کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 6
روہان پوری رات نہیں سویا تھا ۔۔۔شہوار کے بارے میں سوچ کر ۔۔اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا ۔۔اسنے صبح اٹھتے ہی اسکے لیے ناشتہ بنایا اور اسکے کمرے کی جانب بڑا
جیسے ۔۔۔روہان نے دورازہ کھولا اسنے دیکھا شہوار بیڈ پر بے ہوش پڑی تھی وہ ہر بڑا کے اسکی طرف بڑھا
ش۔۔۔۔شہوار ۔۔۔اٹھو کیا ۔۔ہوا ہے تمھیں اسنے جلدی ساے ساتھ میز پر پڑے ہوئے گلاس سے پانی کے کچھ چھینٹے اس کے منہ پر ۔۔پھینکے
شہورا ۔۔اٹھو ۔۔
اسکی ہلکی ہلکی آنکھوں نے حرکت کی اسکے ہونٹ سوکھ چکے تھے ۔۔روہان نے جلدی سے اسے بیڈ پر ٹیک لگائی اور اسے پانی پلایا
تم۔۔۔ٹھیک تو ہو ۔اسنے تشویش کی جیسے شہوار کی حالت زرا سنبھلی اسنے جلدی سے روہان کو دیکھ کر کہا
وہ۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔اسنے مجھے اپنی زندگی اور محبت سے نکال دیا ۔۔۔ہے شہوار ابھی تک اس درد میں مبتلا تھی اسکی آنکھیں ابھی تک نم تھی ۔۔
یہ دیکھتے ہی ۔۔روہان نے کہا
اب رونے کا کیا فائدہ ۔۔اسنے کبھی تم سے محبت نہیں کی تھی تم ناشتہ کرو جیسے روہان نے ناشتے والی ٹرے سشہوار کے سامنے کی اسنے غصے سے ٹرے کو نیچا پھینکا
مجھے نہیں کھانا حرام کا کھانا ۔۔جس میں غریبوں سے ۔۔مفلسی اور لچاری کی حالت میں پیسے چھینے گئے ہوں
وہ ایک دم ٹھہر ۔گیا ۔۔۔
تو مرو ۔۔اگر اتنا مرنے کا شوق ہے روہان نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
_________________________
روہان نے ۔۔شہوار کے آفس جاکر ۔۔کچھ ہفتے کے لیے چھٹیاں لے لی کیونکہ انعم کیس کی سماعت کے لیے کورٹ نے ۔۔انعم کے بیان آنے تک کیس ملوتوی کر دیا تھا
اسے کپڑوں کی ضرورت ہو گی ۔۔جیسے روہان نے سوچا وہ جنجھلا کے ۔۔سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا
کہا جا رہے ہیں صاحب ۔۔جیسے ایک پولیس کانسٹیبل نے کہا
وہ غصے سے اسکی طرف پلٹا ۔۔اور کہا
جہنم میں کیا جانا ہے تم نے بھی ۔۔چلو آو اکھٹے چلتے ہین
ن۔۔نہیں صاحب پولیس کانسٹیبل نے ۔۔شرمندگی سے کہا
وہ اب ۔۔ایک مال مین موجود ۔۔تھا اسے ۔۔وومینز کلاتھ کے بارے میں کوئی ۔۔علم نہیں تھا ۔۔وہ بڑے غور سے ہر چیز کو دیکھ رہا تھا جب ساتھ کھڑی ایک شاپ سیلر وومین اسکے قریب ایا
آپ کو کچھ چاہیے سر ۔۔اسنے دلکش مسکراہٹ سے روہان کی طرف دیکھا ۔وہ روہان کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی خاص کر اسکی آنکھوں کو ۔۔جو بہت ہی گہری اور سرمئ رنگ کی ۔۔تھی جیسے ہر کوئی دیکھ کر دھک رہ جاتا
جی ۔۔۔وہ مجھے اپنی ۔۔وہ اچانک رکا
کیا سر
و۔۔وہ اپنی ۔۔ہونے والی بیوی کے لیے ڈرسسز لینے تھے ۔۔
نو پروبلم سر یہاں پر ورائیٹی موجود ہے آپ بس بھابی کی ہایٹ بتا دین اسکے مطابق لے لیں
وکیل ہے ۔۔۔اسنے سوچا ۔۔۔تمھارا جتنا
شویر سر ۔۔
ہاں ہاں ۔۔۔مجھے دیکھائیں
اوکے
__________________
یہ۔۔میں تمھارے لیے کپڑے لایا ہوں چینج کر لو روہان نے ۔۔کمرے میں داخ ہوتے نرم لہج سے اس سے مخاطب ہوتے کہا جو کمرے کے ایک کونے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی جیسے شہوار نے سنا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکی طرف بڑھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا
ترس کھا رہے ہو مجھ پر بولو یہی سوچ رہے ہو طلاق یافتہ ہے کون رکھے گا اب اسے ۔۔اور میں ہمدردی کا خدا بن کر اسکو لاوارث سمجھ کر ۔۔اپنے حرام کے دھندے میں ملوث کر لوں ۔۔کیونکہ تم جیسے لوگوں کے ساتھ کون سی لڑکی شادی کے لیے تیار ہوتی ہے ۔۔اسلیے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تم نے یہ سب کھیل کھیلا
لیکن میں لاچار اور مفلس نہیں ہوں روہان علی خان ۔۔تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں جہاں تمھاری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے میری شروع ہوتی ہے اور ہاں ایک بات کان کھول کر سن لو ۔۔تم مجھے اس گھر میں کیسی بھی جواز سے نہیں رکھ سکتے ۔۔اور اگر زبر دستی کی ۔۔تو ایسا تماشہ بناوں گی سب لوگوں کے سامنے کہ کیسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہو گے ۔۔وہ جوش کے ساتھ تسلسل کے ساتھ بول رہی تھی جب روہان نے اپنی خاموشی توڑئ
ہو گئ بکواس تمھاری اب تم کان کھول کر سنو مس در شہوار اگر تم یہی سمجھ رہی ہو کہ میں تمھاری بربادی کا سبب ہوں تو ٹھیک ۔۔یہ بھی غلط فہمی اپنے دل میں پال لو کیونکہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو یا نہیں اور ہاں ۔اب تو میں تمھیں ہرگز جانے نہیں دوں گا
وہ اسکے قریب بڑھا
کس حق سے رکھو گے مجھے یہاں وہ خوف سے دو قدم پیچھے ہٹئ
ہر اس حق سے جسکے لیے اسلام اجازت دیتا ہے ۔۔بیوی کی احثیت سے ۔۔اپنی زندگی میں تمھارا نام کی دفعہ 420 کے تحت ۔۔۔ڈھنکے کی چوٹ پر نکاح کروں گا اور اس کام سے تم بھی مجھے نہیں روک سکتی ۔۔میں ہی تمھاری بربادی کا سبب ہوں ناں تو ٹھیک ہے میں ہی اب تمھاری زندگی آباد کروں گا
خواب ہے تمھارا ۔تم اپنے خوف سے دوسرے لوگوں کو تو دھمکا ڈرا سکتے ہو لیکن مجھے نہیں میں تمھیں اپنی زندگی میں کیا ۔۔آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دوں گی کیونکہ میرے دل میں صرف تمھارے لیے نفرت کی آگ جل رہی ہے ۔۔محبت کے آگ کا دریا نہیں جو تمھارے خوف سے قبول ہے قبول ہے کہہ دوں گی ۔۔
ایک منٹ میں اب یہاں نہیں رہوں گی ۔۔
ٹھیک ہے کل قاضی صاحب تشریف لائیں گے تم تیار رہنا ۔اور ہاں بھاگنے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔مجھے پتا چل جائے گا
وہ یہ کہتے ہوئے پلٹا
تو پھر ۔۔۔تم بھی تیاری کر لو ۔۔آج کیا کبھی بھی تم میرے ساتھ نکاح کیا مجھے یہاں پاو گے نہیں
جیسے اسنے شہوار کا یہ جملہ سنا ۔روہان بے اختیار مسکرا دیا ۔
اور کمرے سے باہر چلا گیا
______________________
کس قدر ظالم اور سخت دل ہوں گئ ہیں آپ امی ایک دفعہ بھی مڑ کر آپ نے آپی کے بارے میں نہیں سوچا ۔۔ایک دفعہ بھی انکا وہ روتے چہرے نے آپکے دل کو موم نہیں کیا ۔۔وہ ایسی نہیں تھی اور ناں ہیں اور یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں اور پھر بھی خاموش رہی کیوں امی
زرش نے اپنے غصے کو نکالتے ہوئے کہا
زبان بند کر زری ۔۔آئیستہ بول اگر تمھاری تائی یا تایا جان نے سن لیا تو بوال مچ جائے گا پورے گھر میں تیری بہن کوئی کم تماشہ نہیں لگایا جو اب تو کر رہی ہے اسکی والدہ نے دھبی آواز سے کہا
امی وہ آپ کی سگی اولا ہے ایک دفعہ تو اس سے بات کر کے دیکھ لیں کہاں ہے وہ کس حال میں ہے ۔۔وہ زرش کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے
وہ اسکے ساتھ جا چکی ہے زرش ۔۔شہوار کا مجھے یقین ہے اس پولیس والے کے ساتھ کوئی لنک تھا ۔۔زرش کی والدہ نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئ
_____________________
ہائے آپ میں کب سے ۔۔۔انتظار کر رہی ہوں آپکی رخصتی کا کیوں شیان بھائی کو اتنا ویٹ کروا رہی ہیں ۔۔اب شادی کر لیں ناں ۔۔
نکاح تو ہو چکا ہے ناں زری ۔۔شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
صرف نکاح ہی ہوا ہے رخصتی تو نہیں ناں ابھی آپ انکی بیوی پوری طرح سے نہیں کہلائی جیسے زرش نے کہا شہوار نے بے اختیار قہقا لگایا
پاگل شادی میں ۔۔اہم حصہ نکاح کا تو ہوتا ہے
ہاں ہوتا ہے لیکن رخصتی بھی بہت زیادہ معنے رکھتی ہے آپ جان اور آپ نے صرف شیان بھائی کے نام کے ساتھ دستخط کیے ہیں انکے ساتھ دلہن بن کر نہیں گئ
زرش نے مایوسی سے کہا
اچھا ۔۔۔ہو جائے ھی رخصتی بھی کیا ہو گیا ہے زری تم مجھے اتنی جلدی نکال رہی ہو
جیسے شہوار نے کہا دونوں نے بے اختیار قہقا لگایا
وہ کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی جب اچانک اسکی ۔۔آنکھوں میں آنسو روان ہونے لگے اسے بے اختیار زرش کی باتیں یاد آ گئ ماضی کے زخم اسکے دل کو ۔۔ہر روز زخم دیتے تھے ۔اسکی رخصتی سے پہلے ہی شیان نے اسے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیا ۔۔میں اس سے محبت کرتی تھی لیکن شاید اسے میری محبت پر یقین نہیں تھا ۔میں نے کبھی اسکا گمان نہیں کیا تھا ۔۔مجھے تو اس شخص سے اتنی نفرت تھی ۔۔اور ہے پھر کیوں روہان ۔شیان کی جگہ لے رہا ہے ۔میرے دل میں صرف ایک شخص کے لیے محبت تھی اور ہے وہ شیان تھا ۔۔اور روہان کبھی نہیں ہو سکتا کبھی نہیں
اسنے اپنے چہرے سے انسو صاف کیے اور پھر اچانک اپنے اوپر چادر اوڑھی اور گھر سے باہر نکل گئ ۔۔
اب دیکھتی ہوں کیسے مجھے ڈھونڈتا ہے ۔۔شہوار اپنا منہ چھپائے تیزی سے قدم اٹھا رہی تھی ۔اسے کوئی علم نہیں تھا وہ کہا جا رہی تھی بس اسے روہان سے جان چھڑانی تھی ۔
جیسے وہ ۔۔۔بڑے بازار کے اندر داخل ہوئی وہ وہی ٹھہر گئی
یہاں پر ہوٹل کہاں ہو گا ۔۔۔میں وہاں رہ لوں گی اس سے پہلے وہ شخص مجھے ڈھونڈنے
شہوار نے اپنے ہاتھ میں باندھی برسلٹ کو بیچا جو اسے اسکی بھرتڈے پر شیان نے گفٹ کی تھی ۔لیکن ابھی اسے پیسوں کی سخت ضرورت تھی ۔۔
کس سے پوچھوں ۔۔۔وہ ادھر ادھر ۔۔دیکھنے لگی
کہا ہے وہ ۔۔۔وہ شہوار کے سامنے اسکی طرف پیٹھ کیے کھڑا
تھا
صاحب وہ لگتا ہے آپ کے پاس خود آرہی ہے ساتھ قریب کھڑے پولہس کانسٹیبل نے فون میں کہا
بھائی صاحب کیا آپ مجھے کوئی رینٹ پہ کمرے یا ہوٹل کا بتا سکتے ہیں کہا پر ۔۔۔ہے وہ جیسے شہوار نے اسکی پیٹھ کی جانب کھڑے ہو کر کہا
وہ دوسرے عام انسانوں کے بھیس میں کھڑا تھا
جی میڈم آپ چلیں میں خود آپ کو لے جاتا ہوں جیسے وہ پلٹا شہوار وہی دھک رہ گئ
تم ؟ اسنے بے اختیار کہا
میں نے کہا تھا۔مجھے پتا چل جائے گا چلو اب ۔۔۔گھر چلتے ہیں ۔۔روہان نے زبردستی اسکا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف لئ گیا
میں چلاوں گی ۔۔لوگوں کو اکھٹا کر لوں گی روہان مجھے چھوڑو
تو ٹھیک ہے میں کہہ دوں گا پاگل سیریس مجرم ہے ۔۔جس کا حواس ٹھکانے نہیں اسنے طنزا مسکراتے ہوئے کہا
__________________________
روہان نے ۔۔جا کر اسے کمرے میں بند کر دیا ۔۔وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن شہوار نے اسے مجبور کر رکھا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایسی اکیلی باہر لوگوں کے درمیان رہے پتا نہیں وہ اسے اس حالت میں نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔پتا نہیں وہ اسکی کڑوی باتوں کے آگے کچھ جواب نہیں دیتا
وہ اچانک جھنجلا کر اٹھ کھڑا اور اسکے کمرے کی طرف بڑا جیسے روہان نے دروازہ کھولا
ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا تاریکی کا کوئی امکان نہیں تھا
وہ اسکے قریب آیا
کچھ پوچھوں گا جواب دینا ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔
تم جس سوال کا جواب مجھ سے لینے آئے ہو میں پہلے ہی جواب بتا دوں میں تم جیسے شخص سے نفرت کرتی ہوں صرف نفرت اور بے انتہا نفرت
اسنے اسقدر غصے سے کہا کہ روہان نے گن نکال کر اسکی پیشانی پر رکھی
اور بڑے گہرے لہجے میں کہا
“کہو مجھ سے محبت ہے ”
وہ یہ سن کر طنزا مسکرا دی
تمھاری غلط فہمی ہے میں یہ تم جیسے انسان کو کہوں گی میں تمھاری ڈر سے کبھی جھوٹ نہیں کہوں گی اور نہ ہی تمھیں خوش کرنے کے لیے ۔
روہان نے ۔۔ بے اختیار سامنے دیوار پر دو تین گولیاں چلائی اسکے خوف سے شہوار پوری طرح کانپ گئ
اب بولو “کہو مجھ سے محبت ہے ” مس در شہوار
م۔۔۔۔مجھے ۔۔۔تم س۔۔۔سے محب۔۔محبت ہے ۔۔اسنے اپنی آنکھوں کو بند کرتے ہوئے اٹکتی ہوئی آواز میں کہا
وہ یہ سنتے ہی مسکرا دیا
چلو ۔۔تم راضی ہو گئ ۔۔کل قاضی صاحب آکر باقی کی رسم پوری کریں گے
وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا
شہوار وہی دھک نطرون سے اسے دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں آنسوں روا تھے
________
تو کیا کروں میں اسے اکیلا چھوڑ تو نہیں سکتا کہاں جائے گی وہ پتا نہیں وہ کیوں مجھے اس سارے واقعیے کا قصور وار ٹھہرا رہی ہے حتی کہ عاقب مجھے یہ تک علم نہیں تھا کہ اسکا نکاح ہو چکا ہے ۔روہان نے بیچینی کے عالم میں کہا
تو اور کیا پھر کیسے وہ قصور وار ٹھہرائے اس سب واقع کا دیکھو یاد کرو تمھاری اور شہوار کی پہلی ملاقات کیسے ہوئی یاد کرو پہلی ملاقات میں تم دونوں نے کیسے ایک دوسرے پر توپ کے گولے برسائے تھے پھر اسکے بعد دوسری ملاقات شادی والے گھر چلو دوسری ملاقات کو اتفاقا مان لیتے ہیں اس میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی تم دونوں نے دشمنی نبھانے کی پھر تیسری ملاقات صاحب آپ کے گھر ۔۔ہوئی آپکی سگی بہن کی دوست اور آپکی سگی دشمن چلو اس ملاقات کو بھی اتفاقا مان لیتے ہیں لیکن تب تک تم دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے لیے زہر پنپ رہا تھا جان کے دشمن بن چکے تھے تم دونوں ۔۔ایک دوسرے کو اچھی خاصی دھمکیاں دیتے ۔۔اور پھر ہوئی چھوتھی ملاقات تمھارے رئیڈ کیس پر جہاں پر تم نے دوسرے ملزموں پر دھیان دینے کی بجائے ۔۔مس در شہوار کی طرف اپنی دشمنی کو نفرت میں بدلنے کے لیے بڑھے چلو ۔۔اس ملاقات کو بھی ۔۔اتفاقا مان لیتے ہیں پانچویں بار ۔۔۔تو حد ہو گئ ۔۔پھر تو زندگی نے ہی سارا کھیل پلٹ دیا اور در شہوار تمھاری زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگئی ویسے تم مانو یا نہ مانو ۔۔روہان تمھاتی قسمت میں اور تمھارے دل میں شہوار ہی لکھ دی گئ تھی ۔۔اسلیے جانے انجانے ہی سہی لیکن ہر موڑ پر تم دونوں کا ناچاہتے ہوئے بھی ٹکراو ہو جاتا ۔۔اور اب ۔۔
اب تو ساری نیاں ہی ڈوب گئ ۔ یہ ہے تم دودونوں کی انوکھی ملن کی داستان ۔۔تھے بھی دونوں اول درجے کے ۔۔بدنام پیشوں سے ایک وکیل اور ایک پولیس ۔۔دونوں ہی کثر نہیں چھوڑتے ایک دوسرے کو گھسیٹ کر عدالت اور تھانے میں لے کے جانے کی ۔۔اور دشمنی بڑھتے بڑھتے قسمت نے تم دونوں کے راستوں کو ایک رستے کا نام دے دیا اور وہ کمینا شیان تو سرسری سا ہیرو تھا فلم کا ۔۔اور تم بچارے ہیرو بھی اور ویلن بھی بدقسمتی سے ۔۔لیکن خیر اب محبت کی ہے ۔۔تو ۔۔یہ سب جھیلنا ہی پرےگا
محبت ؟ یہ کیا بکواس کر رہے ہو میں کوئی اس سے مھبت نہیں کرتا ۔وہ تو صرف ایک ہمدردی ہے اور وہ اوپر سے سارے واقعے کا الزام مجھ پر لگا رہی ہے اور میں نے بھی ضد میں اکر کہہ دیا ۔۔
ہاہاہا اچھا مذاق کر لیتے ہو محبت کے ساتھ لیکن صاحب ۔۔یہ بڑی ظالم ہے اسکے سامنے سب کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہئں اور تمھاری آنکھوں میں ۔۔اسکے ہمدردی ہے احساس ہے اور محبت بھی جلد ہی نظر آئے گی
اچھا نکاح کس وقت کرنا ہے تم دونوں نے تاکہ میں تیاریاں کر لوں جیسے عاقب نے طنزا کیا
روہان نے حیرات سے اسکی طرف دیکھا
ارے واہ تم تو ایسے تیاریاں کر رہے ہو جیسے دو محبت کرنے والے جوڑے کا ۔۔ہیرا رانجھے کا نکاح ہو رہا ہو
یہاں پر ۔۔جانیں داو پر لگی ہیں جنگ کا عالم ۔۔ہے اور تم ۔۔ہو کہ چلو ۔۔ابھی میرا وقت تمھارا آئے گا نہ تو پھر دیکھنا ۔۔میں کیا کرتا روہان نے کہا اور کمرے سے باہر جانے لگا کہ اچانک رکا ۔
عاقب کی طرف دیکھا ۔۔اور کہا
چین سموکر کہا تھا اسنے ۔۔روہان نے ۔سگریٹ کا دووا باہر نکالتے ہوئے کہا
یہ سنتے ہی ۔۔۔عاقب نے بے اختیار قہقا لگایا اور کہا
کمینا ۔۔۔
جاری ہے
جیسے ۔۔۔روہان نے دورازہ کھولا اسنے دیکھا شہوار بیڈ پر بے ہوش پڑی تھی وہ ہر بڑا کے اسکی طرف بڑھا
ش۔۔۔۔شہوار ۔۔۔اٹھو کیا ۔۔ہوا ہے تمھیں اسنے جلدی ساے ساتھ میز پر پڑے ہوئے گلاس سے پانی کے کچھ چھینٹے اس کے منہ پر ۔۔پھینکے
شہورا ۔۔اٹھو ۔۔
اسکی ہلکی ہلکی آنکھوں نے حرکت کی اسکے ہونٹ سوکھ چکے تھے ۔۔روہان نے جلدی سے اسے بیڈ پر ٹیک لگائی اور اسے پانی پلایا
تم۔۔۔ٹھیک تو ہو ۔اسنے تشویش کی جیسے شہوار کی حالت زرا سنبھلی اسنے جلدی سے روہان کو دیکھ کر کہا
وہ۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔اسنے مجھے اپنی زندگی اور محبت سے نکال دیا ۔۔۔ہے شہوار ابھی تک اس درد میں مبتلا تھی اسکی آنکھیں ابھی تک نم تھی ۔۔
یہ دیکھتے ہی ۔۔روہان نے کہا
اب رونے کا کیا فائدہ ۔۔اسنے کبھی تم سے محبت نہیں کی تھی تم ناشتہ کرو جیسے روہان نے ناشتے والی ٹرے سشہوار کے سامنے کی اسنے غصے سے ٹرے کو نیچا پھینکا
مجھے نہیں کھانا حرام کا کھانا ۔۔جس میں غریبوں سے ۔۔مفلسی اور لچاری کی حالت میں پیسے چھینے گئے ہوں
وہ ایک دم ٹھہر ۔گیا ۔۔۔
تو مرو ۔۔اگر اتنا مرنے کا شوق ہے روہان نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
_________________________
روہان نے ۔۔شہوار کے آفس جاکر ۔۔کچھ ہفتے کے لیے چھٹیاں لے لی کیونکہ انعم کیس کی سماعت کے لیے کورٹ نے ۔۔انعم کے بیان آنے تک کیس ملوتوی کر دیا تھا
اسے کپڑوں کی ضرورت ہو گی ۔۔جیسے روہان نے سوچا وہ جنجھلا کے ۔۔سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا
کہا جا رہے ہیں صاحب ۔۔جیسے ایک پولیس کانسٹیبل نے کہا
وہ غصے سے اسکی طرف پلٹا ۔۔اور کہا
جہنم میں کیا جانا ہے تم نے بھی ۔۔چلو آو اکھٹے چلتے ہین
ن۔۔نہیں صاحب پولیس کانسٹیبل نے ۔۔شرمندگی سے کہا
وہ اب ۔۔ایک مال مین موجود ۔۔تھا اسے ۔۔وومینز کلاتھ کے بارے میں کوئی ۔۔علم نہیں تھا ۔۔وہ بڑے غور سے ہر چیز کو دیکھ رہا تھا جب ساتھ کھڑی ایک شاپ سیلر وومین اسکے قریب ایا
آپ کو کچھ چاہیے سر ۔۔اسنے دلکش مسکراہٹ سے روہان کی طرف دیکھا ۔وہ روہان کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی خاص کر اسکی آنکھوں کو ۔۔جو بہت ہی گہری اور سرمئ رنگ کی ۔۔تھی جیسے ہر کوئی دیکھ کر دھک رہ جاتا
جی ۔۔۔وہ مجھے اپنی ۔۔وہ اچانک رکا
کیا سر
و۔۔وہ اپنی ۔۔ہونے والی بیوی کے لیے ڈرسسز لینے تھے ۔۔
نو پروبلم سر یہاں پر ورائیٹی موجود ہے آپ بس بھابی کی ہایٹ بتا دین اسکے مطابق لے لیں
وکیل ہے ۔۔۔اسنے سوچا ۔۔۔تمھارا جتنا
شویر سر ۔۔
ہاں ہاں ۔۔۔مجھے دیکھائیں
اوکے
__________________
یہ۔۔میں تمھارے لیے کپڑے لایا ہوں چینج کر لو روہان نے ۔۔کمرے میں داخ ہوتے نرم لہج سے اس سے مخاطب ہوتے کہا جو کمرے کے ایک کونے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی جیسے شہوار نے سنا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکی طرف بڑھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا
ترس کھا رہے ہو مجھ پر بولو یہی سوچ رہے ہو طلاق یافتہ ہے کون رکھے گا اب اسے ۔۔اور میں ہمدردی کا خدا بن کر اسکو لاوارث سمجھ کر ۔۔اپنے حرام کے دھندے میں ملوث کر لوں ۔۔کیونکہ تم جیسے لوگوں کے ساتھ کون سی لڑکی شادی کے لیے تیار ہوتی ہے ۔۔اسلیے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تم نے یہ سب کھیل کھیلا
لیکن میں لاچار اور مفلس نہیں ہوں روہان علی خان ۔۔تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں جہاں تمھاری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے میری شروع ہوتی ہے اور ہاں ایک بات کان کھول کر سن لو ۔۔تم مجھے اس گھر میں کیسی بھی جواز سے نہیں رکھ سکتے ۔۔اور اگر زبر دستی کی ۔۔تو ایسا تماشہ بناوں گی سب لوگوں کے سامنے کہ کیسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہو گے ۔۔وہ جوش کے ساتھ تسلسل کے ساتھ بول رہی تھی جب روہان نے اپنی خاموشی توڑئ
ہو گئ بکواس تمھاری اب تم کان کھول کر سنو مس در شہوار اگر تم یہی سمجھ رہی ہو کہ میں تمھاری بربادی کا سبب ہوں تو ٹھیک ۔۔یہ بھی غلط فہمی اپنے دل میں پال لو کیونکہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو یا نہیں اور ہاں ۔اب تو میں تمھیں ہرگز جانے نہیں دوں گا
وہ اسکے قریب بڑھا
کس حق سے رکھو گے مجھے یہاں وہ خوف سے دو قدم پیچھے ہٹئ
ہر اس حق سے جسکے لیے اسلام اجازت دیتا ہے ۔۔بیوی کی احثیت سے ۔۔اپنی زندگی میں تمھارا نام کی دفعہ 420 کے تحت ۔۔۔ڈھنکے کی چوٹ پر نکاح کروں گا اور اس کام سے تم بھی مجھے نہیں روک سکتی ۔۔میں ہی تمھاری بربادی کا سبب ہوں ناں تو ٹھیک ہے میں ہی اب تمھاری زندگی آباد کروں گا
خواب ہے تمھارا ۔تم اپنے خوف سے دوسرے لوگوں کو تو دھمکا ڈرا سکتے ہو لیکن مجھے نہیں میں تمھیں اپنی زندگی میں کیا ۔۔آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دوں گی کیونکہ میرے دل میں صرف تمھارے لیے نفرت کی آگ جل رہی ہے ۔۔محبت کے آگ کا دریا نہیں جو تمھارے خوف سے قبول ہے قبول ہے کہہ دوں گی ۔۔
ایک منٹ میں اب یہاں نہیں رہوں گی ۔۔
ٹھیک ہے کل قاضی صاحب تشریف لائیں گے تم تیار رہنا ۔اور ہاں بھاگنے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔مجھے پتا چل جائے گا
وہ یہ کہتے ہوئے پلٹا
تو پھر ۔۔۔تم بھی تیاری کر لو ۔۔آج کیا کبھی بھی تم میرے ساتھ نکاح کیا مجھے یہاں پاو گے نہیں
جیسے اسنے شہوار کا یہ جملہ سنا ۔روہان بے اختیار مسکرا دیا ۔
اور کمرے سے باہر چلا گیا
______________________
کس قدر ظالم اور سخت دل ہوں گئ ہیں آپ امی ایک دفعہ بھی مڑ کر آپ نے آپی کے بارے میں نہیں سوچا ۔۔ایک دفعہ بھی انکا وہ روتے چہرے نے آپکے دل کو موم نہیں کیا ۔۔وہ ایسی نہیں تھی اور ناں ہیں اور یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں اور پھر بھی خاموش رہی کیوں امی
زرش نے اپنے غصے کو نکالتے ہوئے کہا
زبان بند کر زری ۔۔آئیستہ بول اگر تمھاری تائی یا تایا جان نے سن لیا تو بوال مچ جائے گا پورے گھر میں تیری بہن کوئی کم تماشہ نہیں لگایا جو اب تو کر رہی ہے اسکی والدہ نے دھبی آواز سے کہا
امی وہ آپ کی سگی اولا ہے ایک دفعہ تو اس سے بات کر کے دیکھ لیں کہاں ہے وہ کس حال میں ہے ۔۔وہ زرش کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے
وہ اسکے ساتھ جا چکی ہے زرش ۔۔شہوار کا مجھے یقین ہے اس پولیس والے کے ساتھ کوئی لنک تھا ۔۔زرش کی والدہ نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئ
_____________________
ہائے آپ میں کب سے ۔۔۔انتظار کر رہی ہوں آپکی رخصتی کا کیوں شیان بھائی کو اتنا ویٹ کروا رہی ہیں ۔۔اب شادی کر لیں ناں ۔۔
نکاح تو ہو چکا ہے ناں زری ۔۔شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
صرف نکاح ہی ہوا ہے رخصتی تو نہیں ناں ابھی آپ انکی بیوی پوری طرح سے نہیں کہلائی جیسے زرش نے کہا شہوار نے بے اختیار قہقا لگایا
پاگل شادی میں ۔۔اہم حصہ نکاح کا تو ہوتا ہے
ہاں ہوتا ہے لیکن رخصتی بھی بہت زیادہ معنے رکھتی ہے آپ جان اور آپ نے صرف شیان بھائی کے نام کے ساتھ دستخط کیے ہیں انکے ساتھ دلہن بن کر نہیں گئ
زرش نے مایوسی سے کہا
اچھا ۔۔۔ہو جائے ھی رخصتی بھی کیا ہو گیا ہے زری تم مجھے اتنی جلدی نکال رہی ہو
جیسے شہوار نے کہا دونوں نے بے اختیار قہقا لگایا
وہ کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی جب اچانک اسکی ۔۔آنکھوں میں آنسو روان ہونے لگے اسے بے اختیار زرش کی باتیں یاد آ گئ ماضی کے زخم اسکے دل کو ۔۔ہر روز زخم دیتے تھے ۔اسکی رخصتی سے پہلے ہی شیان نے اسے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیا ۔۔میں اس سے محبت کرتی تھی لیکن شاید اسے میری محبت پر یقین نہیں تھا ۔میں نے کبھی اسکا گمان نہیں کیا تھا ۔۔مجھے تو اس شخص سے اتنی نفرت تھی ۔۔اور ہے پھر کیوں روہان ۔شیان کی جگہ لے رہا ہے ۔میرے دل میں صرف ایک شخص کے لیے محبت تھی اور ہے وہ شیان تھا ۔۔اور روہان کبھی نہیں ہو سکتا کبھی نہیں
اسنے اپنے چہرے سے انسو صاف کیے اور پھر اچانک اپنے اوپر چادر اوڑھی اور گھر سے باہر نکل گئ ۔۔
اب دیکھتی ہوں کیسے مجھے ڈھونڈتا ہے ۔۔شہوار اپنا منہ چھپائے تیزی سے قدم اٹھا رہی تھی ۔اسے کوئی علم نہیں تھا وہ کہا جا رہی تھی بس اسے روہان سے جان چھڑانی تھی ۔
جیسے وہ ۔۔۔بڑے بازار کے اندر داخل ہوئی وہ وہی ٹھہر گئی
یہاں پر ہوٹل کہاں ہو گا ۔۔۔میں وہاں رہ لوں گی اس سے پہلے وہ شخص مجھے ڈھونڈنے
شہوار نے اپنے ہاتھ میں باندھی برسلٹ کو بیچا جو اسے اسکی بھرتڈے پر شیان نے گفٹ کی تھی ۔لیکن ابھی اسے پیسوں کی سخت ضرورت تھی ۔۔
کس سے پوچھوں ۔۔۔وہ ادھر ادھر ۔۔دیکھنے لگی
کہا ہے وہ ۔۔۔وہ شہوار کے سامنے اسکی طرف پیٹھ کیے کھڑا
تھا
صاحب وہ لگتا ہے آپ کے پاس خود آرہی ہے ساتھ قریب کھڑے پولہس کانسٹیبل نے فون میں کہا
بھائی صاحب کیا آپ مجھے کوئی رینٹ پہ کمرے یا ہوٹل کا بتا سکتے ہیں کہا پر ۔۔۔ہے وہ جیسے شہوار نے اسکی پیٹھ کی جانب کھڑے ہو کر کہا
وہ دوسرے عام انسانوں کے بھیس میں کھڑا تھا
جی میڈم آپ چلیں میں خود آپ کو لے جاتا ہوں جیسے وہ پلٹا شہوار وہی دھک رہ گئ
تم ؟ اسنے بے اختیار کہا
میں نے کہا تھا۔مجھے پتا چل جائے گا چلو اب ۔۔۔گھر چلتے ہیں ۔۔روہان نے زبردستی اسکا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف لئ گیا
میں چلاوں گی ۔۔لوگوں کو اکھٹا کر لوں گی روہان مجھے چھوڑو
تو ٹھیک ہے میں کہہ دوں گا پاگل سیریس مجرم ہے ۔۔جس کا حواس ٹھکانے نہیں اسنے طنزا مسکراتے ہوئے کہا
__________________________
روہان نے ۔۔جا کر اسے کمرے میں بند کر دیا ۔۔وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن شہوار نے اسے مجبور کر رکھا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایسی اکیلی باہر لوگوں کے درمیان رہے پتا نہیں وہ اسے اس حالت میں نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔پتا نہیں وہ اسکی کڑوی باتوں کے آگے کچھ جواب نہیں دیتا
وہ اچانک جھنجلا کر اٹھ کھڑا اور اسکے کمرے کی طرف بڑا جیسے روہان نے دروازہ کھولا
ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا تاریکی کا کوئی امکان نہیں تھا
وہ اسکے قریب آیا
کچھ پوچھوں گا جواب دینا ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔
تم جس سوال کا جواب مجھ سے لینے آئے ہو میں پہلے ہی جواب بتا دوں میں تم جیسے شخص سے نفرت کرتی ہوں صرف نفرت اور بے انتہا نفرت
اسنے اسقدر غصے سے کہا کہ روہان نے گن نکال کر اسکی پیشانی پر رکھی
اور بڑے گہرے لہجے میں کہا
“کہو مجھ سے محبت ہے ”
وہ یہ سن کر طنزا مسکرا دی
تمھاری غلط فہمی ہے میں یہ تم جیسے انسان کو کہوں گی میں تمھاری ڈر سے کبھی جھوٹ نہیں کہوں گی اور نہ ہی تمھیں خوش کرنے کے لیے ۔
روہان نے ۔۔ بے اختیار سامنے دیوار پر دو تین گولیاں چلائی اسکے خوف سے شہوار پوری طرح کانپ گئ
اب بولو “کہو مجھ سے محبت ہے ” مس در شہوار
م۔۔۔۔مجھے ۔۔۔تم س۔۔۔سے محب۔۔محبت ہے ۔۔اسنے اپنی آنکھوں کو بند کرتے ہوئے اٹکتی ہوئی آواز میں کہا
وہ یہ سنتے ہی مسکرا دیا
چلو ۔۔تم راضی ہو گئ ۔۔کل قاضی صاحب آکر باقی کی رسم پوری کریں گے
وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا
شہوار وہی دھک نطرون سے اسے دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں آنسوں روا تھے
________
تو کیا کروں میں اسے اکیلا چھوڑ تو نہیں سکتا کہاں جائے گی وہ پتا نہیں وہ کیوں مجھے اس سارے واقعیے کا قصور وار ٹھہرا رہی ہے حتی کہ عاقب مجھے یہ تک علم نہیں تھا کہ اسکا نکاح ہو چکا ہے ۔روہان نے بیچینی کے عالم میں کہا
تو اور کیا پھر کیسے وہ قصور وار ٹھہرائے اس سب واقع کا دیکھو یاد کرو تمھاری اور شہوار کی پہلی ملاقات کیسے ہوئی یاد کرو پہلی ملاقات میں تم دونوں نے کیسے ایک دوسرے پر توپ کے گولے برسائے تھے پھر اسکے بعد دوسری ملاقات شادی والے گھر چلو دوسری ملاقات کو اتفاقا مان لیتے ہیں اس میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی تم دونوں نے دشمنی نبھانے کی پھر تیسری ملاقات صاحب آپ کے گھر ۔۔ہوئی آپکی سگی بہن کی دوست اور آپکی سگی دشمن چلو اس ملاقات کو بھی اتفاقا مان لیتے ہیں لیکن تب تک تم دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے لیے زہر پنپ رہا تھا جان کے دشمن بن چکے تھے تم دونوں ۔۔ایک دوسرے کو اچھی خاصی دھمکیاں دیتے ۔۔اور پھر ہوئی چھوتھی ملاقات تمھارے رئیڈ کیس پر جہاں پر تم نے دوسرے ملزموں پر دھیان دینے کی بجائے ۔۔مس در شہوار کی طرف اپنی دشمنی کو نفرت میں بدلنے کے لیے بڑھے چلو ۔۔اس ملاقات کو بھی ۔۔اتفاقا مان لیتے ہیں پانچویں بار ۔۔۔تو حد ہو گئ ۔۔پھر تو زندگی نے ہی سارا کھیل پلٹ دیا اور در شہوار تمھاری زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگئی ویسے تم مانو یا نہ مانو ۔۔روہان تمھاتی قسمت میں اور تمھارے دل میں شہوار ہی لکھ دی گئ تھی ۔۔اسلیے جانے انجانے ہی سہی لیکن ہر موڑ پر تم دونوں کا ناچاہتے ہوئے بھی ٹکراو ہو جاتا ۔۔اور اب ۔۔
اب تو ساری نیاں ہی ڈوب گئ ۔ یہ ہے تم دودونوں کی انوکھی ملن کی داستان ۔۔تھے بھی دونوں اول درجے کے ۔۔بدنام پیشوں سے ایک وکیل اور ایک پولیس ۔۔دونوں ہی کثر نہیں چھوڑتے ایک دوسرے کو گھسیٹ کر عدالت اور تھانے میں لے کے جانے کی ۔۔اور دشمنی بڑھتے بڑھتے قسمت نے تم دونوں کے راستوں کو ایک رستے کا نام دے دیا اور وہ کمینا شیان تو سرسری سا ہیرو تھا فلم کا ۔۔اور تم بچارے ہیرو بھی اور ویلن بھی بدقسمتی سے ۔۔لیکن خیر اب محبت کی ہے ۔۔تو ۔۔یہ سب جھیلنا ہی پرےگا
محبت ؟ یہ کیا بکواس کر رہے ہو میں کوئی اس سے مھبت نہیں کرتا ۔وہ تو صرف ایک ہمدردی ہے اور وہ اوپر سے سارے واقعے کا الزام مجھ پر لگا رہی ہے اور میں نے بھی ضد میں اکر کہہ دیا ۔۔
ہاہاہا اچھا مذاق کر لیتے ہو محبت کے ساتھ لیکن صاحب ۔۔یہ بڑی ظالم ہے اسکے سامنے سب کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہئں اور تمھاری آنکھوں میں ۔۔اسکے ہمدردی ہے احساس ہے اور محبت بھی جلد ہی نظر آئے گی
اچھا نکاح کس وقت کرنا ہے تم دونوں نے تاکہ میں تیاریاں کر لوں جیسے عاقب نے طنزا کیا
روہان نے حیرات سے اسکی طرف دیکھا
ارے واہ تم تو ایسے تیاریاں کر رہے ہو جیسے دو محبت کرنے والے جوڑے کا ۔۔ہیرا رانجھے کا نکاح ہو رہا ہو
یہاں پر ۔۔جانیں داو پر لگی ہیں جنگ کا عالم ۔۔ہے اور تم ۔۔ہو کہ چلو ۔۔ابھی میرا وقت تمھارا آئے گا نہ تو پھر دیکھنا ۔۔میں کیا کرتا روہان نے کہا اور کمرے سے باہر جانے لگا کہ اچانک رکا ۔
عاقب کی طرف دیکھا ۔۔اور کہا
چین سموکر کہا تھا اسنے ۔۔روہان نے ۔سگریٹ کا دووا باہر نکالتے ہوئے کہا
یہ سنتے ہی ۔۔۔عاقب نے بے اختیار قہقا لگایا اور کہا
کمینا ۔۔۔
جاری ہے