نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر1
اسلام آباد کے علاقے میں موجود ایک بڑے بنگلے کے اگے سونگھتے ہوئے چوکیدار نے ٹائم دیکھا۔صبع کے چھے بج رہے تھے اسکی ڈیوٹی ختم ہو گئی تھی شام پھر اسے انا تھا۔
گھڑی دیکھ کر پٹھان بابا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور بڑبڑایا۔ایک دو تین دس تک پہنچنے کر سارے بنگلے کی لائٹ آن ہو چکی تھی الارم بج رہا تھا نیند میں غرا حمزہ نے سیل پر ہاتھ مارا اس کے نتیجے میں الارم بند ہوتا سیل ہی بستر سے نیچے جا گرا۔سیل بھی اپنے مالک کی طرح ڈھیٹ تھا بج رہا تھا حمزہ نے ایک طویل انگڑائی لی اور سامنے گھڑی پر نظر ڈالی اچھل پڑا۔ وہ واش روم بھاگا باپ رے چھے ہو گئے ۔پینٹ اور بنیان میں گندے پر تولیا لٹکائے کچن پہنچا فریج سے انڈے دودھ نکلا اور شروع ہو گیا ارے میری جان کے دشمن گڈو پیپو اٹھ بھی جاؤ کام پر نہیں جانا اس کمرے میں دو بییڈ پر گول مٹول دو بچے چار اور چھے سال کے گہری نیند سو رہے تھے تبھی حمزہ کی چھنگڑتی آواز سے دونوں معصوم شیطان آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھے
گڈو نے دعا کی ایک تو چاچو بھی نا اللہ کرے شادی ہو جائے ہم تو سکون سے سو سکیں۔ پیپو نے بڑے زور و شور سے سر ہلا کر آمین کہا۔ گڈو نے میز سے ملک اٹھایا۔گڈ مارننگ چاچو ہم اٹھ گئے ایک دوسرے سے کرتے جھگڑتے تیار ہو کر بڑے سے کچن میں آئے۔دونوں ایک ساتھ بولے اسلام و علیکم چاچو لمبے قد ورزشی جسم کے مالک حمزہ نے سلام کا جواب ہوئے دونوں کا سر سے پیر تک جائزہ لیا
گڈ چھے سال کا ہو گیا کام پر جا، رہا پر بوٹ کے لیس تک باندھنے نہیں آتے اس نے اپنے پیروں کو دیکھا اور بڑبڑایا چھے سال سے ایسی جتا رہے جیسے ان کی طرح بوڑھا ہو گیا۔ حمزہ نے میز پر سکے ہوئے ٹوسٹ انڈے اور دودھ رکھا دیوار سے ٹیک لگائے سرخ سفد گول مول پیپو کو پکارا
پیپو صاحب
جی چاچو
صابزادے کام سے دیر ہو رہی جلدی ناشتہ کر لو۔
گڈو پیپو کو ناشتے میں لگا کر اپنے کمرے میں تیار ہونے گیا تیار ہو کر باہر آئے حسب عادت گڈو شیشے کے اگے اور پیہو ابھی نیند میں جھول رہا تھا ۔حمزہ نے دونوں کے بیگ اٹھائے اور جیب میں رکھے اور ہارن پر ہاتھ رکھ دیا دونوں بھائی ہارن کی آواز پر بھاگے آئے۔
حمزہ نے دونوں کو جیپ میں بٹھایا اور چوکیدار کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کیا۔ جیپ چلاتے حمزہ نے گڈو کو ناراض بیٹھے دیکھا
کیا ہوا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟ گڈو نے شکوہ کیا چاچو بالوں میں ٹھیک سے برش بھی نہیں کرنے دیا
گڈو یار ہر وقت آئنے کے اگے ریتا ہے ہیرو شیرو بننے کا، ارادہ ہے تو کام دل لگا کر کیا کر چاچو ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیا پتہ کب چانس لگ جائے ۔
دودھ کے دانت گرے نہیں چانس میں ابھی کیبل کٹواتا ہوں تھوڑی دیر میں جیپ ایک سکول کے سامنے رکی اور کام کے بعد چوکیدار کے ساتھ گھر چلے جانا کھانا بنا کر رکھ آیا بابا گرم کر دیں گے ۔اور دونوں کا لنچ بکس ڈالا ہے بیگ میں ۔دونوں شیطان حمزہ کے گال چوم کر اندر کی طرف بھاگے ۔
دونوں کے جاتے ہی حمزہ اپنے تھانے کی طرف روانہ ہوا جیپ کے پارک ہوتے ہی سب وہاں موجود الرٹ ہو گئے ۔سب کے سیلوٹ کا سر ہلا کر جواب دیتے آفس کی جانب بڑھا۔
وہ مگن ہوا فائل دیکھ رہا تھا اردلی چائے رکھ کر جا چکا تھا فون بجا کمشنر صاحب لائن پر تھے ۔ حمزہ مائے ڈئیر بوائے رات آفیسر کلب میں ڈینر ہے یاد دانی کروا رہا ضرور آنا سر رات دیر تک بچوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا میری طرف سے معزرت قبول کر لیں تم ان کو بوڈینگ سکول کیوں نہیں چھوڑ آتے ان کے لیے بھی اچھا ہے تمارے لئے بھی سر آپ جانتے ہیں بھیا بھابھی کے انتقال کے بعد میں ان کو سنبھال رہا ہوں گھر کے ہوتے ان کو بے گھر نہیں کرنا چاہتا تو پھر ینگ بوائے شادی کر لو
سر کون ایسی لڑکی مجھ سے شادی کر کے ان یتیموں کی ماں بننا پسند کرے گی۔
تم ڈھونڈو نرم مزاج سلجھی لڑکی۔نہیں تو میری سالی ہے گھر آؤ ملواتا ہوں
فون بند کر کے سر پکڑ کر بیٹھ گیا کمشنر صاحب اپنی نک چڑی سالی سے شادی کروانا چاہتے ہیں
پلین اسلام آباد انڑنشینل ائرپورٹ پر لینڈ کر رہا تھا بار بار سیٹ بیلٹ باندھنے کی آواز آرہی تھی اگے سیٹ پر سوئی ہوئی بیس، سالہ لڑکی کو ائرہوسٹس نے اس نخریلی کو آواز دی۔
اسکیوزمی میم پلین لینڈ ہو گیا۔ مریم نے ائر ہوسٹس ہو دیکھا پھر اپنا بال ٹھیک کرنے لگی پر سکون شہر اسلام آباد کی سر زمین جگمگا رہی تھی اپنے والدین کے انتقال کے دس سال بعد قدم رکھ رہی تھی باہر نکلی تو اسکے تایا اقبال احمد اور ان کے بیٹے زوہیب نے اس کا استقبال کے لیے اس کے نام کا بورڈ لے کر کھڑے تھے ۔
دونوں باپ بیٹا، بڑی گرم جوشی سے ملے اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔
مریم نے سنجیدگی سے پوچھا انکل آپ نے مجھے اتنا ارجنٹ کیوں بلوایا سب ٹھیک تو ہے ۔؟ بیٹا زندگی کا بھروسہ نہیں اب تم بیس سال کی ہو گئی اب تمارے ماں باپ کی جائیداد تمارے حوالے کرنا چاہتا ہوں تمارے بابا، کے وکیل بھی تم سے ملنا چاہتے ہیں انہوں نے اپنی انکھوں کی نمی صاف کی انکل پلیز میں یہ سب نہیں کر پاؤں گی میں ابھی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں بعد میں بزنس سنبھال لوں گی مریم کی اس بات پر زوہیب نے اپنے بابا کو دیکھا
ڈیڈ ابھی تو مریم آئی ہے آپ اس سے بزنس کی باتیں کرنے لگے۔آرام کرے گھومے پھرے مریم کو دیکھتے بولا کیوں مریم؟
انکل آپ پریشان نہ ہو آپ وکیل کو بلوا لیں میں پیپرز دیکھ کر وکیل سے ڈسکس کر کے سائن کروں گی پھر واپس چلی جاؤں گی ۔
اتنی جلدی واپس نہیں جانے دونگا میرے مرحوم بھائی کی تم نشانی ہو سالوں بعد آئی ہو خبر دار جو واپس جلدی سوچا، تو بڑے پیار سے اسے ڈانٹا۔ ڈیڈ باقی بعد میں گھر آ گیا مریم کو لے کر اندر چلیں زوہینب نے بڑی سی کوٹھی کے اگے کار عوک کر ہارن بجایا چوکیدار نے گیٹ کھولا سامنے ہی تائی مریم کے استقبال کے لئے کھڑی تھی مریم کے قریب آتے ہی پیار سے اس کے گلے میں یار ڈالا جیسے مریم نے بڑے سےآرام سے اتار دیا۔
وہ پھولوں کا ہار ان کے ہاتھ میں واپس دے کر بولی پلءز انٹی اس کی نمی میرے کپڑے خراب کر دے گی
ابھی اگے بڑھی ہی تھی ملازمہ مرچیں لے کر اس کی نظر اتارنے لگی۔
وہ کھانستے ہوئے بولی پلیز اسٹاپ دس افففف دھواں ۔۔۔۔۔
تائی جو ساکت کھڑی تھی اسے دیکھ کر بولی انٹی مجھے میرا روم بتا دیں میں آرام کرنا چاہتی ہوں ۔ وہ بڑے مان سے بولی مریم بیٹا تم مجھے انٹی مت کہو میں تماری تائی امی ہوں
مریم اکتائے ہوئے بولی روم پلیزززز۔
پاس کھڑا زوہیب اگے بڑھا اس مریم میں تمہیں تمارا روم بتاتا ہوں ۔ تایا نے کہا بیٹا تھوڑی دیر رسٹ کر کے آؤ پھر تمہیں آفس کے لوگوں سے ملوانا ہے پیچھے سے تایا اقبال نے مخاطب کیا
میں تھک گئی ہوں لمبا، سفر کر کے آئی ہوں اب لوگوں کو پھر کبھی بلوا لینا۔ اقبال صاحب مایوسی سے بولے ٹھیک ہے بیٹا تم آرام کرو مریم کے جاتے ہی تائی نہیں اقبال صاحب کو گھورا آپ بڑا بیٹی بیٹی کرتے تھے انداز دیکھا خالہ نے کیسے بگاڑ کر رکھ دیا اسے آپ بھی ہوش میں آ جائیں لندن کی پڑھی لکھی لڑکی پیپرز پڑھے بنا سائن نہیں کرے گی
فہمیدہ تم منہ بند رکھو چار دن کے لیے آئی ہے پیپرز، سائن کرے گی چلی جائے گی ۔
اقبال صاحب بیزاری سے بولے۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے فائلوں سے سر اٹھا کر گھڑی دیکھی شام کے سات بج رہے تھے ۔
مارا گیا گڈو اور پیپو سے شام کرکٹ کا، وعدہ کیا تھا ۔تیزی سے سب سمیٹا اور جیپ کی طرف بھاگا جیپ دوڑا کر فام ہاوس پہنچا مین گیٹ کھول کر جیپ اندر لایا۔ کیپ اتارتا ہوا اندر آیا گڈو پیپو کے جوتے الٹے پلٹے پڑے منہ چڑا رہے تھے حمزہ نے جوتے اٹھا کر شوریک میں رکھے۔اور دونوں شیطان فل والیم میں ٹی وی لگا، کر صوفے پر آئسکریم کھا، رہے تھے حمزہ نے ایک نظر ٹی وی پر اچھلتی لڑکیاں دیکھ کر ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا
میوزک کے بند ہوتے ہی پیپو ساکت سا ہو گیا۔ دونوں ایک ساتھ چلائے کیا چاچو ٹی وی کیوں بند کیا
حمزہ نے دونوں کو گھورا نہ سلام نہ دعا ٹی وی کی فکر۔۔۔ گڈو نے آدب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کیا
پیپو نے بھی آسکریم میز پر رکھ کر اچک اچک کر اٹھانے کا، اشارہ کیا حمزہ نے جھک کر اسے گود اٹھا لیا۔ پہلے تو پیپو نے حمزہ کے گالوں پر کس کی پھر فرمائش داغی
چاچو مجھے کل کام پر نہیں جانا کیوں جی میں بھی تو روز کام جاتا ہوں تم کیوں نہیں جاؤ گے؟ پھولے پھولے گالوں کو چومتا ہوا بولا آپ اپنے کام پر پولیس پولیس کھیلتے ہو اور ہمیں لکھنا پڑھنا پڑھتا اب پوئم بھی یاد کرنی ہوتی پیپو نے دردناک شکوہ کیا اور ہوم ورک بھی ہے
حمزہ نے اسے اتارا اچھا بہت ہو گیا میں چینج کر کے آتا ہوں آج ڈینر باہر کریں گے
پیپو اور میرا ہوم ورک
گڈو اچھل پڑا گڈو کر دے گا
نہیں چاچو یہ غلط ہے آپ اس موٹے کا ہوم ورک ہمیشہ مجھ سے کرواتے ہیں ۔
شام ڈھل چکی تھی حمزہ بچوں کو لے کر اپنے پرسنل بنائے جم میں آچکا تھا تینوں کی ایکسر سائز مثالی تھی
آدھا کلو والے ویٹ ان کے لیے تھے جو چاچو کی کاپی کرتے تھے ابھی بھی بلیک ٹراؤزر اور بنیان میں چھے فٹ کا ورزشی جسم کا مالک حمزہ ٹریڈ پر دوڑ رہا تھا چار سالہ پیپو اس کے کندھے پر بیٹھتا ہوا تھا گڈو بھی اپنے ٹریڑ پر بنیان میں جس سے اس کی چھوٹی سی توند نمایاں تھی گڈو منہ بسورے چاچو بس، اب بہت تھک گئے ابھی تک تو ایک گھنٹہ ہوا چلو اٹھک بٹھک کرو
گڈو نے پوچھا چاچو آپ شادی کب کرو گے ۔؟ کیوں جی میری شادی کی کیوں فکر ہے میں کون سا بوڑھا ہو گیا ہوں ٹی وی پر بتا رہے تھے جن کی شادی ٹائم پر نہیں ہوتی وہ پاگلوں جیسے ہوتے ہیں
حمزہ نے تیوری چڑھائی تم یہ پروگرام کب سے دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے کے گڈو کچھ بولتا اور چاچو کا پارہ گرم ہوتا پیپو نے ٹانگ اڑائی چاچو بھوک پیزا کھانا ہے چلو دونوں جلدی سے تیار ہو جاؤ پیزا ہٹ جاتے ہیں
**************************for more books – urdunovels.info
شام ڈھل چکی تھی مریم معصوم چہرے کے ساتھ سو رہی تھی جیسے دیکھ کر کوئی بھی دھوکا کھا سکتا تھا ۔ وقفے وقفے سے دروازه بج رہا تھا جس سے مریم کی نیند خراب ہو رہی تھی ۔وہ انگڑائی لے کر ابھی اٹھی نہیں تھی کے ملازمہ دروازه کھول کر اندر داخل ہوئی
مریم بی بی بڑے صاحب آپ کو چائے پر بلوا رہے ہیں ۔ مریم نے ناگواری سے اسے گھورا تم کس کی اجازت سے اندر آئی منہ کیوں بند ہے
ملازمہ اس کے تیور دیکھ کر گھبرا کر اَلٹے قدم باہر چلی گئی ۔ مریم اپنے سیاہ لمبے بال سمیٹتی اٹھی لانگ اسکرٹ نکال کر فریش ہونے چلی گئی تیار ہو کر نیچے آئی جہاں تائی امی میز سجائے انتظار کر رہی تھی
بڑے پیار سے مخاطب ہوئی بیٹا آؤ میرے پاس بیٹھو کیا پیو گی چائے یا کافی؟؟
یہاں بہت گرمی ہے تائی انٹی میرے لیے فریش اورینج جوس بنوا دیں۔ تائی نے ملازمہ کو اشارہ کیا وہ فوراً جوس لے کر آئی مریم نے ایک گھونٹ لیا مسمی کا بیج اس کے منہ میں گیا او شٹ تمہیں جوس بنانا نہیں آتا تائی نے ملازمہ کی جان چھڑائی امیرن جاؤ دوبارہ بنا کر لاؤ
اور اچھے سے چھان کر لانا۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
گھڑی دیکھ کر پٹھان بابا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور بڑبڑایا۔ایک دو تین دس تک پہنچنے کر سارے بنگلے کی لائٹ آن ہو چکی تھی الارم بج رہا تھا نیند میں غرا حمزہ نے سیل پر ہاتھ مارا اس کے نتیجے میں الارم بند ہوتا سیل ہی بستر سے نیچے جا گرا۔سیل بھی اپنے مالک کی طرح ڈھیٹ تھا بج رہا تھا حمزہ نے ایک طویل انگڑائی لی اور سامنے گھڑی پر نظر ڈالی اچھل پڑا۔ وہ واش روم بھاگا باپ رے چھے ہو گئے ۔پینٹ اور بنیان میں گندے پر تولیا لٹکائے کچن پہنچا فریج سے انڈے دودھ نکلا اور شروع ہو گیا ارے میری جان کے دشمن گڈو پیپو اٹھ بھی جاؤ کام پر نہیں جانا اس کمرے میں دو بییڈ پر گول مٹول دو بچے چار اور چھے سال کے گہری نیند سو رہے تھے تبھی حمزہ کی چھنگڑتی آواز سے دونوں معصوم شیطان آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھے
گڈو نے دعا کی ایک تو چاچو بھی نا اللہ کرے شادی ہو جائے ہم تو سکون سے سو سکیں۔ پیپو نے بڑے زور و شور سے سر ہلا کر آمین کہا۔ گڈو نے میز سے ملک اٹھایا۔گڈ مارننگ چاچو ہم اٹھ گئے ایک دوسرے سے کرتے جھگڑتے تیار ہو کر بڑے سے کچن میں آئے۔دونوں ایک ساتھ بولے اسلام و علیکم چاچو لمبے قد ورزشی جسم کے مالک حمزہ نے سلام کا جواب ہوئے دونوں کا سر سے پیر تک جائزہ لیا
گڈ چھے سال کا ہو گیا کام پر جا، رہا پر بوٹ کے لیس تک باندھنے نہیں آتے اس نے اپنے پیروں کو دیکھا اور بڑبڑایا چھے سال سے ایسی جتا رہے جیسے ان کی طرح بوڑھا ہو گیا۔ حمزہ نے میز پر سکے ہوئے ٹوسٹ انڈے اور دودھ رکھا دیوار سے ٹیک لگائے سرخ سفد گول مول پیپو کو پکارا
پیپو صاحب
جی چاچو
صابزادے کام سے دیر ہو رہی جلدی ناشتہ کر لو۔
گڈو پیپو کو ناشتے میں لگا کر اپنے کمرے میں تیار ہونے گیا تیار ہو کر باہر آئے حسب عادت گڈو شیشے کے اگے اور پیہو ابھی نیند میں جھول رہا تھا ۔حمزہ نے دونوں کے بیگ اٹھائے اور جیب میں رکھے اور ہارن پر ہاتھ رکھ دیا دونوں بھائی ہارن کی آواز پر بھاگے آئے۔
حمزہ نے دونوں کو جیپ میں بٹھایا اور چوکیدار کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کیا۔ جیپ چلاتے حمزہ نے گڈو کو ناراض بیٹھے دیکھا
کیا ہوا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟ گڈو نے شکوہ کیا چاچو بالوں میں ٹھیک سے برش بھی نہیں کرنے دیا
گڈو یار ہر وقت آئنے کے اگے ریتا ہے ہیرو شیرو بننے کا، ارادہ ہے تو کام دل لگا کر کیا کر چاچو ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیا پتہ کب چانس لگ جائے ۔
دودھ کے دانت گرے نہیں چانس میں ابھی کیبل کٹواتا ہوں تھوڑی دیر میں جیپ ایک سکول کے سامنے رکی اور کام کے بعد چوکیدار کے ساتھ گھر چلے جانا کھانا بنا کر رکھ آیا بابا گرم کر دیں گے ۔اور دونوں کا لنچ بکس ڈالا ہے بیگ میں ۔دونوں شیطان حمزہ کے گال چوم کر اندر کی طرف بھاگے ۔
دونوں کے جاتے ہی حمزہ اپنے تھانے کی طرف روانہ ہوا جیپ کے پارک ہوتے ہی سب وہاں موجود الرٹ ہو گئے ۔سب کے سیلوٹ کا سر ہلا کر جواب دیتے آفس کی جانب بڑھا۔
وہ مگن ہوا فائل دیکھ رہا تھا اردلی چائے رکھ کر جا چکا تھا فون بجا کمشنر صاحب لائن پر تھے ۔ حمزہ مائے ڈئیر بوائے رات آفیسر کلب میں ڈینر ہے یاد دانی کروا رہا ضرور آنا سر رات دیر تک بچوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا میری طرف سے معزرت قبول کر لیں تم ان کو بوڈینگ سکول کیوں نہیں چھوڑ آتے ان کے لیے بھی اچھا ہے تمارے لئے بھی سر آپ جانتے ہیں بھیا بھابھی کے انتقال کے بعد میں ان کو سنبھال رہا ہوں گھر کے ہوتے ان کو بے گھر نہیں کرنا چاہتا تو پھر ینگ بوائے شادی کر لو
سر کون ایسی لڑکی مجھ سے شادی کر کے ان یتیموں کی ماں بننا پسند کرے گی۔
تم ڈھونڈو نرم مزاج سلجھی لڑکی۔نہیں تو میری سالی ہے گھر آؤ ملواتا ہوں
فون بند کر کے سر پکڑ کر بیٹھ گیا کمشنر صاحب اپنی نک چڑی سالی سے شادی کروانا چاہتے ہیں
پلین اسلام آباد انڑنشینل ائرپورٹ پر لینڈ کر رہا تھا بار بار سیٹ بیلٹ باندھنے کی آواز آرہی تھی اگے سیٹ پر سوئی ہوئی بیس، سالہ لڑکی کو ائرہوسٹس نے اس نخریلی کو آواز دی۔
اسکیوزمی میم پلین لینڈ ہو گیا۔ مریم نے ائر ہوسٹس ہو دیکھا پھر اپنا بال ٹھیک کرنے لگی پر سکون شہر اسلام آباد کی سر زمین جگمگا رہی تھی اپنے والدین کے انتقال کے دس سال بعد قدم رکھ رہی تھی باہر نکلی تو اسکے تایا اقبال احمد اور ان کے بیٹے زوہیب نے اس کا استقبال کے لیے اس کے نام کا بورڈ لے کر کھڑے تھے ۔
دونوں باپ بیٹا، بڑی گرم جوشی سے ملے اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔
مریم نے سنجیدگی سے پوچھا انکل آپ نے مجھے اتنا ارجنٹ کیوں بلوایا سب ٹھیک تو ہے ۔؟ بیٹا زندگی کا بھروسہ نہیں اب تم بیس سال کی ہو گئی اب تمارے ماں باپ کی جائیداد تمارے حوالے کرنا چاہتا ہوں تمارے بابا، کے وکیل بھی تم سے ملنا چاہتے ہیں انہوں نے اپنی انکھوں کی نمی صاف کی انکل پلیز میں یہ سب نہیں کر پاؤں گی میں ابھی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں بعد میں بزنس سنبھال لوں گی مریم کی اس بات پر زوہیب نے اپنے بابا کو دیکھا
ڈیڈ ابھی تو مریم آئی ہے آپ اس سے بزنس کی باتیں کرنے لگے۔آرام کرے گھومے پھرے مریم کو دیکھتے بولا کیوں مریم؟
انکل آپ پریشان نہ ہو آپ وکیل کو بلوا لیں میں پیپرز دیکھ کر وکیل سے ڈسکس کر کے سائن کروں گی پھر واپس چلی جاؤں گی ۔
اتنی جلدی واپس نہیں جانے دونگا میرے مرحوم بھائی کی تم نشانی ہو سالوں بعد آئی ہو خبر دار جو واپس جلدی سوچا، تو بڑے پیار سے اسے ڈانٹا۔ ڈیڈ باقی بعد میں گھر آ گیا مریم کو لے کر اندر چلیں زوہینب نے بڑی سی کوٹھی کے اگے کار عوک کر ہارن بجایا چوکیدار نے گیٹ کھولا سامنے ہی تائی مریم کے استقبال کے لئے کھڑی تھی مریم کے قریب آتے ہی پیار سے اس کے گلے میں یار ڈالا جیسے مریم نے بڑے سےآرام سے اتار دیا۔
وہ پھولوں کا ہار ان کے ہاتھ میں واپس دے کر بولی پلءز انٹی اس کی نمی میرے کپڑے خراب کر دے گی
ابھی اگے بڑھی ہی تھی ملازمہ مرچیں لے کر اس کی نظر اتارنے لگی۔
وہ کھانستے ہوئے بولی پلیز اسٹاپ دس افففف دھواں ۔۔۔۔۔
تائی جو ساکت کھڑی تھی اسے دیکھ کر بولی انٹی مجھے میرا روم بتا دیں میں آرام کرنا چاہتی ہوں ۔ وہ بڑے مان سے بولی مریم بیٹا تم مجھے انٹی مت کہو میں تماری تائی امی ہوں
مریم اکتائے ہوئے بولی روم پلیزززز۔
پاس کھڑا زوہیب اگے بڑھا اس مریم میں تمہیں تمارا روم بتاتا ہوں ۔ تایا نے کہا بیٹا تھوڑی دیر رسٹ کر کے آؤ پھر تمہیں آفس کے لوگوں سے ملوانا ہے پیچھے سے تایا اقبال نے مخاطب کیا
میں تھک گئی ہوں لمبا، سفر کر کے آئی ہوں اب لوگوں کو پھر کبھی بلوا لینا۔ اقبال صاحب مایوسی سے بولے ٹھیک ہے بیٹا تم آرام کرو مریم کے جاتے ہی تائی نہیں اقبال صاحب کو گھورا آپ بڑا بیٹی بیٹی کرتے تھے انداز دیکھا خالہ نے کیسے بگاڑ کر رکھ دیا اسے آپ بھی ہوش میں آ جائیں لندن کی پڑھی لکھی لڑکی پیپرز پڑھے بنا سائن نہیں کرے گی
فہمیدہ تم منہ بند رکھو چار دن کے لیے آئی ہے پیپرز، سائن کرے گی چلی جائے گی ۔
اقبال صاحب بیزاری سے بولے۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے فائلوں سے سر اٹھا کر گھڑی دیکھی شام کے سات بج رہے تھے ۔
مارا گیا گڈو اور پیپو سے شام کرکٹ کا، وعدہ کیا تھا ۔تیزی سے سب سمیٹا اور جیپ کی طرف بھاگا جیپ دوڑا کر فام ہاوس پہنچا مین گیٹ کھول کر جیپ اندر لایا۔ کیپ اتارتا ہوا اندر آیا گڈو پیپو کے جوتے الٹے پلٹے پڑے منہ چڑا رہے تھے حمزہ نے جوتے اٹھا کر شوریک میں رکھے۔اور دونوں شیطان فل والیم میں ٹی وی لگا، کر صوفے پر آئسکریم کھا، رہے تھے حمزہ نے ایک نظر ٹی وی پر اچھلتی لڑکیاں دیکھ کر ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا
میوزک کے بند ہوتے ہی پیپو ساکت سا ہو گیا۔ دونوں ایک ساتھ چلائے کیا چاچو ٹی وی کیوں بند کیا
حمزہ نے دونوں کو گھورا نہ سلام نہ دعا ٹی وی کی فکر۔۔۔ گڈو نے آدب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کیا
پیپو نے بھی آسکریم میز پر رکھ کر اچک اچک کر اٹھانے کا، اشارہ کیا حمزہ نے جھک کر اسے گود اٹھا لیا۔ پہلے تو پیپو نے حمزہ کے گالوں پر کس کی پھر فرمائش داغی
چاچو مجھے کل کام پر نہیں جانا کیوں جی میں بھی تو روز کام جاتا ہوں تم کیوں نہیں جاؤ گے؟ پھولے پھولے گالوں کو چومتا ہوا بولا آپ اپنے کام پر پولیس پولیس کھیلتے ہو اور ہمیں لکھنا پڑھنا پڑھتا اب پوئم بھی یاد کرنی ہوتی پیپو نے دردناک شکوہ کیا اور ہوم ورک بھی ہے
حمزہ نے اسے اتارا اچھا بہت ہو گیا میں چینج کر کے آتا ہوں آج ڈینر باہر کریں گے
پیپو اور میرا ہوم ورک
گڈو اچھل پڑا گڈو کر دے گا
نہیں چاچو یہ غلط ہے آپ اس موٹے کا ہوم ورک ہمیشہ مجھ سے کرواتے ہیں ۔
شام ڈھل چکی تھی حمزہ بچوں کو لے کر اپنے پرسنل بنائے جم میں آچکا تھا تینوں کی ایکسر سائز مثالی تھی
آدھا کلو والے ویٹ ان کے لیے تھے جو چاچو کی کاپی کرتے تھے ابھی بھی بلیک ٹراؤزر اور بنیان میں چھے فٹ کا ورزشی جسم کا مالک حمزہ ٹریڈ پر دوڑ رہا تھا چار سالہ پیپو اس کے کندھے پر بیٹھتا ہوا تھا گڈو بھی اپنے ٹریڑ پر بنیان میں جس سے اس کی چھوٹی سی توند نمایاں تھی گڈو منہ بسورے چاچو بس، اب بہت تھک گئے ابھی تک تو ایک گھنٹہ ہوا چلو اٹھک بٹھک کرو
گڈو نے پوچھا چاچو آپ شادی کب کرو گے ۔؟ کیوں جی میری شادی کی کیوں فکر ہے میں کون سا بوڑھا ہو گیا ہوں ٹی وی پر بتا رہے تھے جن کی شادی ٹائم پر نہیں ہوتی وہ پاگلوں جیسے ہوتے ہیں
حمزہ نے تیوری چڑھائی تم یہ پروگرام کب سے دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے کے گڈو کچھ بولتا اور چاچو کا پارہ گرم ہوتا پیپو نے ٹانگ اڑائی چاچو بھوک پیزا کھانا ہے چلو دونوں جلدی سے تیار ہو جاؤ پیزا ہٹ جاتے ہیں
**************************for more books – urdunovels.info
شام ڈھل چکی تھی مریم معصوم چہرے کے ساتھ سو رہی تھی جیسے دیکھ کر کوئی بھی دھوکا کھا سکتا تھا ۔ وقفے وقفے سے دروازه بج رہا تھا جس سے مریم کی نیند خراب ہو رہی تھی ۔وہ انگڑائی لے کر ابھی اٹھی نہیں تھی کے ملازمہ دروازه کھول کر اندر داخل ہوئی
مریم بی بی بڑے صاحب آپ کو چائے پر بلوا رہے ہیں ۔ مریم نے ناگواری سے اسے گھورا تم کس کی اجازت سے اندر آئی منہ کیوں بند ہے
ملازمہ اس کے تیور دیکھ کر گھبرا کر اَلٹے قدم باہر چلی گئی ۔ مریم اپنے سیاہ لمبے بال سمیٹتی اٹھی لانگ اسکرٹ نکال کر فریش ہونے چلی گئی تیار ہو کر نیچے آئی جہاں تائی امی میز سجائے انتظار کر رہی تھی
بڑے پیار سے مخاطب ہوئی بیٹا آؤ میرے پاس بیٹھو کیا پیو گی چائے یا کافی؟؟
یہاں بہت گرمی ہے تائی انٹی میرے لیے فریش اورینج جوس بنوا دیں۔ تائی نے ملازمہ کو اشارہ کیا وہ فوراً جوس لے کر آئی مریم نے ایک گھونٹ لیا مسمی کا بیج اس کے منہ میں گیا او شٹ تمہیں جوس بنانا نہیں آتا تائی نے ملازمہ کی جان چھڑائی امیرن جاؤ دوبارہ بنا کر لاؤ
اور اچھے سے چھان کر لانا۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply