نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 6
تھوڑے بہت جتنے بھی مہمان تھے سب جاچکے تھے جب ڈاکٹر وسیم نے سنجيده بیٹھے حمزہ کو مخاطب کیا ۔۔
” حمزہ یار کیا سوچ رہا ہے ؟ ویسے تو اتنی جلدی ایک بار ہی ممی کے کہنے پر راضی کیسے ہوگیا ! میں ابھی تک حیران ہوں کیونکہ ممی کا بس چلے تو کوئی بھی کنوارا نہ بچے اور میں تو اس حسینہ کو دیکھتے ہوئے خود کو قربانی کا بکرا بنانے کیلئیے تیار تھا ۔۔۔“
” وسیم یہ لڑکی اقبال احمد کے بھائی کی بیٹی ہے ۔۔۔“ حمزہ کا لہجہ سرد اور آنکھیں سرخ تھی
” تمہارامطلب ! اقبال احد او گاڈ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔“ وسیم کا حیرت سے برا حال تھا
” مجھے بھی اسی وقت پتا چلا جب وہ آنٹی کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی اسی لئیے اس سے ایڈرس اور فون نمبر لیا تھا تاکہ کنفرم کرسکوں “ ۔ حمزہ سنجیدگی سے بولا
”تو پھر نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی پتہ ہے نا کتنا زہریلا خاندان ہے ۔“ وسیم بھی سنجيده ہوگیا تھا
” جب بھیا بھابھی کو اس ایکسیڈنٹ میں مروایا گیا تھا تب میں اسٹوڈنٹ تھا اس اقبال کے خلاف ایک بھی ثبوت پولیس نے اکھٹا نہیں کیا بلکہ سارے ثبوت مٹا دئیے تھے اور ایکسیڈنٹ کا کہہ کر کیس کلوز کردیا گیا ، تو اچھی طرح جانتا ہے میں سب چھوڑ کر سی ایس ایس کر کے اس لائن میں کیوں آیا ہوں ۔۔“ حمزہ نے جواب دیا
” پر یار نکاح کیوں جبکہ وہ لڑکی بھی شاید ایسا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔“ وسیم الجھا
”یہ لڑکی میرے لئیے ایک مہرہ ہے جسے استمال کرکے میں اس اقبال کو سڑک پر لاؤنگا میں کسی بھی طرح اقبال کے خلاف لگا یہ مہرہ ہاتھ سے جانے نہیں دےسکتا تھا اب اس کا شوہر ہونے کی حیثیت سے میں اس اقبال پر اپنی بیوی کی جائیداد اور اس پر قاتلانہ حملہ کا کیس کرونگا اب وہ نہیں بچ سکے گا ۔“ حمزہ سرد لہجے میں بولا
”پلان تو اچھا ہے پر وہ معصوم لڑکی تو خود ان کی بربریت کا شکار ہوئی ہے وہ تو خود قانون کی مدد لینا چاہ رہی تھی ۔۔“ وسیم بولا
” معصوم اور وہ خدا کا خوف کرو میں اس سے دو بار مل چکا ہوں انتہائی درجہ کی تیز بدتمیز اور منہ پھٹ لڑکی ہے ابھی شاک میں ہے ورنہ خون تو انہیں لوگوں کا ہے اسی لئیے اس سے نکاح کیا ہے تاکہ اس کیس میں کوئی مشکل نہ آئے جیسے ہی اقبال قانون کے شکنجہ میں پھنستا ہے یہ رشتہ ختم ! ویسے بھی اس ٹائپ کی لڑکیوں کو کون پوچھتا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے نخوت سے ہنکارہ بھرا
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ وسیم کی ممی اندر آئیں ۔۔
”وسیم اب چلو بیٹا تمہارے ڈیڈی گاڑی میں انتظار کررہے ہیں اور حمزہ بیٹا اللہ تمہیں خوشیاں نصیب کرے ایک بےسہارا لڑکی کے سر کا سایہ بن کر بہت نیک کام کیا ہے اب ضد چھوڑ دینا اور اس رشتہ کو دل سے قبول کرنا دوبارہ اس معصوم سے کوئی الٹی سیدھی بات مت کرنا ۔۔۔“ وہ حمزہ کو سمجھاتی ہوئی ساتھ چلتی باہر نکل گئی ۔
حمزہ انہیں رخصت کر کے اندر آیا اور اب اس کے بڑھتے قدموں کا رخ گیسٹ روم کی طرف تھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
سامنے ہی صوفہ پر مریم جو سر جھکائے بیٹھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی اور حمزہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی ۔۔۔
” تم ادھر کیا کررہے ہو اور آئندہ ناک کئیے بغیر اندر مت آنا۔۔۔“ مریم نے ناگواری سے کہا
” واہ رسی جل گئی پر بل نہیں گئے مریم صاحبہ یہ میرا گھر ہے میں جب چاہے جہاں چاہے آ جاسکتا ہوں اور کسی غلط فہمی کا شکار مت ہونا میں صرف یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ میرے معصوم بچوں کو اس رشتہ کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی مت کرنا اور مجھ سے دور رہنا ۔۔“ حمزہ نے اپنی بات مکمل کی
”تم ہو کیا جو میں تم پر ڈورے ڈالونگی خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے کبھی اپنی شکل دیکھی ہے آئینہ میں ؟ میں اور تمہارے پاس آؤنگی خواب میں بھی مت سوچنا اور تم بھی مجھ سے دور رہنا بہانے بہانے سے اس کمرے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔“ مریم نے اس کی طبعیت صاف کی
حمزہ اسے گھورتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو بڑے انہماک سے ریسنگ گیم کھیلنے میں مگن تھے میز پر پزا چاکلیٹ ملک اور پھل پڑے تھے کھیلنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا شغل بھی جاری تھا جب حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔
” چلو بھئی گیم ٹائم ختم شاباش اپنے اپنے اسکول بیگ لیکر آؤ ۔۔۔“ حمزہ گیم کو آف کرتا ہوا بولا
”اسکول بیگ۔۔۔۔“ دونوں نے حمزہ کو حیرت سے دیکھا
” چاچو آج سنڈے ہے ہوم ورک تو رات میں کرینگے ابھی تو ڈشو ڈشو کرینگے اور لنچ بھی تو کرنا ہے “ گڈو نے اسے سمجھایا
”ابھی پزا کھایا ہے لنچ تو ہوگیا نا۔۔“
” پزا لنچ نہیں ہوتا لنچ تو آپ پکاتے ہیں پاسٹا اور چکن ۔۔۔“
ابھی گڈو اور حمزہ بحث میں مصروف تھے کہ پپو اپنی جگہ سے اٹھا اور پزا کا بڑا باکس بمشکل اپنے چھوٹے ہاتھوں میں اٹھا کر باہر جانے لگا ۔۔
” پپو موٹے بلے پزا لیکر کدھر بھاگ رہا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے دبوچا
”چاچو بےبی کو بھوک لگی ہوگئی میں بےبی کو پزا دیکر آتا ہوں ۔۔۔“ پپو نے حمزہ کی گرفت میں کسمساتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے جاؤ ویسے بھی کونسا میرے کہنے سے رک جاؤگے ۔۔۔“ حمزہ پپو کا گال چوم کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا بولا
گڈو صاحب نے بھی چاکلیٹ ملک اٹھایا اور پپو کے پیچھے چل پڑا حمزہ نےدونوں کو باہر جاتے دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔
”آہ آج ایک لڑکی ہمارے بیچ آگئی ہے اچھا ہے گڈو پپو کو بھی اس کا اصل رنگ دیکھنے کو مل جائیگا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائینگے ۔۔“ وہ بڑبڑاتا ہوا ان کے کھلونے سمیٹنے لگا
**************************for more books – urdunovels.info
مریم اس بڑے سے کمرے میں اکیلی بیٹھی اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کررہی تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ اس سڑو حمزہ کا کوئی احسان نہیں لینا اپنی عزت نفس اور خودداری کو سلامت رکھنا ہے ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ دروازہ ایک زوردار دھماکہ سے کھلا اور صبح والے دونوں گول مٹول بچے اندر داخل ہوئے چھوٹے والے کے ہاتھ میں پزا کا باکس تھا اور بڑے والے نے ملک کارٹن پکڑے ہوئے تھے ۔۔۔
پپو نے بھاگ کر آکر پزا مریم کو پکڑایا ۔
” بے بی تمہیں بھوک لگی ہوگئی آؤ چیز پزا کھاتے ہیں ۔۔۔۔
”اور یہ چاکلیٹ ملک بھی اس سے ہمیں کیلشیم ملتا ہے اور ہمارے مسسلز بھی بنتے ہیں ۔۔“ گڈو چاکلیٹ ملک کا کارٹن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا
بھوک تو مریم کو بھی لگ رہی تھی لہذا اپنی خودداری اور عزت نفس کو ایک کونے میں ڈال کر اس نے پزا کا سلائس نکال لیا ۔۔
اب وہ تیوں بیڈ پر دائرے میں بیٹھ گئے تھےبیچ میں پزا تھا اور تینوں کھانے کے ساتھ ساتھ باتوں میں مگن تھے ۔۔۔
”بے بی کیا کل تم میرے ساتھ کام پر چلوگی ؟ “ گڈو نے پوچھا
”کام پر “ مریم نے گلا کھنکارا
”کیا تمہارا ظالم چاچو تم معصوموں سے کام کرواتا ہے تم تو اتنے چھوٹے ہو کیا اخبار پھینکتے ہو یا گاڑیاں صاف کرتے ہو ۔۔“ مریم کو خاصا شاک لگا تھا اتنے پیارے معصوم بچوں کو اس کھڑوس بدمعاش نے کام پر لگا رکھا تھا وہ آنکھوں میں ترحم لئیے ان معصوموں کو دیکھ رہی تھی جن میں سے ایک کے چہرے پر چیز لگا ہوا تھا اور دوسرے کے دودھ سے مونچھیں بنی ہوئی تھی
” نہیں بےبی ہمارا کام اسکول جانا ٹیبل یاد کرنا اور پوئم یاد کرنا ہے بہت ہارڈ ورک ہے پر کیا کریں چاچو الٹا لٹکا دیتے ہیں اگر کام پر نہیں جاؤ تو ۔۔“ گڈو نے اسے سمجھایا
مریم بڑی حیرت سے ان کے کام کی تفصیل سن رہی تھی یہ بچے تو اسے اپنے بھی باپ محسوس ہورہے تھے ۔۔
”میرا نام مریم ہے تم مجھے مریم کہہ سکتے ہو بے بی بڑا آکورڈ لگتا ہے ۔۔۔“ مریم نے دونوں کو مخاطب کیا
پپو نے اپنی جگہ سے اٹھ کر مریم کی جانب ایک جمپ لگائی مریم نے تیزی سے اس روئی کے گالے کو پکڑا ۔۔
” کیا کررہے ہو اگر گر جاتے چوٹ لگ جاتی تو ۔۔“ وہ اس کے بھورے بال سہلاتے ہوئے بولی
” مریم تم بہت کیوٹ ہو اور کیوٹ لڑکی کو سب بے بی کہتے ہیں ۔۔“ گڈو صاحب نے مریم کو سمجھایا۔۔
” اچھا چلو یہ بتاؤ تم دونوں مجھ سے دوستی کروگے ۔۔۔“ مریم نے دونوں کو مخاطب کیا
گڈو کا تو مریم کی آفر سن کر چہرا بلش کرنے لگا تھا جسے دیکھ کر مریم کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
”بے بی چلو باہر گارڈن میں چلتے ہیں جھولا جھولیں گے ۔۔۔“ پپو نے فرمائش کی
” ٹھیک پر پہلے آپ دونوں اپنے نام تو بتادو ۔۔“ مریم نے دونوں سے پوچھا
”میں گڈو ہوں اور یہ پپو ہے صبح بتایا تو تھا ۔۔“ گڈو نے اس کو گھورا
” ہممم اچھا یہ تو گھر کا نام ہے نا ایسا کرو تم مجھے اپنے اسکول والے نام بتاؤ ۔۔“ مریم نے سوچ کر سوال دوبارہ دہرایا
” میں ارحم شاہ اور یہ موٹا احراز شاہ ہے ۔۔۔“ گڈو نے کہا
” اب باہر چلیں ۔۔۔“ پپو نے ضد کی تو مریم کھڑی ہوگئی
”بےبی تمہارے شوز کدھر ہیں ۔۔“ گڈو نے اسے ننگے پیر دیکھ کر پوچھا
”شوز تو نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے جواب دیا
”اچھا میں ابھی آیا ۔۔۔“ گڈو بھاگتا ہوا باہر گیا
سامنےحمزہ ایپرن پہنے کچن میں پاستہ بنارہا تھا جب گڈو دوڑتا ہوا آیا
”چاچو جلدی سے چئیر پر بیٹھیں ۔۔“ وہ کچن میں رکھی ٹیبل چئیر کی طرف اشارہ کرکے بولا
” کیوں کیا ہوا ۔۔۔“ حمزہ نے حیرانگی سے پوچھا
” بیٹھو نا چاچو ۔۔“
حمزہ ایک گہری سانس لیتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھا ۔
حمزہ کے بیٹھتے ہی گڈو تیزی سے جھکا اور اس کے پیر سے سلیپر نکال کر تیزی سے بھاگا ۔۔
” ابے او گڈو رک یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔“ حمزہ اس کے پیچھے لپکا اور گیسٹ روم میں پہنچا جہاں مریم اس کے سلیپر پہنے کھڑی تھی جو اس کو خاصے بڑے تھے
”یہ کیا بدتمیزی ہے اور تم میرے سلیپر واپس کرو ۔۔“ حمزہ مریم سے گویا ہوا
” گڈو اور پپو دونوں باہر جاؤ میں آتی ہوں ۔۔“
مریم حمزہ کو نظر انداز کرکے بچوں سے بولی اور وہ بھی حمزہ کا دل جلاتے بڑی شرافت سے مریم کے حکم کی تعمیل کرتے سر ہلا کر باہر نکل گئے ۔۔ بچوں کے باہر جانے کے بعد مریم حمزہ کی جانب مڑی
” سنو مجھے کپڑے جوتے ہئیر بینڈز تولیہ ٹوتھ برش سب چاہئیے اور خیال رکھنا مجھے ڈارک کلر پسند نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے حکمیہ لہجے میں کہا
” میں کیا تمہارا نوکر لگا ہوں دماغ درست کرو اور تمیز سے بات کرو ۔۔“ حمزہ تلملایا
” نوکر نہیں شوہر تو ہو چاہے عارضی ہی سہی ۔۔ویسے بھی میں ان گندے کپڑوں میں نہیں رہ سکتی یا تو سامان لا کر دو ورنہ میں بچوں کو سچ بتادونگی ۔۔۔“ مریم نے دھمکی دی
حمزہ نے ایک گہری نظر مریم کو دیکھا پھر پیر مار کر دروازہ بند کرکے اس کی سمت بڑھا ۔
”کیا بدتميزی ہے دور ہٹو ۔۔۔“ مریم پیچھے ہوتے ہوئے بولی ۔۔
”کیوں دور ہٹو جب تم مجھ سے نان نفقہ ڈیمانڈ کررہی ہو تو پھر میں بھی تو اپنا حق وصول کرونگا ۔۔“ حمزہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا مریم کے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا اس کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ حمزہ کو بھی اس کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی وہ بڑے غور سے قریب سے اسے دیکھ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے مریم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھی حمزہ نے اپنی انگلی کی پور پر اس کی آنکھ سے ٹپکتا آنسو لیا ۔
”آئندہ میرے ساتھ سوچ سمجھ کر بات کرنا ۔۔۔“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا اور ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کرکے باہر چلا گیا
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” حمزہ یار کیا سوچ رہا ہے ؟ ویسے تو اتنی جلدی ایک بار ہی ممی کے کہنے پر راضی کیسے ہوگیا ! میں ابھی تک حیران ہوں کیونکہ ممی کا بس چلے تو کوئی بھی کنوارا نہ بچے اور میں تو اس حسینہ کو دیکھتے ہوئے خود کو قربانی کا بکرا بنانے کیلئیے تیار تھا ۔۔۔“
” وسیم یہ لڑکی اقبال احمد کے بھائی کی بیٹی ہے ۔۔۔“ حمزہ کا لہجہ سرد اور آنکھیں سرخ تھی
” تمہارامطلب ! اقبال احد او گاڈ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔“ وسیم کا حیرت سے برا حال تھا
” مجھے بھی اسی وقت پتا چلا جب وہ آنٹی کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی اسی لئیے اس سے ایڈرس اور فون نمبر لیا تھا تاکہ کنفرم کرسکوں “ ۔ حمزہ سنجیدگی سے بولا
”تو پھر نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی پتہ ہے نا کتنا زہریلا خاندان ہے ۔“ وسیم بھی سنجيده ہوگیا تھا
” جب بھیا بھابھی کو اس ایکسیڈنٹ میں مروایا گیا تھا تب میں اسٹوڈنٹ تھا اس اقبال کے خلاف ایک بھی ثبوت پولیس نے اکھٹا نہیں کیا بلکہ سارے ثبوت مٹا دئیے تھے اور ایکسیڈنٹ کا کہہ کر کیس کلوز کردیا گیا ، تو اچھی طرح جانتا ہے میں سب چھوڑ کر سی ایس ایس کر کے اس لائن میں کیوں آیا ہوں ۔۔“ حمزہ نے جواب دیا
” پر یار نکاح کیوں جبکہ وہ لڑکی بھی شاید ایسا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔“ وسیم الجھا
”یہ لڑکی میرے لئیے ایک مہرہ ہے جسے استمال کرکے میں اس اقبال کو سڑک پر لاؤنگا میں کسی بھی طرح اقبال کے خلاف لگا یہ مہرہ ہاتھ سے جانے نہیں دےسکتا تھا اب اس کا شوہر ہونے کی حیثیت سے میں اس اقبال پر اپنی بیوی کی جائیداد اور اس پر قاتلانہ حملہ کا کیس کرونگا اب وہ نہیں بچ سکے گا ۔“ حمزہ سرد لہجے میں بولا
”پلان تو اچھا ہے پر وہ معصوم لڑکی تو خود ان کی بربریت کا شکار ہوئی ہے وہ تو خود قانون کی مدد لینا چاہ رہی تھی ۔۔“ وسیم بولا
” معصوم اور وہ خدا کا خوف کرو میں اس سے دو بار مل چکا ہوں انتہائی درجہ کی تیز بدتمیز اور منہ پھٹ لڑکی ہے ابھی شاک میں ہے ورنہ خون تو انہیں لوگوں کا ہے اسی لئیے اس سے نکاح کیا ہے تاکہ اس کیس میں کوئی مشکل نہ آئے جیسے ہی اقبال قانون کے شکنجہ میں پھنستا ہے یہ رشتہ ختم ! ویسے بھی اس ٹائپ کی لڑکیوں کو کون پوچھتا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے نخوت سے ہنکارہ بھرا
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ وسیم کی ممی اندر آئیں ۔۔
”وسیم اب چلو بیٹا تمہارے ڈیڈی گاڑی میں انتظار کررہے ہیں اور حمزہ بیٹا اللہ تمہیں خوشیاں نصیب کرے ایک بےسہارا لڑکی کے سر کا سایہ بن کر بہت نیک کام کیا ہے اب ضد چھوڑ دینا اور اس رشتہ کو دل سے قبول کرنا دوبارہ اس معصوم سے کوئی الٹی سیدھی بات مت کرنا ۔۔۔“ وہ حمزہ کو سمجھاتی ہوئی ساتھ چلتی باہر نکل گئی ۔
حمزہ انہیں رخصت کر کے اندر آیا اور اب اس کے بڑھتے قدموں کا رخ گیسٹ روم کی طرف تھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
سامنے ہی صوفہ پر مریم جو سر جھکائے بیٹھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی اور حمزہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی ۔۔۔
” تم ادھر کیا کررہے ہو اور آئندہ ناک کئیے بغیر اندر مت آنا۔۔۔“ مریم نے ناگواری سے کہا
” واہ رسی جل گئی پر بل نہیں گئے مریم صاحبہ یہ میرا گھر ہے میں جب چاہے جہاں چاہے آ جاسکتا ہوں اور کسی غلط فہمی کا شکار مت ہونا میں صرف یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ میرے معصوم بچوں کو اس رشتہ کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی مت کرنا اور مجھ سے دور رہنا ۔۔“ حمزہ نے اپنی بات مکمل کی
”تم ہو کیا جو میں تم پر ڈورے ڈالونگی خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے کبھی اپنی شکل دیکھی ہے آئینہ میں ؟ میں اور تمہارے پاس آؤنگی خواب میں بھی مت سوچنا اور تم بھی مجھ سے دور رہنا بہانے بہانے سے اس کمرے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔“ مریم نے اس کی طبعیت صاف کی
حمزہ اسے گھورتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
گڈو اور پپو بڑے انہماک سے ریسنگ گیم کھیلنے میں مگن تھے میز پر پزا چاکلیٹ ملک اور پھل پڑے تھے کھیلنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا شغل بھی جاری تھا جب حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔
” چلو بھئی گیم ٹائم ختم شاباش اپنے اپنے اسکول بیگ لیکر آؤ ۔۔۔“ حمزہ گیم کو آف کرتا ہوا بولا
”اسکول بیگ۔۔۔۔“ دونوں نے حمزہ کو حیرت سے دیکھا
” چاچو آج سنڈے ہے ہوم ورک تو رات میں کرینگے ابھی تو ڈشو ڈشو کرینگے اور لنچ بھی تو کرنا ہے “ گڈو نے اسے سمجھایا
”ابھی پزا کھایا ہے لنچ تو ہوگیا نا۔۔“
” پزا لنچ نہیں ہوتا لنچ تو آپ پکاتے ہیں پاسٹا اور چکن ۔۔۔“
ابھی گڈو اور حمزہ بحث میں مصروف تھے کہ پپو اپنی جگہ سے اٹھا اور پزا کا بڑا باکس بمشکل اپنے چھوٹے ہاتھوں میں اٹھا کر باہر جانے لگا ۔۔
” پپو موٹے بلے پزا لیکر کدھر بھاگ رہا ہے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے دبوچا
”چاچو بےبی کو بھوک لگی ہوگئی میں بےبی کو پزا دیکر آتا ہوں ۔۔۔“ پپو نے حمزہ کی گرفت میں کسمساتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے جاؤ ویسے بھی کونسا میرے کہنے سے رک جاؤگے ۔۔۔“ حمزہ پپو کا گال چوم کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا بولا
گڈو صاحب نے بھی چاکلیٹ ملک اٹھایا اور پپو کے پیچھے چل پڑا حمزہ نےدونوں کو باہر جاتے دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔
”آہ آج ایک لڑکی ہمارے بیچ آگئی ہے اچھا ہے گڈو پپو کو بھی اس کا اصل رنگ دیکھنے کو مل جائیگا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائینگے ۔۔“ وہ بڑبڑاتا ہوا ان کے کھلونے سمیٹنے لگا
**************************for more books – urdunovels.info
مریم اس بڑے سے کمرے میں اکیلی بیٹھی اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کررہی تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ اس سڑو حمزہ کا کوئی احسان نہیں لینا اپنی عزت نفس اور خودداری کو سلامت رکھنا ہے ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ دروازہ ایک زوردار دھماکہ سے کھلا اور صبح والے دونوں گول مٹول بچے اندر داخل ہوئے چھوٹے والے کے ہاتھ میں پزا کا باکس تھا اور بڑے والے نے ملک کارٹن پکڑے ہوئے تھے ۔۔۔
پپو نے بھاگ کر آکر پزا مریم کو پکڑایا ۔
” بے بی تمہیں بھوک لگی ہوگئی آؤ چیز پزا کھاتے ہیں ۔۔۔۔
”اور یہ چاکلیٹ ملک بھی اس سے ہمیں کیلشیم ملتا ہے اور ہمارے مسسلز بھی بنتے ہیں ۔۔“ گڈو چاکلیٹ ملک کا کارٹن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا
بھوک تو مریم کو بھی لگ رہی تھی لہذا اپنی خودداری اور عزت نفس کو ایک کونے میں ڈال کر اس نے پزا کا سلائس نکال لیا ۔۔
اب وہ تیوں بیڈ پر دائرے میں بیٹھ گئے تھےبیچ میں پزا تھا اور تینوں کھانے کے ساتھ ساتھ باتوں میں مگن تھے ۔۔۔
”بے بی کیا کل تم میرے ساتھ کام پر چلوگی ؟ “ گڈو نے پوچھا
”کام پر “ مریم نے گلا کھنکارا
”کیا تمہارا ظالم چاچو تم معصوموں سے کام کرواتا ہے تم تو اتنے چھوٹے ہو کیا اخبار پھینکتے ہو یا گاڑیاں صاف کرتے ہو ۔۔“ مریم کو خاصا شاک لگا تھا اتنے پیارے معصوم بچوں کو اس کھڑوس بدمعاش نے کام پر لگا رکھا تھا وہ آنکھوں میں ترحم لئیے ان معصوموں کو دیکھ رہی تھی جن میں سے ایک کے چہرے پر چیز لگا ہوا تھا اور دوسرے کے دودھ سے مونچھیں بنی ہوئی تھی
” نہیں بےبی ہمارا کام اسکول جانا ٹیبل یاد کرنا اور پوئم یاد کرنا ہے بہت ہارڈ ورک ہے پر کیا کریں چاچو الٹا لٹکا دیتے ہیں اگر کام پر نہیں جاؤ تو ۔۔“ گڈو نے اسے سمجھایا
مریم بڑی حیرت سے ان کے کام کی تفصیل سن رہی تھی یہ بچے تو اسے اپنے بھی باپ محسوس ہورہے تھے ۔۔
”میرا نام مریم ہے تم مجھے مریم کہہ سکتے ہو بے بی بڑا آکورڈ لگتا ہے ۔۔۔“ مریم نے دونوں کو مخاطب کیا
پپو نے اپنی جگہ سے اٹھ کر مریم کی جانب ایک جمپ لگائی مریم نے تیزی سے اس روئی کے گالے کو پکڑا ۔۔
” کیا کررہے ہو اگر گر جاتے چوٹ لگ جاتی تو ۔۔“ وہ اس کے بھورے بال سہلاتے ہوئے بولی
” مریم تم بہت کیوٹ ہو اور کیوٹ لڑکی کو سب بے بی کہتے ہیں ۔۔“ گڈو صاحب نے مریم کو سمجھایا۔۔
” اچھا چلو یہ بتاؤ تم دونوں مجھ سے دوستی کروگے ۔۔۔“ مریم نے دونوں کو مخاطب کیا
گڈو کا تو مریم کی آفر سن کر چہرا بلش کرنے لگا تھا جسے دیکھ کر مریم کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
”بے بی چلو باہر گارڈن میں چلتے ہیں جھولا جھولیں گے ۔۔۔“ پپو نے فرمائش کی
” ٹھیک پر پہلے آپ دونوں اپنے نام تو بتادو ۔۔“ مریم نے دونوں سے پوچھا
”میں گڈو ہوں اور یہ پپو ہے صبح بتایا تو تھا ۔۔“ گڈو نے اس کو گھورا
” ہممم اچھا یہ تو گھر کا نام ہے نا ایسا کرو تم مجھے اپنے اسکول والے نام بتاؤ ۔۔“ مریم نے سوچ کر سوال دوبارہ دہرایا
” میں ارحم شاہ اور یہ موٹا احراز شاہ ہے ۔۔۔“ گڈو نے کہا
” اب باہر چلیں ۔۔۔“ پپو نے ضد کی تو مریم کھڑی ہوگئی
”بےبی تمہارے شوز کدھر ہیں ۔۔“ گڈو نے اسے ننگے پیر دیکھ کر پوچھا
”شوز تو نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے جواب دیا
”اچھا میں ابھی آیا ۔۔۔“ گڈو بھاگتا ہوا باہر گیا
سامنےحمزہ ایپرن پہنے کچن میں پاستہ بنارہا تھا جب گڈو دوڑتا ہوا آیا
”چاچو جلدی سے چئیر پر بیٹھیں ۔۔“ وہ کچن میں رکھی ٹیبل چئیر کی طرف اشارہ کرکے بولا
” کیوں کیا ہوا ۔۔۔“ حمزہ نے حیرانگی سے پوچھا
” بیٹھو نا چاچو ۔۔“
حمزہ ایک گہری سانس لیتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھا ۔
حمزہ کے بیٹھتے ہی گڈو تیزی سے جھکا اور اس کے پیر سے سلیپر نکال کر تیزی سے بھاگا ۔۔
” ابے او گڈو رک یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔“ حمزہ اس کے پیچھے لپکا اور گیسٹ روم میں پہنچا جہاں مریم اس کے سلیپر پہنے کھڑی تھی جو اس کو خاصے بڑے تھے
”یہ کیا بدتمیزی ہے اور تم میرے سلیپر واپس کرو ۔۔“ حمزہ مریم سے گویا ہوا
” گڈو اور پپو دونوں باہر جاؤ میں آتی ہوں ۔۔“
مریم حمزہ کو نظر انداز کرکے بچوں سے بولی اور وہ بھی حمزہ کا دل جلاتے بڑی شرافت سے مریم کے حکم کی تعمیل کرتے سر ہلا کر باہر نکل گئے ۔۔ بچوں کے باہر جانے کے بعد مریم حمزہ کی جانب مڑی
” سنو مجھے کپڑے جوتے ہئیر بینڈز تولیہ ٹوتھ برش سب چاہئیے اور خیال رکھنا مجھے ڈارک کلر پسند نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے حکمیہ لہجے میں کہا
” میں کیا تمہارا نوکر لگا ہوں دماغ درست کرو اور تمیز سے بات کرو ۔۔“ حمزہ تلملایا
” نوکر نہیں شوہر تو ہو چاہے عارضی ہی سہی ۔۔ویسے بھی میں ان گندے کپڑوں میں نہیں رہ سکتی یا تو سامان لا کر دو ورنہ میں بچوں کو سچ بتادونگی ۔۔۔“ مریم نے دھمکی دی
حمزہ نے ایک گہری نظر مریم کو دیکھا پھر پیر مار کر دروازہ بند کرکے اس کی سمت بڑھا ۔
”کیا بدتميزی ہے دور ہٹو ۔۔۔“ مریم پیچھے ہوتے ہوئے بولی ۔۔
”کیوں دور ہٹو جب تم مجھ سے نان نفقہ ڈیمانڈ کررہی ہو تو پھر میں بھی تو اپنا حق وصول کرونگا ۔۔“ حمزہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا مریم کے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا اس کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ حمزہ کو بھی اس کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی وہ بڑے غور سے قریب سے اسے دیکھ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے مریم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھی حمزہ نے اپنی انگلی کی پور پر اس کی آنکھ سے ٹپکتا آنسو لیا ۔
”آئندہ میرے ساتھ سوچ سمجھ کر بات کرنا ۔۔۔“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا اور ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کرکے باہر چلا گیا
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply