کہو مجھ سے محبت ہے از اقراء خان آخری قسط نمبر 21
روہان۔۔۔جلدی کرو پتا بھی ہے زری کی شادی ہے اتنی ساری تیاریاں کرنی ہے لیکن تم تب سے ٹانگ پہ ٹانگ
دھرے آرام سے سگریٹ سلگا رہے ہو ۔شہوار تیار ہوئے اسکے سامنے کھڑی تھی وہ بے اختیار مسکرا دیا “یہ ہنس کیوں رہے ہو روہان اٹھو ” اور اس کو تو چھوڑو شہوار نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے سلگتی ہوئی سگریٹ پکڑ کر نیچے پھینکی اب اٹھ بھئ جاو
“ہاتھ دو ” روہان نے اپنا بازو آگے کرتے ہوئے کہا
کیا مطلب ؟
اپنا ہاتھ دو ۔۔روہان نے یہ کہتے ہوئے شہوار کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
چلو چلتے ہیں
“تم بھی نہ ” اگر بندہ پہلے اٹھ جائے تو کیا ۔۔ہو جاتا ہے
وہ دونوں شاپنگ مال کی طرف بڑھے زرش کی شادی قریب تھی ۔
اچھا روہان یہ ڈرس دیکھو بلیک یا پینک شہوار نے دونوں ہاتھوں میں ڈرسسز پکڑے اسکے سامنے کھڑی تھی
میرے خیال سے بلیک ۔۔ روہان نے سوچتے ہوئے کہا تو شہوار جھٹ سے بولی
“نہیں مجھے تو پینک اچھا لگ رہا ہے ”
“تو پھر یہی لے لو” روہان نے شائستگی سے کہا
“ہاں یہی لیتی ہوں ”
اچھا ۔۔روہان یہ دیکھو جوتا کونسا لوں “ہیل والا یا سپاٹ؟”
“م۔۔۔میرے خیال سے سپاٹ تم ہر زیادہ سوٹ کرتا ہے” روہان نے پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا
“اچھا لیکن مجھے تو ہیل والا جوتا زیادہ اچھا لگ رہا ہے ” شہوار نے پھر وہی جواب دیا
“تو ٹھیک ہے پھر جو تمھیں پسند ہے وہ لے لو” روہان نے سانس لیتے ہوئے کہا وہ تب سے اس کے ساتھ یہی کر رہی تھی ہر چیز میں اسکی پسند پوچھتی لیکن کوئی بھی چیز اسکی پسند کی نہیں خریدی ۔
سب شاپنگ کرنے کے بعد وہ جب گاڑی میں بیٹھے تھے
تب روہان نے کہا
“عجیب بیوی ہے میری ۔۔ہر چیز میں میری رائے لی لیکن میری پسند کی ایک چیز بھی نہیں لی ”
کیا مطلب روہان ۔۔تم سے رائے تو لی تھی شہوار نے جان بھوج کر مذاقا طنز کیا
ہاں ۔۔ہاں ۔تم نے تو ہر چیز میری پسند کی لی ہے ۔۔چلے بھئ ۔۔زہے نصیب ہم ۔۔آپ کا یہ بھی ظلم برداشت کر لیتے ہیں ۔روہان نے کہا اور گاڑی چلا دی
ابھی وہ راستے میں تھے جب ۔۔روہان نے گاڑی روکی
اچھا ایک منٹ وئیٹ کرو ۔۔میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں
روہان نے کہا اور گاڑی سے اترا اور قریب دکان کی طرف بڑھا
اس دوران شہوار بھی گاڑی سے اتر کر باہر کا مناظر کو تکنے لگی کہ اچانک ایک لڑکا اسکے سامنے کھڑا ہو گیا اور بے اختیار پوچھا
“کیا آپ سینگل ہیں” جیسے اس لڑکے نے پوچھا ابھی شہوار جواب دینے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے روہان نے آ کر شہوار کا ہاتھ پکڑا اور اس لڑکے کی طرف ایک تیخی نگاہ ڈالی اور اونچی آواز میں کہا
“چلیے مسسز روہان آگے بہت لیٹ ہو گئے ہیں” یہ سنتے ہی لڑکا حیران رہ گیا
شہوار کی ہنسی چھوٹ گئ ۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھے ہنس رہی تھی اور روہان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“تم کتنا جیلس ہوتے ہو روہان؟”
تمھیں آج پتا چلا ہے ! میں تو ہمیشہ ہر اس شخص سے جیلس ہوتا ہوں جو تمھارے آس پاس بھی بھٹکتا ہے وہ۔۔یاد نہیں تمھارے کولیگ پروفیسر فیضان صاحب کیا حال کیا تھا اسکا ۔
روہان نے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔یاد آیا ویسے کتنے ظالم تھے تم ۔اس بیچارے کا ہاتھ ہی مروڑ دیا ۔صرف سلام ہی لی تھی اسنے شہوار نے دکھ کا اظہار کیا
تمھارے ساتھ پریزینٹیشن دینے لگا تھا ۔فاصلہ اتنا کم تھا تو میں نے سوچا میں ہی دے دیتا ہوں ۔۔اسکا بندو بست کیا اور میں آ گیا روہان نے ہنستے ہوئے کہا
او۔۔۔اچھا ۔۔میں تبھی سوچوں وہ اب جب بھی مجھ سے ملتا ہے ۔تو منہ سے سلام لیتا ہے ہاتھ نہیں ملاتا اور بھابھی جی! کر کے مخاطب کرواتا ہے ۔۔طوبا ہے روہان ۔ایسے بھی کوئی ڈراتا ہے کیسی کو ۔شہوار نے کہا
“جی ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔۔وہ روہان علی خان کی بیوی کے ساتھ ۔کھڑا ہونا چاہ رہا تھا”
__________________________
ہر طرف خوشیوں کو شہنایاں تھی بینڈ باجے ۔۔سے سارے گھر میں رونق چھائی ہوئی تھی ۔شہوار نے وہی سب کچھ پہنا تھا جو پہلے روہان نے سلیکٹ کیا تھا ۔اسنے اسے بتائے بغیر وہی ڈرس جوتا وغیرہ دوسری چیزیں پیک کروائی تھی جو پہلے روہان نے پسند کی تھی۔بلیک ڈرس ، سپاٹ ہی جوتا ۔۔جیسے وہ تیار ہو کر ۔۔باہر نکلی ۔روہان دیگر مہمانوں کے پاس کھڑا تھا
شہوار اسے تو ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی تھی چاہے پھر وہ بلیک کورٹ میں ہی کیوں نہ ہو روہان ایک منٹ کے لیے اپنی پلیکں جھپک نہ پایا ۔۔اور اسکی طرف بڑھا
ابھی وہ کچھ کہنے لگا تھا کہ شہوار جلدی سے آگے بڑھی اور کہا
“میں نے کہا بھی آپ سے ۔۔کہ واسکٹ پہن لیتے کم از کم شادی میں دیگر لڑکیاں تو آپکو شادی شادہ سمجھتئ کیسے انکے سامنے اپنے بالوں کو ہواوں میں اڑا رہے ہیں
ارے واہ میری بیوی جیلس ہو رہی ہے ۔۔۔ویسے تم بہت پیاری لگ رہئ ہو اور یہ تو میری چوائس تھی نہ
ہاں میں وہی پہنوں گی نہ جو تمھیں پسند ہے ۔۔شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
انکے قریب فاصلے پر سکینہ بیگم کے پاس چند عورتیں بھی موجود تھی جب ان میں سے ایک نے کہا
“اچھا یہ وکیل اور پولیس کی جوڑی ہے ماشااللہ دونوں ایک ساتھ بہت ہی اچھے لگتے ہیں اللہ خوش رکھے ۔۔
سکینہ بیگم انکی طرف دیکھ کر مسکرا دی اور کہا
جی ۔۔آمین ۔بہت ہی اچھے ہیں
شادی کی رسموں بہت اچھے طریقے سے نبھایا گیا نکاح کا وقت تھا شہوار نے زرش کے اوپر چادر اوڑھ دی ۔۔قازی صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور نکاح کی رسم کا آغاز کیا ۔وہ ساتھ زرش کے بیٹھے تھی (“کہو قبول ہے ۔۔بولو ورنہ کیا تم چاہتی ہو یہ بے قصور مرے نہیں نہ تو چپ چاپ بولو۔۔”) شہوار کے دل و دماغ میں ماضی کی ایک ہلکی سی لہر دوڑی اسے ابھی بھی اچھے سے یاد تھا کیسے روہان نے اس سے ناکح نامے پر دستخط کروائے تھے وہ سب یہ سوچ کر بے اختیار مسکرا دی ۔۔وہ اب ماضی تھا اور گزر چکا ۔
_________________________
وہ دونوں رات کو گھر آ گئے تھے ۔۔شادی سے آکر دونوں ہی بہت تھک چکے تھے ۔
جب روہان فورا اسکے پاس آیا
شہوار ۔۔اٹھو ۔۔وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا سارا جیولری کا سامان ایک ڈبے میں ڈال رہی تھی
ہاں
اٹھو ۔۔چلو چلتے ہیں جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
کہاں چلتے ہیں روہان رات ہونے کو ہے ۔۔اور تم ۔۔یہ کہہ رہے ہو ۔مجھ میں گنجائش نہیں ہے میں بہت تھک چکی ہوں
چلو۔۔۔اٹھو ۔۔
کیوں زبردستی ہے ۔شہوار نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کچھ بھی سمجھ لو ۔۔بیوی ہو زبردستی بھی کر سکتا ہوں ۔۔روہان نے آگے ہوتے ہوئے کہا
او۔۔۔بھائی صاحب روکو ۔۔میں نہیں جا رہی ۔۔روہان
“اٹھا کر لے جاوں گا ”
ہاتھ لگا کر دیکھو
“چیلنج مت کرنا در شہوار ۔۔پورا کر دوں گا یہ کہتے ہوئے روہان آگے بڑھنے لگا تھا کہ شہوار جلدی سے اٹھ گئ
“اچھا !۔۔اچھا چلو۔”
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
جانا کہاں ہے ؟ شہوار نے سڑھیاں اترتے ہوئے کہا
پتا نہیں ۔۔روہان نے کار کی چابی کو گھماتے ہوئے کہا
مطلب ؟ پتا نہیں ہم جا کہا رہے ہیں شہوار نے حیرانگی سے پوچھا
ایک لمبی سی خاموش سڑک میں اور تم ۔۔صرف ہوں اور کوئی نہیں ۔۔
ک۔۔۔کیا؟ شہوار روکی
ہم پیدل جا رہے ہیں ۔
جی ۔۔۔پیدل ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
ن۔۔نہیں روہان میں نہیں جاوں گی اور ویسے بھی کہاں ایک لمبی سی سڑک ملتی ہے ۔
میرے ساتھ چلو گی ۔۔تو خر راستے سیدھے ہو جائیں گے ۔۔روہان نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا
شہوار بے اختیار مسکرا دی اور اپنا ہاتھ روہان کے ہاتھ میں تھما دیا
چلو دیکھتے ہیں
وہ گھر سے کچھ دور میل آگے نکل آئے تھے
“کبھی سوچا تھا ” روہان نے سوال کیا
“اسطرح تو نہیں سوچا تھا ۔۔اور کم از کم اپنی زندگی میں نہیں ۔”
“لیکن میں نے تو سوچا تھا ”
او اچھا ۔۔پہلی نظر میں دیکھتے ہی محبت ہو گئ تمھیں لیکن میں تو تم سے اتنا جھگڑی تھی ۔۔شہوار نے حیرانگی سے پوچھا
غلط فہمی ہے تمھاری پہلی ملاقات میں تم تو ۔۔مجھے بہت سڑئیل اور ڈھیٹ ائیڈوکیٹ لگی تھی ۔روہان مزاحیہ لہجے میں کہا
کیا ڈھیٹ ؟ اور تم بھی مجھے نہایت ہی کام چور اور نکمے پولیس والے لگے تھے ۔۔شہوار نے بھی بدلہ پورا کیا
اچھا روہان پہلی دفعہ محبت کب ہوئی تھی ۔۔
جب تم نے مجھے چین سموکر کہا تھا تب روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
کیا؟ شہوار چونکی
‘ ہاں ۔”
اور تمھیں ۔۔روہان نے جیسے پوچھا شہوار وہی خاموش ہو گئ ۔۔
مجھے ۔۔تو تم سے محبت نہیں ہوئی۔۔
“اتنی سنگ دل ہو ” روہان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے چل رہے تھے
اچھا ایک بات کہوں ۔ روہان نے کہا
“ہاں کہو ۔” شہوار نے جلدی سے کہا
اچھا ایک دفعہ میری طرف دیکھو اور
“کہو مجھ سے محبت ہے ”
کتنے بے شرم شوہر ہو ۔۔خود بیوی سے اقرار کروا رہے ہو۔۔۔شہوار نے ہنستے ہوئے کہا
جب بیوی نہیں کہے گئ شوہر کو تو کہنا پڑے گا ۔
وہ تھوڑا سا آگے ۔۔بڑھا ۔۔شہوار نے اسے روکا اور کہاں
چلیے ۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔۔محبت کی عدالت میں اپنے گھٹنے ٹیکتی ہے اور یہ اقرار کرتی ہوں ۔۔یو مائی لارڈ مجھے ۔۔آئی ایس پی روہان علی خان سے ہر دفعہ کے تحت محبت ہے ۔۔اور بے انتہا
جیسے شہوار نے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا
کیا انداز ہے ۔میڈم آپ کا !
ظاہر سی بات ہے وکیل ہوں ۔۔! اب آپ کے ہاتھ میں ہیں مقدمہ ۔۔عدالت میں ۔۔لے کر جائیں گے یا قبول کریں گے
ہم تو اسے ۔۔خوش نصیبی سمجھ کر دل ۔۔میں رکھے گے ۔۔روہان نے نرم لہجے میں کہا
ہم کافی آگے ا چکے ہیں روہان میرا خیال ہے اب ہمیں واپس چلنا چاہیے ۔۔
“نہیں تو میرا دل نہیں ابھی کر رہا ”
اچھا ۔۔اپنا فون تو دیکھاو ۔۔روہان نے جلدی سے کہا
کیوں کیا کرنا ہے ۔۔؟
میں نے دیکھنا ابھی بھی وال ہیپر پر میری ہی تصویر ہے ۔۔یا نیٹ سے لی ہوئی ہے ۔ ویسے تم سے جھوٹ نہیں بولا ۔جاتا شہوار ۔۔روہان نے فون پکڑتے ہوئے کہا
ہاں بھی ۔۔مان لیا وہ تمھاری ہی تصویر تھی ۔۔تو کیا ہوا ۔۔
اچھا تم دیکھاو ۔۔تم نے کس کی تصویر لگائی ہے ۔شہوار نے جلدی سے روہان کا فون پکڑا اور آن کیا جس میں فرنٹ وال پیپر پر ان دونوں کی شادی کی تقریب میں کھینچی تصویر تھی
یہ کیا لکھا ہے ۔۔روہان ہیش ٹیگ “پولیس والے کی پولیس والی”
خدا کا خوف کرو ۔۔روہان مجھے اس پیشے میں نہ داخل کرو ۔۔
کیوں ۔۔!۔اچھا تو ہے ۔۔
نہیں اچھا ۔اسے ڈیلیٹ کرو اور وکیل لکھوں ساتھ پھر تو تم یہ بھی لکھ سکتے تھے
ہیش
ٹیگ وکیل والی کا وکیل ۔۔
نہیں مجھے اس پیشے میں داخل نہیں ہونا ۔۔روہان نے مزاحقکہ خیز لہجے میں کہا ۔۔
ازچھا نہ کرو ۔۔میں بھی ایسا ہی کچھ لکھوں گی وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے جھگڑتے تھے لیکن اب ان دونوں کا رشتہ اسقدر مضبوط ہو چکا تھا کہ کوئی شک کی دیوار انکے رشتے کو کمزور نہیں بنا سکتی تھی ۔۔
تھک تو نہیں گئ ۔۔روہان نے جیسے کہا وہ فورا بولی
نہیں کیونکہ اگر میں نے ہاں کہہ دیا تو فری کی سواری نہیں چاہیے مجھے
اس بات ان دونوں نے قہقا لگا دیا
_________________________
زرش کی شادی کے بعد روہان اور شہوار نے انھیں کھانے کی دعوت پر بلایا تھا
سب کھانے کے ٹیبل پر موجود کھانہ کھانے میں مصروف تھے
جب زرش نے کہا
آپئ میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ آپ دونوں کی شادی کا ایک ریسپشن ہو جائے ویسے بھی ۔۔میری اکلوتی بہن ہیں آپ میری شدید خوائش تھی آپ کی شادی دیکھنے کی ۔۔لیکن آپ دونوں کی شادی ہی بڑے اعلی طریقے سے ہوئی کیوں عاقب کیا خیال ہے صیح کہہ رہی ہوں نہ میں
ہاں روہان ۔۔زرش صیح کہہ رہی ہے چلو اسی بہانے میں بھی اپنے یار کی شادی میں انجوائے کروں گا
اور سوچو کیا نام ہو گا
وکیل اور پولیس ۔۔کپل وئیڈینگ ۔۔
وہ دونوں کب سے زرش اور عاقب کی باتیں سن رہے تھے پھر شہوار بولی
بس بہت ہو گیا تم دونوں کا ۔۔ہماری شادی ہو چکی ہے اب اتنے مہینے بعد یاد آ رہا ہے بارات لانے کا ۔۔اگر زری اتنا ہی شوق تھا تو اپنے جیجا جی کو کہہ دیتی کہ بندوق کی بجائے گھوڑی لے آتے ۔۔
روہان بھائی آپ راضی ہیں ۔۔
ہاں ۔۔ہاں مجھے تو کوئی دکت نہیں ہے لے کے آجاوں گا برات اپنی مسسز کے لیے ۔۔روہان نے جان بھوج کر کہا
روہان ؟ تم بھی ۔۔شہوار نے روہان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اب بچوں کی خوائش بھی تو پوری کرنی ہے ناں ۔۔روہان نے ہنستے ہوئے کہا زرش اور عاقب ہنس دیے
چلو پھر ٹھیک ہے ۔۔میں آج ہی آپی کو اپنے ساتھ لے جاوں گی
جیسے زرش نے کہا روہان فورا بولا
کہاں؟
گھر ۔۔برات لے کر آئیے گا اور لے جائیے گا آپی کو ۔
کیا ۔۔۔ یہ شرط نہیں ناقابل قبول ہے ۔۔میں شہوار کو تمھارے ساتھ ہر گز نہیں جانے دوں گا
ہائے ۔۔2 دن کی تو بات ہے روہان بھائی ویسے بھی تو آپی آپ سے اتنا جھگڑتی ہیں ۔۔زرش نے جان بھوج کر کہا
تمھیں کس نے کہہ دیا کہ شہوار جھگڑتی ہے سراسر ۔۔بے بنیاد الزام ہے میرئ اہلیہ پر ۔۔وہ نہایت ہی شریف خاوند کی شریف ۔۔بیوی ہیں ۔۔
روہان کی بات پر سب ہنس دیے
_______________________
نہیں ۔۔نہیں میں آوٹ نہیں ہوئی ۔۔روہان نے جان بھوج کر مجھے تیز بال کروائی ہے ۔۔عاقب گواہ ہے اس بات کا
ساریہ ۔زرش ۔علی ۔عاقب روہان سب کھڑے شہوار کو دیکھ کر ہنس رہے تھے وہ ہمیشہ کھیل میں بلکل بچپنا کرتی تھی
اور ہمیشہ کی طرح روہان نے بھی اس بار پھر اسکی سائیڈ لی اور کہا
میرے حصے کی باری شہوار کو دے دو ۔۔جیسے روہان نے کہا زرش فورا بولی
نہیں روہان بھائی آپ ہر وقت اپی کا ساتھ نہیں دئیں گے ۔
نہیں ۔۔وہ ایسے اچھی نہیں لگتی ۔روہان نے جیسے کہا
شہوار فورا بولی نہیں مجھے تمھارے کوئی احسانات نہیں چاہیے
__________________________
آج انکی شادی کی پہلی اینورسی ۔۔تھی روہان اور شہوار اکھٹے کینڈل لائیٹ ڈنر پہ گئے تھے
ویسے شہوار میں نے تمھیں پہلی دفعہ دیکھا تھا نہ ۔تم ایسے اکڑتی تھی ۔۔ہے بھی وکیل ۔اور وکیل تو ویسے بھی ضرورت سے زیادہ اکڑتے ہیں ۔۔اس لیے میں نے سوچا میرا جو بھی بیٹا یا بیٹی ہو گی اسے میں
پولیس میں بھرتی کرواوں گا ۔۔جیسے روہان نے کہا شہوار نے طنزا قہقا لگایا
بہت ہی اچھی سوچ ہے ۔۔اور پتا ہے جب میں نے تمھیں دیکھا تھا پہلی دفعہ ۔۔کیسے گنڈوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ۔۔بے فکر ۔۔سوئے ہوئے تھے ۔
اور میں تو وکیل ہی بناوں گی
آگے ۔۔پولیس والے کم ہیں جو اور آ جائے ۔۔
کیا ۔۔کہا کیا کمی ہے پولیس والوں میں وکیلوں سے تو کن رشوت خور ہوتے ہیں ۔۔وہ بنے گا تو پولیس والا ہی ۔۔روہان نے بھی ڈھٹائی سے جواب دیا
اچھا تو پھر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے میں بھی دیکھتی ہوں کیسے پولیس والا بنے گا ۔۔اور رشوت خور ۔۔وکیل والے ۔۔او۔۔۔مسڑ جتنی کرپشن پولیس والے کرتے ہیں نہ وکیل تو ان کے قریب بھی نہیں اور ان سب میں میرا تو شمار نہیں ہوتا ۔۔شہوار نے بھی پورا بدلہ لیا
اچھا ۔۔ تو میرا بھی شمار ان میں نہیں ہے ۔۔
آج بھی ۔۔ ان کے جھگڑے ویسے ہی تھے ۔۔آج بھی وہ ایک دوسرے کے پیشوں کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں رہتے تھے چاہے وہ رومنٹک ڈئیٹ ہو یا پبلک پلیس
_____________________ ختم شدہ _______________________
سب قارئین اپنی رائیں ضرور دئیں آپ لوگوں کو ناول کیسا لگا
دھرے آرام سے سگریٹ سلگا رہے ہو ۔شہوار تیار ہوئے اسکے سامنے کھڑی تھی وہ بے اختیار مسکرا دیا “یہ ہنس کیوں رہے ہو روہان اٹھو ” اور اس کو تو چھوڑو شہوار نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے سلگتی ہوئی سگریٹ پکڑ کر نیچے پھینکی اب اٹھ بھئ جاو
“ہاتھ دو ” روہان نے اپنا بازو آگے کرتے ہوئے کہا
کیا مطلب ؟
اپنا ہاتھ دو ۔۔روہان نے یہ کہتے ہوئے شہوار کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
چلو چلتے ہیں
“تم بھی نہ ” اگر بندہ پہلے اٹھ جائے تو کیا ۔۔ہو جاتا ہے
وہ دونوں شاپنگ مال کی طرف بڑھے زرش کی شادی قریب تھی ۔
اچھا روہان یہ ڈرس دیکھو بلیک یا پینک شہوار نے دونوں ہاتھوں میں ڈرسسز پکڑے اسکے سامنے کھڑی تھی
میرے خیال سے بلیک ۔۔ روہان نے سوچتے ہوئے کہا تو شہوار جھٹ سے بولی
“نہیں مجھے تو پینک اچھا لگ رہا ہے ”
“تو پھر یہی لے لو” روہان نے شائستگی سے کہا
“ہاں یہی لیتی ہوں ”
اچھا ۔۔روہان یہ دیکھو جوتا کونسا لوں “ہیل والا یا سپاٹ؟”
“م۔۔۔میرے خیال سے سپاٹ تم ہر زیادہ سوٹ کرتا ہے” روہان نے پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا
“اچھا لیکن مجھے تو ہیل والا جوتا زیادہ اچھا لگ رہا ہے ” شہوار نے پھر وہی جواب دیا
“تو ٹھیک ہے پھر جو تمھیں پسند ہے وہ لے لو” روہان نے سانس لیتے ہوئے کہا وہ تب سے اس کے ساتھ یہی کر رہی تھی ہر چیز میں اسکی پسند پوچھتی لیکن کوئی بھی چیز اسکی پسند کی نہیں خریدی ۔
سب شاپنگ کرنے کے بعد وہ جب گاڑی میں بیٹھے تھے
تب روہان نے کہا
“عجیب بیوی ہے میری ۔۔ہر چیز میں میری رائے لی لیکن میری پسند کی ایک چیز بھی نہیں لی ”
کیا مطلب روہان ۔۔تم سے رائے تو لی تھی شہوار نے جان بھوج کر مذاقا طنز کیا
ہاں ۔۔ہاں ۔تم نے تو ہر چیز میری پسند کی لی ہے ۔۔چلے بھئ ۔۔زہے نصیب ہم ۔۔آپ کا یہ بھی ظلم برداشت کر لیتے ہیں ۔روہان نے کہا اور گاڑی چلا دی
ابھی وہ راستے میں تھے جب ۔۔روہان نے گاڑی روکی
اچھا ایک منٹ وئیٹ کرو ۔۔میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں
روہان نے کہا اور گاڑی سے اترا اور قریب دکان کی طرف بڑھا
اس دوران شہوار بھی گاڑی سے اتر کر باہر کا مناظر کو تکنے لگی کہ اچانک ایک لڑکا اسکے سامنے کھڑا ہو گیا اور بے اختیار پوچھا
“کیا آپ سینگل ہیں” جیسے اس لڑکے نے پوچھا ابھی شہوار جواب دینے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے روہان نے آ کر شہوار کا ہاتھ پکڑا اور اس لڑکے کی طرف ایک تیخی نگاہ ڈالی اور اونچی آواز میں کہا
“چلیے مسسز روہان آگے بہت لیٹ ہو گئے ہیں” یہ سنتے ہی لڑکا حیران رہ گیا
شہوار کی ہنسی چھوٹ گئ ۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھے ہنس رہی تھی اور روہان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“تم کتنا جیلس ہوتے ہو روہان؟”
تمھیں آج پتا چلا ہے ! میں تو ہمیشہ ہر اس شخص سے جیلس ہوتا ہوں جو تمھارے آس پاس بھی بھٹکتا ہے وہ۔۔یاد نہیں تمھارے کولیگ پروفیسر فیضان صاحب کیا حال کیا تھا اسکا ۔
روہان نے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔یاد آیا ویسے کتنے ظالم تھے تم ۔اس بیچارے کا ہاتھ ہی مروڑ دیا ۔صرف سلام ہی لی تھی اسنے شہوار نے دکھ کا اظہار کیا
تمھارے ساتھ پریزینٹیشن دینے لگا تھا ۔فاصلہ اتنا کم تھا تو میں نے سوچا میں ہی دے دیتا ہوں ۔۔اسکا بندو بست کیا اور میں آ گیا روہان نے ہنستے ہوئے کہا
او۔۔۔اچھا ۔۔میں تبھی سوچوں وہ اب جب بھی مجھ سے ملتا ہے ۔تو منہ سے سلام لیتا ہے ہاتھ نہیں ملاتا اور بھابھی جی! کر کے مخاطب کرواتا ہے ۔۔طوبا ہے روہان ۔ایسے بھی کوئی ڈراتا ہے کیسی کو ۔شہوار نے کہا
“جی ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔۔وہ روہان علی خان کی بیوی کے ساتھ ۔کھڑا ہونا چاہ رہا تھا”
__________________________
ہر طرف خوشیوں کو شہنایاں تھی بینڈ باجے ۔۔سے سارے گھر میں رونق چھائی ہوئی تھی ۔شہوار نے وہی سب کچھ پہنا تھا جو پہلے روہان نے سلیکٹ کیا تھا ۔اسنے اسے بتائے بغیر وہی ڈرس جوتا وغیرہ دوسری چیزیں پیک کروائی تھی جو پہلے روہان نے پسند کی تھی۔بلیک ڈرس ، سپاٹ ہی جوتا ۔۔جیسے وہ تیار ہو کر ۔۔باہر نکلی ۔روہان دیگر مہمانوں کے پاس کھڑا تھا
شہوار اسے تو ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی تھی چاہے پھر وہ بلیک کورٹ میں ہی کیوں نہ ہو روہان ایک منٹ کے لیے اپنی پلیکں جھپک نہ پایا ۔۔اور اسکی طرف بڑھا
ابھی وہ کچھ کہنے لگا تھا کہ شہوار جلدی سے آگے بڑھی اور کہا
“میں نے کہا بھی آپ سے ۔۔کہ واسکٹ پہن لیتے کم از کم شادی میں دیگر لڑکیاں تو آپکو شادی شادہ سمجھتئ کیسے انکے سامنے اپنے بالوں کو ہواوں میں اڑا رہے ہیں
ارے واہ میری بیوی جیلس ہو رہی ہے ۔۔۔ویسے تم بہت پیاری لگ رہئ ہو اور یہ تو میری چوائس تھی نہ
ہاں میں وہی پہنوں گی نہ جو تمھیں پسند ہے ۔۔شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
انکے قریب فاصلے پر سکینہ بیگم کے پاس چند عورتیں بھی موجود تھی جب ان میں سے ایک نے کہا
“اچھا یہ وکیل اور پولیس کی جوڑی ہے ماشااللہ دونوں ایک ساتھ بہت ہی اچھے لگتے ہیں اللہ خوش رکھے ۔۔
سکینہ بیگم انکی طرف دیکھ کر مسکرا دی اور کہا
جی ۔۔آمین ۔بہت ہی اچھے ہیں
شادی کی رسموں بہت اچھے طریقے سے نبھایا گیا نکاح کا وقت تھا شہوار نے زرش کے اوپر چادر اوڑھ دی ۔۔قازی صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور نکاح کی رسم کا آغاز کیا ۔وہ ساتھ زرش کے بیٹھے تھی (“کہو قبول ہے ۔۔بولو ورنہ کیا تم چاہتی ہو یہ بے قصور مرے نہیں نہ تو چپ چاپ بولو۔۔”) شہوار کے دل و دماغ میں ماضی کی ایک ہلکی سی لہر دوڑی اسے ابھی بھی اچھے سے یاد تھا کیسے روہان نے اس سے ناکح نامے پر دستخط کروائے تھے وہ سب یہ سوچ کر بے اختیار مسکرا دی ۔۔وہ اب ماضی تھا اور گزر چکا ۔
_________________________
وہ دونوں رات کو گھر آ گئے تھے ۔۔شادی سے آکر دونوں ہی بہت تھک چکے تھے ۔
جب روہان فورا اسکے پاس آیا
شہوار ۔۔اٹھو ۔۔وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا سارا جیولری کا سامان ایک ڈبے میں ڈال رہی تھی
ہاں
اٹھو ۔۔چلو چلتے ہیں جیسے روہان نے کہا وہ فورا بولی
کہاں چلتے ہیں روہان رات ہونے کو ہے ۔۔اور تم ۔۔یہ کہہ رہے ہو ۔مجھ میں گنجائش نہیں ہے میں بہت تھک چکی ہوں
چلو۔۔۔اٹھو ۔۔
کیوں زبردستی ہے ۔شہوار نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کچھ بھی سمجھ لو ۔۔بیوی ہو زبردستی بھی کر سکتا ہوں ۔۔روہان نے آگے ہوتے ہوئے کہا
او۔۔۔بھائی صاحب روکو ۔۔میں نہیں جا رہی ۔۔روہان
“اٹھا کر لے جاوں گا ”
ہاتھ لگا کر دیکھو
“چیلنج مت کرنا در شہوار ۔۔پورا کر دوں گا یہ کہتے ہوئے روہان آگے بڑھنے لگا تھا کہ شہوار جلدی سے اٹھ گئ
“اچھا !۔۔اچھا چلو۔”
روہان نے بے اختیار قہقا لگایا
جانا کہاں ہے ؟ شہوار نے سڑھیاں اترتے ہوئے کہا
پتا نہیں ۔۔روہان نے کار کی چابی کو گھماتے ہوئے کہا
مطلب ؟ پتا نہیں ہم جا کہا رہے ہیں شہوار نے حیرانگی سے پوچھا
ایک لمبی سی خاموش سڑک میں اور تم ۔۔صرف ہوں اور کوئی نہیں ۔۔
ک۔۔۔کیا؟ شہوار روکی
ہم پیدل جا رہے ہیں ۔
جی ۔۔۔پیدل ۔۔روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
ن۔۔نہیں روہان میں نہیں جاوں گی اور ویسے بھی کہاں ایک لمبی سی سڑک ملتی ہے ۔
میرے ساتھ چلو گی ۔۔تو خر راستے سیدھے ہو جائیں گے ۔۔روہان نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا
شہوار بے اختیار مسکرا دی اور اپنا ہاتھ روہان کے ہاتھ میں تھما دیا
چلو دیکھتے ہیں
وہ گھر سے کچھ دور میل آگے نکل آئے تھے
“کبھی سوچا تھا ” روہان نے سوال کیا
“اسطرح تو نہیں سوچا تھا ۔۔اور کم از کم اپنی زندگی میں نہیں ۔”
“لیکن میں نے تو سوچا تھا ”
او اچھا ۔۔پہلی نظر میں دیکھتے ہی محبت ہو گئ تمھیں لیکن میں تو تم سے اتنا جھگڑی تھی ۔۔شہوار نے حیرانگی سے پوچھا
غلط فہمی ہے تمھاری پہلی ملاقات میں تم تو ۔۔مجھے بہت سڑئیل اور ڈھیٹ ائیڈوکیٹ لگی تھی ۔روہان مزاحیہ لہجے میں کہا
کیا ڈھیٹ ؟ اور تم بھی مجھے نہایت ہی کام چور اور نکمے پولیس والے لگے تھے ۔۔شہوار نے بھی بدلہ پورا کیا
اچھا روہان پہلی دفعہ محبت کب ہوئی تھی ۔۔
جب تم نے مجھے چین سموکر کہا تھا تب روہان نے مسکراتے ہوئے کہا
کیا؟ شہوار چونکی
‘ ہاں ۔”
اور تمھیں ۔۔روہان نے جیسے پوچھا شہوار وہی خاموش ہو گئ ۔۔
مجھے ۔۔تو تم سے محبت نہیں ہوئی۔۔
“اتنی سنگ دل ہو ” روہان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے چل رہے تھے
اچھا ایک بات کہوں ۔ روہان نے کہا
“ہاں کہو ۔” شہوار نے جلدی سے کہا
اچھا ایک دفعہ میری طرف دیکھو اور
“کہو مجھ سے محبت ہے ”
کتنے بے شرم شوہر ہو ۔۔خود بیوی سے اقرار کروا رہے ہو۔۔۔شہوار نے ہنستے ہوئے کہا
جب بیوی نہیں کہے گئ شوہر کو تو کہنا پڑے گا ۔
وہ تھوڑا سا آگے ۔۔بڑھا ۔۔شہوار نے اسے روکا اور کہاں
چلیے ۔۔ائیڈوکیٹ در شہوار ۔۔محبت کی عدالت میں اپنے گھٹنے ٹیکتی ہے اور یہ اقرار کرتی ہوں ۔۔یو مائی لارڈ مجھے ۔۔آئی ایس پی روہان علی خان سے ہر دفعہ کے تحت محبت ہے ۔۔اور بے انتہا
جیسے شہوار نے کہا وہ بے اختیار مسکرا دیا
کیا انداز ہے ۔میڈم آپ کا !
ظاہر سی بات ہے وکیل ہوں ۔۔! اب آپ کے ہاتھ میں ہیں مقدمہ ۔۔عدالت میں ۔۔لے کر جائیں گے یا قبول کریں گے
ہم تو اسے ۔۔خوش نصیبی سمجھ کر دل ۔۔میں رکھے گے ۔۔روہان نے نرم لہجے میں کہا
ہم کافی آگے ا چکے ہیں روہان میرا خیال ہے اب ہمیں واپس چلنا چاہیے ۔۔
“نہیں تو میرا دل نہیں ابھی کر رہا ”
اچھا ۔۔اپنا فون تو دیکھاو ۔۔روہان نے جلدی سے کہا
کیوں کیا کرنا ہے ۔۔؟
میں نے دیکھنا ابھی بھی وال ہیپر پر میری ہی تصویر ہے ۔۔یا نیٹ سے لی ہوئی ہے ۔ ویسے تم سے جھوٹ نہیں بولا ۔جاتا شہوار ۔۔روہان نے فون پکڑتے ہوئے کہا
ہاں بھی ۔۔مان لیا وہ تمھاری ہی تصویر تھی ۔۔تو کیا ہوا ۔۔
اچھا تم دیکھاو ۔۔تم نے کس کی تصویر لگائی ہے ۔شہوار نے جلدی سے روہان کا فون پکڑا اور آن کیا جس میں فرنٹ وال پیپر پر ان دونوں کی شادی کی تقریب میں کھینچی تصویر تھی
یہ کیا لکھا ہے ۔۔روہان ہیش ٹیگ “پولیس والے کی پولیس والی”
خدا کا خوف کرو ۔۔روہان مجھے اس پیشے میں نہ داخل کرو ۔۔
کیوں ۔۔!۔اچھا تو ہے ۔۔
نہیں اچھا ۔اسے ڈیلیٹ کرو اور وکیل لکھوں ساتھ پھر تو تم یہ بھی لکھ سکتے تھے
ہیش
ٹیگ وکیل والی کا وکیل ۔۔
نہیں مجھے اس پیشے میں داخل نہیں ہونا ۔۔روہان نے مزاحقکہ خیز لہجے میں کہا ۔۔
ازچھا نہ کرو ۔۔میں بھی ایسا ہی کچھ لکھوں گی وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے جھگڑتے تھے لیکن اب ان دونوں کا رشتہ اسقدر مضبوط ہو چکا تھا کہ کوئی شک کی دیوار انکے رشتے کو کمزور نہیں بنا سکتی تھی ۔۔
تھک تو نہیں گئ ۔۔روہان نے جیسے کہا وہ فورا بولی
نہیں کیونکہ اگر میں نے ہاں کہہ دیا تو فری کی سواری نہیں چاہیے مجھے
اس بات ان دونوں نے قہقا لگا دیا
_________________________
زرش کی شادی کے بعد روہان اور شہوار نے انھیں کھانے کی دعوت پر بلایا تھا
سب کھانے کے ٹیبل پر موجود کھانہ کھانے میں مصروف تھے
جب زرش نے کہا
آپئ میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ آپ دونوں کی شادی کا ایک ریسپشن ہو جائے ویسے بھی ۔۔میری اکلوتی بہن ہیں آپ میری شدید خوائش تھی آپ کی شادی دیکھنے کی ۔۔لیکن آپ دونوں کی شادی ہی بڑے اعلی طریقے سے ہوئی کیوں عاقب کیا خیال ہے صیح کہہ رہی ہوں نہ میں
ہاں روہان ۔۔زرش صیح کہہ رہی ہے چلو اسی بہانے میں بھی اپنے یار کی شادی میں انجوائے کروں گا
اور سوچو کیا نام ہو گا
وکیل اور پولیس ۔۔کپل وئیڈینگ ۔۔
وہ دونوں کب سے زرش اور عاقب کی باتیں سن رہے تھے پھر شہوار بولی
بس بہت ہو گیا تم دونوں کا ۔۔ہماری شادی ہو چکی ہے اب اتنے مہینے بعد یاد آ رہا ہے بارات لانے کا ۔۔اگر زری اتنا ہی شوق تھا تو اپنے جیجا جی کو کہہ دیتی کہ بندوق کی بجائے گھوڑی لے آتے ۔۔
روہان بھائی آپ راضی ہیں ۔۔
ہاں ۔۔ہاں مجھے تو کوئی دکت نہیں ہے لے کے آجاوں گا برات اپنی مسسز کے لیے ۔۔روہان نے جان بھوج کر کہا
روہان ؟ تم بھی ۔۔شہوار نے روہان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اب بچوں کی خوائش بھی تو پوری کرنی ہے ناں ۔۔روہان نے ہنستے ہوئے کہا زرش اور عاقب ہنس دیے
چلو پھر ٹھیک ہے ۔۔میں آج ہی آپی کو اپنے ساتھ لے جاوں گی
جیسے زرش نے کہا روہان فورا بولا
کہاں؟
گھر ۔۔برات لے کر آئیے گا اور لے جائیے گا آپی کو ۔
کیا ۔۔۔ یہ شرط نہیں ناقابل قبول ہے ۔۔میں شہوار کو تمھارے ساتھ ہر گز نہیں جانے دوں گا
ہائے ۔۔2 دن کی تو بات ہے روہان بھائی ویسے بھی تو آپی آپ سے اتنا جھگڑتی ہیں ۔۔زرش نے جان بھوج کر کہا
تمھیں کس نے کہہ دیا کہ شہوار جھگڑتی ہے سراسر ۔۔بے بنیاد الزام ہے میرئ اہلیہ پر ۔۔وہ نہایت ہی شریف خاوند کی شریف ۔۔بیوی ہیں ۔۔
روہان کی بات پر سب ہنس دیے
_______________________
نہیں ۔۔نہیں میں آوٹ نہیں ہوئی ۔۔روہان نے جان بھوج کر مجھے تیز بال کروائی ہے ۔۔عاقب گواہ ہے اس بات کا
ساریہ ۔زرش ۔علی ۔عاقب روہان سب کھڑے شہوار کو دیکھ کر ہنس رہے تھے وہ ہمیشہ کھیل میں بلکل بچپنا کرتی تھی
اور ہمیشہ کی طرح روہان نے بھی اس بار پھر اسکی سائیڈ لی اور کہا
میرے حصے کی باری شہوار کو دے دو ۔۔جیسے روہان نے کہا زرش فورا بولی
نہیں روہان بھائی آپ ہر وقت اپی کا ساتھ نہیں دئیں گے ۔
نہیں ۔۔وہ ایسے اچھی نہیں لگتی ۔روہان نے جیسے کہا
شہوار فورا بولی نہیں مجھے تمھارے کوئی احسانات نہیں چاہیے
__________________________
آج انکی شادی کی پہلی اینورسی ۔۔تھی روہان اور شہوار اکھٹے کینڈل لائیٹ ڈنر پہ گئے تھے
ویسے شہوار میں نے تمھیں پہلی دفعہ دیکھا تھا نہ ۔تم ایسے اکڑتی تھی ۔۔ہے بھی وکیل ۔اور وکیل تو ویسے بھی ضرورت سے زیادہ اکڑتے ہیں ۔۔اس لیے میں نے سوچا میرا جو بھی بیٹا یا بیٹی ہو گی اسے میں
پولیس میں بھرتی کرواوں گا ۔۔جیسے روہان نے کہا شہوار نے طنزا قہقا لگایا
بہت ہی اچھی سوچ ہے ۔۔اور پتا ہے جب میں نے تمھیں دیکھا تھا پہلی دفعہ ۔۔کیسے گنڈوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ۔۔بے فکر ۔۔سوئے ہوئے تھے ۔
اور میں تو وکیل ہی بناوں گی
آگے ۔۔پولیس والے کم ہیں جو اور آ جائے ۔۔
کیا ۔۔کہا کیا کمی ہے پولیس والوں میں وکیلوں سے تو کن رشوت خور ہوتے ہیں ۔۔وہ بنے گا تو پولیس والا ہی ۔۔روہان نے بھی ڈھٹائی سے جواب دیا
اچھا تو پھر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے میں بھی دیکھتی ہوں کیسے پولیس والا بنے گا ۔۔اور رشوت خور ۔۔وکیل والے ۔۔او۔۔۔مسڑ جتنی کرپشن پولیس والے کرتے ہیں نہ وکیل تو ان کے قریب بھی نہیں اور ان سب میں میرا تو شمار نہیں ہوتا ۔۔شہوار نے بھی پورا بدلہ لیا
اچھا ۔۔ تو میرا بھی شمار ان میں نہیں ہے ۔۔
آج بھی ۔۔ ان کے جھگڑے ویسے ہی تھے ۔۔آج بھی وہ ایک دوسرے کے پیشوں کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں رہتے تھے چاہے وہ رومنٹک ڈئیٹ ہو یا پبلک پلیس
_____________________ ختم شدہ _______________________
سب قارئین اپنی رائیں ضرور دئیں آپ لوگوں کو ناول کیسا لگا
Leave a Reply