نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 17
”بےبی ۔۔بےبی ہم آگئے “ گڈو اور پپو چلاتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئے اور سیدھا ان کی آوازوں پر کمرے سے باہر نکلتی مریم سے جاٹکرائے ۔
مریم جو ان کی جوش بھری آواز سن کر باہر نکلی تھی ان دونوں خرگوشوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر مسکرا کر جھک کر بیٹھ گئی اور پہلے گڈو اور اس کے پیچھے لڑھکتا ہوا پپو دونوں ہی ٹھا کرکے اس سے آکر ٹکرائے ۔۔ ”بےبی میں آئسکریم لایا ہوں چاکلیٹ والی ۔۔۔“ پپو نے بڑے فخر سے اطلاع دی مریم نے مسکرا کر پپو کو پیار کیا تو پپو صاحب کی بانچھیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئی ۔
”گڈو تم اتنے چپ چپ کیوں ہو ، کیا ہوا کہیں ڈانٹ تو نہیں پڑ گئی ۔۔۔“ مریم نے سوچوں میں گم گڈو کو متوجہ کیا ۔
”کبھی اتنے پیار سے مجھے بھی پوچھ لیا کرو ۔۔۔“ سارے شاپرز دونوں ہاتھوں میں پکڑے حمزہ نے مریم کی ساری توجہ بچوں پر دیکھ کر اسے مخاطب کیا ۔۔ مریم
نے خونخوار نظروں سے حمزہ فساد کی جڑ کو دیکھا اور کھڑی ہوکر کمرے کی جانب جانے لگی تھی کہ پیچھے سے حمزہ کی آواز آئی ۔
”سنو جلدی سے ڈنر سرو کرو بھوک سے برا حال ہورہا ہے مریم تیزی سے پلٹ کر حمزہ کی جانب آئی ۔۔۔ ” کیا مطلب ڈنر سرو کرو ! تم بچوں کو لیکر باہر گئے تھے بنیادی اصولوں کے مطابق تم لوگوں کو ڈنر کرکے آنا چاہئیے تھا “ مریم گویا ہوئی ۔
” یہ کون سے اصول ہیں بھئی اور وہ بھی بنیادی اور کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ اگر شاپنگ پر جائیں تو کھانا باہر کھا کر آنا فرض ہے چلو شاباش جلدی سے میز لگاؤ ۔۔“ حمزہ نے مریم کو گھورا
”مگر میں نے تو کچھ نہیں پکایا ۔۔۔“ مریم مرے مرے لہجے میں بولی۔ ” کو
ئی بات نہیں تم فٹافٹ چکن میں کچھ بنالو جلدی پک جائیگا ۔۔۔“ حمزہ اسے مفت مشوره دیتے ہوئے بچوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا ۔
”یہ محبت ہے اس پیٹو کی ہر وقت مجھے کچن میں گھسائے رکھتا ہے اب بتاؤ بھلا میں کیسے اس سے رخصتی کروا کر پھنس جاؤں اس سے اچھا تو میرا پپو ہے میرے لئیے آئسکریم لایا ہے کیا تھا جو یہ بھی بریانی تکے لے آتا اور دعوے محبت کے کرتا ہے ۔۔“ وہ دل کے پھپولے پھوڑتی ہوئی کچن میں آئی اور اب فریزر میں سر دئیے چکن کا پیکٹ نکال رہی تھی جب پیچھے سے حمزہ کے گلا کھنکھارنے کی آواز سنائی دی ۔۔ ”کیا ہے ۔۔۔۔“ مریم نے بھنا کر پوچھا
”ساتھ کام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اسی لئیے تمہاری مدد کرنے آیا ہوں “ حمزہ اس کے ہاتھ سے چکن کا پیکٹ لیکر سنک کی جانب بڑھا ۔
” چلو شاباش جلدی سے ٹماٹر کاٹو اور پتیلی چولہے پر رکھو ۔۔۔“ حمزہ نے چکن دھوتے ہوئے اسے ہدایات دیں ۔ اب ح
مزہ مریم کو مصالحہ بتا رہا تھا ساری ہنڈیا چڑھوا کر اس نے دیوار پر نصب انٹرکام اٹھا کر چوکیدار کو روٹیاں لانے کا حکم دیا اور پھر مائک اٹھایا ۔۔
”حضرات کھانا تقریباً تیار ہے سب دس منٹ میں کچن میں رپورٹ کریں ۔۔۔“ حمزہ نے اعلان کیا
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین اپنے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز فون پر محو گفتگو تھی جب اسپیکر سے حمزہ کی آواز گونجنے لگی ۔۔
”احمد بھائی ڈنر کا بلاوہ آگیا ہے بس آپ کل تک کسی بھی صورت پیپرز تیار کروائیں میں حمزہ سے آج ڈنر پر بات کرنے جارہی ہوں ۔۔۔“وہ ضدی لہجے میں بولتی ہوئی فون بند کرکے کھڑی ہوگئی
ماہین فون بند کرکے چلتی ہوئی آئینہ کے سامنے آئی ۔۔ ” ما
ہین یو آر ویری پریٹی ۔۔۔۔“ اپنے عکس کو دیکھ کر وہ دھیرے سے بڑبڑائی پھر اپنا حلیہ خراب کرنے لگی پونی میں قید بال بکھرائے بلیک سموکی آئی شیڈو سے آنکھوں کے گرد حلقہ بنائے اب وہ ایک دکھی اداس لڑکی کا روپ دھار چکی تھی اپنے حلیہ سےمطمئن ہوکر وہ دروازہ کھول کر باہر کچن کی جانب روانہ ہوگئی ۔۔
کچن میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر میز پر بیٹھے شیطانوں اور ان کے سامنے پلیٹیں رکھتے حمزہ پر پڑی اس نے نظر گھمائی تو مریم ڈش لیکر آتی نظر آئی ۔۔ماہین نے ایک گہرا سانس بھرا اور بجھے بجھے قدموں سے چلتی ہوئی حمزہ کے عین سامنے والی کرسی پر خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھ گئی ۔۔ ” وچ آپی یہ تمہارے آئیز کو کیا ہوا کتنا خراب میک اپ کیا ہے بالکل بھوت جیسا ۔۔۔“ گڈو کی زبان میں خارش ہوئی ۔
مگر ماہین چپ چاپ جواب دئیے بغیر ایک ٹھنڈی بلند آہ بھر کر اپنے سامنے رکھی پلیٹ سیدھی کرنے لگی حمزہ اور مریم دونوں نے اسکا انداز نوٹ کیا ۔۔
”آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے سس ۔۔“ حمزہ نے ماہین کو متوجہ کیا ۔ ” سس
! خدارا حمزہ آپ تو مجھے سس نہ کہیں “ماہین پرانی فلموں کی ہیروئن کی طرح سسکی
”تو کیا پھر چاچو بھی آپ کو بچ کہیں ؟ ۔۔۔“ گڈو نے معصومانہ سوال کیا ”حمزہ میں جب سے اس گھر میں آئی ہوں ایک رات سکون سے نہیں سو سکی مجھ جیسی نازک کمزور دل لڑکی کو آپ نے گیسٹ روم میں ٹہرا دیا جدھر ڈر ڈر کر میرا دم نکلتا رہتا ہے میں راتوں کو جاگتی رہتی ہوں دیکھیں میری خوبصورت آنکھوں کے گرد پڑے یہ سیاہ حلقے ۔۔۔۔“ ماہین نے اپنی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا ۔ ” دیکھیں ماہین مہمانوں کو تو مہمان خانے ہی میں ٹہرایا جاتا ہے ۔۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔
” مہمانوں کو حمزہ ، مگر میں تو مہمان نہیں تھی میں تو آپکو اپنا مان کر ہمارے رشتہ کو ایک چانس دینے آئی تھی مگر آپ کو تو لگتا ہے آپ کے بھیا بھابھی نے کچھ نہیں بتایا ۔۔“ ماہین نے اپنے نا نظر آنےوالے آنسو پوچھے ۔
” مس
ماہین آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔“ حمزہ الجھا
” حمزہ میں اب یہ سب کیسے بتاؤں مجھے شرم آتی ہے ۔۔۔“ ماہین بی بی چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر بولیں ۔۔ ” بہتر ہے آپ احمد بھائی کا انتظار کرلیں وہ ثبوتوں کے ساتھ آپ کو ساری سچائی بتا دینگے۔۔۔“ ایک آہ بھر کر ماہین نے اپنی بات مکمل کی ۔ ” ٹھیک کوئی بات نہیں ! مریم ذرا پانی پکڑانا ۔۔۔“ حمزہ نے بات کے اختتام پر مریم کو مخاطب کیا جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے ماہین کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ماہین نے جب حمزہ کو بات ختم کرتے دیکھا تو اسے اپنا پلان ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا ۔۔۔
” حم
زہ ! میں آپکی منکوحہ ہوں ۔۔۔۔“ ماہین تیزی سے بولی
پانی پیتے حمزہ کو اچھو لگ گیا ۔۔۔ ”بچ یہ منکوحہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے ماہین سے سوال کیا ۔ ”منکوحہ کا مطلب میں آپکے چاچو کی وائف ہوں ۔۔۔“ ماہین نے بڑے فخر سے گڈو کو دیکھا ۔
”اللہ نہ کرے مانا چاچو پولیس ہیں پر اتنے بھی برے نہیں کہ اللہ انہیں سزا دے ۔۔۔“ گڈو کہ منہ سے نکلا
اس سے پہلے حمزہ کوئی جواب دیتا مریم پلیٹ سرکاتے ہوئے اٹھی اور کچن سے باہر نکل گئی ۔۔ ”گڈو
پپو چلو دونوں اپنے روم میں جاؤ ۔۔۔۔“ حمزہ نے ایک گہری نظر مریم کو جاتے دیکھ کر ان دونوں سے کہا
”چاچو ہم اس وچ کے ساتھ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ۔۔۔۔“ گڈو قطعی لہجے میں بول ” ہاں تو مس ماہین آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔“ حمزہ سرد لہجے میں گویا ہوا ”حمزہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم دور کے رشتہ دار بھی ہیں اور ہمارے والدین آپس میں بہت اچھے دوست تھے تو جب میں پیدا ہوئی تو آپکی ممی مجھے دیکھتے ہی مچل گئیں اور سال تک میرے ڈیڈ مما کی منت کرتی رہی کہ یہ گڑیا ان کو دے دی جائے اسی لئیے آپ کی ممی کی خواہش پر ہمیں کم عمری ہی میں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا انہوں نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی ارادہ وقت آنے پر سب کو بتانے کا تھا پر اللہ نے انہیں مہلت ہی نہیں دی ۔۔۔۔“ ماہین سسک پڑی ۔۔
” تو آپکو کیا آج ہی الہام ہوا اس رشتہ کا ؟ “ حمزہ اسے گھورتے ہوئے بولا
” وہ تو جب میرے رشتہ آنے لگے اور مما ڈیڈ سب کو انکار کرتے رہے تو احمد بھائی کو ڈیڈ نے یہ حقیقت بتائی اور اب احمد بھائی جلد ہی ہمارا نکاح نامہ لیکر آجائینگے تاکہ آپ بھی ہمارے رشتہ کی سچائی کا ثبوت مل سکے ۔۔۔“ ماہین نے ترپ کا پتہ پھینکا ”مس
ماہین میں ایسے کسی رشتہ کو نہیں جانتا اور نا ہی مانتا ہوں اب آپ اپنے روم میں جائیں اور کل صبح ہوتے ہی اپنی واپسی کا انتظام کریں ۔۔“ حمزہ بلا کے سرد لہجہ میں گویا ہوا ۔۔۔۔
”پر میں اکیلی اتنے بڑے شہر میں کدھر جاؤنگی ابھی تو احمد بھائی اور باجی کے آنے میں دن باقی ہیں “ ماہین آنکھوں میں آنسو بھر لائی ” ٹھیک تو ان کے آنے تک آپ گیسٹ روم میں ہی رہئیے آپکو ناشتہ پانی پہنچا دیا جایا کریگا ۔۔۔“ حمزہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا کھڑا ہوا۔ ”مگر حمزہ مجھے ادھر بہت ڈر لگتا ہے جب تک احمد بھائی ثبوت لیکر نہیں آتے کیا میں آپ کے ساتھ ، میرا مطلب مجبوری ہے مجھے ڈر لگتا ہے اور آپ میرے محرم ہیں تو کیا میں آپ کے روم میں ۔۔۔۔“ ماہین نظریں جھکا کر انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بولی
” گڈو تم ماہین سس کے ساتھ انکے روم سے سامان لاکر بے بی کے روم میں رکھو اور مس ماہین میں آپکو بچوں کے ساتھ والا کمرہ دے رہا ہوں اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں کرسکتا ۔۔“ حمزہ روڈ لہجے میں بولتا اپنا ٹراؤزر پکڑ کر کھڑے پپو کو گود میں اٹھاتا باہر نکل گیا
” چلیں بچ ۔۔۔۔“ گڈو نے ماہین کو مخاطب کیا اور وہ منہ بناتی گڈو کے پیچھے نکل گئی …
**************************for more books – urdunovels.info
” چاچو کیا بچوں کی بھی شادی ہوتی ہے ۔۔“ حمزہ کی گودی میں چڑھے پپو نے سوال کیا ۔ ”پپو یار تنگ نہ کر میں اسوقت پریشان ہوں ۔۔۔“ حمزہ پپو کو لیکر بچوں کے روم میں آیا اور اسے بستر میں لٹایا ۔۔ ” چاچو آپ بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔“ پپو نے حمزہ کا منہ چوما ۔ حمزہ پپو کا چہرہ تھپتھپاتا باہر نکل گیا اب اس کا رخ مریم کے کمرے کی طرف تھا مریم کمرے میں غصہ سے ٹہل رہی تھی انتہاء کی بےبسی تھی کہ وہ اس ملک میں تنہا تھی کہیں اور جا بھی نہیں سکتی تھی مگر اسطرح ادھر رہنا بھی اسے اپنی توہین لگ رہا تھا کچھ سوچ کر وہ الماری کی جانب مڑی اور اپنا سامان پیک کرنے لگی اس کا ارادہ کسی دارالمان میں پناہ لینے کا تھا ابھی وہ سامان پیک کرکے سیدھی کھڑی ہی ہوئی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور حمزہ اندر داخل ہوا ”چلو اچھا کیا تم نے سامان پیک کرلیا ۔۔۔“ حمزہ بولتے ہوئے قریب آیا اور اس کا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔۔ مریم حق دق کھڑی رہ گئی یعنی یہ تھی حمزہ کی سو کالڈ محبت اپنی پرانی منکوحہ کے ملتے ہی زبردستی کی بنی نئ نویلی منکوحہ کو بھول گیا اور اب گھر سے بھی نکال رہا ہے ابھی مریم سوچوں میں گم تھی کہ حمزہ دوبارہ اندر داخل ہوا ۔ ” مراقبہ کررہی ہو کیا چل کیوں نہیں رہی ۔۔۔“ حمزہ نے پاس آکر اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا ۔۔۔ ” مجھے تم جیسے نکاح کے شوقین کے ساتھ کہیں نہیں جانا ۔۔۔“ مریم زخمی لہجہ میں بولی ۔ ” تو کیا اس سس کے ساتھ روم شئیر کروگی ۔۔۔“ حمزہ نے اچھنبے سے پوچھا ۔ ” سس ! ایسا تو نہ کہئیے اس بچ کو ، اللہ گناہ دے گا آپکو اور رشتہ خراب ہوجائیگا ۔۔۔“ مریم نے اسے ٹوکا ۔۔ ” سنو اس دنیا میں ایک تم اور ایک جینیفر لارنس کے علاوہ ساری محترمائیں میری سس ہیں اس لئیے اب نخرہ دکھانا بند کرو اور چلو ۔۔“ حمزہ تپ کر بولا ۔۔۔
مریم ٹس سے مس نہیں ہوئی حمزہ نے طیش میں آکر ایک جھٹکے سے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور چیختی چلاتی مریم کو سیدھا باہر لے گیا ۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
مریم جو ان کی جوش بھری آواز سن کر باہر نکلی تھی ان دونوں خرگوشوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر مسکرا کر جھک کر بیٹھ گئی اور پہلے گڈو اور اس کے پیچھے لڑھکتا ہوا پپو دونوں ہی ٹھا کرکے اس سے آکر ٹکرائے ۔۔ ”بےبی میں آئسکریم لایا ہوں چاکلیٹ والی ۔۔۔“ پپو نے بڑے فخر سے اطلاع دی مریم نے مسکرا کر پپو کو پیار کیا تو پپو صاحب کی بانچھیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئی ۔
”گڈو تم اتنے چپ چپ کیوں ہو ، کیا ہوا کہیں ڈانٹ تو نہیں پڑ گئی ۔۔۔“ مریم نے سوچوں میں گم گڈو کو متوجہ کیا ۔
”کبھی اتنے پیار سے مجھے بھی پوچھ لیا کرو ۔۔۔“ سارے شاپرز دونوں ہاتھوں میں پکڑے حمزہ نے مریم کی ساری توجہ بچوں پر دیکھ کر اسے مخاطب کیا ۔۔ مریم
نے خونخوار نظروں سے حمزہ فساد کی جڑ کو دیکھا اور کھڑی ہوکر کمرے کی جانب جانے لگی تھی کہ پیچھے سے حمزہ کی آواز آئی ۔
”سنو جلدی سے ڈنر سرو کرو بھوک سے برا حال ہورہا ہے مریم تیزی سے پلٹ کر حمزہ کی جانب آئی ۔۔۔ ” کیا مطلب ڈنر سرو کرو ! تم بچوں کو لیکر باہر گئے تھے بنیادی اصولوں کے مطابق تم لوگوں کو ڈنر کرکے آنا چاہئیے تھا “ مریم گویا ہوئی ۔
” یہ کون سے اصول ہیں بھئی اور وہ بھی بنیادی اور کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ اگر شاپنگ پر جائیں تو کھانا باہر کھا کر آنا فرض ہے چلو شاباش جلدی سے میز لگاؤ ۔۔“ حمزہ نے مریم کو گھورا
”مگر میں نے تو کچھ نہیں پکایا ۔۔۔“ مریم مرے مرے لہجے میں بولی۔ ” کو
ئی بات نہیں تم فٹافٹ چکن میں کچھ بنالو جلدی پک جائیگا ۔۔۔“ حمزہ اسے مفت مشوره دیتے ہوئے بچوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا ۔
”یہ محبت ہے اس پیٹو کی ہر وقت مجھے کچن میں گھسائے رکھتا ہے اب بتاؤ بھلا میں کیسے اس سے رخصتی کروا کر پھنس جاؤں اس سے اچھا تو میرا پپو ہے میرے لئیے آئسکریم لایا ہے کیا تھا جو یہ بھی بریانی تکے لے آتا اور دعوے محبت کے کرتا ہے ۔۔“ وہ دل کے پھپولے پھوڑتی ہوئی کچن میں آئی اور اب فریزر میں سر دئیے چکن کا پیکٹ نکال رہی تھی جب پیچھے سے حمزہ کے گلا کھنکھارنے کی آواز سنائی دی ۔۔ ”کیا ہے ۔۔۔۔“ مریم نے بھنا کر پوچھا
”ساتھ کام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اسی لئیے تمہاری مدد کرنے آیا ہوں “ حمزہ اس کے ہاتھ سے چکن کا پیکٹ لیکر سنک کی جانب بڑھا ۔
” چلو شاباش جلدی سے ٹماٹر کاٹو اور پتیلی چولہے پر رکھو ۔۔۔“ حمزہ نے چکن دھوتے ہوئے اسے ہدایات دیں ۔ اب ح
مزہ مریم کو مصالحہ بتا رہا تھا ساری ہنڈیا چڑھوا کر اس نے دیوار پر نصب انٹرکام اٹھا کر چوکیدار کو روٹیاں لانے کا حکم دیا اور پھر مائک اٹھایا ۔۔
”حضرات کھانا تقریباً تیار ہے سب دس منٹ میں کچن میں رپورٹ کریں ۔۔۔“ حمزہ نے اعلان کیا
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین اپنے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز فون پر محو گفتگو تھی جب اسپیکر سے حمزہ کی آواز گونجنے لگی ۔۔
”احمد بھائی ڈنر کا بلاوہ آگیا ہے بس آپ کل تک کسی بھی صورت پیپرز تیار کروائیں میں حمزہ سے آج ڈنر پر بات کرنے جارہی ہوں ۔۔۔“وہ ضدی لہجے میں بولتی ہوئی فون بند کرکے کھڑی ہوگئی
ماہین فون بند کرکے چلتی ہوئی آئینہ کے سامنے آئی ۔۔ ” ما
ہین یو آر ویری پریٹی ۔۔۔۔“ اپنے عکس کو دیکھ کر وہ دھیرے سے بڑبڑائی پھر اپنا حلیہ خراب کرنے لگی پونی میں قید بال بکھرائے بلیک سموکی آئی شیڈو سے آنکھوں کے گرد حلقہ بنائے اب وہ ایک دکھی اداس لڑکی کا روپ دھار چکی تھی اپنے حلیہ سےمطمئن ہوکر وہ دروازہ کھول کر باہر کچن کی جانب روانہ ہوگئی ۔۔
کچن میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر میز پر بیٹھے شیطانوں اور ان کے سامنے پلیٹیں رکھتے حمزہ پر پڑی اس نے نظر گھمائی تو مریم ڈش لیکر آتی نظر آئی ۔۔ماہین نے ایک گہرا سانس بھرا اور بجھے بجھے قدموں سے چلتی ہوئی حمزہ کے عین سامنے والی کرسی پر خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھ گئی ۔۔ ” وچ آپی یہ تمہارے آئیز کو کیا ہوا کتنا خراب میک اپ کیا ہے بالکل بھوت جیسا ۔۔۔“ گڈو کی زبان میں خارش ہوئی ۔
مگر ماہین چپ چاپ جواب دئیے بغیر ایک ٹھنڈی بلند آہ بھر کر اپنے سامنے رکھی پلیٹ سیدھی کرنے لگی حمزہ اور مریم دونوں نے اسکا انداز نوٹ کیا ۔۔
”آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے سس ۔۔“ حمزہ نے ماہین کو متوجہ کیا ۔ ” سس
! خدارا حمزہ آپ تو مجھے سس نہ کہیں “ماہین پرانی فلموں کی ہیروئن کی طرح سسکی
”تو کیا پھر چاچو بھی آپ کو بچ کہیں ؟ ۔۔۔“ گڈو نے معصومانہ سوال کیا ”حمزہ میں جب سے اس گھر میں آئی ہوں ایک رات سکون سے نہیں سو سکی مجھ جیسی نازک کمزور دل لڑکی کو آپ نے گیسٹ روم میں ٹہرا دیا جدھر ڈر ڈر کر میرا دم نکلتا رہتا ہے میں راتوں کو جاگتی رہتی ہوں دیکھیں میری خوبصورت آنکھوں کے گرد پڑے یہ سیاہ حلقے ۔۔۔۔“ ماہین نے اپنی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا ۔ ” دیکھیں ماہین مہمانوں کو تو مہمان خانے ہی میں ٹہرایا جاتا ہے ۔۔۔“ حمزہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔
” مہمانوں کو حمزہ ، مگر میں تو مہمان نہیں تھی میں تو آپکو اپنا مان کر ہمارے رشتہ کو ایک چانس دینے آئی تھی مگر آپ کو تو لگتا ہے آپ کے بھیا بھابھی نے کچھ نہیں بتایا ۔۔“ ماہین نے اپنے نا نظر آنےوالے آنسو پوچھے ۔
” مس
ماہین آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔“ حمزہ الجھا
” حمزہ میں اب یہ سب کیسے بتاؤں مجھے شرم آتی ہے ۔۔۔“ ماہین بی بی چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر بولیں ۔۔ ” بہتر ہے آپ احمد بھائی کا انتظار کرلیں وہ ثبوتوں کے ساتھ آپ کو ساری سچائی بتا دینگے۔۔۔“ ایک آہ بھر کر ماہین نے اپنی بات مکمل کی ۔ ” ٹھیک کوئی بات نہیں ! مریم ذرا پانی پکڑانا ۔۔۔“ حمزہ نے بات کے اختتام پر مریم کو مخاطب کیا جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے ماہین کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ماہین نے جب حمزہ کو بات ختم کرتے دیکھا تو اسے اپنا پلان ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا ۔۔۔
” حم
زہ ! میں آپکی منکوحہ ہوں ۔۔۔۔“ ماہین تیزی سے بولی
پانی پیتے حمزہ کو اچھو لگ گیا ۔۔۔ ”بچ یہ منکوحہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے ماہین سے سوال کیا ۔ ”منکوحہ کا مطلب میں آپکے چاچو کی وائف ہوں ۔۔۔“ ماہین نے بڑے فخر سے گڈو کو دیکھا ۔
”اللہ نہ کرے مانا چاچو پولیس ہیں پر اتنے بھی برے نہیں کہ اللہ انہیں سزا دے ۔۔۔“ گڈو کہ منہ سے نکلا
اس سے پہلے حمزہ کوئی جواب دیتا مریم پلیٹ سرکاتے ہوئے اٹھی اور کچن سے باہر نکل گئی ۔۔ ”گڈو
پپو چلو دونوں اپنے روم میں جاؤ ۔۔۔۔“ حمزہ نے ایک گہری نظر مریم کو جاتے دیکھ کر ان دونوں سے کہا
”چاچو ہم اس وچ کے ساتھ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ۔۔۔۔“ گڈو قطعی لہجے میں بول ” ہاں تو مس ماہین آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔“ حمزہ سرد لہجے میں گویا ہوا ”حمزہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم دور کے رشتہ دار بھی ہیں اور ہمارے والدین آپس میں بہت اچھے دوست تھے تو جب میں پیدا ہوئی تو آپکی ممی مجھے دیکھتے ہی مچل گئیں اور سال تک میرے ڈیڈ مما کی منت کرتی رہی کہ یہ گڑیا ان کو دے دی جائے اسی لئیے آپ کی ممی کی خواہش پر ہمیں کم عمری ہی میں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا انہوں نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی ارادہ وقت آنے پر سب کو بتانے کا تھا پر اللہ نے انہیں مہلت ہی نہیں دی ۔۔۔۔“ ماہین سسک پڑی ۔۔
” تو آپکو کیا آج ہی الہام ہوا اس رشتہ کا ؟ “ حمزہ اسے گھورتے ہوئے بولا
” وہ تو جب میرے رشتہ آنے لگے اور مما ڈیڈ سب کو انکار کرتے رہے تو احمد بھائی کو ڈیڈ نے یہ حقیقت بتائی اور اب احمد بھائی جلد ہی ہمارا نکاح نامہ لیکر آجائینگے تاکہ آپ بھی ہمارے رشتہ کی سچائی کا ثبوت مل سکے ۔۔۔“ ماہین نے ترپ کا پتہ پھینکا ”مس
ماہین میں ایسے کسی رشتہ کو نہیں جانتا اور نا ہی مانتا ہوں اب آپ اپنے روم میں جائیں اور کل صبح ہوتے ہی اپنی واپسی کا انتظام کریں ۔۔“ حمزہ بلا کے سرد لہجہ میں گویا ہوا ۔۔۔۔
”پر میں اکیلی اتنے بڑے شہر میں کدھر جاؤنگی ابھی تو احمد بھائی اور باجی کے آنے میں دن باقی ہیں “ ماہین آنکھوں میں آنسو بھر لائی ” ٹھیک تو ان کے آنے تک آپ گیسٹ روم میں ہی رہئیے آپکو ناشتہ پانی پہنچا دیا جایا کریگا ۔۔۔“ حمزہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا کھڑا ہوا۔ ”مگر حمزہ مجھے ادھر بہت ڈر لگتا ہے جب تک احمد بھائی ثبوت لیکر نہیں آتے کیا میں آپ کے ساتھ ، میرا مطلب مجبوری ہے مجھے ڈر لگتا ہے اور آپ میرے محرم ہیں تو کیا میں آپ کے روم میں ۔۔۔۔“ ماہین نظریں جھکا کر انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بولی
” گڈو تم ماہین سس کے ساتھ انکے روم سے سامان لاکر بے بی کے روم میں رکھو اور مس ماہین میں آپکو بچوں کے ساتھ والا کمرہ دے رہا ہوں اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں کرسکتا ۔۔“ حمزہ روڈ لہجے میں بولتا اپنا ٹراؤزر پکڑ کر کھڑے پپو کو گود میں اٹھاتا باہر نکل گیا
” چلیں بچ ۔۔۔۔“ گڈو نے ماہین کو مخاطب کیا اور وہ منہ بناتی گڈو کے پیچھے نکل گئی …
**************************for more books – urdunovels.info
” چاچو کیا بچوں کی بھی شادی ہوتی ہے ۔۔“ حمزہ کی گودی میں چڑھے پپو نے سوال کیا ۔ ”پپو یار تنگ نہ کر میں اسوقت پریشان ہوں ۔۔۔“ حمزہ پپو کو لیکر بچوں کے روم میں آیا اور اسے بستر میں لٹایا ۔۔ ” چاچو آپ بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔“ پپو نے حمزہ کا منہ چوما ۔ حمزہ پپو کا چہرہ تھپتھپاتا باہر نکل گیا اب اس کا رخ مریم کے کمرے کی طرف تھا مریم کمرے میں غصہ سے ٹہل رہی تھی انتہاء کی بےبسی تھی کہ وہ اس ملک میں تنہا تھی کہیں اور جا بھی نہیں سکتی تھی مگر اسطرح ادھر رہنا بھی اسے اپنی توہین لگ رہا تھا کچھ سوچ کر وہ الماری کی جانب مڑی اور اپنا سامان پیک کرنے لگی اس کا ارادہ کسی دارالمان میں پناہ لینے کا تھا ابھی وہ سامان پیک کرکے سیدھی کھڑی ہی ہوئی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور حمزہ اندر داخل ہوا ”چلو اچھا کیا تم نے سامان پیک کرلیا ۔۔۔“ حمزہ بولتے ہوئے قریب آیا اور اس کا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔۔ مریم حق دق کھڑی رہ گئی یعنی یہ تھی حمزہ کی سو کالڈ محبت اپنی پرانی منکوحہ کے ملتے ہی زبردستی کی بنی نئ نویلی منکوحہ کو بھول گیا اور اب گھر سے بھی نکال رہا ہے ابھی مریم سوچوں میں گم تھی کہ حمزہ دوبارہ اندر داخل ہوا ۔ ” مراقبہ کررہی ہو کیا چل کیوں نہیں رہی ۔۔۔“ حمزہ نے پاس آکر اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا ۔۔۔ ” مجھے تم جیسے نکاح کے شوقین کے ساتھ کہیں نہیں جانا ۔۔۔“ مریم زخمی لہجہ میں بولی ۔ ” تو کیا اس سس کے ساتھ روم شئیر کروگی ۔۔۔“ حمزہ نے اچھنبے سے پوچھا ۔ ” سس ! ایسا تو نہ کہئیے اس بچ کو ، اللہ گناہ دے گا آپکو اور رشتہ خراب ہوجائیگا ۔۔۔“ مریم نے اسے ٹوکا ۔۔ ” سنو اس دنیا میں ایک تم اور ایک جینیفر لارنس کے علاوہ ساری محترمائیں میری سس ہیں اس لئیے اب نخرہ دکھانا بند کرو اور چلو ۔۔“ حمزہ تپ کر بولا ۔۔۔
مریم ٹس سے مس نہیں ہوئی حمزہ نے طیش میں آکر ایک جھٹکے سے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور چیختی چلاتی مریم کو سیدھا باہر لے گیا ۔۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔