کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 7
بھائی شیان ایک دفع بھی آپ نے آپی کے بارے میں نہیں سوچا وہ آپ سے محبت کرتی ہیں
زرش نے ۔۔۔ایک دفعہ پھر کوشش کی
کتنی کرتی ہے وہ میں دیکھ چکا ہوں ۔۔۔شیان نے طنزا جواب دیا
آپ اتنے سخت دل تو نہیں تھے ۔۔کیا آپ کو آپی سے محبت نہیں تھی ؟ اسلیے آپ نے ایک چھوٹی سی بات پر ۔۔اتنا سب کچھ کر دیا
تم کہنا کیا چاہ رہی ہو ۔۔زرش شیان الجھا
وہی کہہ رہی ہو جو آپ سمجھ رہے ہیں زرش نے ڈھٹائی سے کہا
وہ اپنے یار کے ساتھ ہمارے منہ پر کالن لگا کر جا چکی ہے۔۔اسنے غصے سے کہا
جیسے زرش نے سنا وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھ نہ پائی ۔
بکواس بند کریں اب آپ نے میری آپی کے خلاف ایک لفظ بھی کہا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا کیا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو مرد ہیں تو کچھ بھی کہہ لیں گے اچھا اگر ۔۔اتنا اپنے اپ کو پاک صاف سمجھ رہے ہئں جب آپ اسلام آباد جاتے تھے تو کیا آپی آپ سے یہ سب سوال پوچھتی تھی کہ کہاں رات گزار کے آئے
زرش تم حد سے بڑھ رہی ہو ۔۔وہ اٹھ کھڑا ہوا
اب کیا ہوا ۔۔ہے بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔۔تو ایسے ہی میری آپی کو درد ہوا ہو گا جب آپ نے سب کہ سامنے انکی عزت نفس پر کیچڑ اچھالا ۔تھا ۔۔اور ہاں ایک اور بات صیح کیا آپ نے جو آپی کو طلاق دے دی کیونکہ وہ آپ جیسے گھٹیا سوچ والے انسان کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں تھئ ۔۔
آئے بڑے مردانگی دیکھانے والے
____________________
میں مر جاوں گی لیکن میں تم سے نکاح نہیں کروں گی شہوار نے ڈھٹائی سے جواب دیا
نکاح تو کرنا پڑے گا ہر صورت میں کتنا پڑے گا ۔۔ایک منٹ قاضی صاحب دلہن تھوڑا روٹھ گئ ہیں اتنے میں روہان نے سامنے کھرے ملازم پر گولی چلائی جو اسے چھو کر دیوار کے ساتھ لگی تھی
شہوار نے ڈر کے مارے انکھیں بند کر لی وہ ہلکا سا مسکرایا اور کہا
کیا تم چاہتی ہو یہ بے گناہ تمھارے ہاں نہ کہنے پر مرے ۔۔بولو ۔۔کیا تم ایسا چاہتی ہو بولو
ن۔۔ن۔نہیں ۔۔روہان خدا کے لیے اس بے قصور کو کچھ مت کہنا اسنے کیا کہا تمھیں ۔شہوار نے اٹکتی آواز میں کہا
تو پھر ٹھیک ہے کہو قبول ہے اسنے گن آگے کرتے ہوئے کہا
جیسے قاضی نے نکاح کی رسم ادا کی اور ۔۔شہوار سے پوچھا
تو اسنے ۔۔اپنی اٹکتی اواز میں کہا
قبول ہے قبول ہے قبول ہے ۔۔وہ ۔اس شخص کے نام اپنی ساری زندگی ۔۔وقف کر رہی تھی اسکے کانپتے ہوئے ہاتھوں نے ۔۔نکاح نامہ پر روہان علی خان کے نام کے ساتب دستخط کر دیے ۔۔کیا کرتی وہ ۔۔پوری طرح سے ۔۔زندگی کے امتحان میں گھیر چکی تھی ۔روہان سے نفرت میں اور اضافہ ہو گیا
جیسے ۔۔۔سب کھڑے لوگوں نے ۔۔مبارک باد دینا شروع کی ۔۔شہوار کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔کہ ۔وہ اپنی زندگی اس شخص کے نام کر چکی تھی جس سے وہ بے پناہ نفرت کرتی ہے
وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائی اور وہ وہی بے ہوش ہو گئ ۔۔
جیسے روہان نے دیکھا وہ جلدی سے اسکی طرف لپکا
شہوار ۔۔۔آنکھیں ۔۔کھولو ۔
بھابی ۔۔۔آنکھیں کھولیں عاقب نے ۔۔بھی اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ۔اسکا پوارا وجود تیز بخار سے تپ رہا تھا ۔
روہان نے جلدی سے عاقب کو ۔گاڑی نکالنے کا کہا
_______________________
میرے قریب مت آنا ۔۔تم ۔
شہوار نے کہا ۔۔جو ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا ہوسپٹل سے آنے کے بعد وہ پورا گھنٹا بے ہوش تھی جیسے اسے ہوش آئی روہان جلدی سے اسکے پاس آیا
بعد میں جو کہنا ہو گا کہہ لینا لیکن ۔ابھی تم ریسٹ کرو روہان نے میز پر پانی کا جگ رکھتے ہوئے کہا اور صوفے پر اپنا سونے کا بستر رکھا
تم اس کمرے میں میرے ساتھ نہیں رہو گے ۔۔سن لیا تم نے ۔تمھیں کیا لگا تم نے نکاح کر لیا ہے اور اب تم میرے مجازی خدا ہو ۔وہ تمھارے نزدیک ہو گا لیکن میں کبھی تمھیں شوہر والا درجہ نہیں دوں گی روہان علی خان ۔۔
وہ خاموشی سے صوفہ پر لیٹ گیا
تم میری بات کا جواب کیوں نہئں دے رہے ۔۔۔وہ چلائی
تھوڑا آئیستہ بولو ۔۔مجھ نیند نہیں آ رہی ۔۔اسنے ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
شہوار نے چڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگی اور پھر اپنے اوپر بستر اوڑھ لیا
کچھ منٹ بعد ۔۔روہان بولا
سو جاو۔۔کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔جیسے روہان نے کہا
وہ بھڑک کے اٹھی
اسکا مطلب تم کچھ کرنے لگے ۔۔تھے ۔مجھے مارنے والے تھے
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا اور کہا
پاگل
________
وہ جان بھوج کر بیڈ پر بستر اورھے ابھی تک لیٹی تھی جب روہان اسکے قریب آیا اور اسے دیکھ کر پہلے وہ ہلکا سا مسکرایا کیونکہ وہ جان چکا تھا شہوار اٹھی ہے
اٹھو شہوار ۔۔۔مجھے ناشتہ بنا کر دو جیسے روہان نے کہا وہ بھڑک کے اٹھ کھڑی ہوئی
کیا کہا تم نے ۔؟
وہی کہا جو تم سن رہی تھی اسنے تحمل سے جواب دیا
کس حق سے تمھارا کام کروں اسنے بڑے تیخے انداز سے سوال کیا
ابھی کل قاضی صاحب نے نکاح پڑھوایا تھا نکاح نامہ پر میرے نام کے ساتھ دستخط ہوئے تھے اتنی جلدی بھول گئ روہان نے جان بھوج کر طنز کیا
اپنی بکواس بند کرو میں تمھاری نوکر نہیں ہوں جو تمھارے لیے ناشتہ بناوں اور ہاں تمھارے نزدیک نکاح ہو گا لیکن مین کبھی تمھیں ایک شوہر والا درجہ نہیں دوں گی کیا سمجھتے ہو تم ایسا روب جماو گے تو میں ڈر جاوں گی نہیں روہان علی خان درشہوار نام ہے میرا اتنی جلدی سے ہار نہیں ماننے والی اور خاص تم جیسے انسانوں سے تو مجھے اچھے آتا ہے نپٹنا ۔۔تم نے اپنی بات تو بندوق کی نوق پر منوا لی اب میں اپنی بات پوری کروں گی
وہ اسکے سامنے کھڑی تھی اسکے بال بکھیرے ہوئے تھے آنکھوں میں نمی ابھی تک ۔۔تھی
وہ ہلکا سا مسکرایا اور اپنی گہری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا پتا نہیں کیوں ۔۔۔وہ شہوار کے آگے چپ ہو جاتا تھا اسکی ہر بات کو کیوں مسکرا کا پی لیتا تھا ۔۔۔
یہ جو تم بے شرمون کی طرح ہنس رہے ہو ۔۔نہایت ہی افسوس کی بات ہے اتنی بے عزتی ہونے کے باوجود بھی اکڑ نہیں ٹوٹ رہی
وہ اس بات پر بھی بے اختیار مسکرایا اور شہوار کی طرف مسلسل ٹک نگاہ سے دیکھ رہا تھا
میں بتا رہی ہوں روہان میری طرف ایسا مت دیکھو نیچے کرو اپنی آنکھیں اسنے اگلی آگے کرتے ہوئے کہا
روہان شہوار کی بات سنتے ایک بار پھر مسکرایا اور اسکی طرف بڑھنے لگا
د۔۔دور رہو مجھ ۔سے میں کہہ رہو ۔۔روہان میرے قریب مت آنا شہوار اپنے قدم پیچھے کی جانب بڑھانے لگی ۔۔
کتنے بے شرم ہو کیسے دیکھ رہے ہو شہوار دیوار کے ساتھ لگ گئ اور اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا
تم مانو یا نہ مانو لیکن اب تمھاری قسمت کی لکیریں میری لکیروں میں شامل کر دئ گئی ہیں اور ہاں بیوی ہو تم میری ٹھیک ہے اور میں تمھارے ساتھ قریب ہو کر بھی بات کر سکتا ہوں اور دور ہو کر بھی ۔۔۔اسنے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
_______________________
شہوار اپنا سارا سامان پیک کیے ۔۔نیچے اگئ روہان صوفہ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا اسنے شہوار کو جیسے سڑھیوں سے اترتے دیکھا وہ جلدی سے کھڑا ہو گیا
کہا جا رہی ہو شہوار ۔۔۔
اگر تم نے مجھ روکنے کی کوشش کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔ اسنے رکتے ہوئے کہا
کہا جا رہی ہو ۔۔۔اسنے پھر پوچھا
تمھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے اور خاص کر تم جیسے شخص کو تو نہیں بتاوں گئ جس سے میں آگے جان چھڑانا چاہ رہی ہو
روکو شہوار ۔۔ روہان نے شہوار کو ہاتھ سے پکڑ کر روکا
چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔اور اگر دوبارہ تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی نہ تو ہاتھ توڑ دوں گی تمھارا
وہ یہ کہتے ہوئے ایک تیخی نگاہ اسپر ڈالتے ہوئے باہر کی جانب چلی گئ
وہ وہی کھڑا تھا ۔۔اسنے ۔۔۔اسے نہیں روکا تھا آج وہ اسکے پیچھے بھی نہیں گیا تھا شاید اسے معلوم تھا ۔۔کہ وہ واپس آجائے گی شاید یقین تھا
_____________________
کیا مطلب بھابھی چلی گئ ۔۔عاقب چونک کر چئیر سے اٹھا
ہاں ۔۔چلی گئ ہے ۔۔روہان نے تحمل سے جواب دیا
تو بھائی تو اسطرح ٹانگ پہ ٹانگ دھرے کیوں بیٹھے ہو ۔۔جاو انھیں لے کر آو تمھیں پتا بھی ہے وہ کہا گئ ہے عاقب نے مسلسل بولتے ہوئے کہا
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
کمینے ۔۔۔ہنس رہا ہے ۔لگتا ہے محبت ہو گئ ہے تمھیں عاقب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کہا محبت ۔۔کونسی محبت ۔۔ایسی محبت جو بندوق کہ نوک پر ہو ایسی محبت جو اسکی پیشانی پہ گن رکھ کے اقرار محبت کروانا ۔لیکن عاقب پتا نہیں اب مجھے اسکی باتوں پر غصہ نہیں آتا ایسے ایک یقین ہے کہ اب وہ میرے ساتھ ہی رہے گی ۔۔میں اگر اس پر غصہ ہونا چاہوں تو نہیں ہو پاتا
اسنے بے اختیار شانے اچکاتے ہوئے کہا
یہ محبت کا آغاز ہے میرے یار ۔۔اور تمھیں بھابی سے محبت ہے ۔۔اور پتا ہے یہ چار حرف مجموعہ ہے لیکن اسکے راستے بہت کھٹن اور وسیع ہیں اور تمھارے راستے کچھ زیادہ کھٹن ہیں جہاں پر تمھیں اسے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی محبت کا یقین بھی دلانا ہے ۔۔
عاقب نے ۔۔نرم لہجے میں جواب دیا
تمھیں معلوم ہے عاقب وہ کہا ہے اسوقت ؟
کہاں؟ عاقب نے تجسس سے پوچھا
اپنے گھر اس کمینے کے پاس۔۔روہان نے بے اختیار سانس لی
کیا؟ اب کیا ہو گا ؟ عاقب نے حیرانگی سے جواب دیا
ہونا کیا ہے واپس آجائے گی ۔۔روہان اب اپنی چئیر سے اٹھا تھا
کیا مطلب تم اسے لینے نہیں جاو گے عاقب بھی اسکے پیچھے پیچھے اٹھا
نہیں مجھے یقین ہے وہ واپس آ جائے گی خود ہی کیونکہ اسے ایک دفعہ اس بات کا علم ہو جائے کہ اس گھر میں کوئی اسکی عزت نہیں کرتا روہان نے آنکھیں بند کی
مجھے یہ امید نہیں تھی عاقب نے بے اختیار کہا
________________________
ہمارا تمھارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے شہوار نکل جاو یہاں سے ۔۔اسکی تائی جان نے بلند آواز میں کہا
ا۔۔۔ایک منٹ تائی جان ایسا تو مت کریں میرے ساتھ میرا قصور کیا ہے میں نے ایسا کیا کیا ہے جو اسکے بدلے مجھے اتنی بڑی سزہ مل رہی ہے اسنے تائی جان کو روکتے ہوئے کہا
کیا کہا غلطی کیا تھی ارے تو نے میرے بیتے کی زندگی بارباد کر دی اور پوچھ رہی ہے میں نے کیا کیا اپنے ۔۔اس۔۔۔ابھی تائی جان کہتی وہ جلدی سے بولی
تائی جان جیسا آپ سب سمجھ رہی ہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے ۔جو آپ لوگ سمجھ رہے ہیں ویسا نہیں ہے ۔آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ایس حرکت کروں گی ۔۔آج بھی وہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے اپنے گھر والوں کے سامنے گرگرا رہی تھی
ا۔۔۔امی کیسی ہیں آپ؟ زری کیسی ہے کہاں ہے وہ مجھے اس سے ملنا ہے آپ کو پتا ہے میں نے آپ دونوں کو کتنا یاد کیا ہے امی جان ایک دفعہ میری طرف دیکھیں کیا آپ کو بھی لگتا ہے میں ایسی ہوں شہوار کی آواز حلق سے نہیں نکل رہی تھی وہ اپنی والدہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں جھکڑے کھڑی تھی سب کھڑے ہو کر اسکا تماشہ بنا رہے تھے کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا ۔۔
یار۔۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے وہ تکلیف میں ہے ۔روہان نے بے اختیار اپنا سر جھٹک دیا ۔وہ صبح سے عاقب سے ملنے کے بعد خود کو کام میں مصروف کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بار بار اسکا دھیان شہوار کی جانب بھٹک جاتا
اف!!!! روہان نے گہرا سانس لیا
_________________________
نکلو یہاں سے چلو۔۔پیچھے سے آئے شیان نے اسکو بازو سے پکڑ کر اسقدر زور سے دھکیلا ۔کہ اسکا سر بہت شدت سے دیوار کے ساتھ لگا
ا۔۔۔ایک منٹ شیان مجھے امی سے بات کرنئ ہے ۔۔اسنے شیان کے اگے ہاتھ جوڑے ۔
نکل جاو یہاں سے تمھارا اب کوئی تعلق نہیں رہا چاچی جان سے اس سے نکاح کر لیا ہے تم نے اور اب ہمیں پاگل بنانے آ گئی ہو جیسے شیان نے کہا
وہ وہی دھک رہ گئ اسنے ناں ناں میں سر ہلایا
امی میں آپ کو بتاتی ہوں اسنے میرے ساتھ زبردستی نکاح کیا ہے امی آپ کچھ بول کیوں نہیں رہی شہوار نے اپنی والدہ کو جھٹکا
دفعہ ہو جاو یہاں سے شہوار جیسے اسکی والدہ نے کہا
شہوار دو قدم پہچھے ہٹی
امی آپ بھی ۔۔۔
ہاں دفعہ ہو جا نکل جا ہماری زندگی سے ۔اسنے شہوار کو بازو سے پکڑا اور مین گیٹ تک لے گئ
یہ سوچ لو کہ زری اور میں تمھارے لیے آج سے مر گئے وہ وہی سمٹ کر رہ گئ بلکل خاموش وہ کچھ نہیں بول رہی تھی اسے کم ازکم اپنی سگئ ماں سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی اسکے بارے میں ایسا سوچیں گے ۔۔وہ بے سہاروں کی طرح چل رہی تھی
اسنے بڑے مان کے ساتھ روہان کے گھر سے نکل تھی شاید اسے ابھی ایک امید باقی تھئ کہ شاید اسکی والدہ اسکی حمایت میں بولیں گی لیکن وہاں پر کوئی اسکی سچائی کی پروا نہیں کرتا تھا سب اسے جھوٹا مان رہے تھے
رات کے سات بج رہے تھے
وہ بے صبری سے ۔۔لاونج میں چکر لگا رہا تھا اور بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔
وہ اسکے پیچھے نہیں گیا تھا کیونکہ روہان چاہتا تھا کہ اسے ایک دفعہ اپنے گھر کی سچائی معلوم ہو جائے کہ وہ سب اسکے بارے میں کیا سوچتے ہیں شاید ایسا کرنے سےاسکی نفرت میرے ساتھ تھوڑی کم ہو جائے گی
جیسے مین گیٹ کا دروازہ کھولا ۔۔۔وہ آئیستہ آئیستہ قدموں سے آرہی تھی وہ دروازہ کے قریب رک گئ
جب روہان نے اندر سے اسے آواز دی
آ جاو ۔۔اندر یہ تمھارا ہی گھر ہے شہوار روہان نے یہ کہتے ہوئے دروازہ کھولا
شہوار کے حواس بلکل باختہ ہو چکے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کیسی گہرے صدمے میں ہو اس سے اچھے سے قدم بھی نہیں اٹھائے جا رہے تھے ۔
روہان آگے بڑا اور اسے سہارا دے کر کمرے میں لے کر گیا
شہوار بیڈ پر بیٹھ گئ ۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے وہ تو بڑے غرور سے اسے چھوڑ کر گئ تھی اور اسے کہہ کر گئ تھی کہ آئیندہ سے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھے گی لیکن نہیں شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور ہے واقعی میری تقدیر روہان علی خان کی تقدیر کے ساتھ لکھ دی گئ ہے شیان کے ساتھ نہیں
روہان اسکے قریب ساتھ بیٹھ گیا ۔۔ایک نظر اسکی طرف دیکھا جو بلکل خاموش تھی روہان نے شہوار کا چہرے کو اپنے کندھے کا سہارا دیا وہ روہان کے کندھے کے ساتھ اپنا سر لگائے رو رہی تھی
جب روہان نے اسے کہا
“مجھے پتا ہے شہوار زندگی نے جو بھی تمھارے ساتھ کیا ہے بہت برا کیا ہے تم بکھیر چکی ہو لیکن یقین کرو میں تمھیں سمیٹ لوں گا ”
جیسے روہان نے کہا شہوار نے بے اختیار اسکو دیکھا ۔۔۔
جاری ہے
زرش نے ۔۔۔ایک دفعہ پھر کوشش کی
کتنی کرتی ہے وہ میں دیکھ چکا ہوں ۔۔۔شیان نے طنزا جواب دیا
آپ اتنے سخت دل تو نہیں تھے ۔۔کیا آپ کو آپی سے محبت نہیں تھی ؟ اسلیے آپ نے ایک چھوٹی سی بات پر ۔۔اتنا سب کچھ کر دیا
تم کہنا کیا چاہ رہی ہو ۔۔زرش شیان الجھا
وہی کہہ رہی ہو جو آپ سمجھ رہے ہیں زرش نے ڈھٹائی سے کہا
وہ اپنے یار کے ساتھ ہمارے منہ پر کالن لگا کر جا چکی ہے۔۔اسنے غصے سے کہا
جیسے زرش نے سنا وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھ نہ پائی ۔
بکواس بند کریں اب آپ نے میری آپی کے خلاف ایک لفظ بھی کہا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا کیا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو مرد ہیں تو کچھ بھی کہہ لیں گے اچھا اگر ۔۔اتنا اپنے اپ کو پاک صاف سمجھ رہے ہئں جب آپ اسلام آباد جاتے تھے تو کیا آپی آپ سے یہ سب سوال پوچھتی تھی کہ کہاں رات گزار کے آئے
زرش تم حد سے بڑھ رہی ہو ۔۔وہ اٹھ کھڑا ہوا
اب کیا ہوا ۔۔ہے بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔۔تو ایسے ہی میری آپی کو درد ہوا ہو گا جب آپ نے سب کہ سامنے انکی عزت نفس پر کیچڑ اچھالا ۔تھا ۔۔اور ہاں ایک اور بات صیح کیا آپ نے جو آپی کو طلاق دے دی کیونکہ وہ آپ جیسے گھٹیا سوچ والے انسان کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں تھئ ۔۔
آئے بڑے مردانگی دیکھانے والے
____________________
میں مر جاوں گی لیکن میں تم سے نکاح نہیں کروں گی شہوار نے ڈھٹائی سے جواب دیا
نکاح تو کرنا پڑے گا ہر صورت میں کتنا پڑے گا ۔۔ایک منٹ قاضی صاحب دلہن تھوڑا روٹھ گئ ہیں اتنے میں روہان نے سامنے کھرے ملازم پر گولی چلائی جو اسے چھو کر دیوار کے ساتھ لگی تھی
شہوار نے ڈر کے مارے انکھیں بند کر لی وہ ہلکا سا مسکرایا اور کہا
کیا تم چاہتی ہو یہ بے گناہ تمھارے ہاں نہ کہنے پر مرے ۔۔بولو ۔۔کیا تم ایسا چاہتی ہو بولو
ن۔۔ن۔نہیں ۔۔روہان خدا کے لیے اس بے قصور کو کچھ مت کہنا اسنے کیا کہا تمھیں ۔شہوار نے اٹکتی آواز میں کہا
تو پھر ٹھیک ہے کہو قبول ہے اسنے گن آگے کرتے ہوئے کہا
جیسے قاضی نے نکاح کی رسم ادا کی اور ۔۔شہوار سے پوچھا
تو اسنے ۔۔اپنی اٹکتی اواز میں کہا
قبول ہے قبول ہے قبول ہے ۔۔وہ ۔اس شخص کے نام اپنی ساری زندگی ۔۔وقف کر رہی تھی اسکے کانپتے ہوئے ہاتھوں نے ۔۔نکاح نامہ پر روہان علی خان کے نام کے ساتب دستخط کر دیے ۔۔کیا کرتی وہ ۔۔پوری طرح سے ۔۔زندگی کے امتحان میں گھیر چکی تھی ۔روہان سے نفرت میں اور اضافہ ہو گیا
جیسے ۔۔۔سب کھڑے لوگوں نے ۔۔مبارک باد دینا شروع کی ۔۔شہوار کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔کہ ۔وہ اپنی زندگی اس شخص کے نام کر چکی تھی جس سے وہ بے پناہ نفرت کرتی ہے
وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائی اور وہ وہی بے ہوش ہو گئ ۔۔
جیسے روہان نے دیکھا وہ جلدی سے اسکی طرف لپکا
شہوار ۔۔۔آنکھیں ۔۔کھولو ۔
بھابی ۔۔۔آنکھیں کھولیں عاقب نے ۔۔بھی اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ۔اسکا پوارا وجود تیز بخار سے تپ رہا تھا ۔
روہان نے جلدی سے عاقب کو ۔گاڑی نکالنے کا کہا
_______________________
میرے قریب مت آنا ۔۔تم ۔
شہوار نے کہا ۔۔جو ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا ہوسپٹل سے آنے کے بعد وہ پورا گھنٹا بے ہوش تھی جیسے اسے ہوش آئی روہان جلدی سے اسکے پاس آیا
بعد میں جو کہنا ہو گا کہہ لینا لیکن ۔ابھی تم ریسٹ کرو روہان نے میز پر پانی کا جگ رکھتے ہوئے کہا اور صوفے پر اپنا سونے کا بستر رکھا
تم اس کمرے میں میرے ساتھ نہیں رہو گے ۔۔سن لیا تم نے ۔تمھیں کیا لگا تم نے نکاح کر لیا ہے اور اب تم میرے مجازی خدا ہو ۔وہ تمھارے نزدیک ہو گا لیکن میں کبھی تمھیں شوہر والا درجہ نہیں دوں گی روہان علی خان ۔۔
وہ خاموشی سے صوفہ پر لیٹ گیا
تم میری بات کا جواب کیوں نہئں دے رہے ۔۔۔وہ چلائی
تھوڑا آئیستہ بولو ۔۔مجھ نیند نہیں آ رہی ۔۔اسنے ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
شہوار نے چڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگی اور پھر اپنے اوپر بستر اوڑھ لیا
کچھ منٹ بعد ۔۔روہان بولا
سو جاو۔۔کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔جیسے روہان نے کہا
وہ بھڑک کے اٹھی
اسکا مطلب تم کچھ کرنے لگے ۔۔تھے ۔مجھے مارنے والے تھے
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا اور کہا
پاگل
________
وہ جان بھوج کر بیڈ پر بستر اورھے ابھی تک لیٹی تھی جب روہان اسکے قریب آیا اور اسے دیکھ کر پہلے وہ ہلکا سا مسکرایا کیونکہ وہ جان چکا تھا شہوار اٹھی ہے
اٹھو شہوار ۔۔۔مجھے ناشتہ بنا کر دو جیسے روہان نے کہا وہ بھڑک کے اٹھ کھڑی ہوئی
کیا کہا تم نے ۔؟
وہی کہا جو تم سن رہی تھی اسنے تحمل سے جواب دیا
کس حق سے تمھارا کام کروں اسنے بڑے تیخے انداز سے سوال کیا
ابھی کل قاضی صاحب نے نکاح پڑھوایا تھا نکاح نامہ پر میرے نام کے ساتھ دستخط ہوئے تھے اتنی جلدی بھول گئ روہان نے جان بھوج کر طنز کیا
اپنی بکواس بند کرو میں تمھاری نوکر نہیں ہوں جو تمھارے لیے ناشتہ بناوں اور ہاں تمھارے نزدیک نکاح ہو گا لیکن مین کبھی تمھیں ایک شوہر والا درجہ نہیں دوں گی کیا سمجھتے ہو تم ایسا روب جماو گے تو میں ڈر جاوں گی نہیں روہان علی خان درشہوار نام ہے میرا اتنی جلدی سے ہار نہیں ماننے والی اور خاص تم جیسے انسانوں سے تو مجھے اچھے آتا ہے نپٹنا ۔۔تم نے اپنی بات تو بندوق کی نوق پر منوا لی اب میں اپنی بات پوری کروں گی
وہ اسکے سامنے کھڑی تھی اسکے بال بکھیرے ہوئے تھے آنکھوں میں نمی ابھی تک ۔۔تھی
وہ ہلکا سا مسکرایا اور اپنی گہری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا پتا نہیں کیوں ۔۔۔وہ شہوار کے آگے چپ ہو جاتا تھا اسکی ہر بات کو کیوں مسکرا کا پی لیتا تھا ۔۔۔
یہ جو تم بے شرمون کی طرح ہنس رہے ہو ۔۔نہایت ہی افسوس کی بات ہے اتنی بے عزتی ہونے کے باوجود بھی اکڑ نہیں ٹوٹ رہی
وہ اس بات پر بھی بے اختیار مسکرایا اور شہوار کی طرف مسلسل ٹک نگاہ سے دیکھ رہا تھا
میں بتا رہی ہوں روہان میری طرف ایسا مت دیکھو نیچے کرو اپنی آنکھیں اسنے اگلی آگے کرتے ہوئے کہا
روہان شہوار کی بات سنتے ایک بار پھر مسکرایا اور اسکی طرف بڑھنے لگا
د۔۔دور رہو مجھ ۔سے میں کہہ رہو ۔۔روہان میرے قریب مت آنا شہوار اپنے قدم پیچھے کی جانب بڑھانے لگی ۔۔
کتنے بے شرم ہو کیسے دیکھ رہے ہو شہوار دیوار کے ساتھ لگ گئ اور اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا
تم مانو یا نہ مانو لیکن اب تمھاری قسمت کی لکیریں میری لکیروں میں شامل کر دئ گئی ہیں اور ہاں بیوی ہو تم میری ٹھیک ہے اور میں تمھارے ساتھ قریب ہو کر بھی بات کر سکتا ہوں اور دور ہو کر بھی ۔۔۔اسنے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
_______________________
شہوار اپنا سارا سامان پیک کیے ۔۔نیچے اگئ روہان صوفہ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا اسنے شہوار کو جیسے سڑھیوں سے اترتے دیکھا وہ جلدی سے کھڑا ہو گیا
کہا جا رہی ہو شہوار ۔۔۔
اگر تم نے مجھ روکنے کی کوشش کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔ اسنے رکتے ہوئے کہا
کہا جا رہی ہو ۔۔۔اسنے پھر پوچھا
تمھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے اور خاص کر تم جیسے شخص کو تو نہیں بتاوں گئ جس سے میں آگے جان چھڑانا چاہ رہی ہو
روکو شہوار ۔۔ روہان نے شہوار کو ہاتھ سے پکڑ کر روکا
چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔اور اگر دوبارہ تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی نہ تو ہاتھ توڑ دوں گی تمھارا
وہ یہ کہتے ہوئے ایک تیخی نگاہ اسپر ڈالتے ہوئے باہر کی جانب چلی گئ
وہ وہی کھڑا تھا ۔۔اسنے ۔۔۔اسے نہیں روکا تھا آج وہ اسکے پیچھے بھی نہیں گیا تھا شاید اسے معلوم تھا ۔۔کہ وہ واپس آجائے گی شاید یقین تھا
_____________________
کیا مطلب بھابھی چلی گئ ۔۔عاقب چونک کر چئیر سے اٹھا
ہاں ۔۔چلی گئ ہے ۔۔روہان نے تحمل سے جواب دیا
تو بھائی تو اسطرح ٹانگ پہ ٹانگ دھرے کیوں بیٹھے ہو ۔۔جاو انھیں لے کر آو تمھیں پتا بھی ہے وہ کہا گئ ہے عاقب نے مسلسل بولتے ہوئے کہا
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
کمینے ۔۔۔ہنس رہا ہے ۔لگتا ہے محبت ہو گئ ہے تمھیں عاقب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کہا محبت ۔۔کونسی محبت ۔۔ایسی محبت جو بندوق کہ نوک پر ہو ایسی محبت جو اسکی پیشانی پہ گن رکھ کے اقرار محبت کروانا ۔لیکن عاقب پتا نہیں اب مجھے اسکی باتوں پر غصہ نہیں آتا ایسے ایک یقین ہے کہ اب وہ میرے ساتھ ہی رہے گی ۔۔میں اگر اس پر غصہ ہونا چاہوں تو نہیں ہو پاتا
اسنے بے اختیار شانے اچکاتے ہوئے کہا
یہ محبت کا آغاز ہے میرے یار ۔۔اور تمھیں بھابی سے محبت ہے ۔۔اور پتا ہے یہ چار حرف مجموعہ ہے لیکن اسکے راستے بہت کھٹن اور وسیع ہیں اور تمھارے راستے کچھ زیادہ کھٹن ہیں جہاں پر تمھیں اسے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی محبت کا یقین بھی دلانا ہے ۔۔
عاقب نے ۔۔نرم لہجے میں جواب دیا
تمھیں معلوم ہے عاقب وہ کہا ہے اسوقت ؟
کہاں؟ عاقب نے تجسس سے پوچھا
اپنے گھر اس کمینے کے پاس۔۔روہان نے بے اختیار سانس لی
کیا؟ اب کیا ہو گا ؟ عاقب نے حیرانگی سے جواب دیا
ہونا کیا ہے واپس آجائے گی ۔۔روہان اب اپنی چئیر سے اٹھا تھا
کیا مطلب تم اسے لینے نہیں جاو گے عاقب بھی اسکے پیچھے پیچھے اٹھا
نہیں مجھے یقین ہے وہ واپس آ جائے گی خود ہی کیونکہ اسے ایک دفعہ اس بات کا علم ہو جائے کہ اس گھر میں کوئی اسکی عزت نہیں کرتا روہان نے آنکھیں بند کی
مجھے یہ امید نہیں تھی عاقب نے بے اختیار کہا
________________________
ہمارا تمھارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے شہوار نکل جاو یہاں سے ۔۔اسکی تائی جان نے بلند آواز میں کہا
ا۔۔۔ایک منٹ تائی جان ایسا تو مت کریں میرے ساتھ میرا قصور کیا ہے میں نے ایسا کیا کیا ہے جو اسکے بدلے مجھے اتنی بڑی سزہ مل رہی ہے اسنے تائی جان کو روکتے ہوئے کہا
کیا کہا غلطی کیا تھی ارے تو نے میرے بیتے کی زندگی بارباد کر دی اور پوچھ رہی ہے میں نے کیا کیا اپنے ۔۔اس۔۔۔ابھی تائی جان کہتی وہ جلدی سے بولی
تائی جان جیسا آپ سب سمجھ رہی ہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے ۔جو آپ لوگ سمجھ رہے ہیں ویسا نہیں ہے ۔آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ایس حرکت کروں گی ۔۔آج بھی وہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے اپنے گھر والوں کے سامنے گرگرا رہی تھی
ا۔۔۔امی کیسی ہیں آپ؟ زری کیسی ہے کہاں ہے وہ مجھے اس سے ملنا ہے آپ کو پتا ہے میں نے آپ دونوں کو کتنا یاد کیا ہے امی جان ایک دفعہ میری طرف دیکھیں کیا آپ کو بھی لگتا ہے میں ایسی ہوں شہوار کی آواز حلق سے نہیں نکل رہی تھی وہ اپنی والدہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں جھکڑے کھڑی تھی سب کھڑے ہو کر اسکا تماشہ بنا رہے تھے کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا ۔۔
یار۔۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے وہ تکلیف میں ہے ۔روہان نے بے اختیار اپنا سر جھٹک دیا ۔وہ صبح سے عاقب سے ملنے کے بعد خود کو کام میں مصروف کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بار بار اسکا دھیان شہوار کی جانب بھٹک جاتا
اف!!!! روہان نے گہرا سانس لیا
_________________________
نکلو یہاں سے چلو۔۔پیچھے سے آئے شیان نے اسکو بازو سے پکڑ کر اسقدر زور سے دھکیلا ۔کہ اسکا سر بہت شدت سے دیوار کے ساتھ لگا
ا۔۔۔ایک منٹ شیان مجھے امی سے بات کرنئ ہے ۔۔اسنے شیان کے اگے ہاتھ جوڑے ۔
نکل جاو یہاں سے تمھارا اب کوئی تعلق نہیں رہا چاچی جان سے اس سے نکاح کر لیا ہے تم نے اور اب ہمیں پاگل بنانے آ گئی ہو جیسے شیان نے کہا
وہ وہی دھک رہ گئ اسنے ناں ناں میں سر ہلایا
امی میں آپ کو بتاتی ہوں اسنے میرے ساتھ زبردستی نکاح کیا ہے امی آپ کچھ بول کیوں نہیں رہی شہوار نے اپنی والدہ کو جھٹکا
دفعہ ہو جاو یہاں سے شہوار جیسے اسکی والدہ نے کہا
شہوار دو قدم پہچھے ہٹی
امی آپ بھی ۔۔۔
ہاں دفعہ ہو جا نکل جا ہماری زندگی سے ۔اسنے شہوار کو بازو سے پکڑا اور مین گیٹ تک لے گئ
یہ سوچ لو کہ زری اور میں تمھارے لیے آج سے مر گئے وہ وہی سمٹ کر رہ گئ بلکل خاموش وہ کچھ نہیں بول رہی تھی اسے کم ازکم اپنی سگئ ماں سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی اسکے بارے میں ایسا سوچیں گے ۔۔وہ بے سہاروں کی طرح چل رہی تھی
اسنے بڑے مان کے ساتھ روہان کے گھر سے نکل تھی شاید اسے ابھی ایک امید باقی تھئ کہ شاید اسکی والدہ اسکی حمایت میں بولیں گی لیکن وہاں پر کوئی اسکی سچائی کی پروا نہیں کرتا تھا سب اسے جھوٹا مان رہے تھے
رات کے سات بج رہے تھے
وہ بے صبری سے ۔۔لاونج میں چکر لگا رہا تھا اور بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔
وہ اسکے پیچھے نہیں گیا تھا کیونکہ روہان چاہتا تھا کہ اسے ایک دفعہ اپنے گھر کی سچائی معلوم ہو جائے کہ وہ سب اسکے بارے میں کیا سوچتے ہیں شاید ایسا کرنے سےاسکی نفرت میرے ساتھ تھوڑی کم ہو جائے گی
جیسے مین گیٹ کا دروازہ کھولا ۔۔۔وہ آئیستہ آئیستہ قدموں سے آرہی تھی وہ دروازہ کے قریب رک گئ
جب روہان نے اندر سے اسے آواز دی
آ جاو ۔۔اندر یہ تمھارا ہی گھر ہے شہوار روہان نے یہ کہتے ہوئے دروازہ کھولا
شہوار کے حواس بلکل باختہ ہو چکے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کیسی گہرے صدمے میں ہو اس سے اچھے سے قدم بھی نہیں اٹھائے جا رہے تھے ۔
روہان آگے بڑا اور اسے سہارا دے کر کمرے میں لے کر گیا
شہوار بیڈ پر بیٹھ گئ ۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے وہ تو بڑے غرور سے اسے چھوڑ کر گئ تھی اور اسے کہہ کر گئ تھی کہ آئیندہ سے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھے گی لیکن نہیں شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور ہے واقعی میری تقدیر روہان علی خان کی تقدیر کے ساتھ لکھ دی گئ ہے شیان کے ساتھ نہیں
روہان اسکے قریب ساتھ بیٹھ گیا ۔۔ایک نظر اسکی طرف دیکھا جو بلکل خاموش تھی روہان نے شہوار کا چہرے کو اپنے کندھے کا سہارا دیا وہ روہان کے کندھے کے ساتھ اپنا سر لگائے رو رہی تھی
جب روہان نے اسے کہا
“مجھے پتا ہے شہوار زندگی نے جو بھی تمھارے ساتھ کیا ہے بہت برا کیا ہے تم بکھیر چکی ہو لیکن یقین کرو میں تمھیں سمیٹ لوں گا ”
جیسے روہان نے کہا شہوار نے بے اختیار اسکو دیکھا ۔۔۔
جاری ہے