کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان قسط نمبر 9
لیکن سر انعم کیس آپ کا ڈیپارٹمنٹ نہیں ہیندل کر رہا تھا شہوار نے جھنجھلاہٹ سے پوچھا
جی بلکل میڈم ہمارا ہی ڈیپارٹمنٹ ہینڈل کر رہا ہے وہ کیس لیکن آئی ایس پی روہان علی خان نہایت ہی ہونہار پولیس آفسیر ہے اور وہ آپ کے شوہر بھی ہیں تو اسطرح آپ کو آسانی ہو جائے اور کوئی دکت بھی محسوس نہیں ہو گی پوری توجہ سے کام کر سکے گی ٹھیک کہہ رہا ہوں میں پولیس آفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا “جی ٹھیک کہا آپ نے ” اسنے اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپاتے ہوئے کہا ابھی پندرہ منٹ گزرے تھے کہ روہان کمرے میں داخل ہوا
وائیٹ کلر کی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس شرٹ کی آئستینیں کہنیوں تک کی ہوئی اور آنکھوں میں کالے چشمے کا پہرا جیسے اب وہ اپنی آنکھوں سے ہٹا چکا تھا ایک رعب دار پرسینلٹی دراز قدو قامت” کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟” روہان نے نرم لہجے میں پوچھا
آئیے روہان صاحب آئیے آفسیر بے اختیار کھڑا ہو گیا
جی رحمان صاحب حکم کریں ۔۔جیسے روہان نے کہا اسنے شہوار کو دیکھا تو وہی دھک رہ گیا شہوار نے نظریں چرائی
بیٹھے ۔۔۔روہان صاحب ۔۔آفسیر نے شہوار کے پہلوں میں بیٹھنے کا اشارہ کیا
تو سر ۔۔آج آپ کے لیے ایک کام ہے آپ کو مس ائیڈوکیٹ در شہوار کے ساتھ انعم کے آبائی گاوں جانا ہےکیسی تحقیق کی غرض سے اس سلسلے میں میڈم کو حفاظت چاہیے تو اسلیے ہم نے آپ کو بلایا ہے کہ آپ شہوار میڈم کے ساتھ جائیں ویسے بھی وہ آپ کی اہلیہ ہیں پولیس افیسر نے جیسے یہ الفاظ کہے روہان ایک نظر مسکرا کر شہوار کی طرف دیکھتا اس وقت شہوار کا دل کر رہا تھا کہ وہ سامنے بیٹھے پولیس آفیسر کا گلہ دبا دے یا وہ خود کہی چلی جائے وہ کیوں ہر بار اسکے قریب آجاتا تھا وہ جتنا اسسے دور بھاگنے کی کوشش کرتی ہمیشہ روہان کیسی نہ کیسی طرح اسکے ساتھ ہوتا ۔
ویسے روہان صاحب آپ نے شادی پر ہمیں نہیں بھلایا ہمیں شکوہ رہے گا ہمیشہ
یہ سنتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کے چہرے کو گورا ۔۔
جی کیوں نہیں رحمان صاحب آپ کبھی بھی آئیے گھر ۔۔اب آپ کی خدمت میں کوئی کثر نہیں چھوڑے گے ویسے بھی آپکی بھابھی بہت اچھا کھانہ بنا لیتی ہے ۔۔روہان نے جان بھوج کر بات کو کھینچا اور سگریٹ ڈبی سے نکالی
جی ۔۔۔جی۔۔۔شہوار نے ناچاہتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا
(ہائے اللہ کتنا بدتمیز ہے یہ ۔۔کیسے بے ڈھنگ ہو کر باتیں کر رہا ہے) شہوار نے اپنے دل میں سوچتے ہوئے کہا ۔۔
تو آپ لوگ باتیں کریں میں چلتی ہوں شہوار نے میٹھے لہجے میں کہا
نہیں ۔۔نہیں بھابھی صاحبہ آپ چائے پی کر جائیے گا
ن۔۔نہیں سر شکریہ آپ روہان کو ہی پالائیے ۔۔شہوار چئیر سے اٹھی
نہیں ۔۔ایسا تو اب مت کریں میں نے منگوائی ہے بہت چاہت کے ساتھ ۔۔پولہس آفیسر کے بار بار کہنے پر اسے مجبورا وہاں بیٹھنا پڑا
تو سر ۔آپ کے ڈیپارٹمنٹ میں اور کوئی ہونہار پولہس آفیسر نہیں ہے ۔۔؟ شہوار نے اچھا خاصا طنزا کیا تھا
میں۔۔سمجھا نہیں ۔۔۔پولیس افیسر نے بے اختیار کہا ۔میرے کہنے کا مطلب صاف ہے ۔ہونہار روہان ۔۔ہی پولہس افیسر ہے نہ سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ۔۔کیوں روہان مجھے بہت خوشی ہوئی ہے آپ کے بارے میں اتنا سب کچھ سن کر کتنے ایمان دار پولیس آفیسر ہیں جیسے شہوار نے کہا روہان فورا بولا
ج۔۔جی۔۔بہت زیادہ شریف ۔بلکل ایک اچھے انسان کی تعریف میں ہم جو بھی الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ سب میری شخصیت کو بیان کرتے ہیں
واقعی ۔۔سچائی کا تو آپ نے جھنڈے گاڑھے ہیں ۔۔تبھی تو وکیل بھی آپ کی بول باکی کر بیٹھے ۔شہوار نے دانت پیچے
ارے وکیل ۔۔ذات بھی کیا شریف ۔۔۔قوم ہے بیچارے سچائی کے پتلے ہوتے ہیں میری طرح ایک پہسا بھی رشوت کا نہیں لیتے ۔۔
پولہس آفیسر جو اتنی دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا وہ اچانک بولا
م۔۔میرے خیال میں آپ کی جوڑی کافی جمتی ہے پولیس اور وکیل۔۔۔چلیے آپ چائے پیئے میں آتا ہوں
___________________
اگر جانا تھا تو مجھے بتا دیتی میں ساتھ چل دیتا پولہس ڈیپارٹمنٹ میں جا کر کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔
روہان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
یہ ۔۔بات اپنے دل و دماغ سے نکال دو ۔۔کہ میرا دل چاہ رہا تھا میں کوئی پکنک نہیں ماننے جا رہی ۔۔عجیب پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے دوسرے پولیس والے مر گئے ہیں کیا جو ایک کو سب جگہ اٹھا لاتے ہیں اور ہاں میں نے انھیں نہیں کہا تھا ۔۔پتا نہیں پھر انھیں اپنے ایک ہونہار پولیس آفیسر کی یاد آگئ اور آپ کی تعریف کی تسبیحئ پروئی اور آئی ایس پی روہان خان حاضر شہوار غصے سے اپنے دھیان میں بول رہی تھی اور روہان اسکی باتوں پر بے اختیار مسکرا رہا تھا
ایسا ہے میڈم آپ کی قسمت میں ہم لکھیں جا چکیں ہیں روہان نے گاڑی کا رخ گاوں کی طرف کرتے ہوئے کہا
اسی قسمت کو کوستی ہوں ہر روز ۔۔اور اس وقت کو جب تم مجھ سے پہلی مرتبہ ملے تھے شہوار نے صاف دشمنی ظاہر کی ۔
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا ۔۔محبت مل جایا کرتی ہے اور مجھے میری محبت مل گئ
مطلب تم نے بدعا دی ہو گی مجھے ! شہوار نے اسکی طرف
دیکھتے ہوئے کہا
میں ابھی اتنا ظالم سنگ دل نہیں ہوا جو اپنی محبت کی خوشیوں کو برباد کروں روہان ابھی بھی نرم لہجے میں تھا
ویسے ۔یہ تمھاری محبت کا بھوت کب تک رہے گا ۔۔
جب تک سانسیں باقی ہیں روہان نے جیسے کہا شہوار اچانک چپ کر گئ ۔
اور میرے دل میں تم نہیں ہو ۔۔میرے دل کی محبت میں پہلے کوئی بس چکا ہے ۔۔اور تم اس میں کبھی نہیں ہو گے شیا۔۔۔شہوار ابھی بولنے لگی تھی کہ روہان نے اچانک گاڑی روکی اور اسکی طرف دیکھا
کچھ بھی کہہ لو شہوار میں تمھاری ہر بات برداشت کرلوں گا لیکن اس کمینے کا نام تمھاری زبان پر نہیں روہان کی آنکھیں سرخ ہو گئ تھی اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اسکا خون کھول رہا ہو اسکے ہاتھوں کی گرفت اسقدر مضبوط ہو گئ ۔۔اسکا پورا وجود لرز گیا تھا ایک عجیب سی کفیت روہان پر چھا گئ ۔۔شہوار یہ سب دیکھ کر بلکل خاموش ہو گئ وہ روہان کی یہ کفیت کو دیکھ کر خود حیران رہ گئ تھی اسنے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔باقی سفر تک وہ دونوں بلکل خاموش تھے ۔۔۔
“ستاتے ہو دن رات ۔اسطرح مجھ کو کیسی غیر کو یوں ستا کر تو دیکھو ۔”
روہان نے جیسے خود کو سنبھالا وہ خود ہی جان سکتا تھا اسے آج اسقدر درد اور تکلیف ہوئی تھی شہوار کے منہ سے دوسری مرتبہ شیان کا نام سنتے ہوئے ایسا ہی ہوتا ہے جب انسان کیسی کو بے پناہ چاہتا ہے اور اگر اسکی محبت کیسی اور کے بارے میں اپنے احساسات بتاتی ہے تو قیامت ٹوٹتی ہے اس انسان پر ۔۔اسکے احساس اسکے محبت کے جذبات ۔۔لرز جاتے ہیں ۔۔اور آج روہان کے ساتھ بلکل ایسا ہی ہوا تھا
_____________________________________
اسلام و علیکم بیٹا اندر آو انعم کے والد صدیقی صاحب نے عقیدت سے انھیں گھر میں آنے کا کہا وہ دونوں انکے گھر داخل ہوئے
کیسے ہیں صدیقی صاحب روہان نے انکے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہوں صاحب ۔۔بس آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے ۔۔ہمارا اتنا ساتھ دیا اگر واقعی آپ وہاں نہ ہوتے تو ان وئیڈروں کی طرف بھیجے آدمیوں نے میری بیٹی کو مار دینا تھا ۔۔جیسے شہوار نے سنا اسنے دھک روہان کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔
انکل ۔میں نے آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں کورٹ کی اگلی تاریخ قریب ہے ۔۔تو میں چاہ رہی ہوں کہ ان وئیڈروں کے خلاف کوئی ٹھیس ثبوت ہاتھ میں لگے ۔۔تاکہ ہمیں کوئی اور تاریخ کا انتظار نہ کرنے پڑے ۔۔
شہوار نے ۔۔پورا ایک گھنٹا ساری تحقیق کے بارے میں چھان بین کی ۔۔وہ سائے کی طرح اسکے ساتھ ساتھ موجود ایک سکینڈ ۔۔وہ اسکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔وہ دونوں گاوں کے باہر ۔۔تھے ان وئیڈروں کے گھر کے قریب جہاں پر انھوں نے انکے ملازم سے بات کرنی تھی جس نے شہوار کو اس کیس کے متعلق کوئی ثبوت دینا تھا ۔۔وہ دونوں ۔۔کچی سڑک پر چل رہے تھے ۔ رات کا پہر تھا کیونکہ اسنے شہوار اور روہان کو رات کے وقت ملاقات کا کہنے کو کہا تھا تاکہ کیسی کو معلوم نہ پڑے اسی وجہ سے انھیں رات گاوں میں ہی گزرانی پڑنی تھی ۔۔وہ دونوں قدم با قدم چل رہے تھے جیسے شہوار نے قریب کتے کی بھوکنے کی آواز سنی ۔۔اسنے جلدی سے روہان کو بازو سے پکڑ لیا
روہان ۔۔۔جلدی کرو ۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔اسنے روہان کو اپنی مضبوط گرفت سے پکڑا تھا ۔۔اسکی آنکھیں ڈر سے بند تھی روہان نے بے اختیار شہوار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما
“کچھ نہیں ہوتا میں تمھارے ساتھ ہوں شہوار ۔۔مجھ پر یقین رکھو میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ” جیسے یہ الفاظ شہوار نے سنے ۔۔وہ آگے سے بلکل خاموش ہو گئ شاید اسکے پاس اب کوئی طنزا نہیں تھا
ویسے حیرانگی ہے اتنی بڑی وکیل ۔۔ایک کتے کی آواز سے ڈر گئ ۔۔روہان نے جان بھوج کر کہا
اڑا لو ۔۔مذاق ۔۔ہر انسان کو کیسی نہ کیس چیز سے ڈر لگتا ہئ ہے تمھیں نہیں لگتا کیا ڈر ۔۔
ہاں لگتا ہے ڈر ۔۔تمھیں کھونے کا ڈر ۔ روہان نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا
“روہان تمھارے ان محبت بڑے ڈائیلوگ مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتے ۔۔”
وہ دونوں گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔جب شہوار کے فون کی گھنٹی بجی شہوار نے فون اٹھایا
آپ کے ساتھ کون ہے میڈم؟ جیسے اس ملازم نے کہا شہوار یک دم رک گئ
تم ڈرو مت آجاو تم ۔وہ۔۔م۔۔۔۔میرے شہوار یہ کہتے کہتے رک گئ
وہ ۔۔میرے ساتھ آئے ہیں وہ نہیں کہہ پائی ۔۔نہیں کہہ سکی
جی ٹھیک ہے ملازم یہ کہتے کچھ منٹ بعد نمودار ہوا
شہوار میرے پیچھے کھڑی ہو جاو ۔۔روہان نے اسکے آگے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ہے ؟
کچھ بھی نہیں ہوا خطرے والی بات ہے اسکے پاس کوئی ہتھیار بھی ہو سکتا ہے روہان نے اسے اپنے پیچھے کیا
_____________________________________
روہان اور شہوار انعم کے گھر ہی رکے تھے وہ جس کام سے آئے تھے وہ۔کام مکمل ہو چکا تھا ۔۔اب شہوار کے پاس صیح ثبوت ہاتھ لگ چکے تھے ۔اب بس عدالت کی سنوائی کی دیر تھی
میرے دل میں تمھارے لیے جگہ نہیں ہے روہان چئیر پر بیٹھا بار بار شہوار کی بات کو سوچ رہا تھا جب اسنے پھر سگریٹ سلگائی
حد سے زیادہ برداشت کرنے بعد شہوار چارپائی سے اٹھی اور اسکی طرف بڑھی اور غصے سے کہا تمھیں معلوم ہے روہان تم اب تک کتنے سگریٹ پی چکے ہو پانچویں سگریٹ ہے یہ تمھاری ۔۔ جیسے شہوار نے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا اور کہا اتنی گہری نظریں مجھ ظالم پر ۔اور سگریٹ کا کش لگایا شہوار نے چڑتے ہوئے روہان کے ہاتھ سے سلگتی سگریٹ پکڑی ادھر لاو دو مجھے
میں بھی دو تین سوٹے لگا کر دیکھتی ہوں کیا ہے ایسا اس میں جو تمھیں چین سے رہنے نہیں دیتا نہیں ایسا کرتے ہیں دونوں میاں بیوی ایک ایک سگریٹ لے کر ٹانگ پی ٹانگ چڑھائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہیں ٹنشن فری ہو کر کیوں کیسا ہے جیسے شہوار نے کہا
روہان نے قہقا لگایا اور کہا
آئیڈیا برا نہیں ہے ۔۔۔
نہایت ہی بدتمیز ہو ۔۔
_________
وہ صبح صبح گاوں سے نکل پڑے تھے ۔وہ گاڑی چلا رہا تھا جب وہ ایک دم ٹھہر گئ گاڑی روکو روہان جیسے شہوار نے کہا اسنے فورا گاڑی روکی
کیا ہوا ہے شہوار تم ٹھیک تو ہو ؟ روہان نے جلدی سے پوچھا
ہ۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں شہوار نے کھانستے ہوئے کہا
کہاں ٹھیک ہو روہان نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
تمھیں تو بخار ہے ۔شہوار ۔۔تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں
کچھ نہیں ہوا مجھے بس پلیز اب تم گاڑی چلاو ۔۔شہوار نے چڑتے مزاج میں کہا
بتا دینے سے کوئی انا میں خم نہیں آجاتا اب ہم گھر نہیں پہلے ہوسپٹل جائیں گے پھر۔میں تمھیں آفس نہیں چھوڑوں گا بلکے سیدھا گھر لے کر جاوں گا ۔۔جیسے روہان نے کہا
وہ فورا بولی کچھ نہیں ہوا مجھے تمھیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور خدا کے لیے نوازش رہنے دو میں میڈیسن لینے کے بعد آفس جاوں گی
وہ تو وقت بتائے گا کون بازی مارتا ہے اسنے گاڑئ کی سپیڈ کو بڑھاتے ہوئے کہا
________________________
اترو ۔۔نیچے
نہیں جاوں گی ۔۔میں گھر ۔۔مجھے آفس جانا ہے تو مطلب جانا ہے ۔میں تمھاری طرح کاہل نہیں ہوں جو ہلکا سا بیمار ہوں تو ۔۔چھٹی کر لوں وہ گاڑی سے اترتے ہوئے گیٹ کی طرف بڑھنے لگی میڈیسن لینے کے بعد روہان زبردستی اسے گھر لے آیا تھا
شہوار تمھاری طعبیت نہیں ٹھیک ۔۔وہ پیچھے کھڑا تھا جو شہوار کو مین گیٹ کی طرف جاتا دیکھ رہا تھا
ہمددردیاں دیکھانے کا شکریہ ۔۔۔روہان صاحب ۔طنزا جواب میں کہا
بڑی ضدی ہے نہیں مانے گی ایسے روہان نے بے اختیار کہا اور دو چار قدم جلدی سے بڑھاتے ہوئے اسکو بازو سے پکڑ کر روکا ۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔شہوار جیسے پلٹی روہان نے اسے اپنے بازو کی مدد سے اٹھا لیا
چلئیے ۔۔مسسز روہان ابھی ریسٹ ٹائم ہے بعد میں کام ہو گا ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے واپس چل پڑا
مجھے چھوڑو روہان تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے ۔۔
آپ میری اہلیہ ہیں میڈم ۔۔! زبردستی کا امکان ہی نہیں وہ ہلکا سا مسکرایا اور گھر کے اندر داخل ہوا
کتنے بد تمیز ہو تم ۔! شہوار نے غصے سے کہا
آپ کی محبت نے کر دیا ہے ۔۔روہان کمرے میں داخل ہوا ۔۔اب اگر آپ باہر گئ تو ۔۔پھر مجبورا مجھے سختی کرنی پڑے گی اور میں آپ کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہتا ۔وہ یہ کہتے ہوئے پلٹا جب وہ اچانک رکا
بڑے محبت کے پوجھاری ہو ایسے کر رہو جیسے بیوی کے فرمابردار ۔۔جیسے شہوار نے کہا وہ صرف پلٹا اور کہا
محبت ۔۔کے عالم میں حالت فقیروں والی ہوتی ہے ۔صاحب پوجھاری تو کہاں ۔۔اسنے شہوار کی طرف دیکھ کر طنزا ایک آنکھ کو جھپکایا اور باہر کی جانب چلا گیا
شہوار نے جب یہ دیکھا ۔۔اسنے غصے سے بلند آواز نکالی ۔۔کیسا انسان ہے یہ یا اللہ ۔!
_________________________
ہر طرف افراتفری کا سماں بندھا تھا ہائی کورٹ کے باہر لمبی قطاروں میں لوگ باہر موجود تھے ۔۔جھرمٹ میں ۔۔کہی کیمروں کی پڑھتی ہوئی فلیش لائیٹس تھی تو کہی رپورٹرس کا ۔کا جھرمٹ جیسے ملزم عمران اور اسکے ساتھیوں کو پولیس وئین سے باہر نکالا ۔سب رپورٹرس جھٹ سے اس پر لپکے ۔۔فلیش لائیٹس تیز رفتار سے پڑنے لگی لوگ پھرسے اسی دن کے واقعے کو دہرانے لگے ۔۔۔اور اسکے کچھ دیر بعد۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔باہر اپنی گاڑی سے نکلی
م۔۔میم۔۔ا۔۔ایک منٹ ۔۔ایک رپوٹر نے جیسے کہا شہوار وہی رک گئ
میم۔۔آپ کو کیا لگتا ہے یہ کورٹ کی آخری سنوائی ہو گی یاں پھر اور تاریخ لینے کا فیصلہ ہو گا ۔۔
جی۔نہیں آج ۔۔یہ انعم صدیقی کیس کا آخری دن ہو گا اور آج کے دن انعم کے ملزموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سزہ دی جائے گی اور انعم کو انصاف ملے گا کیونکہ جھوٹ چھپتا نہیں ہے آخر کار اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے اور آج میں چن چن کر انعم کے قاتلوں کو سزہ دلواوں گی ۔اوکے تھینک یوں شہوار یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی تھی ۔۔کہ آگے میڈیا اور لوگوں کا اسقدر جھرمٹ تھا کہ اس سے اگلا قدم رکھا نہیں جا رہا تھا کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ کامیاب نہ ہو سکی پیچھے سے پڑھنے والے دھکوں سے وہ گرنے والہ تھی کہ کیسی نے اسکو سنبھال لیا اسکو محفوظ کر لیا اور وہ کوئی اور نہیں روہان علی خان تھا ۔۔
روہان نے اپنے بازوں کی مدد سے شہوار کے گرد ایک حفاظتی دائرہ بنا لیا ۔اور خود اسے دھکوں سے محفوظ کیا
پیچھے پیچھے ہٹیں ۔۔ابھے ۔۔پیچھے ہٹ پتا نہیں چل رہا ہے کوئی آگے سے آرہا ہے وہ اونچی آواز میں غصے سے ۔۔کہہ رہا تھا جیسے ۔۔شہوار کو ہلکا سا دھکا لگتا ۔ وہ اسکے اور قریب ہو جاتا تاکہ اسے ایک خراش بھی نہ آئے
تم۔۔ٹھیک تو ہو روہان نے جیسے پوچھا وہ وہی خاموش ہو گئ ۔۔اس انسان کو مشکل کی حالت میں بھی میری پرواہ تھی ۔۔آج وہ اسکے ساتھ کھڑا تھا شیان نہیں اسنے اسکا مشکل میں ہاتھ تھاما تھا شیان نے نہیں وہ کورٹ کے اندر ائینٹر ہونے لگی تھی کہ ان وئیڈروں کے آدمیوں میں سے ایک آدمی نے کہا
“ارے ۔۔ہاں یہ ۔۔وہی وکیل ہے ۔جیسے پہلے طلاق ہو چکی ہے ” یہ الفاظ سنتے ہی وہ اگلا قدم نہ بڑھا سکی ایسے کیسی طاقت نے اسکے قدم روک لیے وہ آج خود کو کیسی دباو میں نہیں رکھنا چاہتی تھی تاکہ وہ صیح طرح اپنے کیس پر توجہ مرکز کر سکے لیکن آج اسے پھر ماضی کی ایک تلخ حقیقت یاد کرو دئ گئ تھی جو شہوار کو بہت کمزور بنا دیتی تھی
رک ایک منٹ کمینے روہان اپنے آپے سے باہر ہوچکا تھا وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اسک آدمی کے قریب آیا اور اسے اسقدر زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ نیچے گر پڑا ۔۔وہ وہی کھڑی تھی ۔۔اور سارا منظر دیکھ رہی تھی
بتا ۔۔۔کیا کہہ رہا ہے تو ۔بول ۔۔روہان نے ایک اور تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔۔میں تیرے اور تیری زبان کے اسقدر چھوٹے ٹکرے کروں گا کہ کتوں کو بھی کھانے کو نہیں ملے گے ۔۔
لے کے جاو اسے تھانے ۔۔لگتا ہے اسے ہوا کی بہت ضرورت ہے روہان نے ساتھ کھڑے پولہس کانٹسیبل کو کہا ۔۔اور پھر شہوار کی طرف دیکھا ۔۔
جو اسے ٹک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔روہان ہلکا سا مسکرایا اور اپنے چہرے پر سمائیلی سمبل ۔۔شہوار کو کہا ۔اور اسے اندر جانے کا کہا
سب ۔۔پیچھے ہٹ جاو ۔۔چلو ۔۔ہٹو ۔۔وہ پھر اپنے کام میں مصروف تھا ۔۔
قانون کی عدالت ۔۔لگ چکی تھی ۔۔صدیقی صاحب اور انعم کی والدہ کی تمام امیدیں اب ائیڈوکیٹ در شہوار پر تھی ۔۔جیسے جج صاحب کورٹ میں داخل ہوئے سب لوگ ادب سے کھڑے ہو گئے ۔۔
عدالت کی کاروائی شروع کی جائے ۔۔جیسے جج صاحب نے آڈر دیا ۔شہوار کے مخالف ایک فیمیل وکیل رانیہ کھڑی ہوئی
مائی لارڈ ۔۔اب تو ۔کہانی سب کو معلوم ہو چکی ہے اور میں دوبارہ دوبارہ ۔۔اس جھوٹی کہانی کو ددہرا کر کورٹ کا ٹائم ضائع نہیں کروں گی کیونکہ میری ساتھی ۔۔مس ائیڈوکیٹ در شہوار کو شاید وقت کا صایع کرنا اچھا لگتا ہے ۔۔چلیے ۔مائی لارڈ ہم مدے پر آتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے ۔۔جرم ۔ایک ۔۔ایسا ۔۔گنوانا کام ہے جس میں ۔۔ملزم اور۔مجرم دونوں ہی ملوث ہوتے ہیں اور انعم کیس بھی انہی کیسسز میں ایک کیس ہے مائی لارڈ انعم صدیقی ۔۔کوئی پاک دامن شریف لڑکیوں میں سے نہیں تھی کوئی برقع پہن کر۔۔صاف پاکیزہ کا ٹیگ نہیں لگوا سکتا ۔۔جرم تو برقع کے اندر بھی ہو جاتا ہے ۔اور انعم ۔۔بھی ان میں سے ایک تھی ۔۔جیسے ائیڈوکیٹ رانیہ نے الفاظ کی تیخا تانی کی ۔۔شہوار بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی
مائی لارڈ ۔۔مس رانیہ ۔۔میرے معقل پر پرسنل اٹیک کر رہی ہے ۔۔
بلکل بھی نہیں مس در شہوار ۔سچائی سنتے ہوئے اکثر ایسے ہی لوگ کہتے ہیں
اچھا ۔۔تو مس رانیہ آپ بتائیں ۔۔کہ آپ ۔۔برقع پہنتی ہیں یا نہیں ۔۔جیسے شہوار نے کہا
وہ ہچکچا کے بولی ۔۔جی پہنتی ہوں
تو کیا آپ ۔۔کو بد کردار ۔۔بد ذات لڑکی سمجھا جائے ۔۔جیسے شہوار نے کہا ۔۔وہ فورا بولی
اپنی زبان کو لگام دیں مس شہوار ۔۔۔۔رانیہ انتہائی غصے سے بولی
دیکھا ۔۔درد ہوا ناں ۔۔تو آپ کیسے ۔۔انعم کے بارے میں ایسا سب کچھ کہہ سکتی ہیں کیسے اسکے پردے پر انگلی اٹھا سکتی ہیں ۔۔آپ کے پاس کوئہ حق نہیں ہے کیس کی ذات پر ایسے کیچڑ اچھالنے کا ۔۔مائی لارڈ ۔۔آپ نے کوئہ ایتھنٹک ثبوت کی پیش کیش کی تھی ۔۔تو میں آج آپ کے سامنے ۔۔ایک ایسا ثبوت پیش کروں گی ۔م
کہ اسکے بعد ۔۔ان درندوں کے ۔۔پاس خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا ۔۔کوئی ۔۔راستہ نہیں بچے گا ۔
مائی لارڈ آپ اگر اجازت دیں تو ۔۔کیا میں انعم صدیقی کو عدالت میں بلوا ۔۔سکتی ہوں
یہ سنتے ہی ۔۔پورے کورٹ میں کھل بھلی سی مچ گئ ۔۔سارے لوگ ۔۔اونچی اونچی آواز میں بولنا شروع ۔۔ہو گئے ۔
آڈر۔۔۔آڈر۔۔۔جی ضرور ۔۔مس شہوار ۔۔
اجازت ملنے ۔۔پر ۔۔شہوار نے ۔۔روہان کی طرف اشارہ کیا ۔جو ۔ساتھ ہی کھڑا تھا ۔۔وہ فورا باہر ۔گیا اور وئیل چئیر ۔پر ۔
بے بس لچار ۔۔بیٹی انعم صدیقی جس کا چہرہ بری طرح بگھر چکا تھا لیکن آج وہ انصاف لینے کی غرض سے ۔۔عدالت آئی تھی
جیسے وہ عدالت داخل ہوئی ۔۔صدیقی صاحب کے چہرے پر آنسوں روا ہو گئے بوڑھی والدہ نے بے اختیار اہ بری ۔۔۔
سارے لوگوں کی انکھیں نم ہو گئ ۔۔
شہوار نے آگے ہو کر ۔۔اسے سنبھالا ۔۔
اور اسنے خود کو بولنے کے قابل بنایا ۔
آج آپ کو خود ۔۔انعم صدیقی سارے واقعے کے بارے میں بتائے گی
مائی لارڈ یہ کیا تماشہ ہے ۔۔ائیڈوکیٹ رانیہ نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا…
جاری ہے
جی بلکل میڈم ہمارا ہی ڈیپارٹمنٹ ہینڈل کر رہا ہے وہ کیس لیکن آئی ایس پی روہان علی خان نہایت ہی ہونہار پولیس آفسیر ہے اور وہ آپ کے شوہر بھی ہیں تو اسطرح آپ کو آسانی ہو جائے اور کوئی دکت بھی محسوس نہیں ہو گی پوری توجہ سے کام کر سکے گی ٹھیک کہہ رہا ہوں میں پولیس آفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا “جی ٹھیک کہا آپ نے ” اسنے اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپاتے ہوئے کہا ابھی پندرہ منٹ گزرے تھے کہ روہان کمرے میں داخل ہوا
وائیٹ کلر کی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس شرٹ کی آئستینیں کہنیوں تک کی ہوئی اور آنکھوں میں کالے چشمے کا پہرا جیسے اب وہ اپنی آنکھوں سے ہٹا چکا تھا ایک رعب دار پرسینلٹی دراز قدو قامت” کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟” روہان نے نرم لہجے میں پوچھا
آئیے روہان صاحب آئیے آفسیر بے اختیار کھڑا ہو گیا
جی رحمان صاحب حکم کریں ۔۔جیسے روہان نے کہا اسنے شہوار کو دیکھا تو وہی دھک رہ گیا شہوار نے نظریں چرائی
بیٹھے ۔۔۔روہان صاحب ۔۔آفسیر نے شہوار کے پہلوں میں بیٹھنے کا اشارہ کیا
تو سر ۔۔آج آپ کے لیے ایک کام ہے آپ کو مس ائیڈوکیٹ در شہوار کے ساتھ انعم کے آبائی گاوں جانا ہےکیسی تحقیق کی غرض سے اس سلسلے میں میڈم کو حفاظت چاہیے تو اسلیے ہم نے آپ کو بلایا ہے کہ آپ شہوار میڈم کے ساتھ جائیں ویسے بھی وہ آپ کی اہلیہ ہیں پولیس افیسر نے جیسے یہ الفاظ کہے روہان ایک نظر مسکرا کر شہوار کی طرف دیکھتا اس وقت شہوار کا دل کر رہا تھا کہ وہ سامنے بیٹھے پولیس آفیسر کا گلہ دبا دے یا وہ خود کہی چلی جائے وہ کیوں ہر بار اسکے قریب آجاتا تھا وہ جتنا اسسے دور بھاگنے کی کوشش کرتی ہمیشہ روہان کیسی نہ کیسی طرح اسکے ساتھ ہوتا ۔
ویسے روہان صاحب آپ نے شادی پر ہمیں نہیں بھلایا ہمیں شکوہ رہے گا ہمیشہ
یہ سنتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کے چہرے کو گورا ۔۔
جی کیوں نہیں رحمان صاحب آپ کبھی بھی آئیے گھر ۔۔اب آپ کی خدمت میں کوئی کثر نہیں چھوڑے گے ویسے بھی آپکی بھابھی بہت اچھا کھانہ بنا لیتی ہے ۔۔روہان نے جان بھوج کر بات کو کھینچا اور سگریٹ ڈبی سے نکالی
جی ۔۔۔جی۔۔۔شہوار نے ناچاہتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا
(ہائے اللہ کتنا بدتمیز ہے یہ ۔۔کیسے بے ڈھنگ ہو کر باتیں کر رہا ہے) شہوار نے اپنے دل میں سوچتے ہوئے کہا ۔۔
تو آپ لوگ باتیں کریں میں چلتی ہوں شہوار نے میٹھے لہجے میں کہا
نہیں ۔۔نہیں بھابھی صاحبہ آپ چائے پی کر جائیے گا
ن۔۔نہیں سر شکریہ آپ روہان کو ہی پالائیے ۔۔شہوار چئیر سے اٹھی
نہیں ۔۔ایسا تو اب مت کریں میں نے منگوائی ہے بہت چاہت کے ساتھ ۔۔پولہس آفیسر کے بار بار کہنے پر اسے مجبورا وہاں بیٹھنا پڑا
تو سر ۔آپ کے ڈیپارٹمنٹ میں اور کوئی ہونہار پولہس آفیسر نہیں ہے ۔۔؟ شہوار نے اچھا خاصا طنزا کیا تھا
میں۔۔سمجھا نہیں ۔۔۔پولیس افیسر نے بے اختیار کہا ۔میرے کہنے کا مطلب صاف ہے ۔ہونہار روہان ۔۔ہی پولہس افیسر ہے نہ سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ۔۔کیوں روہان مجھے بہت خوشی ہوئی ہے آپ کے بارے میں اتنا سب کچھ سن کر کتنے ایمان دار پولیس آفیسر ہیں جیسے شہوار نے کہا روہان فورا بولا
ج۔۔جی۔۔بہت زیادہ شریف ۔بلکل ایک اچھے انسان کی تعریف میں ہم جو بھی الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ سب میری شخصیت کو بیان کرتے ہیں
واقعی ۔۔سچائی کا تو آپ نے جھنڈے گاڑھے ہیں ۔۔تبھی تو وکیل بھی آپ کی بول باکی کر بیٹھے ۔شہوار نے دانت پیچے
ارے وکیل ۔۔ذات بھی کیا شریف ۔۔۔قوم ہے بیچارے سچائی کے پتلے ہوتے ہیں میری طرح ایک پہسا بھی رشوت کا نہیں لیتے ۔۔
پولہس آفیسر جو اتنی دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا وہ اچانک بولا
م۔۔میرے خیال میں آپ کی جوڑی کافی جمتی ہے پولیس اور وکیل۔۔۔چلیے آپ چائے پیئے میں آتا ہوں
___________________
اگر جانا تھا تو مجھے بتا دیتی میں ساتھ چل دیتا پولہس ڈیپارٹمنٹ میں جا کر کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔
روہان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
یہ ۔۔بات اپنے دل و دماغ سے نکال دو ۔۔کہ میرا دل چاہ رہا تھا میں کوئی پکنک نہیں ماننے جا رہی ۔۔عجیب پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے دوسرے پولیس والے مر گئے ہیں کیا جو ایک کو سب جگہ اٹھا لاتے ہیں اور ہاں میں نے انھیں نہیں کہا تھا ۔۔پتا نہیں پھر انھیں اپنے ایک ہونہار پولیس آفیسر کی یاد آگئ اور آپ کی تعریف کی تسبیحئ پروئی اور آئی ایس پی روہان خان حاضر شہوار غصے سے اپنے دھیان میں بول رہی تھی اور روہان اسکی باتوں پر بے اختیار مسکرا رہا تھا
ایسا ہے میڈم آپ کی قسمت میں ہم لکھیں جا چکیں ہیں روہان نے گاڑی کا رخ گاوں کی طرف کرتے ہوئے کہا
اسی قسمت کو کوستی ہوں ہر روز ۔۔اور اس وقت کو جب تم مجھ سے پہلی مرتبہ ملے تھے شہوار نے صاف دشمنی ظاہر کی ۔
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا ۔۔محبت مل جایا کرتی ہے اور مجھے میری محبت مل گئ
مطلب تم نے بدعا دی ہو گی مجھے ! شہوار نے اسکی طرف
دیکھتے ہوئے کہا
میں ابھی اتنا ظالم سنگ دل نہیں ہوا جو اپنی محبت کی خوشیوں کو برباد کروں روہان ابھی بھی نرم لہجے میں تھا
ویسے ۔یہ تمھاری محبت کا بھوت کب تک رہے گا ۔۔
جب تک سانسیں باقی ہیں روہان نے جیسے کہا شہوار اچانک چپ کر گئ ۔
اور میرے دل میں تم نہیں ہو ۔۔میرے دل کی محبت میں پہلے کوئی بس چکا ہے ۔۔اور تم اس میں کبھی نہیں ہو گے شیا۔۔۔شہوار ابھی بولنے لگی تھی کہ روہان نے اچانک گاڑی روکی اور اسکی طرف دیکھا
کچھ بھی کہہ لو شہوار میں تمھاری ہر بات برداشت کرلوں گا لیکن اس کمینے کا نام تمھاری زبان پر نہیں روہان کی آنکھیں سرخ ہو گئ تھی اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اسکا خون کھول رہا ہو اسکے ہاتھوں کی گرفت اسقدر مضبوط ہو گئ ۔۔اسکا پورا وجود لرز گیا تھا ایک عجیب سی کفیت روہان پر چھا گئ ۔۔شہوار یہ سب دیکھ کر بلکل خاموش ہو گئ وہ روہان کی یہ کفیت کو دیکھ کر خود حیران رہ گئ تھی اسنے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔باقی سفر تک وہ دونوں بلکل خاموش تھے ۔۔۔
“ستاتے ہو دن رات ۔اسطرح مجھ کو کیسی غیر کو یوں ستا کر تو دیکھو ۔”
روہان نے جیسے خود کو سنبھالا وہ خود ہی جان سکتا تھا اسے آج اسقدر درد اور تکلیف ہوئی تھی شہوار کے منہ سے دوسری مرتبہ شیان کا نام سنتے ہوئے ایسا ہی ہوتا ہے جب انسان کیسی کو بے پناہ چاہتا ہے اور اگر اسکی محبت کیسی اور کے بارے میں اپنے احساسات بتاتی ہے تو قیامت ٹوٹتی ہے اس انسان پر ۔۔اسکے احساس اسکے محبت کے جذبات ۔۔لرز جاتے ہیں ۔۔اور آج روہان کے ساتھ بلکل ایسا ہی ہوا تھا
_____________________________________
اسلام و علیکم بیٹا اندر آو انعم کے والد صدیقی صاحب نے عقیدت سے انھیں گھر میں آنے کا کہا وہ دونوں انکے گھر داخل ہوئے
کیسے ہیں صدیقی صاحب روہان نے انکے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہوں صاحب ۔۔بس آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے ۔۔ہمارا اتنا ساتھ دیا اگر واقعی آپ وہاں نہ ہوتے تو ان وئیڈروں کی طرف بھیجے آدمیوں نے میری بیٹی کو مار دینا تھا ۔۔جیسے شہوار نے سنا اسنے دھک روہان کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔
انکل ۔میں نے آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں کورٹ کی اگلی تاریخ قریب ہے ۔۔تو میں چاہ رہی ہوں کہ ان وئیڈروں کے خلاف کوئی ٹھیس ثبوت ہاتھ میں لگے ۔۔تاکہ ہمیں کوئی اور تاریخ کا انتظار نہ کرنے پڑے ۔۔
شہوار نے ۔۔پورا ایک گھنٹا ساری تحقیق کے بارے میں چھان بین کی ۔۔وہ سائے کی طرح اسکے ساتھ ساتھ موجود ایک سکینڈ ۔۔وہ اسکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔وہ دونوں گاوں کے باہر ۔۔تھے ان وئیڈروں کے گھر کے قریب جہاں پر انھوں نے انکے ملازم سے بات کرنی تھی جس نے شہوار کو اس کیس کے متعلق کوئی ثبوت دینا تھا ۔۔وہ دونوں ۔۔کچی سڑک پر چل رہے تھے ۔ رات کا پہر تھا کیونکہ اسنے شہوار اور روہان کو رات کے وقت ملاقات کا کہنے کو کہا تھا تاکہ کیسی کو معلوم نہ پڑے اسی وجہ سے انھیں رات گاوں میں ہی گزرانی پڑنی تھی ۔۔وہ دونوں قدم با قدم چل رہے تھے جیسے شہوار نے قریب کتے کی بھوکنے کی آواز سنی ۔۔اسنے جلدی سے روہان کو بازو سے پکڑ لیا
روہان ۔۔۔جلدی کرو ۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔اسنے روہان کو اپنی مضبوط گرفت سے پکڑا تھا ۔۔اسکی آنکھیں ڈر سے بند تھی روہان نے بے اختیار شہوار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما
“کچھ نہیں ہوتا میں تمھارے ساتھ ہوں شہوار ۔۔مجھ پر یقین رکھو میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ” جیسے یہ الفاظ شہوار نے سنے ۔۔وہ آگے سے بلکل خاموش ہو گئ شاید اسکے پاس اب کوئی طنزا نہیں تھا
ویسے حیرانگی ہے اتنی بڑی وکیل ۔۔ایک کتے کی آواز سے ڈر گئ ۔۔روہان نے جان بھوج کر کہا
اڑا لو ۔۔مذاق ۔۔ہر انسان کو کیسی نہ کیس چیز سے ڈر لگتا ہئ ہے تمھیں نہیں لگتا کیا ڈر ۔۔
ہاں لگتا ہے ڈر ۔۔تمھیں کھونے کا ڈر ۔ روہان نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا
“روہان تمھارے ان محبت بڑے ڈائیلوگ مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتے ۔۔”
وہ دونوں گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔جب شہوار کے فون کی گھنٹی بجی شہوار نے فون اٹھایا
آپ کے ساتھ کون ہے میڈم؟ جیسے اس ملازم نے کہا شہوار یک دم رک گئ
تم ڈرو مت آجاو تم ۔وہ۔۔م۔۔۔۔میرے شہوار یہ کہتے کہتے رک گئ
وہ ۔۔میرے ساتھ آئے ہیں وہ نہیں کہہ پائی ۔۔نہیں کہہ سکی
جی ٹھیک ہے ملازم یہ کہتے کچھ منٹ بعد نمودار ہوا
شہوار میرے پیچھے کھڑی ہو جاو ۔۔روہان نے اسکے آگے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ہے ؟
کچھ بھی نہیں ہوا خطرے والی بات ہے اسکے پاس کوئی ہتھیار بھی ہو سکتا ہے روہان نے اسے اپنے پیچھے کیا
_____________________________________
روہان اور شہوار انعم کے گھر ہی رکے تھے وہ جس کام سے آئے تھے وہ۔کام مکمل ہو چکا تھا ۔۔اب شہوار کے پاس صیح ثبوت ہاتھ لگ چکے تھے ۔اب بس عدالت کی سنوائی کی دیر تھی
میرے دل میں تمھارے لیے جگہ نہیں ہے روہان چئیر پر بیٹھا بار بار شہوار کی بات کو سوچ رہا تھا جب اسنے پھر سگریٹ سلگائی
حد سے زیادہ برداشت کرنے بعد شہوار چارپائی سے اٹھی اور اسکی طرف بڑھی اور غصے سے کہا تمھیں معلوم ہے روہان تم اب تک کتنے سگریٹ پی چکے ہو پانچویں سگریٹ ہے یہ تمھاری ۔۔ جیسے شہوار نے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا اور کہا اتنی گہری نظریں مجھ ظالم پر ۔اور سگریٹ کا کش لگایا شہوار نے چڑتے ہوئے روہان کے ہاتھ سے سلگتی سگریٹ پکڑی ادھر لاو دو مجھے
میں بھی دو تین سوٹے لگا کر دیکھتی ہوں کیا ہے ایسا اس میں جو تمھیں چین سے رہنے نہیں دیتا نہیں ایسا کرتے ہیں دونوں میاں بیوی ایک ایک سگریٹ لے کر ٹانگ پی ٹانگ چڑھائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہیں ٹنشن فری ہو کر کیوں کیسا ہے جیسے شہوار نے کہا
روہان نے قہقا لگایا اور کہا
آئیڈیا برا نہیں ہے ۔۔۔
نہایت ہی بدتمیز ہو ۔۔
_________
وہ صبح صبح گاوں سے نکل پڑے تھے ۔وہ گاڑی چلا رہا تھا جب وہ ایک دم ٹھہر گئ گاڑی روکو روہان جیسے شہوار نے کہا اسنے فورا گاڑی روکی
کیا ہوا ہے شہوار تم ٹھیک تو ہو ؟ روہان نے جلدی سے پوچھا
ہ۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں شہوار نے کھانستے ہوئے کہا
کہاں ٹھیک ہو روہان نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
تمھیں تو بخار ہے ۔شہوار ۔۔تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں
کچھ نہیں ہوا مجھے بس پلیز اب تم گاڑی چلاو ۔۔شہوار نے چڑتے مزاج میں کہا
بتا دینے سے کوئی انا میں خم نہیں آجاتا اب ہم گھر نہیں پہلے ہوسپٹل جائیں گے پھر۔میں تمھیں آفس نہیں چھوڑوں گا بلکے سیدھا گھر لے کر جاوں گا ۔۔جیسے روہان نے کہا
وہ فورا بولی کچھ نہیں ہوا مجھے تمھیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور خدا کے لیے نوازش رہنے دو میں میڈیسن لینے کے بعد آفس جاوں گی
وہ تو وقت بتائے گا کون بازی مارتا ہے اسنے گاڑئ کی سپیڈ کو بڑھاتے ہوئے کہا
________________________
اترو ۔۔نیچے
نہیں جاوں گی ۔۔میں گھر ۔۔مجھے آفس جانا ہے تو مطلب جانا ہے ۔میں تمھاری طرح کاہل نہیں ہوں جو ہلکا سا بیمار ہوں تو ۔۔چھٹی کر لوں وہ گاڑی سے اترتے ہوئے گیٹ کی طرف بڑھنے لگی میڈیسن لینے کے بعد روہان زبردستی اسے گھر لے آیا تھا
شہوار تمھاری طعبیت نہیں ٹھیک ۔۔وہ پیچھے کھڑا تھا جو شہوار کو مین گیٹ کی طرف جاتا دیکھ رہا تھا
ہمددردیاں دیکھانے کا شکریہ ۔۔۔روہان صاحب ۔طنزا جواب میں کہا
بڑی ضدی ہے نہیں مانے گی ایسے روہان نے بے اختیار کہا اور دو چار قدم جلدی سے بڑھاتے ہوئے اسکو بازو سے پکڑ کر روکا ۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔شہوار جیسے پلٹی روہان نے اسے اپنے بازو کی مدد سے اٹھا لیا
چلئیے ۔۔مسسز روہان ابھی ریسٹ ٹائم ہے بعد میں کام ہو گا ۔۔وہ یہ کہتے ہوئے واپس چل پڑا
مجھے چھوڑو روہان تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے ۔۔
آپ میری اہلیہ ہیں میڈم ۔۔! زبردستی کا امکان ہی نہیں وہ ہلکا سا مسکرایا اور گھر کے اندر داخل ہوا
کتنے بد تمیز ہو تم ۔! شہوار نے غصے سے کہا
آپ کی محبت نے کر دیا ہے ۔۔روہان کمرے میں داخل ہوا ۔۔اب اگر آپ باہر گئ تو ۔۔پھر مجبورا مجھے سختی کرنی پڑے گی اور میں آپ کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہتا ۔وہ یہ کہتے ہوئے پلٹا جب وہ اچانک رکا
بڑے محبت کے پوجھاری ہو ایسے کر رہو جیسے بیوی کے فرمابردار ۔۔جیسے شہوار نے کہا وہ صرف پلٹا اور کہا
محبت ۔۔کے عالم میں حالت فقیروں والی ہوتی ہے ۔صاحب پوجھاری تو کہاں ۔۔اسنے شہوار کی طرف دیکھ کر طنزا ایک آنکھ کو جھپکایا اور باہر کی جانب چلا گیا
شہوار نے جب یہ دیکھا ۔۔اسنے غصے سے بلند آواز نکالی ۔۔کیسا انسان ہے یہ یا اللہ ۔!
_________________________
ہر طرف افراتفری کا سماں بندھا تھا ہائی کورٹ کے باہر لمبی قطاروں میں لوگ باہر موجود تھے ۔۔جھرمٹ میں ۔۔کہی کیمروں کی پڑھتی ہوئی فلیش لائیٹس تھی تو کہی رپورٹرس کا ۔کا جھرمٹ جیسے ملزم عمران اور اسکے ساتھیوں کو پولیس وئین سے باہر نکالا ۔سب رپورٹرس جھٹ سے اس پر لپکے ۔۔فلیش لائیٹس تیز رفتار سے پڑنے لگی لوگ پھرسے اسی دن کے واقعے کو دہرانے لگے ۔۔۔اور اسکے کچھ دیر بعد۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔باہر اپنی گاڑی سے نکلی
م۔۔میم۔۔ا۔۔ایک منٹ ۔۔ایک رپوٹر نے جیسے کہا شہوار وہی رک گئ
میم۔۔آپ کو کیا لگتا ہے یہ کورٹ کی آخری سنوائی ہو گی یاں پھر اور تاریخ لینے کا فیصلہ ہو گا ۔۔
جی۔نہیں آج ۔۔یہ انعم صدیقی کیس کا آخری دن ہو گا اور آج کے دن انعم کے ملزموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سزہ دی جائے گی اور انعم کو انصاف ملے گا کیونکہ جھوٹ چھپتا نہیں ہے آخر کار اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے اور آج میں چن چن کر انعم کے قاتلوں کو سزہ دلواوں گی ۔اوکے تھینک یوں شہوار یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی تھی ۔۔کہ آگے میڈیا اور لوگوں کا اسقدر جھرمٹ تھا کہ اس سے اگلا قدم رکھا نہیں جا رہا تھا کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ کامیاب نہ ہو سکی پیچھے سے پڑھنے والے دھکوں سے وہ گرنے والہ تھی کہ کیسی نے اسکو سنبھال لیا اسکو محفوظ کر لیا اور وہ کوئی اور نہیں روہان علی خان تھا ۔۔
روہان نے اپنے بازوں کی مدد سے شہوار کے گرد ایک حفاظتی دائرہ بنا لیا ۔اور خود اسے دھکوں سے محفوظ کیا
پیچھے پیچھے ہٹیں ۔۔ابھے ۔۔پیچھے ہٹ پتا نہیں چل رہا ہے کوئی آگے سے آرہا ہے وہ اونچی آواز میں غصے سے ۔۔کہہ رہا تھا جیسے ۔۔شہوار کو ہلکا سا دھکا لگتا ۔ وہ اسکے اور قریب ہو جاتا تاکہ اسے ایک خراش بھی نہ آئے
تم۔۔ٹھیک تو ہو روہان نے جیسے پوچھا وہ وہی خاموش ہو گئ ۔۔اس انسان کو مشکل کی حالت میں بھی میری پرواہ تھی ۔۔آج وہ اسکے ساتھ کھڑا تھا شیان نہیں اسنے اسکا مشکل میں ہاتھ تھاما تھا شیان نے نہیں وہ کورٹ کے اندر ائینٹر ہونے لگی تھی کہ ان وئیڈروں کے آدمیوں میں سے ایک آدمی نے کہا
“ارے ۔۔ہاں یہ ۔۔وہی وکیل ہے ۔جیسے پہلے طلاق ہو چکی ہے ” یہ الفاظ سنتے ہی وہ اگلا قدم نہ بڑھا سکی ایسے کیسی طاقت نے اسکے قدم روک لیے وہ آج خود کو کیسی دباو میں نہیں رکھنا چاہتی تھی تاکہ وہ صیح طرح اپنے کیس پر توجہ مرکز کر سکے لیکن آج اسے پھر ماضی کی ایک تلخ حقیقت یاد کرو دئ گئ تھی جو شہوار کو بہت کمزور بنا دیتی تھی
رک ایک منٹ کمینے روہان اپنے آپے سے باہر ہوچکا تھا وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اسک آدمی کے قریب آیا اور اسے اسقدر زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ نیچے گر پڑا ۔۔وہ وہی کھڑی تھی ۔۔اور سارا منظر دیکھ رہی تھی
بتا ۔۔۔کیا کہہ رہا ہے تو ۔بول ۔۔روہان نے ایک اور تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا ۔۔میں تیرے اور تیری زبان کے اسقدر چھوٹے ٹکرے کروں گا کہ کتوں کو بھی کھانے کو نہیں ملے گے ۔۔
لے کے جاو اسے تھانے ۔۔لگتا ہے اسے ہوا کی بہت ضرورت ہے روہان نے ساتھ کھڑے پولہس کانٹسیبل کو کہا ۔۔اور پھر شہوار کی طرف دیکھا ۔۔
جو اسے ٹک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔روہان ہلکا سا مسکرایا اور اپنے چہرے پر سمائیلی سمبل ۔۔شہوار کو کہا ۔اور اسے اندر جانے کا کہا
سب ۔۔پیچھے ہٹ جاو ۔۔چلو ۔۔ہٹو ۔۔وہ پھر اپنے کام میں مصروف تھا ۔۔
قانون کی عدالت ۔۔لگ چکی تھی ۔۔صدیقی صاحب اور انعم کی والدہ کی تمام امیدیں اب ائیڈوکیٹ در شہوار پر تھی ۔۔جیسے جج صاحب کورٹ میں داخل ہوئے سب لوگ ادب سے کھڑے ہو گئے ۔۔
عدالت کی کاروائی شروع کی جائے ۔۔جیسے جج صاحب نے آڈر دیا ۔شہوار کے مخالف ایک فیمیل وکیل رانیہ کھڑی ہوئی
مائی لارڈ ۔۔اب تو ۔کہانی سب کو معلوم ہو چکی ہے اور میں دوبارہ دوبارہ ۔۔اس جھوٹی کہانی کو ددہرا کر کورٹ کا ٹائم ضائع نہیں کروں گی کیونکہ میری ساتھی ۔۔مس ائیڈوکیٹ در شہوار کو شاید وقت کا صایع کرنا اچھا لگتا ہے ۔۔چلیے ۔مائی لارڈ ہم مدے پر آتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے ۔۔جرم ۔ایک ۔۔ایسا ۔۔گنوانا کام ہے جس میں ۔۔ملزم اور۔مجرم دونوں ہی ملوث ہوتے ہیں اور انعم کیس بھی انہی کیسسز میں ایک کیس ہے مائی لارڈ انعم صدیقی ۔۔کوئی پاک دامن شریف لڑکیوں میں سے نہیں تھی کوئی برقع پہن کر۔۔صاف پاکیزہ کا ٹیگ نہیں لگوا سکتا ۔۔جرم تو برقع کے اندر بھی ہو جاتا ہے ۔اور انعم ۔۔بھی ان میں سے ایک تھی ۔۔جیسے ائیڈوکیٹ رانیہ نے الفاظ کی تیخا تانی کی ۔۔شہوار بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی
مائی لارڈ ۔۔مس رانیہ ۔۔میرے معقل پر پرسنل اٹیک کر رہی ہے ۔۔
بلکل بھی نہیں مس در شہوار ۔سچائی سنتے ہوئے اکثر ایسے ہی لوگ کہتے ہیں
اچھا ۔۔تو مس رانیہ آپ بتائیں ۔۔کہ آپ ۔۔برقع پہنتی ہیں یا نہیں ۔۔جیسے شہوار نے کہا
وہ ہچکچا کے بولی ۔۔جی پہنتی ہوں
تو کیا آپ ۔۔کو بد کردار ۔۔بد ذات لڑکی سمجھا جائے ۔۔جیسے شہوار نے کہا ۔۔وہ فورا بولی
اپنی زبان کو لگام دیں مس شہوار ۔۔۔۔رانیہ انتہائی غصے سے بولی
دیکھا ۔۔درد ہوا ناں ۔۔تو آپ کیسے ۔۔انعم کے بارے میں ایسا سب کچھ کہہ سکتی ہیں کیسے اسکے پردے پر انگلی اٹھا سکتی ہیں ۔۔آپ کے پاس کوئہ حق نہیں ہے کیس کی ذات پر ایسے کیچڑ اچھالنے کا ۔۔مائی لارڈ ۔۔آپ نے کوئہ ایتھنٹک ثبوت کی پیش کیش کی تھی ۔۔تو میں آج آپ کے سامنے ۔۔ایک ایسا ثبوت پیش کروں گی ۔م
کہ اسکے بعد ۔۔ان درندوں کے ۔۔پاس خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا ۔۔کوئی ۔۔راستہ نہیں بچے گا ۔
مائی لارڈ آپ اگر اجازت دیں تو ۔۔کیا میں انعم صدیقی کو عدالت میں بلوا ۔۔سکتی ہوں
یہ سنتے ہی ۔۔پورے کورٹ میں کھل بھلی سی مچ گئ ۔۔سارے لوگ ۔۔اونچی اونچی آواز میں بولنا شروع ۔۔ہو گئے ۔
آڈر۔۔۔آڈر۔۔۔جی ضرور ۔۔مس شہوار ۔۔
اجازت ملنے ۔۔پر ۔۔شہوار نے ۔۔روہان کی طرف اشارہ کیا ۔جو ۔ساتھ ہی کھڑا تھا ۔۔وہ فورا باہر ۔گیا اور وئیل چئیر ۔پر ۔
بے بس لچار ۔۔بیٹی انعم صدیقی جس کا چہرہ بری طرح بگھر چکا تھا لیکن آج وہ انصاف لینے کی غرض سے ۔۔عدالت آئی تھی
جیسے وہ عدالت داخل ہوئی ۔۔صدیقی صاحب کے چہرے پر آنسوں روا ہو گئے بوڑھی والدہ نے بے اختیار اہ بری ۔۔۔
سارے لوگوں کی انکھیں نم ہو گئ ۔۔
شہوار نے آگے ہو کر ۔۔اسے سنبھالا ۔۔
اور اسنے خود کو بولنے کے قابل بنایا ۔
آج آپ کو خود ۔۔انعم صدیقی سارے واقعے کے بارے میں بتائے گی
مائی لارڈ یہ کیا تماشہ ہے ۔۔ائیڈوکیٹ رانیہ نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا…
جاری ہے
Leave a Reply