نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 13
”گڈو پپو محترمہ بےبی اٹھ جاؤ عید کی صبح ہوگئی ہے سارے کچن میں حاضری لگواؤ ۔۔۔ گیلے بال سفید شلوار پر بنیان اور کندھوں پر تولیہ پھیلائے حمزہ کچن میں تیز تیز ہاتھ چلاتا ہوا ساتھ ہی ساتھ مائک میں سب کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دے رہاتھا ۔۔ ”گڈو کے بچے اگر اس دفعہ بھی نماز لیٹ ہوئی تو تجھے الٹا لٹکا دونگا ۔۔۔۔“ حمزہ نے اناؤنس کیا ”اذان میں ایک گھنٹہ باقی ہے تم لوگ آتے ہو یا میں آؤ ۔۔۔“ اب کے وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا
”چاچو گڈ مارننگ ہم اٹھ گئے ہیں ۔۔۔“ اسپیکر میں گڈو کی آواز ابھری ”جلدی سے تیار ہوکر رپورٹ کرو ۔۔۔“ حمزہ نے ہدایات دیں ۔
مائک رکھ کر وہ جیسے ہی فرج کی جانب مڑا اس کی نظر بکھرے بال ملگجا لباس اور سرخ آنکھوں سے شرارے اگلتی مریم پر پڑی ۔۔ ”یا وحشت تم تو پوری کی پوری چڑیل لگ رہی ہو ۔۔۔“ حمزہ کے منہ سے نکلا ”میں نے کہا تھا نہ کے یہ منحوس مائک استمعال کرنا بند کرو اتنی زور سے چلاتے ہوں کہ کان کا پردہ پھٹ جاتا ہے اتنا ہی شوق ہے تو رمضان میں سحری والے کی جاب کرلینا ۔۔۔“ مریم نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا ۔
حمزہ اس کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔ ”مسز سحری والی ۔۔عید کا دن ہے اپنے چہرے کا نقشہ ٹھیک کرو اور بچوں کو لیکر آؤ ناشتہ کرکے عیدگاہ جانا ہے اور قربانی کیلئیے قصائی صبح دس بجے آجائیگا وقت کم ہے شاباش جلدی کرو ۔۔۔“ حمزہ نے کہا
مریم بچوں کے کمرے کی جانب بڑھی پپو اور گڈو سفید شلوار قميض پہنے شیشے کے آگے کھڑے تھے گڈو پپو کے بال بنا رہا تھا ۔۔ ”ارے واہ تم دونوں تو بڑی جلدی تیار ہوگئے ہوں ۔۔“ مریم ستائش بھری نظروں سے دونوں کو دیکھتی ہوئی بولی ۔
” بے بی ابھی مسجد جانا ہے نا اللہ سے دعا کرنی ہے ۔۔۔ “ گڈو نے جواب دیا ”اچھا ! کیا دعا مانگنی ہے مجھے بھی تو بتاؤ ۔۔“ مریم نے دلچسپی سے پوچھا ۔ ”اللہ تعالی ہمارے چاچو کی شادی کروا دیں تاکہ چاچو بزی ہو جائیں اور ہمیں تنگ کرنا چھوڑ دیں ۔۔“ گڈو گویا ہوا ۔
”آمین ۔۔“ پپو نے بڑے جوش سے کہہ کر اپنے منہ پر ہاتھ پھیرا ”ویسے بےبی چاچو کی شادی کے بعد ہی تو میری شادی ہوگی نا۔۔۔“ گڈو شرمیلے لہجے میں بولا
” چلو دونوں جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔۔“
مریم حمزہ کی شادی والی بات اگنور کرتے ہوئے پپو کو گود میں اٹھاتے ہوئے بولی ۔ مریم دونوں بچوں کو لیکر کچن میں آئی تو حمزہ غائب تھا اور میز پر شیر خورمہ مٹھائیاں اور کیک بڑے سلیقہ سے رکھا ہوا تھا ۔ ” چلو بھی جلدی سے ناشتہ کرو اور نکلو۔۔۔“سفید کرتا شلوار اور سر پر ٹوپی پہنے حمزہ اندر داخل ہوا مریم نے گڈو پپو کو ناشتہ میں مدد کی دونوں نے تھوڑا سا کیک کھایا اور کھڑے ہوگئے
”چاچو چلیں اور اس دفعہ میں بہت سارے غبارے لونگا ۔۔۔“ پپو نے اپنی فرمائش پہلے ہی پیش کردی تھی حمزہ اور بچوں کہ جانے کے بعد مریم کچن سمیٹ رہی تھی کے شب خوابی کے لباس میں چہرے پر بارہ بجائے ماہین اندر داخل ہوئی ۔
”یہ گھر ہے یا سرکس صبح صبح اتنا شور سونا محال کردیا ہے تم لوگوں نے۔۔۔“ ماہین غصہ سے بولی مریم اسے نظر انداز کئیے فرج بند کرکے جانے ہی لگی تھی کہ ماہین نے اسے روکا ۔ ” اے لڑکی سنو مجھے بوائل انڈہ اور کافی بنا دو ۔۔۔“ ماہین حکمیہ انداز میں بولی ۔ ”سنو سڑی ہوئی ہری مرچ وہ رہا فرج اٹھو اور جو چاہے بنا کر ٹھونس لو ۔۔۔“ مریم نے فرج کی طرف اشارہ کیا
” تم یو بچ ۔۔۔“ ماہین نے مٹھیاں بھینچی ” نا نا نا مائنڈ یو وچ ،یو آر دا بچ ۔۔۔“ مریم نے اسے سڑایا ۔
” تم دو ٹکے کی گورنس تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو آنے دو حمزہ کو آج ہی تمہیں اس گھر سے نکلواتی ہوں ۔۔۔“ ماہین کا غصہ سے برا حال تھا ۔
” میں ۔۔۔“ مریم چلتی ہوئی ماہین کے پاس آئی ” میں اپنے آپ کو مسز سحری والی سمجھتی ہوں ۔۔“ مریم نے اسے زور سے دھکا دیا اور باہر نکل گئی
**************************for more books – urdunovels.info
نماز پڑھ کر دونوں بھائی بہت سے رنگ برنگے غبارے ہاتھ میں لئیے اندر آئے ۔۔ ”بے بی ہم آگئے ۔۔۔“ گڈو نے نعرہ لگایا اندر سے صاف ستھری نہائی ہوئی مریم باہر نکلی اس کے لمبے گیلے بال آبشار کی طرح اس کی پشت کو ڈھکے ہوئے تھے وہ تیزی سے چلتی ہوئی آئی اور پھر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر گڈو اور پپو کو ایک ساتھ گلے لگایا ۔۔۔
”عید مبارک۔۔۔“ مریم نے باری باری دونوں کے سیب سے سرخ گال چومے گڈو اور پپو دونوں ہی مریم سے لپٹ کر اپنے بکرے کی جدائی کا رونا رو رہے تھے جب چوکیدار نے قصائی کے آنے کی اطلاع دی جسے سن کر دونوں باہر بھاگے ۔
بچوں کے جاتے ہی مریم اٹھ کھڑی ہوئی اور جانے کیلئیے پلٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اس کی کلائی تھامی ”مجھ سے عید نہیں ملوگی ۔۔“ وہ آنچ دیتے گھمبیر لہجے میں بولا مریم کو اپنا دل ہاتھ سے نکلتا محسوس ہورہاتھا اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی گیسٹ روم سے نکلتی ماہین ان کے قریب پہنچ چکی تھی
”حمزہ عید مبارک…“ وہ جوش سے کہتی حمزہ کے زبردستی گلے لگی ۔ مریم نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور تیر کی تیزی سے رکے بغیر اندر چلی گئی۔
”مس ماہین کیا بدتميزی ہے ۔“ حمزہ درشت لہجے میں بولا اور اسے خود سے الگ کیا ”چاچو باہر چاقو والے انکل آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔۔“ گڈو کی آواز آئی ۔ حمزہ سر جھٹکتا باہر نکل گیا ۔ قربانی ہوچکی تھی چوکیدار کے ہاتھوں حمزہ گوشت مستحقین میں تقسیم کروارہا تھا۔
سب کاموں سے فارغ ہو کر وہ اندر آیا اور سیدھا کچن کی جانب گیا جہاں مریم اندر بھجوائے گوشت کو فرج میں رکھ رہی تھی ۔۔ ”سنو لنچ مت بنانا میں آرڈر کرچکا ہوں بس تم جلدی سے تیار ہو کر آجاؤ آج بچے بہت اداس ہیں اپنے بکرے کو مس کررہے ہیں انہیں لنچ کروا کر کہیں باہر چلتے ہیں ۔۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے گویا ہوا مریم اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی اب حمزہ کا رخ گیسٹ روم کی جانب تھا دروازہ ناک کرکے اس نے ماہین کو باہر بلایا ۔ ” حمزہ اندر آئیے نا بیٹھ کر آرام سے بات کرتے ہیں ۔“ ماہین حمزہ کو دروازے پر دیکھ کر کھل گئی ”اٹس اوکے میں بچوں کو لنچ کے بعد باہر لے جا رہا ہوں اگر آپ چلنا چاہیں تو تیار ہوجائیے گا ۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے کہہ کر چلتا بنا ۔ مریم حمزہ کے لائے لائٹ پنک کلر کی قمیض شلوار پہن کر بالوں کی اونچی پونی بنا رہی تھی جب دروازہ کھول کر حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔ ”تم ناک کرکے کیوں نہیں آتے ۔۔۔“ مریم نے اسے ٹوکا ”بےبی یہ میرا گھر ہے میں جب چاہے کدھر بھی آجا سکتا ہوں ۔۔۔“ وہ نظروں میں ستائش لئیے اسے دیکھ رہا تھا گلابی لباس میں وہ بھی گلابی گلابی لگ رہی تھی وہ اسے غور سے دیکھتا ہوا آگے بڑھا ”گلابو ۔۔۔“ حمزہ کے منہ سے نکلا
”کیا کہا ! میں تمہیں کس اینگل سے گلابو شلابو ٹائپ لگتی ہوں ۔۔۔“ مریم تڑپ کر بولی ”افف خدارا کس سے پالا پڑا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سر پیٹا
”آخر تم ادھر آئے ہی کیوں ہو جب دیکھوں میرے کمرے میں آجاتے ہو سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔“ ”ورنہ کیا ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
”ورنہ ورنہ ۔۔۔“مریم اٹک گئی حمزہ نے بڑے آرام سے مریم کو اپنی گرفت میں لیکر اپنے گلے لگایا اور اس کے بال کانوں کے پاس سے ہٹاتے ہوئے سرگوشی کی ۔۔ ”عید مبارک ۔۔۔“ چند لمحوں بعد ساکت کھڑی مریم کو خود سے الگ کرکے وہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔
تھوڑی دیر تک مریم ان لمحوں کی قید میں رہی پھر جھرجھری لیکر سیدھی ہوئی ۔۔ ” بدتمیز چھچھورا اب ان اوچھی حرکتوں سے مجھے پٹانا چاہتا ہے ۔۔۔“ مریم بڑبڑا کر پونی بناکر بچوں کے کمرے میں چلی آئی ۔ *********************** حمزہ گڈو اور پپو دونوں کو گود میں لئیے بیٹھا تھا وہ دونوں لباس بدل کر نیکر شرٹ پہن چکے تھے۔مریم کو اندر آتا دیکھ کر دونوں ہی خوش ہوگئے ۔
”بےبی ہم باہر جارہے ہیں ۔۔۔“ پپو نے نعرہ لگایا
” چلو اب جلدی کرو پلے لینڈ چلتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو گود سے اتارا ”چاچو پلے لینڈ نہیں جانا ۔۔۔“ پپو نے انکار میں گردن ہلائی
” تو پھر کدھر جانا ہے ۔۔“ حمزہ نے پوچھا
”ہم مووی جائینگے ۔۔۔“ دونوں ایک ساتھ بولے
”چلو کوئی بات نہیں مووی چلتے ہیں ویسے آجکل ڈزنی کی ایک بڑی اچھی مووی لگی ہوئی ہے ۔۔“حمزہ نے ہامی بھری ”چاچو آپ کب بڑے ہونگے ۔۔“ گڈو نے تاسف سے حمزہ کو دیکھا ۔ ”اب کیا ہوا ۔۔“ حمزہ نے گڈو کو گھورا
” ہمیں ڈزنی مووی نہیں دیکھنی ۔۔“ گڈو نے انکار کیا ۔
”گڈو صاحب آپ اور پپو کون سی مووی دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے پوچھا ”جوانی پھر نہیں آنی ۔۔۔“ گڈو نے شرماتے ہوئے کہا
”حد ہوگئی گڈو موٹے پہلے جوان تو ہوجاؤ پھر ایسی باتیں کرنا ۔۔“ حمزہ نے سختی سے ٹوکا
”چاچو یہ فلم کا نام ہے اور اس میں ایک لڑکی بالکل بےبی جیسی پریٹی ہے ..“ گڈو نے جلدی سے جواب دیا ۔
حمزہ نے اپنا سر پیٹا اور مریم نے اپنی ہنسی ضبط کی ۔
اتنی سی عمر میں یہ بچے ٹائم بم سے کم نہیں تھے
حمزہ گڈو پپو مریم اور ماہین کو لیکر گاڑی میں بیٹھا ۔۔۔
ایک بہت ہی یادگار اور خوشگوار دن گزار کر سب واپس گھر پہنچے مریم بہت خوش تھی آج پورا دن اس نے حمزہ کی نرم گرم نگاہیں خود پر محسوس کی تھی حمزہ کا کئیرنگ انداز اور چھا جانے والی شخصیت کا سحر اسے جکڑ رہا تھا وہ اپنے ہی جذبوں سے گھبرا کر اپنے کمرے میں آگئی تھی ۔ ماہین جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ٹہل رہی تھی پوری پکچر کے دوران حمزہ مریم کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا تھا اور باقی سارا وقت بھی وہ مریم کو آنچ دیتی نگاہوں سے دیکھتا رہا تھا یہ سب ماہین نے بڑی مشکل سے برداشت کیا تھا وہ کالج کے دنوں سے حمزہ کی وجاہت اس کی دولت اور اسٹیٹس سے مرعوب تھی۔ حمزہ کو پانے کے چکر میں کئی رشتے ٹھکرا چکی تھی اور آج حمزہ کی آنکھوں میں مریم کیلئیے جلتی لو اس کا دل جلا رہی تھی ۔ باریک شب خوابی کا لباس بدل کر خود کو خوشبو میں ڈبو کر ہلکا ہلکا میک اپ کرکے ماہین تیار ہوچکی تھی اس نے گھڑی میں وقت دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا وہ آہستگی سے اپنے کمرے سے باہر نکلی پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔۔ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ۔۔۔“ ماہین نے خود کو تسلی دی اور حمزہ کے کمرے کی جانب بڑھنے لگی ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
”چاچو گڈ مارننگ ہم اٹھ گئے ہیں ۔۔۔“ اسپیکر میں گڈو کی آواز ابھری ”جلدی سے تیار ہوکر رپورٹ کرو ۔۔۔“ حمزہ نے ہدایات دیں ۔
مائک رکھ کر وہ جیسے ہی فرج کی جانب مڑا اس کی نظر بکھرے بال ملگجا لباس اور سرخ آنکھوں سے شرارے اگلتی مریم پر پڑی ۔۔ ”یا وحشت تم تو پوری کی پوری چڑیل لگ رہی ہو ۔۔۔“ حمزہ کے منہ سے نکلا ”میں نے کہا تھا نہ کے یہ منحوس مائک استمعال کرنا بند کرو اتنی زور سے چلاتے ہوں کہ کان کا پردہ پھٹ جاتا ہے اتنا ہی شوق ہے تو رمضان میں سحری والے کی جاب کرلینا ۔۔۔“ مریم نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا ۔
حمزہ اس کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔ ”مسز سحری والی ۔۔عید کا دن ہے اپنے چہرے کا نقشہ ٹھیک کرو اور بچوں کو لیکر آؤ ناشتہ کرکے عیدگاہ جانا ہے اور قربانی کیلئیے قصائی صبح دس بجے آجائیگا وقت کم ہے شاباش جلدی کرو ۔۔۔“ حمزہ نے کہا
مریم بچوں کے کمرے کی جانب بڑھی پپو اور گڈو سفید شلوار قميض پہنے شیشے کے آگے کھڑے تھے گڈو پپو کے بال بنا رہا تھا ۔۔ ”ارے واہ تم دونوں تو بڑی جلدی تیار ہوگئے ہوں ۔۔“ مریم ستائش بھری نظروں سے دونوں کو دیکھتی ہوئی بولی ۔
” بے بی ابھی مسجد جانا ہے نا اللہ سے دعا کرنی ہے ۔۔۔ “ گڈو نے جواب دیا ”اچھا ! کیا دعا مانگنی ہے مجھے بھی تو بتاؤ ۔۔“ مریم نے دلچسپی سے پوچھا ۔ ”اللہ تعالی ہمارے چاچو کی شادی کروا دیں تاکہ چاچو بزی ہو جائیں اور ہمیں تنگ کرنا چھوڑ دیں ۔۔“ گڈو گویا ہوا ۔
”آمین ۔۔“ پپو نے بڑے جوش سے کہہ کر اپنے منہ پر ہاتھ پھیرا ”ویسے بےبی چاچو کی شادی کے بعد ہی تو میری شادی ہوگی نا۔۔۔“ گڈو شرمیلے لہجے میں بولا
” چلو دونوں جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔۔“
مریم حمزہ کی شادی والی بات اگنور کرتے ہوئے پپو کو گود میں اٹھاتے ہوئے بولی ۔ مریم دونوں بچوں کو لیکر کچن میں آئی تو حمزہ غائب تھا اور میز پر شیر خورمہ مٹھائیاں اور کیک بڑے سلیقہ سے رکھا ہوا تھا ۔ ” چلو بھی جلدی سے ناشتہ کرو اور نکلو۔۔۔“سفید کرتا شلوار اور سر پر ٹوپی پہنے حمزہ اندر داخل ہوا مریم نے گڈو پپو کو ناشتہ میں مدد کی دونوں نے تھوڑا سا کیک کھایا اور کھڑے ہوگئے
”چاچو چلیں اور اس دفعہ میں بہت سارے غبارے لونگا ۔۔۔“ پپو نے اپنی فرمائش پہلے ہی پیش کردی تھی حمزہ اور بچوں کہ جانے کے بعد مریم کچن سمیٹ رہی تھی کے شب خوابی کے لباس میں چہرے پر بارہ بجائے ماہین اندر داخل ہوئی ۔
”یہ گھر ہے یا سرکس صبح صبح اتنا شور سونا محال کردیا ہے تم لوگوں نے۔۔۔“ ماہین غصہ سے بولی مریم اسے نظر انداز کئیے فرج بند کرکے جانے ہی لگی تھی کہ ماہین نے اسے روکا ۔ ” اے لڑکی سنو مجھے بوائل انڈہ اور کافی بنا دو ۔۔۔“ ماہین حکمیہ انداز میں بولی ۔ ”سنو سڑی ہوئی ہری مرچ وہ رہا فرج اٹھو اور جو چاہے بنا کر ٹھونس لو ۔۔۔“ مریم نے فرج کی طرف اشارہ کیا
” تم یو بچ ۔۔۔“ ماہین نے مٹھیاں بھینچی ” نا نا نا مائنڈ یو وچ ،یو آر دا بچ ۔۔۔“ مریم نے اسے سڑایا ۔
” تم دو ٹکے کی گورنس تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو آنے دو حمزہ کو آج ہی تمہیں اس گھر سے نکلواتی ہوں ۔۔۔“ ماہین کا غصہ سے برا حال تھا ۔
” میں ۔۔۔“ مریم چلتی ہوئی ماہین کے پاس آئی ” میں اپنے آپ کو مسز سحری والی سمجھتی ہوں ۔۔“ مریم نے اسے زور سے دھکا دیا اور باہر نکل گئی
**************************for more books – urdunovels.info
نماز پڑھ کر دونوں بھائی بہت سے رنگ برنگے غبارے ہاتھ میں لئیے اندر آئے ۔۔ ”بے بی ہم آگئے ۔۔۔“ گڈو نے نعرہ لگایا اندر سے صاف ستھری نہائی ہوئی مریم باہر نکلی اس کے لمبے گیلے بال آبشار کی طرح اس کی پشت کو ڈھکے ہوئے تھے وہ تیزی سے چلتی ہوئی آئی اور پھر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر گڈو اور پپو کو ایک ساتھ گلے لگایا ۔۔۔
”عید مبارک۔۔۔“ مریم نے باری باری دونوں کے سیب سے سرخ گال چومے گڈو اور پپو دونوں ہی مریم سے لپٹ کر اپنے بکرے کی جدائی کا رونا رو رہے تھے جب چوکیدار نے قصائی کے آنے کی اطلاع دی جسے سن کر دونوں باہر بھاگے ۔
بچوں کے جاتے ہی مریم اٹھ کھڑی ہوئی اور جانے کیلئیے پلٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اس کی کلائی تھامی ”مجھ سے عید نہیں ملوگی ۔۔“ وہ آنچ دیتے گھمبیر لہجے میں بولا مریم کو اپنا دل ہاتھ سے نکلتا محسوس ہورہاتھا اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی گیسٹ روم سے نکلتی ماہین ان کے قریب پہنچ چکی تھی
”حمزہ عید مبارک…“ وہ جوش سے کہتی حمزہ کے زبردستی گلے لگی ۔ مریم نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور تیر کی تیزی سے رکے بغیر اندر چلی گئی۔
”مس ماہین کیا بدتميزی ہے ۔“ حمزہ درشت لہجے میں بولا اور اسے خود سے الگ کیا ”چاچو باہر چاقو والے انکل آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔۔“ گڈو کی آواز آئی ۔ حمزہ سر جھٹکتا باہر نکل گیا ۔ قربانی ہوچکی تھی چوکیدار کے ہاتھوں حمزہ گوشت مستحقین میں تقسیم کروارہا تھا۔
سب کاموں سے فارغ ہو کر وہ اندر آیا اور سیدھا کچن کی جانب گیا جہاں مریم اندر بھجوائے گوشت کو فرج میں رکھ رہی تھی ۔۔ ”سنو لنچ مت بنانا میں آرڈر کرچکا ہوں بس تم جلدی سے تیار ہو کر آجاؤ آج بچے بہت اداس ہیں اپنے بکرے کو مس کررہے ہیں انہیں لنچ کروا کر کہیں باہر چلتے ہیں ۔۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے گویا ہوا مریم اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی اب حمزہ کا رخ گیسٹ روم کی جانب تھا دروازہ ناک کرکے اس نے ماہین کو باہر بلایا ۔ ” حمزہ اندر آئیے نا بیٹھ کر آرام سے بات کرتے ہیں ۔“ ماہین حمزہ کو دروازے پر دیکھ کر کھل گئی ”اٹس اوکے میں بچوں کو لنچ کے بعد باہر لے جا رہا ہوں اگر آپ چلنا چاہیں تو تیار ہوجائیے گا ۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے کہہ کر چلتا بنا ۔ مریم حمزہ کے لائے لائٹ پنک کلر کی قمیض شلوار پہن کر بالوں کی اونچی پونی بنا رہی تھی جب دروازہ کھول کر حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔ ”تم ناک کرکے کیوں نہیں آتے ۔۔۔“ مریم نے اسے ٹوکا ”بےبی یہ میرا گھر ہے میں جب چاہے کدھر بھی آجا سکتا ہوں ۔۔۔“ وہ نظروں میں ستائش لئیے اسے دیکھ رہا تھا گلابی لباس میں وہ بھی گلابی گلابی لگ رہی تھی وہ اسے غور سے دیکھتا ہوا آگے بڑھا ”گلابو ۔۔۔“ حمزہ کے منہ سے نکلا
”کیا کہا ! میں تمہیں کس اینگل سے گلابو شلابو ٹائپ لگتی ہوں ۔۔۔“ مریم تڑپ کر بولی ”افف خدارا کس سے پالا پڑا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سر پیٹا
”آخر تم ادھر آئے ہی کیوں ہو جب دیکھوں میرے کمرے میں آجاتے ہو سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔“ ”ورنہ کیا ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
”ورنہ ورنہ ۔۔۔“مریم اٹک گئی حمزہ نے بڑے آرام سے مریم کو اپنی گرفت میں لیکر اپنے گلے لگایا اور اس کے بال کانوں کے پاس سے ہٹاتے ہوئے سرگوشی کی ۔۔ ”عید مبارک ۔۔۔“ چند لمحوں بعد ساکت کھڑی مریم کو خود سے الگ کرکے وہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔
تھوڑی دیر تک مریم ان لمحوں کی قید میں رہی پھر جھرجھری لیکر سیدھی ہوئی ۔۔ ” بدتمیز چھچھورا اب ان اوچھی حرکتوں سے مجھے پٹانا چاہتا ہے ۔۔۔“ مریم بڑبڑا کر پونی بناکر بچوں کے کمرے میں چلی آئی ۔ *********************** حمزہ گڈو اور پپو دونوں کو گود میں لئیے بیٹھا تھا وہ دونوں لباس بدل کر نیکر شرٹ پہن چکے تھے۔مریم کو اندر آتا دیکھ کر دونوں ہی خوش ہوگئے ۔
”بےبی ہم باہر جارہے ہیں ۔۔۔“ پپو نے نعرہ لگایا
” چلو اب جلدی کرو پلے لینڈ چلتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے دونوں کو گود سے اتارا ”چاچو پلے لینڈ نہیں جانا ۔۔۔“ پپو نے انکار میں گردن ہلائی
” تو پھر کدھر جانا ہے ۔۔“ حمزہ نے پوچھا
”ہم مووی جائینگے ۔۔۔“ دونوں ایک ساتھ بولے
”چلو کوئی بات نہیں مووی چلتے ہیں ویسے آجکل ڈزنی کی ایک بڑی اچھی مووی لگی ہوئی ہے ۔۔“حمزہ نے ہامی بھری ”چاچو آپ کب بڑے ہونگے ۔۔“ گڈو نے تاسف سے حمزہ کو دیکھا ۔ ”اب کیا ہوا ۔۔“ حمزہ نے گڈو کو گھورا
” ہمیں ڈزنی مووی نہیں دیکھنی ۔۔“ گڈو نے انکار کیا ۔
”گڈو صاحب آپ اور پپو کون سی مووی دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔“ حمزہ نے پوچھا ”جوانی پھر نہیں آنی ۔۔۔“ گڈو نے شرماتے ہوئے کہا
”حد ہوگئی گڈو موٹے پہلے جوان تو ہوجاؤ پھر ایسی باتیں کرنا ۔۔“ حمزہ نے سختی سے ٹوکا
”چاچو یہ فلم کا نام ہے اور اس میں ایک لڑکی بالکل بےبی جیسی پریٹی ہے ..“ گڈو نے جلدی سے جواب دیا ۔
حمزہ نے اپنا سر پیٹا اور مریم نے اپنی ہنسی ضبط کی ۔
اتنی سی عمر میں یہ بچے ٹائم بم سے کم نہیں تھے
حمزہ گڈو پپو مریم اور ماہین کو لیکر گاڑی میں بیٹھا ۔۔۔
ایک بہت ہی یادگار اور خوشگوار دن گزار کر سب واپس گھر پہنچے مریم بہت خوش تھی آج پورا دن اس نے حمزہ کی نرم گرم نگاہیں خود پر محسوس کی تھی حمزہ کا کئیرنگ انداز اور چھا جانے والی شخصیت کا سحر اسے جکڑ رہا تھا وہ اپنے ہی جذبوں سے گھبرا کر اپنے کمرے میں آگئی تھی ۔ ماہین جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ٹہل رہی تھی پوری پکچر کے دوران حمزہ مریم کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا تھا اور باقی سارا وقت بھی وہ مریم کو آنچ دیتی نگاہوں سے دیکھتا رہا تھا یہ سب ماہین نے بڑی مشکل سے برداشت کیا تھا وہ کالج کے دنوں سے حمزہ کی وجاہت اس کی دولت اور اسٹیٹس سے مرعوب تھی۔ حمزہ کو پانے کے چکر میں کئی رشتے ٹھکرا چکی تھی اور آج حمزہ کی آنکھوں میں مریم کیلئیے جلتی لو اس کا دل جلا رہی تھی ۔ باریک شب خوابی کا لباس بدل کر خود کو خوشبو میں ڈبو کر ہلکا ہلکا میک اپ کرکے ماہین تیار ہوچکی تھی اس نے گھڑی میں وقت دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا وہ آہستگی سے اپنے کمرے سے باہر نکلی پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔۔ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ۔۔۔“ ماہین نے خود کو تسلی دی اور حمزہ کے کمرے کی جانب بڑھنے لگی ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔