نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 19
ماہین کا غصہ سے برا حال تھا وہ حمزہ کے معاملے میں بہت سنجيده تھی حمزہ کی وجاہت مردانگی اور سب سے بڑھ کر ایک رئیس خاندان کا چشم و چراغ ہونا ، یہ ساری باتیں اسے حمزہ کی جانب کھینچتی تھی حمزہ سے وہ ٹین ایج سے پیار کرتی چلی آرہی تھی اور اب اس مریم کا بیچ میں آجانا اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا ۔
ی مریم حمزہ صرف میرا ہے اس لئیے اب تمہیں بیچ سے ہٹنا ہوگا ۔۔“ ماہین بڑبڑائی اور پھر فون اٹھا کر اپنی بہن اور بہنوئی کو تفصیلات بتانے لگی ۔
”ماہین تم سے کہا تھا کہ صبر سے کام لو سارا کھیل تم نے بگاڑ دیا ہے حمزہ بہت چالاک اور عیار ہے دومنٹ میں نکاح نامہ جعلی ثابت کردیگا ۔۔۔“ کمشنر احمد غصہ سے بولے ۔
”بتائیں نا احمد بھائی اب کیا کروں سوری مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز میری مدد کریں ۔۔۔“ ماہین گڑگڑائی شدید یک طرفہ محبت کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی ہے ۔
تھوڑی دیر تک وہ فون پر دی جانے والی ہدایات سنتی رہی
”ٹھیک ہے احمد بھائی میں صبح ہوتے ہی ان سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور کل آؤٹنگ کا پروگرام بنا کر ڈیٹیل سینڈ کرتی ہوں ۔۔۔لیکن خیال رکھئیے گا مریم مر جائے پر حمزہ کا بال بیکا بھی نہ ہو ۔۔“ ماہی
ن فون پر بات کرکے اب سکون محسوس کررہی تھی رات بہت بیت چکی تھی وہ صبح کی پلاننگ کرتے کرتے نیند کی وادی میں اتر گئی ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو کو ناشتہ کروا رہی تھی اور پپو ساری دنیا بھلائے بیحد سنجیدگی سے سپرماریو کھیلنے میں لگا ہوا تھا ۔۔۔ ”پپو ! پپو پیارے دودھ تو پی لو ۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو مخاطب کیا ۔۔
”دیکھو تو اس چوزے کو ماریو ایسے انہماک سے کھیل رہا ہے جیسے جہاد پر ہو ۔۔۔“ حمزہ بڑبڑاتا ہوا پپو کے پاس آیا ۔
”پپو
صاحب اپنا دودھ فنش کرو ورنہ گیم بند کردونگا ۔۔۔“ حمزہ نے اسے دھمکایا ۔
پر پپو صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگی وہ بڑے اطمینان سے اپنا چھوٹا سا دہانہ کھولے گیم میں پرنسس کو بچانے کیلئیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا تنگ آکر حمزہ نے گیم کا تار کھینچ دیا ۔۔ ”چاچو !۔۔۔۔۔“ پپو نے شکوہ کن انداز سے حمزہ کو گھورا ”چاچو کے بچے اپنا دودھ فنش کرو شاباش ۔۔۔“ حمزہ نے گلاس اس کے ہاتھ میں تھماکر اسے زبردستی اٹھایا اور میز پر لاکر بٹھادیا ۔۔۔
”بے بی ہیلپ “ ۔۔
پپو نے سامنے بیٹھی مریم کو دردناک انداز میں پکارا اور مریم بی بی خونخوار انداز میں حمزہ کو گھورتے ہوئے اٹھ کر پپو کے پاس آئی ۔۔ ”میر
ا پیارا پپو جانو ، کیا ہوا ۔۔“ وہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔
” چاچو نے گیم بند کردیا ۔۔۔۔“ پپو نے شکایت لگائی ۔ ”ہاں تو تمہارے چاچو کو اور آتا ہی کیا ۔۔۔چلو جلدی سے بریک فاسٹ فنش کرو پھر ہم ملکر کھیلینگے ۔۔۔“ مریم بڑے پیار سے اسے دودھ کا گلاس دیتے ہوئے بولی ۔۔ مریم کا حکم اور پپو نہ مانے یہ کیسے ہوسکتا تھا اس نے دودھ کا گلاس دونوں ہاتھوں میں تھاما اور غٹاغٹ دودھ پی گیا ۔
” پپو احسان فراموش چوزہ ! میں اتنی دیر سے کہہ رہا تھا تب تو تیرے کان بند تھے اور اب مریم کے ایک دفعہ کہنے پر دودھ پی لیا ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے پھولے پھولے سرخ گالوں پر چٹکی کاٹی۔
”چاچ
و ۔۔پریٹی لڑکی کو منع نہیں کرنا چاہئیے اللہ ناراض ہوتے ہیں ۔۔“ پپو نے بڑے آرام سے سمجھایا
ابھی یہ لوگ باتیں کرہی رہے تھے کہ قمیض شلوار میں بڑا سا دوپٹہ اوڑھے ماہین ہاتھ میں کیک اٹھائے اندر داخل ہوئی جو اس نے صبح صبح ڈلیور کروایا تھا ۔۔
” ہائے گائیز دیکھو میں سب کیلئیے زبردست سا چاکلیٹ کیک لائی ہوں ۔۔“ اس نے کیک میز کے بیچ میں رکھا ۔
”کیا
ہوا ، ایسے کیوں دیکھ رہے ہو سب ۔۔“ ماہین سب کو اپنی جانب متوجہ پا کر بولی ۔
”وچ آنٹی ! آپ اچانک ویسٹ سے ایسٹ کیسے بن گئی ۔۔۔پپو رک جاؤ ۔“ گڈو بات کرتے کرتے پپو کو کیک کی طرف ہاتھ بڑھاتا دیکھ کر چلایا ۔ ”وچ ہمیں کیک کھلا کر موٹا بچہ بنادیگی پھر ہمیں روسٹ کرکے کھا جائیگی ۔۔۔“ گڈو نے اپنی ماہرانہ رائے دی ۔ ”ماہین آپ ناشتہ کرلیں پھر اپنے بہن بہنوئی سے اپنی واپسی کنفرم کر کے مجھے بتائیں ۔۔“ حمزہ نے روڈلی ماہین کو مخاطب کیا اور پھر مریم کی طرف رخ کیا
” مریم ڈارلنگ ! تم روم میں جاؤ اور میرے کپڑے نکال دو مجھے کام سے جانا ہے ۔۔“ حمزہ نے ماہین کو تپاتے ہوئے مریم کو کچن سے نکالا ۔۔ ” ہا
شیم شیم چاچو ۔۔۔۔“ گڈو اور پپو دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر آواز نکالی ۔
”کیا پرابلم ہے ۔۔۔“ حمزہ نے دونوں کو گھورا ۔
”چاچو آپ نے ڈی والا ورڈ بولا وہ بھی گرل سے ۔۔۔“ گڈو شرم سے سرخ ہوتا ہوا بولا ۔
حمزہ کھسیا کر رہ گیا ماہین کو مریم سے اپنا لگاؤ دکھانے کے چکر میں وہ بھول ہی گیا تھا کہ یہ دونوں ننھے شیطان پاس بیٹھے ہیں ۔۔۔
”حمزہ میں شرمندہ ہوں کئی دنوں سے اکیلی اس ویران کمرے میں رہ رہی تھی تو ڈیپریشن کا شکار ہوگئی تھی میں کبھی کبھی دہری شخصیت کا شکار ہوجاتی ہوں مجھے یہ مرض کافی عرصہ سے لاحق ہے میں بائی پولر ہوں ، خدارا حمزہ مجھے معاف کردو آئندہ ایسا نہیں ہوگا پلیز باجی اور احمد بھائی سے کچھ مت کہنا ورنہ وہ مجھے دوبارہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال کر بھول جائینگے ۔۔۔“ ماہین کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔۔ حمزہ
نے تاسف سے اسے دیکھا ۔۔۔
“اٹس اوکے مس ماہین ، آئندہ اپنی حدود کا خیال رکھئیے گا ۔“ حمزہ کہتا ہوا اٹھ کر دونوں بچوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر نکل گیا ۔۔ ماہین کا دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگا تھا وہ بڑی مکاری سے حمزہ کی ہمدردی سمیٹ چکی تھی اب اسے اپنی اگلی چال چلنی تھی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم ڈارلنگ بھناتے ہوئے کچن سے نکل کر بیڈروم میں آئی پوری قوت سے اندر داخل ہو کر دھاڑ سے دروازہ بند کیا ۔۔۔
”کپڑے نکال دو ۔۔خود کو سمجھتا کیا ہے اس بچ باجی کے آگے مجھے نوکرانی بنا رہا تھا بڑا آیا کپڑے نکال دو ۔۔۔“ مریم کو شدید غصہ آرہا تھا ”کمی
نہ آدمی ! ڈارلنگ مجھے بول رہا تھا اور دیکھ اپنی باجی کو رہا تھا ۔۔۔“
حمزہ آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو کمرے کے وسط میں چہل قدمی کرتی مریم پر نظر پڑی ۔۔۔
” کیا ہوا اتنی غصہ میں کیوں ہو ۔۔۔“ اس نے گویا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ۔
”تم “ مریم پھنکارتی ہوئی اس کے قریب آئی۔
” مجھے کچن سے نکال کر ، اس بچ باجی کے آگے دھوبن بنا کر تمہیں چین نہیں ملا جو ادھر آگئے ہو میرا تماشہ دیکھنے اور مجھے ہٹا کر اس کمینی بچ کے ساتھ اکیلے رہ گئے تھے تاکہ تاکہ ۔۔۔“ ”تاک
ہ کیا ؟ “ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
مریم نظر ملتے ہی پلکیں جھکا گئی ۔ ”ہاہاہا میری جان تم جیلس ہورہی ہو قسم سے دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔۔۔“ حمزہ سرشاری سے اسے بازوؤں سے پکڑ کر بولا ۔ ” کوئی نہیں خامخواہ ! بلی کو خواب میں چھیچڑے ۔۔۔“ مریم نے نگاہ چرائی ۔
”محترمہ آپکو بہت جلد پتا چل جائیگا کہ میرے خواب کی تعبیر کتنی حسین و دلکش ہے ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولا ۔
”اچھا سنو ایک آج اور کل کا دن اور رہ گیا ہے پھر ہمارا ولیمہ ریسیپشن ہے میں اسی سلسلے میں کارڈز باٹنے اور تمہارا ڈریس پک کرنے جارہا ہوں تم بچوں کا اور اپنا خیال رکھنا دوپہر تک واپس آجاؤنگا ۔۔۔“ وہ اس کے گال تھپتھپاتا اپنے کپڑے نکال کر تیار ہونے لگا
**************************for more books – urdunovels.info
لیونگ روم میں سارے پردے گرا کر لائٹ بند کرکے اندھیرے میں ہارر مووی دیکھیں جا رہی تھی پپو مریم کی گودی میں بیٹھا پاپ کارن کھاتا کم گراتا زیادہ ٹی وی پر گانا گاتی دکھی آتما کو دیکھ رہا تھا اور گڈو کشن پر نیم دراز فلم کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا واحد مریم تھی جو بڑی دلچسپی سے مرحومہ آتما کا ڈانس دیکھ کر محفوظ ہورہی تھی اس نے انگلینڈ میں ایسی پکچرز کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ ”گڈو سچ بتاؤ یہ ہارر ہے یا کامیڈی ۔۔“ مریم نے دانتوں میں انگلی دبائے مووی دیکھتے گڈو کو ڈسٹرب کیا ۔۔ ”بےبی یہ ہارر ہے ابھی یہ آتما آنٹی اس آدمی کو مارے گئی ۔۔۔“ گڈو نے اسے سین سمجھایا ۔ ابھی وہ تینوں دوبارہ دکھی آتما کا مجرا دیکھنے میں مگن تھے جب حمزہ اندر داخل ہوا ایک نظر ٹی وی پر ڈالی اور ایک نظر بےبی اور اس کے چیلوں پر جو بڑے انہماک سے ٹی وی میں مگن تھے ۔حمزہ نے قالین پر گرا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا جس کے نتیجے میں تینوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔ ”چاچو ٹی وی آن کریں ۔۔۔“ گڈو پپو تڑپ اٹھے اتنی تڑپ تو اس آتما آنٹی نے بھی نہیں دکھائی تھی ۔۔ ”نہ سلام نہ دعا بس ٹی وی کی فکر ہے اور مریم تم بھی ان کو ایسی فلم دیکھنے دے رہی ہو اسی لئیے تو یہ افلاطون بنتے جارہے ہیں ۔۔۔“ حمزہ سختی سے بولا .. ابھی ان تینوں کی کلاس جاری تھی کہ پپو مریم کی گود سے اتر کر حمزہ کے پاس آیا ۔۔ ”چاچو “ حمزہ کی ٹانگ پکڑ کر اسے نیچے جھکنے کا اشارہ کیا حمزہ کے جھکتے ہی پپو صاحب نے بڑے آرام سے اس کے دونوں گالوں کو پیار کیا ”بس اچھے بچے اب غصہ نہیں ۔۔“ بالکل حمزہ کے انداز کو کاپی کرتا وہ بولا ”چاچو ایک بات بتائیں یہ آتما کیسے بنتے ہیں ۔۔“ خاموش بیٹھے گڈو نے بڑے مفکرانہ انداز میں پوچھا ..
”دیکھ لیا انہیں ایسی موویز دکھانے کا انجام آج صاحبزادے پوچھ رہے ہیں کہ آتما کیسے بنتے ہیں اور کل کو فرمائش کرینگے کہ آتما بننا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کو لتاڑا ۔ ”ارے حمزہ آپ آگئے میں کب سے آپ کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔“ ماہین حمزہ کی آواز سن کر اندر آئی ۔ ” لو آگئی بچ کی بھٹکتی آتما ۔۔۔“مریم منمنائی . حمزہ نے مریم کو گھورا اور ماہین سے مخاطب ہوا ” جی مس ماہین کوئی کام تھا آپکو ۔۔۔“ ”میں کل سے بہت بہت شرمندہ ہوں اور میں اب سب سے دوستی کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔“ ماہین نے سب پر نظر ڈالی ۔
”کیا آپ سب میرے ساتھ ڈنر پر چلینگے ؟ “ ماہین نے آس بھری نظروں سے حمزہ کو دیکھا ” مریم آپ بھی ، پلیز نہ مت کیجئیگا ۔۔“ ”ٹھیک ہے مس ماہین تھوڑی آوٹنگ ہی ہوجائیگی چلتے ہیں لیکن کب اور کدھر ۔۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا۔
”یہ سرپرائز ہے کل چلینگے جدھر میں کہوں ۔۔“ ماہین عیاری سے بولی
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
ی مریم حمزہ صرف میرا ہے اس لئیے اب تمہیں بیچ سے ہٹنا ہوگا ۔۔“ ماہین بڑبڑائی اور پھر فون اٹھا کر اپنی بہن اور بہنوئی کو تفصیلات بتانے لگی ۔
”ماہین تم سے کہا تھا کہ صبر سے کام لو سارا کھیل تم نے بگاڑ دیا ہے حمزہ بہت چالاک اور عیار ہے دومنٹ میں نکاح نامہ جعلی ثابت کردیگا ۔۔۔“ کمشنر احمد غصہ سے بولے ۔
”بتائیں نا احمد بھائی اب کیا کروں سوری مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز میری مدد کریں ۔۔۔“ ماہین گڑگڑائی شدید یک طرفہ محبت کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی ہے ۔
تھوڑی دیر تک وہ فون پر دی جانے والی ہدایات سنتی رہی
”ٹھیک ہے احمد بھائی میں صبح ہوتے ہی ان سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور کل آؤٹنگ کا پروگرام بنا کر ڈیٹیل سینڈ کرتی ہوں ۔۔۔لیکن خیال رکھئیے گا مریم مر جائے پر حمزہ کا بال بیکا بھی نہ ہو ۔۔“ ماہی
ن فون پر بات کرکے اب سکون محسوس کررہی تھی رات بہت بیت چکی تھی وہ صبح کی پلاننگ کرتے کرتے نیند کی وادی میں اتر گئی ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو کو ناشتہ کروا رہی تھی اور پپو ساری دنیا بھلائے بیحد سنجیدگی سے سپرماریو کھیلنے میں لگا ہوا تھا ۔۔۔ ”پپو ! پپو پیارے دودھ تو پی لو ۔۔۔“ حمزہ نے پپو کو مخاطب کیا ۔۔
”دیکھو تو اس چوزے کو ماریو ایسے انہماک سے کھیل رہا ہے جیسے جہاد پر ہو ۔۔۔“ حمزہ بڑبڑاتا ہوا پپو کے پاس آیا ۔
”پپو
صاحب اپنا دودھ فنش کرو ورنہ گیم بند کردونگا ۔۔۔“ حمزہ نے اسے دھمکایا ۔
پر پپو صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگی وہ بڑے اطمینان سے اپنا چھوٹا سا دہانہ کھولے گیم میں پرنسس کو بچانے کیلئیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا تنگ آکر حمزہ نے گیم کا تار کھینچ دیا ۔۔ ”چاچو !۔۔۔۔۔“ پپو نے شکوہ کن انداز سے حمزہ کو گھورا ”چاچو کے بچے اپنا دودھ فنش کرو شاباش ۔۔۔“ حمزہ نے گلاس اس کے ہاتھ میں تھماکر اسے زبردستی اٹھایا اور میز پر لاکر بٹھادیا ۔۔۔
”بے بی ہیلپ “ ۔۔
پپو نے سامنے بیٹھی مریم کو دردناک انداز میں پکارا اور مریم بی بی خونخوار انداز میں حمزہ کو گھورتے ہوئے اٹھ کر پپو کے پاس آئی ۔۔ ”میر
ا پیارا پپو جانو ، کیا ہوا ۔۔“ وہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔
” چاچو نے گیم بند کردیا ۔۔۔۔“ پپو نے شکایت لگائی ۔ ”ہاں تو تمہارے چاچو کو اور آتا ہی کیا ۔۔۔چلو جلدی سے بریک فاسٹ فنش کرو پھر ہم ملکر کھیلینگے ۔۔۔“ مریم بڑے پیار سے اسے دودھ کا گلاس دیتے ہوئے بولی ۔۔ مریم کا حکم اور پپو نہ مانے یہ کیسے ہوسکتا تھا اس نے دودھ کا گلاس دونوں ہاتھوں میں تھاما اور غٹاغٹ دودھ پی گیا ۔
” پپو احسان فراموش چوزہ ! میں اتنی دیر سے کہہ رہا تھا تب تو تیرے کان بند تھے اور اب مریم کے ایک دفعہ کہنے پر دودھ پی لیا ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے پھولے پھولے سرخ گالوں پر چٹکی کاٹی۔
”چاچ
و ۔۔پریٹی لڑکی کو منع نہیں کرنا چاہئیے اللہ ناراض ہوتے ہیں ۔۔“ پپو نے بڑے آرام سے سمجھایا
ابھی یہ لوگ باتیں کرہی رہے تھے کہ قمیض شلوار میں بڑا سا دوپٹہ اوڑھے ماہین ہاتھ میں کیک اٹھائے اندر داخل ہوئی جو اس نے صبح صبح ڈلیور کروایا تھا ۔۔
” ہائے گائیز دیکھو میں سب کیلئیے زبردست سا چاکلیٹ کیک لائی ہوں ۔۔“ اس نے کیک میز کے بیچ میں رکھا ۔
”کیا
ہوا ، ایسے کیوں دیکھ رہے ہو سب ۔۔“ ماہین سب کو اپنی جانب متوجہ پا کر بولی ۔
”وچ آنٹی ! آپ اچانک ویسٹ سے ایسٹ کیسے بن گئی ۔۔۔پپو رک جاؤ ۔“ گڈو بات کرتے کرتے پپو کو کیک کی طرف ہاتھ بڑھاتا دیکھ کر چلایا ۔ ”وچ ہمیں کیک کھلا کر موٹا بچہ بنادیگی پھر ہمیں روسٹ کرکے کھا جائیگی ۔۔۔“ گڈو نے اپنی ماہرانہ رائے دی ۔ ”ماہین آپ ناشتہ کرلیں پھر اپنے بہن بہنوئی سے اپنی واپسی کنفرم کر کے مجھے بتائیں ۔۔“ حمزہ نے روڈلی ماہین کو مخاطب کیا اور پھر مریم کی طرف رخ کیا
” مریم ڈارلنگ ! تم روم میں جاؤ اور میرے کپڑے نکال دو مجھے کام سے جانا ہے ۔۔“ حمزہ نے ماہین کو تپاتے ہوئے مریم کو کچن سے نکالا ۔۔ ” ہا
شیم شیم چاچو ۔۔۔۔“ گڈو اور پپو دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر آواز نکالی ۔
”کیا پرابلم ہے ۔۔۔“ حمزہ نے دونوں کو گھورا ۔
”چاچو آپ نے ڈی والا ورڈ بولا وہ بھی گرل سے ۔۔۔“ گڈو شرم سے سرخ ہوتا ہوا بولا ۔
حمزہ کھسیا کر رہ گیا ماہین کو مریم سے اپنا لگاؤ دکھانے کے چکر میں وہ بھول ہی گیا تھا کہ یہ دونوں ننھے شیطان پاس بیٹھے ہیں ۔۔۔
”حمزہ میں شرمندہ ہوں کئی دنوں سے اکیلی اس ویران کمرے میں رہ رہی تھی تو ڈیپریشن کا شکار ہوگئی تھی میں کبھی کبھی دہری شخصیت کا شکار ہوجاتی ہوں مجھے یہ مرض کافی عرصہ سے لاحق ہے میں بائی پولر ہوں ، خدارا حمزہ مجھے معاف کردو آئندہ ایسا نہیں ہوگا پلیز باجی اور احمد بھائی سے کچھ مت کہنا ورنہ وہ مجھے دوبارہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال کر بھول جائینگے ۔۔۔“ ماہین کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔۔ حمزہ
نے تاسف سے اسے دیکھا ۔۔۔
“اٹس اوکے مس ماہین ، آئندہ اپنی حدود کا خیال رکھئیے گا ۔“ حمزہ کہتا ہوا اٹھ کر دونوں بچوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر نکل گیا ۔۔ ماہین کا دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگا تھا وہ بڑی مکاری سے حمزہ کی ہمدردی سمیٹ چکی تھی اب اسے اپنی اگلی چال چلنی تھی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم ڈارلنگ بھناتے ہوئے کچن سے نکل کر بیڈروم میں آئی پوری قوت سے اندر داخل ہو کر دھاڑ سے دروازہ بند کیا ۔۔۔
”کپڑے نکال دو ۔۔خود کو سمجھتا کیا ہے اس بچ باجی کے آگے مجھے نوکرانی بنا رہا تھا بڑا آیا کپڑے نکال دو ۔۔۔“ مریم کو شدید غصہ آرہا تھا ”کمی
نہ آدمی ! ڈارلنگ مجھے بول رہا تھا اور دیکھ اپنی باجی کو رہا تھا ۔۔۔“
حمزہ آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو کمرے کے وسط میں چہل قدمی کرتی مریم پر نظر پڑی ۔۔۔
” کیا ہوا اتنی غصہ میں کیوں ہو ۔۔۔“ اس نے گویا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ۔
”تم “ مریم پھنکارتی ہوئی اس کے قریب آئی۔
” مجھے کچن سے نکال کر ، اس بچ باجی کے آگے دھوبن بنا کر تمہیں چین نہیں ملا جو ادھر آگئے ہو میرا تماشہ دیکھنے اور مجھے ہٹا کر اس کمینی بچ کے ساتھ اکیلے رہ گئے تھے تاکہ تاکہ ۔۔۔“ ”تاک
ہ کیا ؟ “ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
مریم نظر ملتے ہی پلکیں جھکا گئی ۔ ”ہاہاہا میری جان تم جیلس ہورہی ہو قسم سے دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔۔۔“ حمزہ سرشاری سے اسے بازوؤں سے پکڑ کر بولا ۔ ” کوئی نہیں خامخواہ ! بلی کو خواب میں چھیچڑے ۔۔۔“ مریم نے نگاہ چرائی ۔
”محترمہ آپکو بہت جلد پتا چل جائیگا کہ میرے خواب کی تعبیر کتنی حسین و دلکش ہے ۔۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں بولا ۔
”اچھا سنو ایک آج اور کل کا دن اور رہ گیا ہے پھر ہمارا ولیمہ ریسیپشن ہے میں اسی سلسلے میں کارڈز باٹنے اور تمہارا ڈریس پک کرنے جارہا ہوں تم بچوں کا اور اپنا خیال رکھنا دوپہر تک واپس آجاؤنگا ۔۔۔“ وہ اس کے گال تھپتھپاتا اپنے کپڑے نکال کر تیار ہونے لگا
**************************for more books – urdunovels.info
لیونگ روم میں سارے پردے گرا کر لائٹ بند کرکے اندھیرے میں ہارر مووی دیکھیں جا رہی تھی پپو مریم کی گودی میں بیٹھا پاپ کارن کھاتا کم گراتا زیادہ ٹی وی پر گانا گاتی دکھی آتما کو دیکھ رہا تھا اور گڈو کشن پر نیم دراز فلم کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا واحد مریم تھی جو بڑی دلچسپی سے مرحومہ آتما کا ڈانس دیکھ کر محفوظ ہورہی تھی اس نے انگلینڈ میں ایسی پکچرز کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ ”گڈو سچ بتاؤ یہ ہارر ہے یا کامیڈی ۔۔“ مریم نے دانتوں میں انگلی دبائے مووی دیکھتے گڈو کو ڈسٹرب کیا ۔۔ ”بےبی یہ ہارر ہے ابھی یہ آتما آنٹی اس آدمی کو مارے گئی ۔۔۔“ گڈو نے اسے سین سمجھایا ۔ ابھی وہ تینوں دوبارہ دکھی آتما کا مجرا دیکھنے میں مگن تھے جب حمزہ اندر داخل ہوا ایک نظر ٹی وی پر ڈالی اور ایک نظر بےبی اور اس کے چیلوں پر جو بڑے انہماک سے ٹی وی میں مگن تھے ۔حمزہ نے قالین پر گرا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا جس کے نتیجے میں تینوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔ ”چاچو ٹی وی آن کریں ۔۔۔“ گڈو پپو تڑپ اٹھے اتنی تڑپ تو اس آتما آنٹی نے بھی نہیں دکھائی تھی ۔۔ ”نہ سلام نہ دعا بس ٹی وی کی فکر ہے اور مریم تم بھی ان کو ایسی فلم دیکھنے دے رہی ہو اسی لئیے تو یہ افلاطون بنتے جارہے ہیں ۔۔۔“ حمزہ سختی سے بولا .. ابھی ان تینوں کی کلاس جاری تھی کہ پپو مریم کی گود سے اتر کر حمزہ کے پاس آیا ۔۔ ”چاچو “ حمزہ کی ٹانگ پکڑ کر اسے نیچے جھکنے کا اشارہ کیا حمزہ کے جھکتے ہی پپو صاحب نے بڑے آرام سے اس کے دونوں گالوں کو پیار کیا ”بس اچھے بچے اب غصہ نہیں ۔۔“ بالکل حمزہ کے انداز کو کاپی کرتا وہ بولا ”چاچو ایک بات بتائیں یہ آتما کیسے بنتے ہیں ۔۔“ خاموش بیٹھے گڈو نے بڑے مفکرانہ انداز میں پوچھا ..
”دیکھ لیا انہیں ایسی موویز دکھانے کا انجام آج صاحبزادے پوچھ رہے ہیں کہ آتما کیسے بنتے ہیں اور کل کو فرمائش کرینگے کہ آتما بننا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کو لتاڑا ۔ ”ارے حمزہ آپ آگئے میں کب سے آپ کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔“ ماہین حمزہ کی آواز سن کر اندر آئی ۔ ” لو آگئی بچ کی بھٹکتی آتما ۔۔۔“مریم منمنائی . حمزہ نے مریم کو گھورا اور ماہین سے مخاطب ہوا ” جی مس ماہین کوئی کام تھا آپکو ۔۔۔“ ”میں کل سے بہت بہت شرمندہ ہوں اور میں اب سب سے دوستی کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔“ ماہین نے سب پر نظر ڈالی ۔
”کیا آپ سب میرے ساتھ ڈنر پر چلینگے ؟ “ ماہین نے آس بھری نظروں سے حمزہ کو دیکھا ” مریم آپ بھی ، پلیز نہ مت کیجئیگا ۔۔“ ”ٹھیک ہے مس ماہین تھوڑی آوٹنگ ہی ہوجائیگی چلتے ہیں لیکن کب اور کدھر ۔۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا۔
”یہ سرپرائز ہے کل چلینگے جدھر میں کہوں ۔۔“ ماہین عیاری سے بولی
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply