نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 16
مریم لنچ بنانے کے لئے کچن کی طرف جا رہی تھی جب اسے گڈو اور پپو تیار شیار پرفیوم چھڑکے موزے جوتے پہنے لاؤنچ میں بیٹھے دکھاۓ دئیے وہ کچن پر گولی مارتی ہوئی لاؤنچ میں آئی ۔ “ارے واہ آج تو دونوں بہت چمک رہے ہو کدھر کی تیاری ہے “۔ مریم نے توصیفی نگاہوں سے دونوں کو دیکھا
” بےبی چاچی ہم چاچو کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے جا رہے ہیں تین دن ہیں اور اتنا کام ہے ہمارے گھر میں اتنا بڑا فنکشن ہوگا گیسٹ آئینگے اس لئیے ہمیں سب سے اچھا لگنا ہے “گڈو نے جواب دیا ۔
“پتا ہے بےبی چاچو نے کہا ہے میں چھوٹا دولہا بنو گا “پپو نے چمکتی آنکھوں سے اطلاع دی ۔ “اب بےبی چاچی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہینگی اور ہم پیرنٹس میٹنگ میں چاچی کے ساتھ ہی جایا کرینگے چاچو تو ہمیشہ لیٹ کروا دیتے تھے ” ” گڈو پپو تم دونوں مجھے چاچی مت بولو ورنہ میں ناراض ہوجاؤنگی ۔۔۔“ مریم نے انہیں دھمکی دی ۔۔
” تو پھر کیا بولیں ؟ اگر بےبی کہا تو چاچو الٹا لٹکا دینگے ۔۔۔“ گڈو افسردگی سے بول ”کیا
میں تم دونوں کو چاچی ٹائپ لگتی ہوں ۔۔۔“ مریم نے انہیں چالاکی سے بلیک میل کیا
”نہیں بالکل نہیں بےبی ! تم تو بالکل باربی ڈول ہو چاچی تو اولڈ آنٹیاں ہوتی ہیں ہے نا پپو۔۔۔“ گڈو نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ” تو بس ٹھیک ہے آج سے میں تم دونوں کی دوست ہوں ۔۔۔“ مریم نے گردن اکڑا کر کہا ” مگر بے بی ۔۔۔۔“ گڈو نے اسے دیکھا
”ایک لڑکا اور لڑکی کبھی دوست نہیں ہوسکتے ۔۔“ گڈو نے ارشاد فرمایا ۔
”لڑکا ! لڑکا کدھر ہے بھئی ۔۔۔۔“ مریم نے حیرت سے سر اٹھا کر چاروں جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ ” می
ں اور پپو ہم دونوں ہی لڑکا ہیں بےبی ۔۔۔“ گڈو نے اس کم عقل کو گھورا
” کیوں بھئی کیوں دوست نہیں ہوسکتے ؟ اور تمہیں یہ عظیم قول کس نے بتایا اور کس نے کہا کہ تم لڑکا ہو ۔۔۔“ مریم نے پوچھا ”وہ جب میں اسکول جانا شروع ہوا تھا تو چاچو نے کہا تھا ۔۔۔“ گڈو نے لجلجا کر بولا ”مگر اب تو تم دونوں مرد بن گئے ہو کیوں پپو۔۔۔“ مریم نے گولوں سے پپو کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
اور مریم کے دیوانے پپو صاحب کھلکھلا کر اچک کر مریم کی گود میں چڑھ گئے ۔
”ہاں یہ بات تو ہے، اوکے پھر ٹھیک ہے وہ تو لڑکا لڑکی کیلئیے تھا میں اور پپو تو کل ہی فریش فریش مرد بنے ہیں ، اوکے بےبی نو مور اولڈ فیشن چاچی اب ہم دوست ہیں ۔۔۔“ گڈو نے کہا مریم
نے پپو کے پھولے پھولے سیب جیسے گالوں کو پیار سے چوم کر اسے گڈو کے پاس بٹھایا اور
گڈو اور پپو کو باتوں میں مگن چھوڑ کر وہ بھناتی ہوئی حمزہ کے کمرے کی طرف گئی اور دستک دے کر جواب کا انتظار کئیے بغیر ایک زوردار جھٹکے سے دروازہ کھولا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
بلیو جینز اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس حمزہ نک سک سے تیار آئینہ کے سامنے کھڑا بال سیٹ کر رہا تھا جب مریم دھماکے کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔
“یہ باہر گڈو پپو کیا بکواس کر رہے ہیں تم انہیں کدھر لیکر جا رہے ہو ؟” مریم نے اسے گھورا
حمزہ جواب دئیے بغیر بڑے آرام سے پرفیوم کی بوتل اٹھا کر اپنے اوپر اسپرے کرتا ہوا مریم پاس آیا اور اس کے اوپر بھی اسپرے کرنے لگا ۔۔۔ ” یہ
کیا بدتميزی کررہے ہوں ، میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔“ مریم ناگواری سے اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی
” اچھا ہوا تم خود ہی آگئی ہو ، یہ بتاؤ تمہارے لئے کون سے پارلر میں بکنگ کرواؤں ، ویڈنگ ڈریس تو میری پسند کا ہوگا بس جیولری پارلر سلیکشن اور شوز کیلئیے تمہاری مدد چاہئیے ہوگی ” حمزہ نے سنجیدگی سے پوچھا “دیکھو حمزہ ! تم کیا گیم کھیل رہے ہو مجھے نہیں پتا مگر ہماری تین دن کی ڈیل ہوئی تھی اور تم آج ہی سے بچوں کے دماغ میں خناس بھر رہے ہو حد ہے کمینے پن کی ” مریم نے دانت کچکچائے ” نا جانم نا اتنا غصہ صحت کیلئیے اچھا نہیں ہوتا اور رنگ بھی جھلس جاتا ہے اس لئیے جسٹ چل بےبی۔۔۔“ حمزہ کی آنکھوں میں شرارت تھی
”دیکھو حمزہ ۔۔۔۔“ مریم نے انگلی اٹھا کر کہنا چاہا
” دیکھنا ہی تو چاہ رہا ہوں کہ تم میرے پیار میں ، میرے رنگ میں، رنگ کر میری دلہن بن کر کیسی لگو گی ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولتا اس کے نزدیک ہوا ۔ ”حمزہ تم انتہائی درجے کے ڈھیٹ انسان ہو ۔۔۔“ وہ نظریں چرا کر بولتی ہوئی پیچھے ہٹی ۔
مریم کے سرخ پڑتے چہرے کو حمزہ نے بڑی پرشوق نظروں سے دیکھا ۔ ” مریم تمہارے آنے سے میری زندگی میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے زندگی سہل اور رنگین لگنے لگی ہے ویسے بھی میں اتنا بیوقوف ہرگز نہیں کہ قسمت سے ہاتھ لگی اتنی خوبصورت بیوی پلس نوکرانی کو اپنے ہاتھوں سے نکل جانے دوں ۔“ وہ بولتے بولتے پٹڑی سے اترا ۔
”فٹے منہ تمہارا ، میں میں تمہاری نوکرانی ہرگز نہیں ہوں ۔۔“ مریم تپ کر بولی ”چلو بیوی تو ہو نا۔۔۔۔“ حمزہ نے جواب دیا اور بڑے پرسکون انداز میں قریب آکر مریم کا ہاتھ تھاما اور اس کی حیرت سے پھٹتی ہوئی آنکھوں میں جھانک کر دلکشی سے مسکراتے ہوئے اپنی گرفت اس کے گرد مضبوط کرتے ہوئے اس کے چہرے پہ جھک گیا۔۔
حمزہ کے ساتھ سحر انگیز لمحوں میں جکڑی مریم کے گال شرم و حیا سے تمتما اٹھے تھے چند لمحوں کی بےاختیاری کے بعد مریم نے ایک جھٹکے سے حمزہ کو خود سے دور کیا ۔۔۔۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔“ مریم اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے بولی
”مسز حمزہ اسے بدتمیزی نہیں پیار کہتے ہیں اور میرا احسان مانو کہ میں نے اب تک تمہیں ڈھیل دی ہوئی ہے ورنہ بےبی جی آج ہم دونوں اپنے بےبی کی پلاننگ کررہے ہوتے ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
”دیکھو حمزہ ایسی عمران ہاشمی ٹائپ حرکتوں سے پرہیز کرو ورنہ تمہارا کمینہ خبیث دل جو میں نے تین دن بعد توڑنا ہے کہی آج ہی نہ توڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دوں ۔۔۔“ مریم شرم و غصہ کی کیفیت میں نظریں چراتے ہوئے بولی ”او گاڈ تم بلش کررہی ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ ہنسا ” سنو میرے پیارے بچوں کی پیاری سی بےبی مجھے اپنی جیت پر پورا یقین ہے اس لئیے تم میرے دل کے ٹوٹنے یا ہار جانے کی فکر مت کرو ! تم تو بس آج سے صرف تین دن بعد دلہن بننے کی تیاری کرو “ ۔ وہ مریم کے پاس آکر اسکے گال تھپتھپاتا باہر نکل گیا ۔ مریم کافی دیر تک وہی اکیلی کھڑی اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی اسے ابھی بھی حمزہ کا لمس اپنے چہرے پر محسوس ہورہاتھا ۔۔ ”اکڑو کھڑوس محبت کرسکتا ہے پر ڈھنگ سے اظہار نہیں کرسکتا کاش گڈو پپو سے ہی کلاس لے لے ۔۔۔“ مریم بڑبڑائی جو بھی ہو یہ تو طے تھا کہ حمزہ اس کے دل پر نقب لگا چکا تھا مگر یہ بھی طے تھا کہ وہ اتنی آسانی سے ہاں کرنے والی نہیں تھی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کی قربت کے نشے سے سرشار حمزہ سیٹی پر دھن بجاتا لاؤنچ میں آیا جہاں پپو اور گڈو تیار بیٹھے اسکا انتظار کررہے تھے ۔۔۔ ” چلو بھئی میرے لاڈلوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھو۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو گود میں اٹھایا اور گڈو کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔۔ دونوں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد حمزہ نے چوکیدار کو ہدایات دیں اور پھر تیزی سے گاڑی کو سڑک پر لے آیا اب اس کا رخ مال کی طرف تھا جہاں اسے اپنے اور دونوں بچوں کیلئیے ایک سے ڈریس آرڈر کرنے تھے ۔۔۔ تینوں بڑے مگن انداز میں شاپنگ کررہے تھے ڈریس آرڈر کردئیے تھے اب حمزہ بچوں کے جوتے دیکھ رہا تھا کافی دیر بعد سب کام نبٹا کر وہ باہر نکلے ۔۔ ”چاچو آئس کریم چاہئیے ۔۔۔“پپو نے فرمائش کی
حمزہ دونوں بچوں کو لیکر قریبی آئسکریم شاپ پر آگیا انہیں ان کی پسند کے فلیور دلائے ۔
”چلو بھئی اب جلدی سے اپنی اپنی آئسکریم ختم کرو اور گھر چلو تمہاری چاچی انتظار کررہی ہوگئی ۔“ حمزہ نے دونوں کو باری باری دیکھا ۔ ” چاچو بےبی کیلئیے بھی آئسکریم لیں ۔۔“ پپو آئسکریم سے لبالب بھرے منہ سے بمشکل بولا ”بے بی نہیں پپو چاچی ! چاچی بولو وہ اب تمہاری چاچی ہے ۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو سمجھایا
” نہیں چاچو وہ میری فرینڈ ہے اور فرینڈ چاچی نہیں ہوتی مجھے بےبی نے خود بتایا ہے ۔۔“ پپو نے اسے جواب دیا ۔
” ایک تو تم دونوں کم تھے کہ یہ مریم کے نخرے بھی مجھے اٹھانے پڑھ رہے ہیں ۔۔“ حمزہ بڑبڑایا ”چاچ
و کوئی پرابلم ہے کیا ۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
”بس یار تمہاری چاچی ناراض ہیں انہیں تین دن میں شادی کیلئیے راضی کرنا ہے ۔۔۔“ حمزہ گویا ہوا۔ ” اوہ ! تو یہ کہیں نا کہ آپ کو ہماری بےبی کو پٹانا ہے ۔۔۔“ گڈو دور کی کوڑی لایا اور حمزہ کو زور کا کرنٹ لگا ” ابے موٹے یہ لڑکی پٹانا کیا ہوتا ہے کیا یہ سب سیکھنے کیلئیے میں تمہیں اسکول بھیجتا ہوں ۔۔“ حمزہ نے گڈو کو گھورا جو اسکا سیل میز سے اٹھا رہا تھا
” چاچو گوگل پہ لڑکی پٹانے کے کئی طریقہ ہیں بس آپ گوگل سے ہیلپ لیں ۔۔“ گڈو حمزہ کے سیل پر چیک کرتا ہوا بولا
”یا ہو چاچو پہلا طریقہ مل گیا ۔۔۔۔“ گڈو جوش میں آکر چلایا .. حمزہ
نے ایک نظر جوش سے چلاتے گڈو پر ڈالی اور ایک گہرا سانس لیکر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جو بھی ہو گڈو اب اپنی بات پوری کئیے بغیر رکنے والا نہیں تھا اس لئیے بہتر یہی تھا کہ اس کی بات سن لی جائے ۔۔۔۔
”بولو کیا ہے تمہاے گوگل کا پہلا طریقہ ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو پر نظریں جمائیں ۔
”چاچو آپکو بےبی کو غنڈوں سے بچانا ہوگا ، ڈشو ڈشو کرکے پٹائی لگانی ہوگی جس سے بے بی بھاگ کے آپ کے پاس آجائیگی اور پھر ۔۔۔۔“ گڈو کا چہرہ لال ہوگیا
”پھر کیا ۔۔۔آگے بکو۔۔۔“ حمزہ نے ٹوکا
”چاچو آخر آپ کب بڑے ہونگے ۔۔۔“ گڈو نے اپنے سر پر اپنا چھوٹا سا ہاتھ مارا ”چاچ
و پھر آپ بے بی کا ہاتھ پکڑ کر۔۔۔۔۔“ ابھی گڈو بول ہی رہا تھا کہ حمزہ نے بوکھلا کر اس چھوٹے شیطان کی بات کاٹی۔
”اچھا اچھا اب بس ۔۔ مگر ہم غنڈہ کہاں سے لائینگے گڈو موٹے ۔۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا ” میں ہونا چاچو ! میں ماسک پہن کر غنڈہ بن کر بےبی کو چھیڑونگا اور آپ بےبی کو بچالینا ۔۔۔“ گڈو نے چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل کیا ۔ حمزہ نے گھور کر اس تین فٹے غنڈے کو دیکھا جس کے سرخ و سفید گالوں پر چاکلیٹ آئسکریم لگی ہوئی تھی ۔
” اچھا اور بے بی کو چھیڑو گئے کیسے ۔۔۔“ حمزہ نے دلچسپی سے پوچھا ۔
”چاچو میں بڑے لوگوں کی طرح بےبی کے پاس جاؤنگا اور کہوں گا ۔۔۔۔باجی جی چلتی ہو کیا نو سے بارہ ۔۔۔“ یہ ک
ہہ کر گڈو نے دونوں آنکھیں میچ کر اپنی دانست میں آنکھ ماری اور حمزہ کا قہقہہ نکل گیا
”بہت اچھا پلان ہے لیکن اگر تمہاری بےبی غنڈوں سے نہیں ڈرتی ہوئی تو ۔۔۔“ حمزہ نے سوال پوچھ کر گڈو کو سوچ میں ڈال دیا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین اپنے بہنوئی کمشنر احمد کو مریم کی تصویر بھیج چکی تھی اور اب کمشنر صاحب اپنے فون میں مریم کی تصویر کو دیکھ کر حیران تھے یہ وہی لڑکی تھی جسکی گمشدگی کا ذکر انکے جگری دوست انڈسٹریلسٹ اقبال نے کیا تھا جس کے شوہر نے ان پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا تھا کچھ سوچتے ہوئے کمشنر صاحب نے مریم کے تایا اقبال صاحب کو فون ملایا ۔
“اقبال بڈی تمہاری بھتیجی کا پتہ چل گیا ہے ”
“احمد مجھے پتا ہے اسے تمہارے ایس پی حمزہ نے کہیں روپوش کیا ہوا ہے بس ایک دفعہ کسی طرح وہ میرے ہاتھ لگ جاۓ “۔ اقبال صاحب نے دانت کچکچاے ۔ “تمہاری بھتیجی اس وقت بڑے دھڑلے سے اس ایس پی کے گھر رہ رہی ہے ، لیکن ایک صلاح ہے اگر تم اس لڑکی کو راستے سے ہٹا دو تو نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری ، اور تمہارا عدالتی کیس بھی مدعی کے نا ہونے سے خود ہی ختم ہو جائیگا “۔ کمشنر نے اسے راستہ دکھایا ۔ “مشورہ اچھا ہے میں آج ہی کچھ کرتا ہوں “اقبال صاحب گویا ہوئے ۔ “نہیں اقبال صاحب آپ میرے فون کا انتظار کریں وہ جیسے ہی اس لڑکی کیا نام تھا ! مریم ہاں تو جیسے ہی ایس پی مریم کو کہیں لے کر جاتا ہے میں آپ کو اطلا ع کر وا دونگا ، آئے دن موٹر سائیکل سوار ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں یہ کیس بھی ایسا ہی لگنا چاہئے ۔” کمشنر نے خباثت سے کہا اقبال صاحب سے فارغ ہو کر کمشنر صاحب نے ماہین کو فون ملایا ۔۔ ”ماہی بیٹا کیا تم کسی طرح اس لڑکی مریم کو باہر کسی مال یا ریسٹورانٹ کے پاس لاسکتی ہو ۔۔“ سلام دعا کے بعد وہ سیدھے مدعے پر آئے اور تھوڑی دیر تک بات کرکے فون بند کر دیا
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ادھر سے ادھر ڈول رہی تھی ناشتہ کے بعد سے حمزہ اور وہ دونوں خبیث بچے غائب تھے اور اب تو شام بھی ڈھلنے کو آرہی تھی تبھی اسے ہارن کی آواز سنائی دی ۔۔
وہ تیزی سے کھڑکی کی جانب آئی پردے کی جھری سے باہر جھانکا تو گاڑی میں سے لدے پھدے حمزہ اور بچے اتر رہے تھے پردے کو برابر کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹی اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی وہ اپنا مائنڈ بنا چکی تھی اور اب ڈنر کے بلاوے کا ویٹ کررہی تھی جہاں اسے حمزہ کے سر پر بم پھوڑنا تھا ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” بےبی چاچی ہم چاچو کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے جا رہے ہیں تین دن ہیں اور اتنا کام ہے ہمارے گھر میں اتنا بڑا فنکشن ہوگا گیسٹ آئینگے اس لئیے ہمیں سب سے اچھا لگنا ہے “گڈو نے جواب دیا ۔
“پتا ہے بےبی چاچو نے کہا ہے میں چھوٹا دولہا بنو گا “پپو نے چمکتی آنکھوں سے اطلاع دی ۔ “اب بےبی چاچی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہینگی اور ہم پیرنٹس میٹنگ میں چاچی کے ساتھ ہی جایا کرینگے چاچو تو ہمیشہ لیٹ کروا دیتے تھے ” ” گڈو پپو تم دونوں مجھے چاچی مت بولو ورنہ میں ناراض ہوجاؤنگی ۔۔۔“ مریم نے انہیں دھمکی دی ۔۔
” تو پھر کیا بولیں ؟ اگر بےبی کہا تو چاچو الٹا لٹکا دینگے ۔۔۔“ گڈو افسردگی سے بول ”کیا
میں تم دونوں کو چاچی ٹائپ لگتی ہوں ۔۔۔“ مریم نے انہیں چالاکی سے بلیک میل کیا
”نہیں بالکل نہیں بےبی ! تم تو بالکل باربی ڈول ہو چاچی تو اولڈ آنٹیاں ہوتی ہیں ہے نا پپو۔۔۔“ گڈو نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ” تو بس ٹھیک ہے آج سے میں تم دونوں کی دوست ہوں ۔۔۔“ مریم نے گردن اکڑا کر کہا ” مگر بے بی ۔۔۔۔“ گڈو نے اسے دیکھا
”ایک لڑکا اور لڑکی کبھی دوست نہیں ہوسکتے ۔۔“ گڈو نے ارشاد فرمایا ۔
”لڑکا ! لڑکا کدھر ہے بھئی ۔۔۔۔“ مریم نے حیرت سے سر اٹھا کر چاروں جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ ” می
ں اور پپو ہم دونوں ہی لڑکا ہیں بےبی ۔۔۔“ گڈو نے اس کم عقل کو گھورا
” کیوں بھئی کیوں دوست نہیں ہوسکتے ؟ اور تمہیں یہ عظیم قول کس نے بتایا اور کس نے کہا کہ تم لڑکا ہو ۔۔۔“ مریم نے پوچھا ”وہ جب میں اسکول جانا شروع ہوا تھا تو چاچو نے کہا تھا ۔۔۔“ گڈو نے لجلجا کر بولا ”مگر اب تو تم دونوں مرد بن گئے ہو کیوں پپو۔۔۔“ مریم نے گولوں سے پپو کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
اور مریم کے دیوانے پپو صاحب کھلکھلا کر اچک کر مریم کی گود میں چڑھ گئے ۔
”ہاں یہ بات تو ہے، اوکے پھر ٹھیک ہے وہ تو لڑکا لڑکی کیلئیے تھا میں اور پپو تو کل ہی فریش فریش مرد بنے ہیں ، اوکے بےبی نو مور اولڈ فیشن چاچی اب ہم دوست ہیں ۔۔۔“ گڈو نے کہا مریم
نے پپو کے پھولے پھولے سیب جیسے گالوں کو پیار سے چوم کر اسے گڈو کے پاس بٹھایا اور
گڈو اور پپو کو باتوں میں مگن چھوڑ کر وہ بھناتی ہوئی حمزہ کے کمرے کی طرف گئی اور دستک دے کر جواب کا انتظار کئیے بغیر ایک زوردار جھٹکے سے دروازہ کھولا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
بلیو جینز اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس حمزہ نک سک سے تیار آئینہ کے سامنے کھڑا بال سیٹ کر رہا تھا جب مریم دھماکے کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔
“یہ باہر گڈو پپو کیا بکواس کر رہے ہیں تم انہیں کدھر لیکر جا رہے ہو ؟” مریم نے اسے گھورا
حمزہ جواب دئیے بغیر بڑے آرام سے پرفیوم کی بوتل اٹھا کر اپنے اوپر اسپرے کرتا ہوا مریم پاس آیا اور اس کے اوپر بھی اسپرے کرنے لگا ۔۔۔ ” یہ
کیا بدتميزی کررہے ہوں ، میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔“ مریم ناگواری سے اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی
” اچھا ہوا تم خود ہی آگئی ہو ، یہ بتاؤ تمہارے لئے کون سے پارلر میں بکنگ کرواؤں ، ویڈنگ ڈریس تو میری پسند کا ہوگا بس جیولری پارلر سلیکشن اور شوز کیلئیے تمہاری مدد چاہئیے ہوگی ” حمزہ نے سنجیدگی سے پوچھا “دیکھو حمزہ ! تم کیا گیم کھیل رہے ہو مجھے نہیں پتا مگر ہماری تین دن کی ڈیل ہوئی تھی اور تم آج ہی سے بچوں کے دماغ میں خناس بھر رہے ہو حد ہے کمینے پن کی ” مریم نے دانت کچکچائے ” نا جانم نا اتنا غصہ صحت کیلئیے اچھا نہیں ہوتا اور رنگ بھی جھلس جاتا ہے اس لئیے جسٹ چل بےبی۔۔۔“ حمزہ کی آنکھوں میں شرارت تھی
”دیکھو حمزہ ۔۔۔۔“ مریم نے انگلی اٹھا کر کہنا چاہا
” دیکھنا ہی تو چاہ رہا ہوں کہ تم میرے پیار میں ، میرے رنگ میں، رنگ کر میری دلہن بن کر کیسی لگو گی ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولتا اس کے نزدیک ہوا ۔ ”حمزہ تم انتہائی درجے کے ڈھیٹ انسان ہو ۔۔۔“ وہ نظریں چرا کر بولتی ہوئی پیچھے ہٹی ۔
مریم کے سرخ پڑتے چہرے کو حمزہ نے بڑی پرشوق نظروں سے دیکھا ۔ ” مریم تمہارے آنے سے میری زندگی میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے زندگی سہل اور رنگین لگنے لگی ہے ویسے بھی میں اتنا بیوقوف ہرگز نہیں کہ قسمت سے ہاتھ لگی اتنی خوبصورت بیوی پلس نوکرانی کو اپنے ہاتھوں سے نکل جانے دوں ۔“ وہ بولتے بولتے پٹڑی سے اترا ۔
”فٹے منہ تمہارا ، میں میں تمہاری نوکرانی ہرگز نہیں ہوں ۔۔“ مریم تپ کر بولی ”چلو بیوی تو ہو نا۔۔۔۔“ حمزہ نے جواب دیا اور بڑے پرسکون انداز میں قریب آکر مریم کا ہاتھ تھاما اور اس کی حیرت سے پھٹتی ہوئی آنکھوں میں جھانک کر دلکشی سے مسکراتے ہوئے اپنی گرفت اس کے گرد مضبوط کرتے ہوئے اس کے چہرے پہ جھک گیا۔۔
حمزہ کے ساتھ سحر انگیز لمحوں میں جکڑی مریم کے گال شرم و حیا سے تمتما اٹھے تھے چند لمحوں کی بےاختیاری کے بعد مریم نے ایک جھٹکے سے حمزہ کو خود سے دور کیا ۔۔۔۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔“ مریم اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے بولی
”مسز حمزہ اسے بدتمیزی نہیں پیار کہتے ہیں اور میرا احسان مانو کہ میں نے اب تک تمہیں ڈھیل دی ہوئی ہے ورنہ بےبی جی آج ہم دونوں اپنے بےبی کی پلاننگ کررہے ہوتے ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
”دیکھو حمزہ ایسی عمران ہاشمی ٹائپ حرکتوں سے پرہیز کرو ورنہ تمہارا کمینہ خبیث دل جو میں نے تین دن بعد توڑنا ہے کہی آج ہی نہ توڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دوں ۔۔۔“ مریم شرم و غصہ کی کیفیت میں نظریں چراتے ہوئے بولی ”او گاڈ تم بلش کررہی ہوں ۔۔۔۔“ حمزہ ہنسا ” سنو میرے پیارے بچوں کی پیاری سی بےبی مجھے اپنی جیت پر پورا یقین ہے اس لئیے تم میرے دل کے ٹوٹنے یا ہار جانے کی فکر مت کرو ! تم تو بس آج سے صرف تین دن بعد دلہن بننے کی تیاری کرو “ ۔ وہ مریم کے پاس آکر اسکے گال تھپتھپاتا باہر نکل گیا ۔ مریم کافی دیر تک وہی اکیلی کھڑی اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی اسے ابھی بھی حمزہ کا لمس اپنے چہرے پر محسوس ہورہاتھا ۔۔ ”اکڑو کھڑوس محبت کرسکتا ہے پر ڈھنگ سے اظہار نہیں کرسکتا کاش گڈو پپو سے ہی کلاس لے لے ۔۔۔“ مریم بڑبڑائی جو بھی ہو یہ تو طے تھا کہ حمزہ اس کے دل پر نقب لگا چکا تھا مگر یہ بھی طے تھا کہ وہ اتنی آسانی سے ہاں کرنے والی نہیں تھی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کی قربت کے نشے سے سرشار حمزہ سیٹی پر دھن بجاتا لاؤنچ میں آیا جہاں پپو اور گڈو تیار بیٹھے اسکا انتظار کررہے تھے ۔۔۔ ” چلو بھئی میرے لاڈلوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھو۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو گود میں اٹھایا اور گڈو کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔۔ دونوں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد حمزہ نے چوکیدار کو ہدایات دیں اور پھر تیزی سے گاڑی کو سڑک پر لے آیا اب اس کا رخ مال کی طرف تھا جہاں اسے اپنے اور دونوں بچوں کیلئیے ایک سے ڈریس آرڈر کرنے تھے ۔۔۔ تینوں بڑے مگن انداز میں شاپنگ کررہے تھے ڈریس آرڈر کردئیے تھے اب حمزہ بچوں کے جوتے دیکھ رہا تھا کافی دیر بعد سب کام نبٹا کر وہ باہر نکلے ۔۔ ”چاچو آئس کریم چاہئیے ۔۔۔“پپو نے فرمائش کی
حمزہ دونوں بچوں کو لیکر قریبی آئسکریم شاپ پر آگیا انہیں ان کی پسند کے فلیور دلائے ۔
”چلو بھئی اب جلدی سے اپنی اپنی آئسکریم ختم کرو اور گھر چلو تمہاری چاچی انتظار کررہی ہوگئی ۔“ حمزہ نے دونوں کو باری باری دیکھا ۔ ” چاچو بےبی کیلئیے بھی آئسکریم لیں ۔۔“ پپو آئسکریم سے لبالب بھرے منہ سے بمشکل بولا ”بے بی نہیں پپو چاچی ! چاچی بولو وہ اب تمہاری چاچی ہے ۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو سمجھایا
” نہیں چاچو وہ میری فرینڈ ہے اور فرینڈ چاچی نہیں ہوتی مجھے بےبی نے خود بتایا ہے ۔۔“ پپو نے اسے جواب دیا ۔
” ایک تو تم دونوں کم تھے کہ یہ مریم کے نخرے بھی مجھے اٹھانے پڑھ رہے ہیں ۔۔“ حمزہ بڑبڑایا ”چاچ
و کوئی پرابلم ہے کیا ۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
”بس یار تمہاری چاچی ناراض ہیں انہیں تین دن میں شادی کیلئیے راضی کرنا ہے ۔۔۔“ حمزہ گویا ہوا۔ ” اوہ ! تو یہ کہیں نا کہ آپ کو ہماری بےبی کو پٹانا ہے ۔۔۔“ گڈو دور کی کوڑی لایا اور حمزہ کو زور کا کرنٹ لگا ” ابے موٹے یہ لڑکی پٹانا کیا ہوتا ہے کیا یہ سب سیکھنے کیلئیے میں تمہیں اسکول بھیجتا ہوں ۔۔“ حمزہ نے گڈو کو گھورا جو اسکا سیل میز سے اٹھا رہا تھا
” چاچو گوگل پہ لڑکی پٹانے کے کئی طریقہ ہیں بس آپ گوگل سے ہیلپ لیں ۔۔“ گڈو حمزہ کے سیل پر چیک کرتا ہوا بولا
”یا ہو چاچو پہلا طریقہ مل گیا ۔۔۔۔“ گڈو جوش میں آکر چلایا .. حمزہ
نے ایک نظر جوش سے چلاتے گڈو پر ڈالی اور ایک گہرا سانس لیکر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جو بھی ہو گڈو اب اپنی بات پوری کئیے بغیر رکنے والا نہیں تھا اس لئیے بہتر یہی تھا کہ اس کی بات سن لی جائے ۔۔۔۔
”بولو کیا ہے تمہاے گوگل کا پہلا طریقہ ۔۔۔۔“ حمزہ نے گڈو پر نظریں جمائیں ۔
”چاچو آپکو بےبی کو غنڈوں سے بچانا ہوگا ، ڈشو ڈشو کرکے پٹائی لگانی ہوگی جس سے بے بی بھاگ کے آپ کے پاس آجائیگی اور پھر ۔۔۔۔“ گڈو کا چہرہ لال ہوگیا
”پھر کیا ۔۔۔آگے بکو۔۔۔“ حمزہ نے ٹوکا
”چاچو آخر آپ کب بڑے ہونگے ۔۔۔“ گڈو نے اپنے سر پر اپنا چھوٹا سا ہاتھ مارا ”چاچ
و پھر آپ بے بی کا ہاتھ پکڑ کر۔۔۔۔۔“ ابھی گڈو بول ہی رہا تھا کہ حمزہ نے بوکھلا کر اس چھوٹے شیطان کی بات کاٹی۔
”اچھا اچھا اب بس ۔۔ مگر ہم غنڈہ کہاں سے لائینگے گڈو موٹے ۔۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا ” میں ہونا چاچو ! میں ماسک پہن کر غنڈہ بن کر بےبی کو چھیڑونگا اور آپ بےبی کو بچالینا ۔۔۔“ گڈو نے چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل کیا ۔ حمزہ نے گھور کر اس تین فٹے غنڈے کو دیکھا جس کے سرخ و سفید گالوں پر چاکلیٹ آئسکریم لگی ہوئی تھی ۔
” اچھا اور بے بی کو چھیڑو گئے کیسے ۔۔۔“ حمزہ نے دلچسپی سے پوچھا ۔
”چاچو میں بڑے لوگوں کی طرح بےبی کے پاس جاؤنگا اور کہوں گا ۔۔۔۔باجی جی چلتی ہو کیا نو سے بارہ ۔۔۔“ یہ ک
ہہ کر گڈو نے دونوں آنکھیں میچ کر اپنی دانست میں آنکھ ماری اور حمزہ کا قہقہہ نکل گیا
”بہت اچھا پلان ہے لیکن اگر تمہاری بےبی غنڈوں سے نہیں ڈرتی ہوئی تو ۔۔۔“ حمزہ نے سوال پوچھ کر گڈو کو سوچ میں ڈال دیا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین اپنے بہنوئی کمشنر احمد کو مریم کی تصویر بھیج چکی تھی اور اب کمشنر صاحب اپنے فون میں مریم کی تصویر کو دیکھ کر حیران تھے یہ وہی لڑکی تھی جسکی گمشدگی کا ذکر انکے جگری دوست انڈسٹریلسٹ اقبال نے کیا تھا جس کے شوہر نے ان پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا تھا کچھ سوچتے ہوئے کمشنر صاحب نے مریم کے تایا اقبال صاحب کو فون ملایا ۔
“اقبال بڈی تمہاری بھتیجی کا پتہ چل گیا ہے ”
“احمد مجھے پتا ہے اسے تمہارے ایس پی حمزہ نے کہیں روپوش کیا ہوا ہے بس ایک دفعہ کسی طرح وہ میرے ہاتھ لگ جاۓ “۔ اقبال صاحب نے دانت کچکچاے ۔ “تمہاری بھتیجی اس وقت بڑے دھڑلے سے اس ایس پی کے گھر رہ رہی ہے ، لیکن ایک صلاح ہے اگر تم اس لڑکی کو راستے سے ہٹا دو تو نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری ، اور تمہارا عدالتی کیس بھی مدعی کے نا ہونے سے خود ہی ختم ہو جائیگا “۔ کمشنر نے اسے راستہ دکھایا ۔ “مشورہ اچھا ہے میں آج ہی کچھ کرتا ہوں “اقبال صاحب گویا ہوئے ۔ “نہیں اقبال صاحب آپ میرے فون کا انتظار کریں وہ جیسے ہی اس لڑکی کیا نام تھا ! مریم ہاں تو جیسے ہی ایس پی مریم کو کہیں لے کر جاتا ہے میں آپ کو اطلا ع کر وا دونگا ، آئے دن موٹر سائیکل سوار ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں یہ کیس بھی ایسا ہی لگنا چاہئے ۔” کمشنر نے خباثت سے کہا اقبال صاحب سے فارغ ہو کر کمشنر صاحب نے ماہین کو فون ملایا ۔۔ ”ماہی بیٹا کیا تم کسی طرح اس لڑکی مریم کو باہر کسی مال یا ریسٹورانٹ کے پاس لاسکتی ہو ۔۔“ سلام دعا کے بعد وہ سیدھے مدعے پر آئے اور تھوڑی دیر تک بات کرکے فون بند کر دیا
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ادھر سے ادھر ڈول رہی تھی ناشتہ کے بعد سے حمزہ اور وہ دونوں خبیث بچے غائب تھے اور اب تو شام بھی ڈھلنے کو آرہی تھی تبھی اسے ہارن کی آواز سنائی دی ۔۔
وہ تیزی سے کھڑکی کی جانب آئی پردے کی جھری سے باہر جھانکا تو گاڑی میں سے لدے پھدے حمزہ اور بچے اتر رہے تھے پردے کو برابر کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹی اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی وہ اپنا مائنڈ بنا چکی تھی اور اب ڈنر کے بلاوے کا ویٹ کررہی تھی جہاں اسے حمزہ کے سر پر بم پھوڑنا تھا ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply