نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 2
مریم صبح ہوتے ہی گاڑی لیکر تائی امی سے مال کا راستہ پوچھ کر باہر نکل گئی تھی تائی نے لاکھ سمجھایا کہ ڈرائیور یا پھر ان کے ساتھ چلے یا پھر زوہیب کا انتظار کرلے مگر وہ مریم ہی کیا جو مان جاتی ان کی سب باتوں کو ایک کان سے اڑاتی اور نصیحتوں کی نفی کرتی ڈرائیور سے چابی لیکر گاڑی روڈ پر نکال لی تھی اور اب تیز آواز میں میوزک سنتی وہ جی پی ایس میں ایڈرس دیکھتی مال کی جانب جا رہی تھی کہ سامنے سے آتے ٹرک کو دیکھ کر گھبرا گئی اور تیزی سے بنا دیکھے گاڑی موڑی جس کے نتیجے میں گاڑی فٹ پاتھ پر ایک بوڑھے پھل والے کی ریڑھی سے زور سے ٹکرا گئی وہ غریب بزرگ ریڑھی والا سڑک پر گر پڑا اور اس کا ٹھیلہ بھی الٹ گیا تھا ۔۔۔۔ ایس پی حمزہ جو سادہ لباس میں ادھر ایک کیس کی تفتیش کرنے آیا ہوا تھا گاڑی کے ٹکرانے کی آواز سن کر تیزی سے اس طرف آیا اور ان بزرگ ریڑھی والے کو سڑک سے اٹھنے میں مدد کی اتنے میں مریم کے بھی حواس بحال ہوچکے تھے وہ گاڑی سے اتر کر ان کے قریب آئی ۔۔۔
” تمہیں تمیز نہیں ہے سڑک کے کنارے ٹھیلے لگاتے ہو اگر مجھے کچھ ہوجاتا تو ۔۔۔۔“ وہ اس بوڑھے پر برس پڑی تھی
”مس آرام سے غلطی آپ کی ہے آپ کو گاڑی دیکھ کر چلانی چاہئیے تھی ۔۔“ حمزہ نے شائستگی سے اسے ٹوکا ۔
” گو ٹو ہیل بلڈی بڈھا ۔۔۔“ مریم نے پیر پٹخے
اب کے حمزہ نے سامنے کھڑی بیس سال کی اس گھمنڈی امیرزادی کو خشمگین نظروں سے گھورا اور سرد لہجے میں گویا ہوا ۔۔
”محترمہ آپ ابھی کے ابھی ان بزرگ سے معافی مانگیں اور ان کا جو نقصان آپ نے کیا ہے اسے پورا کریں ورنہ میں آپ کو تھانہ میں لیجا کر بند کروا دونگا . “ مریم نے ایک غصیلی نظر سامنے کھڑے جوان پر ڈالی اور پھر اپنے کندھے پر ٹنگے پرس میں سے چند بڑے نوٹ نکال کر اس بڈھے ٹھیلے والے کی طرف بڑی نخوت سے بڑھائے جسے اس بھلے آدمی نے شرمندہ ہوتے ہوئے حمزہ کے اشارہ پر تھام لئیے ۔
مریم واپس جانے کیلئیے مڑی ہی تھی کہ سنجیدہ سا حمزہ دیوار بن کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔ مریم نے اپنے بڑھتے قدم روک کر سامنے کھڑے اپالو کے مجسمے جیسے خوبرو حمزہ کو دیکھا
”اب کیا مصیبت ہے راستہ کیوں روک رہے ہو ۔۔۔“ مریم تلملا کر بولی
”آپ شاید کچھ بھول رہی ہیں معافی مانگیں ان سے ۔“وہ سرد لہجے میں بولا
”معافی مائی فٹ ! راستے سے ہٹو ورنہ میں تمہارے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کروادونگی ۔۔“ وہ بلبلا کر بولی
” بصد شوق آپ رپورٹ درج کروائیں بلکہ کہئیے تو میں آپ کو خود تھانہ لے چلتا ہوں مگر اس وقت تو آپ کو ان بزرگ سے معافی مانگنی ہوگی ۔“ حمزہ راستہ میں چٹان کی طرح کھڑا تھا
”بیٹا جانے دیجئیے بی بی جی نے نقصان بھر دیا ہے بس اتنا ہی کافی ہے ۔۔“ وہ بزرگ حمزہ سے بولے
مگر حمزہ ٹس سے مس نہیں ہوا تو مریم زچ آکر اس ٹھیلے والے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
”ائی ایم ساری ۔۔“ پتھر کی طرح چند الفاظ مار کر وہ حمزہ کو دھکا دیتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر زن سے گاڑی بھگا کر لے گئی اب اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا اسی لئیے شاپنگ کا ارادہ ترک کرکے وہ واپس گھر کی جانب پلٹ گئی ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
سیٹرڈے کا دن تھا گڈو اور پپو دونوں گارڈن میں فٹ بال کھیل رہے تھے اور باہر بیٹھا چوکیدار ان دونوں بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھا حمزہ اندر آرام کررہا تھا ۔۔۔
گڈو اور پپو میں فٹ بال کا میچ جاری تھا ہری سرسبز گھاس پر وہ دونوں گول مٹول بچے آپس میں مگن تھے جب پپو گھاس پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا ۔۔
”کیا ہوا پپو موٹو اتنی جلدی تھک گئے ۔“ گڈو نے چڑایا
”مجھے پاپ کارن کھانے ہیں مووی دیکھنی ہے وہ فلائنگ کارز والی ۔۔۔“ پپو بسورا
”ٹھیک چلو چاچو کو جا کر بولتے ہیں ۔۔“ گڈو جوش میں آیا
”وہ ڈانٹیں گئے کہیں گئے پہلے پوئم یاد کرو ، ٹیبل سناؤ ..“ پپو نے دلگرفتی سے کہا
” چلو اندر چلو چاچو سے بات کرتے ہیں ۔۔“ وہ دونوں بال وہی گھاس پر چھوڑ کر گرتے پڑتے بڑے جوش میں اندر بھاگے بڑے سے بیڈروم میں حمزہ محو خواب تھا جب گڈو اور پپو کمرے میں داخل ہوئے اور اندر آکر بیڈ پر چڑھ گئے پپو تو اچک کر سوئے ہوئے حمزہ کے چوڑے سینے پر بیٹھ گیا اور گڈو صاحب حمزہ کے چہرے پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے زور دار چماٹے مارنے لگا حمزہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تو اسے جاگتا دیکھ کر گولوں سا پپو ہنس پڑا حمزہ نے سب سے پہلے گڈو کو اپنے دائیں بازو میں دبوچا اور بائیں میں پپو کو جکڑا ۔
”کیا بات ہے شیطانوں مجھے کیوں جگایا اور گڈو یار اتنے زور سے بھی کوئی مار کر جگاتا ہے ۔۔“ حمزہ نے دونوں کے گال باری باری چومے
”چاچو آج سیٹرڈے ہے ۔۔“ گڈو نے اسے آگاہ کیا
”مجھے معلوم ہے آج سیٹرڈے ہے تو پھر ؟ “ حمزہ نے سوالیہ نظروں سے دونوں شیطانوں کو گھورا .
” چاچو ہمیں باہر جانا ہے مووی دیکھنی ہے ۔۔“ پپو نے فرمائش داغی ۔
”اچھا مووی دیکھنی ہے ۔۔۔“ حمزہ ان دونوں کو دبوچے ہوئے اٹھ بیٹھا .
”جی چاچو اس میں بہت سی فائٹنگ ہے اور کار چیزنگ بھی ہے ڈشو ڈشو ۔۔۔“ گڈو نے جوش سے کہا
” اور چاچو اس میں جو لڑکی ہے نا اس کی بلیو آئیز ہیں مائی فیورٹ۔۔“ پپو نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں حمزہ کا چہرہ تھاما
”وہ بہت ہاٹ اور پریٹی ہے چاچو ۔۔“ گڈو نے لقمہ دیا
”بلیو آئیز ! ہاٹ ۔۔۔“ حمزہ نے شاک سے دونوں کو دیکھا
”سارے نمونے میری ہی قسمت میں ہیں ابے شرم کرو تم دونوں اس عمر میں لڑکیوں کو نہیں کارٹونز دیکھتے ہیں اسٹوری بکس پڑھتے ہیں گیم کھیلتے ہیں ۔۔“
” چاچو پلیز چلیں نا ۔۔۔“ گڈو روہانسا ہوا
”چلو نا چاچو ۔۔۔“ پپو نے رشوت کے طور پر اس کے گال پر کس کیا
”اچھا اچھا چلتے ہیں پر مووی نہیں ایسا کرتے ہیں پہلے مال چلتے ہیں ٹوائے شاپنگ کرتے ہیں پھر پلے لینڈ اور ڈنر بولو ٹھیک ہے ۔۔“ حمزہ نے پوچھا
پپو اور گڈو ٹوائے اور پلے لینڈ کا سن کر خوشی سے اچھل پڑے اور حمزہ سے لپٹ گئے ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
اقبال صاحب میز پر بیٹھے تائی سے بات کررہے تھے ۔۔۔
”بیگم وقت کم ہے تم کل مریم کو لیکر کسی بہانے سے آفس لے آؤ میں وکیل صاحب کو بلوا لونگا تاکہ اس سے پیپر سائن کروا لئیے جائیں کیونکہ گھر میں تو کسی سے ملنے کو تیار نہیں ہورہی ہے ۔۔“ اقبال صاحب بولے
” اقبال صاحب آپ مجھ سے لکھوا لیں یہ لڑکی ہاتھ آنےوالی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پیپر سائن کرے گئی میری مانیں تو اسے چلتا کریں ۔۔“ تائی نخوت سے بولی
”تمہاری عقل واقعی گھاس چرنے گئی ہے یہ گھر آفس بزنس سب اس کے نام ہے ایک ذرا سی غلطی سے ہم سڑک پر آجائینگے ۔۔“ اقبال صاحب گرم ہوئے
” تو پھر کچھ اور سوچیں آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ مریم کتنی تیز اور چالاک ہے ۔۔۔“
”ٹھیک کہتی ہو یہ لڑکی بہت تیز ہے ۔“ اقبال صاحب بولے
”ایک دفعہ جائداد ہاتھ لگ جائے پھر دیکھنا اسے تیر کی طرح سیدھا نا کردیا تو ۔۔“ تائی عیاری سے بولی
”ٹھیک ہے بیگم ہم پکنک کا پروگرام بنا کر اسے بہانے سے شہر سے دور کسی فارم ہاؤس لیجاتے ہیں اور وہاں ڈرا دھمکا کر مریم کا نکاح زبردستی زوہیب سے کر کے اس چڑیا کے پر کاٹ دینگے ۔۔۔“ وہ اپنا شیطانی منصوبہ بنا رہے تھے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” تمہیں تمیز نہیں ہے سڑک کے کنارے ٹھیلے لگاتے ہو اگر مجھے کچھ ہوجاتا تو ۔۔۔۔“ وہ اس بوڑھے پر برس پڑی تھی
”مس آرام سے غلطی آپ کی ہے آپ کو گاڑی دیکھ کر چلانی چاہئیے تھی ۔۔“ حمزہ نے شائستگی سے اسے ٹوکا ۔
” گو ٹو ہیل بلڈی بڈھا ۔۔۔“ مریم نے پیر پٹخے
اب کے حمزہ نے سامنے کھڑی بیس سال کی اس گھمنڈی امیرزادی کو خشمگین نظروں سے گھورا اور سرد لہجے میں گویا ہوا ۔۔
”محترمہ آپ ابھی کے ابھی ان بزرگ سے معافی مانگیں اور ان کا جو نقصان آپ نے کیا ہے اسے پورا کریں ورنہ میں آپ کو تھانہ میں لیجا کر بند کروا دونگا . “ مریم نے ایک غصیلی نظر سامنے کھڑے جوان پر ڈالی اور پھر اپنے کندھے پر ٹنگے پرس میں سے چند بڑے نوٹ نکال کر اس بڈھے ٹھیلے والے کی طرف بڑی نخوت سے بڑھائے جسے اس بھلے آدمی نے شرمندہ ہوتے ہوئے حمزہ کے اشارہ پر تھام لئیے ۔
مریم واپس جانے کیلئیے مڑی ہی تھی کہ سنجیدہ سا حمزہ دیوار بن کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔ مریم نے اپنے بڑھتے قدم روک کر سامنے کھڑے اپالو کے مجسمے جیسے خوبرو حمزہ کو دیکھا
”اب کیا مصیبت ہے راستہ کیوں روک رہے ہو ۔۔۔“ مریم تلملا کر بولی
”آپ شاید کچھ بھول رہی ہیں معافی مانگیں ان سے ۔“وہ سرد لہجے میں بولا
”معافی مائی فٹ ! راستے سے ہٹو ورنہ میں تمہارے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کروادونگی ۔۔“ وہ بلبلا کر بولی
” بصد شوق آپ رپورٹ درج کروائیں بلکہ کہئیے تو میں آپ کو خود تھانہ لے چلتا ہوں مگر اس وقت تو آپ کو ان بزرگ سے معافی مانگنی ہوگی ۔“ حمزہ راستہ میں چٹان کی طرح کھڑا تھا
”بیٹا جانے دیجئیے بی بی جی نے نقصان بھر دیا ہے بس اتنا ہی کافی ہے ۔۔“ وہ بزرگ حمزہ سے بولے
مگر حمزہ ٹس سے مس نہیں ہوا تو مریم زچ آکر اس ٹھیلے والے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
”ائی ایم ساری ۔۔“ پتھر کی طرح چند الفاظ مار کر وہ حمزہ کو دھکا دیتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر زن سے گاڑی بھگا کر لے گئی اب اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا اسی لئیے شاپنگ کا ارادہ ترک کرکے وہ واپس گھر کی جانب پلٹ گئی ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
سیٹرڈے کا دن تھا گڈو اور پپو دونوں گارڈن میں فٹ بال کھیل رہے تھے اور باہر بیٹھا چوکیدار ان دونوں بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھا حمزہ اندر آرام کررہا تھا ۔۔۔
گڈو اور پپو میں فٹ بال کا میچ جاری تھا ہری سرسبز گھاس پر وہ دونوں گول مٹول بچے آپس میں مگن تھے جب پپو گھاس پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا ۔۔
”کیا ہوا پپو موٹو اتنی جلدی تھک گئے ۔“ گڈو نے چڑایا
”مجھے پاپ کارن کھانے ہیں مووی دیکھنی ہے وہ فلائنگ کارز والی ۔۔۔“ پپو بسورا
”ٹھیک چلو چاچو کو جا کر بولتے ہیں ۔۔“ گڈو جوش میں آیا
”وہ ڈانٹیں گئے کہیں گئے پہلے پوئم یاد کرو ، ٹیبل سناؤ ..“ پپو نے دلگرفتی سے کہا
” چلو اندر چلو چاچو سے بات کرتے ہیں ۔۔“ وہ دونوں بال وہی گھاس پر چھوڑ کر گرتے پڑتے بڑے جوش میں اندر بھاگے بڑے سے بیڈروم میں حمزہ محو خواب تھا جب گڈو اور پپو کمرے میں داخل ہوئے اور اندر آکر بیڈ پر چڑھ گئے پپو تو اچک کر سوئے ہوئے حمزہ کے چوڑے سینے پر بیٹھ گیا اور گڈو صاحب حمزہ کے چہرے پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے زور دار چماٹے مارنے لگا حمزہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تو اسے جاگتا دیکھ کر گولوں سا پپو ہنس پڑا حمزہ نے سب سے پہلے گڈو کو اپنے دائیں بازو میں دبوچا اور بائیں میں پپو کو جکڑا ۔
”کیا بات ہے شیطانوں مجھے کیوں جگایا اور گڈو یار اتنے زور سے بھی کوئی مار کر جگاتا ہے ۔۔“ حمزہ نے دونوں کے گال باری باری چومے
”چاچو آج سیٹرڈے ہے ۔۔“ گڈو نے اسے آگاہ کیا
”مجھے معلوم ہے آج سیٹرڈے ہے تو پھر ؟ “ حمزہ نے سوالیہ نظروں سے دونوں شیطانوں کو گھورا .
” چاچو ہمیں باہر جانا ہے مووی دیکھنی ہے ۔۔“ پپو نے فرمائش داغی ۔
”اچھا مووی دیکھنی ہے ۔۔۔“ حمزہ ان دونوں کو دبوچے ہوئے اٹھ بیٹھا .
”جی چاچو اس میں بہت سی فائٹنگ ہے اور کار چیزنگ بھی ہے ڈشو ڈشو ۔۔۔“ گڈو نے جوش سے کہا
” اور چاچو اس میں جو لڑکی ہے نا اس کی بلیو آئیز ہیں مائی فیورٹ۔۔“ پپو نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں حمزہ کا چہرہ تھاما
”وہ بہت ہاٹ اور پریٹی ہے چاچو ۔۔“ گڈو نے لقمہ دیا
”بلیو آئیز ! ہاٹ ۔۔۔“ حمزہ نے شاک سے دونوں کو دیکھا
”سارے نمونے میری ہی قسمت میں ہیں ابے شرم کرو تم دونوں اس عمر میں لڑکیوں کو نہیں کارٹونز دیکھتے ہیں اسٹوری بکس پڑھتے ہیں گیم کھیلتے ہیں ۔۔“
” چاچو پلیز چلیں نا ۔۔۔“ گڈو روہانسا ہوا
”چلو نا چاچو ۔۔۔“ پپو نے رشوت کے طور پر اس کے گال پر کس کیا
”اچھا اچھا چلتے ہیں پر مووی نہیں ایسا کرتے ہیں پہلے مال چلتے ہیں ٹوائے شاپنگ کرتے ہیں پھر پلے لینڈ اور ڈنر بولو ٹھیک ہے ۔۔“ حمزہ نے پوچھا
پپو اور گڈو ٹوائے اور پلے لینڈ کا سن کر خوشی سے اچھل پڑے اور حمزہ سے لپٹ گئے ۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
اقبال صاحب میز پر بیٹھے تائی سے بات کررہے تھے ۔۔۔
”بیگم وقت کم ہے تم کل مریم کو لیکر کسی بہانے سے آفس لے آؤ میں وکیل صاحب کو بلوا لونگا تاکہ اس سے پیپر سائن کروا لئیے جائیں کیونکہ گھر میں تو کسی سے ملنے کو تیار نہیں ہورہی ہے ۔۔“ اقبال صاحب بولے
” اقبال صاحب آپ مجھ سے لکھوا لیں یہ لڑکی ہاتھ آنےوالی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پیپر سائن کرے گئی میری مانیں تو اسے چلتا کریں ۔۔“ تائی نخوت سے بولی
”تمہاری عقل واقعی گھاس چرنے گئی ہے یہ گھر آفس بزنس سب اس کے نام ہے ایک ذرا سی غلطی سے ہم سڑک پر آجائینگے ۔۔“ اقبال صاحب گرم ہوئے
” تو پھر کچھ اور سوچیں آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ مریم کتنی تیز اور چالاک ہے ۔۔۔“
”ٹھیک کہتی ہو یہ لڑکی بہت تیز ہے ۔“ اقبال صاحب بولے
”ایک دفعہ جائداد ہاتھ لگ جائے پھر دیکھنا اسے تیر کی طرح سیدھا نا کردیا تو ۔۔“ تائی عیاری سے بولی
”ٹھیک ہے بیگم ہم پکنک کا پروگرام بنا کر اسے بہانے سے شہر سے دور کسی فارم ہاؤس لیجاتے ہیں اور وہاں ڈرا دھمکا کر مریم کا نکاح زبردستی زوہیب سے کر کے اس چڑیا کے پر کاٹ دینگے ۔۔۔“ وہ اپنا شیطانی منصوبہ بنا رہے تھے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔