نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 4
حمزہ دونوں بچوں کو لیکر ایک بہت ہی مشہور ریسٹورانٹ میں آیا تھا پہلے من پسند شاپنگ پھر جی بھر کر پلے لینڈ میں مستی اور اب ڈنر پپو اور گڈو دونوں ہی بہت خوش تھے ویٹر نے ان کی ٹیبل تک رہنمائی کی اور ان کے بیٹھنے کے بعد تیزی سے مینیو کارڈ لا کر حمزہ کے سامنے رکھا ۔
ََِِگول مٹول سے پپو نے خونخوار نظروں سے پہلے ویٹر کو گھورا پھر حمزہ کو متوجہ کیا ۔
” چاچو اس نے ہمیں مینیو بک کیوں نہیں دی کیا ہم کھانا نہیں کھائینگے ۔“
ویٹر نے بوکھلا کر اس سرخ و سفید پھولے گالوں والے بچے کو دیکھا ۔۔
”سوری سر آپ کے بچے اتنے چھوٹے ہیں میں نے سوچا یہ مینیو کہاں پڑھ پائیں گئے ۔۔“ ویٹر نے معذرت کی اور تیزی سے مینیو لاکر ان دونوں شیطانوں کے سامنے رکھا جو اب پکس دیکھ کر ڈش سلیکٹ کررہے تھے ڈشز سلیکٹ کرکے ابھی وہ تینوں چچا بھتیجے آرڈر کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حمزہ کو کمشنر صاحب اپنی اہلیہ اور سالی ماہین کے ساتھ اندر آتے نظر آئے ۔۔
”مارے گئے یہ کہاں سے ٹپک پڑے ۔۔۔“ حمزہ بڑبڑایا گڈو اور پپو نے حمزہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو انہیں بھی کمشنر انکل اور ان کی فیملی نظر آگئی گڈو اور پپو نے ایک نظر حمزہ کے پریشان چہرے کو دیکھا اور وہ دونوں سیدھے ہوکر بڑی تمیز سے بیٹھ گئے ۔۔۔
”حمزہ مائی بوائے واٹ آ سرپرائز ۔۔۔“ کمشنر صاحب نے پاس آکر کہا
نا چاہتے ہوئے بھی چہرے پہ مسکراہٹ سجا کر حمزہ نے ان سب سے سلام دعا کی اور پھر کمشنر صاحب نے مزید کرسیاں منگوا کر ان لوگوں کو جوائن کرلیا ۔۔
”حمزہ ان سے ملو یہ ماہین ہیں ۔۔“ انہوں نے اپنی سالی کا تعارف کروایا حمزہ نے ایک نظر ماہین کو دیکھا اور سر کے اشارے سے ہیلو کہا
”حمزہ میں کتنے دنوں سے آپ کا انتظار کررہی تھی احمد بھائی نے کہا تھا آپ ملنے آئینگے پر آپ آئے ہی نہیں ۔۔“ ماہین نے بڑے کانفیڈنس سے حمزہ سے بات چیت کا آغاز کیا پپو اور گڈو دونوں ناگواری سے حمزہ اور ماہین کو بات چیت کرتے دیکھ رہے تھے کمشنر صاحب اور ان کی فیملی نے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دی تھی اور گڈو اور پپو کو باب کٹ بال اور بوٹے سے قد کی ماہین بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی کھانا سرو ہوچکا تھا ۔۔۔
”حمزہ آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہے ۔۔۔“ ماہین نے بڑی بےتکلفی سے فرائیڈ رائس حمزہ کی پلیٹ میں ڈالے
”احمد بھائی آپ کو پتہ ہے میں اور حمزہ کالج کے دنوں میں کلاس فیلو رہ چکے ہیں ۔۔۔“ ماہین نے جوش سے کمشنر صاحب کو اطلاع دی پھر دوبارہ حمزہ کی جانب مڑی
” حمزہ مجھے تو ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ تم سنگر بنو گے یہ پولیس لائن میں کیسے آگئے ہو ۔۔۔“ ان جانے میں ماہین حمزہ کی دکھتی رگ کو چھیڑ گئی تھی
حمزہ کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہوچکی تھی تبھی گڈو نے حمزہ کو مخاطب کیا ۔۔
”چاچو گھر چلیں نیند آرہی ہے ۔۔۔“
”بیٹا صبح سنڈے ہے آج تھوڑا دیر تک جاگ لو ۔۔۔اچھا تو ماہین تم کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔“ مسز احمد نے زبردستی کی مسکراہٹ سجا کر پہلے گڈو کو ٹوکا پھر دوبارہ اپنی بہن کی جانب متوجہ ہو گئیں ۔
” بجو میں کہہ رہی تھی کہ حمزہ تو کالج اور یونیورسٹی میں مشہور تھا اتنا زبردست گٹار بجاتا تھا کہ سب کو دیوانہ کردیتا تھا اور ایک بار تو ۔۔۔۔“ ابھی ماہین کی بات بیچ ہی میں تھی کہ حمزہ معذرت کرتا کھڑا ہوگیا ۔۔
” سر بچے صبح سے گھر سے نکلے ہوئے ہیں اب ان کے سونے کا ٹائم ہے مجھے اجازت دیجئیے پیر کو آفس میں ملتے ہیں۔“
وہ قطعی لہجے میں کہتا والٹ سے چند بڑے نوٹ نکال کر میز پر رکھتا ہوا پپو اور گڈو کو لیکر بنا رکے باہر نکلتا چلا گیا ۔
”احمد آپ نے دیکھا یہ حمزہ کتنا بدتمیز ہوگیا ہے بات کرنے کی تمیز تک نہیں رہی ہے آپ اسے جاب سے نکالنے کی دھمکی دیجئیے پھر دیکھنا کیسے سیدھا ہوتا ہے ۔۔“ مسز احمد نے غصہ سے کہا کمشنر صاحب جو رشتے میں حمزہ کے کزن بھی تھے نے اپنی بیگم کو گھورا
” عالیہ حمزہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوا ہے اس کے باپ دادا کی ملیں چل رہی ہیں یہ نوکری تو وہ صرف اور صرف اپنے شوق کیلئیے کررہا ہے اس لئیے الٹے سیدھے مشورے مت دو بلکہ یہ سوچو کہ ماہین کی شادی حمزہ سے کیسے کروائی جائے تاکہ ہمارا عمل دخل اس کے گھر اور بزنس پر بھی ہوسکے ۔۔“
” پر احمد بھائی اس کی نظر ان منحوس بچوں سے ہٹے تو وہ مجھے بھی دیکھے لیکن وہ بچے اللہ کی پناہ ہر وقت اس کا دھیان بٹائے رکھتے ہیں ۔۔“ ماہین نے غصہ سے کہا
”ماہین گڑیا ان بچوں کو سیڑھی بنا کر ہی حمزہ پر قابو پایا جا سکتا ہے بعد میں جب حمزہ تمہاری مٹھی میں ہو تو ان کا پتہ کاٹ دینا ۔۔“عالیہ نےمشورہ دیا
” احمد بھائی آپ کہی جانے کا بہانہ کرکے مجھے ایک مہینہ حمزہ کے گھر چھوڑ دیں پھر میں سب سنبھال لونگی ۔۔“ ماہین کی آنکھوں میں شاطرانہ چمک تھی
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے پپو اور گڈو کو گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔۔
” چاچو ہمیں فش کھانی ہے چلیں راول جھیل چلتے ہیں مزا آئیگا ۔۔“ گاڑی کے چلتے ہی گڈو کا فرمائشی پروگرام شروع ہوا
پپو بھی پیچھے والی سیٹ پر کھڑا ہوگیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے بازوؤں کو حمزہ کی گردن میں ڈال کر اس کے سر پر کس کرنے لگا ۔
” پپو موٹے میں ڈرائیو کررہا ہوں گردن چھوڑ اور آرام سے بیٹھ ۔۔“ حمزہ نے پپو کو ٹوکا
پر وہ پپو ہی کیا جو کسی انسان کی بات مان جائے اب کے اس نے حمزہ کے بال مٹھی میں جکڑ لئیے ۔۔
”چاچو بوٹ میں بیٹھنا ہے وہ بہت بڑی والی ۔۔“ پپو نے بھی اپنی فرمائش حمزہ کی سماعتوں میں ڈالی ۔
”اچھا میرے باپ میرے بال چھوڑ کیا گنجا کریگا چلو بوٹنگ پر چلتے ہیں تم دونوں بھی کیا یاد کروگے ۔۔“ حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا اور گاڑی راول جھیل کی طرف موڑ لی ۔
”ویسے چاچو آپ کو پتہ ہے گنجے لڑکوں کی شادی بہت مشکل سے ہوتی ہے ۔۔“ کافی دیر سے خاموش بیٹھے گڈو نے زبان کھولی
”چاچو مجھے شادی کرنی ہے ۔۔۔“ پپو نے بیچ میں ٹانگ اڑائی حمزہ نے چار سالہ پپو کو گھور کر دیکھا جو بڑی بےنیازی سے اسے دیکھ رہا تھا
”پپو یار اپنی عمر دیکھ اب میں تین چار سال کی دلہن کدھر سے ڈھونڈوں ایسا کر بیس سال رک جا پھر کچھ کرتے ہیں ۔۔“حمزہ نے دہائی دی اسی طرح باتیں کرتے وہ جھیل پہنچ چکے تھے ریسٹورانٹ سے تو بچے بھوکے اٹھ آئے تھے لہذا پہلے تو انہوں نے اسٹال سے مچھلی خرید کر پیٹ بھر کر کھائی پھر تینوں الکسی سے گھاس پر لیٹ گئے دور آسمان پر ستارے چمک رہے تھے تھوڑی دیر بعد حمزہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔
” گڈو پپو اٹھو یار رات بہت ہوگئی ہے گیارہ بج رہے ہیں اب گھر چلو ۔۔“
”چاچو بوٹنگ ۔۔۔۔“ گڈو روہانسا ہوا
”بیٹا اتنی رات تو کوئی ہمیں کشتی نہیں دیگا پھر کبھی آئینگے ۔۔۔“ حمزہ نے بہلانا چاہا
” آپ پولیس ہیں آپکو کوئی منع نہیں کریگا چلیں نا چاچو ۔۔“ حمزہ ایک گہری سانس بھرتا ملاحوں کی جانب بڑھا جو اپنے اپنے گھر جانے کی تیاریاں کررہے تھے ان سے بات کرکے ایک ملاح کو منہ مانگی قیمت پر راضی کرکے بچوں کو لیکر کشتی میں بیٹھا ۔۔۔ چودھویں کی رات تھی چاند کی روشنی میں جھیل کا چڑھتا پانی اور ہچکولے کھاتی کشتی سب بہت اچھا لگ رہا تھا پپو اور گڈو دونوں انجوائے کررہے تھے بارہ بجنے والے تھے جب حمزہ نے ملاح کو کشتی واپس موڑنے کا حکم دیا تھوڑی دیر بعد حمزہ کو پانی میں کسی کے گرنے کی آواز آئی پانی زور سے اچھلا ۔۔
”صاحب لگتا ہے آج پھر کسی نے خودکشی کی ہے ۔۔“ ملاح نے افسردگی سے کہا
” یار تم کشتی اس طرف لو ۔۔“ حمزہ نے پانی کے بھنور کی طرف اشارہ کیا
” گڈو پپو کوئی شرارت نہیں میں ابھی آتا ہوں ۔“ بچوں کو ہدایت دیتا وہ کشتی سے کود گیا اور تیزی سے غوطہ لگاتا اندر کی طرف گیا اسے پانی کے بہاؤ میں ڈوبتا انسانی وجود نظر آگیا تھا وہ تیرتا ہوا اس وجود کے پاس پہنچا اور بڑی مشکل سے اسے جکڑ کر پانی کی سطح تک لایا اتنے میں کشتی قریب آچکی تھی ایک ہاتھ سے کشتی کا کنارہ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اس وجود کو اٹھا کر کشتی میں ڈالا ۔۔
”صاحب یہ تو پولیس کیس لگ رہا ہے کشتی والے نے اس انسانی وجود کے ہاتھ پیر بندھے دیکھ کر کہا جس پر حمزہ نے اس سے اپنا تعارف کروایا
کنارے پر پہنچ کر بلب کی روشنی میں جب حمزہ نے اس وجود کو سیدھا کیا تو چونک گیا یہ تو وہی سڑک والی بداخلاق بدتمیز لڑکی تھی جو اب اس کے سامنے بیہوش پڑی تھی ۔ حمزہ بچوں کے ساتھ اس لڑکی کو لیکر اپنے گھر آگیا گیسٹ روم کھول کر اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر اندر لایا اور بیڈ پر لٹا دیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوست ڈاکٹر وسیم کو فون کرکے فوراً آنے کو کہا
”گڈو پپو جاؤ کپڑے چینج کرو برش کرو اور سونے لیٹو ۔۔۔“ وہ دونوں سر ہلاتے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئے
************************
مریم گیلے لباس میں پانی سے تر بتر بیہوش پڑی تھی اس کے لمبے گھنے بال اس کے چہرے اور گردن پر چپکے ہوئے تھے گیلے لباس میں اس کے وجود کی رعنائیاں ابھر کر سامنے آرہی تھی حمزہ نے بڑی مشکل سے اپنی نظریں اس کے ساحر وجود سے ہٹائیں بلاشبہ سامنے پڑی لڑکی بہت پرکشش تھی اور اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی حمزہ نے دھیرے سے اس کے چاند سے چہرے سے چپکی سیاہ بالوں کی لٹیں ہٹائیں پھر نظر چراتا اٹھا اور الماری سے کمبل نکال کر اس کے ہوش ربا وجود کو ڈھک دیا تبھی انٹرکام بجنے لگا تھا ۔۔
چوکیدار نے ڈاکٹر وسیم کے آنے کی اطلاع دی ۔۔ ڈاکٹر وسیم نے آکر مریم کا چیک اپ کیا
” حمزہ یہ شاک لگنے سے بیہوش ہوئی ہے میں اسے انجکشن دیتا ہوں صبح تک ہوش میں آجائیگی ۔۔۔“ مریضہ سے فارغ ہوکر ڈاکٹر وسیم حمزہ کی طرف مڑا
” لڑکی تو بہت ینگ اور خوبصورت ہے قصہ کیا ہے کہی یہ میری ہونے والی بھابھی تو نہیں ۔۔“ حمزہ نےوسیم کو ایک زوردار دھموکہ مارا اور پھر سارا قصہ سنایا
” حمزہ میں صبح امی کو لیکر آتا ہوں لڑکی ذات کا معاملہ ہے تھانے لیکر مت جانا ۔۔“
” اتنی عقل تو مجھے بھی ہے اسی لئیے تو گھر لایا ہوں ۔ “ حمزہ نے جواب دیا
ڈاکٹر وسیم کو رخصت کرکے حمزہ نے مریم پر ایک بار پھر کمبل درست کیا اور لائٹ بند کرتا باہر نکل گیا ۔
************************
سنڈے کا دن تھا حمزہ گدھے گھوڑے سب بیچ کر اپنے کمرے میں سو رہا تھا جب گڈو اور پپو نے اندر جھانکا پھر اسے سوتا چھوڑ کر دونوں گیسٹ روم کی طرف روانہ ہوئے ۔ مریم کو ایسا لگا جیسے کوئی بڑے پیار سے نرم نرم روئی کے گالوں سے اسے چھو رہا ہو اس نے کراہتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولی
دو بڑے ہی پیارے گول مٹول سے بچے بیڈ پر بیٹھے اس پر جھکے ہوئے تھے اور چھوٹے والے نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما ہوا تھا ۔۔
”گڈو دیکھو پریٹی لڑکی جاگ گی ہے ۔۔۔“ پپو جوش سے بولا اپنے لئیے پریٹی لڑکی سنتے ہی مریم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور وہ اٹھ بیٹھی اب وہ حیرانگی سے کمرے کو دیکھ رہی تھی پھر اسے یاد آیا کہ تایا نے کیسے اس کے والدین کو مارنے کا اعتراف کیا تھا تبھی گڈو اس کے سامنے آیا
” میرا نام گڈو اور یہ میرا بھائی پپو اور آپ۔ ؟ “
”میں میرا نام مریم ہے ۔“
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
ََِِگول مٹول سے پپو نے خونخوار نظروں سے پہلے ویٹر کو گھورا پھر حمزہ کو متوجہ کیا ۔
” چاچو اس نے ہمیں مینیو بک کیوں نہیں دی کیا ہم کھانا نہیں کھائینگے ۔“
ویٹر نے بوکھلا کر اس سرخ و سفید پھولے گالوں والے بچے کو دیکھا ۔۔
”سوری سر آپ کے بچے اتنے چھوٹے ہیں میں نے سوچا یہ مینیو کہاں پڑھ پائیں گئے ۔۔“ ویٹر نے معذرت کی اور تیزی سے مینیو لاکر ان دونوں شیطانوں کے سامنے رکھا جو اب پکس دیکھ کر ڈش سلیکٹ کررہے تھے ڈشز سلیکٹ کرکے ابھی وہ تینوں چچا بھتیجے آرڈر کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حمزہ کو کمشنر صاحب اپنی اہلیہ اور سالی ماہین کے ساتھ اندر آتے نظر آئے ۔۔
”مارے گئے یہ کہاں سے ٹپک پڑے ۔۔۔“ حمزہ بڑبڑایا گڈو اور پپو نے حمزہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو انہیں بھی کمشنر انکل اور ان کی فیملی نظر آگئی گڈو اور پپو نے ایک نظر حمزہ کے پریشان چہرے کو دیکھا اور وہ دونوں سیدھے ہوکر بڑی تمیز سے بیٹھ گئے ۔۔۔
”حمزہ مائی بوائے واٹ آ سرپرائز ۔۔۔“ کمشنر صاحب نے پاس آکر کہا
نا چاہتے ہوئے بھی چہرے پہ مسکراہٹ سجا کر حمزہ نے ان سب سے سلام دعا کی اور پھر کمشنر صاحب نے مزید کرسیاں منگوا کر ان لوگوں کو جوائن کرلیا ۔۔
”حمزہ ان سے ملو یہ ماہین ہیں ۔۔“ انہوں نے اپنی سالی کا تعارف کروایا حمزہ نے ایک نظر ماہین کو دیکھا اور سر کے اشارے سے ہیلو کہا
”حمزہ میں کتنے دنوں سے آپ کا انتظار کررہی تھی احمد بھائی نے کہا تھا آپ ملنے آئینگے پر آپ آئے ہی نہیں ۔۔“ ماہین نے بڑے کانفیڈنس سے حمزہ سے بات چیت کا آغاز کیا پپو اور گڈو دونوں ناگواری سے حمزہ اور ماہین کو بات چیت کرتے دیکھ رہے تھے کمشنر صاحب اور ان کی فیملی نے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دی تھی اور گڈو اور پپو کو باب کٹ بال اور بوٹے سے قد کی ماہین بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی کھانا سرو ہوچکا تھا ۔۔۔
”حمزہ آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہے ۔۔۔“ ماہین نے بڑی بےتکلفی سے فرائیڈ رائس حمزہ کی پلیٹ میں ڈالے
”احمد بھائی آپ کو پتہ ہے میں اور حمزہ کالج کے دنوں میں کلاس فیلو رہ چکے ہیں ۔۔۔“ ماہین نے جوش سے کمشنر صاحب کو اطلاع دی پھر دوبارہ حمزہ کی جانب مڑی
” حمزہ مجھے تو ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ تم سنگر بنو گے یہ پولیس لائن میں کیسے آگئے ہو ۔۔۔“ ان جانے میں ماہین حمزہ کی دکھتی رگ کو چھیڑ گئی تھی
حمزہ کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہوچکی تھی تبھی گڈو نے حمزہ کو مخاطب کیا ۔۔
”چاچو گھر چلیں نیند آرہی ہے ۔۔۔“
”بیٹا صبح سنڈے ہے آج تھوڑا دیر تک جاگ لو ۔۔۔اچھا تو ماہین تم کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔“ مسز احمد نے زبردستی کی مسکراہٹ سجا کر پہلے گڈو کو ٹوکا پھر دوبارہ اپنی بہن کی جانب متوجہ ہو گئیں ۔
” بجو میں کہہ رہی تھی کہ حمزہ تو کالج اور یونیورسٹی میں مشہور تھا اتنا زبردست گٹار بجاتا تھا کہ سب کو دیوانہ کردیتا تھا اور ایک بار تو ۔۔۔۔“ ابھی ماہین کی بات بیچ ہی میں تھی کہ حمزہ معذرت کرتا کھڑا ہوگیا ۔۔
” سر بچے صبح سے گھر سے نکلے ہوئے ہیں اب ان کے سونے کا ٹائم ہے مجھے اجازت دیجئیے پیر کو آفس میں ملتے ہیں۔“
وہ قطعی لہجے میں کہتا والٹ سے چند بڑے نوٹ نکال کر میز پر رکھتا ہوا پپو اور گڈو کو لیکر بنا رکے باہر نکلتا چلا گیا ۔
”احمد آپ نے دیکھا یہ حمزہ کتنا بدتمیز ہوگیا ہے بات کرنے کی تمیز تک نہیں رہی ہے آپ اسے جاب سے نکالنے کی دھمکی دیجئیے پھر دیکھنا کیسے سیدھا ہوتا ہے ۔۔“ مسز احمد نے غصہ سے کہا کمشنر صاحب جو رشتے میں حمزہ کے کزن بھی تھے نے اپنی بیگم کو گھورا
” عالیہ حمزہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوا ہے اس کے باپ دادا کی ملیں چل رہی ہیں یہ نوکری تو وہ صرف اور صرف اپنے شوق کیلئیے کررہا ہے اس لئیے الٹے سیدھے مشورے مت دو بلکہ یہ سوچو کہ ماہین کی شادی حمزہ سے کیسے کروائی جائے تاکہ ہمارا عمل دخل اس کے گھر اور بزنس پر بھی ہوسکے ۔۔“
” پر احمد بھائی اس کی نظر ان منحوس بچوں سے ہٹے تو وہ مجھے بھی دیکھے لیکن وہ بچے اللہ کی پناہ ہر وقت اس کا دھیان بٹائے رکھتے ہیں ۔۔“ ماہین نے غصہ سے کہا
”ماہین گڑیا ان بچوں کو سیڑھی بنا کر ہی حمزہ پر قابو پایا جا سکتا ہے بعد میں جب حمزہ تمہاری مٹھی میں ہو تو ان کا پتہ کاٹ دینا ۔۔“عالیہ نےمشورہ دیا
” احمد بھائی آپ کہی جانے کا بہانہ کرکے مجھے ایک مہینہ حمزہ کے گھر چھوڑ دیں پھر میں سب سنبھال لونگی ۔۔“ ماہین کی آنکھوں میں شاطرانہ چمک تھی
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے پپو اور گڈو کو گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔۔
” چاچو ہمیں فش کھانی ہے چلیں راول جھیل چلتے ہیں مزا آئیگا ۔۔“ گاڑی کے چلتے ہی گڈو کا فرمائشی پروگرام شروع ہوا
پپو بھی پیچھے والی سیٹ پر کھڑا ہوگیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے بازوؤں کو حمزہ کی گردن میں ڈال کر اس کے سر پر کس کرنے لگا ۔
” پپو موٹے میں ڈرائیو کررہا ہوں گردن چھوڑ اور آرام سے بیٹھ ۔۔“ حمزہ نے پپو کو ٹوکا
پر وہ پپو ہی کیا جو کسی انسان کی بات مان جائے اب کے اس نے حمزہ کے بال مٹھی میں جکڑ لئیے ۔۔
”چاچو بوٹ میں بیٹھنا ہے وہ بہت بڑی والی ۔۔“ پپو نے بھی اپنی فرمائش حمزہ کی سماعتوں میں ڈالی ۔
”اچھا میرے باپ میرے بال چھوڑ کیا گنجا کریگا چلو بوٹنگ پر چلتے ہیں تم دونوں بھی کیا یاد کروگے ۔۔“ حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا اور گاڑی راول جھیل کی طرف موڑ لی ۔
”ویسے چاچو آپ کو پتہ ہے گنجے لڑکوں کی شادی بہت مشکل سے ہوتی ہے ۔۔“ کافی دیر سے خاموش بیٹھے گڈو نے زبان کھولی
”چاچو مجھے شادی کرنی ہے ۔۔۔“ پپو نے بیچ میں ٹانگ اڑائی حمزہ نے چار سالہ پپو کو گھور کر دیکھا جو بڑی بےنیازی سے اسے دیکھ رہا تھا
”پپو یار اپنی عمر دیکھ اب میں تین چار سال کی دلہن کدھر سے ڈھونڈوں ایسا کر بیس سال رک جا پھر کچھ کرتے ہیں ۔۔“حمزہ نے دہائی دی اسی طرح باتیں کرتے وہ جھیل پہنچ چکے تھے ریسٹورانٹ سے تو بچے بھوکے اٹھ آئے تھے لہذا پہلے تو انہوں نے اسٹال سے مچھلی خرید کر پیٹ بھر کر کھائی پھر تینوں الکسی سے گھاس پر لیٹ گئے دور آسمان پر ستارے چمک رہے تھے تھوڑی دیر بعد حمزہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔
” گڈو پپو اٹھو یار رات بہت ہوگئی ہے گیارہ بج رہے ہیں اب گھر چلو ۔۔“
”چاچو بوٹنگ ۔۔۔۔“ گڈو روہانسا ہوا
”بیٹا اتنی رات تو کوئی ہمیں کشتی نہیں دیگا پھر کبھی آئینگے ۔۔۔“ حمزہ نے بہلانا چاہا
” آپ پولیس ہیں آپکو کوئی منع نہیں کریگا چلیں نا چاچو ۔۔“ حمزہ ایک گہری سانس بھرتا ملاحوں کی جانب بڑھا جو اپنے اپنے گھر جانے کی تیاریاں کررہے تھے ان سے بات کرکے ایک ملاح کو منہ مانگی قیمت پر راضی کرکے بچوں کو لیکر کشتی میں بیٹھا ۔۔۔ چودھویں کی رات تھی چاند کی روشنی میں جھیل کا چڑھتا پانی اور ہچکولے کھاتی کشتی سب بہت اچھا لگ رہا تھا پپو اور گڈو دونوں انجوائے کررہے تھے بارہ بجنے والے تھے جب حمزہ نے ملاح کو کشتی واپس موڑنے کا حکم دیا تھوڑی دیر بعد حمزہ کو پانی میں کسی کے گرنے کی آواز آئی پانی زور سے اچھلا ۔۔
”صاحب لگتا ہے آج پھر کسی نے خودکشی کی ہے ۔۔“ ملاح نے افسردگی سے کہا
” یار تم کشتی اس طرف لو ۔۔“ حمزہ نے پانی کے بھنور کی طرف اشارہ کیا
” گڈو پپو کوئی شرارت نہیں میں ابھی آتا ہوں ۔“ بچوں کو ہدایت دیتا وہ کشتی سے کود گیا اور تیزی سے غوطہ لگاتا اندر کی طرف گیا اسے پانی کے بہاؤ میں ڈوبتا انسانی وجود نظر آگیا تھا وہ تیرتا ہوا اس وجود کے پاس پہنچا اور بڑی مشکل سے اسے جکڑ کر پانی کی سطح تک لایا اتنے میں کشتی قریب آچکی تھی ایک ہاتھ سے کشتی کا کنارہ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اس وجود کو اٹھا کر کشتی میں ڈالا ۔۔
”صاحب یہ تو پولیس کیس لگ رہا ہے کشتی والے نے اس انسانی وجود کے ہاتھ پیر بندھے دیکھ کر کہا جس پر حمزہ نے اس سے اپنا تعارف کروایا
کنارے پر پہنچ کر بلب کی روشنی میں جب حمزہ نے اس وجود کو سیدھا کیا تو چونک گیا یہ تو وہی سڑک والی بداخلاق بدتمیز لڑکی تھی جو اب اس کے سامنے بیہوش پڑی تھی ۔ حمزہ بچوں کے ساتھ اس لڑکی کو لیکر اپنے گھر آگیا گیسٹ روم کھول کر اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر اندر لایا اور بیڈ پر لٹا دیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوست ڈاکٹر وسیم کو فون کرکے فوراً آنے کو کہا
”گڈو پپو جاؤ کپڑے چینج کرو برش کرو اور سونے لیٹو ۔۔۔“ وہ دونوں سر ہلاتے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئے
************************
مریم گیلے لباس میں پانی سے تر بتر بیہوش پڑی تھی اس کے لمبے گھنے بال اس کے چہرے اور گردن پر چپکے ہوئے تھے گیلے لباس میں اس کے وجود کی رعنائیاں ابھر کر سامنے آرہی تھی حمزہ نے بڑی مشکل سے اپنی نظریں اس کے ساحر وجود سے ہٹائیں بلاشبہ سامنے پڑی لڑکی بہت پرکشش تھی اور اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی حمزہ نے دھیرے سے اس کے چاند سے چہرے سے چپکی سیاہ بالوں کی لٹیں ہٹائیں پھر نظر چراتا اٹھا اور الماری سے کمبل نکال کر اس کے ہوش ربا وجود کو ڈھک دیا تبھی انٹرکام بجنے لگا تھا ۔۔
چوکیدار نے ڈاکٹر وسیم کے آنے کی اطلاع دی ۔۔ ڈاکٹر وسیم نے آکر مریم کا چیک اپ کیا
” حمزہ یہ شاک لگنے سے بیہوش ہوئی ہے میں اسے انجکشن دیتا ہوں صبح تک ہوش میں آجائیگی ۔۔۔“ مریضہ سے فارغ ہوکر ڈاکٹر وسیم حمزہ کی طرف مڑا
” لڑکی تو بہت ینگ اور خوبصورت ہے قصہ کیا ہے کہی یہ میری ہونے والی بھابھی تو نہیں ۔۔“ حمزہ نےوسیم کو ایک زوردار دھموکہ مارا اور پھر سارا قصہ سنایا
” حمزہ میں صبح امی کو لیکر آتا ہوں لڑکی ذات کا معاملہ ہے تھانے لیکر مت جانا ۔۔“
” اتنی عقل تو مجھے بھی ہے اسی لئیے تو گھر لایا ہوں ۔ “ حمزہ نے جواب دیا
ڈاکٹر وسیم کو رخصت کرکے حمزہ نے مریم پر ایک بار پھر کمبل درست کیا اور لائٹ بند کرتا باہر نکل گیا ۔
************************
سنڈے کا دن تھا حمزہ گدھے گھوڑے سب بیچ کر اپنے کمرے میں سو رہا تھا جب گڈو اور پپو نے اندر جھانکا پھر اسے سوتا چھوڑ کر دونوں گیسٹ روم کی طرف روانہ ہوئے ۔ مریم کو ایسا لگا جیسے کوئی بڑے پیار سے نرم نرم روئی کے گالوں سے اسے چھو رہا ہو اس نے کراہتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولی
دو بڑے ہی پیارے گول مٹول سے بچے بیڈ پر بیٹھے اس پر جھکے ہوئے تھے اور چھوٹے والے نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما ہوا تھا ۔۔
”گڈو دیکھو پریٹی لڑکی جاگ گی ہے ۔۔۔“ پپو جوش سے بولا اپنے لئیے پریٹی لڑکی سنتے ہی مریم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور وہ اٹھ بیٹھی اب وہ حیرانگی سے کمرے کو دیکھ رہی تھی پھر اسے یاد آیا کہ تایا نے کیسے اس کے والدین کو مارنے کا اعتراف کیا تھا تبھی گڈو اس کے سامنے آیا
” میرا نام گڈو اور یہ میرا بھائی پپو اور آپ۔ ؟ “
”میں میرا نام مریم ہے ۔“
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔