نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 12
گڈو اور پپو کے عظیم الشان بم بلاسٹ پروگرام کو سننے کے بعد حمزہ کو اپنے کانوں سے دھواں سا نکلتا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔ ”گڈو پپو بےبی ۔۔۔۔میرا مطلب مریم کی تم لوگ فکر مت کرو میں اس کا خیال رکھ لونگا اور اسے ڈرنے بھی نہیں دونگا اب یہ بم کو چھوڑو اور جاکر اپنے بکرے کو چارہ کھلا دو ۔۔۔“ حمزہ نے پیار سے سمجھایا ۔
گڈو اور پپو دونوں سر ہلاتے باہر چلے گئے۔
دو دن گزر چکے تھے بکرے کی خوب خاطر مدارت ہو رہی تھی پپو نے تو بکرے کو بھی چارہ کھانے کے بعد زبردستی کوک پینے کا عادی بنادیا تھا اس بکرے کے تو پورے عیش تھے بچے دن بھر اس سے کھیلتے رہتے تھے عید قریب آچکی تھی ماہین بھی بچوں کے نزدیک آنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھی پر وہ حسن پرست شیطان تو بس اپنی بےبی کے دیوانے تھے ۔۔ سورج سوا نیزے پر تھا حمزہ گھاس پر اخبار منہ پر رکھے لیٹا ہوا تھا پاس ہی گڈو اور پپو اپنے بکرے کو فٹ بال کھیلنا سکھا رہے تھے ۔۔ ”حمزہ ۔۔۔“ ماہین آواز لگاتی باہر آئی ۔
”حمزہ عید قریب آرہی ہے مجھے شاپنگ کرنی تھی کیا آپ مجھے بازار لے چلینگے ۔۔۔“ وہ پاس آکر بڑی نزاکت سے بولی ”آج نہیں پھر کبھی دیکھیں گئے ۔۔۔“ حمزہ نے ناگورای سے کہا ماہین نے بھی ہمت نہیں ہاری اور لان میں رکھی کرسیوں میں سے ایک کو گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔
”چاچو ۔۔۔“ گول مٹول پپو بال کی طرح لڑھکتا ہوا حمزہ کے پاس آکر دھپ سے گرا ”چاچو ۔۔۔“ پپو نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے حمزہ کے منہ سے اخبار ہٹایا ” کیا ہے پپو موٹے لیٹنے دینا یار ۔۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں بند کئیے کئیے جواب دیا۔
”چاچو میرے ہاتھ کب پیلے کروگے ۔۔۔۔“ پپو نے سوال کیا ۔
” کیا کہا ۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں کھول کر پوچھا
” آخر میرے ہاتھ کب پیلے ہونگے ۔۔۔“ اب کے پپو آرام آرام سے اسے سمجھاتا ہوا بولا ” یہ تمہیں کس نے سکھایا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے گھورا
” ٹی وی پہ کل ساڑھی والی آنٹی کہہ رہی تھی کہ بچوں کے ہاتھ جلدی پیلے کردینے چاہئیے ۔۔۔۔“ پپو نے بتایا ۔
”قسم سے تم دونوں کا ٹی وی تو عید کے بعد بند کردینا ہے کبھی تو اپنی عمر کا بھی کوئی پروگرام دیکھ لیا کرو ۔۔۔۔“ حمزہ تپتا ہوا اٹھا اب حمزہ کا رخ کچن کی جانب تھا ۔
مریم بڑے آرام سے یو ٹیوب پر کوئی نہایت ہی آسان سی کھانے کی ترکیب تلاش کررہی تھی جب حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔ ”کیا پکا رہی ہو۔۔۔“ وہ چولہے پر رکھے برتن دیکھتے ہوئے بولا ” ریسپی ڈھونڈنے میں لگی ہو ابھی نہیں پتہ ۔۔“ مریم اسکرین پر مصروف اسے دیکھے بغیر بولی
” تم کیسی ڈش پکانا چاہتی ہو مجھے بتاؤ شاید میں کچھ ہیلپ کردوں ۔۔“ حمزہ نے آفر کی ۔
” اہممم کوئی ایسی ڈش جس میں پیاز ویاز نہ کاٹنی پڑے اور نہ ہی بہت سارے مصالحہ ڈھونڈ کر ڈالنے پڑیں بس وہ خود بخود بن جائے ۔۔۔“ مریم نے سمجھایا
”شاباش تم ایسا کرو نمک ڈال کرگوشت ابال لو ہم کھا لینگے ۔۔۔“ حمزہ آگے بڑھتا فریزر سے گوشت کا پیکٹ نکالتا ہوا بولا ۔ ” یہ آئیڈیا اچھا ہے بوائل گوشت اور کیچپ اور ساتھ ساتھ فرنچ فرائز بھی بنا لونگی ۔۔۔“ مریم جوش سے بولی ۔
حمزہ نے تاسف سے مریم کو دیکھا ۔ ”لڑکی کھانا پکانا سیکھ لو شوہر کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر گزرتا ہے ۔۔۔“ ”بھاڑ میں جائے ایسا پیٹو شوہر اور اس کا خبیث معدہ یعنی جذبات احساسات محبت کچھ بھی نہیں ! اس موٹو کو کھانا چاہئیے ہوگا حد ہوگئی میں تو کبھی ایسے ندیدے سے شادی نہ کروں ۔۔۔“ مریم نے صفا چٹ جواب دیا ”شادی تو تمہاری ہوچکی ہے بےبی ۔۔۔“ حمزہ نے کہا
” خوامخواه مجھ پر الزام لگا رہے ہو کب ہوئی میری شادی ؟ “ وہ خفگی سے حمزہ کی بات کاٹ کر بولی ۔
”اچھا تو پھر میں کون ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا ”تم ۔۔“ مریم نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔
” تم میرے عارضی ٹائپ نکاح والے منکوح ہو جو مجھے کبھی بھی چھوڑ سکتا ہے ۔۔۔“ مریم نظر چراتی چولہے کی جانب پلٹی ہوئی بولی۔ مریم گوشت کو ابلنے کیلئیے رکھنے لگی تھی حمزہ نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی جو گھریلو حلیے میں بالوں کو لپیٹے ہوئے اسے بہت اپنی اپنی سی لگ رہی تھی ۔۔
”سنو اسٹو پکا لو بہت آسان ہے اور ساتھ چاول ابال لو ۔۔۔“ وہ اسے ترکیب بتا کر باہر نکل گیا ۔ لنچ ہو رہا تھا اسٹو بس گزارے لائق ہی بنا تھا ۔۔
” اللہ حمزہ آپ اتنا بدمزہ کھانا کیسے کھا لیتے ہیں مجھ سے تو حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے ۔۔“ ماہین نزاکت سے بولی ۔ ”ماہین وچ ۔۔۔“ گڈو نے پلیٹ سر اٹھا کر سامنے پڑی بریڈ نائف اٹھا کر ماہین کی طرف بڑھائی ۔ ” اس سے اپنا گلا کاٹ لیں پھر نہ کھانا زوووو کرکے اندر چلا جائیگا ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے کہا ۔ ”چاچو بچ کا گلا میں کاٹونگا مزا آئیگا ۔۔۔“ پپو حمزہ سے لاڈ بھرے لہجے میں بولا ۔ ماہین نے شرارے اگلتی نگاہوں سے بچوں کو دیکھا اتنے میں حمزہ نے چپ چاپ کھانا کھاتی مریم کو مخاطب کیا ”مریم ذرا سالن کا ڈونگا بڑھانا ۔۔“ ” اللہ نے تمہیں اتنے لمبے ہاتھ دئیے ہیں خود ہی لے لو ۔۔۔“ مریم جواب دیکر دوبارہ اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوئی ” حمزہ چلئیے باہر چلتے ہیں کچھ اچھا ڈھنگ کا کھا کر آتے ہیں اور آؤٹنگ بھی ہوجائیگی ۔۔۔“
حمزہ نے ایک نظر سب کو دیکھا ۔۔۔ ” ٹھیک ہے چلو بھی میری نخریلی فیملی سب تیار ہوجاؤ صبح عید بھی ہے اچھا ہے شاپنگ بھی ہوجائیگی ۔۔۔ ”یا ہو ۔۔۔“ گڈو اور پپو خوشی سے نعرہ لگاتے باہر نکل گئے آخر مال جانا تھا تیاری تو بنتی تھی ماہین بھی اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی تھی اور مریم سب سمیٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔ آج مریم کو اپنا گھر یاد آرہا تھا اپنے دوست یاد آرہے تھے مگر اتنی نازو پلی لڑکی کا دل ان معصوم ماں باپ سے محروم بچوں میں اٹک گیا تھا وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کررہی تھی جب حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔ ” مریم تم تیار نہیں ہوئی دیر ہورہی ہے بچے بھی ریڈی ہوچکے ہیں ۔۔“ وہ بولتا ہوا پاس آیا ” تم لوگ جاؤ یہ تمہاری فیملی شاپنگ ہے میں گھر میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔“ مریم نے جواب دیا حمزہ کی زیرک نگاہوں نے مریم کی آنکھ سے گرتا آنسو دیکھ لیا تھا وہ دھیرے سے اس کے پاس آیا ”مریم ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا ہی تھا کہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر خوبصورت لباس اور سلیقہ سے کئیے گئے میک اپ میں خوشبوئيں بکھیرتی ماہین اندر داخل ہوئی حمزہ ایک جھٹکے سے مریم سے دور ہوا ۔۔ ”ماہین تمہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کے کمرے میں ناک کرکے آتے ہیں ۔۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا ماہین تو اس بڑے سے کمرے کو دیکھ رہی تھی عالیشان کمرہ وہ بھی حمزہ کے روم کے عین سامنے بہترین بیڈ سیٹ اسے مریم سے حسد سا فیل ہوا ۔ ”حمزہ چلئیے نا دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔“ ماہین پاس آکر بولی ۔ ”مریم جلدی سے تیار ہو کر آؤ میں باہر ویٹ کررہا ہوں ۔۔“ حمزہ قطعی لہجے میں کہتا باہر نکل گیا ۔ ” بہت اونچی اڑ رہی ہو ملازمہ ہو تم ، حمزہ کے ٹکڑوں پر پلنے والی ! یاد رکھنا ۔۔“ ماہین نفرت سے کہتی باہر نکل گئی حمزہ بچوں اور مریم ماہین کو لیکر مال آیا تھا ۔۔۔ ”حمزہ دیکھیں یہ ڈریس کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔“ ماہین ایک قیمتی ڈریس خود سے لگاتی ہوئی بولی ۔ ” بچ تم اس میں بہت موٹی ڈبل روٹی لگ رہی ہو ہے نا چاچو ۔۔۔“ گڈو نے تائید کیلئیے حمزہ کی جانب دیکھا ۔
مگر حمزہ کے دھیان کے سارے دھاگے مریم سے جڑے تھے جو دور بچوں کے سیکشن میں کھڑی پپو کو کپڑے سلیکٹ کرنے میں مدد دے رہی تھی سب شاپنگ مکمل کر چکے تھے جب حمزہ الگ تھلگ کھڑی مریم کے پاس آیا ۔۔ ” تم نے عید کیلئیے کوئی ڈریس نہیں لیا کیا نعوذوباللہ مسلمان نہیں ہو جو عید نہیں مناؤ گئی ۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا مریم نے نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا ” میری مرضی میں شاپنگ کروں یا نہ کروں تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئیے ۔۔۔“ ماہین جس کے کان اسی طرف لگے تھے تیزی سے پاس آئی ” حمزہ تم فکر مت کرو میرے پاس بہت سے ڈریسسز ہیں میں ان میں سے چند مریم کو دےدونگی ۔۔۔“
مریم نے گھور کر ماہین کو دیکھا اور پھر اسے دھکا دیتی ہوئی باہر نکل گئی گڈو پپو بھی بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے نکل گئے ۔۔۔ ”کیا ہوا بےبی آر یو اوکے ۔۔۔۔“ پپو نے مریم کا ہاتھ پکڑا
”وہ بچ گندی آنٹی ہے بےبی تم رونا مت میں گھر جاکر اسے چاچو کی گن سے مارونگا ڈشو ڈشو ۔۔۔“ گڈو نے مریم کا سرخ چہرہ دیکھ کر غصہ سے کہا مریم اس کے غصہ پر نہال ہوگئی ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑے حمزہ اور ماہین بھی آگئے ماہین کا منہ پھولا ہوا تھا ۔۔۔ باہر سے برگر وغیرہ کھا کر سب گھر واپس آئے بچوں کا تھکن سے برا حال تھا مریم ان کو لیکر ان کے کمرے میں چلی گئی حمزہ بھی اپنے کمرے کی جانب مڑ گیا اور سامنے حمزہ اورمریم کے کمروں کو پرسوچ نظروں سے دیکھتی گیسٹ روم کی طرف چلی گئی ۔۔
حمزہ فریش ہوکر سائیڈ میز پر رکھا شاپنگ بیگ اٹھا کر سامنے مریم کے کمرے کی جانب بڑھا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو کو لٹا کر اپنے کمرے میں آئی صبح عید تھی مریم گھڑی میں ٹائم دیکھتی سونے کیلئیے لیٹی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور حمزہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
” سو رہی تھی کیا۔۔۔۔“ وہ لائٹ جلاتا ہوا بولا
”نہیں کرکٹ کھیل رہی تھی۔۔“ مریم نے تپ کر جواب دیا ۔
”یہ پکڑو۔۔۔۔“ وہ مریم کے جواب کو ان سنا کرتا شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ” یہ کیا ہے ۔۔۔“ مریم نے بھنوئیں اچکائیں
” کل عید ہے یہ تمہارا عید کا جوڑا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا
” مجھے نہیں چاہئیے ۔۔۔۔“ مریم روٹھے لہجے میں بولی ۔
”مریم ۔۔۔۔“ حمزہ قدم اٹھاتا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ ”تم مانو یا نہ مانو مگر فلحال تم میری فیملی ہو اور میں اپنی فیملی کو لیکر بہت حساس ہوں میری فیملی کو سب سے اچھا اور سب سے منفرد نظر آنا چاہئیے ۔۔“ وہ شاپر اس کے ہاتھ میں تھماتا ایک دلکش مسکراہٹ اس کی جانب اچھال کر واپس چلا گیا ۔۔ ”کم بخت کی مسکراہٹ کتنے غضب کی ہے اللہ اللہ مجھے اس سے بچنا ہے کہی واقعی پیار نہ ہوجائے ۔۔۔“ مریم سوچتی ہوئی حمزہ کا لایا شاپنگ بیگ کھولنے لگی ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
گڈو اور پپو دونوں سر ہلاتے باہر چلے گئے۔
دو دن گزر چکے تھے بکرے کی خوب خاطر مدارت ہو رہی تھی پپو نے تو بکرے کو بھی چارہ کھانے کے بعد زبردستی کوک پینے کا عادی بنادیا تھا اس بکرے کے تو پورے عیش تھے بچے دن بھر اس سے کھیلتے رہتے تھے عید قریب آچکی تھی ماہین بھی بچوں کے نزدیک آنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھی پر وہ حسن پرست شیطان تو بس اپنی بےبی کے دیوانے تھے ۔۔ سورج سوا نیزے پر تھا حمزہ گھاس پر اخبار منہ پر رکھے لیٹا ہوا تھا پاس ہی گڈو اور پپو اپنے بکرے کو فٹ بال کھیلنا سکھا رہے تھے ۔۔ ”حمزہ ۔۔۔“ ماہین آواز لگاتی باہر آئی ۔
”حمزہ عید قریب آرہی ہے مجھے شاپنگ کرنی تھی کیا آپ مجھے بازار لے چلینگے ۔۔۔“ وہ پاس آکر بڑی نزاکت سے بولی ”آج نہیں پھر کبھی دیکھیں گئے ۔۔۔“ حمزہ نے ناگورای سے کہا ماہین نے بھی ہمت نہیں ہاری اور لان میں رکھی کرسیوں میں سے ایک کو گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔
”چاچو ۔۔۔“ گول مٹول پپو بال کی طرح لڑھکتا ہوا حمزہ کے پاس آکر دھپ سے گرا ”چاچو ۔۔۔“ پپو نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے حمزہ کے منہ سے اخبار ہٹایا ” کیا ہے پپو موٹے لیٹنے دینا یار ۔۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں بند کئیے کئیے جواب دیا۔
”چاچو میرے ہاتھ کب پیلے کروگے ۔۔۔۔“ پپو نے سوال کیا ۔
” کیا کہا ۔۔۔“ حمزہ نے آنکھیں کھول کر پوچھا
” آخر میرے ہاتھ کب پیلے ہونگے ۔۔۔“ اب کے پپو آرام آرام سے اسے سمجھاتا ہوا بولا ” یہ تمہیں کس نے سکھایا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ نے گھورا
” ٹی وی پہ کل ساڑھی والی آنٹی کہہ رہی تھی کہ بچوں کے ہاتھ جلدی پیلے کردینے چاہئیے ۔۔۔۔“ پپو نے بتایا ۔
”قسم سے تم دونوں کا ٹی وی تو عید کے بعد بند کردینا ہے کبھی تو اپنی عمر کا بھی کوئی پروگرام دیکھ لیا کرو ۔۔۔۔“ حمزہ تپتا ہوا اٹھا اب حمزہ کا رخ کچن کی جانب تھا ۔
مریم بڑے آرام سے یو ٹیوب پر کوئی نہایت ہی آسان سی کھانے کی ترکیب تلاش کررہی تھی جب حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔ ”کیا پکا رہی ہو۔۔۔“ وہ چولہے پر رکھے برتن دیکھتے ہوئے بولا ” ریسپی ڈھونڈنے میں لگی ہو ابھی نہیں پتہ ۔۔“ مریم اسکرین پر مصروف اسے دیکھے بغیر بولی
” تم کیسی ڈش پکانا چاہتی ہو مجھے بتاؤ شاید میں کچھ ہیلپ کردوں ۔۔“ حمزہ نے آفر کی ۔
” اہممم کوئی ایسی ڈش جس میں پیاز ویاز نہ کاٹنی پڑے اور نہ ہی بہت سارے مصالحہ ڈھونڈ کر ڈالنے پڑیں بس وہ خود بخود بن جائے ۔۔۔“ مریم نے سمجھایا
”شاباش تم ایسا کرو نمک ڈال کرگوشت ابال لو ہم کھا لینگے ۔۔۔“ حمزہ آگے بڑھتا فریزر سے گوشت کا پیکٹ نکالتا ہوا بولا ۔ ” یہ آئیڈیا اچھا ہے بوائل گوشت اور کیچپ اور ساتھ ساتھ فرنچ فرائز بھی بنا لونگی ۔۔۔“ مریم جوش سے بولی ۔
حمزہ نے تاسف سے مریم کو دیکھا ۔ ”لڑکی کھانا پکانا سیکھ لو شوہر کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر گزرتا ہے ۔۔۔“ ”بھاڑ میں جائے ایسا پیٹو شوہر اور اس کا خبیث معدہ یعنی جذبات احساسات محبت کچھ بھی نہیں ! اس موٹو کو کھانا چاہئیے ہوگا حد ہوگئی میں تو کبھی ایسے ندیدے سے شادی نہ کروں ۔۔۔“ مریم نے صفا چٹ جواب دیا ”شادی تو تمہاری ہوچکی ہے بےبی ۔۔۔“ حمزہ نے کہا
” خوامخواه مجھ پر الزام لگا رہے ہو کب ہوئی میری شادی ؟ “ وہ خفگی سے حمزہ کی بات کاٹ کر بولی ۔
”اچھا تو پھر میں کون ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا ”تم ۔۔“ مریم نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔
” تم میرے عارضی ٹائپ نکاح والے منکوح ہو جو مجھے کبھی بھی چھوڑ سکتا ہے ۔۔۔“ مریم نظر چراتی چولہے کی جانب پلٹی ہوئی بولی۔ مریم گوشت کو ابلنے کیلئیے رکھنے لگی تھی حمزہ نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی جو گھریلو حلیے میں بالوں کو لپیٹے ہوئے اسے بہت اپنی اپنی سی لگ رہی تھی ۔۔
”سنو اسٹو پکا لو بہت آسان ہے اور ساتھ چاول ابال لو ۔۔۔“ وہ اسے ترکیب بتا کر باہر نکل گیا ۔ لنچ ہو رہا تھا اسٹو بس گزارے لائق ہی بنا تھا ۔۔
” اللہ حمزہ آپ اتنا بدمزہ کھانا کیسے کھا لیتے ہیں مجھ سے تو حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے ۔۔“ ماہین نزاکت سے بولی ۔ ”ماہین وچ ۔۔۔“ گڈو نے پلیٹ سر اٹھا کر سامنے پڑی بریڈ نائف اٹھا کر ماہین کی طرف بڑھائی ۔ ” اس سے اپنا گلا کاٹ لیں پھر نہ کھانا زوووو کرکے اندر چلا جائیگا ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے کہا ۔ ”چاچو بچ کا گلا میں کاٹونگا مزا آئیگا ۔۔۔“ پپو حمزہ سے لاڈ بھرے لہجے میں بولا ۔ ماہین نے شرارے اگلتی نگاہوں سے بچوں کو دیکھا اتنے میں حمزہ نے چپ چاپ کھانا کھاتی مریم کو مخاطب کیا ”مریم ذرا سالن کا ڈونگا بڑھانا ۔۔“ ” اللہ نے تمہیں اتنے لمبے ہاتھ دئیے ہیں خود ہی لے لو ۔۔۔“ مریم جواب دیکر دوبارہ اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوئی ” حمزہ چلئیے باہر چلتے ہیں کچھ اچھا ڈھنگ کا کھا کر آتے ہیں اور آؤٹنگ بھی ہوجائیگی ۔۔۔“
حمزہ نے ایک نظر سب کو دیکھا ۔۔۔ ” ٹھیک ہے چلو بھی میری نخریلی فیملی سب تیار ہوجاؤ صبح عید بھی ہے اچھا ہے شاپنگ بھی ہوجائیگی ۔۔۔ ”یا ہو ۔۔۔“ گڈو اور پپو خوشی سے نعرہ لگاتے باہر نکل گئے آخر مال جانا تھا تیاری تو بنتی تھی ماہین بھی اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی تھی اور مریم سب سمیٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔ آج مریم کو اپنا گھر یاد آرہا تھا اپنے دوست یاد آرہے تھے مگر اتنی نازو پلی لڑکی کا دل ان معصوم ماں باپ سے محروم بچوں میں اٹک گیا تھا وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کررہی تھی جب حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔ ” مریم تم تیار نہیں ہوئی دیر ہورہی ہے بچے بھی ریڈی ہوچکے ہیں ۔۔“ وہ بولتا ہوا پاس آیا ” تم لوگ جاؤ یہ تمہاری فیملی شاپنگ ہے میں گھر میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔“ مریم نے جواب دیا حمزہ کی زیرک نگاہوں نے مریم کی آنکھ سے گرتا آنسو دیکھ لیا تھا وہ دھیرے سے اس کے پاس آیا ”مریم ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا ہی تھا کہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر خوبصورت لباس اور سلیقہ سے کئیے گئے میک اپ میں خوشبوئيں بکھیرتی ماہین اندر داخل ہوئی حمزہ ایک جھٹکے سے مریم سے دور ہوا ۔۔ ”ماہین تمہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کے کمرے میں ناک کرکے آتے ہیں ۔۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا ماہین تو اس بڑے سے کمرے کو دیکھ رہی تھی عالیشان کمرہ وہ بھی حمزہ کے روم کے عین سامنے بہترین بیڈ سیٹ اسے مریم سے حسد سا فیل ہوا ۔ ”حمزہ چلئیے نا دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔“ ماہین پاس آکر بولی ۔ ”مریم جلدی سے تیار ہو کر آؤ میں باہر ویٹ کررہا ہوں ۔۔“ حمزہ قطعی لہجے میں کہتا باہر نکل گیا ۔ ” بہت اونچی اڑ رہی ہو ملازمہ ہو تم ، حمزہ کے ٹکڑوں پر پلنے والی ! یاد رکھنا ۔۔“ ماہین نفرت سے کہتی باہر نکل گئی حمزہ بچوں اور مریم ماہین کو لیکر مال آیا تھا ۔۔۔ ”حمزہ دیکھیں یہ ڈریس کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔“ ماہین ایک قیمتی ڈریس خود سے لگاتی ہوئی بولی ۔ ” بچ تم اس میں بہت موٹی ڈبل روٹی لگ رہی ہو ہے نا چاچو ۔۔۔“ گڈو نے تائید کیلئیے حمزہ کی جانب دیکھا ۔
مگر حمزہ کے دھیان کے سارے دھاگے مریم سے جڑے تھے جو دور بچوں کے سیکشن میں کھڑی پپو کو کپڑے سلیکٹ کرنے میں مدد دے رہی تھی سب شاپنگ مکمل کر چکے تھے جب حمزہ الگ تھلگ کھڑی مریم کے پاس آیا ۔۔ ” تم نے عید کیلئیے کوئی ڈریس نہیں لیا کیا نعوذوباللہ مسلمان نہیں ہو جو عید نہیں مناؤ گئی ۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا مریم نے نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا ” میری مرضی میں شاپنگ کروں یا نہ کروں تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئیے ۔۔۔“ ماہین جس کے کان اسی طرف لگے تھے تیزی سے پاس آئی ” حمزہ تم فکر مت کرو میرے پاس بہت سے ڈریسسز ہیں میں ان میں سے چند مریم کو دےدونگی ۔۔۔“
مریم نے گھور کر ماہین کو دیکھا اور پھر اسے دھکا دیتی ہوئی باہر نکل گئی گڈو پپو بھی بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے نکل گئے ۔۔۔ ”کیا ہوا بےبی آر یو اوکے ۔۔۔۔“ پپو نے مریم کا ہاتھ پکڑا
”وہ بچ گندی آنٹی ہے بےبی تم رونا مت میں گھر جاکر اسے چاچو کی گن سے مارونگا ڈشو ڈشو ۔۔۔“ گڈو نے مریم کا سرخ چہرہ دیکھ کر غصہ سے کہا مریم اس کے غصہ پر نہال ہوگئی ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑے حمزہ اور ماہین بھی آگئے ماہین کا منہ پھولا ہوا تھا ۔۔۔ باہر سے برگر وغیرہ کھا کر سب گھر واپس آئے بچوں کا تھکن سے برا حال تھا مریم ان کو لیکر ان کے کمرے میں چلی گئی حمزہ بھی اپنے کمرے کی جانب مڑ گیا اور سامنے حمزہ اورمریم کے کمروں کو پرسوچ نظروں سے دیکھتی گیسٹ روم کی طرف چلی گئی ۔۔
حمزہ فریش ہوکر سائیڈ میز پر رکھا شاپنگ بیگ اٹھا کر سامنے مریم کے کمرے کی جانب بڑھا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو کو لٹا کر اپنے کمرے میں آئی صبح عید تھی مریم گھڑی میں ٹائم دیکھتی سونے کیلئیے لیٹی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور حمزہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
” سو رہی تھی کیا۔۔۔۔“ وہ لائٹ جلاتا ہوا بولا
”نہیں کرکٹ کھیل رہی تھی۔۔“ مریم نے تپ کر جواب دیا ۔
”یہ پکڑو۔۔۔۔“ وہ مریم کے جواب کو ان سنا کرتا شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ” یہ کیا ہے ۔۔۔“ مریم نے بھنوئیں اچکائیں
” کل عید ہے یہ تمہارا عید کا جوڑا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا
” مجھے نہیں چاہئیے ۔۔۔۔“ مریم روٹھے لہجے میں بولی ۔
”مریم ۔۔۔۔“ حمزہ قدم اٹھاتا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ ”تم مانو یا نہ مانو مگر فلحال تم میری فیملی ہو اور میں اپنی فیملی کو لیکر بہت حساس ہوں میری فیملی کو سب سے اچھا اور سب سے منفرد نظر آنا چاہئیے ۔۔“ وہ شاپر اس کے ہاتھ میں تھماتا ایک دلکش مسکراہٹ اس کی جانب اچھال کر واپس چلا گیا ۔۔ ”کم بخت کی مسکراہٹ کتنے غضب کی ہے اللہ اللہ مجھے اس سے بچنا ہے کہی واقعی پیار نہ ہوجائے ۔۔۔“ مریم سوچتی ہوئی حمزہ کا لایا شاپنگ بیگ کھولنے لگی ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply