نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 5
مریم غور سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی فرنیچر سے لیکر ڈیکوریشن تک ایک ایک چیز بیش قیمت تھی پردوں سے روشنی چھن چھن کر اندر آرہی تھی اور پھر اس کے دائیں بائیں بیٹھے دو کیوٹ سے بچے وہ اچھی طرح سے جائزہ لیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
”مریم بے بی واش روم ادھر ہے ۔۔“ گڈو نے اٹیچ باتھ کی طرف اشارہ کیا ۔
مریم تو اس بچے کہ منہ سے بے بی سن کر ہی غش کھانے کو تھی کے چھوٹا والا بھی اس کے پاس آکر اس کی شرٹ کے دامن کو پکڑ کر اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے لگا ۔
” مریم جاؤ اچھے بچوں کی طرح منہ دھو کر آؤ تھوڑی دیر میں ڈورا آنےوالی ہے ۔۔۔“ پپو نے بڑی سنجیدگی سے کہا ۔
عجیب بچے ہیں ایک اجنبی سے اتنے فری ہورہے ہیں لیکن ہیں بڑے پیارے وہ سوچتی ہوئی واش روم کی جانب بڑھی ۔۔۔ جدید طرز پر بنے اس واش روم میں ایک بڑا قدآور آئینہ لگا ہوا تھا مریم کی نگاہ جیسے ہی اپنے عکس پر پڑی اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی پانی کی نمی سے الجھے گھچے ہوئے بال ماتھے پر ایک بڑا نیلا گومڑا اور ملگجا لباس ۔۔
” او گاڈ یہ میں ہوں ۔۔۔۔“اس نازک مزاج کو اپنے آپ سے گھن آئی ۔ رگڑ رگڑ کر منہ ہاتھ دھویا برش سے بال سلجھائے دل تو چاہ رہا تھا کہ شاور لے پر کپڑے وہ کبھی بھی ان گندے کپڑوں کو دوبارہ نہیں پہن سکتی تھی تھوڑا بہت حلیہ قابل قبول بنا کر باہر نکلی تو وہ دونوں اس کا انتظار کررہے تھے ۔
” آؤ ہم باہر چلتے ہیں آپ کو بریک فاسٹ کرائیں ۔۔“ گڈو اس کا ہاتھ تھام کر بولا
” گڈو یہی نام بتایا تھا نا؟ ۔“ مریم نے کنفرم کیا ۔
”جی میں گڈو اور یہ پپو موٹا ۔۔“
” گڈو تمہارے ممی ڈیڈی کدھر ہیں انہیں بلاؤ پلیز ۔“ مریم نے کہا
” ممی ڈیڈی تو اللہ میاں کے پاس ہیں وہ تو ابھی نہیں آسکتے جب رات ہوتی ہے نا اور ہم سو جاتے ہیں نا تب وہ ہمیں چیک کرنے آتے ہیں ۔“ گڈو نے اسے تفصیل سے سمجھایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر لاونچ میں لے آیا ۔
مریم کا دل گڈو کے سادگی سے اپنی اتنی بڑی محرومی کا ذکر کرنے پر ڈوب سا گیا تھا کہ اچانک ہی چھوٹے گڈے سے بچے نے آواز لگائی
” مریم آؤ بے بی میرے پاس بیٹھ جاؤ ڈورا آرہی ہے ۔“ پپو نے ریموٹ سے ٹی وی آن کرکے صوفہ پر جمپ لگا کر بیٹھتے ہوئے کہا ٹی وی پر ڈورا کارٹون کا سانگ چل رہا تھا وہ آہستگی سے چلتے ہوئے پپو کے پاس جا کر بیٹھ گئی پپو پوری طرح کارٹون میں مگن تھا اور ڈورا کی حرکتوں پر کلکاریاں مار رہا تھا ابھی وہ اس حیرت کدہ کو سمجھنے کی کوشش ہی کررہی تھی کہ گڈو ٹرے اٹھائے اندر آیا ۔۔۔
”پپو مریم بریک فاسٹ۔۔“ اس نے میز پر ٹرے رکھی ۔
مریم نے ٹرے کا جائزہ لیا تین ایپل جوس کے باکس اور چاکلیٹ ویفرز ساتھ تھے ۔
” گڈو کیا اتنے بڑے گھر میں تم دونوں اکیلے رہتے ہو ۔۔۔“ مریم نے ذہن میں مچلتا سوال کیا ۔
” نہیں چاچو بھی ہیں آج سنڈے ہے نا تو وہ دیر سے اٹھینگے ۔۔“ گڈو جوس اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا
”کیا تمہیں پتا ہے کہ میں یہاں تمہارے گھر کیسے آئی ۔۔“ مریم نے پوچھا
”ہاں نا چاچو نے پانی میں ایک ڈائیو لگائی اور پھر ہم سب گھر آگئے ۔۔“ گڈو نے ٹی وی دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔ دونوں بچوں کا انہماک ٹی وی میں تھا مریم آہستگی سے اٹھی اس کا ارادہ اس حیرت کدہ میں فون ڈھونڈنے کا تھا وہ آہستگی سے لاؤنچ سے باہر نکلی اور سامنے سے آتے حمزہ سے بری طرح ٹکرا گئی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نیند میں گم تھا جب اس کا سیل بجنا شروع ہوا اور وقفہ وقفہ سے بجتا چلاگیا تنگ آکر اس نے لحاف منہ سے ہٹا کر فون اٹھایا ۔
”ہیلو کیا مسئلہ ہے کیوں فون کئیے جارہے ہوں ۔۔۔“ وہ کان پھاڑنے والے انداز میں چلایا ۔
”بھائی میرے صبح ہوگئی ہے اور تیرے گھر میں ایک اجنبی لڑکی موجود ہے جو اب تک ہوش میں آچکی ہوگئی ۔۔“ دوسری جانب سے ڈاکٹر وسیم نے اس کی یاداشت تازہ کی
” ٹھیک میں دیکھتا ہوں تو آنٹی کو کب تک لے کر آرہا ہے ۔۔“ حمزہ تیزی سے بستر چھوڑتا ہوا بولا
” میں امی کو لیکر نکل چکا ہوں بس پندرہ بیس منٹ میں پہنچتا ہوں ۔۔“ ڈاکٹر وسیم نے جواب دیا حمزہ نے جلدی سے الماری سے کپڑے گھسیٹے اور فریش ہونے چلا گیا تیار ہو کر تیز تیز قدم اٹھاتا گیسٹ روم کی جانب بڑھ رہا تھا جب لاؤنچ کا دروازہ کھول کر باہر آتی مریم سے ٹکرا گیا اسے تو کچھ نہیں ہوا پر مریم کراہ کر اپنا سر پکڑ کر رہ گئی ۔۔۔
” بدتمیز اندھے دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے ۔۔“ وہ چلائی ۔
” تمیز سے بات کرو ورنہ ابھی اٹھا کر باہر پھینک دونگا ۔۔۔“ حمزہ بھی ٹیمپر لوز کرتا ہوا بولا
اس کی مانوس سی آواز پر مریم نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور چونک گئی ۔۔
” تم ! تم تو وہی روڈ والے بدمعاش ہو ۔۔“ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا حمزہ تو اپنے لئیے بدمعاش کا لفظ سن کر بلبلا اٹھا اور تیزی سے مریم کا بازو پکڑ کر اسے گیسٹ روم کی طرف گھسیٹتا ہوا لے گیا اور اندر آکر اسے صوفہ پر پٹخا ہی تھا کہ انٹرکام بجنے لگا چوکیدار نے ڈاکٹر وسیم کے آنے کی اطلاع دی ۔
” وسیم آنٹی کو لیکر گیسٹ روم میں آجاؤ ۔۔“
حمزہ نے وسیم کو انٹرکام پر ہدایت دی ۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر وسیم ایک باوقار سی خاتون کے ساتھ اندر داخل ہوا حمزہ نے آگے بڑھ کرانہیں سلام کیا اور خاموشی سے ان سب کو تکتی مریم کی جانب اشارہ کیا
”آنٹی یہ محترمہ کل رات بارہ بجے بندھے ہاتھ پیر کے ساتھ جھیل میں ڈوب رہی تھیں اب آپ ہی ان سے بات کریں ۔۔۔“ حمزہ نے بات شروع کی
” میں جھیل میں ڈوب رہی تھی میں “ مریم اپنے سینے پر انگلی رکھتی حیرت سے بولی
”بیٹی پہلے تو تم اپنا نام بتاؤ پھر یاد کرکے بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا ۔“ آنٹی نے بڑے پیار سے مریم کے پاس بیٹھ کر پوچھا
مریم آہستہ آہستہ انہیں اپنے بارے میں بتانے لگی ۔ ” اسکا مطلب آپ کے ہاتھ پیر باندھ کر آپ کے تایا نے آپ کو جھیل میں پھینکا تاکہ آپکا پتہ بھی صاف ہوجائے اور وہ آپ کی جائیداد پر قبضہ کرسکیں ۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا
” شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کیا آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جاسکتے ہیں تاکہ میں ان کے خلاف رپورٹ درج کروا سکوں ۔۔۔“ مریم نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” آپ مجھے اپنے تایا کا ایڈرس اور نمبر دیجئیے ۔“ حمزہ نے کہا
مریم کا بتایا ایڈرس نوٹ کرکے وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ اندر واپس آیا اس کے چہرے پر گھمبیر سنجیدگی تھی ۔۔
” مس مریم آپ کے تایا کا کہنا ہے کہ ان کی بھتیجی مریم تو دس سال پہلے ہی روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئی تھی وہ آپ کو فراڈ قرار دے رہے ہیں اب اگر آپ قانون کی مدد لیتی ہیں تو آپ کے پاس کوئی آئیڈنٹیٹی پاسپورٹ برتھ سرٹیفکیٹ کچھ ہے ورنہ آپ کچھ نہیں کرسکتی ۔۔“
مریم کو ایک لمحہ میں اپنا وجود عرش سے فرش پر آتا محسوس ہوا وہ ہمت کرکے کپکپاتے ہوئے لہجے میں حمزہ سے مخاطب ہوئی ۔۔۔
”میرے سارے ڈاکومینٹس تایا کے گھر پر ہیں انہوں نے جب میں آرہی تھی تو اوریجنل منگوائے تھے میرا سیل اور پاسپورٹ بھی ادھر ہی ہے ایک خالہ لندن میں ہیں پر وہ معذور ہیں ۔۔۔“ وہ بولتے بولتے روہانسی ہو گئی
کافی دیر تک یہ مسئلہ ڈسکس ہوتا رہا ۔۔
” حمزہ بیٹے یہ بچی ابھی اکیلی ہے اور اگر ان لوگوں کو اس کے زندہ ہونے کی بھنک بھی پڑ گئی تو اسے مار ڈالیں گئے اور میں آج رات کی فلائٹ سے اپنی بیٹی کے پاس جارہی ہوں اب تو یہ ہی ہوسکتا ہے کہ تم دونوں کا نکاح کروادیا جائے تاکہ شرعی طور پر اس مجبور کو ٹھکانہ مل جائے اور کوئی اس پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے ۔“ آنٹی نے بڑی سمجھداری سے بات کی
” پلیز آنٹی میں بہت جلد اپنا بندوبست کرلونگی آپ لوگ پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔“ مریم نے سختی سے نفی کی
حمزہ کے وجیہہ چہرے پر بھی الجھن رقم تھی اور آنٹی مریم کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھا رہی تھی تب حمزہ ایک فیصلہ کرتا آگے بڑھا ۔۔۔
” مس مریم ! میری زندگی میں کسی عورت کیلئیے کوئی گنجائش نہیں ہے خاص کر تم جیسی بدلحاظ اور بدتمیز لڑکی کی جسے پہنے اوڑھنے تک کی بھی تمیز نہیں ۔۔۔“ وہ اس کی جینز اور شرٹ کو دیکھتے ہوئے بولا
مریم تلملا کر جواب دینا ہی چاہتی تھی کہ اس نے انگلی کے اشارے سے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی ۔۔
” میں صرف اپنی نیک نامی بچانے اور خداترسی میں تم پر رحم کھاتے ہوئے آج تم سے نکاح کرونگا تاکہ اس کیس کے حل ہونے تک تم یہاں رہ سکو اور جیسے ہی تمہارے ڈاکومینٹس آتے ہیں اور تم کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لیتی ہو تو یہ رشتہ ختم اور میرے بچوں کو اس کے بارے میں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھ سے کوئی امید رکھنا اور رجھانے کی کوشش تو ہرگز نہ کرنا ورنہ منہ کی کھاؤ گی ۔۔“ حمزہ نے سرد لہجے میں بات ختم کی ۔۔۔ مریم کی برداشت ختم ہونے کو تھی آگے کنواں اور پیچھے کھائی والا معاملہ تھا زندگی کے اس رخ نے اسے منہ کے بل گرایا تھا اس سے پہلے وہ انکار کرتی آنٹی نے اسکا ہاتھ دبا کر کچھ بھی کہنے سے منع کردیا ۔۔۔
” حمزہ تم جا کر بچوں کو دیکھوں اور وسیم تم قاضی کا اور گواہوں کا انتظام کرو ۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو دونوں ٹی وی میں مگن تھے جب حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔۔
” گڈ مارننگ چاچو ۔۔۔“ دونوں نے لہک کر کہا
” چاچو کی جان آج میں تم لوگوں کیلئیے پزا آرڈر کررہا ہوں اور تمہارے کمرے میں پلے اسٹیشن بھی لگا رہا ہوں میرے کچھ گیسٹ آرہے ہیں تو تم دونوں ان کے جانے تک اندر ہی رہنا ۔۔۔“ حمزہ نے سمجھایا
” چاچو ہم بےبی کو بھی ساتھ لیجائیں ۔۔۔“ پپو نے پوچھا
” بے بی ۔۔۔“ حمزہ نے حیرانی سے دہرایا
”ابھی ایک مصیبت کیا کم تھی جو اب تم شیطان کسی کی بےبی اٹھا لائے ہو کدھر ہے بےبی ۔۔۔“ حمزہ نے ڈانٹا ۔
” افف چاچو کیوٹ لڑکی کو بے بی کہتے ہیں اور ہم نہیں اسے رات کو آپ اٹھا کر لائے تھے ۔۔“ گڈو نے حمزہ کو تاسف سے دیکھا۔
” اچھا میرے باپ MTV کی اولاد اب تم کمرے میں جاؤ تھوڑی دیر میں پزا بھی آجائیگا اب میرے آواز لگانے تک کمرے میں رہنا ۔۔۔“ حمزہ نے تنبیہی کی ۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر گھر میں حمزہ کے چند دوست وسیم کے والد اور مولوی صاحب آچکے تھے نکاح کی سنت ادا ہورہی تھی مریم جینز اور ملگجی سی شرٹ میں ننگے پیر آنٹی کی چادر اوڑھے ایجاب و قبول کے مرحلہ سے گزر رہی تھی ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں نکاح ہوچکا تھا اب مبارک سلامت کا شور تھا مالی بابا چوکیدار سب اس میں شریک تھے ۔۔
”آنٹی یہ مجبوری کا نکاح ہے میں جیسے ہی حالات سازگار ہوتے ہیں اور میری لندن واپسی کی کوئی راہ نکلتی ہے چلی جاؤنگی ، یہ میری بےبسی ہے کہ آج میں ایک بددماغ کھڑوس آدمی کی پناہ لینے پر مجبور ہوگئی ہوں ۔۔۔۔“ مریم کا لہجہ نم تھا
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
”مریم بے بی واش روم ادھر ہے ۔۔“ گڈو نے اٹیچ باتھ کی طرف اشارہ کیا ۔
مریم تو اس بچے کہ منہ سے بے بی سن کر ہی غش کھانے کو تھی کے چھوٹا والا بھی اس کے پاس آکر اس کی شرٹ کے دامن کو پکڑ کر اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے لگا ۔
” مریم جاؤ اچھے بچوں کی طرح منہ دھو کر آؤ تھوڑی دیر میں ڈورا آنےوالی ہے ۔۔۔“ پپو نے بڑی سنجیدگی سے کہا ۔
عجیب بچے ہیں ایک اجنبی سے اتنے فری ہورہے ہیں لیکن ہیں بڑے پیارے وہ سوچتی ہوئی واش روم کی جانب بڑھی ۔۔۔ جدید طرز پر بنے اس واش روم میں ایک بڑا قدآور آئینہ لگا ہوا تھا مریم کی نگاہ جیسے ہی اپنے عکس پر پڑی اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی پانی کی نمی سے الجھے گھچے ہوئے بال ماتھے پر ایک بڑا نیلا گومڑا اور ملگجا لباس ۔۔
” او گاڈ یہ میں ہوں ۔۔۔۔“اس نازک مزاج کو اپنے آپ سے گھن آئی ۔ رگڑ رگڑ کر منہ ہاتھ دھویا برش سے بال سلجھائے دل تو چاہ رہا تھا کہ شاور لے پر کپڑے وہ کبھی بھی ان گندے کپڑوں کو دوبارہ نہیں پہن سکتی تھی تھوڑا بہت حلیہ قابل قبول بنا کر باہر نکلی تو وہ دونوں اس کا انتظار کررہے تھے ۔
” آؤ ہم باہر چلتے ہیں آپ کو بریک فاسٹ کرائیں ۔۔“ گڈو اس کا ہاتھ تھام کر بولا
” گڈو یہی نام بتایا تھا نا؟ ۔“ مریم نے کنفرم کیا ۔
”جی میں گڈو اور یہ پپو موٹا ۔۔“
” گڈو تمہارے ممی ڈیڈی کدھر ہیں انہیں بلاؤ پلیز ۔“ مریم نے کہا
” ممی ڈیڈی تو اللہ میاں کے پاس ہیں وہ تو ابھی نہیں آسکتے جب رات ہوتی ہے نا اور ہم سو جاتے ہیں نا تب وہ ہمیں چیک کرنے آتے ہیں ۔“ گڈو نے اسے تفصیل سے سمجھایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر لاونچ میں لے آیا ۔
مریم کا دل گڈو کے سادگی سے اپنی اتنی بڑی محرومی کا ذکر کرنے پر ڈوب سا گیا تھا کہ اچانک ہی چھوٹے گڈے سے بچے نے آواز لگائی
” مریم آؤ بے بی میرے پاس بیٹھ جاؤ ڈورا آرہی ہے ۔“ پپو نے ریموٹ سے ٹی وی آن کرکے صوفہ پر جمپ لگا کر بیٹھتے ہوئے کہا ٹی وی پر ڈورا کارٹون کا سانگ چل رہا تھا وہ آہستگی سے چلتے ہوئے پپو کے پاس جا کر بیٹھ گئی پپو پوری طرح کارٹون میں مگن تھا اور ڈورا کی حرکتوں پر کلکاریاں مار رہا تھا ابھی وہ اس حیرت کدہ کو سمجھنے کی کوشش ہی کررہی تھی کہ گڈو ٹرے اٹھائے اندر آیا ۔۔۔
”پپو مریم بریک فاسٹ۔۔“ اس نے میز پر ٹرے رکھی ۔
مریم نے ٹرے کا جائزہ لیا تین ایپل جوس کے باکس اور چاکلیٹ ویفرز ساتھ تھے ۔
” گڈو کیا اتنے بڑے گھر میں تم دونوں اکیلے رہتے ہو ۔۔۔“ مریم نے ذہن میں مچلتا سوال کیا ۔
” نہیں چاچو بھی ہیں آج سنڈے ہے نا تو وہ دیر سے اٹھینگے ۔۔“ گڈو جوس اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا
”کیا تمہیں پتا ہے کہ میں یہاں تمہارے گھر کیسے آئی ۔۔“ مریم نے پوچھا
”ہاں نا چاچو نے پانی میں ایک ڈائیو لگائی اور پھر ہم سب گھر آگئے ۔۔“ گڈو نے ٹی وی دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔ دونوں بچوں کا انہماک ٹی وی میں تھا مریم آہستگی سے اٹھی اس کا ارادہ اس حیرت کدہ میں فون ڈھونڈنے کا تھا وہ آہستگی سے لاؤنچ سے باہر نکلی اور سامنے سے آتے حمزہ سے بری طرح ٹکرا گئی ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نیند میں گم تھا جب اس کا سیل بجنا شروع ہوا اور وقفہ وقفہ سے بجتا چلاگیا تنگ آکر اس نے لحاف منہ سے ہٹا کر فون اٹھایا ۔
”ہیلو کیا مسئلہ ہے کیوں فون کئیے جارہے ہوں ۔۔۔“ وہ کان پھاڑنے والے انداز میں چلایا ۔
”بھائی میرے صبح ہوگئی ہے اور تیرے گھر میں ایک اجنبی لڑکی موجود ہے جو اب تک ہوش میں آچکی ہوگئی ۔۔“ دوسری جانب سے ڈاکٹر وسیم نے اس کی یاداشت تازہ کی
” ٹھیک میں دیکھتا ہوں تو آنٹی کو کب تک لے کر آرہا ہے ۔۔“ حمزہ تیزی سے بستر چھوڑتا ہوا بولا
” میں امی کو لیکر نکل چکا ہوں بس پندرہ بیس منٹ میں پہنچتا ہوں ۔۔“ ڈاکٹر وسیم نے جواب دیا حمزہ نے جلدی سے الماری سے کپڑے گھسیٹے اور فریش ہونے چلا گیا تیار ہو کر تیز تیز قدم اٹھاتا گیسٹ روم کی جانب بڑھ رہا تھا جب لاؤنچ کا دروازہ کھول کر باہر آتی مریم سے ٹکرا گیا اسے تو کچھ نہیں ہوا پر مریم کراہ کر اپنا سر پکڑ کر رہ گئی ۔۔۔
” بدتمیز اندھے دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے ۔۔“ وہ چلائی ۔
” تمیز سے بات کرو ورنہ ابھی اٹھا کر باہر پھینک دونگا ۔۔۔“ حمزہ بھی ٹیمپر لوز کرتا ہوا بولا
اس کی مانوس سی آواز پر مریم نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور چونک گئی ۔۔
” تم ! تم تو وہی روڈ والے بدمعاش ہو ۔۔“ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا حمزہ تو اپنے لئیے بدمعاش کا لفظ سن کر بلبلا اٹھا اور تیزی سے مریم کا بازو پکڑ کر اسے گیسٹ روم کی طرف گھسیٹتا ہوا لے گیا اور اندر آکر اسے صوفہ پر پٹخا ہی تھا کہ انٹرکام بجنے لگا چوکیدار نے ڈاکٹر وسیم کے آنے کی اطلاع دی ۔
” وسیم آنٹی کو لیکر گیسٹ روم میں آجاؤ ۔۔“
حمزہ نے وسیم کو انٹرکام پر ہدایت دی ۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر وسیم ایک باوقار سی خاتون کے ساتھ اندر داخل ہوا حمزہ نے آگے بڑھ کرانہیں سلام کیا اور خاموشی سے ان سب کو تکتی مریم کی جانب اشارہ کیا
”آنٹی یہ محترمہ کل رات بارہ بجے بندھے ہاتھ پیر کے ساتھ جھیل میں ڈوب رہی تھیں اب آپ ہی ان سے بات کریں ۔۔۔“ حمزہ نے بات شروع کی
” میں جھیل میں ڈوب رہی تھی میں “ مریم اپنے سینے پر انگلی رکھتی حیرت سے بولی
”بیٹی پہلے تو تم اپنا نام بتاؤ پھر یاد کرکے بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا ۔“ آنٹی نے بڑے پیار سے مریم کے پاس بیٹھ کر پوچھا
مریم آہستہ آہستہ انہیں اپنے بارے میں بتانے لگی ۔ ” اسکا مطلب آپ کے ہاتھ پیر باندھ کر آپ کے تایا نے آپ کو جھیل میں پھینکا تاکہ آپکا پتہ بھی صاف ہوجائے اور وہ آپ کی جائیداد پر قبضہ کرسکیں ۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا
” شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کیا آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جاسکتے ہیں تاکہ میں ان کے خلاف رپورٹ درج کروا سکوں ۔۔۔“ مریم نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” آپ مجھے اپنے تایا کا ایڈرس اور نمبر دیجئیے ۔“ حمزہ نے کہا
مریم کا بتایا ایڈرس نوٹ کرکے وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ اندر واپس آیا اس کے چہرے پر گھمبیر سنجیدگی تھی ۔۔
” مس مریم آپ کے تایا کا کہنا ہے کہ ان کی بھتیجی مریم تو دس سال پہلے ہی روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئی تھی وہ آپ کو فراڈ قرار دے رہے ہیں اب اگر آپ قانون کی مدد لیتی ہیں تو آپ کے پاس کوئی آئیڈنٹیٹی پاسپورٹ برتھ سرٹیفکیٹ کچھ ہے ورنہ آپ کچھ نہیں کرسکتی ۔۔“
مریم کو ایک لمحہ میں اپنا وجود عرش سے فرش پر آتا محسوس ہوا وہ ہمت کرکے کپکپاتے ہوئے لہجے میں حمزہ سے مخاطب ہوئی ۔۔۔
”میرے سارے ڈاکومینٹس تایا کے گھر پر ہیں انہوں نے جب میں آرہی تھی تو اوریجنل منگوائے تھے میرا سیل اور پاسپورٹ بھی ادھر ہی ہے ایک خالہ لندن میں ہیں پر وہ معذور ہیں ۔۔۔“ وہ بولتے بولتے روہانسی ہو گئی
کافی دیر تک یہ مسئلہ ڈسکس ہوتا رہا ۔۔
” حمزہ بیٹے یہ بچی ابھی اکیلی ہے اور اگر ان لوگوں کو اس کے زندہ ہونے کی بھنک بھی پڑ گئی تو اسے مار ڈالیں گئے اور میں آج رات کی فلائٹ سے اپنی بیٹی کے پاس جارہی ہوں اب تو یہ ہی ہوسکتا ہے کہ تم دونوں کا نکاح کروادیا جائے تاکہ شرعی طور پر اس مجبور کو ٹھکانہ مل جائے اور کوئی اس پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے ۔“ آنٹی نے بڑی سمجھداری سے بات کی
” پلیز آنٹی میں بہت جلد اپنا بندوبست کرلونگی آپ لوگ پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔“ مریم نے سختی سے نفی کی
حمزہ کے وجیہہ چہرے پر بھی الجھن رقم تھی اور آنٹی مریم کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھا رہی تھی تب حمزہ ایک فیصلہ کرتا آگے بڑھا ۔۔۔
” مس مریم ! میری زندگی میں کسی عورت کیلئیے کوئی گنجائش نہیں ہے خاص کر تم جیسی بدلحاظ اور بدتمیز لڑکی کی جسے پہنے اوڑھنے تک کی بھی تمیز نہیں ۔۔۔“ وہ اس کی جینز اور شرٹ کو دیکھتے ہوئے بولا
مریم تلملا کر جواب دینا ہی چاہتی تھی کہ اس نے انگلی کے اشارے سے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی ۔۔
” میں صرف اپنی نیک نامی بچانے اور خداترسی میں تم پر رحم کھاتے ہوئے آج تم سے نکاح کرونگا تاکہ اس کیس کے حل ہونے تک تم یہاں رہ سکو اور جیسے ہی تمہارے ڈاکومینٹس آتے ہیں اور تم کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لیتی ہو تو یہ رشتہ ختم اور میرے بچوں کو اس کے بارے میں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھ سے کوئی امید رکھنا اور رجھانے کی کوشش تو ہرگز نہ کرنا ورنہ منہ کی کھاؤ گی ۔۔“ حمزہ نے سرد لہجے میں بات ختم کی ۔۔۔ مریم کی برداشت ختم ہونے کو تھی آگے کنواں اور پیچھے کھائی والا معاملہ تھا زندگی کے اس رخ نے اسے منہ کے بل گرایا تھا اس سے پہلے وہ انکار کرتی آنٹی نے اسکا ہاتھ دبا کر کچھ بھی کہنے سے منع کردیا ۔۔۔
” حمزہ تم جا کر بچوں کو دیکھوں اور وسیم تم قاضی کا اور گواہوں کا انتظام کرو ۔۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو دونوں ٹی وی میں مگن تھے جب حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔۔
” گڈ مارننگ چاچو ۔۔۔“ دونوں نے لہک کر کہا
” چاچو کی جان آج میں تم لوگوں کیلئیے پزا آرڈر کررہا ہوں اور تمہارے کمرے میں پلے اسٹیشن بھی لگا رہا ہوں میرے کچھ گیسٹ آرہے ہیں تو تم دونوں ان کے جانے تک اندر ہی رہنا ۔۔۔“ حمزہ نے سمجھایا
” چاچو ہم بےبی کو بھی ساتھ لیجائیں ۔۔۔“ پپو نے پوچھا
” بے بی ۔۔۔“ حمزہ نے حیرانی سے دہرایا
”ابھی ایک مصیبت کیا کم تھی جو اب تم شیطان کسی کی بےبی اٹھا لائے ہو کدھر ہے بےبی ۔۔۔“ حمزہ نے ڈانٹا ۔
” افف چاچو کیوٹ لڑکی کو بے بی کہتے ہیں اور ہم نہیں اسے رات کو آپ اٹھا کر لائے تھے ۔۔“ گڈو نے حمزہ کو تاسف سے دیکھا۔
” اچھا میرے باپ MTV کی اولاد اب تم کمرے میں جاؤ تھوڑی دیر میں پزا بھی آجائیگا اب میرے آواز لگانے تک کمرے میں رہنا ۔۔۔“ حمزہ نے تنبیہی کی ۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر گھر میں حمزہ کے چند دوست وسیم کے والد اور مولوی صاحب آچکے تھے نکاح کی سنت ادا ہورہی تھی مریم جینز اور ملگجی سی شرٹ میں ننگے پیر آنٹی کی چادر اوڑھے ایجاب و قبول کے مرحلہ سے گزر رہی تھی ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں نکاح ہوچکا تھا اب مبارک سلامت کا شور تھا مالی بابا چوکیدار سب اس میں شریک تھے ۔۔
”آنٹی یہ مجبوری کا نکاح ہے میں جیسے ہی حالات سازگار ہوتے ہیں اور میری لندن واپسی کی کوئی راہ نکلتی ہے چلی جاؤنگی ، یہ میری بےبسی ہے کہ آج میں ایک بددماغ کھڑوس آدمی کی پناہ لینے پر مجبور ہوگئی ہوں ۔۔۔۔“ مریم کا لہجہ نم تھا
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔