نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 15
مریم نے ماہین کو دیکھ کر منہ بنایا اور دوبارہ چائے کیلئیے ابلتے پانی کی طرف متوجہ ہوگئی ۔ماہین چلتی ہوئی مریم کے پاس آکر رکی اور سیل فون سے اس تیزی سے مریم کی پکچر لی کہ چائے بنانے میں مگن مریم کو پتہ ہی نہیں چل سکا ۔۔۔ ” سنو مریم آج مجھے اپنی بہن بہت یاد آرہی ہے میں یہاں اکیلے رہتے ہوئے بہت بور ہوگئی ہوں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم دونوں دوست بن جائیں جو بھی ٹائم ساتھ گزارنا ہے اسے اچھی طرح سے گزاریں ۔۔۔“ ماہین نے بڑی آس سے اس کی جانب دیکھا ۔ ”میرا نام ماہین عظیم ہے عمر تقریباً تمہارے ہی برابر ہوگی گریجویشن کرچکی ہوں ، میرے پیرنٹس فرانس میں رہتے ہیں اور میں خود ادھر اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتی ہوں ۔۔۔“ ماہین نے اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا
”چلو مریم اب تمہاری باری ہے اب تم اپنے بارے میں بتاؤ تاکہ ہم میں دوستی ہوسکے اور تم بھی اکیلاپن محسوس نہ کرو ۔۔۔“ ماہین بڑے پیار سے بولی
” میں تو اکیلی نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کسی دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے بچے ہیں میرے ساتھ ۔۔۔“ مریم نے رکھائی سے جواب دیا ۔ ” اور ان بچوں کے چاچو کے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔۔“ ماہین نے بھنوئیں اچکائیں ۔ مریم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔ ” حمزہ ایک اچھے انسان ہیں ۔۔۔“ مریم نے جواب دیا
” تم بہت بھولی اور معصوم ہو مریم ، تمہیں نہیں پتہ کل رات میرے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔“ وہ معصوميت سے کہتی مریم کے پاس آئی ۔ ” اب تم بتائے بغیر تو ٹلو گی نہیں اس لئیے کہو کیا ہوا تھا ۔۔۔“ مریم بیزاری سے بولتی ہوئی اپنے لئیے چائے مگ میں نکالنے لگی ۔ ” بس مریم میری میری ۔۔۔۔“ وہ مکاری سے سسکی
”میری میری کیا لگا رکھا ہے سیدھی بات کرو میری چائے ٹھنڈی ہورہی ہے تمہارے چکر میں ۔۔۔“ مریم نے ٹکڑا توڑ جواب دیا
ماہین نے خونخوار نظروں سے اس بدتمیز مریم کو دیکھا اور دل ہی دل میں اسے گالیاں دیتی ہوئی دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی ” کل رات میری عزت لٹتے لٹتے بچی ہے ورنہ اس حمزہ نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔“ وہ کہتے کہتے پھپک کے رو پڑی ۔۔ مریم حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی حمزہ ایسی حرکت کرسکتا ہے اسے یقین نہیں ہو رہا تھا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی کچن میں پپو بھاگتا ہوا مریم کے پاس آیا ۔۔
” بےبی مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔“ پپو نے آتے ہی اپنی گزارش پیش کی ۔
مریم پلٹ کر اس کیلئیے بسکٹ نکالنے لگی تھی کہ پپو کی نظر ماہین پر پڑی وہ چلتا ہوا ماہین کے پاس آیا ۔۔ ”وچ
تم۔۔۔۔“ پھر وہ مریم کی طرف پلٹا ۔
”بےبی رات کو وچ شیلا بنی تھی مگر اس نے میرے لئیے شیلا کی جوانی پر ڈانس نہیں کیا ۔۔“پپو نے مریم سے شکایت لگائی ماہین کھسیا کر اٹھی ۔ ”مریم تم ابھی بزی ہو بعد میں بات کرتے ہیں۔۔۔“
”وچ تم شیلا کی جوانی والا ڈریس پہنو مجھے اچھا لگا تھا ۔۔۔۔“ پپو بڑے پیار سے بولا اور ماہین اس شیطان کو گھورتے ہوئے چپ چاپ باہر کچن سے باہر نکل گئی ۔
مریم نے پلٹ کر گول مٹول پپو کو گود میں اٹھایا ” پپ
و یہ شیلا والی بات بتاؤ ۔۔۔“
”میں نہیں بتاؤنگا ۔۔۔“ پپو نے نفی میں سر ہلایا مریم نے اسے پیار کیا اور پھر اپنا سوال دھرایا ”بےبی اب میں مرد بن گیا ہوں اس لئیے مردوں والی بات نہیں بتا سکتا ۔۔۔“ پپو نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مریم کا چہرہ تھام کر کہا
مریم نے بڑے غور سے اپنی گود میں بیٹھے ساڑھے چار سال کے کیوٹ سے گول مٹول مرد کو بسکٹ کھاتے دیکھا ۔۔
”اچھا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تم مرد بن گئے ہو ۔۔۔“ مریم نے پوچھا۔ ”چاچ
و نے ۔۔۔“ پپو نے آرام سے جواب دیا
”اور چاچو نے ایسا کیوں کہا ۔۔۔۔“ مریم نے گھما کر پوچھا ”کیونکہ ہمیں پرامس کرنا تھا ۔۔۔۔“ پپو نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس تھاما ”کیسا پرامس میری جان ۔۔۔۔“ مریم نے اس کے گال چومے اور پپو بھائی فلیٹ ہوگئے
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ سو رہا تھا جب اسے اٹیچ باتھ سے چیزوں کے گرنے کی آواز سنائی دی وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھا اور بیڈ پر دیکھا تو گڈو اور پپو دونوں غائب تھے وہ اٹھ کر واش روم کی جانب گیا جہاں فرش پر اس کا آفٹر شیو اور شیونگ کٹ بکھری پڑی تھی اور گڈو صاحب چئیر پر چڑھے چہرے پر شیونگ کریم سے جھاگ بنائے ہوئے تھے ۔۔ ” یہ
کیا ہورہا ہے ۔۔۔“ حمزہ کی آواز گونجی ۔۔۔
”چاچو ۔۔۔۔“ گڈو کے ہاتھ سے ریزر گرتے گرتے بچا۔ ” آپ نے مجھے ڈرا دیا ابھی میرا شیو خراب ہوجاتا ۔۔۔“ گڈو ناراضگی سے بولا ” تم کس کی اجازت سے شیو کررہے ہوں ابھی پوری طرح زمین پر اگ تو جاؤ ! چلے ہیں شیو کرنے ، ابھی کوئی کٹ لگ گیا تو درد سے رونے لگو گے ۔۔۔“
حمزہ نے آگے بڑھ کر گڈو کے ہاتھ سے ریزر لیا اور اس کا نرم و ملائم پھولا ہوا چہرہ تولیہ سے صاف کرکے اسے گود میں اٹھا کر باہر لایا ۔
”چاچو کل آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ میں مرد ہوں اور گوگل پہ ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ مرد کو درد نہیں ہوتا اور مرد روز شیو کرتا ہے ۔۔۔“ گڈو نے روٹھے لہجے میں کہا ”ارے میرے ساڑھے تین فٹ کے مرد ابھی اس میں ٹائم ہے ابھی تم چھوٹے مرد ہو جب میرے جتنے ہوگے تب شیو کرنا ۔۔۔“ حمزہ نے سر پیٹتے ہوئے سمجھایا۔۔ ” آپ جتنا ! “ گڈو نے حیرت سے لمبے چوڑے حمزہ کو دیکھا ”تو کیا شیو سینئیر سٹیزن کرتے ہیں ؟ “ گڈو نے پوچھا ” میں تمہیں کہاں سے سینئیر سٹیزن لگتا ہوں ؟ خیر چھوڑو بعد میں سمجھاؤنگا ابھی چل کر پپو کو دیکھو کدھر ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے چلتا کیا ویسے بھی گڈو سے خالی پیٹ بحث نرا سر درد تھی ، وہ خود بھی منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر کچن کی جانب روانہ ہوا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم ابھی پپو سے بات کررہی تھی کہ ناراض ناراض سا گڈو اندر داخل ہوا اور مریم کو سلام کرکے فرج سے ٹیک لگا کر منہ پھلا کر کھڑا ہوگیا ۔۔
مریم نے ایک نظر اس کے روٹھے روٹھے انداز کو دیکھا اور پپو کو گودی سے اتار کر کرسی پر بٹھایا اور خود گڈو کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھامے ۔۔ ”کیا ہوا گڈو ناراض کیوں ہو ۔۔۔۔“ مریم نے بڑے پیار سے پوچھا ”بےبی سوری چاچی ! “ گڈو نے بات شروع کی اور مریم کو کرنٹ سا لگا
”چاچی ۔۔۔تم مجھے چاچی کیوں کہہ رہے ہوں“ مریم نے ٹوکا
”اب آپ میری چاچی ہیں تو چاچی ہی کہونگا نا ورنہ چاچو الٹا لٹکا دینگے ۔۔۔“ گڈو روٹھے لہجے میں بولا ۔ اس س
ے پہلے مریم کچھ کہتی کچن میں حمزہ داخل ہوا اور ان دونوں پر اچٹتی سی نظر ڈال کر فرج سے انڈے نکالنے لگا ۔۔
مریم اور گڈو دونوں غصہ سے اسے گھور رہے تھے اور پپو بڑے آرام سے دودھ میں بسکٹ بھگو بھگو کر کھانے میں لگا ہوا تھا ۔ مریم گڈو کے پاس سے اٹھ کر حمزہ کے پاس آئی ۔۔ ” تم نے بچوں سے کیا بکواس کی ہے “ وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔
” کیوں کیا تم خود کو بکواس سمجھتی ہوں ؟ “ حمزہ نے شرارت سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”حمزہ پلیز ! میں سیریس ہوں ۔۔“ مریم سنجیدگی سے بولی حمزہ
نےمریم کو نظر انداز کرتے ہوئے فرائی انڈے سکے توسٹ میز پر رکھے ۔۔
”گڈو اس ماہین وچ کو ناشتے کیلئیے بلا کر لاؤ اور ناشتہ شروع کرو میں ابھی تمہاری چاچی سے بات کرکے واپس آتا ہوں ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کی کلائی پکڑی اور اسے زبردستی اپنے روم میں لے آیا ۔۔ ”اب کہو کیا بات ہے ۔۔۔“ حمزہ اس کی کلائی چھوڑتا ہوا بولا ” گڈو مجھے چاچی کیوں کہہ رہا ہے۔“ مریم نے غصہ سے پھنکاری ۔
” کیوں کیا تم اس کی چاچی نہیں ہو ؟ “ حمزہ قریب آکر اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا گھمبیر لہجے میں بولا
” مگر تم نے تو کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔“ مریم اپنی بات مکمل نہیں کرسکی ” بک
واس کی تھی یار تم اسے بھول نہیں سکتی ۔۔۔“ حمزہ نے تیزی سے اس کی بات کاٹی ۔
”حمزہ تم بس اتنا کرو مجھے واپس لندن بھجوا دو نہیں چاہئیے مجھے میری جائیداد اور انصاف ۔۔“ مریم نے بھیگے لہجے میں کہا۔ ”تمہارے تایا پر کیس ہوچکا ہے ثبوت اتنے پکے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں سزا سے نہیں روک سکتی ۔۔۔“ حمزہ ایک لمحہ کو رکا ۔ ” مریم کیا میں نے اور میرے بچوں نے تمہارے دل میں ذرہ برابر جگہ نہیں بنائی جو تم چھوڑ کر جانے کی بات کررہی ہو ۔۔“وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا ۔۔
” بچوں کی بات مت کرو کھڑوس انسان ! ان کو تو میں ساری زندگی نہیں بھلا سکتی بس تم ہی خراب ہو ۔۔“ مریم اسے دھکا دیتی ہوئی بولی
”مریم میں اتنا جانتا ہوں کہ تم میرے نام سے جڑ چکی ہو تمہاری آنکھیں مجھے خواب دکھانے لگی ہیں مان لو کہ تم بھی مجھے چاہنے لگی ہو اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے اور میرے ان گوگل کیبل کے دیوانے بچوں کو تم ہی سنبھال سکتی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے ہاتھ تھامے چہرے پر بکھری سیاہ لٹ کو کان کے پیچھے کیا اور جھک کر اسکے ماتھے کو پیار سے چوما ۔ ”کمب
خت اب مجھے سڈیوز کرنے کی کوشش کررہا ہے نہیں مریم اس کمینے کے جال میں نہیں آنا۔۔“ مریم نے اپنے دھک دھک کرتے دل کو ڈانٹا اور تیزی سے حمزہ سے الگ ہوئی ۔
”کل رات تو تم اس وچ کے ساتھ جنگل میں منگل منا رہے تھے اور اب مجھے پٹا رہے ہو سچی تم پولیس والوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے ۔۔“ مریم نے اسے لتاڑا ۔ ” تمہیں رات کا کس نے بتایا ۔۔۔“ حمزہ بری طرح چونکا
”اب اندھی بہری تو ہوں نہیں کل رات جب تم نے اس چڑیل کو نکال کر دروازہ زور سے بند کیا تھا تو میں جاگ گئی تھی اور اسے دیر تک تمہارے کمرے کے باہر آہیں بھرتے بھی دیکھا تھا باقی کا قصہ تمہارا تین سال کا مرد آہن مجھے بتا چکا ہے ۔۔۔“ مریم نے تنک کر کہا ۔
”چلو اچھا ہے مجھے تمہیں صفائی نہیں دینی پڑی ۔۔۔“ حمزہ نے ہاتھ جھاڑے ۔ ” اب میں جاؤ ۔۔۔“ مریم نے اپنے سامنے پہاڑ کی طرح جمے کھڑے حمزہ کو گھورا ۔ ”مریم میں ہماری شادی ڈیکلئیر کرنا چاہتا ہوں اور میری چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہمارا دھوم دھام سے ولیمہ ارینج کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔ ” ٹھیک ہے چلو ایک ڈیل کرتے ہیں اگر میں تین دن میں تم سے اظہار محبت کروانے میں کامیاب ہوگیا تو چوتھے دن ہمارا ولیمہ ہوگا بولو منظور ہے ویسے بھی اگر تم نامنظور کرتی ہو تو ولیمہ کل ہی کرونگا ۔۔۔“ حمزہ گویا ہوا ” ٹھیک ہے اگر تین دن میں تم مجھے نہیں پٹا سکے تو میری لندن کی ٹکٹ کٹواؤگے ۔۔“ مریم نے شرط رکھی ۔۔ ”اوکے ڈن۔۔۔۔“ حمزہ نہ کہہ کر مریم کو راستہ دیا اور خود بھی اسکے پیچھے پیچھے کچن کی جانب روانہ ہوا مریم چلو بیٹھو ۔۔۔“ کرسی گھسیٹ کر اسنے مریم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھوڑی دیر میں میز پر سب موجود تھے اور خاموشی سے ناشتہ ہورہا تھا ۔۔ ماہین حمزہ سے ناراض تھی کہ رات اس نے لفٹ نہیں کرائی اب انتقام لینا اس پر فرض تھا ۔۔۔ گڈو حمزہ سے ناراض تھا کہ حمزہ نے اسے مرد مانے سے انکار کیا اور بےبی سے شادی میں بھی نہیں بلایا ۔۔۔ مریم عرف بےبی حمزہ سے ناراض تھی کہ حمزہ نے بچوں کو ان کے بارے میں کیوں بتایا اور اب کہیں واقعی اسے پیار نہ ہوجائے ۔ اور حمزہ سوچ رہا تھا کہ” تین دن بےبی ان “ پر کیسے عمل کیا جائے ۔
اور ان سب سے بےنیاز پپو اپنی دنیا میں مگن ناشتے میں مصروف تھا ۔۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
”چلو مریم اب تمہاری باری ہے اب تم اپنے بارے میں بتاؤ تاکہ ہم میں دوستی ہوسکے اور تم بھی اکیلاپن محسوس نہ کرو ۔۔۔“ ماہین بڑے پیار سے بولی
” میں تو اکیلی نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کسی دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے بچے ہیں میرے ساتھ ۔۔۔“ مریم نے رکھائی سے جواب دیا ۔ ” اور ان بچوں کے چاچو کے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔۔“ ماہین نے بھنوئیں اچکائیں ۔ مریم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔ ” حمزہ ایک اچھے انسان ہیں ۔۔۔“ مریم نے جواب دیا
” تم بہت بھولی اور معصوم ہو مریم ، تمہیں نہیں پتہ کل رات میرے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔“ وہ معصوميت سے کہتی مریم کے پاس آئی ۔ ” اب تم بتائے بغیر تو ٹلو گی نہیں اس لئیے کہو کیا ہوا تھا ۔۔۔“ مریم بیزاری سے بولتی ہوئی اپنے لئیے چائے مگ میں نکالنے لگی ۔ ” بس مریم میری میری ۔۔۔۔“ وہ مکاری سے سسکی
”میری میری کیا لگا رکھا ہے سیدھی بات کرو میری چائے ٹھنڈی ہورہی ہے تمہارے چکر میں ۔۔۔“ مریم نے ٹکڑا توڑ جواب دیا
ماہین نے خونخوار نظروں سے اس بدتمیز مریم کو دیکھا اور دل ہی دل میں اسے گالیاں دیتی ہوئی دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی ” کل رات میری عزت لٹتے لٹتے بچی ہے ورنہ اس حمزہ نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔“ وہ کہتے کہتے پھپک کے رو پڑی ۔۔ مریم حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی حمزہ ایسی حرکت کرسکتا ہے اسے یقین نہیں ہو رہا تھا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی کچن میں پپو بھاگتا ہوا مریم کے پاس آیا ۔۔
” بےبی مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔“ پپو نے آتے ہی اپنی گزارش پیش کی ۔
مریم پلٹ کر اس کیلئیے بسکٹ نکالنے لگی تھی کہ پپو کی نظر ماہین پر پڑی وہ چلتا ہوا ماہین کے پاس آیا ۔۔ ”وچ
تم۔۔۔۔“ پھر وہ مریم کی طرف پلٹا ۔
”بےبی رات کو وچ شیلا بنی تھی مگر اس نے میرے لئیے شیلا کی جوانی پر ڈانس نہیں کیا ۔۔“پپو نے مریم سے شکایت لگائی ماہین کھسیا کر اٹھی ۔ ”مریم تم ابھی بزی ہو بعد میں بات کرتے ہیں۔۔۔“
”وچ تم شیلا کی جوانی والا ڈریس پہنو مجھے اچھا لگا تھا ۔۔۔۔“ پپو بڑے پیار سے بولا اور ماہین اس شیطان کو گھورتے ہوئے چپ چاپ باہر کچن سے باہر نکل گئی ۔
مریم نے پلٹ کر گول مٹول پپو کو گود میں اٹھایا ” پپ
و یہ شیلا والی بات بتاؤ ۔۔۔“
”میں نہیں بتاؤنگا ۔۔۔“ پپو نے نفی میں سر ہلایا مریم نے اسے پیار کیا اور پھر اپنا سوال دھرایا ”بےبی اب میں مرد بن گیا ہوں اس لئیے مردوں والی بات نہیں بتا سکتا ۔۔۔“ پپو نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مریم کا چہرہ تھام کر کہا
مریم نے بڑے غور سے اپنی گود میں بیٹھے ساڑھے چار سال کے کیوٹ سے گول مٹول مرد کو بسکٹ کھاتے دیکھا ۔۔
”اچھا یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ تم مرد بن گئے ہو ۔۔۔“ مریم نے پوچھا۔ ”چاچ
و نے ۔۔۔“ پپو نے آرام سے جواب دیا
”اور چاچو نے ایسا کیوں کہا ۔۔۔۔“ مریم نے گھما کر پوچھا ”کیونکہ ہمیں پرامس کرنا تھا ۔۔۔۔“ پپو نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس تھاما ”کیسا پرامس میری جان ۔۔۔۔“ مریم نے اس کے گال چومے اور پپو بھائی فلیٹ ہوگئے
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ سو رہا تھا جب اسے اٹیچ باتھ سے چیزوں کے گرنے کی آواز سنائی دی وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھا اور بیڈ پر دیکھا تو گڈو اور پپو دونوں غائب تھے وہ اٹھ کر واش روم کی جانب گیا جہاں فرش پر اس کا آفٹر شیو اور شیونگ کٹ بکھری پڑی تھی اور گڈو صاحب چئیر پر چڑھے چہرے پر شیونگ کریم سے جھاگ بنائے ہوئے تھے ۔۔ ” یہ
کیا ہورہا ہے ۔۔۔“ حمزہ کی آواز گونجی ۔۔۔
”چاچو ۔۔۔۔“ گڈو کے ہاتھ سے ریزر گرتے گرتے بچا۔ ” آپ نے مجھے ڈرا دیا ابھی میرا شیو خراب ہوجاتا ۔۔۔“ گڈو ناراضگی سے بولا ” تم کس کی اجازت سے شیو کررہے ہوں ابھی پوری طرح زمین پر اگ تو جاؤ ! چلے ہیں شیو کرنے ، ابھی کوئی کٹ لگ گیا تو درد سے رونے لگو گے ۔۔۔“
حمزہ نے آگے بڑھ کر گڈو کے ہاتھ سے ریزر لیا اور اس کا نرم و ملائم پھولا ہوا چہرہ تولیہ سے صاف کرکے اسے گود میں اٹھا کر باہر لایا ۔
”چاچو کل آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ میں مرد ہوں اور گوگل پہ ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ مرد کو درد نہیں ہوتا اور مرد روز شیو کرتا ہے ۔۔۔“ گڈو نے روٹھے لہجے میں کہا ”ارے میرے ساڑھے تین فٹ کے مرد ابھی اس میں ٹائم ہے ابھی تم چھوٹے مرد ہو جب میرے جتنے ہوگے تب شیو کرنا ۔۔۔“ حمزہ نے سر پیٹتے ہوئے سمجھایا۔۔ ” آپ جتنا ! “ گڈو نے حیرت سے لمبے چوڑے حمزہ کو دیکھا ”تو کیا شیو سینئیر سٹیزن کرتے ہیں ؟ “ گڈو نے پوچھا ” میں تمہیں کہاں سے سینئیر سٹیزن لگتا ہوں ؟ خیر چھوڑو بعد میں سمجھاؤنگا ابھی چل کر پپو کو دیکھو کدھر ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے چلتا کیا ویسے بھی گڈو سے خالی پیٹ بحث نرا سر درد تھی ، وہ خود بھی منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر کچن کی جانب روانہ ہوا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم ابھی پپو سے بات کررہی تھی کہ ناراض ناراض سا گڈو اندر داخل ہوا اور مریم کو سلام کرکے فرج سے ٹیک لگا کر منہ پھلا کر کھڑا ہوگیا ۔۔
مریم نے ایک نظر اس کے روٹھے روٹھے انداز کو دیکھا اور پپو کو گودی سے اتار کر کرسی پر بٹھایا اور خود گڈو کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھامے ۔۔ ”کیا ہوا گڈو ناراض کیوں ہو ۔۔۔۔“ مریم نے بڑے پیار سے پوچھا ”بےبی سوری چاچی ! “ گڈو نے بات شروع کی اور مریم کو کرنٹ سا لگا
”چاچی ۔۔۔تم مجھے چاچی کیوں کہہ رہے ہوں“ مریم نے ٹوکا
”اب آپ میری چاچی ہیں تو چاچی ہی کہونگا نا ورنہ چاچو الٹا لٹکا دینگے ۔۔۔“ گڈو روٹھے لہجے میں بولا ۔ اس س
ے پہلے مریم کچھ کہتی کچن میں حمزہ داخل ہوا اور ان دونوں پر اچٹتی سی نظر ڈال کر فرج سے انڈے نکالنے لگا ۔۔
مریم اور گڈو دونوں غصہ سے اسے گھور رہے تھے اور پپو بڑے آرام سے دودھ میں بسکٹ بھگو بھگو کر کھانے میں لگا ہوا تھا ۔ مریم گڈو کے پاس سے اٹھ کر حمزہ کے پاس آئی ۔۔ ” تم نے بچوں سے کیا بکواس کی ہے “ وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔
” کیوں کیا تم خود کو بکواس سمجھتی ہوں ؟ “ حمزہ نے شرارت سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”حمزہ پلیز ! میں سیریس ہوں ۔۔“ مریم سنجیدگی سے بولی حمزہ
نےمریم کو نظر انداز کرتے ہوئے فرائی انڈے سکے توسٹ میز پر رکھے ۔۔
”گڈو اس ماہین وچ کو ناشتے کیلئیے بلا کر لاؤ اور ناشتہ شروع کرو میں ابھی تمہاری چاچی سے بات کرکے واپس آتا ہوں ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کی کلائی پکڑی اور اسے زبردستی اپنے روم میں لے آیا ۔۔ ”اب کہو کیا بات ہے ۔۔۔“ حمزہ اس کی کلائی چھوڑتا ہوا بولا ” گڈو مجھے چاچی کیوں کہہ رہا ہے۔“ مریم نے غصہ سے پھنکاری ۔
” کیوں کیا تم اس کی چاچی نہیں ہو ؟ “ حمزہ قریب آکر اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا گھمبیر لہجے میں بولا
” مگر تم نے تو کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔“ مریم اپنی بات مکمل نہیں کرسکی ” بک
واس کی تھی یار تم اسے بھول نہیں سکتی ۔۔۔“ حمزہ نے تیزی سے اس کی بات کاٹی ۔
”حمزہ تم بس اتنا کرو مجھے واپس لندن بھجوا دو نہیں چاہئیے مجھے میری جائیداد اور انصاف ۔۔“ مریم نے بھیگے لہجے میں کہا۔ ”تمہارے تایا پر کیس ہوچکا ہے ثبوت اتنے پکے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں سزا سے نہیں روک سکتی ۔۔۔“ حمزہ ایک لمحہ کو رکا ۔ ” مریم کیا میں نے اور میرے بچوں نے تمہارے دل میں ذرہ برابر جگہ نہیں بنائی جو تم چھوڑ کر جانے کی بات کررہی ہو ۔۔“وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا ۔۔
” بچوں کی بات مت کرو کھڑوس انسان ! ان کو تو میں ساری زندگی نہیں بھلا سکتی بس تم ہی خراب ہو ۔۔“ مریم اسے دھکا دیتی ہوئی بولی
”مریم میں اتنا جانتا ہوں کہ تم میرے نام سے جڑ چکی ہو تمہاری آنکھیں مجھے خواب دکھانے لگی ہیں مان لو کہ تم بھی مجھے چاہنے لگی ہو اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے اور میرے ان گوگل کیبل کے دیوانے بچوں کو تم ہی سنبھال سکتی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے ہاتھ تھامے چہرے پر بکھری سیاہ لٹ کو کان کے پیچھے کیا اور جھک کر اسکے ماتھے کو پیار سے چوما ۔ ”کمب
خت اب مجھے سڈیوز کرنے کی کوشش کررہا ہے نہیں مریم اس کمینے کے جال میں نہیں آنا۔۔“ مریم نے اپنے دھک دھک کرتے دل کو ڈانٹا اور تیزی سے حمزہ سے الگ ہوئی ۔
”کل رات تو تم اس وچ کے ساتھ جنگل میں منگل منا رہے تھے اور اب مجھے پٹا رہے ہو سچی تم پولیس والوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے ۔۔“ مریم نے اسے لتاڑا ۔ ” تمہیں رات کا کس نے بتایا ۔۔۔“ حمزہ بری طرح چونکا
”اب اندھی بہری تو ہوں نہیں کل رات جب تم نے اس چڑیل کو نکال کر دروازہ زور سے بند کیا تھا تو میں جاگ گئی تھی اور اسے دیر تک تمہارے کمرے کے باہر آہیں بھرتے بھی دیکھا تھا باقی کا قصہ تمہارا تین سال کا مرد آہن مجھے بتا چکا ہے ۔۔۔“ مریم نے تنک کر کہا ۔
”چلو اچھا ہے مجھے تمہیں صفائی نہیں دینی پڑی ۔۔۔“ حمزہ نے ہاتھ جھاڑے ۔ ” اب میں جاؤ ۔۔۔“ مریم نے اپنے سامنے پہاڑ کی طرح جمے کھڑے حمزہ کو گھورا ۔ ”مریم میں ہماری شادی ڈیکلئیر کرنا چاہتا ہوں اور میری چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہمارا دھوم دھام سے ولیمہ ارینج کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔ ” ٹھیک ہے چلو ایک ڈیل کرتے ہیں اگر میں تین دن میں تم سے اظہار محبت کروانے میں کامیاب ہوگیا تو چوتھے دن ہمارا ولیمہ ہوگا بولو منظور ہے ویسے بھی اگر تم نامنظور کرتی ہو تو ولیمہ کل ہی کرونگا ۔۔۔“ حمزہ گویا ہوا ” ٹھیک ہے اگر تین دن میں تم مجھے نہیں پٹا سکے تو میری لندن کی ٹکٹ کٹواؤگے ۔۔“ مریم نے شرط رکھی ۔۔ ”اوکے ڈن۔۔۔۔“ حمزہ نہ کہہ کر مریم کو راستہ دیا اور خود بھی اسکے پیچھے پیچھے کچن کی جانب روانہ ہوا مریم چلو بیٹھو ۔۔۔“ کرسی گھسیٹ کر اسنے مریم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھوڑی دیر میں میز پر سب موجود تھے اور خاموشی سے ناشتہ ہورہا تھا ۔۔ ماہین حمزہ سے ناراض تھی کہ رات اس نے لفٹ نہیں کرائی اب انتقام لینا اس پر فرض تھا ۔۔۔ گڈو حمزہ سے ناراض تھا کہ حمزہ نے اسے مرد مانے سے انکار کیا اور بےبی سے شادی میں بھی نہیں بلایا ۔۔۔ مریم عرف بےبی حمزہ سے ناراض تھی کہ حمزہ نے بچوں کو ان کے بارے میں کیوں بتایا اور اب کہیں واقعی اسے پیار نہ ہوجائے ۔ اور حمزہ سوچ رہا تھا کہ” تین دن بےبی ان “ پر کیسے عمل کیا جائے ۔
اور ان سب سے بےنیاز پپو اپنی دنیا میں مگن ناشتے میں مصروف تھا ۔۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔