نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 11
رات کا ڈنر سرو ہو چکا تھا مریم نے چکن کڑھائی اور فروٹ سیلڈ بنائی تھی اور روٹیاں باہر سے آچکیں تھی پپو اور گڈو مریم کے ساتھ بیٹھے تھے اور ماہین سس حمزہ کے بالکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
” مریم آج تو معجزہ ہو گیا کھانا واقعی اچھا بن گیا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے نوالہ توڑتے ہوئے مریم کو مخاطب کیا ۔
مریم نے خونخوار نظروں سے حمزہ کو گھورا یہ تعریف تھی کہ تنقید اس کی سمجھ نہیں آئی ۔
”کیا مریم کو کھانا پکانا نہیں آتا ۔۔۔۔“ ماہین حیرت سے بولی ”ویسے میں بہت اچھا کھانا پکاتی ہوں لاسٹ ائیر پیرس اسکول آف کلنری آرٹ سے ڈگری بھی لی ہے ۔۔۔“ ماہین گردن اکڑا کر بولی ۔ ” یہ تو بہت اچھی بات ہے باجی ایسا کرنا کل سے تم ہی کھانا پکا لینا ۔۔۔“ مریم نے بڑی خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا ”باجی ۔۔۔۔میں تمہیں کس اینگل سے باجی لگتی ہوں ! خود تو بے بی بنی گھومتی ہو اور میں باجی شرم کرو میں تو تم سے بھی چار پانچ سال چھوٹی ہی ہونگی ۔۔۔۔“ ماہین نے مبالغہ آرائی کی حد کردی ۔ ”باجی جب سے آپ آئی ہیں یہ ہی کہہ رہی ہیں سس کہو ، تو سس تو باجی ہی ہوتی ہے نا۔۔۔۔ مریم نے بھی معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔
” اچھا بس اب بحث ختم کرو اور ماہین آپ ٹھیک سے کھانا کھائیے گا کوئی تکلف نہیں چلے گا ۔۔“ حمزہ نے اچھے میزبان ہونے کا حق نبھایا ۔ بڑوں کی ساری باتوں سے بےنیاز پپو گڈو کھانا کھانے میں لگے تھے ۔۔ ”چاچو ۔۔۔ہمارا بکرا کب آئیگا “ پپو نے سر اٹھا کر حمزہ کو دیکھا ۔۔ ”کل صبح تیار رہنا منڈی چلینگے بکرا لینے ۔۔۔۔“ حمزہ نے کہا دونوں بچوں کے چہرے کھل گئے تھے
کھانے سے فارغ ہوکر سب تھوڑی دیر لیونگ روم میں آکر بیٹھ گئے مریم کچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی پپو گڈو دونوں ہی حمزہ کی گود میں چڑھے ہوئے تھے ۔۔
”چاچو اس بار بکرا نہ براؤن کلر کا چاہئیے بڑا سا اور اس کا فیس بھی پریٹی ہونا چاہئیے اور کان لمبے ہونے چاہئیے اور مسلز آپ جیسے اسٹرانگ ۔۔۔“ گڈو نے بکرے کیلئیے اپنی ڈیمانڈ پیش کیں ۔ ” گڈو یار تو کس پر چلا گیا ہے آخر تو اتنا حسن پرست کیوں ہے کہ تجھے بکرا بھی پریٹی چاہئیے ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو کے کان کھینچے ۔ ”اور چاچو مجھے نہ وی فیس کا جسٹن بیبر جیسا بلیو آئیز والا بکرا چاہئیے ۔۔۔“ پپو نے اپنی ڈیمانڈ بتائی
”پپو موٹے تو کیا بکرے سے کانسرٹ کروائیگا ۔۔“ حمزہ نے پپو کے گدگدی کی اس سے پہلے گڈو جواب دیتا ماہین جو بہت دیر سے حمزہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی تھی بیچ میں بول پڑی ۔۔
”حمزہ آپ عید پر بکرا کیوں قربان کرتے ہیں اونٹ کیجئیے نا آپ تو افورڈ بھی کرسکتے ہیں ۔“ ماہین نے حمزہ کو مخاطب کیا ۔ ”مس ماہین میں قربانی اللہ کیلئیے کرتا ہوں اور پھر میرے بچے بکرے سے زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے جواب دیا اتنے میں مریم دوکپ چائے اور تین بڑے بڑے مگ ہاٹ چاکلیٹ کے بنالائی کہ ایک یہی کام تو اسے اچھا آتا تھا ٹرے درمیانی میز پر رکھ کر کالی کسیلی گدلے پانی جیسی چائے حمزہ اور مریم کو دی ۔۔ ” یہ کیا ہے ۔۔۔۔“ ماہین نے ہاتھ میں پکڑے کپ کو گھورا ۔
” باجی یہ چائے ہے اور آپ کے حمزہ صاحب ایسی ہی چائے پسند کرتے ہیں اپنے جیسی کڑوی کسیلی اور ظاہر ہے ان کی پسند آپ کی پسند ۔۔۔کیوں ٹھیک کہا نا۔۔۔۔“ مریم نے شرارت سے حمزہ کو دیکھا اور خود خوشبوئيں بکھیرتے ہاٹ چاکلیٹ کے کپ جن پر کریم کی تہہ جمی ہوئی تھی لیکر گڈو اور پپو کے پاس بیٹھ گئی حمزہ نے ترستی نگاہوں سے ان تینوں کے کپ دیکھے اور ایک گہری سانس بھرتے وہ کڑوی کالی چائے کا کپ اٹھالیا ۔۔۔
مریم نے تھوڑی دیر بعد کپ سمیٹے اور پھر باہر چلی گئی تھوڑی دیر بعد دوبارہ اندر آئی ۔ ”گڈو پپو آؤ میرے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔“
وہ دونوں فوراً اچھل کر کھڑے ہوگئے اور مریم کے ساتھ اس کے کمرے کی جانب چلے گئے ۔۔ ”یہ لڑکی ! کیا یہ رات بھی ادھر ہی رہتی ہے اپنے گھر نہیں جاتی ۔۔۔“ ماہین کا حیرت سے برا حال تھا
” ایک جوان لڑکی اسطرح کیسے کسی کے گھر رہ سکتی ہے حمزہ آپ اس کو رات میں اسکے گھر بھیج دیا کریں ۔۔۔“ ماہین نے حمزہ کو مخاطب کیا ” یہ مریم کا اپنا گھر ہے مس ماہین ، آپ مریم کی فکر نہ کریں۔۔۔“ حمزہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا ماہین بھی حمزہ کے کھڑے ہوتے ہی کھڑی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی لیونگ روم سے باہر نکل گئی ۔
”اللہ حمزہ آپ کا گھر اتنا بڑا ہے مجھے یاد نہیں آرہا میرا کمرہ کونسا تھا کیا آپ مجھے روم تک چھوڑدینگے ۔۔۔“ ماہین نے جاتے ہوئے حمزہ کو پکارا حمزہ ایک گہرا سانس لیکر پلٹا ۔۔ ”چلیں …“ اسے گیسٹ روم کے دروازے تک لیکر آیا ”اندر آئیے نا تھوڑی کالج ڈیز کی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔۔۔“ ماہین نے اسے روکنا چاہا ” اٹس اوکے آپ آرام کریں ۔۔۔“ حمزہ اپنے اکھڑ انداز میں کہتا واپس پلٹ گیا اب اس کا رخ بچوں کے کمرے کی جانب تھا لیکن وہ سارے تو بےبی کے کمرے میں جمع تھے دروازہ نیم وا تھا اور اندر سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھی وہ بڑے آرام سے دروازہ کھول کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو کو اپنے روم میں لے آئی تھی جہاں بچوں کیلئیے آئسکریم اور فرنچ فرائز موجود تھے ۔۔۔۔ ”یا ہو فرائز۔۔۔۔“ پپو اور گڈو دونوں چلائے
اب مریم بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی پپو اس کی گودی میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا اور گڈو بھی اس کے پاس اوندھا لیٹا ہوا کیچپ لگا لگا کر فرائز کھا رہا تھا ۔۔۔ ” بے بی یہ کمرہ اچھا ہے نا بالکل ہمارے کمرے کے ساتھ اب ہم صبح اٹھ کر ادھر آجایا کرینگے پھر جب چاچو بکرا لے آئینگے تو بکرے کے ساتھ مل کر مارننگ واک پر جائینگے ۔۔۔“ گڈو نے اپنا پلان بتایا ” لیکن گڈو مجھے بکرے سے ڈر لگتا ہے ۔۔“ مریم لاچاری سے بولی ”او ہو ایک تو ساری گرلز ڈرتی بہت ہیں ۔۔۔“ پپو نے لیٹے لیٹے سر پر ہاتھ مارا ”اچھا ایسا کرنا مارننگ واک پر بکرے کے ساتھ چاچو کو لیجانا اور گھر پر وڈیو گیم میرے ساتھ کھیلنا ۔۔۔“ مریم نے صلاح دی ” ٹھیک ہے بے بی ۔۔۔“ گڈو اٹھتا ہوا بولا
”کدھر ۔۔۔“ مریم نے اٹھتے ہوئے گڈو کو ٹوکا
”چاچو کو چیک کرکے آتا ہوں اس وچ کے ساتھ اکیلے بیٹھے ہیں ۔۔۔“گڈو بولا ” ارے چھوڑو اپنے سڑے چاچو اور اس وچ کو مجھے اکیلے بہت ڈر لگتا ہے نئی جگہ ہے نا کچھ کرو ۔۔“ مریم نے دونوں کو دیکھا ”بے بی ہم ادھر ہی رہ جاتے ہیں میں تو ویسے بھی سپرمین ہوں سب کو ڈرا کر بھگا دیتا ہوں ۔۔“ گڈو صاحب سینہ پھلا کر بولے ”اہمم اہمم ۔۔۔“ بہت دیر سے چپ کھڑا حمزہ کھنکھارا ”یہ کیا ہورہا ہے اور تم دونوں ابھی سوئے نہیں صبح بکرا لینے جانا ہے ۔۔۔“ حمزہ ان تینوں کو گھورتا ہوا گڈو پپو سے بولا ” چاچو ۔۔۔۔“ پپو نے حمزہ کو پکارا پھر تیزی سے زور سے آنکھیں میچیں ” میں سو گیا ہوں “ ۔۔۔ پپو کی باریک سی آواز آئی ۔۔۔ ”بدمعاش چاچو سے بدمعاشی ۔۔۔“ حمزہ نے مسکرا کر پھولے گالوں پر سختی سے آنکھیں میچے پپوٹا کو مریم کی گود سے اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے گڈو کو دبوچا ”بس بہت مستی ہوگئی اب سلیپنگ ٹائم۔۔۔“
”چاچو میری بےبی کو ڈر لگتا ہے میں نے بےبی کے پاس سونا ہے یو نو شی نیڈ آ سپرمین ۔۔۔“ گڈو اس کی گرفت میں مچلا۔ پر حمزہ سنی ان سنی کرتا دونوں کو لیکر چلا گیا مریم سب کے جانے کے بعد اٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر اپنے بال کھول کر کنگھی کرنے لگی اس کے بال بہت خوبصورت تھے وہ روز سونے سے پہلے گن کر بالوں میں سو دفعہ برش کرنے کی عادی تھی ۔۔ حمزہ دونوں بچوں کو سلا کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب اسے سامنے والے کمرے میں مریم اپنے بالوں سے الھجتی نظر آئی اس کے گھنے خوبصورت بال دیکھ کر حمزہ کی نظروں میں ستائش ابھری پر مریم ۔۔۔وہ اسے دیکھتا اس کے کمرے میں داخل ہوا ۔
”کیا ہوا ۔۔۔“ اندر آکر اس نے مریم کے جھنجھلائے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا ۔ ”کیا ہوا مجھ سے پوچھتے ہو کیا ہوا ۔۔۔“ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی ۔ ” اس دور میں جب ساری دنیا بالوں کیلئیے برش استمعال کرتی ہے تم میرے لئیے یہ یہ ٹھیلے سے کنگھی اٹھا لائے ہو دیکھو میرے بالوں میں الجھ گئی ہے ۔۔۔۔“ وہ اپنے بالوں میں الجھی کنگھی دکھاتے ہوئے بولی ”ایک تو تمہارے اوپر خرچہ کیا چیزیں لاکر دی اور تم ہو کہ تمہارے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے ۔۔“ حمزہ ناگواری سے کہتا قریب آیا اور اس کے بالوں میں اٹکی کنگھی نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھی ”دیکھو پولیس والے آدمی ! مجھ پر کوئی احسان مت جتانا تم نے خود مجھ سے نکاح کیا تھا اور جب تک میں تمہارے نکاح میں ہوں میری تمام ڈیمانڈیں پورا کرنا تم پر فرض ہے۔۔۔“ مریم نے ہاتھ جھاڑے ”اوکے میری ٹیمپریری منکوحہ صاحبہ ۔۔۔شاباش اب جلدی سے کچن میں جاؤ اور میرے لئیے ہاٹ چاکلیٹ بنا کر لاؤ غضب خدا کا شام سے دل جل رہا ہے ۔۔“ حمزہ نے حکم دیا ۔
”میں اس وقت تمہارے لئیے کچن میں جاؤنگی ہوش میں تو ہو یا سارے ہوش وہ بچ لے گئی ہے ۔۔“
”تین تک گن رہا ہوں شرافت سے چل کر مجھے ہاٹ چاکلیٹ ڈرنک بنا کردو ۔۔۔“ ”بڑے آئے حکم دینے والے تین تک گن رہا ہوں ۔۔“ مریم نے اس کی نقل اتاری ۔ ”ایک ۔۔“ ”دو“ حمزہ تھوڑا قریب آیا ”تین ۔“ حمزہ نے مریم کی آنکھوں میں جھانکا اور ہاتھ بڑھا کر بڑے آرام سے نازک سی مریم کو اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور کچن کی جانب بڑھ گیا ۔۔ ”ذلیل کمینے ٹھرکی پولیس والے بدمعاش چھوڑو مجھے ۔۔۔“ مریم نے ہاتھ پیر چلائے حمزہ نے کچن میں لاکر اسے نیچے اتارا ۔۔ ”شاباش میری عارضی منکوحہ جلدی سے چاکلیٹ ڈرنک بنا کر دو ورنہ میں تمہیں ادھر سے ہلنے نہیں دونگا ۔۔۔“
”ٹھیک ہے کھڑے سڑتے رہو تمہیں ہی صبح جاب پر جانا ہے میرا کیا ہے میں صبح آرام سے سو جاؤنگی ۔۔۔“ مریم اسے چڑاتی ہوئی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی
”محترمہ بےبی صاحبہ میں دو ہفتے کی چھٹیوں پر ہو۔۔۔“ حمزہ نے اسے آگاہی کیا مریم پیر پٹختی ہوئی اٹھی اور فرج سے دودھ اور چاکلیٹ نکال کر کام کرنے لگی ۔
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو رات بھر بکرے کے سہانے خواب دیکھتے رہے اور بکرا لانے کی خوشی میں صبح چھ بجے ہی خود اٹھ کر تیار ہوگئے گڈو اپنی نئی نیکر اور شرٹ پر الٹی کیپ لئیے ہوئے تھا اور پپو نے بھی نیکر اور کارٹون والی شرٹ پہن کر گڈو کی نقل میں الٹی کیپ پہن لی تھی اور اب دونوں کا رخ حمزہ کے کمرے کی جانب تھا۔ اے سی کی ٹھنڈک میں حمزہ اپنے بیڈ پر چاروں خانے چت لیٹا گہری نیند میں گم تھا جب دروازہ کھول کر پپو اور گڈو اندر داخل ہوئے پپو تو اچک کر بیڈ پر چڑھ کر حمزہ کے اوپر بیٹھ گیا اور گڈو نے میز پر پڑا مائک اپنے قبضے میں کیا اور حمزہ کے کان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
”چاچو میرے راج دلارے میری جان کے دشمن اٹھ جاؤ ۔۔۔“ وہاں بالکل حمزہ کے اسٹائل میں بول رہا تھا جب مائک پر بچوں کی آواز سن کر مریم جاگ گئی اور انہیں ڈھونڈتی ہوئی حمزہ کے کمرے تک آپہنچی ۔۔۔۔ ” تمہارے چاچو اتنے آرام سے نہیں اٹھنے والے ۔۔“ وہ پپو کو حمزہ کے اوپر سے ہٹاتے ہوئے بولی ۔ ”پھر کیا کریں بے بی ہمیں دیر ہورہی ہے ۔۔۔“ گڈو نے پوچھا ”تم دونوں دور ہٹو میں تمہارے چاچو کو اٹھاتی ہوں ۔۔۔“ مریم نے پاس پڑا پانی کا جگ اٹھایا ۔ ” حمزہ اٹھو ۔۔۔میں تین تک گن رہی ہوں ۔۔۔ ایک ۔۔۔دو ۔۔۔سوا دو ..پونے تین ۔۔۔تین ۔۔۔“ اور مریم نے پانی کا سارا جگ اٹھا کر حمزہ کے اوپر انڈیل دیا ۔ حمزہ جو نیند میں تھا پانی پڑتے ہی ہڑبڑا کر اٹھا اور سامنے کھڑی مریم کو مسکراتے دیکھ کر اسکا دل جل گیا اوپر سے دونوں بچوں کی ہنسی نے سونے پہ سہاگہ والا کام کیا وہ سرخ آنکھیں ملتا ہوا کھڑا ہوا اور مریم کے قریب آکر اسے دونوں بازؤوں سے جکڑا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ ”تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں دیر سے سویا تھا پھر بھی تم نے میرا خیال نہیں کیا بہرحال آئندہ کبھی بھی مجھے ایسے مت جگانا ورنہ ۔۔۔۔“ وہ بات ادھوری چھوڑتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا واش روم چلا گیا ۔۔************************* جیپ چٹیل میدان کے باہر آکر رکی حمزہ گڈو اور پپو تینوں الٹے کیپ اور سن گلاسس لگائے بڑے اسٹائل سے نیچے اترے اور چلتے ہوئے میدان کے اندر لگی بکرا منڈی میں داخل ہوئے ۔۔۔ چاروں طرف بکرے ہی بکرے گائیں بھینس اور بھیڑیں ہی بھیڑیں تھی ۔ پپو اور گڈو ایک ایک بکرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ ”چاچو اس بکرے کو دیکھیں کتنا ہینڈسم ہے ۔۔“ گڈو نے ایک بکرے کی جانب اشارہ کیا ۔
پپو تیزی سے لپک کر بکرے کی جانب گیا اور اچک اچک کر بکرے کی آنکھوں میں جھانکنے لگا حتی کہ بکرا بوکھلا گیا ۔۔۔ ” نہیں گڈو اس کی آئیز بلیک ہیں مجھے بلیو آئیز والا چاہئیے ۔۔۔“ پپو بکرے کو ریجیکٹ کرتا ہوا بولا ۔
”بکرے والے انکل ہمیں بلیو آئیز اور گولڈن بالوں والا بکرا دکھائیں ۔۔۔“ کئی بکرے ریجیکٹ کرکے گڈو بکرے والے سے بولا ۔ ”صاحب ۔۔۔“ بکرے والے نے بےبسی سے حمزہ کو دیکھا ۔۔۔
”یہ پاکستان ہے صاحب میں آپ کے بچوں کیلئیے فرنگی بکرا کدھر سے لاؤ ۔۔“ کافی دیر بعد ہلکی گرے آنکھوں اور سفید اور بھورے والے بکرے پر معاملہ ڈن ہوا اور وہ تینوں بکرے کو لیکر گاڑی کی طرف چلے اور بکرے والوں نے شکر کا سانس لیا ۔
”بےبی بے بی جلدی باہر آؤ بکرا آگیا ہے ۔۔۔“ گڈو اور پپو گھر پہنچتے ہی مریم کو آوازیں دینے لگے مریم جلدی سے باہر نکلی ۔۔ ”گڈو بکرا رسی سے بندھا ہوا ہے نا۔۔۔“مریم نے کنفرم کیا اور گڈو کے اثبات میں سر ہلانے پر باہر آئی ۔۔۔ درخت سے بندھا بکرا بھی شاید مریم کو دیکھ کر اس پر فلیٹ ہوگیا اور منمناتا ہوا مریم کی جانب لپکا ۔۔۔ مریم نے ایک زوردار چیخ ماری اور دوڑ کر دور کھڑے حمزہ کا بازو دبوچ کر اس کی اوٹ میں کھڑی ہو گئی حمزہ نے ایک نظر اپنے بازو کو جکڑے نرم و نازک ہاتھ کو دیکھا ۔۔۔ ”مریم اٹس اوکے وہ بندھا ہوا ہے اس کی رسی لمبی ہے پر وہ تم تک نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔“ حمزہ نے تسلی دی ۔ ”نہیں حمزہ تمہیں نہیں پتہ بکروں اور گائے پر میں ہرگز بھروسہ نہیں کرسکتی ۔۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین رات دیر تک اپنی بہن سے باتیں کرتی اور پلان بناتی رہی اس لئیے جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ جلدی سے بستر چھوڑ کر فریش ہوکر تیار ہوئی اور باہر آئی تو پورا گھر سائیں سائیں کررہا تھا وہ چلتی ہوئی پچھلی طرف بنے باغیچہ میں آئی جہاں سے شور و غل کی آوازیں آرہی تھی ۔۔ ایک صحت مند سا بکرا سامنے بندھا تھا اور گڈو پپو اس کو بڑے فخر سے دیکھ رہے تھے اس نے نظر دوڑائی تو تھوڑی دور مریم حمزہ کے بازو کو کس کر دبوچے اس کی آڑ لئیے کھڑی تھی اور حمزہ کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکان تھی ۔ ماہین کے تو تن بدن میں ان دونوں کو اتنے قریب دیکھ کر آگ لگ گئی ۔۔۔۔ ”چاچو بکرے کا کھانا تو ہم لائے ہی نہیں ۔۔“ گڈو نے ایک اہم مسئلہ پر توجہ دلائی ۔۔ ”گڈ مارننگ حمزہ ۔۔۔“ ماہین نے سب کو متوجہ کیا حمزہ نے سر کے اشارے سے اسے جواب دیا اور پھر پپو سے مخاطب ہوا ”پپو موٹے چلو گھاس لیکر آتے ہیں تم اپنے لئیے اسنیک بھی خرید لینا ۔۔۔“ حمزہ نے لالچ دیا ”نہیں میں نے نہیں جانا ۔۔۔“ پپو بکرے سے چمٹ گیا ”حمزہ میں چلتی ہوں آپ کو کمپنی دینے اور آپ مجھے کافی پلوا دیجئیے گا مریم کو تو چائے بنانی نہیں آتی کافی کیا خاک بنائے گی ۔۔۔“ ماہین نخوت سے بولتی حمزہ کے پاس آکر کھڑی ہو کر مریم کو گھورنے لگی ۔ مریم نے تیزی سے حمزہ کا بازو چھوڑا اور دو قدم پیچھے ہٹ گئی حمزہ نے ایک نظر مریم کے خفا چہرے کو دیکھا اور صبح کا بدلہ لینے کیلئیے اسے تپانے کا سوچا ۔۔۔
” ٹھیک تو پھر چلئیے گھاس بھی لے آئینگے اور کافی بھی پی لینگے ۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین کو کافی دلا کر بکرے کیلئیے چارہ لیکر حمزہ واپس آیا تو باغیچہ سنسان پڑا تھا سامنے بکرا بھی سن گلاسس اور کیپ پہنے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا حمزہ نے چارہ بکرے کے آگے رکھا اور اندر بڑھا ۔۔۔ مریم کچن میں مصروف تھی اور بچے اپنے کمرے میں کارپیٹ پر اوندھے لیٹے تصویر بنا رہے تھے حمزہ تھوڑی دیر انکی بنائی تصویر دیکھتا رہا وہ دونوں بھی اسے دیکھ چکے تھے اس لئیے اٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔ ”یہ کیا بنایا ہے ۔۔“ حمزہ نے دلچسپی سے پوچھا
”یہ میں گڈو اور بےبی ہیں اور یہ ہمارا بکرا ہے ۔۔“ پپو نے سنجیدگی سے سمجھایا ”اوکے اور میں کدھر ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ نے بھنوئیں اچکائیں
” چاچو آپ ! ہاں یاد آگیا آپ اس ماہین بچ کے ساتھ گھاس کھانے گئے ہیں ۔۔“ گڈو نے سوچ کر جواب دیا ۔۔۔ حمزہ کو اچھو لگ گیا اس نے گھور کر گڈو کو دیکھا پر گڈو صاحب بے نیازی سے دوبارہ کلرنگ میں مصروف ہوچکے تھے ”بچ نہیں بری بات سس کہو بیٹا سس ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو کو مخاطب کر کے تصیح کی ۔۔ ”چاچو ۔۔۔۔“ گڈو حمزہ کی تصیح کو نظر انداز کرتا ہوا اس کے پاس آیا ”جی چاچو کی جان ۔۔۔“ حمزہ نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ”مجھے ایک اچھا والا بم چاہئیے ۔۔“ گڈو نے فرمائش جھاڑی ”کیا چاہئیے ۔۔۔۔“ حمزہ کی آنکھیں پھٹ پڑیں ۔ ”بم چاچو بم جو زور سے پھٹتا ہے آپ پولیس ہیں آپ کو بم کا نہیں پتہ ۔۔۔“ گڈو نے تاسف سے حمزہ کو دیکھا ۔ ”ابے موٹے میں جانتا ہوں بم کیا ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے پر تجھے بم سے کیا کرنا ہے ۔۔۔کہیں ماہین ۔۔۔“ حمزہ چونک گیا
”چاچو بم بلاسٹ کرینگے مزہ آئے گا ۔۔“ پپو نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا ”ایک پولیس والے کے بچے ہو کر دھشت گرد بنو گے وہ بھی اس عمر میں جب تمہارے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے ۔۔۔“ حمزہ کا حیرت اور تاسف سے برا حال تھا
”ارے نہیں چاچو میں اور پپو بم بلاسٹ کرکے بےبی کے کمرے کی دیوار توڑینگے وہ بےبی کو رات میں ڈر لگتا ہے نا تو ہم دیوار توڑ کر ایک بہت بڑا روم بنالینگے پھر بے بی بھی ہمارے ساتھ رہے گئی ۔۔۔“ گڈو صاحب شرمیلی مسکان سجائے گویا ہوئے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” مریم آج تو معجزہ ہو گیا کھانا واقعی اچھا بن گیا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے نوالہ توڑتے ہوئے مریم کو مخاطب کیا ۔
مریم نے خونخوار نظروں سے حمزہ کو گھورا یہ تعریف تھی کہ تنقید اس کی سمجھ نہیں آئی ۔
”کیا مریم کو کھانا پکانا نہیں آتا ۔۔۔۔“ ماہین حیرت سے بولی ”ویسے میں بہت اچھا کھانا پکاتی ہوں لاسٹ ائیر پیرس اسکول آف کلنری آرٹ سے ڈگری بھی لی ہے ۔۔۔“ ماہین گردن اکڑا کر بولی ۔ ” یہ تو بہت اچھی بات ہے باجی ایسا کرنا کل سے تم ہی کھانا پکا لینا ۔۔۔“ مریم نے بڑی خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا ”باجی ۔۔۔۔میں تمہیں کس اینگل سے باجی لگتی ہوں ! خود تو بے بی بنی گھومتی ہو اور میں باجی شرم کرو میں تو تم سے بھی چار پانچ سال چھوٹی ہی ہونگی ۔۔۔۔“ ماہین نے مبالغہ آرائی کی حد کردی ۔ ”باجی جب سے آپ آئی ہیں یہ ہی کہہ رہی ہیں سس کہو ، تو سس تو باجی ہی ہوتی ہے نا۔۔۔۔ مریم نے بھی معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔
” اچھا بس اب بحث ختم کرو اور ماہین آپ ٹھیک سے کھانا کھائیے گا کوئی تکلف نہیں چلے گا ۔۔“ حمزہ نے اچھے میزبان ہونے کا حق نبھایا ۔ بڑوں کی ساری باتوں سے بےنیاز پپو گڈو کھانا کھانے میں لگے تھے ۔۔ ”چاچو ۔۔۔ہمارا بکرا کب آئیگا “ پپو نے سر اٹھا کر حمزہ کو دیکھا ۔۔ ”کل صبح تیار رہنا منڈی چلینگے بکرا لینے ۔۔۔۔“ حمزہ نے کہا دونوں بچوں کے چہرے کھل گئے تھے
کھانے سے فارغ ہوکر سب تھوڑی دیر لیونگ روم میں آکر بیٹھ گئے مریم کچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی پپو گڈو دونوں ہی حمزہ کی گود میں چڑھے ہوئے تھے ۔۔
”چاچو اس بار بکرا نہ براؤن کلر کا چاہئیے بڑا سا اور اس کا فیس بھی پریٹی ہونا چاہئیے اور کان لمبے ہونے چاہئیے اور مسلز آپ جیسے اسٹرانگ ۔۔۔“ گڈو نے بکرے کیلئیے اپنی ڈیمانڈ پیش کیں ۔ ” گڈو یار تو کس پر چلا گیا ہے آخر تو اتنا حسن پرست کیوں ہے کہ تجھے بکرا بھی پریٹی چاہئیے ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو کے کان کھینچے ۔ ”اور چاچو مجھے نہ وی فیس کا جسٹن بیبر جیسا بلیو آئیز والا بکرا چاہئیے ۔۔۔“ پپو نے اپنی ڈیمانڈ بتائی
”پپو موٹے تو کیا بکرے سے کانسرٹ کروائیگا ۔۔“ حمزہ نے پپو کے گدگدی کی اس سے پہلے گڈو جواب دیتا ماہین جو بہت دیر سے حمزہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی تھی بیچ میں بول پڑی ۔۔
”حمزہ آپ عید پر بکرا کیوں قربان کرتے ہیں اونٹ کیجئیے نا آپ تو افورڈ بھی کرسکتے ہیں ۔“ ماہین نے حمزہ کو مخاطب کیا ۔ ”مس ماہین میں قربانی اللہ کیلئیے کرتا ہوں اور پھر میرے بچے بکرے سے زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے جواب دیا اتنے میں مریم دوکپ چائے اور تین بڑے بڑے مگ ہاٹ چاکلیٹ کے بنالائی کہ ایک یہی کام تو اسے اچھا آتا تھا ٹرے درمیانی میز پر رکھ کر کالی کسیلی گدلے پانی جیسی چائے حمزہ اور مریم کو دی ۔۔ ” یہ کیا ہے ۔۔۔۔“ ماہین نے ہاتھ میں پکڑے کپ کو گھورا ۔
” باجی یہ چائے ہے اور آپ کے حمزہ صاحب ایسی ہی چائے پسند کرتے ہیں اپنے جیسی کڑوی کسیلی اور ظاہر ہے ان کی پسند آپ کی پسند ۔۔۔کیوں ٹھیک کہا نا۔۔۔۔“ مریم نے شرارت سے حمزہ کو دیکھا اور خود خوشبوئيں بکھیرتے ہاٹ چاکلیٹ کے کپ جن پر کریم کی تہہ جمی ہوئی تھی لیکر گڈو اور پپو کے پاس بیٹھ گئی حمزہ نے ترستی نگاہوں سے ان تینوں کے کپ دیکھے اور ایک گہری سانس بھرتے وہ کڑوی کالی چائے کا کپ اٹھالیا ۔۔۔
مریم نے تھوڑی دیر بعد کپ سمیٹے اور پھر باہر چلی گئی تھوڑی دیر بعد دوبارہ اندر آئی ۔ ”گڈو پپو آؤ میرے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔“
وہ دونوں فوراً اچھل کر کھڑے ہوگئے اور مریم کے ساتھ اس کے کمرے کی جانب چلے گئے ۔۔ ”یہ لڑکی ! کیا یہ رات بھی ادھر ہی رہتی ہے اپنے گھر نہیں جاتی ۔۔۔“ ماہین کا حیرت سے برا حال تھا
” ایک جوان لڑکی اسطرح کیسے کسی کے گھر رہ سکتی ہے حمزہ آپ اس کو رات میں اسکے گھر بھیج دیا کریں ۔۔۔“ ماہین نے حمزہ کو مخاطب کیا ” یہ مریم کا اپنا گھر ہے مس ماہین ، آپ مریم کی فکر نہ کریں۔۔۔“ حمزہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا ماہین بھی حمزہ کے کھڑے ہوتے ہی کھڑی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی لیونگ روم سے باہر نکل گئی ۔
”اللہ حمزہ آپ کا گھر اتنا بڑا ہے مجھے یاد نہیں آرہا میرا کمرہ کونسا تھا کیا آپ مجھے روم تک چھوڑدینگے ۔۔۔“ ماہین نے جاتے ہوئے حمزہ کو پکارا حمزہ ایک گہرا سانس لیکر پلٹا ۔۔ ”چلیں …“ اسے گیسٹ روم کے دروازے تک لیکر آیا ”اندر آئیے نا تھوڑی کالج ڈیز کی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔۔۔“ ماہین نے اسے روکنا چاہا ” اٹس اوکے آپ آرام کریں ۔۔۔“ حمزہ اپنے اکھڑ انداز میں کہتا واپس پلٹ گیا اب اس کا رخ بچوں کے کمرے کی جانب تھا لیکن وہ سارے تو بےبی کے کمرے میں جمع تھے دروازہ نیم وا تھا اور اندر سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھی وہ بڑے آرام سے دروازہ کھول کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو کو اپنے روم میں لے آئی تھی جہاں بچوں کیلئیے آئسکریم اور فرنچ فرائز موجود تھے ۔۔۔۔ ”یا ہو فرائز۔۔۔۔“ پپو اور گڈو دونوں چلائے
اب مریم بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی پپو اس کی گودی میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا اور گڈو بھی اس کے پاس اوندھا لیٹا ہوا کیچپ لگا لگا کر فرائز کھا رہا تھا ۔۔۔ ” بے بی یہ کمرہ اچھا ہے نا بالکل ہمارے کمرے کے ساتھ اب ہم صبح اٹھ کر ادھر آجایا کرینگے پھر جب چاچو بکرا لے آئینگے تو بکرے کے ساتھ مل کر مارننگ واک پر جائینگے ۔۔۔“ گڈو نے اپنا پلان بتایا ” لیکن گڈو مجھے بکرے سے ڈر لگتا ہے ۔۔“ مریم لاچاری سے بولی ”او ہو ایک تو ساری گرلز ڈرتی بہت ہیں ۔۔۔“ پپو نے لیٹے لیٹے سر پر ہاتھ مارا ”اچھا ایسا کرنا مارننگ واک پر بکرے کے ساتھ چاچو کو لیجانا اور گھر پر وڈیو گیم میرے ساتھ کھیلنا ۔۔۔“ مریم نے صلاح دی ” ٹھیک ہے بے بی ۔۔۔“ گڈو اٹھتا ہوا بولا
”کدھر ۔۔۔“ مریم نے اٹھتے ہوئے گڈو کو ٹوکا
”چاچو کو چیک کرکے آتا ہوں اس وچ کے ساتھ اکیلے بیٹھے ہیں ۔۔۔“گڈو بولا ” ارے چھوڑو اپنے سڑے چاچو اور اس وچ کو مجھے اکیلے بہت ڈر لگتا ہے نئی جگہ ہے نا کچھ کرو ۔۔“ مریم نے دونوں کو دیکھا ”بے بی ہم ادھر ہی رہ جاتے ہیں میں تو ویسے بھی سپرمین ہوں سب کو ڈرا کر بھگا دیتا ہوں ۔۔“ گڈو صاحب سینہ پھلا کر بولے ”اہمم اہمم ۔۔۔“ بہت دیر سے چپ کھڑا حمزہ کھنکھارا ”یہ کیا ہورہا ہے اور تم دونوں ابھی سوئے نہیں صبح بکرا لینے جانا ہے ۔۔۔“ حمزہ ان تینوں کو گھورتا ہوا گڈو پپو سے بولا ” چاچو ۔۔۔۔“ پپو نے حمزہ کو پکارا پھر تیزی سے زور سے آنکھیں میچیں ” میں سو گیا ہوں “ ۔۔۔ پپو کی باریک سی آواز آئی ۔۔۔ ”بدمعاش چاچو سے بدمعاشی ۔۔۔“ حمزہ نے مسکرا کر پھولے گالوں پر سختی سے آنکھیں میچے پپوٹا کو مریم کی گود سے اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے گڈو کو دبوچا ”بس بہت مستی ہوگئی اب سلیپنگ ٹائم۔۔۔“
”چاچو میری بےبی کو ڈر لگتا ہے میں نے بےبی کے پاس سونا ہے یو نو شی نیڈ آ سپرمین ۔۔۔“ گڈو اس کی گرفت میں مچلا۔ پر حمزہ سنی ان سنی کرتا دونوں کو لیکر چلا گیا مریم سب کے جانے کے بعد اٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر اپنے بال کھول کر کنگھی کرنے لگی اس کے بال بہت خوبصورت تھے وہ روز سونے سے پہلے گن کر بالوں میں سو دفعہ برش کرنے کی عادی تھی ۔۔ حمزہ دونوں بچوں کو سلا کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب اسے سامنے والے کمرے میں مریم اپنے بالوں سے الھجتی نظر آئی اس کے گھنے خوبصورت بال دیکھ کر حمزہ کی نظروں میں ستائش ابھری پر مریم ۔۔۔وہ اسے دیکھتا اس کے کمرے میں داخل ہوا ۔
”کیا ہوا ۔۔۔“ اندر آکر اس نے مریم کے جھنجھلائے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا ۔ ”کیا ہوا مجھ سے پوچھتے ہو کیا ہوا ۔۔۔“ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی ۔ ” اس دور میں جب ساری دنیا بالوں کیلئیے برش استمعال کرتی ہے تم میرے لئیے یہ یہ ٹھیلے سے کنگھی اٹھا لائے ہو دیکھو میرے بالوں میں الجھ گئی ہے ۔۔۔۔“ وہ اپنے بالوں میں الجھی کنگھی دکھاتے ہوئے بولی ”ایک تو تمہارے اوپر خرچہ کیا چیزیں لاکر دی اور تم ہو کہ تمہارے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے ۔۔“ حمزہ ناگواری سے کہتا قریب آیا اور اس کے بالوں میں اٹکی کنگھی نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھی ”دیکھو پولیس والے آدمی ! مجھ پر کوئی احسان مت جتانا تم نے خود مجھ سے نکاح کیا تھا اور جب تک میں تمہارے نکاح میں ہوں میری تمام ڈیمانڈیں پورا کرنا تم پر فرض ہے۔۔۔“ مریم نے ہاتھ جھاڑے ”اوکے میری ٹیمپریری منکوحہ صاحبہ ۔۔۔شاباش اب جلدی سے کچن میں جاؤ اور میرے لئیے ہاٹ چاکلیٹ بنا کر لاؤ غضب خدا کا شام سے دل جل رہا ہے ۔۔“ حمزہ نے حکم دیا ۔
”میں اس وقت تمہارے لئیے کچن میں جاؤنگی ہوش میں تو ہو یا سارے ہوش وہ بچ لے گئی ہے ۔۔“
”تین تک گن رہا ہوں شرافت سے چل کر مجھے ہاٹ چاکلیٹ ڈرنک بنا کردو ۔۔۔“ ”بڑے آئے حکم دینے والے تین تک گن رہا ہوں ۔۔“ مریم نے اس کی نقل اتاری ۔ ”ایک ۔۔“ ”دو“ حمزہ تھوڑا قریب آیا ”تین ۔“ حمزہ نے مریم کی آنکھوں میں جھانکا اور ہاتھ بڑھا کر بڑے آرام سے نازک سی مریم کو اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور کچن کی جانب بڑھ گیا ۔۔ ”ذلیل کمینے ٹھرکی پولیس والے بدمعاش چھوڑو مجھے ۔۔۔“ مریم نے ہاتھ پیر چلائے حمزہ نے کچن میں لاکر اسے نیچے اتارا ۔۔ ”شاباش میری عارضی منکوحہ جلدی سے چاکلیٹ ڈرنک بنا کر دو ورنہ میں تمہیں ادھر سے ہلنے نہیں دونگا ۔۔۔“
”ٹھیک ہے کھڑے سڑتے رہو تمہیں ہی صبح جاب پر جانا ہے میرا کیا ہے میں صبح آرام سے سو جاؤنگی ۔۔۔“ مریم اسے چڑاتی ہوئی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی
”محترمہ بےبی صاحبہ میں دو ہفتے کی چھٹیوں پر ہو۔۔۔“ حمزہ نے اسے آگاہی کیا مریم پیر پٹختی ہوئی اٹھی اور فرج سے دودھ اور چاکلیٹ نکال کر کام کرنے لگی ۔
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو رات بھر بکرے کے سہانے خواب دیکھتے رہے اور بکرا لانے کی خوشی میں صبح چھ بجے ہی خود اٹھ کر تیار ہوگئے گڈو اپنی نئی نیکر اور شرٹ پر الٹی کیپ لئیے ہوئے تھا اور پپو نے بھی نیکر اور کارٹون والی شرٹ پہن کر گڈو کی نقل میں الٹی کیپ پہن لی تھی اور اب دونوں کا رخ حمزہ کے کمرے کی جانب تھا۔ اے سی کی ٹھنڈک میں حمزہ اپنے بیڈ پر چاروں خانے چت لیٹا گہری نیند میں گم تھا جب دروازہ کھول کر پپو اور گڈو اندر داخل ہوئے پپو تو اچک کر بیڈ پر چڑھ کر حمزہ کے اوپر بیٹھ گیا اور گڈو نے میز پر پڑا مائک اپنے قبضے میں کیا اور حمزہ کے کان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ۔۔۔
”چاچو میرے راج دلارے میری جان کے دشمن اٹھ جاؤ ۔۔۔“ وہاں بالکل حمزہ کے اسٹائل میں بول رہا تھا جب مائک پر بچوں کی آواز سن کر مریم جاگ گئی اور انہیں ڈھونڈتی ہوئی حمزہ کے کمرے تک آپہنچی ۔۔۔۔ ” تمہارے چاچو اتنے آرام سے نہیں اٹھنے والے ۔۔“ وہ پپو کو حمزہ کے اوپر سے ہٹاتے ہوئے بولی ۔ ”پھر کیا کریں بے بی ہمیں دیر ہورہی ہے ۔۔۔“ گڈو نے پوچھا ”تم دونوں دور ہٹو میں تمہارے چاچو کو اٹھاتی ہوں ۔۔۔“ مریم نے پاس پڑا پانی کا جگ اٹھایا ۔ ” حمزہ اٹھو ۔۔۔میں تین تک گن رہی ہوں ۔۔۔ ایک ۔۔۔دو ۔۔۔سوا دو ..پونے تین ۔۔۔تین ۔۔۔“ اور مریم نے پانی کا سارا جگ اٹھا کر حمزہ کے اوپر انڈیل دیا ۔ حمزہ جو نیند میں تھا پانی پڑتے ہی ہڑبڑا کر اٹھا اور سامنے کھڑی مریم کو مسکراتے دیکھ کر اسکا دل جل گیا اوپر سے دونوں بچوں کی ہنسی نے سونے پہ سہاگہ والا کام کیا وہ سرخ آنکھیں ملتا ہوا کھڑا ہوا اور مریم کے قریب آکر اسے دونوں بازؤوں سے جکڑا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ ”تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں دیر سے سویا تھا پھر بھی تم نے میرا خیال نہیں کیا بہرحال آئندہ کبھی بھی مجھے ایسے مت جگانا ورنہ ۔۔۔۔“ وہ بات ادھوری چھوڑتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا واش روم چلا گیا ۔۔************************* جیپ چٹیل میدان کے باہر آکر رکی حمزہ گڈو اور پپو تینوں الٹے کیپ اور سن گلاسس لگائے بڑے اسٹائل سے نیچے اترے اور چلتے ہوئے میدان کے اندر لگی بکرا منڈی میں داخل ہوئے ۔۔۔ چاروں طرف بکرے ہی بکرے گائیں بھینس اور بھیڑیں ہی بھیڑیں تھی ۔ پپو اور گڈو ایک ایک بکرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ ”چاچو اس بکرے کو دیکھیں کتنا ہینڈسم ہے ۔۔“ گڈو نے ایک بکرے کی جانب اشارہ کیا ۔
پپو تیزی سے لپک کر بکرے کی جانب گیا اور اچک اچک کر بکرے کی آنکھوں میں جھانکنے لگا حتی کہ بکرا بوکھلا گیا ۔۔۔ ” نہیں گڈو اس کی آئیز بلیک ہیں مجھے بلیو آئیز والا چاہئیے ۔۔۔“ پپو بکرے کو ریجیکٹ کرتا ہوا بولا ۔
”بکرے والے انکل ہمیں بلیو آئیز اور گولڈن بالوں والا بکرا دکھائیں ۔۔۔“ کئی بکرے ریجیکٹ کرکے گڈو بکرے والے سے بولا ۔ ”صاحب ۔۔۔“ بکرے والے نے بےبسی سے حمزہ کو دیکھا ۔۔۔
”یہ پاکستان ہے صاحب میں آپ کے بچوں کیلئیے فرنگی بکرا کدھر سے لاؤ ۔۔“ کافی دیر بعد ہلکی گرے آنکھوں اور سفید اور بھورے والے بکرے پر معاملہ ڈن ہوا اور وہ تینوں بکرے کو لیکر گاڑی کی طرف چلے اور بکرے والوں نے شکر کا سانس لیا ۔
”بےبی بے بی جلدی باہر آؤ بکرا آگیا ہے ۔۔۔“ گڈو اور پپو گھر پہنچتے ہی مریم کو آوازیں دینے لگے مریم جلدی سے باہر نکلی ۔۔ ”گڈو بکرا رسی سے بندھا ہوا ہے نا۔۔۔“مریم نے کنفرم کیا اور گڈو کے اثبات میں سر ہلانے پر باہر آئی ۔۔۔ درخت سے بندھا بکرا بھی شاید مریم کو دیکھ کر اس پر فلیٹ ہوگیا اور منمناتا ہوا مریم کی جانب لپکا ۔۔۔ مریم نے ایک زوردار چیخ ماری اور دوڑ کر دور کھڑے حمزہ کا بازو دبوچ کر اس کی اوٹ میں کھڑی ہو گئی حمزہ نے ایک نظر اپنے بازو کو جکڑے نرم و نازک ہاتھ کو دیکھا ۔۔۔ ”مریم اٹس اوکے وہ بندھا ہوا ہے اس کی رسی لمبی ہے پر وہ تم تک نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔“ حمزہ نے تسلی دی ۔ ”نہیں حمزہ تمہیں نہیں پتہ بکروں اور گائے پر میں ہرگز بھروسہ نہیں کرسکتی ۔۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین رات دیر تک اپنی بہن سے باتیں کرتی اور پلان بناتی رہی اس لئیے جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ جلدی سے بستر چھوڑ کر فریش ہوکر تیار ہوئی اور باہر آئی تو پورا گھر سائیں سائیں کررہا تھا وہ چلتی ہوئی پچھلی طرف بنے باغیچہ میں آئی جہاں سے شور و غل کی آوازیں آرہی تھی ۔۔ ایک صحت مند سا بکرا سامنے بندھا تھا اور گڈو پپو اس کو بڑے فخر سے دیکھ رہے تھے اس نے نظر دوڑائی تو تھوڑی دور مریم حمزہ کے بازو کو کس کر دبوچے اس کی آڑ لئیے کھڑی تھی اور حمزہ کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکان تھی ۔ ماہین کے تو تن بدن میں ان دونوں کو اتنے قریب دیکھ کر آگ لگ گئی ۔۔۔۔ ”چاچو بکرے کا کھانا تو ہم لائے ہی نہیں ۔۔“ گڈو نے ایک اہم مسئلہ پر توجہ دلائی ۔۔ ”گڈ مارننگ حمزہ ۔۔۔“ ماہین نے سب کو متوجہ کیا حمزہ نے سر کے اشارے سے اسے جواب دیا اور پھر پپو سے مخاطب ہوا ”پپو موٹے چلو گھاس لیکر آتے ہیں تم اپنے لئیے اسنیک بھی خرید لینا ۔۔۔“ حمزہ نے لالچ دیا ”نہیں میں نے نہیں جانا ۔۔۔“ پپو بکرے سے چمٹ گیا ”حمزہ میں چلتی ہوں آپ کو کمپنی دینے اور آپ مجھے کافی پلوا دیجئیے گا مریم کو تو چائے بنانی نہیں آتی کافی کیا خاک بنائے گی ۔۔۔“ ماہین نخوت سے بولتی حمزہ کے پاس آکر کھڑی ہو کر مریم کو گھورنے لگی ۔ مریم نے تیزی سے حمزہ کا بازو چھوڑا اور دو قدم پیچھے ہٹ گئی حمزہ نے ایک نظر مریم کے خفا چہرے کو دیکھا اور صبح کا بدلہ لینے کیلئیے اسے تپانے کا سوچا ۔۔۔
” ٹھیک تو پھر چلئیے گھاس بھی لے آئینگے اور کافی بھی پی لینگے ۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین کو کافی دلا کر بکرے کیلئیے چارہ لیکر حمزہ واپس آیا تو باغیچہ سنسان پڑا تھا سامنے بکرا بھی سن گلاسس اور کیپ پہنے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا حمزہ نے چارہ بکرے کے آگے رکھا اور اندر بڑھا ۔۔۔ مریم کچن میں مصروف تھی اور بچے اپنے کمرے میں کارپیٹ پر اوندھے لیٹے تصویر بنا رہے تھے حمزہ تھوڑی دیر انکی بنائی تصویر دیکھتا رہا وہ دونوں بھی اسے دیکھ چکے تھے اس لئیے اٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔ ”یہ کیا بنایا ہے ۔۔“ حمزہ نے دلچسپی سے پوچھا
”یہ میں گڈو اور بےبی ہیں اور یہ ہمارا بکرا ہے ۔۔“ پپو نے سنجیدگی سے سمجھایا ”اوکے اور میں کدھر ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ نے بھنوئیں اچکائیں
” چاچو آپ ! ہاں یاد آگیا آپ اس ماہین بچ کے ساتھ گھاس کھانے گئے ہیں ۔۔“ گڈو نے سوچ کر جواب دیا ۔۔۔ حمزہ کو اچھو لگ گیا اس نے گھور کر گڈو کو دیکھا پر گڈو صاحب بے نیازی سے دوبارہ کلرنگ میں مصروف ہوچکے تھے ”بچ نہیں بری بات سس کہو بیٹا سس ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو کو مخاطب کر کے تصیح کی ۔۔ ”چاچو ۔۔۔۔“ گڈو حمزہ کی تصیح کو نظر انداز کرتا ہوا اس کے پاس آیا ”جی چاچو کی جان ۔۔۔“ حمزہ نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ”مجھے ایک اچھا والا بم چاہئیے ۔۔“ گڈو نے فرمائش جھاڑی ”کیا چاہئیے ۔۔۔۔“ حمزہ کی آنکھیں پھٹ پڑیں ۔ ”بم چاچو بم جو زور سے پھٹتا ہے آپ پولیس ہیں آپ کو بم کا نہیں پتہ ۔۔۔“ گڈو نے تاسف سے حمزہ کو دیکھا ۔ ”ابے موٹے میں جانتا ہوں بم کیا ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے پر تجھے بم سے کیا کرنا ہے ۔۔۔کہیں ماہین ۔۔۔“ حمزہ چونک گیا
”چاچو بم بلاسٹ کرینگے مزہ آئے گا ۔۔“ پپو نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا ”ایک پولیس والے کے بچے ہو کر دھشت گرد بنو گے وہ بھی اس عمر میں جب تمہارے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے ۔۔۔“ حمزہ کا حیرت اور تاسف سے برا حال تھا
”ارے نہیں چاچو میں اور پپو بم بلاسٹ کرکے بےبی کے کمرے کی دیوار توڑینگے وہ بےبی کو رات میں ڈر لگتا ہے نا تو ہم دیوار توڑ کر ایک بہت بڑا روم بنالینگے پھر بے بی بھی ہمارے ساتھ رہے گئی ۔۔۔“ گڈو صاحب شرمیلی مسکان سجائے گویا ہوئے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply