انسان کو کتنا مجبور اور بے بس کر دیتی ہے ۔پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا جیسے وہ نشست گاہ کی طرف بڑھا اسنے شہوار کو وہی صوفہ پر سوتے ہوئے دیکھا تو فورا کمرے سے چادر لا کر اسکے اوپر اوڑھ دی ۔۔اور وہی اسکے قریب بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا
بہت درد ہوا ہو گا ۔۔جب میں نے اسے نظر انداز کیا ہو گا ۔میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا شہوار تم نے مجھے مجبور کیا ۔۔تم نے میری محبت کو اس موڑ پر لا کر کھڑا دیا کہ مجھے تمھارے ساتھ یہ رویہ رکھنا پڑا ۔۔روہان نے بے بسی سے اپنا سر جھٹک دیا
___________________________
شہوار کے اٹھنے سے پہلے وہ آفس جا چکا تھا ۔۔شہوار نے جب اسے گھر نہ پایا تو فورا اسے کال کی
ہیلو ! شہوار نے پہل کی ۔روہان آج تم اتنی تھانے چلے گئے ناشتہ بھی نہیں کیا تم نے ۔۔مجھے ایک دفعہ اٹھا دیتے میں تمھارے لیے ناشتہ بنا دیتی ۔
میں اپنے کام خود کرنا پسند کرتا ہوں ۔اور آئیندہ تم کوئی زحمت مت کرنا ۔اوکے میں بعد میں بات کرتا ہوں زرا بزی ہوں
یہ کہتے ہی روہان نے فون بند کر دیا ۔شہوار وہی خاموش رہ گئ ۔۔اسنے فون کو گور سے دیکھا کیا یہ روہان ہی تھا جو اتنے تلخ لہجے سے مخاطب تھا اس سے ۔
وہ ابھی اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ گھر فراز صاحب زرش اور سکینہ بیگم آئیں ۔
یہ دیکھتے ہی شہوار کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئ
اسلام و علیکم تایا جان ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے فراز صاحب سے ملنے کے لیے آگے بڑھی
و علیکم اسلام کیسی ہو بیٹا ۔
میں بلکل ٹھیک ۔۔تائی جان کہاں ہیں؟ شہوار نے جلدی سے جواب دیا
و۔۔۔وہ بیٹا تمھاری تائی جان کیسی ضروری کام سے میکہ گئ ہیں ۔۔کیسی کام سے
او اچھا ۔۔۔
امی کیسی ہیں آپ ؟ وہ اب سکینہ بیگم سے مل رہی تھی
آئیں اندر آئیں ۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ سب ۔۔نشست گاہ کی جانب بڑھے
آپ بیٹھے میں آپ لوگوں کے لیے چائے لاتی ہوں
زرش بھی شہوار کے ساتھ کچن میں آئی
روہان بھائی کہاں ہیں آپی؟ زرش نے فریزر میں سے دودھ نکالتے ہوئے کہا
ظاہر ہی بات ہے کام پہ ۔۔ہے شہوار نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپاتے ہوئے جواب دیا
آپ نے ان سے معافی مانگی جیسے زرش نے سوال کیا
آگے ۔۔سے شہوار نے جلدی سے موضوع گفتگو تبدیل کرتے ہوئے کہا
زری۔۔کپ نکالو ۔۔
آپی میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں آپ نے روہان بھائی سے بات کی ۔۔زرش نے پھر ایک دفعہ اسی موضوع پر بات کی ۔
نہیں کی؟
جاری ہے
______________________
یار میں ہار گیا ۔۔عاقب میں اپنے آپ میں ہار گیا ۔۔اسنے اس شخص کی بات پر اعتماد کیا ۔۔جس نے اس کی زندگی برباد کی ۔۔مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ ۔وہ میرے خلاف ثبوت لائی ۔۔دکھ تو اس بات کا ہے ۔اس شخص کی باتوں پر یقین کر کے مجھے جھوٹا قرار دیا ۔کہا ۔کہ میں اسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوں ۔۔
اور آج ۔۔یہ آنسو بھی رک نہیں پائے ۔۔
روہان۔۔۔روہان میرے یار ۔۔حوصلہ رکھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔مجھے اس بات کی بھابھی سے بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی ائیڈوکیٹ ہو کر بھی جھوٹے شخص پر اعتبار کر لے ۔۔جھگڑے کی بات الگ تھی ۔۔لیکن تمھاری ذات کو ایک ایسے کم تر رے کیٹ سے جوڑا ۔اور اس ثبوت کے تحت جس میں تمھاری آواز کا استعال کیا ہے ۔۔ان کو ایک بار بھی یہ خیال نہیں رہا کہ آجکل کی دنیا کی ٹیکنالوجی اس قدر تیز ہے کہ وہ کیسی کی بھی آواز کو مکس کر سکتے ہیں عاقب نے حیرانگی سے کہا
روہان ۔۔ایسے درد میں رہنے سے سب کچھ ۔۔ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔اسے تمھاری قدر ہی نہیں ۔تو اچھا ہے ناں تم ۔۔اس جگہ کو ہی چھوڑ دو ۔۔
نہیں چھوڑ سکتا یار ۔۔یہ کم بخت محبت ۔۔روک دیتی ہے دل کیا ۔۔اسے تھپڑ ماروں لیکن نہیں میں اپنی محبت کو درد نہیں دیکھ سکتا اسکی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں برداشت کر سکتا ۔وہ نہیں جانتی وہ میری زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے عاقب ۔۔۔روہان کی آنکھیں بلکل نم اور گہری لال تھی ساری رات بیداری میں بسر کرنے سے اسکی آنکھیں سن پو گئ تھی ۔۔ایسا ہی ہوتا ہے ۔محبت کرنے والوں کے ساتھ ۔۔یہ آسان تھوڑئ ہے ۔۔رقص ہے صاحب وہ بھی آگ پر ۔۔اور اس آگ میں اب روہان جل رہا تھا ۔۔
روہان میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تجھے ایسی محبت ہو گی ۔ عاقب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا اپنئ حالت دیکھو ۔۔کیا ہو گئ ہے
یہ سنتے ہی ۔۔روہان بے اختیار مسکرایا ۔۔آتش عشق کا نتجہ ہے غالب۔۔۔
“نہیں کم ہو گا”
بڑھے گا ۔۔روہان نے کہتے ہوئے سر جھٹک دیا
________________________
بہت اچھا کیا ہے آپی ۔آپ نے اس شخص کے ساتھ ۔۔یہی ڈیزرو کرتا ہے ۔۔کون اتنی محبت کرتا ہے بھلا جیسے زرش نے کہا شہوار نے چونک کر اسکی طرف دیکھا
ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں صیح تو کہہ رہی ہوں ۔۔روہان نے اتنی محبت کی ہے تم سے ۔اتنی محبت کہ میں اس شخص کی داد دیتی ہوں مسکرا کر ۔۔آپ کی تلخ باتوں کو سہہ لیتا ہے آپ نے تو آج انکی محبت کی چھیترے چھیترے کر دیے ۔۔انکے جذباتوں کو اپنے ۔۔پیروں تلے روندا ۔
آپ ۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔اس بے وفا کی باتوں پر ۔اعتبار کیسے کر سکتی ۔۔اس گھٹیا شخص کی باتوں پر
سیریسلی آپی ۔۔آپ نے ایک جھوٹے ثبوت سے اتنا گندہ الزام لگایا روہان بھائی پر ایک دفعہ بھی ۔۔نہیں سوچا کہ وہ شاید جھوٹ بول رہا ہو ۔۔
زری اس نے ایڈیو ۔۔ریکارڈر دیا ہے شیان نے
اس گھٹئا شخص نام مت لیں میرے سامنے ۔۔۔آیا بڑا ثبوت دینے والا ۔آپ کو لگتا ہے روہان بھائی نے یہ کیا ہے جیسے زرش نے کہا وہ وہی خاموش ہو گئ شہوار کی آنکھوں میں آنسو آگئے
رو کیوں رہی ہیں ۔۔ جواب دیں ۔
زری چلی جاو ۔۔یہاں سے ۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔خدا کے لیے ۔۔ شہوار نے آنکھیں بند کر لی
زرش خاموش اور وہاں سے چل گئ ۔۔
__________________________
شہوار ۔۔تمھیں لگ رہا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں شیان نے چونکتے ہوئے کہا
سچ سچ بولو۔۔۔شیان ۔۔شہوار نے غصے سے کہا
یہ سنتے ہی شیان نے قہقا لگایا ۔مجھے پہلے ہی پتا تھا تم ۔۔کبھی اپنوں کے خلاف کیس نہیں لڑ سکتی کبھی نہیں ۔۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔۔واہ یہ ہیں آپ ۔۔جو دوسرے مجرموں کو پھانسی تک لاتی ہیں لیکن اپنے مجرموں پر ۔۔پردہ
بکواس بند کرو شیان میں کوئی ۔حمایت نہیں کر رہی میں ۔۔بس کنفرم کر رہی ہوں کیا تم شور ہو کہ روہان ہی اسکے پیچھے ہے وہ آواز کیسی اور کی بھی تو ہو سکتی ہے ۔۔
ابھی یہی گفتگو ۔۔زیر بحث تھی کہ شہوار کے فون کی گھنٹی بجی
شہوار نے فون اٹھایا
مبارک ہو ۔۔میڈم ۔اس رے کیٹ کے مسٹر کا نام پتا چل گیا جیسے اس آدمی نے کہا شہوار نے جلدی سے کہا
کون ہے ؟
میم ۔۔بہت ہی ۔۔پکا کھلاڑی ہے ۔۔وہ ۔اتنے سالوں میں سب کو مات دیتا آیا ہوا ہے آج اسکے رے کیٹ کے شخص نے ہی آکر ۔۔ویڈیو بیان دیا ہے ۔۔شیان فراز ہے ۔۔نام اسکا
جیسے شہوار نے سنا ۔۔۔وہ ایک دم وہی سمٹ کر رہ گئ
کیا؟ ۔۔ک۔۔۔کیا نام بتایا
میم شیان فراز ۔۔۔ہے نام اسکا ۔
تم ۔۔sureہو کہ ۔۔یہی ہے ۔۔شہوار نے لڑکھڑاتی ہوئ زبان سے کہا
جی میڈم ۔۔وہی ہے آدمی نے پر اعتمادی سے کہا
شیان جو اسکے سامنے کھڑا ہوا مسکرا رہا تھا اسے یہ لگ رہا کہ اسکا بندہ شہوار کو کال کر رہا تھا ۔۔جیسے اس نے ہی حکم دیا تھا کہ وہ جب شہوار سے ملنے جائے گا تو وہ اس دوران شہوار کو کال کرے گا اور اسے بتائے گا کہ اس رے کیٹ کا ماسڑ روہان ہے ۔۔
شہوار نے شیان کی طرف ۔۔بے اختیار اور فون بند کیا
میں نے کہا تھا نہ کہ یہ روہان ہی اس سب کے پیچھے کہا
جیسے شیان نے ہنستے ہوئے کہا شہوار نے ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا
شیان پھر بولنے لگا تھا کہ ۔۔شہوار نے پھر ایک تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔۔
ی۔۔۔یہ ۔کیا ہے شہوار شیان نے چونک کہ پوچھا
تمھارا شکریہ ادا کر رہی ہوں شیان تم نے مجھے ۔اسکا نام بتا دیا ۔۔
اور ساتھ ہی ۔۔شہوار نے پولیس والوں کو کال ملائی
ہیلو۔۔پولیس ۔۔جی میں ائیڈوکیٹ در شہوار بات کر رہی ہوں ۔
آپ کے لی خوشخبری ہے ۔۔۔اسلام آباد میں لڑکیوں کی سمگلنگ کرنے والا درندہ شیان فراز بطور ثبوت میرے سامنے کھڑا ہے
سنتے ہی شیان بھڑک اٹھا ۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم شہوار ۔۔م۔۔۔میں ۔۔شیان گھبرا کے پیچھے ہٹا ۔۔
سب لوگ یہ منظر دیکھ کر کھڑے ہونے لگے ۔۔۔وہ کیفے بار میں کھڑے دونوں بات کر رہے تھے ۔
شہوار نے آگے بڑھ کر شیان کو اسکے گریبان سے پکڑا ۔
کہاں جا رہے ہو شیان فراز اتنی جلدی تو نہیں جانے دوں گی اب تو تمھاری بربادی کا وقت شروع ہوا ہے تمھیں کیا لگا مجھے اصلی مجرم کا پتا نہیں چلے گا تم جیسا گھٹیا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا اپنے ہی ملک کی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ اتنا بھتا کام کرتے ہو شرم نہیں آئی یہ کرتے ہوئے زرا سی بھی کوفت محسوس نہیں ہوئی لیکن تمھیں اس سے کیا غرض وہ کونسا تمھاری بہن کے ساتھ ایسا ہوا ہے ۔۔درد تو وہی محسوس کر سکتے ہیں جنکی بہنیں ہوں لیکن خدا تم جیسے حیوانوں کے ہاں بہنیں نہیں دیتا
یہ۔۔کیا بکواس کر رہی ہو اپنے شوہر کا الزام اب مجھ پر ۔اس روہان نے کیا ہے ۔۔وہ آگے سے بولا ۔
شہوار نے پھر ایک تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا
اب ۔۔اور نہیں ۔۔اب میں روہان کے خلاف کوئی لفظ نہیں سنوں گی ۔۔ اور نام نہ لینا اپنی اس گندی زبان سے میرے شوہر کا ۔۔آگے تمھاری وجہ سے میں اسے بہت درد دے چکی ہوں ۔
ابھی یہی گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران پولیس وہاں آگئ ۔
وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا جیسے روہان نے کیفے میں داخل ہوا ۔وہ تیزی سے دو قدم بڑھاتا ہوا شیان کی برف لپکا ۔
جو شہوار کو تھپڑ مارنے لگے تھا ۔۔لیکن اس سے پہلے روہان نے آکر شیان کا ہاتھ پکڑ لیا
اور اسکے چہرے پہ ان گنت تھپڑ رسید کیے ۔۔ ہاتھ توڑ دوں گا تمھارے ۔۔اسے مارنے لگا تھا ۔۔اسے مارنے لگا تھا
ر۔۔۔روہان۔۔چھوڑو اسے ۔۔وہ ۔مر جائے گا شہوار نے آگے بڑھ کر ۔روہان کو پیچھے کیا ۔شہوار تم چپ کر جاو ۔۔چلی جاو یہاں سے آج اسے میں خود دیکھوں گا ۔جیسے روہان نے کہا شہوار دو قدم پیچھے ہٹی روہان آج اپنے پورے طیش میں تھا ۔۔بہت مشکل سے ساتھ کھڑے پولیس کانسٹیبلز نے ۔۔شیان کو چھڑایا ۔
تم ٹھیک ہو ؟ روہان نے شہوار کی طرف دیکھا
ہ۔۔۔ہوں ۔۔شہوار نے شرمندگی سے نظریں جھکائے
ر۔۔۔روہان ۔۔وہ ابھی کچھ کہنے لگی تھی کہ اس سے پہلے روہان وہاں سے چلا گیا ۔۔
آج اس نے شہوار کی بات نہیں سنی تھی ۔۔وہ چلا گیا تھا ۔شہوار اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو جھلک رہے تھے اسنے روہان کو جو دکھ اور درد دیے تھے ۔۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھی
__________________________
عدالت کی کاروائیاں شروع ہو گئ ۔۔جب یہ بات فراز صاحب اور شیان کی والدہ کو پتا چلی تو ان سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے آج عدالت کی پہلی کاروائی تھی
شیان فراز کو ۔۔کورٹ کے اندر داخل کیا گیا ۔ہر طرف لوگوں کا جھرمٹ تھا ۔۔اور وہ بے بس ماں باپ بھی وہاں موجود تھے جن کی بیٹیوں کو وہ اغواہ کر چکا تھا
عدالت میں لانے سے پہلے شیان کو اسکے مان باپ کے سامنے کھڑا کیا
فراز صاحب نے کچھ سوچے سمجھے بنا ۔۔اسکے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا
مجھے شرم آ رہی ہے کہ تو میری اولاد ہے ۔۔شیان ۔جا آج خدا تجھے سخت سزہ دے ۔۔
م۔۔ماں ۔آپ تو مجھے سمجھے شیان نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا
بکواس بند کر شیان ۔صیح کہہ رہے ہیں تیرے ابا ۔لے جاو اسے ہماری نظروں کے سامنے
__________________________
وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلی تھی ۔۔جیسے میڈیا نے شہوار کی گاڑی دیکھی ۔وہ جلدی سے اسکی طرف لپکے ۔
لیکن اس سے پہلے۔اسکی حفاظت کے لیے موجود تھا ۔اور وہ روہان علی خان تھا
م۔۔میم۔۔کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آپ نے اتنے بڑے رے کیٹ کے خلاف ثبوت کیسے حاصل کیا کیونکہ اس رے کیٹ کے خلاف آج تک کیسی نے اتنی جرات نہیں کی تھی
پلیز ۔۔ابھی وہ کچھ نہیں کہے گی سب کیس کی سماعت کے بعد پیچھے پیچھے ہٹیں ۔۔روہان اسکے آگے تھا۔اور وہ اسکے پیچھے تھی ۔۔
لوگوں نے اسے چاروں طرف سے گھیرا تھا لیکن اسے اطمینان تھا ۔۔کیونکہ اسکے ساتھ روہان تھا۔وہ اس
شخص کو دیکھ رہی تھی وہ پوری طرح ٹوٹ چکا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ ہر قدم میں شہوار کے ساتھ تھا وہ بکھر چکا تھا ۔لیکن اسنے پھر بھی شہوار کا ہاتھ تھامے رکھا تھا ۔یہ تھی روہان کی محبت ۔اور شہوار نے ہمیشہ اسکی محبت پر کیچڑ اچھالا۔ہمیشہ اسکے وعدوں کو جھوٹا قرار دیا ۔۔ہمیشہ اسکا دل دکھایا ۔اور وہ ایسا شخص تھا ۔۔جس نے ہنس کے ۔اسکی ہر بات کو برداشت کیا لیکن ۔۔
چلو ۔۔اندر روہان نے اسے آگے کیا
شہوار نے مڑ کے روہان کی طرف دیکھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی
لیکن روہان اسے نظر انداز کیے آگے بڑھ گیا۔۔وہ وہی افسردہ ہو گئ ۔۔وہ اس سے بات نہیں کر رہا تھا ۔اسکی طرف دیکھ نہیں رہا تھا ۔اور شہوار کو بہت درد ہو رہا تھا ۔۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھی اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی لیکن شاید اب روہان اسے معاف نہیں کرنا چاہتا تھا
_________________________
کیس کی کاروائی شروع ہو گئ ۔۔اور ہمیشہ کی طرح سب لوگوں کو ایک حوصلہ تھا انھیں یقین تھا کہ جس عدالت میں ائیڈوکیٹ در شہوار کھڑی ہوتی وہاں ہمیشہ سچائی کی ہی جیت ہوتی ۔تھی ۔اور آج تک کوئی بڑا سا بڑا وکیل انکو مات نہیں دے سکا
جب وہ عدالت میں بولتی تو بڑوں بڑوں کا منہ چپ ہو جاتا
اور آج بھی شہوار نے ایسا ہی کیا ۔۔وہ پورے جوش میں کیس لڑ رہی تھی ۔
اور سارے ثبوت اور گواہوں کی بدولت شیان فراز ۔کو عمر قید کی سزہ سنوائی گئ ۔۔عدالت میں بیٹھے ان ماں باپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے وہ سب آگے بڑھ کے شہوار کو عقیدت سے مل رہے تھے ۔
اسکا شکریہ ادا کر رہے تھے ۔جج نے ان سب لڑکیوم کو جن کو شیان باہر بیچ چکا تھا ۔۔سب کو واپس لانے کے نوٹس جاری کر دیے ۔۔اور آج بھی ہمیشہ کی طرح ۔۔سچائی کی جیت ہوئی ۔۔
شہوار ۔۔۔۔جیسے فراز صاحب نے کہا
شہوار کے قدم وہی منجمد ہو گئے ۔۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی
فراز صاحب نے اسکے آگے اپنے ہاتھ جوڑنے لگے تھے کہ شہوار نے جلدی سے انکے ہاتھوں کو پکڑ لیا
نہیں ۔۔نہیں تایا جان ۔۔ایسا مت کریں آپ بڑے ہیں ۔۔
مجھے معاف کر دو۔شہوار بیٹا میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا ہے ۔۔تمھارے کردار پر ۔بہت جھوٹی انگلیاں اٹھائی ہیں ۔۔خدا کے لیے مجھے معاف کر دو
ارے نہئں نہیں تایا جان ایسا مت کہے میں نے تو آپ کو کب کا معاف کر دیا ۔
یہ کہتے ہوئے فراز صاحب نے اسے اپنے گلے لگالیا
جیتی رہو ۔بیٹا اللہ تمھیں خوش رکھے ۔۔
امی ۔۔۔شہوار سکینہ بیگم کو دیکھتے ہوئے انکے گلے لپک گئ ۔
اور زور زور سے رونے لگی ۔۔
سکینہ بیگم نے بھی اپنے سرد رویے پر معافی مانگی ۔سب ۔۔خوش تھے ۔اور وہ آج بہت خوش تھی بہت زیادہ اسے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں مل چکی تھی اب سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا ۔۔سب کچھ
شہوار کی آنکھیں روہان کو ڈھونڈ رہی تھی ۔وہ وہاں نہیں موجود تھا ۔۔کیس کے بعد وہ اسکے پاس نہیں آیا تھا
شہوار نے اسے کال کی لیکن فون آگے سے بند تھا ۔______________________
وہ خاموشی سے چل رہا تھا ۔۔کچھ نہیں بول رہا تھا
وہ خوش ہے ۔۔بہت خوش ہے ۔اور میں اسی میں خوش ہوں ۔۔کہ وہ خوش ہے ۔۔اسے میرے بغیر جینا آتا ہے لیکن مجھے اسکے بغیر نہیں ۔۔وہ آگے بڑھ سکتی ہے میرے بغیر لیکن میں نہیں ۔۔روہان نے بے اختیار گہرا سانس لیا ۔
رات کے ۔۔بارہ بجنے کو آئے تھے جب وہ گھر آیا
جیسے دروازہ کھولا شہوار جلدی سے اٹھی
جو نشست گاہ میں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی
روہان ۔۔تم کہاں تھے ۔۔وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھی
لیکن وہ آگے سے خاموش تھا
میں نے تم سے کچھ کہنا ہے روہان ۔۔شہوار نے شرمندگی بڑے لہجے میں کہا
مبارک ہو شہوار ۔۔تم کیس جیت گئ ۔۔روہان نے طنزا کرتے ہوئے کہا
ر۔۔۔روہان میں جانتی ہوں
بس ۔۔شہوار اب ۔۔بس ۔۔جب ہمارے رشتے میں کچھ رہا ہئ نہیں تو پھر کونسے شکوے ۔
ن۔۔۔نہیں ۔روہان ۔۔شہوار نے پھر کوشش کی لیکن
روہان نے اسے چپ کروا دیا
اور وہ کمرے میں چلا گیا
اسکا حق بنتا تھا اسکے ساتھ ایسا رویہ رکھنا ۔۔وہ کر سکتا تھا ۔۔اور آج اسکا غصہ جائز بھی تھا
___________
خاموشی نے ان دونوں کے درمیان جگہ لے لی تھی ۔وہ روہان جو ایک منٹ کے لیے چپ نہیں کرتا تھا ہمیشہ شہوار کو تنگ کرنا ۔اسکی باتوں کا مذاق بنانا وہ بلکل چپ ہو گیا تھا شاید یہ قسمت کے کھیل تھے یا محبت کے امتحان ۔۔وہ کمرے میں اکیلا ہی بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا شہوا کمرے میں نہیں آئی تھی وہ صوفہ پر ٹیک لگائے ۔صرف ایک ہی انسان کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے شہوار کی باتیں بار بار یاد آرہی تھی اور جب جب یاد آتی ۔۔وہ اور درد محسوس کرتا ۔آنکھیں نم ہو جاتی ۔۔محبت انسان کو کتنا مجبور اور بے بس کر دیتی ہے ۔پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا جیسے وہ نشست گاہ کی طرف بڑھا اسنے شہوار کو وہی صوفہ پر سوتے ہوئے دیکھا تو فورا کمرے سے چادر لا کر اسکے اوپر اوڑھ دی ۔۔اور وہی اسکے قریب بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا
بہت درد ہوا ہو گا ۔۔جب میں نے اسے نظر انداز کیا ہو گا ۔میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا شہوار تم نے مجھے مجبور کیا ۔۔تم نے میری محبت کو اس موڑ پر لا کر کھڑا دیا کہ مجھے تمھارے ساتھ یہ رویہ رکھنا پڑا ۔۔روہان نے بے بسی سے اپنا سر جھٹک دیا
___________________________
شہوار کے اٹھنے سے پہلے وہ آفس جا چکا تھا ۔۔شہوار نے جب اسے گھر نہ پایا تو فورا اسے کال کی
ہیلو ! شہوار نے پہل کی ۔روہان آج تم اتنی تھانے چلے گئے ناشتہ بھی نہیں کیا تم نے ۔۔مجھے ایک دفعہ اٹھا دیتے میں تمھارے لیے ناشتہ بنا دیتی ۔
میں اپنے کام خود کرنا پسند کرتا ہوں ۔اور آئیندہ تم کوئی زحمت مت کرنا ۔اوکے میں بعد میں بات کرتا ہوں زرا بزی ہوں
یہ کہتے ہی روہان نے فون بند کر دیا ۔شہوار وہی خاموش رہ گئ ۔۔اسنے فون کو گور سے دیکھا کیا یہ روہان ہی تھا جو اتنے تلخ لہجے سے مخاطب تھا اس سے ۔
وہ ابھی اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ گھر فراز صاحب زرش اور سکینہ بیگم آئیں ۔
یہ دیکھتے ہی شہوار کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئ
اسلام و علیکم تایا جان ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے فراز صاحب سے ملنے کے لیے آگے بڑھی
و علیکم اسلام کیسی ہو بیٹا ۔
میں بلکل ٹھیک ۔۔تائی جان کہاں ہیں؟ شہوار نے جلدی سے جواب دیا
و۔۔۔وہ بیٹا تمھاری تائی جان کیسی ضروری کام سے میکہ گئ ہیں ۔۔کیسی کام سے
او اچھا ۔۔۔
امی کیسی ہیں آپ ؟ وہ اب سکینہ بیگم سے مل رہی تھی
آئیں اندر آئیں ۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ سب ۔۔نشست گاہ کی جانب بڑھے
آپ بیٹھے میں آپ لوگوں کے لیے چائے لاتی ہوں
زرش بھی شہوار کے ساتھ کچن میں آئی
روہان بھائی کہاں ہیں آپی؟ زرش نے فریزر میں سے دودھ نکالتے ہوئے کہا
ظاہر ہی بات ہے کام پہ ۔۔ہے شہوار نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپاتے ہوئے جواب دیا
آپ نے ان سے معافی مانگی جیسے زرش نے سوال کیا
آگے ۔۔سے شہوار نے جلدی سے موضوع گفتگو تبدیل کرتے ہوئے کہا
زری۔۔کپ نکالو ۔۔
آپی میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں آپ نے روہان بھائی سے بات کی ۔۔زرش نے پھر ایک دفعہ اسی موضوع پر بات کی ۔
نہیں کی؟
جاری ہے
Leave a Reply