نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 3
مریم جب سے واپس آئی تھی کمرے میں بند تھی ملازمہ اسے لنچ کیلئیے بلانے آئی تو اس نے سختی سے منع کردیا تھا اسے رہ رہ کر اس جوان پر غصہ آرہا تھا جس نے اسے یعنی مریم شاہ کو اس معمولی ٹھیلے والے سے معافی مانگنے پر مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔
وقت کافی گزر چکا تھا جب اس کے دروازے پر دستک ہوئی اور اجازت لیکر تایا انکل اور تائی اندر داخل ہوئے ۔۔۔
”کیا بات ہے بٹیا آج لنچ پر نہیں آئی طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔“ اقبال تایا نے تشویش سے پوچھا
” بس تایا انکل موڈ نہیں تھا ۔۔“ مریم نے بجھے لہجے میں جواب دیا
”کمرے میں بند رہوگئی تو بیمار ہوجاؤگی چلو اٹھو ابھی زوہیب آتا ہوگا کہی باہر آؤٹنگ پر چلتے ہیں ۔۔“ تائی امی بڑے پیار سے بولی
مریم بال سمیٹتی ہوئی اٹھی ۔۔۔
”تایا انکل ! آپ کل پاپا کے وکیل کو بلوالیں میں پیپرز چیک کرنا چاہتی ہوں اور میری واپسی کی سیٹ بھی بک کروادیں ۔۔۔“ مریم قطعی لہجے میں کہتی ایکسکیوز کرتی واش روم چلی گئی
”دیکھا آپ نے میں نے کہا تھا نا کہ یہ لڑکی بہت چالاک ہے ۔۔۔“ تائی نے سرگوشی کی
”چپ کرو مجھے سوچنے دو اسے کسی بھی طرح بھائی صاحب مرحوم کے وکیل سے نہیں ملانا ہے اور نا ہی پیپرز پڑھنے دینے ہیں ۔۔۔“ اقبال صاحب پریشانی سے بولے
مریم فریش ہوکر باہر آئی تو تایا تائی ابھی تک کمرے میں موجود اسکا انتظار کررہے تھے ۔
”مریم بیٹا ابھی وکیل صاحب تو کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں اسی لئیے میں نے سوچا ہے کل تمہیں فارم ہاؤس لیکر چلتے ہیں وہاں گھوڑے بھی ہیں یاد ہے تم بچپن میں بھائی صاحب کے ساتھ ہر ویک اینڈ گھڑسواری کرنے جایا کرتی تھی ۔۔۔“ اقبال صاحب سوگواری سے بولے
” جی انکل مگر کل ۔۔۔“ وہ چپ سی ہوگئی پھر ایک فیصلہ کرکے کھڑی ہوئی ۔۔
”تایا انکل مجھے اپنی گاڑی کی چابی دیں مجھے یہاں کی گرمی کے لحاظ سے کپڑے خریدنے ہیں پھر کل اگر موڈ ہوا تو فارم ہاؤس چلینگے ۔۔“
وہ ان کے ہاتھ سے چابی پکڑتی باہر چلی گئی ۔۔
”اقبال صاحب دیکھ رہے ہیں اگر موڈ ہوا تو فارم ہاؤس جائینگی ورنہ یہی ہمارے سینے پر مونگ دلیں گئی صاحبزادی ! کتنا سمجھایا تھا اسے بھی مروا دیتے دس سال پہلے تو آج یہ پریشانی تو نہ ہوتی ۔۔“ تائی تنک کر بولیں
”یہ بھی اس حادثے میں بری طرح زخمی ہوئی تھی اس کی یاداشت تک چلی گئی تھی اسی لئیے تو اس کی خالہ کو لیجانے دیا تھا مجھے کیا پتہ تھا یہ ڈھیٹ ٹھیک ہوجائے گی مگر تم فکر نہ کرو اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلا تو مجھے بھی انگلی ٹیڑھی کرنی آتی ہے تم زوہیب کے ساتھ آج شام ہی نکل جاؤ اور نکاح کا انتظام کرواؤ میں مریم کو بہلا پھسلا کر لاتا ہوں ۔۔۔“ اقبال تایا نے ہدایات دی
”چلیں ٹھیک ہے دیکھتے ہیں آپ کا بھی بہلانا پھسلانا ۔۔۔“ تائی منہ بنا کر بولی
”ابھی مریم باہر گئی ہے موقع اچھا ہے آپ جانے سے پہلے اس کے سامان سے اسکا پاسپورٹ نکال لیں ۔۔۔“ اقبال صاحب نے ہدایت دی
**************************for more books – urdunovels.info
”میرے راج دلاروں ہم شاپنگ پر جارہے ہیں شادی میں نہیں جلدی سے باہر آؤ ۔۔“ کمرے میں لگے اسپیکر میں حمزہ کی آواز گونجی ۔۔
بڑے اسٹائل سے تیار ہو کر بال بنا کر گڈو اور پپو اپنے کمرے سے باہر نکلے اب ان کا رخ حمزہ کے کمرے کی طرف تھا جہاں حمزہ تیار بیٹھا ان دونوں کا انتظار کررہا تھا ۔۔۔
”چاچو ہم آگئے ہیں ۔۔“ گڈو نے زور سے دروازہ کھول کر اعلان کیا پپو چلتا ہوا حمزہ کی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور اب حمزہ کو گھورتی نظروں سے دیکھ رہا تھا دوسری جانب حمزہ نے بھی دونوں کی تیاری کو سر سے پیر تک چیک کیا پھر اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر آیا اور میز پر رکھی ڈھیر ساری قیمتی پوفیوم کی بوتلوں میں سے ایک سلیکٹ کی اور پہلے گڈ کی جانب مڑا گڈو نے دونوں ہاتھ اٹھا اچھی طرح سے پرفیوم لگوایا پھر پپو کی باری آئی اس نے بھی اپنے چھوٹے سے
بازوؤں کو اٹھا کر خوب پرفیوم لگوایا اور اب تینوں چچا بھتیجے نک سک سے تیار خوشبوؤں میں ڈوبے گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد کے ایک مشہور مال کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔۔۔ حمزہ نے مال پہنچ کر گاڑی پارک کی پپو کو گود میں اٹھایا اور گڈو کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل ہوا اس کا رخ ٹوائے شاپ کی طرف تھا اس کا ارادہ انہیں ڈھیر سارے کھلونے دلانے کا تھا تاکہ کیبل ٹی وی کی طرف سے ان کی توجہ کچھ کم ہو ۔۔ اچھی خاصی شاپنگ کرکے جب یہ تینوں واپس پارکنگ میں آئے تو حمزہ کی جیپ کے پیچھے ایک مرسڈیز ایسے پارک کی ہوئی تھی کہ حمزہ کا گاڑی نکالنا مشکل تھا بچوں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد چند منٹ اس نے انتظار کیا پھر سامنے کھڑے سیکیورٹی گارڈ کی طرف بڑھا اسے اپنا سروس کارڈ دکھایا ۔۔
” خان صاحب کچھ پتا ہے یہ گاڑی کس کی ہے ۔۔“ حمزہ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا
” سر ایک لمبی گوری سی تقریباً بیس سال کی لڑکی کی ہے لمبے بال اور جینز شرٹ میں ملبوس ابھی دس منٹ پہلے ہی آئی تھی اور جب وہ ادھر پارک کررہی تھی تب میں نے اسے منع کیا تھا بتایا تھا کہ آپ غلط پارک کررہی ہیں پر وہ مجھے ہی باتیں سنا کر ایک ڈیزائنر شاپ کا پتہ پوچھ کر اندر چلی گئی ۔۔“ سیکیورٹی گارڈ نے تفصیل سے بتایا حمزہ سر ہلاتا گارڈ کو بچوں کے اوپر نظر رکھنے کی ہدایت دیکر بچوں کو گاڑی میں لاک کرکے تیز تیز قدم اٹھاتا گارڈ کی بتائی شاپ کی طرف گیا
سامنے ہی وہ سڑک والی بدتمیز لڑکی ریک پر سجے لباس دیکھ رہی تھی ۔۔
حمزہ تیزی سے چلتا اس بدتمیز لڑکی کے بالکل سامنے جا کر کھڑا ہوگیا ۔
””بدتمیز آدمی سامنے سے ہٹو ۔۔“ مریم پھنکاری پھر اس نے غور سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا
”تم !!! تم وہی سڑو ہو نا روڈ والے ۔۔“وہ بری طرح چونکی
”یاداشت اچھی ہے تمہاری ہاں میں وہی سڑو ہوں ۔“ وہ الفاظ چبا چبا کر بولا
”تم ادھر ؟ کیا میرا پیچھا کررہے ہو ۔۔“
حمزہ نے بڑے اطمینان سے مریم کے ہاتھ سے ڈریس لے کر سائیڈ پر رکھا ۔۔
”میڈم گاڑی کس طرح پارک کی جاتی ہے تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم چلو چل کر اپنی کھٹارا ہٹاؤ مجھے اپنی جیپ نکالنی ہے ۔۔۔“
”مسٹر سڑو تم باہر جاکر میرا انتظار کرو میں شاپنگ ختم کرکے جب آؤنگی تو گاڑی ہٹا دونگی ۔۔“ مریم نخوت سے بول کر پلٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لی ۔۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔“ مریم تلملائی پر حمزہ پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ مزید آگے بڑھا
” تم میرے اتنے قریب کیوں آرہے ہو پیچھے ہٹو ۔“ مریم گھبرا گئی
”گاڑی ہٹا رہی ہو یا نہیں ۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
” جنگلی انسان دور ہٹو ہٹاتی ہوں ۔۔“ مریم پیر پٹختی باہر نکل گئی
حمزہ بھی بڑے آرام سے سیٹی بجاتا باہر نکلا اور مریم کے گاڑی ہٹاتے ہی تیزی سے اپنی کار نکال کر چلاگیا ۔۔۔
”بدتمیز جنگلی کہی کا ۔۔۔۔“ مریم غصہ سے دانت پیستی گاڑی لاک کرکے واپس اندر چلی گی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کا موڈ خراب ہوچکا تھا وہ بیدلی سے سامنے پڑے لباس اٹھا کر پیمنٹ کرکے باہر نکلی ہی تھی کہ اسکا فون بج اٹھا نمبر انجان تھا اس
نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فون اٹھایا ۔۔
”مریم شاہ بات کررہی ہیں۔؟ “ ایک بھاری آواز سنائی دی
”جی میں مریم شاہ آپ کون “ ۔مریم نےپوچھا
”مریم میں آپ کے والد کا اٹارنی ہوں کئی دنوں سے آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہا ہوں پر آپ کے تایا اقبال صاحب نے کہا کہ آپ ملنا نہیں چاہتیں ہیں ۔“ بیرسٹر شکیل احمد نے اسے آگاہ کیا ۔
مریم تو یہ سن کر حیران رہ گئی کیونکہ تایا انکل نے تو کہا تھا کہ وکیل صاحب شہر سے باہر ہیں اور اب ۔۔
”سر آپ کل صبح نو بجے گھر آجائیے میں انتظار کرونگی ۔۔۔“ مریم نے فیصلہ کن انداز میں کہہ کر فون رکھا ۔ اب مریم کا رخ گھر کی جانب تھا تایا نے جھوٹ کیوں بولا یہ سوچ سوچ کر اسکا دماغ پکا جارہا تھا تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے وہ گھر پہنچی اور سیدھا تایا انکل کے روم میں گئی ۔۔
”ارے مریم بیٹی اتنی جلدی آگئی کیا شاپنگ نہیں کی ۔۔“ تائی جو فارم ہاؤس جانے کیلئیے تیار کھڑی تھی اسے دیکھ کر بوکھلا گئی
” تایا انکل آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ پاپا کے وکیل شہر سے باہر ہیں بتائیں ۔۔۔“ مریم تائی کو اگنور کرتی سیدھی اقبال صاحب کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی
”مریم یہ تم کس طرح بات کررہی ہو “ تایا نے اسے ٹوکا
” آپ نہ مانیں پر میں جانتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے اور کیوں بولا یہ صبح جب وکیل صاحب آئینگے پتہ چل جائیگا ۔۔“ وہ پھنکاری
اقبال صاحب کا غصہ سے برا حال تھا ساری جائیداد ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی وہ آگے بڑھے اور مریم کی گردن پکڑ لی ۔۔۔
” تجھ جیسی سنپولی کو تیرے ماں باپ کے ساتھ ہی مار دینا چاہئیے تھا ۔۔۔“ وہ اس کی نازک گردن کو بیدردی سے دبا رہے تھے مریم کی سانس اکھٹر رہی تھی آنکھیں تکلیف کی شدت سے سرخ ہورہی تھی وہ پھولوں سے نازک لڑکی اپنے تایا کو قاتل کے روپ میں برداشت نہیں کرپا رہی تھی ہاتھ پیر مارتی خود کو آزاد کروانے کی جدوجہد کرتی وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر گئی تھی اسکا سر بیڈ کے کنارے سے ٹکرایا تھا اور کنپٹی کے پاس سے خون کی باریک لکیر بہتی نظر آرہی تھی ۔۔
”زوہیب کو بلاؤ اور سارے ملازمین کو چھٹی دے دو میں اتنی دیر میں اسے چادر میں لپیٹتا ہوں “ اقبال صاحب نے ساکت کھڑی تائی سے کہا
تائی سر ہلاتی تیزی سے باہر نکلیں سب ملازمین کو چھٹی دی اور دروازے بند کرتی زوہیب کو لیکر اقبال صاحب کے پاس آئیں ۔۔
”زوہیب اس کو اٹھا کر گاڑی کی ڈگی میں ڈالو اور بیگم تم اسکا سارا سامان سمیٹ کر آگ لگا دو ۔۔“ یہ کہہ کر اقبال صاحب گاڑی کی جانب چلے تیزی سے دوڑتی گاڑی مارگلہ ہل سے ذرا دور راول جھیل کی طرف رواں تھی رات کا اندھیرا پھیلنا شروع ہو چکا تھا جھیل کے پاس پہنچ کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر رات گہری ہونے کا انتظار کررہے تھے ۔۔
آدھی رات کے وقت دو سائے گاڑی سے اترے ڈگی میں چھپائی مریم کو نکالا اور راول جھیل میں پھینک دیا ۔۔۔
زمین جائیداد پیسے کا لالچ ایک ایسی بھنور ہے جو خون کے رشتوں کا احترام بھلا دیتا ہے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتا ہے ۔
”بائے بائے پیاری بھتیجی بھائی صاحب کو سلام دینا مت بھولنا ۔۔۔“ اقبال صاحب سفاکی سے بولے اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس پلٹ گئے ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
وقت کافی گزر چکا تھا جب اس کے دروازے پر دستک ہوئی اور اجازت لیکر تایا انکل اور تائی اندر داخل ہوئے ۔۔۔
”کیا بات ہے بٹیا آج لنچ پر نہیں آئی طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔“ اقبال تایا نے تشویش سے پوچھا
” بس تایا انکل موڈ نہیں تھا ۔۔“ مریم نے بجھے لہجے میں جواب دیا
”کمرے میں بند رہوگئی تو بیمار ہوجاؤگی چلو اٹھو ابھی زوہیب آتا ہوگا کہی باہر آؤٹنگ پر چلتے ہیں ۔۔“ تائی امی بڑے پیار سے بولی
مریم بال سمیٹتی ہوئی اٹھی ۔۔۔
”تایا انکل ! آپ کل پاپا کے وکیل کو بلوالیں میں پیپرز چیک کرنا چاہتی ہوں اور میری واپسی کی سیٹ بھی بک کروادیں ۔۔۔“ مریم قطعی لہجے میں کہتی ایکسکیوز کرتی واش روم چلی گئی
”دیکھا آپ نے میں نے کہا تھا نا کہ یہ لڑکی بہت چالاک ہے ۔۔۔“ تائی نے سرگوشی کی
”چپ کرو مجھے سوچنے دو اسے کسی بھی طرح بھائی صاحب مرحوم کے وکیل سے نہیں ملانا ہے اور نا ہی پیپرز پڑھنے دینے ہیں ۔۔۔“ اقبال صاحب پریشانی سے بولے
مریم فریش ہوکر باہر آئی تو تایا تائی ابھی تک کمرے میں موجود اسکا انتظار کررہے تھے ۔
”مریم بیٹا ابھی وکیل صاحب تو کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں اسی لئیے میں نے سوچا ہے کل تمہیں فارم ہاؤس لیکر چلتے ہیں وہاں گھوڑے بھی ہیں یاد ہے تم بچپن میں بھائی صاحب کے ساتھ ہر ویک اینڈ گھڑسواری کرنے جایا کرتی تھی ۔۔۔“ اقبال صاحب سوگواری سے بولے
” جی انکل مگر کل ۔۔۔“ وہ چپ سی ہوگئی پھر ایک فیصلہ کرکے کھڑی ہوئی ۔۔
”تایا انکل مجھے اپنی گاڑی کی چابی دیں مجھے یہاں کی گرمی کے لحاظ سے کپڑے خریدنے ہیں پھر کل اگر موڈ ہوا تو فارم ہاؤس چلینگے ۔۔“
وہ ان کے ہاتھ سے چابی پکڑتی باہر چلی گئی ۔۔
”اقبال صاحب دیکھ رہے ہیں اگر موڈ ہوا تو فارم ہاؤس جائینگی ورنہ یہی ہمارے سینے پر مونگ دلیں گئی صاحبزادی ! کتنا سمجھایا تھا اسے بھی مروا دیتے دس سال پہلے تو آج یہ پریشانی تو نہ ہوتی ۔۔“ تائی تنک کر بولیں
”یہ بھی اس حادثے میں بری طرح زخمی ہوئی تھی اس کی یاداشت تک چلی گئی تھی اسی لئیے تو اس کی خالہ کو لیجانے دیا تھا مجھے کیا پتہ تھا یہ ڈھیٹ ٹھیک ہوجائے گی مگر تم فکر نہ کرو اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلا تو مجھے بھی انگلی ٹیڑھی کرنی آتی ہے تم زوہیب کے ساتھ آج شام ہی نکل جاؤ اور نکاح کا انتظام کرواؤ میں مریم کو بہلا پھسلا کر لاتا ہوں ۔۔۔“ اقبال تایا نے ہدایات دی
”چلیں ٹھیک ہے دیکھتے ہیں آپ کا بھی بہلانا پھسلانا ۔۔۔“ تائی منہ بنا کر بولی
”ابھی مریم باہر گئی ہے موقع اچھا ہے آپ جانے سے پہلے اس کے سامان سے اسکا پاسپورٹ نکال لیں ۔۔۔“ اقبال صاحب نے ہدایت دی
**************************for more books – urdunovels.info
”میرے راج دلاروں ہم شاپنگ پر جارہے ہیں شادی میں نہیں جلدی سے باہر آؤ ۔۔“ کمرے میں لگے اسپیکر میں حمزہ کی آواز گونجی ۔۔
بڑے اسٹائل سے تیار ہو کر بال بنا کر گڈو اور پپو اپنے کمرے سے باہر نکلے اب ان کا رخ حمزہ کے کمرے کی طرف تھا جہاں حمزہ تیار بیٹھا ان دونوں کا انتظار کررہا تھا ۔۔۔
”چاچو ہم آگئے ہیں ۔۔“ گڈو نے زور سے دروازہ کھول کر اعلان کیا پپو چلتا ہوا حمزہ کی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور اب حمزہ کو گھورتی نظروں سے دیکھ رہا تھا دوسری جانب حمزہ نے بھی دونوں کی تیاری کو سر سے پیر تک چیک کیا پھر اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر آیا اور میز پر رکھی ڈھیر ساری قیمتی پوفیوم کی بوتلوں میں سے ایک سلیکٹ کی اور پہلے گڈ کی جانب مڑا گڈو نے دونوں ہاتھ اٹھا اچھی طرح سے پرفیوم لگوایا پھر پپو کی باری آئی اس نے بھی اپنے چھوٹے سے
بازوؤں کو اٹھا کر خوب پرفیوم لگوایا اور اب تینوں چچا بھتیجے نک سک سے تیار خوشبوؤں میں ڈوبے گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد کے ایک مشہور مال کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔۔۔ حمزہ نے مال پہنچ کر گاڑی پارک کی پپو کو گود میں اٹھایا اور گڈو کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل ہوا اس کا رخ ٹوائے شاپ کی طرف تھا اس کا ارادہ انہیں ڈھیر سارے کھلونے دلانے کا تھا تاکہ کیبل ٹی وی کی طرف سے ان کی توجہ کچھ کم ہو ۔۔ اچھی خاصی شاپنگ کرکے جب یہ تینوں واپس پارکنگ میں آئے تو حمزہ کی جیپ کے پیچھے ایک مرسڈیز ایسے پارک کی ہوئی تھی کہ حمزہ کا گاڑی نکالنا مشکل تھا بچوں کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد چند منٹ اس نے انتظار کیا پھر سامنے کھڑے سیکیورٹی گارڈ کی طرف بڑھا اسے اپنا سروس کارڈ دکھایا ۔۔
” خان صاحب کچھ پتا ہے یہ گاڑی کس کی ہے ۔۔“ حمزہ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا
” سر ایک لمبی گوری سی تقریباً بیس سال کی لڑکی کی ہے لمبے بال اور جینز شرٹ میں ملبوس ابھی دس منٹ پہلے ہی آئی تھی اور جب وہ ادھر پارک کررہی تھی تب میں نے اسے منع کیا تھا بتایا تھا کہ آپ غلط پارک کررہی ہیں پر وہ مجھے ہی باتیں سنا کر ایک ڈیزائنر شاپ کا پتہ پوچھ کر اندر چلی گئی ۔۔“ سیکیورٹی گارڈ نے تفصیل سے بتایا حمزہ سر ہلاتا گارڈ کو بچوں کے اوپر نظر رکھنے کی ہدایت دیکر بچوں کو گاڑی میں لاک کرکے تیز تیز قدم اٹھاتا گارڈ کی بتائی شاپ کی طرف گیا
سامنے ہی وہ سڑک والی بدتمیز لڑکی ریک پر سجے لباس دیکھ رہی تھی ۔۔
حمزہ تیزی سے چلتا اس بدتمیز لڑکی کے بالکل سامنے جا کر کھڑا ہوگیا ۔
””بدتمیز آدمی سامنے سے ہٹو ۔۔“ مریم پھنکاری پھر اس نے غور سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا
”تم !!! تم وہی سڑو ہو نا روڈ والے ۔۔“وہ بری طرح چونکی
”یاداشت اچھی ہے تمہاری ہاں میں وہی سڑو ہوں ۔“ وہ الفاظ چبا چبا کر بولا
”تم ادھر ؟ کیا میرا پیچھا کررہے ہو ۔۔“
حمزہ نے بڑے اطمینان سے مریم کے ہاتھ سے ڈریس لے کر سائیڈ پر رکھا ۔۔
”میڈم گاڑی کس طرح پارک کی جاتی ہے تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم چلو چل کر اپنی کھٹارا ہٹاؤ مجھے اپنی جیپ نکالنی ہے ۔۔۔“
”مسٹر سڑو تم باہر جاکر میرا انتظار کرو میں شاپنگ ختم کرکے جب آؤنگی تو گاڑی ہٹا دونگی ۔۔“ مریم نخوت سے بول کر پلٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لی ۔۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔“ مریم تلملائی پر حمزہ پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ مزید آگے بڑھا
” تم میرے اتنے قریب کیوں آرہے ہو پیچھے ہٹو ۔“ مریم گھبرا گئی
”گاڑی ہٹا رہی ہو یا نہیں ۔۔“ حمزہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا
” جنگلی انسان دور ہٹو ہٹاتی ہوں ۔۔“ مریم پیر پٹختی باہر نکل گئی
حمزہ بھی بڑے آرام سے سیٹی بجاتا باہر نکلا اور مریم کے گاڑی ہٹاتے ہی تیزی سے اپنی کار نکال کر چلاگیا ۔۔۔
”بدتمیز جنگلی کہی کا ۔۔۔۔“ مریم غصہ سے دانت پیستی گاڑی لاک کرکے واپس اندر چلی گی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کا موڈ خراب ہوچکا تھا وہ بیدلی سے سامنے پڑے لباس اٹھا کر پیمنٹ کرکے باہر نکلی ہی تھی کہ اسکا فون بج اٹھا نمبر انجان تھا اس
نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فون اٹھایا ۔۔
”مریم شاہ بات کررہی ہیں۔؟ “ ایک بھاری آواز سنائی دی
”جی میں مریم شاہ آپ کون “ ۔مریم نےپوچھا
”مریم میں آپ کے والد کا اٹارنی ہوں کئی دنوں سے آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہا ہوں پر آپ کے تایا اقبال صاحب نے کہا کہ آپ ملنا نہیں چاہتیں ہیں ۔“ بیرسٹر شکیل احمد نے اسے آگاہ کیا ۔
مریم تو یہ سن کر حیران رہ گئی کیونکہ تایا انکل نے تو کہا تھا کہ وکیل صاحب شہر سے باہر ہیں اور اب ۔۔
”سر آپ کل صبح نو بجے گھر آجائیے میں انتظار کرونگی ۔۔۔“ مریم نے فیصلہ کن انداز میں کہہ کر فون رکھا ۔ اب مریم کا رخ گھر کی جانب تھا تایا نے جھوٹ کیوں بولا یہ سوچ سوچ کر اسکا دماغ پکا جارہا تھا تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے وہ گھر پہنچی اور سیدھا تایا انکل کے روم میں گئی ۔۔
”ارے مریم بیٹی اتنی جلدی آگئی کیا شاپنگ نہیں کی ۔۔“ تائی جو فارم ہاؤس جانے کیلئیے تیار کھڑی تھی اسے دیکھ کر بوکھلا گئی
” تایا انکل آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ پاپا کے وکیل شہر سے باہر ہیں بتائیں ۔۔۔“ مریم تائی کو اگنور کرتی سیدھی اقبال صاحب کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی
”مریم یہ تم کس طرح بات کررہی ہو “ تایا نے اسے ٹوکا
” آپ نہ مانیں پر میں جانتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے اور کیوں بولا یہ صبح جب وکیل صاحب آئینگے پتہ چل جائیگا ۔۔“ وہ پھنکاری
اقبال صاحب کا غصہ سے برا حال تھا ساری جائیداد ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی وہ آگے بڑھے اور مریم کی گردن پکڑ لی ۔۔۔
” تجھ جیسی سنپولی کو تیرے ماں باپ کے ساتھ ہی مار دینا چاہئیے تھا ۔۔۔“ وہ اس کی نازک گردن کو بیدردی سے دبا رہے تھے مریم کی سانس اکھٹر رہی تھی آنکھیں تکلیف کی شدت سے سرخ ہورہی تھی وہ پھولوں سے نازک لڑکی اپنے تایا کو قاتل کے روپ میں برداشت نہیں کرپا رہی تھی ہاتھ پیر مارتی خود کو آزاد کروانے کی جدوجہد کرتی وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر گئی تھی اسکا سر بیڈ کے کنارے سے ٹکرایا تھا اور کنپٹی کے پاس سے خون کی باریک لکیر بہتی نظر آرہی تھی ۔۔
”زوہیب کو بلاؤ اور سارے ملازمین کو چھٹی دے دو میں اتنی دیر میں اسے چادر میں لپیٹتا ہوں “ اقبال صاحب نے ساکت کھڑی تائی سے کہا
تائی سر ہلاتی تیزی سے باہر نکلیں سب ملازمین کو چھٹی دی اور دروازے بند کرتی زوہیب کو لیکر اقبال صاحب کے پاس آئیں ۔۔
”زوہیب اس کو اٹھا کر گاڑی کی ڈگی میں ڈالو اور بیگم تم اسکا سارا سامان سمیٹ کر آگ لگا دو ۔۔“ یہ کہہ کر اقبال صاحب گاڑی کی جانب چلے تیزی سے دوڑتی گاڑی مارگلہ ہل سے ذرا دور راول جھیل کی طرف رواں تھی رات کا اندھیرا پھیلنا شروع ہو چکا تھا جھیل کے پاس پہنچ کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر رات گہری ہونے کا انتظار کررہے تھے ۔۔
آدھی رات کے وقت دو سائے گاڑی سے اترے ڈگی میں چھپائی مریم کو نکالا اور راول جھیل میں پھینک دیا ۔۔۔
زمین جائیداد پیسے کا لالچ ایک ایسی بھنور ہے جو خون کے رشتوں کا احترام بھلا دیتا ہے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتا ہے ۔
”بائے بائے پیاری بھتیجی بھائی صاحب کو سلام دینا مت بھولنا ۔۔۔“ اقبال صاحب سفاکی سے بولے اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس پلٹ گئے ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔