نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 20
مریم ماہین اور حمزہ کو باتیں کرتا چھوڑ کر خود کمرے میں آگئی تھی اسکا موڈ ہرگز بھی اس وچ باجی کے ساتھ باہر جانے کا نہیں تھا ہارر مووی کی تو حمزہ نے ایسی کی تیسی کر دی تھی اس لئیے اب وہ کمرے میں آکر بڑے آرام سے لحاف کو اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر قیلولہ کرنے لیٹ گئی تھی ۔۔۔ دوسری جانب گڈو اور پپو دونوں ہی حمزہ اور ماہین کو باتیں کرتے دیکھ رہے تھے بےبی کے جانے کے بعد وہ رکنا تو نہیں چاہتے تھے پر چاچو کو اس وچ کے ساتھ اکیلا بھی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔۔۔ ماہین نے مریم کا جانا نوٹ کرلیا تھا اور اب وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے حمزہ کو باتوں میں لگائے ہوئے تھی بار بار اپنی شرمندگی اور بیماری کا ذکر کئیے جارہی تھی ماہین کی آنکھوں سے جھلکتی وارفتگی حمزہ کی زیرک نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھی مگر اس وقت اس کے دل و دماغ کے سارے دھاگے مریم سے جڑے ہوئے تھے وہ آج اپنے اور مریم کے رشتہ کو ایک نیا موڑ دینا چاہتا تھا جس کیلئیے پہلے تو گڈو اور پپو کو وقت سے سلانا تھا پھر مریم کو ہرصورت منانا تھا اور اس پر ماہین کا باجا نان اسٹاپ بجے جا رہا تھا ۔۔۔
” مس ماہین ۔۔۔“ حمزہ نے اسے بیچ میں ٹوکا ۔
”مس ماہین ؟ آپ مجھے ایسے مخاطب کیوں کررہے ہیں کیا آپ ابھی بھی مجھ سے خفا ہیں ۔۔۔“ ماہین نے معصوميت کے سارے ریکارڈر توڑتے ہوئے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا ۔ ” دیکھئیے مس ۔۔۔ ”حمزہ میں آپ سب سے دوستی کرنا چاہتی ہوں اور آپ اجنبیوں کی طرح مخاطب کررہے ہیں آپ مجھے ماہی ، ماہو یا ہنی کہہ لہجئیے ۔“ ماہین نے اس کی بات کاٹ کرکہا
”اوکے ماہین ۔۔میں صبح سے باہر نکلا ہوا تھا تھک گیا ہو تھوڑا آرام کرونگا ۔۔۔“ حمزہ کھڑا ہوگیا
”چاچو آپ آرام کریں میں ہوں نا وچ کے پاس ۔۔۔۔“ گڈو بیچ میں بولا ۔ ”آؤ وچ تمہیں مووی دکھاؤں بہت مزے کی ہے ۔۔“ گڈو نے ماہین کو مخاطب کیا ۔
حمزہ لیونگ روم سے باہر نکل چکا تھا اب وہاں ماہین کیلئیے کوئی اٹریکشن نہیں تھی اس نے گڈو پر ایک کڑی نظر ڈالی ۔۔
”سوری میں موویز نہیں دیکھتی ۔۔۔ ” وچ تم موویز نہیں دیکھتی ہو تو پھر کیا ڈرامے دیکھتی ہو ۔۔“ گڈو نے پوچھا ”میں کچھ نہیں دیکھتی ۔۔“ ماہین زچ آکر بولی ۔
”او گاڈ تم تو بہت غریب لڑکی ہو تمہارے گھر کیبل ٹی وی نہیں ہے چچچ چچچ ۔۔۔“ گڈو نے گردن ہلاتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا ۔ ”مگر وچ پھر تمہیں میرے چاچو کو پٹانے کے آئیڈیاز کدھر سے آتے ہیں ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
ماہین نے گھور کر اپنی عمر سے کہی زیادہ میچیور گڈو کو دیکھا
”میرے گھر کے ایک ایک کمرے میں ٹی وی کیبل سب ہے ۔۔۔“ ماہین غصہ دبا کر بولی
”تو پھر جھوٹ کیوں بولا ! اچھا اچھا تم لیڈی ولن ہونا اور ولن تو جھوٹے ہوتے ہیں اور بار بار گردن گھما کر اپنی بات رپیٹ کرتے ہیں اور ہیرو کو پٹانا ہی تو ولن آنٹی کا کام ہوتا ہے اور پتہ ہے ولن آنٹی جب سو کے اٹھتی ہے نا تو اس کے بھی لپس ڈریکولا کی طرح ریڈ ہوتے ہیں اور تمہارے بھی ۔۔“ گڈو نے سر دھنا ”وچ کیا تم بھی کالی ماتا ٹائپ ریلیجن سے ہو ؟ “
ماہین دل ہی دل میں گڈو پر لعنت بھیجتی واک آؤٹ کرگئی
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین سے جان چھڑا کر حمزہ مریم کو ڈھونڈتا کچن تک گیا پر پورا کچن سائیں سائیں کررہا تھا وہ پلٹا اب اسکا رخ بیڈروم کی جانب تھا کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا پورے کمرے میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا کھڑکیوں پر گہرے دبیز پردے گرے ہوئے تھے اور لائٹس آف تھی اور مریم بیڈ کے کونے پر کمبل کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹے لیٹی ہوئی تھی ۔۔
حمزہ نے آگے بڑھ کر کھڑکی سے پردے ہٹائے تو دن کی روشنی چھن چھن کر اندر آنے لگی وہ مڑا اور بیڈ کے کنارے جگہ بنا کر بڑے اسٹائل سے بیٹھ کر اسنے مریم کو مخاطب کیا ۔۔
”مریم سوگئی ہوکیا ۔۔۔۔ پر مریم جو اس کی آمد محسوس کرچکی تھی ڈھیٹ بنی لیٹی رہی ۔۔۔ ” مریم اٹھو مجھے تم سے کچھ اہم باتیں کرنی ہیں ۔۔۔“ حمزہ نے کہتے ہوئے ساتھ ہی اس کے منہ پر سے بلینکٹ کھینچ لیا ۔
مریم نے اپنی دونوں آنکھیں بچوں کی طرح میچ لی تھیں اور حمزہ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا آج تک اتنے قریب سے مریم کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔۔۔
کالے سیاہ چمکتے بالوں کے درمیان چمکتا گلابی چہرہ جس پر گھنی لرزتی پلکیں سایہ فگن تھی مریم اس کے دل کی سلطنت پر بڑی شان سے برآجمان ہوچکی تھی یہ لڑکی اس کی بیوی تھی اس کی عزت تھی اور اب محبت بھی ۔۔۔
” یار اب اٹھ بھی جاؤ کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں تم کچن میں نہیں تھی پھر ادھر آیا تو سوئی پڑی رہنے کا ڈرامہ کررہی ہو ۔۔“ حمزہ نے جھک کر اس کی بند آنکھوں پر پھونک ماری ۔
مریم حمزہ کی اس حرکت پر جل بھن گئی اور تیزی سے اٹھی ہی تھی کہ اسکا نازک سا سر خود پر جھکے حمزہ کی پتھر جیسی پیشانی سے ٹکرایا ۔۔ ”ہائے اللہ جی ۔۔۔۔“ وہ سر پکڑ کر رہ گئی ۔ ”ڈرامے کرو گی تو اللہ ایسے ہی سزا دیگا دکھاؤ مجھے زور سے تو نہیں لگی ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے ہاتھ اپنی گرفت میں لیکر ماتھے سے ہٹائے ۔
حمزہ بغور اس کی صبیح پیشانی دیکھ رہا تھا جس پر گھبراہٹ سے پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے ۔۔۔۔
”مریم واللہ تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔۔“ حمزہ بیخودی سے کہتا اس کے چہرے پر جھکنے لگا تھا کہ کمرے کا دروازہ دھپ سے کھلا اور بال کی طرح لڑھکتا ہوا گول مٹول پپو اندر داخل ہوا ۔
پپو حسب عادت بیڈ شیٹ کو ہاتھوں میں دبوچ کر بیڈ پر اچک کر چڑھا اور حمزہ کو ٹیک اوور کرتے زبردستی گھس کر حمزہ اور مریم کے بیچ میں بیٹھ گیا ۔
”بے بی جلدی چلو ہمیں کالی ماتا بنانی ہے ۔۔۔“ پپو نے اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔ ” پپو “ حمزہ نے شاک سے اسے دیکھا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب یہ دونوں اسے کرنٹ نہ مارتے ہوں ”بیٹا یہ کالی ماتا کیا ہے ہم مسلمان ہیں کلمہ پڑھنے والے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے گود میں لینا چاہا ۔
”چاچو ابھی پتہ چلا ہے وہ وچ باجی کالی ماتا ہے اب ہمیں اس کے سر پر بکرے جیسے سینگ بنانے ہیں ۔۔۔“ پپو نے حمزہ کو جواب دیا اور خود دوبارہ مریم کی جانب متوجہ ہوا ۔
”بےبی چلو گڈو ویٹ کرہا ہے ۔۔
”مگر تم لوگ اس وچ آئی مین ماہین کے سینگ کیسے اگاؤ گئے ۔۔۔“ حمزہ نے بھنویں اچکا کر ان شیطانوں کا اردہ جانا چاہا
”چاچو بےبی ہمیں کچن سے لوہے کی راڈ نکال کر دے گی جس پر آپ کباب بناتے ہیں پھر گڈو اسے وچ کے سر میں ٹھونک دیگا ڈھم ڈھم کرکے ۔۔۔“ پپو نے اس ناسمجھ کو ہاتھ سے ہتھوڑے چلانے کا اشارہ کرکے سمجھایا ” یا اللہ یہ دو دھشت گرد “ حمزہ انکا ارداہ جان کر لرز اٹھا ”پپو چلو اپنے کمرے میں ، میں گڈو کو بھی بلاتا ہوں اب سوجاؤ ۔۔۔“ حمزہ سختی سے بولا
”چاچو ابھی نیننی نہیں کرنی ابھی تو ڈنر بھی نہیں ہوا ۔۔۔“ پپو نے منہ بسورا
”اچھے بچے بحث نہیں کرتے ابھی تھوڑا آرام کرلو پھر رات کو پیزا منگوا کر دونگا ۔“ حمزہ نے لالچ دیا
”بے بی ہیلپ می ۔۔۔“ پپو نے مریم کو پکارا
اس سے پہلے پپو کی بےبی تڑپ کر پپو کے چاچا کے ارمانوں کا خون کرتی حمزہ جلدی سے بول اٹھا ۔۔ ”پپو بےبی کے چوٹ لگی ہے اسے آرام کرنے دو ۔۔۔“ پپو کی تو اپنی بےبی کے چوٹ لگنے کی سن کر ساری باپتا امنڈ آئی وہ حمزہ کو کراس کر کے مریم کے پہلوں میں آیا ۔۔
”بےبی چوٹ کدھر ہے ۔۔۔۔“ بڑی تشویش سے پوچھا
مریم بھی اپنے ہمدرد کو دیکھ کر پھیل گئی اور اپنے ماتھے کی جانب اشارہ کیا ۔
پپو نے بڑے پیار سے اسکے ماتھے پر کس کیا
”اب ٹھیک ہوگئی ۔۔۔۔“ اس نے معصوميت سے پوچھا مریم نے اتنے معصوم اور اپنایت بھرے انداز پر جذبات سے مغلوب ہوکر پپو کو اپنے اندر بھینچا ۔ ” پپو بیٹا اب میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں چلو چل کر گڈو کو دیکھتے ہیں ۔۔۔“ مریم اسے گود میں لیکر کھڑی ہوتے ہوئے بولی ۔
”کدھر میڈم ! تم ادھر آرام کرو میں گڈو اور پپو کو دیکھ لونگا ۔۔۔“ حمزہ نے اسکا راستہ روکا
”آخر میرے آرام پر اتنا زور کیوں ہے کہیں مجھے سوتے میں قتل کرکے اس کالی ماتا کے ساتھ دال میں کچھ کالا کالا کرنے کا اردہ تو نہیں ہے ۔۔۔“ مریم نے حمزہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا
”استغفراللہ تم اور تمہارے یہ دو چیلے تم لوگوں کے منہ لگنا ہی نہیں چاہئیے جاؤ جاکر اپنے موٹے بلے کو ماہین کا خون کرنے سے بچاؤ ورنہ جتنا میں اسے جانتا ہوں وہ اس کے سر میں سیخیں ٹھوکے بغیر نہیں مانے گا ۔۔“ حمزہ کروٹ لیکر لیٹ گیا ۔
”ہونہہ “مریم ہنکارا بھر کر پپو کو گود میں اٹھائے باہر جانے لگی کہ پیچھے سے حمزہ نے آواز لگائی ”سنو کھانے میں سندھی بریانی اور چپلی کباب بنا لینا اور سلاد رائتہ ساتھ میں ۔۔۔“ مریم تیزی سے پلٹی
”وہ پیزا ! اس کا کیا ہوا میں اتنا مشکل کھانا کیسے پکاؤنگی ۔۔۔۔“
”پیزا تمہاری عقل بندی کی نظر ہوچکا میں ویسے ہی بہت پک چکا ہوں اس لئیے جاؤ اور کھانا پکاؤ ۔۔۔“حمزہ روڈلی بول کر منہ پر تکیہ رکھ کر لیٹ گیا ۔ مریم اس سنگدل کو غصہ سے دیکھتی باہر چلی گئی کیا فائدہ ایسے عاشق کا جسے ہر وقت کھانا ہی سوجھتا ہے
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو دونوں کو لیکر باہر گارڈن میں جھولے پر لے آئی تھی اور بڑی مشکل سے ان کو کالی ماتا کے سر پر سینگ اگانے سے روکا تھا کافی دیر تک کھیل کود کے بعد تینوں اندر آئے بچوں کو انکے کمرے میں بھیج کر اب وہ خود کچن میں تھی کافی دیر تک یو ٹیوب پر سندھی بریانی کو سرچ کرتی رہی پھر بالآخر ایک ترکیب کو سلیکٹ کرکے کام شروع کیا مارے بندھے ہی سہی پر بریانی بن گئی تھی بس کبابوں کا کچومر بن گیا تھا پر کچومر سے کیا ہوتا ہے ذائقہ تو اچھا ہے یہ سوچ کر وہ خود کو تسلی دیتی سب کو کھانے کیلئیے بلانے باہر گئی ۔۔ ” گڈو شاباش بھاگ کے جاؤ اور اس بچ کو ڈنر پر بلا لاؤ اور پپو تم ۔۔۔“ اس نے پپو کو دیکھا جس کے سارے ہاتھ اور منہ پر چاکلیٹ لگی ہوئی تھی ۔ ”پپو اٹھو میں تمہارے ہاتھ منہ دھلوا دوں ۔۔۔۔“ وہ پپو کو کھڑا کرتے ہوئے بولی
پپو کو تیار کرکے کچن روانہ کیا اور حمزہ کو اٹھانے آئی ۔۔
”حمزہ اٹھو کھانا کھا لو ۔۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی حمزہ ٹس سے مس نہیں ہوا اس کے خراٹے جاری تھے مریم نےقریب آکر اسکا بازو جھنجھوڑا ۔ ”حمزہ کے بچے اٹھو کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے میں ہرگز دوبارہ گرم نہیں کرونگی ۔۔۔۔
حمزہ جو خواب میں اپنے ہنی مون پر تھا مریم کے جھنجھوڑنے پر آنکھ مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا
” آخر پرابلم کیا ہے تمہارے ساتھ نہ جاگتے میں پاس آتی ہو اور نہ خواب میں پاس آنے دیتی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے بیٹھ کر ایک طویل انگڑائی لی ۔ ”جلد
ی آؤ سب کچن میں تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔۔۔“ مریم اسے ہدایت دیتی جانے لگی تھی جب حمزہ نے سرعت سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ایک جھٹکے سے اپنے پاس بٹھایا ۔۔
”مسز حمزہ ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ”کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تم مجھ سے بچنے کی ناکام کوششیں کیوں کررہی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی کلائی پر دباؤ ڈالا ” حمزہ سب انتظار کررہے ہیں ۔۔۔۔“
”کوئی پروا نہیں تم مجھے میرے سوال کا جواب دو ورنہ آج کی تاریخ میں تم ادھر سے نہیں ہل سکو گئی۔۔۔“
”پلیز چھوڑ دو ۔۔۔۔ “ مریم کی آنکھوں میں نمی اتر آئی جسے حمزہ نے بڑے پیار سے صاف کیا ”نہی
ں مریم مجھے میرے سوال کا جواب دو ، میں تمہیں اپنا مان چکا ہوں محبت کرنے لگا ہوں اور لگتا ہے عشق بھی ہوجائیگا ۔۔۔
”مجھے ۔۔۔۔“ مریم کے لب کپکپکائے ”مجھے کیا ۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا ”وہ مجھے ۔۔۔کیا ہے خود سمجھ جاؤ مجھے تنگ مت کرو ۔۔۔“ مریم نے تنک کر کہا اور کھڑی ہوگئی
”اب چلو بھی اور ہمت ہے تو میرے شیر بچوں کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر دکھانا ۔۔“ مریم نے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی ۔
”اوکے ڈارلنگ بےبی اب بچے تو کیا ساری دنیا کے سامنے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اپنے حصار میں لونگا بس ایک دن اور میری جان ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی کلائ آزاد کی ماہین ساری رپورٹ اپنے بہنوئی کمشنر احمد کو دے چکی تھی اور ریسٹورانٹ کا نام اور ٹائمنگ بھی نوٹ کروا چکی تھی بس اب کل کا انتظار تھا جب وہ ڈنر کے بہانے ان سب کو باہر لیکر جاتی اور اس اوپن ریسٹورانٹ میں مریم کو اسکے تایا کے بھیجے غنڈے گولی کا نشانہ بنا لیتے ۔۔۔ ”احمد بھائی خیال رکھئیے گا گولی مریم کو لگنی چاہئیے حمزہ کو نہیں ۔۔۔“ ماہین نے ایک بار پھر ریمائنڈ کروایا ۔۔۔
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور گڈو اندر آیا ۔۔
” وچ بےبی ڈنر کیلئیے بلا رہی ہے ۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ بھاگ گیا اور ماہین شیشہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا حلیہ درست کرنے لگی ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی حمزہ بچوں کو سلانے ان کے کمرے میں تھا سب سے پہلے مریم نے بیڈ پر تکیوں اور کشنز سے سرحد بنائی پھر کمبل میں سر سے پیر تک پیک ہو کر سونے لیٹ گئی ۔۔
پپو سو چکا تھا اب حمزہ کی توجہ گڈو پر تھی ۔
”گڈو اب سو جاؤ کل بہت بزی ڈے ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے سر ہر ہاتھ پھیرا گڈو
بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
”چاچو ! کل وچ کے ساتھ ڈنر پر نہیں جانا وہ گندی ہے کرمنل ہے ۔۔۔ “ گڈو حد سے زیادہ سنجیدہ تھا ۔ ”بری بات گڈو وہ گیسٹ ہے ایک دو روز میں اپنے گھر چلی جائیگی ۔۔“ حمزہ نے ٹوکا ”چاچو وہ فون پر ریسٹورانٹ میں بےبی کو گولی مارنے کی بات کررہی تھی ۔۔۔“ گڈو نے اسے آگاہ کرنا چاہا
”گڈو تم اور بےبی اسے تنگ بھی تو بہت کرتے ہو ہوسکتا ہے وہ اپنی سسٹر سے غصہ میں بول رہی ہو ۔۔۔ “
”چاچو آپ ۔۔۔“ ”چاچو کے بھتیجے میں ہو نا کچھ نہیں ہوگا تمہاری بےبی کو اب تم جلدی سے سو جاؤ ۔۔۔“ حمزہ اسے بلینکٹ اوڑھا کر تھپکنے لگا ۔
گڈو کے سونے کے بعد حمزہ لائٹ آف کرکے باہر نکلا اس کے وجیہہ چہرے پر بلا کی کرختگی تھی۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” مس ماہین ۔۔۔“ حمزہ نے اسے بیچ میں ٹوکا ۔
”مس ماہین ؟ آپ مجھے ایسے مخاطب کیوں کررہے ہیں کیا آپ ابھی بھی مجھ سے خفا ہیں ۔۔۔“ ماہین نے معصوميت کے سارے ریکارڈر توڑتے ہوئے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا ۔ ” دیکھئیے مس ۔۔۔ ”حمزہ میں آپ سب سے دوستی کرنا چاہتی ہوں اور آپ اجنبیوں کی طرح مخاطب کررہے ہیں آپ مجھے ماہی ، ماہو یا ہنی کہہ لہجئیے ۔“ ماہین نے اس کی بات کاٹ کرکہا
”اوکے ماہین ۔۔میں صبح سے باہر نکلا ہوا تھا تھک گیا ہو تھوڑا آرام کرونگا ۔۔۔“ حمزہ کھڑا ہوگیا
”چاچو آپ آرام کریں میں ہوں نا وچ کے پاس ۔۔۔۔“ گڈو بیچ میں بولا ۔ ”آؤ وچ تمہیں مووی دکھاؤں بہت مزے کی ہے ۔۔“ گڈو نے ماہین کو مخاطب کیا ۔
حمزہ لیونگ روم سے باہر نکل چکا تھا اب وہاں ماہین کیلئیے کوئی اٹریکشن نہیں تھی اس نے گڈو پر ایک کڑی نظر ڈالی ۔۔
”سوری میں موویز نہیں دیکھتی ۔۔۔ ” وچ تم موویز نہیں دیکھتی ہو تو پھر کیا ڈرامے دیکھتی ہو ۔۔“ گڈو نے پوچھا ”میں کچھ نہیں دیکھتی ۔۔“ ماہین زچ آکر بولی ۔
”او گاڈ تم تو بہت غریب لڑکی ہو تمہارے گھر کیبل ٹی وی نہیں ہے چچچ چچچ ۔۔۔“ گڈو نے گردن ہلاتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا ۔ ”مگر وچ پھر تمہیں میرے چاچو کو پٹانے کے آئیڈیاز کدھر سے آتے ہیں ۔۔۔“ گڈو نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
ماہین نے گھور کر اپنی عمر سے کہی زیادہ میچیور گڈو کو دیکھا
”میرے گھر کے ایک ایک کمرے میں ٹی وی کیبل سب ہے ۔۔۔“ ماہین غصہ دبا کر بولی
”تو پھر جھوٹ کیوں بولا ! اچھا اچھا تم لیڈی ولن ہونا اور ولن تو جھوٹے ہوتے ہیں اور بار بار گردن گھما کر اپنی بات رپیٹ کرتے ہیں اور ہیرو کو پٹانا ہی تو ولن آنٹی کا کام ہوتا ہے اور پتہ ہے ولن آنٹی جب سو کے اٹھتی ہے نا تو اس کے بھی لپس ڈریکولا کی طرح ریڈ ہوتے ہیں اور تمہارے بھی ۔۔“ گڈو نے سر دھنا ”وچ کیا تم بھی کالی ماتا ٹائپ ریلیجن سے ہو ؟ “
ماہین دل ہی دل میں گڈو پر لعنت بھیجتی واک آؤٹ کرگئی
**************************for more books – urdunovels.info
ماہین سے جان چھڑا کر حمزہ مریم کو ڈھونڈتا کچن تک گیا پر پورا کچن سائیں سائیں کررہا تھا وہ پلٹا اب اسکا رخ بیڈروم کی جانب تھا کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا پورے کمرے میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا کھڑکیوں پر گہرے دبیز پردے گرے ہوئے تھے اور لائٹس آف تھی اور مریم بیڈ کے کونے پر کمبل کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹے لیٹی ہوئی تھی ۔۔
حمزہ نے آگے بڑھ کر کھڑکی سے پردے ہٹائے تو دن کی روشنی چھن چھن کر اندر آنے لگی وہ مڑا اور بیڈ کے کنارے جگہ بنا کر بڑے اسٹائل سے بیٹھ کر اسنے مریم کو مخاطب کیا ۔۔
”مریم سوگئی ہوکیا ۔۔۔۔ پر مریم جو اس کی آمد محسوس کرچکی تھی ڈھیٹ بنی لیٹی رہی ۔۔۔ ” مریم اٹھو مجھے تم سے کچھ اہم باتیں کرنی ہیں ۔۔۔“ حمزہ نے کہتے ہوئے ساتھ ہی اس کے منہ پر سے بلینکٹ کھینچ لیا ۔
مریم نے اپنی دونوں آنکھیں بچوں کی طرح میچ لی تھیں اور حمزہ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا آج تک اتنے قریب سے مریم کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔۔۔
کالے سیاہ چمکتے بالوں کے درمیان چمکتا گلابی چہرہ جس پر گھنی لرزتی پلکیں سایہ فگن تھی مریم اس کے دل کی سلطنت پر بڑی شان سے برآجمان ہوچکی تھی یہ لڑکی اس کی بیوی تھی اس کی عزت تھی اور اب محبت بھی ۔۔۔
” یار اب اٹھ بھی جاؤ کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں تم کچن میں نہیں تھی پھر ادھر آیا تو سوئی پڑی رہنے کا ڈرامہ کررہی ہو ۔۔“ حمزہ نے جھک کر اس کی بند آنکھوں پر پھونک ماری ۔
مریم حمزہ کی اس حرکت پر جل بھن گئی اور تیزی سے اٹھی ہی تھی کہ اسکا نازک سا سر خود پر جھکے حمزہ کی پتھر جیسی پیشانی سے ٹکرایا ۔۔ ”ہائے اللہ جی ۔۔۔۔“ وہ سر پکڑ کر رہ گئی ۔ ”ڈرامے کرو گی تو اللہ ایسے ہی سزا دیگا دکھاؤ مجھے زور سے تو نہیں لگی ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے ہاتھ اپنی گرفت میں لیکر ماتھے سے ہٹائے ۔
حمزہ بغور اس کی صبیح پیشانی دیکھ رہا تھا جس پر گھبراہٹ سے پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے ۔۔۔۔
”مریم واللہ تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔۔“ حمزہ بیخودی سے کہتا اس کے چہرے پر جھکنے لگا تھا کہ کمرے کا دروازہ دھپ سے کھلا اور بال کی طرح لڑھکتا ہوا گول مٹول پپو اندر داخل ہوا ۔
پپو حسب عادت بیڈ شیٹ کو ہاتھوں میں دبوچ کر بیڈ پر اچک کر چڑھا اور حمزہ کو ٹیک اوور کرتے زبردستی گھس کر حمزہ اور مریم کے بیچ میں بیٹھ گیا ۔
”بے بی جلدی چلو ہمیں کالی ماتا بنانی ہے ۔۔۔“ پپو نے اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔ ” پپو “ حمزہ نے شاک سے اسے دیکھا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب یہ دونوں اسے کرنٹ نہ مارتے ہوں ”بیٹا یہ کالی ماتا کیا ہے ہم مسلمان ہیں کلمہ پڑھنے والے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے گود میں لینا چاہا ۔
”چاچو ابھی پتہ چلا ہے وہ وچ باجی کالی ماتا ہے اب ہمیں اس کے سر پر بکرے جیسے سینگ بنانے ہیں ۔۔۔“ پپو نے حمزہ کو جواب دیا اور خود دوبارہ مریم کی جانب متوجہ ہوا ۔
”بےبی چلو گڈو ویٹ کرہا ہے ۔۔
”مگر تم لوگ اس وچ آئی مین ماہین کے سینگ کیسے اگاؤ گئے ۔۔۔“ حمزہ نے بھنویں اچکا کر ان شیطانوں کا اردہ جانا چاہا
”چاچو بےبی ہمیں کچن سے لوہے کی راڈ نکال کر دے گی جس پر آپ کباب بناتے ہیں پھر گڈو اسے وچ کے سر میں ٹھونک دیگا ڈھم ڈھم کرکے ۔۔۔“ پپو نے اس ناسمجھ کو ہاتھ سے ہتھوڑے چلانے کا اشارہ کرکے سمجھایا ” یا اللہ یہ دو دھشت گرد “ حمزہ انکا ارداہ جان کر لرز اٹھا ”پپو چلو اپنے کمرے میں ، میں گڈو کو بھی بلاتا ہوں اب سوجاؤ ۔۔۔“ حمزہ سختی سے بولا
”چاچو ابھی نیننی نہیں کرنی ابھی تو ڈنر بھی نہیں ہوا ۔۔۔“ پپو نے منہ بسورا
”اچھے بچے بحث نہیں کرتے ابھی تھوڑا آرام کرلو پھر رات کو پیزا منگوا کر دونگا ۔“ حمزہ نے لالچ دیا
”بے بی ہیلپ می ۔۔۔“ پپو نے مریم کو پکارا
اس سے پہلے پپو کی بےبی تڑپ کر پپو کے چاچا کے ارمانوں کا خون کرتی حمزہ جلدی سے بول اٹھا ۔۔ ”پپو بےبی کے چوٹ لگی ہے اسے آرام کرنے دو ۔۔۔“ پپو کی تو اپنی بےبی کے چوٹ لگنے کی سن کر ساری باپتا امنڈ آئی وہ حمزہ کو کراس کر کے مریم کے پہلوں میں آیا ۔۔
”بےبی چوٹ کدھر ہے ۔۔۔۔“ بڑی تشویش سے پوچھا
مریم بھی اپنے ہمدرد کو دیکھ کر پھیل گئی اور اپنے ماتھے کی جانب اشارہ کیا ۔
پپو نے بڑے پیار سے اسکے ماتھے پر کس کیا
”اب ٹھیک ہوگئی ۔۔۔۔“ اس نے معصوميت سے پوچھا مریم نے اتنے معصوم اور اپنایت بھرے انداز پر جذبات سے مغلوب ہوکر پپو کو اپنے اندر بھینچا ۔ ” پپو بیٹا اب میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں چلو چل کر گڈو کو دیکھتے ہیں ۔۔۔“ مریم اسے گود میں لیکر کھڑی ہوتے ہوئے بولی ۔
”کدھر میڈم ! تم ادھر آرام کرو میں گڈو اور پپو کو دیکھ لونگا ۔۔۔“ حمزہ نے اسکا راستہ روکا
”آخر میرے آرام پر اتنا زور کیوں ہے کہیں مجھے سوتے میں قتل کرکے اس کالی ماتا کے ساتھ دال میں کچھ کالا کالا کرنے کا اردہ تو نہیں ہے ۔۔۔“ مریم نے حمزہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا
”استغفراللہ تم اور تمہارے یہ دو چیلے تم لوگوں کے منہ لگنا ہی نہیں چاہئیے جاؤ جاکر اپنے موٹے بلے کو ماہین کا خون کرنے سے بچاؤ ورنہ جتنا میں اسے جانتا ہوں وہ اس کے سر میں سیخیں ٹھوکے بغیر نہیں مانے گا ۔۔“ حمزہ کروٹ لیکر لیٹ گیا ۔
”ہونہہ “مریم ہنکارا بھر کر پپو کو گود میں اٹھائے باہر جانے لگی کہ پیچھے سے حمزہ نے آواز لگائی ”سنو کھانے میں سندھی بریانی اور چپلی کباب بنا لینا اور سلاد رائتہ ساتھ میں ۔۔۔“ مریم تیزی سے پلٹی
”وہ پیزا ! اس کا کیا ہوا میں اتنا مشکل کھانا کیسے پکاؤنگی ۔۔۔۔“
”پیزا تمہاری عقل بندی کی نظر ہوچکا میں ویسے ہی بہت پک چکا ہوں اس لئیے جاؤ اور کھانا پکاؤ ۔۔۔“حمزہ روڈلی بول کر منہ پر تکیہ رکھ کر لیٹ گیا ۔ مریم اس سنگدل کو غصہ سے دیکھتی باہر چلی گئی کیا فائدہ ایسے عاشق کا جسے ہر وقت کھانا ہی سوجھتا ہے
**************************for more books – urdunovels.info
مریم گڈو اور پپو دونوں کو لیکر باہر گارڈن میں جھولے پر لے آئی تھی اور بڑی مشکل سے ان کو کالی ماتا کے سر پر سینگ اگانے سے روکا تھا کافی دیر تک کھیل کود کے بعد تینوں اندر آئے بچوں کو انکے کمرے میں بھیج کر اب وہ خود کچن میں تھی کافی دیر تک یو ٹیوب پر سندھی بریانی کو سرچ کرتی رہی پھر بالآخر ایک ترکیب کو سلیکٹ کرکے کام شروع کیا مارے بندھے ہی سہی پر بریانی بن گئی تھی بس کبابوں کا کچومر بن گیا تھا پر کچومر سے کیا ہوتا ہے ذائقہ تو اچھا ہے یہ سوچ کر وہ خود کو تسلی دیتی سب کو کھانے کیلئیے بلانے باہر گئی ۔۔ ” گڈو شاباش بھاگ کے جاؤ اور اس بچ کو ڈنر پر بلا لاؤ اور پپو تم ۔۔۔“ اس نے پپو کو دیکھا جس کے سارے ہاتھ اور منہ پر چاکلیٹ لگی ہوئی تھی ۔ ”پپو اٹھو میں تمہارے ہاتھ منہ دھلوا دوں ۔۔۔۔“ وہ پپو کو کھڑا کرتے ہوئے بولی
پپو کو تیار کرکے کچن روانہ کیا اور حمزہ کو اٹھانے آئی ۔۔
”حمزہ اٹھو کھانا کھا لو ۔۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی حمزہ ٹس سے مس نہیں ہوا اس کے خراٹے جاری تھے مریم نےقریب آکر اسکا بازو جھنجھوڑا ۔ ”حمزہ کے بچے اٹھو کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے میں ہرگز دوبارہ گرم نہیں کرونگی ۔۔۔۔
حمزہ جو خواب میں اپنے ہنی مون پر تھا مریم کے جھنجھوڑنے پر آنکھ مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا
” آخر پرابلم کیا ہے تمہارے ساتھ نہ جاگتے میں پاس آتی ہو اور نہ خواب میں پاس آنے دیتی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے بیٹھ کر ایک طویل انگڑائی لی ۔ ”جلد
ی آؤ سب کچن میں تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔۔۔“ مریم اسے ہدایت دیتی جانے لگی تھی جب حمزہ نے سرعت سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ایک جھٹکے سے اپنے پاس بٹھایا ۔۔
”مسز حمزہ ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ”کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تم مجھ سے بچنے کی ناکام کوششیں کیوں کررہی ہو ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی کلائی پر دباؤ ڈالا ” حمزہ سب انتظار کررہے ہیں ۔۔۔۔“
”کوئی پروا نہیں تم مجھے میرے سوال کا جواب دو ورنہ آج کی تاریخ میں تم ادھر سے نہیں ہل سکو گئی۔۔۔“
”پلیز چھوڑ دو ۔۔۔۔ “ مریم کی آنکھوں میں نمی اتر آئی جسے حمزہ نے بڑے پیار سے صاف کیا ”نہی
ں مریم مجھے میرے سوال کا جواب دو ، میں تمہیں اپنا مان چکا ہوں محبت کرنے لگا ہوں اور لگتا ہے عشق بھی ہوجائیگا ۔۔۔
”مجھے ۔۔۔۔“ مریم کے لب کپکپکائے ”مجھے کیا ۔۔۔“ حمزہ نے پوچھا ”وہ مجھے ۔۔۔کیا ہے خود سمجھ جاؤ مجھے تنگ مت کرو ۔۔۔“ مریم نے تنک کر کہا اور کھڑی ہوگئی
”اب چلو بھی اور ہمت ہے تو میرے شیر بچوں کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر دکھانا ۔۔“ مریم نے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی ۔
”اوکے ڈارلنگ بےبی اب بچے تو کیا ساری دنیا کے سامنے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اپنے حصار میں لونگا بس ایک دن اور میری جان ۔۔۔“ حمزہ نے اس کی کلائ آزاد کی ماہین ساری رپورٹ اپنے بہنوئی کمشنر احمد کو دے چکی تھی اور ریسٹورانٹ کا نام اور ٹائمنگ بھی نوٹ کروا چکی تھی بس اب کل کا انتظار تھا جب وہ ڈنر کے بہانے ان سب کو باہر لیکر جاتی اور اس اوپن ریسٹورانٹ میں مریم کو اسکے تایا کے بھیجے غنڈے گولی کا نشانہ بنا لیتے ۔۔۔ ”احمد بھائی خیال رکھئیے گا گولی مریم کو لگنی چاہئیے حمزہ کو نہیں ۔۔۔“ ماہین نے ایک بار پھر ریمائنڈ کروایا ۔۔۔
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور گڈو اندر آیا ۔۔
” وچ بےبی ڈنر کیلئیے بلا رہی ہے ۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ بھاگ گیا اور ماہین شیشہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا حلیہ درست کرنے لگی ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی حمزہ بچوں کو سلانے ان کے کمرے میں تھا سب سے پہلے مریم نے بیڈ پر تکیوں اور کشنز سے سرحد بنائی پھر کمبل میں سر سے پیر تک پیک ہو کر سونے لیٹ گئی ۔۔
پپو سو چکا تھا اب حمزہ کی توجہ گڈو پر تھی ۔
”گڈو اب سو جاؤ کل بہت بزی ڈے ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اس کے سر ہر ہاتھ پھیرا گڈو
بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
”چاچو ! کل وچ کے ساتھ ڈنر پر نہیں جانا وہ گندی ہے کرمنل ہے ۔۔۔ “ گڈو حد سے زیادہ سنجیدہ تھا ۔ ”بری بات گڈو وہ گیسٹ ہے ایک دو روز میں اپنے گھر چلی جائیگی ۔۔“ حمزہ نے ٹوکا ”چاچو وہ فون پر ریسٹورانٹ میں بےبی کو گولی مارنے کی بات کررہی تھی ۔۔۔“ گڈو نے اسے آگاہ کرنا چاہا
”گڈو تم اور بےبی اسے تنگ بھی تو بہت کرتے ہو ہوسکتا ہے وہ اپنی سسٹر سے غصہ میں بول رہی ہو ۔۔۔ “
”چاچو آپ ۔۔۔“ ”چاچو کے بھتیجے میں ہو نا کچھ نہیں ہوگا تمہاری بےبی کو اب تم جلدی سے سو جاؤ ۔۔۔“ حمزہ اسے بلینکٹ اوڑھا کر تھپکنے لگا ۔
گڈو کے سونے کے بعد حمزہ لائٹ آف کرکے باہر نکلا اس کے وجیہہ چہرے پر بلا کی کرختگی تھی۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply