نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 10
حمزہ آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کررہا تھا صوفہ اس کے قد کے لحاظ سے بہت چھوٹا تھا پہلے تو اسکا ارادہ مریم کے سونے کے بعد واپس اپنے روم میں جانے کا تھا لیکن اب یہ مریم عرف بےبی اس سے وعدہ لے چکی تھی ۔ ” حد ہو گئی میرا گھر اور میں ہی بےآرام ۔۔۔“
وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا اور سیدھا بیڈ کے پاس مریم کے سرہانے جاکر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔ ” مریم اٹھو ۔۔۔۔مریم ۔۔۔۔“ وہ زور سے دھاڑا
” کیا مصیبت ہے کیوں سبزی والوں کی طرح چلا رہے ہو ۔۔۔“ مریم آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی
” چلو تم جاکر صوفہ پر لیٹو ۔۔۔“ حمزہ نے حکمیہ انداز میں کہا ” میں ۔۔۔میں صوفہ پر ۔۔۔“ مریم نے حیرت سے پوچھا جیسے اسے جہاد پر جانے کا کہہ دیا ہو
”جی ملکہ عالیہ آپ ! براہ مہربانی صوفہ پر تشریف لے جائیے مجھے بیڈ پر لیٹنا ہے کل میری جاب بھی ہے سو آرام ضروری ہے ۔۔“ وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھتا ہوا بولا
” مگر میں آج تک صوفہ پر نہیں سوئی مجھے تکلیف ہوگی اور نیند بھی نہیں آئیگی تمہارا کیا ہے تم تھانہ میں سو جانا ویسے بھی میں نے سنا ہے ہماری پولیس سونے کے سوا کچھ نہیں کرتی ۔۔۔“ وہ بدک کر دور سرکتے ہوئے بولی ۔
حمزہ کے تو سر پر لگی تلووں پر بجھی ۔۔۔۔
” دیکھو میرا منہ نہ کھلواؤ ایک رات کی بات ہے کل تمہارا انتظام کردونگا ابھی شرافت سے اٹھو ورنہ میں چلا اپنے کمرے میں اور تم اکیلی اس ویران کمرے میں شاید کوئی بھوت یا بھٹکتی ہوئی روح ادھر آجائے ۔۔۔۔“ وہ خباثت سے بولا ”کمینے انسان تم نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤگے ۔۔۔۔“ مریم روہانسی ہوئی
”ہاں تو میں کب چھوڑ رہا ہوں وہ تو تم ہی مجھے روکنا نہیں چاہ رہی اور جانے پر مجبور کررہی ہوں ۔۔۔۔۔“ حمزہ نے صاف جھنڈی دکھائی ۔ ” ٹھیک ہے پر ایک شرط ہے ۔۔۔۔“ مریم اسے دیکھتی ہوئے بولی ” واہ واہ ایک تو تمہاری خاطر قربانی دے رہا ہوں اور اس پر تمہاری شرط بھی مانوں اتنا پاگل سمجھا ہے کیا ۔۔۔“ وہ بھنایا ” دیکھو تم بیڈ پر سوجاؤ بس صبح پانچ بجے ان معصوموں کو مت جگانا آٹھ بجے اسکول لگتا ہے سات بجے اٹھا دینا اور میں بھی مدد کردونگی ناشتہ میں بنادونگی ۔۔۔۔“ وہ اسے لالچ دیتی ہوئی بولی ۔۔۔
حمزہ نے ایک لمحہ کو سوچا کچن سے جان چھوٹ رہی تھی اسی لئیے اثبات میں سر ہلاتا بیڈ پر گر گیا اور چند ہی لمحوں میں اس کے خراٹے گونج رہے تھے ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
سورج کی کرنیں پردے سے جھانک رہی تھی جب صوفہ پر بے آرام لیٹی مریم کی آنکھ کھلی گھڑی پر نظر ڈالی تو سات بج رہے تھے وہ تیزی سے اٹھی بیڈ پر نظر ڈالی تو حمزہ تکیہ دبوچے الٹا سویا پڑا تھا وہ چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی ۔۔۔ ”حمزہ اٹھو صبح ہوگئی ہے ۔۔۔۔“ مریم اسے آوازیں دیتی رہی پر حمزہ صاحب بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے کہ فون جس پر وہ چھنگاڑتا ہوا الارم لگاتا تھا وہ تو اس کے کمرے میں تھا بھلا مریم کی سریلی آواز اسے کیسے جگاتی تھک ہار کر مریم نے اس کے بازو کو پکڑ کر اسے زور سے جھنجھوڑا ۔۔۔ حمزہ جو بہت ہی آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا مریم کے جھنجھوڑنے پر بدمزہ ہو کر آنکھیں کھولی تو سامنے مریم کا خوبصورت چہرہ تھا چند لمحہ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا آج صبح کا آغاز بہت مختلف تھا کوئی نازک وجود اسے اٹھا رہاتھا اور یقیناً اب یہ اپنے پیارے پیارے نازک سے ہاتھوں سے میرے لئیے پراٹھا انڈہ بنائیگی ۔۔۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ مریم کا بھونپو اس کے کانوں میں بجا ۔۔۔ ” کیا سکتہ ہوگیا ہے یا فالج جو آنکھیں پھاڑے پڑے ہو ۔۔۔۔“
”استغفراللہ ۔۔۔۔“ حمزہ کے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا تھا ” میں تیار ہو کر بچوں کو لیکر آتا ہوں تم جلدی سے اچھا سا ناشتہ بنا لو ۔۔۔“ حمزہ جلدی سے کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا مریم ہاتھ منہ دھو کر کچن میں آئی ۔۔ ” اچھا سا ناشتہ ۔۔۔۔۔“ وہ تھوڑی دیر کھڑی سوچتی رہی ابھی یوٹیوب سے مدد لینے کا وقت نہیں تھا اسی لئیے اس نے تیزی سے کیبنٹ کی اور فرج کی تلاشی لینی شروع کی اور کام شروع کردیا … تھوڑی ہی دیر میں نک سک سے تیار یونیفارم میں ملبوس خوشبوئيں بکھیرتا حمزہ کچن میں داخل ہوا ۔۔۔
”ناشتہ تیار ہے ۔۔۔“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ مریم نے ایک نظر حمزہ کو دیکھا وہ اسے ماحول پر چھایا ہوا محسوس ہورہا تھا بلاشبہ وہ بھرپور مردانہ وجاہت کا حامل تھا اس سے پہلے مریم کچھ کہتی گڈو اور پپو اسکول یونیفارم پہنے سلیقے سے بال بنائے اندر داخل ہوئے ۔ ” گڈ مارننگ بے بی ۔۔۔۔“ پپو لپک کر اس کے پاس گیا ۔ مریم نے بڑے پیار سے اس کو اپنی گود میں اٹھا کر اس کے گال چومے تو پپو صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے گڈو بھی اپنی باری کے انتظار میں تھا مریم نے پپو کو کرسی پر بٹھانے کے بعد گڈو کو پیار کیا تو گڈو صاحب بلش کرگئے یہ ایک مکمل فیملی کا منظر لگ رہا تھا واقعی عورت کے وجود سے ہی گھر گھر لگتا ہے حمزہ سوچتا ہوا مریم سے مخاطب ہوا ” اب ناشتہ بھی دے دو دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔ مریم نے تیزی سے میز پر ناشتہ رکھا جسے دیکھ کر بچوں کی بانچھیں کھل گئی اور حمزہ کا منہ بن گیا ۔ بسکٹ پاپے چیز سینڈوچ مینگو جیلی اور جوس کے ڈبے ۔ ”یہ کیا ہے انڈہ پراٹھا دودھ چائے وہ سب کدھر ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے مایوسی سے پوچھا کہ سارے ارمانوں پر پانی پڑگیا تھا ”بیسٹ بریک فاسٹ بے بی ۔۔۔۔“ گڈو منہ میں جیلی بھرتے ہوئے بولا حمزہ نے گڈو کو گھورا ۔۔۔۔۔ ” آج بچوں کا ہاف ڈے ہے عید کی چھٹیاں شروع ہورہی ہیں میں بھی جلدی آجاؤنگا پھر تمہارا روم سیٹ کردینگے بس تم اتنی مہربانی کرنا کہ کھانے کے قابل کوئی لنچ بنا لینا اور مسز اے ڈی آج جلدی آئیگی اس سے کام کروا لینا اور بچوں کے ساتھ والا کمرہ بھی صاف کروانا ۔۔“ حمزہ اسے ہدایات دیتا بچوں کو ساتھ لیتا باہر چلا گیا –
**************************for more books – urdunovels.info
شام ہو رہی تھی دوپہر سے ہی حمزہ اور بچوں نے ملکر مریم کیلئیے کمرہ سیٹ کردیا تھا یہ کمرہ حمزہ کے کمرے کے بالکل سامنے اور بچوں کے کمرے کے ساتھ تھا مریم نے حمزہ کے دلائے کپڑے جوتے سب لاکر الماری میں سیٹ کردئیے تھے اور اب بڑے آرام سے بچوں کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب تھکا تھکا سا حمزہ اندر داخل ہوا ”مریم ڈنر پر مہمان آرہے ہیں کچھ اچھا بنا لینا ۔۔۔“
”مہمان کتنے لوگ ہیں ۔۔۔“ مریم نے بیدلی سے پوچھا
”بس ایک فرد ۔۔۔“ حمزہ نے جواب دیا ”ٹھیک ہے میں یو ٹیوب سے دیکھ کر کچھ نہ کچھ تو بنا ہی لونگی ۔۔۔۔“ مریم نے مرے مرے لہجے میں کہا ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مین دروازے کا انٹرکام بجا اور چوکیدار نے مہمان کے آنے کی اطلاع دی حمزہ اٹھ کر باہر گیا ۔۔۔ باہر کمشنر صاحب کا ڈرائیور ماہین کو ڈراپ کرنے آیا ہوا تھا۔۔ حمزہ ماہین کو لیکر اندر داخل ہوا تو سب چونک گئے گڈو کا تو منہ بن گیا تھا اور پپو ساری دنیا سے بےنیاز آریانا کے سونگ میں کھویا ہوا تھا مریم نے حیرت سے سلیولیس اونچی شرٹ گہرا گلا ٹخنوں سےاونچے ٹراؤزر اور ہلکے ہلکےمیک اپ میں پرکشش سی ماہین کو دیکھا ۔
” بچوں ماہین کو سلام کرو ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو ٹوکا ۔۔۔ ” ہیلو آنٹی۔۔۔“ وہ دونوں پاس آکر ہاتھ ملا کر بولے ” آنٹی۔۔“ ماہین کے دل کو دھچکا لگا ” آنٹی نہیں تم دونوں مجھے سس بولو ماہین سس ۔۔۔۔“ ماہین نے اپنی ناگواری دل میں چھپاتے ہوئے انہیں ٹوکا
”اوکے ماہین بچ ۔۔“ پپو نے بڑے پیار سے کہا ”ماہین بچ ۔۔۔۔۔ “ حمزہ کو تو پانی پیتے اچھو لگ گیا
”پپو ۔۔بچ نہیں سس ۔۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں دکھائی ”چھوڑیں حمزہ جانے دیجئیے بچے ہی تو ہیں انہیں اچھے برے کی کیا تمیز اب میں آگئی ہونا تو میں انہیں مینرز سکھادونگی ۔۔۔“ ماہین بڑے ہی شیریں لہجے میں بولی
” اور یہ خاتون کیا ان بچوں کی گورنس ہیں ۔۔“ وہ نازک سی مریم کو دیکھتے ہوئے بولی ” نہیں ماہین بچ او سو سوری وچ یہ ہماری بے بی ہے ۔۔۔۔“ اب کے گڈو نے دل جلایا ”گڈو پپو چلو اپنے کمرے میں جاکر ہوم ورک کرو اور بے بی او گاڈ مریم تم کچن میں ڈنر تیار کرو اور ماہین سس آئیے میں آپکو گیسٹ روم دکھا دو ۔۔“ حمزہ نے سب کو تتر بتر کیا ” حمزہ میں تو آپ سے چھوٹی ہوں آپ مجھے ماہین یا پیار سے ماہی بلائیے نا۔۔۔“ ماہین ٹھنکی ”اوکے ماہین چلیں اب ۔۔۔“ حمزہ اسے روم میں چھوڑ کر کچن میں آیا جہاں کاؤنٹر پر لیب ٹاپ رکھا تھا اور یو ٹیوب پر فرحت آپا چکن کڑھائی بنانا سکھا رہی تھیں اور مریم کے ساتھ گڈو اور پپو تینوں ہی بڑے انہماک سے پلکیں جھپکے بغیر اسکرین کو گھور رہے تھے ۔۔ ” یہ کیا ہورہا ہے تم دونوں کو تو ہوم ورک کرنے کا کہا تھا نا۔۔۔“ حمزہ نے گھورا ”چاچو ہم بے بی کی ہیلپ کررہے ہیں ۔۔۔“ گڈو بولا
” چلو بھاگو یہاں سے ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو چلتا کیا اور خود مریم کے پاس آیا۔ ” یہ ماہین ہے کمشنر صاحب کی سالی کمشنر صاحب کو ایمرجنسی میں جانا پڑگیا اس لئیے دوہفتے یہ ہمارے ساتھ رہینگی ۔۔۔۔“ حمزہ متانت سے بولا ” مجھے کیوں بتا رہے ہو تمہارا گھر ہے جسے چاہو ٹہرا لو میں کون ہوتی ہوں اعتراض کرنے والی ۔۔“ مریم سنجیدگی سے جواب دیکر چولہے کی جانب پلٹ گئی ”مجھے بھی پتہ نہیں کس کیڑے نے کاٹا تھا کہ تمہیں بتانے آگیا ۔۔“ حمزہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا ..
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین نے گیسٹ روم میں پہنچ کر اپنا سامان رکھا اور پھر فون نکال کر اپنی بہن کو رپورٹ دینے لگی ۔۔۔
دونوں بچے تو اسے زہر سے بھی بدتر لگے تھے پر مریم ان بچوں کی گورنس اس کی نظروں میں کھٹک رہی تھی ۔۔
” یہ حمزہ بھی نہ بھلا اتنی جوان اور خوبصورت گورنس کون رکھتا ہے اب سب سے پہلے اسے گھر سے نکالنا ہوگا ۔۔۔“ وہ خود سے باتیں کرتی کمرے سے باہر نکلی ارادہ پورے گھر کا جائزہ لینے کا تھا وکٹورین اسٹائل پر بنا یہ عالیشان گھر کسی محل سے کم نہیں تھا تھوڑا آگے جا کر ایک بڑا جدید طرز کا کچن تھا وہ اندر آئی تو مریم بڑے انہماک سے کھانا پکانے میں مگن تھی .. لمبے بالوں کو جوڑے میں لپیٹے جس سے اس کی نازک سی گردن واضح ہورہی تھی چمپئی رنگت اور خوبصورت نقوش ۔۔۔ماہین نے بڑی حسد سے مریم کو دیکھا اور آگے بڑھی ۔ ” اے سنو تم اس گھر میں بچوں کیلئیے رکھی گئی ہو غلطی سے بھی مالکن بنے کا خواب مت دیکھنا ورنہ ۔۔۔۔ اس سے پہلے ماہین بات مکمل کرتی حمزہ مریم کو آواز دیتا اندر آیا اور ماہین کو دیکھ کر چونک گیا اور مریم جو پاس پڑا بڑا چھرا اٹھا کر ماہین کی طبعیت صاف کرنے کو تھی واپس پلٹ گئی ۔ ” ارے ماہین آپ ادھر گرمی میں کیا کررہی ہیں اندر چلی ماہین کو بھیج کر وہ مریم کے پاس آیا ۔۔۔
”تم سے روٹی تو پکائی نہیں جائیگی اس لئیے پریشان مت ہونا میں نے چوکیدار کو تندور بھیج دیا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کے سرخ چہرے کو بغور دیکھا ۔ ”تم کتنے دوغلے ہو اس بچ کو کہتے ہو اندر جائیں گرمی ہے اور مجھے کچن میں جھونک رکھا ہے ۔“ حمزہ نے بڑی دلچسپی سے مریم کا یہ جیلس انداز دیکھا پھر آہستگی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔۔۔ ”وہ مہمان ہے چلی جائیگی مگر تم تو مہمان نہیں ہو ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولا ”ہاں ٹھیک کہہ رہے ہوں میں تو بلائے جان ہوں بوجھ ہوں بس تم جلدی سے میرے تایا کو جیل میں ڈالو تاکہ میں واپس اپنی دنیا میں چلی جاؤں اور تمہاری بھی جان چھوٹے ۔۔۔۔“ مریم نے رنجیدگی سے کہا اور چولہا بند کرتی باہر نکل گئی ۔۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا اور سیدھا بیڈ کے پاس مریم کے سرہانے جاکر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔ ” مریم اٹھو ۔۔۔۔مریم ۔۔۔۔“ وہ زور سے دھاڑا
” کیا مصیبت ہے کیوں سبزی والوں کی طرح چلا رہے ہو ۔۔۔“ مریم آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی
” چلو تم جاکر صوفہ پر لیٹو ۔۔۔“ حمزہ نے حکمیہ انداز میں کہا ” میں ۔۔۔میں صوفہ پر ۔۔۔“ مریم نے حیرت سے پوچھا جیسے اسے جہاد پر جانے کا کہہ دیا ہو
”جی ملکہ عالیہ آپ ! براہ مہربانی صوفہ پر تشریف لے جائیے مجھے بیڈ پر لیٹنا ہے کل میری جاب بھی ہے سو آرام ضروری ہے ۔۔“ وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھتا ہوا بولا
” مگر میں آج تک صوفہ پر نہیں سوئی مجھے تکلیف ہوگی اور نیند بھی نہیں آئیگی تمہارا کیا ہے تم تھانہ میں سو جانا ویسے بھی میں نے سنا ہے ہماری پولیس سونے کے سوا کچھ نہیں کرتی ۔۔۔“ وہ بدک کر دور سرکتے ہوئے بولی ۔
حمزہ کے تو سر پر لگی تلووں پر بجھی ۔۔۔۔
” دیکھو میرا منہ نہ کھلواؤ ایک رات کی بات ہے کل تمہارا انتظام کردونگا ابھی شرافت سے اٹھو ورنہ میں چلا اپنے کمرے میں اور تم اکیلی اس ویران کمرے میں شاید کوئی بھوت یا بھٹکتی ہوئی روح ادھر آجائے ۔۔۔۔“ وہ خباثت سے بولا ”کمینے انسان تم نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤگے ۔۔۔۔“ مریم روہانسی ہوئی
”ہاں تو میں کب چھوڑ رہا ہوں وہ تو تم ہی مجھے روکنا نہیں چاہ رہی اور جانے پر مجبور کررہی ہوں ۔۔۔۔۔“ حمزہ نے صاف جھنڈی دکھائی ۔ ” ٹھیک ہے پر ایک شرط ہے ۔۔۔۔“ مریم اسے دیکھتی ہوئے بولی ” واہ واہ ایک تو تمہاری خاطر قربانی دے رہا ہوں اور اس پر تمہاری شرط بھی مانوں اتنا پاگل سمجھا ہے کیا ۔۔۔“ وہ بھنایا ” دیکھو تم بیڈ پر سوجاؤ بس صبح پانچ بجے ان معصوموں کو مت جگانا آٹھ بجے اسکول لگتا ہے سات بجے اٹھا دینا اور میں بھی مدد کردونگی ناشتہ میں بنادونگی ۔۔۔۔“ وہ اسے لالچ دیتی ہوئی بولی ۔۔۔
حمزہ نے ایک لمحہ کو سوچا کچن سے جان چھوٹ رہی تھی اسی لئیے اثبات میں سر ہلاتا بیڈ پر گر گیا اور چند ہی لمحوں میں اس کے خراٹے گونج رہے تھے ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
سورج کی کرنیں پردے سے جھانک رہی تھی جب صوفہ پر بے آرام لیٹی مریم کی آنکھ کھلی گھڑی پر نظر ڈالی تو سات بج رہے تھے وہ تیزی سے اٹھی بیڈ پر نظر ڈالی تو حمزہ تکیہ دبوچے الٹا سویا پڑا تھا وہ چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی ۔۔۔ ”حمزہ اٹھو صبح ہوگئی ہے ۔۔۔۔“ مریم اسے آوازیں دیتی رہی پر حمزہ صاحب بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے کہ فون جس پر وہ چھنگاڑتا ہوا الارم لگاتا تھا وہ تو اس کے کمرے میں تھا بھلا مریم کی سریلی آواز اسے کیسے جگاتی تھک ہار کر مریم نے اس کے بازو کو پکڑ کر اسے زور سے جھنجھوڑا ۔۔۔ حمزہ جو بہت ہی آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا مریم کے جھنجھوڑنے پر بدمزہ ہو کر آنکھیں کھولی تو سامنے مریم کا خوبصورت چہرہ تھا چند لمحہ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا آج صبح کا آغاز بہت مختلف تھا کوئی نازک وجود اسے اٹھا رہاتھا اور یقیناً اب یہ اپنے پیارے پیارے نازک سے ہاتھوں سے میرے لئیے پراٹھا انڈہ بنائیگی ۔۔۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ مریم کا بھونپو اس کے کانوں میں بجا ۔۔۔ ” کیا سکتہ ہوگیا ہے یا فالج جو آنکھیں پھاڑے پڑے ہو ۔۔۔۔“
”استغفراللہ ۔۔۔۔“ حمزہ کے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا تھا ” میں تیار ہو کر بچوں کو لیکر آتا ہوں تم جلدی سے اچھا سا ناشتہ بنا لو ۔۔۔“ حمزہ جلدی سے کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا مریم ہاتھ منہ دھو کر کچن میں آئی ۔۔ ” اچھا سا ناشتہ ۔۔۔۔۔“ وہ تھوڑی دیر کھڑی سوچتی رہی ابھی یوٹیوب سے مدد لینے کا وقت نہیں تھا اسی لئیے اس نے تیزی سے کیبنٹ کی اور فرج کی تلاشی لینی شروع کی اور کام شروع کردیا … تھوڑی ہی دیر میں نک سک سے تیار یونیفارم میں ملبوس خوشبوئيں بکھیرتا حمزہ کچن میں داخل ہوا ۔۔۔
”ناشتہ تیار ہے ۔۔۔“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ مریم نے ایک نظر حمزہ کو دیکھا وہ اسے ماحول پر چھایا ہوا محسوس ہورہا تھا بلاشبہ وہ بھرپور مردانہ وجاہت کا حامل تھا اس سے پہلے مریم کچھ کہتی گڈو اور پپو اسکول یونیفارم پہنے سلیقے سے بال بنائے اندر داخل ہوئے ۔ ” گڈ مارننگ بے بی ۔۔۔۔“ پپو لپک کر اس کے پاس گیا ۔ مریم نے بڑے پیار سے اس کو اپنی گود میں اٹھا کر اس کے گال چومے تو پپو صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے گڈو بھی اپنی باری کے انتظار میں تھا مریم نے پپو کو کرسی پر بٹھانے کے بعد گڈو کو پیار کیا تو گڈو صاحب بلش کرگئے یہ ایک مکمل فیملی کا منظر لگ رہا تھا واقعی عورت کے وجود سے ہی گھر گھر لگتا ہے حمزہ سوچتا ہوا مریم سے مخاطب ہوا ” اب ناشتہ بھی دے دو دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔ مریم نے تیزی سے میز پر ناشتہ رکھا جسے دیکھ کر بچوں کی بانچھیں کھل گئی اور حمزہ کا منہ بن گیا ۔ بسکٹ پاپے چیز سینڈوچ مینگو جیلی اور جوس کے ڈبے ۔ ”یہ کیا ہے انڈہ پراٹھا دودھ چائے وہ سب کدھر ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے مایوسی سے پوچھا کہ سارے ارمانوں پر پانی پڑگیا تھا ”بیسٹ بریک فاسٹ بے بی ۔۔۔۔“ گڈو منہ میں جیلی بھرتے ہوئے بولا حمزہ نے گڈو کو گھورا ۔۔۔۔۔ ” آج بچوں کا ہاف ڈے ہے عید کی چھٹیاں شروع ہورہی ہیں میں بھی جلدی آجاؤنگا پھر تمہارا روم سیٹ کردینگے بس تم اتنی مہربانی کرنا کہ کھانے کے قابل کوئی لنچ بنا لینا اور مسز اے ڈی آج جلدی آئیگی اس سے کام کروا لینا اور بچوں کے ساتھ والا کمرہ بھی صاف کروانا ۔۔“ حمزہ اسے ہدایات دیتا بچوں کو ساتھ لیتا باہر چلا گیا –
**************************for more books – urdunovels.info
شام ہو رہی تھی دوپہر سے ہی حمزہ اور بچوں نے ملکر مریم کیلئیے کمرہ سیٹ کردیا تھا یہ کمرہ حمزہ کے کمرے کے بالکل سامنے اور بچوں کے کمرے کے ساتھ تھا مریم نے حمزہ کے دلائے کپڑے جوتے سب لاکر الماری میں سیٹ کردئیے تھے اور اب بڑے آرام سے بچوں کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب تھکا تھکا سا حمزہ اندر داخل ہوا ”مریم ڈنر پر مہمان آرہے ہیں کچھ اچھا بنا لینا ۔۔۔“
”مہمان کتنے لوگ ہیں ۔۔۔“ مریم نے بیدلی سے پوچھا
”بس ایک فرد ۔۔۔“ حمزہ نے جواب دیا ”ٹھیک ہے میں یو ٹیوب سے دیکھ کر کچھ نہ کچھ تو بنا ہی لونگی ۔۔۔۔“ مریم نے مرے مرے لہجے میں کہا ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مین دروازے کا انٹرکام بجا اور چوکیدار نے مہمان کے آنے کی اطلاع دی حمزہ اٹھ کر باہر گیا ۔۔۔ باہر کمشنر صاحب کا ڈرائیور ماہین کو ڈراپ کرنے آیا ہوا تھا۔۔ حمزہ ماہین کو لیکر اندر داخل ہوا تو سب چونک گئے گڈو کا تو منہ بن گیا تھا اور پپو ساری دنیا سے بےنیاز آریانا کے سونگ میں کھویا ہوا تھا مریم نے حیرت سے سلیولیس اونچی شرٹ گہرا گلا ٹخنوں سےاونچے ٹراؤزر اور ہلکے ہلکےمیک اپ میں پرکشش سی ماہین کو دیکھا ۔
” بچوں ماہین کو سلام کرو ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو ٹوکا ۔۔۔ ” ہیلو آنٹی۔۔۔“ وہ دونوں پاس آکر ہاتھ ملا کر بولے ” آنٹی۔۔“ ماہین کے دل کو دھچکا لگا ” آنٹی نہیں تم دونوں مجھے سس بولو ماہین سس ۔۔۔۔“ ماہین نے اپنی ناگواری دل میں چھپاتے ہوئے انہیں ٹوکا
”اوکے ماہین بچ ۔۔“ پپو نے بڑے پیار سے کہا ”ماہین بچ ۔۔۔۔۔ “ حمزہ کو تو پانی پیتے اچھو لگ گیا
”پپو ۔۔بچ نہیں سس ۔۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں دکھائی ”چھوڑیں حمزہ جانے دیجئیے بچے ہی تو ہیں انہیں اچھے برے کی کیا تمیز اب میں آگئی ہونا تو میں انہیں مینرز سکھادونگی ۔۔۔“ ماہین بڑے ہی شیریں لہجے میں بولی
” اور یہ خاتون کیا ان بچوں کی گورنس ہیں ۔۔“ وہ نازک سی مریم کو دیکھتے ہوئے بولی ” نہیں ماہین بچ او سو سوری وچ یہ ہماری بے بی ہے ۔۔۔۔“ اب کے گڈو نے دل جلایا ”گڈو پپو چلو اپنے کمرے میں جاکر ہوم ورک کرو اور بے بی او گاڈ مریم تم کچن میں ڈنر تیار کرو اور ماہین سس آئیے میں آپکو گیسٹ روم دکھا دو ۔۔“ حمزہ نے سب کو تتر بتر کیا ” حمزہ میں تو آپ سے چھوٹی ہوں آپ مجھے ماہین یا پیار سے ماہی بلائیے نا۔۔۔“ ماہین ٹھنکی ”اوکے ماہین چلیں اب ۔۔۔“ حمزہ اسے روم میں چھوڑ کر کچن میں آیا جہاں کاؤنٹر پر لیب ٹاپ رکھا تھا اور یو ٹیوب پر فرحت آپا چکن کڑھائی بنانا سکھا رہی تھیں اور مریم کے ساتھ گڈو اور پپو تینوں ہی بڑے انہماک سے پلکیں جھپکے بغیر اسکرین کو گھور رہے تھے ۔۔ ” یہ کیا ہورہا ہے تم دونوں کو تو ہوم ورک کرنے کا کہا تھا نا۔۔۔“ حمزہ نے گھورا ”چاچو ہم بے بی کی ہیلپ کررہے ہیں ۔۔۔“ گڈو بولا
” چلو بھاگو یہاں سے ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو چلتا کیا اور خود مریم کے پاس آیا۔ ” یہ ماہین ہے کمشنر صاحب کی سالی کمشنر صاحب کو ایمرجنسی میں جانا پڑگیا اس لئیے دوہفتے یہ ہمارے ساتھ رہینگی ۔۔۔۔“ حمزہ متانت سے بولا ” مجھے کیوں بتا رہے ہو تمہارا گھر ہے جسے چاہو ٹہرا لو میں کون ہوتی ہوں اعتراض کرنے والی ۔۔“ مریم سنجیدگی سے جواب دیکر چولہے کی جانب پلٹ گئی ”مجھے بھی پتہ نہیں کس کیڑے نے کاٹا تھا کہ تمہیں بتانے آگیا ۔۔“ حمزہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا ..
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین نے گیسٹ روم میں پہنچ کر اپنا سامان رکھا اور پھر فون نکال کر اپنی بہن کو رپورٹ دینے لگی ۔۔۔
دونوں بچے تو اسے زہر سے بھی بدتر لگے تھے پر مریم ان بچوں کی گورنس اس کی نظروں میں کھٹک رہی تھی ۔۔
” یہ حمزہ بھی نہ بھلا اتنی جوان اور خوبصورت گورنس کون رکھتا ہے اب سب سے پہلے اسے گھر سے نکالنا ہوگا ۔۔۔“ وہ خود سے باتیں کرتی کمرے سے باہر نکلی ارادہ پورے گھر کا جائزہ لینے کا تھا وکٹورین اسٹائل پر بنا یہ عالیشان گھر کسی محل سے کم نہیں تھا تھوڑا آگے جا کر ایک بڑا جدید طرز کا کچن تھا وہ اندر آئی تو مریم بڑے انہماک سے کھانا پکانے میں مگن تھی .. لمبے بالوں کو جوڑے میں لپیٹے جس سے اس کی نازک سی گردن واضح ہورہی تھی چمپئی رنگت اور خوبصورت نقوش ۔۔۔ماہین نے بڑی حسد سے مریم کو دیکھا اور آگے بڑھی ۔ ” اے سنو تم اس گھر میں بچوں کیلئیے رکھی گئی ہو غلطی سے بھی مالکن بنے کا خواب مت دیکھنا ورنہ ۔۔۔۔ اس سے پہلے ماہین بات مکمل کرتی حمزہ مریم کو آواز دیتا اندر آیا اور ماہین کو دیکھ کر چونک گیا اور مریم جو پاس پڑا بڑا چھرا اٹھا کر ماہین کی طبعیت صاف کرنے کو تھی واپس پلٹ گئی ۔ ” ارے ماہین آپ ادھر گرمی میں کیا کررہی ہیں اندر چلی ماہین کو بھیج کر وہ مریم کے پاس آیا ۔۔۔
”تم سے روٹی تو پکائی نہیں جائیگی اس لئیے پریشان مت ہونا میں نے چوکیدار کو تندور بھیج دیا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کے سرخ چہرے کو بغور دیکھا ۔ ”تم کتنے دوغلے ہو اس بچ کو کہتے ہو اندر جائیں گرمی ہے اور مجھے کچن میں جھونک رکھا ہے ۔“ حمزہ نے بڑی دلچسپی سے مریم کا یہ جیلس انداز دیکھا پھر آہستگی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔۔۔ ”وہ مہمان ہے چلی جائیگی مگر تم تو مہمان نہیں ہو ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولا ”ہاں ٹھیک کہہ رہے ہوں میں تو بلائے جان ہوں بوجھ ہوں بس تم جلدی سے میرے تایا کو جیل میں ڈالو تاکہ میں واپس اپنی دنیا میں چلی جاؤں اور تمہاری بھی جان چھوٹے ۔۔۔۔“ مریم نے رنجیدگی سے کہا اور چولہا بند کرتی باہر نکل گئی ۔۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔