کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر8
اگر اتنی ہی پروا کرتے ہو میری۔تو میری زندگی کیوں برباد کی شہوار بھڑک اٹھی اسکی آنکھوں میں غصے کی تپش تھی اسکا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔۔بولو کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا
آج تک کوئی کیس نہیں ہاری ہمیشہ سچائی کو ثابت کیا ہے اور دیکھو آج قسمت نے میرے ساتھ کیسا کھیل کھیلا ہے میں خود کو سچا ثابت نہیں کر پائی آج میں خود کی نظروں میں ہار گئ ۔۔ہار گئ میں اور اس سب کی وجہ تم ہو روہان علی خان صرف تم اسکی آواز بلند تھی وہ اپنے پورے زور سے اسکو طنزا کر رہی تھی یہ سنتے ہی روہان اٹھا اور اسکی طرف بڑھا
چپ کر جاو شہوار میں تمھیں کتنی بار بتا چکا ہوں مجھے تم سے اتنی گہری دشمنی نہیں تھی جو میں تمھاری نجی زندگی میں دخل اندازی کرتا اور حتی کہ مجھے تمھارے نکاح کے بارے میں بلکل بھی علم نہیں تھا اور اج تم اپنی آنکھوں سے اپنے گھر والوں کا رویہ دیکھ آئی ہو اور اسکے باوجود بھی تمھیں یہ لگ رہا ہے کہ میں تمھاری بربادی کا ذمہ دار ہوں شہوار تم نے اپنے دماغ میں پتا نہیں میرے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے ضروری نہیں تمھارے ہر درد کا ذمے دار میں ہوں ۔۔میں نے صرف تمھیں پھر جینے کا ایک سہارا دیا ہے تمھیں اپنا نام دے کر ۔۔اور یہ احسان نہیں ہے شہوار ۔
روہان نے اپنے لہجے میں نرمی برقرار رکھی وہ کمرے سے بار جانے لگا تھا کہ ۔م۔پیچھے سے شہوار کے جملے نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا
اگر تم مجھے اس دن ۔۔نہ لائے ہوتے تو آج تمھاری جگہ شیان ہوتا ۔۔یہ الفاظ سنتے ہی ۔۔روہان کے بڑھتے قدم اچانک وہی تھم سے گئے ۔۔اسے یوں معلوم ہوا جیسے کیسی نے اسکے جسم پر گہرا وار کیا ہو جس کے درد کی شدت اسقدر زیادہ تھی کہ ۔۔ناقابل بیان تھا
روہان نے بے اختیار شہوار کی طرف دیکھا ۔۔اور اپنے الفاظوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی اور کہا
کیا اب بھی تمھیں اس سے محبت ہے شہوار بلکل خاموش سامنے کھڑی تھی یہ سنتے ہی اسنے اپنی نگاہیں جھکا لی ۔۔وہ کھڑا اسکے جواب کا منتظر تھا ۔
روہان بے اختیار مسکرایا اور کمرے سے باہر روانہ ہو گیا
وہ اپنے قدموں کو سہارا دے رہا تھا لیکن ۔۔۔اسکے قدم لڑکھڑا رہے ۔۔تھے ۔۔بلاجھجھک اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔درد بہت درد ۔۔تھا اسکے دل میں ۔اسے ابھی بھی اس محبت ہے ۔۔یہ سوچتے ہی ۔۔درد کی ایک لہر روہان کے وجود میں سے دوڑی ۔۔اسے یوں معلوم ہوا جیسے کوئی ۔سرد طیز اسکے اعصاب پر زور ڈال رہی ہو ۔۔وہ سڑھیاں اتر ۔۔رہا تھا اور باہر ۔۔گراج میں کھڑی گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔رات 10 بج رہے تھے ۔۔جیسے شہوار نے گاڑی کے ہارن کی آواز سنی وہ جلدی سے نیچے آئی
وہ گھر سے جا چکا ۔۔تھا ۔۔
تمھیں معلوم ہے صاحب کہا گئے ہیں شہوار نے گیٹ کیپر سے پوچھا
پتا نہیں میڈم بتا کر نہیں گئے وہ ۔۔جواب آگے سے نرمی سے ملا تھا
ٹھیک ہے وہ یہ کہتے ہوئے پھر ۔۔اندر چل دی ۔۔
ن۔۔نہیں اوسے کونسی مجھ سے محبت ہے ۔۔جو اسے اس بات کا برا لگا ہو گا ۔۔۔روہان کو مجھ سے محبت نہیں ہے ۔۔وہ شخص کو مجھ سے کیا کیسی سے محبت نہیں ہو سکتی وہ اپنے ہی دل میں ۔۔خود کو حوصلہ دے رہی تھی ۔۔اسے ابھی بھی یہی لگ رہا تھا روہان اسکی وجہ سے باہر نہیں گیا
“اگر تمھیں میری اتنی پروا ہے تو میری زندگی میں کیوں آئے ۔۔وہ سڑک کے کنارے ۔۔بے سہاروں کی طرح چلرہا تھا ۔۔وہ شہوار کو بتا نہیں سکتا تھا کہ اسے کس قدر درد محسوس ہوا تھا ۔۔جب اسنے ۔۔شیان کا نام لیا ۔۔کیا واقعی اسکے دل میں ابھی بھی وہی ہے مجھے کیا ہو رہا ہے ۔۔۔وہ بار بار کو خو کو الجھا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔رات کی تنہائی میں درد دل ۔۔۔سے ملاقات اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو دل سے ٹوٹیں ہوں ۔اور شاید آج روہان ٹوٹ گیا تھا ۔۔رات کے 12 بجنے کو تھے لیکن وہ ابھی تک واپس گھر نہیں آیا تھا
شہوار بار بار باہر کی طرف دیکھتی ۔۔پتا نہیں وہ سو نہیں پا رہی تھی ۔۔شاید اسکا انتظار کر رہی تھی
______________________
صبح کے ۔۔۔چڑھتے آفتاب کی روشنی ۔۔نے اپنی ۔۔چمک دھمک ۔۔شعاعوں سے ہر چیز کو اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا ۔وہ رات کو ۔۔بہت دیر تک سوئی تھی جیسے شہوار کی آنکھ کھولی ۔۔اسنے فورا صوفہ کی طرف دیکھا لیکن روہان وہی نہیں تھا ۔۔اسنے جھنجھلا کے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ۔۔جلدی سے نیچے ۔۔آئی جیسے اسنے ۔۔سامنے باہر صوفہ پر ۔۔روہان کو دیکھا ۔۔اسکی آنکھیں بلکل سرخ ہو چکی تھی صاف معلوم ہو رہا تھا وہ صیح سے سو نہیں ہایا
تمھارے لیے کافی بناوں روہان نے تحمل سے کہا
نہیں میں خود ہی بنا لوں گی اسنے فریزر سے دودھ نکالتے ہوئے کہا وہ بار بار اسکی طرف دیکھ رہی تھی روہان کی آنکھیں واقعی بہت زیادہ سرخ تھی ۔۔شہوار اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی ۔۔لیکن پھر خاموش رہی ۔۔
تم آفس جا رہی ہو ۔۔تو ایسا کرو میری گاڑی لے جاو ۔۔راستے میں بہت زیادہ ٹریفک ہوتی ہے ۔۔جیسے روہان نے دوبارہ کہا
شہوار نے بنا دیکھے اسے جواب دیا
اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے میں خود ہی چلی جاوں گی ۔۔
نہیں میں کہہ رہا ہوں ۔۔تم میری گاڑی لے جانا ۔۔روہان نے چائے کا کپ اور ساتھ گاڑی کی چابی رکھی ۔۔اور آفس جانے کے لیے ۔۔تیار ہو کر ۔۔چلا گیا
شہوار اسے جاتا ہوا دیکھ ۔۔رہی تھی کیا واقعی اسے رات والی بات سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔۔
جیسا روہان نے کہا تھا واقعی راستے میں بہت زیادہ ٹریفک تھی جیسے ٹریفک پولیس والے ۔۔روہان کی گاڑی کو دیکھا وہ ۔۔جلدی سے اسکی گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی مین بیٹھا شہوار کو دیکھ کر اسنے بے اختیار ادب سے سلام لی
اسلام و علیکم بھابھی جی! معذرت خواہ ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑا ایک منٹ روکیے میں ابھی آپ کی گاڑی نکلواتا ہوں ویسے صاحب کیسے ہیں ؟ شادی کی بہت مبارک ہو اپ دونوں کو
شہوار یہ سب سن کر دھک رہ گئ ۔۔۔اسے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کیا کہے
اسنے ناچاہتے ہوئے بھی اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائی ۔۔
اوئے اپنی گاڑیاں پیچھے کرو تم بھی کرو ۔۔۔صاحب کی گاڑی کو سب سے پہلے آنے دو
اس شخص نے اپنے خوف سے کتنے لوگوں کو اپنے نیچے دبا رکھا ہے ۔۔شہوار نے یہ سوچتے ہوئے غصے سے گاڑی کا رخ تھانے کی طرف کیا جیسے گاڑی تھانے کے قریب رکی
باہر سامنے کھڑے چند کانسٹیبل نے جیسے روہان کی گاڑی کو دیکھا وہ وہی دھک رہ گئے
صاحب کی گاڑی ؟ لیکن صاحب تو آفس میں ہیں پھر انکی گاڑی میں کون ہے ؟ لگتا ہے صاحب کی بیوی ملنے آئی ہوں گی
ساتھ والے کانسٹیبل نے بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا
ہاں میں نے سنا ہے صاحب کی شادی ہوئی ہے حالے میں ۔۔۔شہوار کا ایک قدم گاڑی سے جونہی باہر نکلا سب کے دل مضطرب ہو گئے ۔
ارے ۔۔یہ تو وہی وکیل ہے؟ پولہس کانٹسیبل کے منک سے بے اختیار نکلا
ارے بھابھی تو بڑی ہی ۔۔خوفناک ہیں ۔۔۔۔جیسے ایک پولیس کانسٹیبل نے کہا دوسرا فورا بولا
اور خطرناک بھی جیسے وہ انکے سامنے سے گزری انہوں نے ادب سے سلام لی ۔۔
تمھارے سنئیر کہا ں ہیں ؟
صاحب ۔۔ج۔۔۔جی وہ اپنی کیبین میں ہے ۔۔پولیس کانسٹیبل نے اٹکتے ہوئے جواب دیا
_______________________
مے آئی کم این سر ۔۔۔شہوار کو وہاں دیکھتے ہی ۔۔روہان جھٹک کے کھڑا ہو گیا ۔
شہوار تم اسنے بے اختیار کہا
جی میں اس سے پہلے وہ کچھ کہتی ۔۔اسنے روہان کے ساتھ بیٹھے ۔۔چند پولیس ۔والوں کو دیکھا جیسے ان پولیس والوں نے شہوار او دیکھا ۔۔انہوں نے ۔۔تہذیب و اخلاق کے دائرے میں سلام لی
اسلام و علیکم بھابھی جی !
روہان اور شہوار نے چونک کے ایک دوسرے کو دیکھا
و۔۔۔و علیکم اسلام ۔۔اسنے نا چاہتے ہوئے بھی جواب دیا
بہت خوشی ہوئی یہ سن کر کہ ایک پولیس اور ایک وکیل کی شادی یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا ۔جوڑی اچھی ہے ۔۔پولیس کانسٹیبل نے جیسے کہا پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔۔شہوار اپنے ہاتھوں کو بے اختیار مسل رہی تھی
روہان صاحب ہمیں بھی کبھی کھانے پر بلائیے ناں تاکہ کے بھابھی کے ہاتھ کا کھانا چکھ سکے کیوں بھابھی جی
۔ج۔۔۔۔جی ۔۔جی کیوں نہیں ۔۔شہوار نے اٹکتی اواز سے جواب دیا
ا۔۔۔اچھا شہوار آپ کیسی کام سے آئی تھی ۔۔۔روہان نے نرم لہجے سے سوال کیا ۔
جی۔۔۔وہ میں پوچھنے آئی تھی ۔۔۔کہ۔۔ایک منٹ ہم باہر بات کر لیتے ہیں ۔۔شہوار نے اشارہ کیا
ج۔جی چلیں ۔۔روہان جلدی سے کیبن سے باہر نکلا
یہ کیا گنڈا گردی ہر جگہ لگائی رکھی ہے تم نے ۔ شہوار نے آئیستہ سے کہا
اب کیا ہوا ہے ۔۔؟
ہوا تو کچھ نہیں آگے بہت کچھ ہونے والا ہے ۔۔اپنے ان پیادون کو سمجھا دو کہ مجھے مفت کی عزت نہ دیا کرے مجھے کوئی شوق نہیں ہے خوف کے تلے جھوٹی عزت لینے کا ۔۔شہوار نے اپنی الفاظوں کو پیچتے ہوئے کہا
وہ تمھاری عزت کرتے ہیں شہوار
کیوں کرتے ہیں کس حق سے
کیوں کہ تم آئی ایس پی روہان علی خان کی وائف ہو ۔۔یہ سنتے ہی وہ اچانک خاموش ہو گئ
______
اپنی یہ فضول بکواس اپنے پاس رکھو اور خدا کے لیے مجھ پر ایک احسان کر دو اپنے وفاداروں سے کہہ دو کہ مجھے عزت نہ دیا کریں نہیں چاہیے مجھے ایسی عزت جو خوف اور ڈر پر بنیاد ہو تمھاری عزت تمھیں ہی سلامت ہو شہوار نے ایک تیخی نگاہ روہان پر ڈالی اور تھانے سے باہر چل دی وہ اسے جاتا ہوا مسلسل دیکھ رہا تھا اسنے ایک دفعہ بھی پلٹ کر اسکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔۔شاید اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ روہان اسے کس قدر چاہنے لگا ہے اسکی اہمیت کس قدر بڑھ گئ ہے روہان کی زندگی میں ۔۔وہ کیوں اب اسکی ہر بات کو مسکرا کر سہہ لیتا ہے کیونکہ دل لگی جب لگتی ہے تو ہوش و حواس سارے باختہ ہو جاتے ہیں پھر بس وہی ہوتا ہے جو اسکی محبت چاہتی ہے ۔قربت کے لمحات ۔۔ہوں یا احساسات کی زنجیریں ہر چیز پر ۔۔محبت کا ضبط ہوتا ہے ۔اور روہان تو اپنا سب کچھ شہوار کے نام کر چکا تھا ۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا اور اپنی کیبن کی جانب بڑھ گیا جہاں پر پولیس آفیسرز بیٹھے اسکے انتظار میں تھے
چلیے اگلی ڈسکشن پھر کل کرتے ہیں روہان نے نرم لہجے سے کہا اور اپنی چئیر پر بیٹھ گیا
جی ٹھیک ہے سر جیسا آپ چاہے ۔۔ان آفیسرز میں سے ایک نے کہا اور سب بھاری بھاری ۔۔عزت سے سلام لے کر کمرے سے باہر چلے گئے انکے جانے کے فورا بعد ۔۔روہان نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ۔۔بند آنکھوں میں بھی ایک ہی انسان کا عکس اسکے سامنے تھا اور وہ کوئی اور نہیں شہوار تھی ۔پتا نہیں کیوں اسکی نفرت میرے لیے دن با دن بڑھتی جا رہی تھی وہ کیوں ابھی تک مجھے اس واقعے کا مجرم سمجھ رہی تھی ۔شاید جیسا میں اسکے بارے میں سوچنے لگا ہوں ویسا وہ میرے بارے میں نہ سوچتی ہو ۔۔ضروری نہیں محبت یک وقت دونوں کو ہو ۔یہ تو ہر پنترے سے ازماتی ہے کبھی یک طرفہ ہو کر تو کبھی دلوں میں نفرت بھرپا کر کے ۔۔اور شہوار کے دل میں میرے لیے نفرت ہے بے شمار نفرت ۔۔اسنے یہ سوچتے ہوئے بے اختیار اپنے سر کو جھٹک دیا اور ساتھ پڑی سگریٹ کو سلگانے لگا ۔
________________________
کونسی سی ایسی دوا ہے ڈاکٹر صاحب جو ایک مہینا ہو گیا اور اثر نہیں کر رہی ۔شہوار نے غصے سے کہا
دیکھیے میڈم ہم آپ کو وہی بتا رہے ہیں جو رپورٹ فاعل میں لکھا ہے ۔شاید اب انعم بول سکے جیسے ڈاکٹر نے کہا شہوار نے غصے سے فاعل پکڑ کر نیچے پھینکی اور کہا
جھوٹ مت بولیں ڈاکٹر فیضان آپ کی آنکھوں میں رشوت کے پیسے دیکھ سکتی ہوں میں بھک چکے ہیں ان وئیڈروں کے اگے بیچ چکے ہیں اپنا ایمان پیسوں کی حوس میں اندھے ہو چکے ہیں آپ خدا کا خوف کرو اسکے پاس بھی جانا ہے آپ کو ۔ارے اس دنیا کی پروا نہیں تو آخرت کے لیے ہی کچھ نیک اعمال کر لو ۔۔اعمال نامے کی نیکیوں سے آپ جیسے درندوں کو جنتیں مل جایا کرتی ہیں ۔اگر اپنا سر جھکانا ہے تو خدا کے آگے جھکاو کم از کم وہاں انسان کی کوئی عزت ہوتی ہے جہاں انسان کو شرم نہیں ہوتی ۔۔کہ میں اسکے سامنے اپنا سر جھکا رہا ہوں ۔۔ماتھے رگڑو گر گراو کیسے نہیں وہ بات مانتا وہ تو سب کچھ دے کر بھی کہتا ہے مانگ اور مانگنا ہے لیکن آپ جیسے لوگوں کو تو اچھا لگتا ہے نہ زمینی خداوں کے آگے ۔۔ماتھے رگڑنا انکے جوتے چھٹکارنا ۔۔اپنی عزت کی تذلیل کروانا ۔۔
ایک مہینا ختم ہونے کو ہے اگلی تاریخ تک اگر انعم بولنے کے قابل نہ ہوئی تو آپ کو کیسی کے قابل نہیں چھوڑوں گی ۔۔ایسا برباد کروں گی کہ نام دام ۔۔پیسا سب کچھ ڈوب جائے گا ۔تو بھلائی اسی میں ہے کہ انعم کا اچھے سے علاج کریں اور خدا کے لیے اس غریب باپ کے حلال پیسوں کو حرام مت کریں ۔۔زرا سا بھی افسوس نہیں ہوا ان بوڑھے ماں باپ کو جھوٹی رپورٹ فاعل دیکھاتے ہوئے زرا سی بھی کوفت نہیں ہوئی رشوت کے پیسے لیتے ہوئے ایک بار اس بچی انعم کے چہرے کے بارے میں سوچ لیتے کیسے ان درندوں نے کچلا تھا لیکن خیر ۔۔وہ کونسا آپ کی سگی بیٹی تھی درد تو انکا ہوتا ہے تکلیف اذیت تو انکو ہوتی ہے جن پر بیتتی ہے باقی سب تو ویڈیوز اور تماشہ بنانے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں شہوار یہ کہتے ہوئے غصے سے اٹھی اور کمرے سے باہر چل گئ
بڑی تیز وکیل سے پالا پڑا ہے ڈاکٹر فیضان ۔۔ڈاکٹر نے اپنی پیشانی سے ڈر کے مارے ۔۔پیسنے کی دھارئیں صاف کی
جونہی شہوار کمرے سے باہر نکلی اسکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے جب اسنے لچار اور مفلسی کی حالت میں انعم کو بیڈ پہ لیٹے دیکھا اسکا دل خون کے آنسو رونے لگا تھا وہ اسکا درس محسوس کر سکتی تھی اسکی اذیت کو اپنے جسم پر محسوس کر سکتی تھی ۔۔شہوار نے آگے ہو کر انعم کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
مجھ پر یقین رکھو انعم میں کیسی کو نہیں چھوڑوں گی ۔۔تم بہت جلد ٹھیک ہو جاو گی ۔۔بہت جلد
________________________
میں نوکر نہیں ہوں تمھاری جو ۔۔تمھارے مہمانوں کے کام کرتی پھروں مہمان تمھارے آرہے ہیں تو کام بھی تم خود ہی دیکھو شہوار نے الماری میں اپنا بھیگ اور کورٹ رکھتے ہوئے کہا
شہوار میرے دوست بھابھی کے ہاتھ کا کھانہ کھانا چاہتے ہیں روہان نے مسکراتے ہوئے ۔۔طنزا کیا جیسے یہ الفاظ شہوار نے سنے
ارے واہ اگر اتنا ہی بھابھی کے ہاتھ کا کھانے کا شوق تھا تو نکاح میں شرکت کروا لیتے ایک بندوق وہ بھی لے کر آجاتے ۔۔
نہیں میں نے سوچا ایک ہی گن کافی ہے ۔۔ایک سے ہی کام ہو جائے گا ۔باقی بعد میں دیکھی جائے ۔گی روہان نے اپنی سگریٹ سے ایک کش لیتے ہوئے کہا ۔اور ساتھ اپنی شرٹ کی آئستینیں اوپر کرنے لگا
کتنے ڈھیٹ ہو تم ؟ شہوار اسکی طرف بڑھی
آپ سے کم ! جواب کھٹک کے ملا تھا ۔
شرم نہیں آ رہی ۔۔ایسے جھگڑتے ہوئے شہوار نے چڑتے ہوئے کہا
جھگڑا آپ پہلے شروع کرتی ہیں زہے نصیب ہم تو اختتام تک لانے کی کوشش کرتے ہیں یہ سنتے ہی شہوار بھڑک اٹھی
واقعی ۔۔تم کبھی نہیں سدرو گے ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے جانے لگی تھی کہ روہان نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے نزدیک کیا ۔اور سگریٹ کو منہ میں دبایا
ا۔۔۔اس نشے کو میرے چہرے سے پرے کرو چین سموکر ۔۔جیسے شہوار نے کہا روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
تمھیں پتا ہے جب تم مجھے چین سموکر کہتی ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے
ظاہر سی بات ہے بندے کو ۔۔اپنی اصلیت پتا چلتی ہے تو وہ ایسے ہی خوش ہوتا ہے اور تم ۔۔تو پھر ہو ہی ایسے اسنے بے باک اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
کتنی نڈر بیوی ہو ۔۔میری روہان نے بھی اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
اگر نڈر شوہر ہے ۔۔تو بیوی بھی ایسی ہو گی شکر ہے تم نے مانا تو ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں جیسا تم سوچ رہے پو ویسا بلکل نہیں ہے میں کبھی تمھیں دل سے تسلیم نہیں کروں گی ۔۔شہوار نے ڈھٹائی سے جواب دیا
نفرت کرتی ہو مجھ سے جیسے روہان نے سوال کیا شہوار نے بلاجھجک اسکے چہرے کی طرف دیکھا اور طنزا مسکراتے ہوئے کہا
بہت زیادہ نفرت جسکا تم اندازہ نہیں لگا سکتے ۔۔شہوار نے اپنے الفاظ میں نفرت ظاہر کروائی اور میں تم سے بہت زیادہ محبت اتنی محبت کہ تم اندازہ نہیں کر سکتی ۔اور تمھیں کیا لگا تم میرے ساتھ ایسے تیخے الفاظ استعمال کرو گی تو میں بھڑک اٹھووں گا اکتا جاوں گا ۔۔نہیں شہوار یہ وحم ہے تمھارا تمھاری قسمت وہ کمینا نہیں تھا تم صرف میری ہو اور صرف میری ۔مسسز روہان۔۔پتا ہے جب انسان کیسی سے محبت کرتا ہے تو اسکے لیے دنیا ایک طرف اور اسکی محبت ایک طرف ۔پھر وہ اپنی محبت کے ہر ناز نکھرے اٹھاتا ہے اور مجھے اپنی محبت کے ناز نکھرے اٹھانے میں کوئی دکت محسوس نہیں ہو گی شہوار بلکل دھک کھڑی تھی اسے روہان سے ان سب باتوں کی امید نہیں تھی ۔اسے یہ گمان میں بھی نہیں تھا کہ روہان کو اس سے محبت ہو سکتی ہے اسنے اپنے چہرے کے تاثرات چھپائے اور کہا
کتنی بڑی خوش فہمی پال رکھی ہے تم نے روہان ترس آتا ہے مجھے تم پر اور تمھاری اس یک طرفہ محبت پر اور پتا ہے اس محبت کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے بڑی ظالم درد ناک اور اذیت محبت ہوتی ہے ۔۔یہ ۔جس میں صرف درد ہی درد اور رونا مقدر میں ملتا ہے لیکن محبت کا حصول نہیں اور تمھارے مقدر کو بھی رونا اور درد ہی ملے گا ۔۔محبت نہیں کیونکہ میرے دل میں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے نہ احساس کی اور نہ ہی محبت کی اب تم اس میں تڑپتے ہو تو تڑپو ۔۔شہوار نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئ
______________________
وہ کچن میں خود ۔۔کھانا بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہر بار ناکام ہو جاتا پیاز کاٹنے کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں پانی بار بار آ رہا تھا وہ دور کھڑی اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرائی اور اسکی طرف بڑھی
پہچھے ہٹو تھوڑی سی مدد میں کر دیتی ہوں باقی خود کرنا تم شہوار نے روہان کے ہاتھوں سے سامان پکڑا اور پیاز کاٹنے لگی
روہان نے جیسے اپنی آنکھوں کو مسلا اسے درد محسوس ہوا اسکے منہ سے بے اختیار آہ نکلی یہ سنتے ہی شہوار جھٹ سے پلٹی اور اسکی طرف بڑھی
پاگل ہو گئے ہو ۔۔پہلے اپنے ہاتھ تو دھو لیتے دیکھاو ادھر مجھے ۔۔وہ اسکے قریب بڑھی اور اپنے دوپٹے کا کی ایک نوک اسکی آنکھ کے گرد رکھی ۔۔
ی۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ۔۔روہان نے ۔۔زور سے کہا
ڈرو مت ۔۔مارنے نہیں لگی ۔۔اتنے بڑے آئی ایس پی ہو کر ۔۔ایک درد سے چلا رہے ہو ۔۔شہوار نے جیسے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا
چلیے ۔۔وکیل صاحبہ کیس ہینڈل کر ہی رہی ہے ۔۔
تھینک یوں مدد کے لیے روہان نے نرم لہجے میں کہا
اسنے ایک غصےکی نظر سے دیکھا
ہائے کبھی مسکرا کے بھی دیکھ لیا کرو ذہے نصیب ۔۔۔اچھا اب میں کیا کروں ۔۔”
نہیں تم کچھ نہ کرو ۔۔بس چپ کر کے بیٹھ جاو ۔۔جیسے شہوار نے کہا وہ فورا بولا
جو حکم ۔۔۔جہاں پناہ ۔۔۔
__________________________
جی سر وہ میں نے ۔۔آپ سے در اصل ایک ہلیپ لینی تھی میں انعم کیس کے سلسلے میں انکے گاوں جانا چاہتی ہوں کیسی تحقیق کی غرض سے ۔۔تو اسکے لیے مجھے ساتھ میں حفاظت چاہیے کیونکہ یہ کہس بہت زیادہ پچیدہ ہے اور ایک بار مجھے دھمکایا بھی گیا ہے
جی ٹھیک ہے میڈم آپ گھبرایے مت ۔۔ہم آپ کے ساتھ اپنا ایک ہونہار پولس آفیسر بھیج دئیں گے آپ بے خوف ہو کر اپنا کام کرئیے گا
جیسے آفیسر نے کہا شہوار نے بے اختیار انکا شکریہ ادا کیا
اتنے میں ایک پولہس کانسٹیبل کمرے میں آیا تو اس پولیس آفسیر نے جیسے اسے کہا
شہوار وہی دھک رہ گئ
آئی ایس پی روہان علی خان کو کال کریں انھیں بتائیں کہ ارجینٹ پہنچ جائیں تھانے ۔۔”
جاری ہے
آج تک کوئی کیس نہیں ہاری ہمیشہ سچائی کو ثابت کیا ہے اور دیکھو آج قسمت نے میرے ساتھ کیسا کھیل کھیلا ہے میں خود کو سچا ثابت نہیں کر پائی آج میں خود کی نظروں میں ہار گئ ۔۔ہار گئ میں اور اس سب کی وجہ تم ہو روہان علی خان صرف تم اسکی آواز بلند تھی وہ اپنے پورے زور سے اسکو طنزا کر رہی تھی یہ سنتے ہی روہان اٹھا اور اسکی طرف بڑھا
چپ کر جاو شہوار میں تمھیں کتنی بار بتا چکا ہوں مجھے تم سے اتنی گہری دشمنی نہیں تھی جو میں تمھاری نجی زندگی میں دخل اندازی کرتا اور حتی کہ مجھے تمھارے نکاح کے بارے میں بلکل بھی علم نہیں تھا اور اج تم اپنی آنکھوں سے اپنے گھر والوں کا رویہ دیکھ آئی ہو اور اسکے باوجود بھی تمھیں یہ لگ رہا ہے کہ میں تمھاری بربادی کا ذمہ دار ہوں شہوار تم نے اپنے دماغ میں پتا نہیں میرے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے ضروری نہیں تمھارے ہر درد کا ذمے دار میں ہوں ۔۔میں نے صرف تمھیں پھر جینے کا ایک سہارا دیا ہے تمھیں اپنا نام دے کر ۔۔اور یہ احسان نہیں ہے شہوار ۔
روہان نے اپنے لہجے میں نرمی برقرار رکھی وہ کمرے سے بار جانے لگا تھا کہ ۔م۔پیچھے سے شہوار کے جملے نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا
اگر تم مجھے اس دن ۔۔نہ لائے ہوتے تو آج تمھاری جگہ شیان ہوتا ۔۔یہ الفاظ سنتے ہی ۔۔روہان کے بڑھتے قدم اچانک وہی تھم سے گئے ۔۔اسے یوں معلوم ہوا جیسے کیسی نے اسکے جسم پر گہرا وار کیا ہو جس کے درد کی شدت اسقدر زیادہ تھی کہ ۔۔ناقابل بیان تھا
روہان نے بے اختیار شہوار کی طرف دیکھا ۔۔اور اپنے الفاظوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی اور کہا
کیا اب بھی تمھیں اس سے محبت ہے شہوار بلکل خاموش سامنے کھڑی تھی یہ سنتے ہی اسنے اپنی نگاہیں جھکا لی ۔۔وہ کھڑا اسکے جواب کا منتظر تھا ۔
روہان بے اختیار مسکرایا اور کمرے سے باہر روانہ ہو گیا
وہ اپنے قدموں کو سہارا دے رہا تھا لیکن ۔۔۔اسکے قدم لڑکھڑا رہے ۔۔تھے ۔۔بلاجھجھک اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔درد بہت درد ۔۔تھا اسکے دل میں ۔اسے ابھی بھی اس محبت ہے ۔۔یہ سوچتے ہی ۔۔درد کی ایک لہر روہان کے وجود میں سے دوڑی ۔۔اسے یوں معلوم ہوا جیسے کوئی ۔سرد طیز اسکے اعصاب پر زور ڈال رہی ہو ۔۔وہ سڑھیاں اتر ۔۔رہا تھا اور باہر ۔۔گراج میں کھڑی گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔رات 10 بج رہے تھے ۔۔جیسے شہوار نے گاڑی کے ہارن کی آواز سنی وہ جلدی سے نیچے آئی
وہ گھر سے جا چکا ۔۔تھا ۔۔
تمھیں معلوم ہے صاحب کہا گئے ہیں شہوار نے گیٹ کیپر سے پوچھا
پتا نہیں میڈم بتا کر نہیں گئے وہ ۔۔جواب آگے سے نرمی سے ملا تھا
ٹھیک ہے وہ یہ کہتے ہوئے پھر ۔۔اندر چل دی ۔۔
ن۔۔نہیں اوسے کونسی مجھ سے محبت ہے ۔۔جو اسے اس بات کا برا لگا ہو گا ۔۔۔روہان کو مجھ سے محبت نہیں ہے ۔۔وہ شخص کو مجھ سے کیا کیسی سے محبت نہیں ہو سکتی وہ اپنے ہی دل میں ۔۔خود کو حوصلہ دے رہی تھی ۔۔اسے ابھی بھی یہی لگ رہا تھا روہان اسکی وجہ سے باہر نہیں گیا
“اگر تمھیں میری اتنی پروا ہے تو میری زندگی میں کیوں آئے ۔۔وہ سڑک کے کنارے ۔۔بے سہاروں کی طرح چلرہا تھا ۔۔وہ شہوار کو بتا نہیں سکتا تھا کہ اسے کس قدر درد محسوس ہوا تھا ۔۔جب اسنے ۔۔شیان کا نام لیا ۔۔کیا واقعی اسکے دل میں ابھی بھی وہی ہے مجھے کیا ہو رہا ہے ۔۔۔وہ بار بار کو خو کو الجھا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔رات کی تنہائی میں درد دل ۔۔۔سے ملاقات اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو دل سے ٹوٹیں ہوں ۔اور شاید آج روہان ٹوٹ گیا تھا ۔۔رات کے 12 بجنے کو تھے لیکن وہ ابھی تک واپس گھر نہیں آیا تھا
شہوار بار بار باہر کی طرف دیکھتی ۔۔پتا نہیں وہ سو نہیں پا رہی تھی ۔۔شاید اسکا انتظار کر رہی تھی
______________________
صبح کے ۔۔۔چڑھتے آفتاب کی روشنی ۔۔نے اپنی ۔۔چمک دھمک ۔۔شعاعوں سے ہر چیز کو اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا ۔وہ رات کو ۔۔بہت دیر تک سوئی تھی جیسے شہوار کی آنکھ کھولی ۔۔اسنے فورا صوفہ کی طرف دیکھا لیکن روہان وہی نہیں تھا ۔۔اسنے جھنجھلا کے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ۔۔جلدی سے نیچے ۔۔آئی جیسے اسنے ۔۔سامنے باہر صوفہ پر ۔۔روہان کو دیکھا ۔۔اسکی آنکھیں بلکل سرخ ہو چکی تھی صاف معلوم ہو رہا تھا وہ صیح سے سو نہیں ہایا
تمھارے لیے کافی بناوں روہان نے تحمل سے کہا
نہیں میں خود ہی بنا لوں گی اسنے فریزر سے دودھ نکالتے ہوئے کہا وہ بار بار اسکی طرف دیکھ رہی تھی روہان کی آنکھیں واقعی بہت زیادہ سرخ تھی ۔۔شہوار اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی ۔۔لیکن پھر خاموش رہی ۔۔
تم آفس جا رہی ہو ۔۔تو ایسا کرو میری گاڑی لے جاو ۔۔راستے میں بہت زیادہ ٹریفک ہوتی ہے ۔۔جیسے روہان نے دوبارہ کہا
شہوار نے بنا دیکھے اسے جواب دیا
اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے میں خود ہی چلی جاوں گی ۔۔
نہیں میں کہہ رہا ہوں ۔۔تم میری گاڑی لے جانا ۔۔روہان نے چائے کا کپ اور ساتھ گاڑی کی چابی رکھی ۔۔اور آفس جانے کے لیے ۔۔تیار ہو کر ۔۔چلا گیا
شہوار اسے جاتا ہوا دیکھ ۔۔رہی تھی کیا واقعی اسے رات والی بات سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔۔
جیسا روہان نے کہا تھا واقعی راستے میں بہت زیادہ ٹریفک تھی جیسے ٹریفک پولیس والے ۔۔روہان کی گاڑی کو دیکھا وہ ۔۔جلدی سے اسکی گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی مین بیٹھا شہوار کو دیکھ کر اسنے بے اختیار ادب سے سلام لی
اسلام و علیکم بھابھی جی! معذرت خواہ ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑا ایک منٹ روکیے میں ابھی آپ کی گاڑی نکلواتا ہوں ویسے صاحب کیسے ہیں ؟ شادی کی بہت مبارک ہو اپ دونوں کو
شہوار یہ سب سن کر دھک رہ گئ ۔۔۔اسے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کیا کہے
اسنے ناچاہتے ہوئے بھی اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائی ۔۔
اوئے اپنی گاڑیاں پیچھے کرو تم بھی کرو ۔۔۔صاحب کی گاڑی کو سب سے پہلے آنے دو
اس شخص نے اپنے خوف سے کتنے لوگوں کو اپنے نیچے دبا رکھا ہے ۔۔شہوار نے یہ سوچتے ہوئے غصے سے گاڑی کا رخ تھانے کی طرف کیا جیسے گاڑی تھانے کے قریب رکی
باہر سامنے کھڑے چند کانسٹیبل نے جیسے روہان کی گاڑی کو دیکھا وہ وہی دھک رہ گئے
صاحب کی گاڑی ؟ لیکن صاحب تو آفس میں ہیں پھر انکی گاڑی میں کون ہے ؟ لگتا ہے صاحب کی بیوی ملنے آئی ہوں گی
ساتھ والے کانسٹیبل نے بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا
ہاں میں نے سنا ہے صاحب کی شادی ہوئی ہے حالے میں ۔۔۔شہوار کا ایک قدم گاڑی سے جونہی باہر نکلا سب کے دل مضطرب ہو گئے ۔
ارے ۔۔یہ تو وہی وکیل ہے؟ پولہس کانٹسیبل کے منک سے بے اختیار نکلا
ارے بھابھی تو بڑی ہی ۔۔خوفناک ہیں ۔۔۔۔جیسے ایک پولیس کانسٹیبل نے کہا دوسرا فورا بولا
اور خطرناک بھی جیسے وہ انکے سامنے سے گزری انہوں نے ادب سے سلام لی ۔۔
تمھارے سنئیر کہا ں ہیں ؟
صاحب ۔۔ج۔۔۔جی وہ اپنی کیبین میں ہے ۔۔پولیس کانسٹیبل نے اٹکتے ہوئے جواب دیا
_______________________
مے آئی کم این سر ۔۔۔شہوار کو وہاں دیکھتے ہی ۔۔روہان جھٹک کے کھڑا ہو گیا ۔
شہوار تم اسنے بے اختیار کہا
جی میں اس سے پہلے وہ کچھ کہتی ۔۔اسنے روہان کے ساتھ بیٹھے ۔۔چند پولیس ۔والوں کو دیکھا جیسے ان پولیس والوں نے شہوار او دیکھا ۔۔انہوں نے ۔۔تہذیب و اخلاق کے دائرے میں سلام لی
اسلام و علیکم بھابھی جی !
روہان اور شہوار نے چونک کے ایک دوسرے کو دیکھا
و۔۔۔و علیکم اسلام ۔۔اسنے نا چاہتے ہوئے بھی جواب دیا
بہت خوشی ہوئی یہ سن کر کہ ایک پولیس اور ایک وکیل کی شادی یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا ۔جوڑی اچھی ہے ۔۔پولیس کانسٹیبل نے جیسے کہا پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔۔شہوار اپنے ہاتھوں کو بے اختیار مسل رہی تھی
روہان صاحب ہمیں بھی کبھی کھانے پر بلائیے ناں تاکہ کے بھابھی کے ہاتھ کا کھانا چکھ سکے کیوں بھابھی جی
۔ج۔۔۔۔جی ۔۔جی کیوں نہیں ۔۔شہوار نے اٹکتی اواز سے جواب دیا
ا۔۔۔اچھا شہوار آپ کیسی کام سے آئی تھی ۔۔۔روہان نے نرم لہجے سے سوال کیا ۔
جی۔۔۔وہ میں پوچھنے آئی تھی ۔۔۔کہ۔۔ایک منٹ ہم باہر بات کر لیتے ہیں ۔۔شہوار نے اشارہ کیا
ج۔جی چلیں ۔۔روہان جلدی سے کیبن سے باہر نکلا
یہ کیا گنڈا گردی ہر جگہ لگائی رکھی ہے تم نے ۔ شہوار نے آئیستہ سے کہا
اب کیا ہوا ہے ۔۔؟
ہوا تو کچھ نہیں آگے بہت کچھ ہونے والا ہے ۔۔اپنے ان پیادون کو سمجھا دو کہ مجھے مفت کی عزت نہ دیا کرے مجھے کوئی شوق نہیں ہے خوف کے تلے جھوٹی عزت لینے کا ۔۔شہوار نے اپنی الفاظوں کو پیچتے ہوئے کہا
وہ تمھاری عزت کرتے ہیں شہوار
کیوں کرتے ہیں کس حق سے
کیوں کہ تم آئی ایس پی روہان علی خان کی وائف ہو ۔۔یہ سنتے ہی وہ اچانک خاموش ہو گئ
______
اپنی یہ فضول بکواس اپنے پاس رکھو اور خدا کے لیے مجھ پر ایک احسان کر دو اپنے وفاداروں سے کہہ دو کہ مجھے عزت نہ دیا کریں نہیں چاہیے مجھے ایسی عزت جو خوف اور ڈر پر بنیاد ہو تمھاری عزت تمھیں ہی سلامت ہو شہوار نے ایک تیخی نگاہ روہان پر ڈالی اور تھانے سے باہر چل دی وہ اسے جاتا ہوا مسلسل دیکھ رہا تھا اسنے ایک دفعہ بھی پلٹ کر اسکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔۔شاید اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ روہان اسے کس قدر چاہنے لگا ہے اسکی اہمیت کس قدر بڑھ گئ ہے روہان کی زندگی میں ۔۔وہ کیوں اب اسکی ہر بات کو مسکرا کر سہہ لیتا ہے کیونکہ دل لگی جب لگتی ہے تو ہوش و حواس سارے باختہ ہو جاتے ہیں پھر بس وہی ہوتا ہے جو اسکی محبت چاہتی ہے ۔قربت کے لمحات ۔۔ہوں یا احساسات کی زنجیریں ہر چیز پر ۔۔محبت کا ضبط ہوتا ہے ۔اور روہان تو اپنا سب کچھ شہوار کے نام کر چکا تھا ۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا اور اپنی کیبن کی جانب بڑھ گیا جہاں پر پولیس آفیسرز بیٹھے اسکے انتظار میں تھے
چلیے اگلی ڈسکشن پھر کل کرتے ہیں روہان نے نرم لہجے سے کہا اور اپنی چئیر پر بیٹھ گیا
جی ٹھیک ہے سر جیسا آپ چاہے ۔۔ان آفیسرز میں سے ایک نے کہا اور سب بھاری بھاری ۔۔عزت سے سلام لے کر کمرے سے باہر چلے گئے انکے جانے کے فورا بعد ۔۔روہان نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ۔۔بند آنکھوں میں بھی ایک ہی انسان کا عکس اسکے سامنے تھا اور وہ کوئی اور نہیں شہوار تھی ۔پتا نہیں کیوں اسکی نفرت میرے لیے دن با دن بڑھتی جا رہی تھی وہ کیوں ابھی تک مجھے اس واقعے کا مجرم سمجھ رہی تھی ۔شاید جیسا میں اسکے بارے میں سوچنے لگا ہوں ویسا وہ میرے بارے میں نہ سوچتی ہو ۔۔ضروری نہیں محبت یک وقت دونوں کو ہو ۔یہ تو ہر پنترے سے ازماتی ہے کبھی یک طرفہ ہو کر تو کبھی دلوں میں نفرت بھرپا کر کے ۔۔اور شہوار کے دل میں میرے لیے نفرت ہے بے شمار نفرت ۔۔اسنے یہ سوچتے ہوئے بے اختیار اپنے سر کو جھٹک دیا اور ساتھ پڑی سگریٹ کو سلگانے لگا ۔
________________________
کونسی سی ایسی دوا ہے ڈاکٹر صاحب جو ایک مہینا ہو گیا اور اثر نہیں کر رہی ۔شہوار نے غصے سے کہا
دیکھیے میڈم ہم آپ کو وہی بتا رہے ہیں جو رپورٹ فاعل میں لکھا ہے ۔شاید اب انعم بول سکے جیسے ڈاکٹر نے کہا شہوار نے غصے سے فاعل پکڑ کر نیچے پھینکی اور کہا
جھوٹ مت بولیں ڈاکٹر فیضان آپ کی آنکھوں میں رشوت کے پیسے دیکھ سکتی ہوں میں بھک چکے ہیں ان وئیڈروں کے اگے بیچ چکے ہیں اپنا ایمان پیسوں کی حوس میں اندھے ہو چکے ہیں آپ خدا کا خوف کرو اسکے پاس بھی جانا ہے آپ کو ۔ارے اس دنیا کی پروا نہیں تو آخرت کے لیے ہی کچھ نیک اعمال کر لو ۔۔اعمال نامے کی نیکیوں سے آپ جیسے درندوں کو جنتیں مل جایا کرتی ہیں ۔اگر اپنا سر جھکانا ہے تو خدا کے آگے جھکاو کم از کم وہاں انسان کی کوئی عزت ہوتی ہے جہاں انسان کو شرم نہیں ہوتی ۔۔کہ میں اسکے سامنے اپنا سر جھکا رہا ہوں ۔۔ماتھے رگڑو گر گراو کیسے نہیں وہ بات مانتا وہ تو سب کچھ دے کر بھی کہتا ہے مانگ اور مانگنا ہے لیکن آپ جیسے لوگوں کو تو اچھا لگتا ہے نہ زمینی خداوں کے آگے ۔۔ماتھے رگڑنا انکے جوتے چھٹکارنا ۔۔اپنی عزت کی تذلیل کروانا ۔۔
ایک مہینا ختم ہونے کو ہے اگلی تاریخ تک اگر انعم بولنے کے قابل نہ ہوئی تو آپ کو کیسی کے قابل نہیں چھوڑوں گی ۔۔ایسا برباد کروں گی کہ نام دام ۔۔پیسا سب کچھ ڈوب جائے گا ۔تو بھلائی اسی میں ہے کہ انعم کا اچھے سے علاج کریں اور خدا کے لیے اس غریب باپ کے حلال پیسوں کو حرام مت کریں ۔۔زرا سا بھی افسوس نہیں ہوا ان بوڑھے ماں باپ کو جھوٹی رپورٹ فاعل دیکھاتے ہوئے زرا سی بھی کوفت نہیں ہوئی رشوت کے پیسے لیتے ہوئے ایک بار اس بچی انعم کے چہرے کے بارے میں سوچ لیتے کیسے ان درندوں نے کچلا تھا لیکن خیر ۔۔وہ کونسا آپ کی سگی بیٹی تھی درد تو انکا ہوتا ہے تکلیف اذیت تو انکو ہوتی ہے جن پر بیتتی ہے باقی سب تو ویڈیوز اور تماشہ بنانے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں شہوار یہ کہتے ہوئے غصے سے اٹھی اور کمرے سے باہر چل گئ
بڑی تیز وکیل سے پالا پڑا ہے ڈاکٹر فیضان ۔۔ڈاکٹر نے اپنی پیشانی سے ڈر کے مارے ۔۔پیسنے کی دھارئیں صاف کی
جونہی شہوار کمرے سے باہر نکلی اسکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے جب اسنے لچار اور مفلسی کی حالت میں انعم کو بیڈ پہ لیٹے دیکھا اسکا دل خون کے آنسو رونے لگا تھا وہ اسکا درس محسوس کر سکتی تھی اسکی اذیت کو اپنے جسم پر محسوس کر سکتی تھی ۔۔شہوار نے آگے ہو کر انعم کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
مجھ پر یقین رکھو انعم میں کیسی کو نہیں چھوڑوں گی ۔۔تم بہت جلد ٹھیک ہو جاو گی ۔۔بہت جلد
________________________
میں نوکر نہیں ہوں تمھاری جو ۔۔تمھارے مہمانوں کے کام کرتی پھروں مہمان تمھارے آرہے ہیں تو کام بھی تم خود ہی دیکھو شہوار نے الماری میں اپنا بھیگ اور کورٹ رکھتے ہوئے کہا
شہوار میرے دوست بھابھی کے ہاتھ کا کھانہ کھانا چاہتے ہیں روہان نے مسکراتے ہوئے ۔۔طنزا کیا جیسے یہ الفاظ شہوار نے سنے
ارے واہ اگر اتنا ہی بھابھی کے ہاتھ کا کھانے کا شوق تھا تو نکاح میں شرکت کروا لیتے ایک بندوق وہ بھی لے کر آجاتے ۔۔
نہیں میں نے سوچا ایک ہی گن کافی ہے ۔۔ایک سے ہی کام ہو جائے گا ۔باقی بعد میں دیکھی جائے ۔گی روہان نے اپنی سگریٹ سے ایک کش لیتے ہوئے کہا ۔اور ساتھ اپنی شرٹ کی آئستینیں اوپر کرنے لگا
کتنے ڈھیٹ ہو تم ؟ شہوار اسکی طرف بڑھی
آپ سے کم ! جواب کھٹک کے ملا تھا ۔
شرم نہیں آ رہی ۔۔ایسے جھگڑتے ہوئے شہوار نے چڑتے ہوئے کہا
جھگڑا آپ پہلے شروع کرتی ہیں زہے نصیب ہم تو اختتام تک لانے کی کوشش کرتے ہیں یہ سنتے ہی شہوار بھڑک اٹھی
واقعی ۔۔تم کبھی نہیں سدرو گے ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے جانے لگی تھی کہ روہان نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے نزدیک کیا ۔اور سگریٹ کو منہ میں دبایا
ا۔۔۔اس نشے کو میرے چہرے سے پرے کرو چین سموکر ۔۔جیسے شہوار نے کہا روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
تمھیں پتا ہے جب تم مجھے چین سموکر کہتی ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے
ظاہر سی بات ہے بندے کو ۔۔اپنی اصلیت پتا چلتی ہے تو وہ ایسے ہی خوش ہوتا ہے اور تم ۔۔تو پھر ہو ہی ایسے اسنے بے باک اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
کتنی نڈر بیوی ہو ۔۔میری روہان نے بھی اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
اگر نڈر شوہر ہے ۔۔تو بیوی بھی ایسی ہو گی شکر ہے تم نے مانا تو ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں جیسا تم سوچ رہے پو ویسا بلکل نہیں ہے میں کبھی تمھیں دل سے تسلیم نہیں کروں گی ۔۔شہوار نے ڈھٹائی سے جواب دیا
نفرت کرتی ہو مجھ سے جیسے روہان نے سوال کیا شہوار نے بلاجھجک اسکے چہرے کی طرف دیکھا اور طنزا مسکراتے ہوئے کہا
بہت زیادہ نفرت جسکا تم اندازہ نہیں لگا سکتے ۔۔شہوار نے اپنے الفاظ میں نفرت ظاہر کروائی اور میں تم سے بہت زیادہ محبت اتنی محبت کہ تم اندازہ نہیں کر سکتی ۔اور تمھیں کیا لگا تم میرے ساتھ ایسے تیخے الفاظ استعمال کرو گی تو میں بھڑک اٹھووں گا اکتا جاوں گا ۔۔نہیں شہوار یہ وحم ہے تمھارا تمھاری قسمت وہ کمینا نہیں تھا تم صرف میری ہو اور صرف میری ۔مسسز روہان۔۔پتا ہے جب انسان کیسی سے محبت کرتا ہے تو اسکے لیے دنیا ایک طرف اور اسکی محبت ایک طرف ۔پھر وہ اپنی محبت کے ہر ناز نکھرے اٹھاتا ہے اور مجھے اپنی محبت کے ناز نکھرے اٹھانے میں کوئی دکت محسوس نہیں ہو گی شہوار بلکل دھک کھڑی تھی اسے روہان سے ان سب باتوں کی امید نہیں تھی ۔اسے یہ گمان میں بھی نہیں تھا کہ روہان کو اس سے محبت ہو سکتی ہے اسنے اپنے چہرے کے تاثرات چھپائے اور کہا
کتنی بڑی خوش فہمی پال رکھی ہے تم نے روہان ترس آتا ہے مجھے تم پر اور تمھاری اس یک طرفہ محبت پر اور پتا ہے اس محبت کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے بڑی ظالم درد ناک اور اذیت محبت ہوتی ہے ۔۔یہ ۔جس میں صرف درد ہی درد اور رونا مقدر میں ملتا ہے لیکن محبت کا حصول نہیں اور تمھارے مقدر کو بھی رونا اور درد ہی ملے گا ۔۔محبت نہیں کیونکہ میرے دل میں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے نہ احساس کی اور نہ ہی محبت کی اب تم اس میں تڑپتے ہو تو تڑپو ۔۔شہوار نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئ
______________________
وہ کچن میں خود ۔۔کھانا بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہر بار ناکام ہو جاتا پیاز کاٹنے کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں پانی بار بار آ رہا تھا وہ دور کھڑی اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرائی اور اسکی طرف بڑھی
پہچھے ہٹو تھوڑی سی مدد میں کر دیتی ہوں باقی خود کرنا تم شہوار نے روہان کے ہاتھوں سے سامان پکڑا اور پیاز کاٹنے لگی
روہان نے جیسے اپنی آنکھوں کو مسلا اسے درد محسوس ہوا اسکے منہ سے بے اختیار آہ نکلی یہ سنتے ہی شہوار جھٹ سے پلٹی اور اسکی طرف بڑھی
پاگل ہو گئے ہو ۔۔پہلے اپنے ہاتھ تو دھو لیتے دیکھاو ادھر مجھے ۔۔وہ اسکے قریب بڑھی اور اپنے دوپٹے کا کی ایک نوک اسکی آنکھ کے گرد رکھی ۔۔
ی۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ۔۔روہان نے ۔۔زور سے کہا
ڈرو مت ۔۔مارنے نہیں لگی ۔۔اتنے بڑے آئی ایس پی ہو کر ۔۔ایک درد سے چلا رہے ہو ۔۔شہوار نے جیسے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا
چلیے ۔۔وکیل صاحبہ کیس ہینڈل کر ہی رہی ہے ۔۔
تھینک یوں مدد کے لیے روہان نے نرم لہجے میں کہا
اسنے ایک غصےکی نظر سے دیکھا
ہائے کبھی مسکرا کے بھی دیکھ لیا کرو ذہے نصیب ۔۔۔اچھا اب میں کیا کروں ۔۔”
نہیں تم کچھ نہ کرو ۔۔بس چپ کر کے بیٹھ جاو ۔۔جیسے شہوار نے کہا وہ فورا بولا
جو حکم ۔۔۔جہاں پناہ ۔۔۔
__________________________
جی سر وہ میں نے ۔۔آپ سے در اصل ایک ہلیپ لینی تھی میں انعم کیس کے سلسلے میں انکے گاوں جانا چاہتی ہوں کیسی تحقیق کی غرض سے ۔۔تو اسکے لیے مجھے ساتھ میں حفاظت چاہیے کیونکہ یہ کہس بہت زیادہ پچیدہ ہے اور ایک بار مجھے دھمکایا بھی گیا ہے
جی ٹھیک ہے میڈم آپ گھبرایے مت ۔۔ہم آپ کے ساتھ اپنا ایک ہونہار پولس آفیسر بھیج دئیں گے آپ بے خوف ہو کر اپنا کام کرئیے گا
جیسے آفیسر نے کہا شہوار نے بے اختیار انکا شکریہ ادا کیا
اتنے میں ایک پولہس کانسٹیبل کمرے میں آیا تو اس پولیس آفسیر نے جیسے اسے کہا
شہوار وہی دھک رہ گئ
آئی ایس پی روہان علی خان کو کال کریں انھیں بتائیں کہ ارجینٹ پہنچ جائیں تھانے ۔۔”
جاری ہے