نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 7
صبح سویرے کا وقت تھا شاید چھ سوا چھ بج رہے تھے پورے گھر میں حمزہ کی زوردار مردانہ آواز مائک میں گونج رہی تھی مریم نے کئی کروٹیں بدلیں تنگ آکر تکیہ منہ پر رکھا مگر یہ شور کم ہی نہیں ہورہا تھا تنگ آکر وہ اٹھ بیٹھی اور اپنے بالوں کو لپیٹتی ہوئی آواز کا تعاقب کرتے ہوئے کچن تک جا پہنچی جہاں حمزہ گیلے بال پینٹ اور بنیان میں ملبوس کندھوں پر تولیہ پھیلائے ایپرن پہنے انڈے ابال رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہاتھ میں پکڑے مائک میں گڈ پپو کو جگانے کا فریضہ جاری تھا۔۔۔
” گڈو پپو اٹھتے ہو یا میں آؤ ۔۔۔۔۔“
مریم حیرانگی سے بچوں کو اٹھانے کا یہ عجیب و غریب طریقہ دیکھ رہی تھی جب حمزہ چولہے کی آنچ ہلکی کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی کا جگ فرج سے نکالا ۔۔
” اوکے میرے ڈھیٹوں کے سردار گڈو میں آرہا ہو ٹھنڈے پانی کا جگ لیکر جلدی سے اٹھ کر اس خرگوش کو بھی اٹھا ورنہ آج بیڈ پر ہی ٹھنڈے پانی سے نہلاؤنگا ۔۔۔۔“ حمزہ مائک میں بولتا ہوا مڑا اور دروازے میں کھڑی مریم کو دیکھ کرٹھٹک گیا ۔ ننگے پیر ملگجے کپڑے بکھرے بالوں اور نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ اسے مریم پر کسی بدروح کا سا گمان ہوا
” تم ادھر کیا کررہی ہو ؟ اندر جا کر حلیہ درست کرو میرے بچے ڈر جائینگے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا
”یہ صبح صبح کیوں ٹین ڈبہ والے کی طرح چلا رہے ہو سونا مشکل کردیا ایک تو پہلے ہی اتنی مشکل سے نیند آئی تھی اور اس پر تمہاری یہ بھیانک آواز اللہ ان بچوں پر رحم کرے بیچارے معصوم کیسے تمہیں برداشت کرتے ہونگے بیچارے ۔۔۔“ مریم نے تاسف سے کہا
”میں ٹین ڈبہ والا خدا کا خوف کرو میں تمہیں کہاں سے ٹین ڈبہ والا لگ رہا ہوں ۔۔۔“ حمزہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
”مجھے نہیں پتہ بس تم یہ شور بند کرو بچوں کا کمرہ کدھر ہے میں انہیں خود اٹھا دونگی ۔۔۔“ مریم قطعی انداز میں بولی
حمزہ تو اس کے مالکانہ انداز پر عش عش کراٹھا اور ہاتھ کے اشارہ سے کمرے کا بتاتے ہوئے واپس چولہے کی جانب مڑگیا ۔۔۔۔ مریم ننگے پیر احتیاط سے چلتی ہوئی چاروں طرف نگاہ دوڑاتی اس بڑے سے عالیشان محل نما گھر کو ستائشی نگاہوں سے دیکھتی بچوں کے کمرے تک پہنچی اس کمرے کے دروازے پر کوئی لاک کنڈی کچھ نہیں تھا وہ بنا آہٹ دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
کمرے میں نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی اے سی کی خنکی سے ماحول اور بھی خواب ناک ہورہاتھا دبیز قالین اور دیواروں پر کارٹون کیریکٹرز کی پکچرز اور تھوڑے فاصلے سے بچھے دو سنگل بیڈز ، مریم نے پورے کمرے کا جائزہ لیا پھر سب سے پہلے لائٹ آن کی پھر بچوں کو آوازیں دینا شروع کی ۔۔۔۔
” گڈو پپو چلو اب اٹھ جاؤ ورنہ وہ تمہارا چاچو چلا چلا کر میرا دماغ خراب کردیگا ۔۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی
پر وہ دونوں ٹس سے مس نہیں ہوئے مریم وقفہ وقفہ سے آوازیں لگاتی رہی اتنے میں حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔
”کیا ہوا پپو کی بےبی سے پپو نہیں اٹھا کیا ۔۔۔۔“
وہ مریم کا مذاق اڑاتا ہوا آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا بڑا جگ تھا وہ گڈو کے بیڈ کے پاس آیا اور ہاتھ اونچا کیا ہی تھا کہ مریم تیر کی تیزی سے اس کے سامنے آئی اور حمزہ کے ہاتھ سے گرا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی مریم کے اوپر گر گیا وہ بیچاری جو گڈو کو بھیگنے سے بچانا چاہ رہی تھی خود ٹھنڈے یخ پانی میں تر بتر ہوگئی ۔ ”کیا بدتمیزی ہے تمہیں تمیز نہیں ہے کیا ۔۔۔“ مریم غصہ سے لال ہوتی ہوئی چلائی ۔
”آواز نیچی کرو اور تمیز سے بات کرنا سیکھو ورنہ اگر میں نے تمہیں تمیز سکھائی تو تمہارے اپنے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔“حمزہ دھیرے سے غرایا ۔۔
” یو گدھا۔۔۔۔“ مریم نے غصہ سے مٹھیاں بھینچی۔
حمزہ نے طیش میں آکر مریم کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا حمزہ کی انگلیاں مریم کے بازو میں گڑی جارہی تھی تکلیف کی شدت سے مریم کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔
”آخری بار سمجھا رہا ہوں کہ یہ تو تڑاخ میرے ساتھ مت کرنا آئندہ سے میں تمہارے منہ سے تم نہ سنو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔“حمزہ تنبیہی انداز میں بولا
” آپ سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا ۔۔۔ بازو چھوڑیں مجھیں درد ہورہا ہے ۔۔“ مریم بھرائے ہوئے لہجے میں بولی
حمزہ جو بڑی بیدردی سے اس کے بازو پر دباؤ ڈال رہا تھا اس کی آنکھوں میں پانی آتے دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا اور اب سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا کمر تک لمبے بھیگے بال گلابی بھیگا بھیگا چہرہ دلکش پرکشش وجود ۔۔ جو اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ رہا تھا شاید یہ نکاح کے دوبولوں کا اثر تھا کہ وہ اسے اپنے دل پر دستک سی دیتی محسوس ہورہی تھی اس سے پہلے کہ وہ اس کے بارے میں کچھ سوچتا کہ مریم نے ایک زور دار چھینک ماری اور پھر چھینکیں مارتی چلی گئی ۔۔۔۔۔
مریم کی چھینکوں کی آواز سے حمزہ جیسے کسی ٹرانس سے نکلا ۔۔۔
” اللہ بچائے میں بھی اس بدروح کیلئیے کیا سوچ رہا تھا ۔۔۔“ حمزہ نے جھرجھری لی
” محترمہ بے بی صاحبہ آپ بڑے شوق سے بچوں کو اٹھانے آئی تھی کیا ہوا اٹھا لیا ۔۔۔یہ میرے بچے ہیں میں جانتا ہوں کہ ہر پیر کی صبح یہ کیا کیا تماشے کرتے ہیں ۔۔۔۔“ یہ کہہ کر حمزہ گڈو کی جانب بڑھا لحاف ہٹایا اور اس کے کانوں میں ٹھونسی ہوئی روئی نکال کے مریم کو دکھائی پھر یہی عمل پپو کے ساتھ دہرا کر دونوں کو ایک زور دار آواز لگائی ۔۔۔۔ دونوں آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے ۔۔۔
”کیا چاچو سونے دیں نا ۔۔۔۔“ گڈو منمنایا
اتنے میں مریم پپو کے پاس آکر اسے اٹھانے لگی ۔۔۔۔ ” بےبی چاچو سے کہو نا کہ آج ہمیں کام پر نہیں جانا ۔۔۔“ پپو نیند میں لڑھکتا ہوا بولا
مریم نے پپو کو احتیاط سے چوم کر دوبارہ بیڈ پر لٹایا اور گڈو کے پاس آکر اسے بھی لٹا کر کمبل درست کیا ۔۔۔۔
” یو آر دی بیسٹ بےبی ۔۔۔لو یو ۔۔“ گڈو نے کہا
مریم مسکراتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی اور لائٹ آف کرتی باہر نکل گئی اس پورے منظر میں ایک کونے پر کھڑے حمزہ کو دونوں بچوں اور مریم نے بھرپور نظرانداز کردیا تھا وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا باہر نکلا اور اپنے کمرے میں تیار ہونے چلا گیا ۔۔۔
مریم اپنے کمرے میں صوفہ پر بیٹھی ٹھٹر رہی تھی جب دروازہ ناک کرکے نک سک سےتیار پولیس یونیفارم پہنے حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔
”آج تمہاری شہ کی وجہ سے بچوں کے اسکول کی چھٹی ہوئی ہے آئندہ ایسا نہ ہو اور اب چونکہ بچے گھر میں ہیں تو انکا خیال رکھنا ۔۔۔“ حمزہ نے ہدایت دی
مریم نے جواب دینے کیلئیے سر اٹھایا تو حمزہ کو یونیفارم میں دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔۔۔
حمزہ بھی اسکی آنکھوں میں ابھرتی حیرت پھر ستائش نوٹ کرچکا تھا ۔
” کیا ہوا ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا
” تم آئی مین آپ پولیس میں ہیں بدمعاش نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے بوکھلاہٹ میں پوچھا
” جی مس مریم میں ایک ذمہ دار پولیس آفیسر ہوں اب چلتا ہوں بچوں کا خیال رکھنا ۔۔۔۔“ وہ کہتا ہوا مڑا
”سنئیے ۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی
”کیا آپ میری مدد نہیں کرسکتےمجھے اپنے تایا کو سزا دلوانی ہے ۔۔۔“
حمزہ مریم کی بات سن کر ایک لمحہ کو رکا پھر تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے آفس آکر سب سے پہلے مریم کے تایا اقبال کے خلاف پرچہ کٹوایا پھر اپنے کام نبٹا کر اقبال صاحب کے آفس چلا آیا ۔
اقبال صاحب ابھی آ کر بیٹھے ہی تھے کہ پیون نے ایس پی حمزہ کے آنے کی اطلاع دی انہوں نے کارڈ دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے حمزہ کو اندر بھیجنے کا کہا چند ہی لمحے بعد با وقار سا حمزہ یونیفارم پہنے سر پر کیپ لگائے اندر داخل ہوا ۔ “جی ایس پی صاحب آج ہمیں کیسے یاد کیا “۔اقبال صاحب اپنی کرسی سے اٹھے بغیر بولے
“میں آپ کو آگاہ کرنے آیا ہوں کہ میں نے آپ کے اوپر آپکی بھتیجی اور اپنی بیوی مسز مریم حمزہ پر قاتلانہ حملہ کرنے اور اسکی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کے جرم میں آپکے خلاف ایف آئی آر لکھوا دی ہے اور اب بہت جلد کورٹ کا نوٹس بھی آپکو مل جائیگا ۔خبر خوشی کی تھی تو سوچا خود ہی آکر آپکو سنا دوں “۔ حمزہ نے اقبال صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
”کیا بکواس ہے میری بھتیجی کو مرے دس سال ہوچکے ہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔“ اقبال صاحب نے غصہ سے کہا ” غلط فہمی یا خوش فہمی اسکا فیصلہ عدالت کرے گی اور DNA ٹیسٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیگا ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا اور پلٹ کر واپس چلا گیا ۔
حمزہ کے جاتے ہی اقبال صاحب کسی ٹرانس سے باہر نکلے اور تیزی سے فون اٹھایا ۔
“زوہیب ایس پی حمزہ ابھی آفس سے نکلا ہے اسکے بارے میں ساری معلومات حاصل کرو مریم زندہ ہے اور اس خبیث ایس پی کے پاس ہے ہمیں ہر حال میں مریم کو وہاں سے واپس لانا ہوگا ۔” زوہیب سے بات کرنے کے بعد انہوں نے اپنے وکیل کو فون ملایا اور ضمانت قبل از گرفتاری کے کاغذات بنوانے کی ہدایت کی ۔
اقبال کے آفس میں اسے دھمکانے کے بعد حمزہ کا موڈ خاصہ خوش گوار تھا اقبال کے چہرے پر چھا ئے پریشانی کے بادل اسکے ذہن اور دماغ کو سکون پہنچا رہے تھے اب اسے گھر جاکر مریم سے ایف آئی آر اور اقبال کے خلاف کمپلین پر دستخط لینے تھے وه مگن انداز میں گاڑی چلا رہا تھا جب اسے شاپنگ مال دکھائی دیا وه گاڑی پارک کرتے ہوئے اترا اسکا ارادہ مریم کے لئے شاپنگ کرنے کا تھا وه ایک مشہور کپڑوں کی بوتیک میں داخل ہوا جہاں چاروں جانب رنگ برنگے کپڑے لہرا رہے تھے تبھی ایک سیلز گرل اسکے پاس آئی ۔
“یس سر کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتی ہوں ۔”
“جی مجھے ریڈی میڈ ڈریسز چاہیے بے بی کے لئے ”
“بےبی سیلز گرل حیران ہوئی
“سر ہم بچوں کے کپڑے نہیں رکھتے ”
“لا حول ولا قوت “حمزہ نے استغفار پڑھی ۔پپو اور گڈو کے انداز میں اسکے منہ سے بھی بےبی نکل گیا تھا ۔
“جی مجھے اپنی وائف کے لئے ڈریس چاہئے “اب کے وہ سنبھل کر بولا
“اوکے سر “۔ وه حمزہ کو ڈریسس دکھا نے لگی
تبھی حمزہ کو یاد آیا کے مریم نے کہا تھا کہ اسے گہرے رنگ پسند نہیں ہیں اسکی آنکھوں میں چمک سی اتری ۔
“جی آپ مجھے چھ سات جوڑے گھر اور پارٹی ویر کے حساب سے پیک کروا دیں مگر خیال رکھےگا سارے رنگ شوخ اور ڈارک ہونے چاہئے “۔ سیلز گرل سر ہلاتی مڑ گئی آدھے گھنٹے بعد حمزہ شاپنگ بیگ پکڑے مال سے نکلا جس میں مریم کے لئے جوتے کپڑے سب کچھ تھا اب اسکا رخ گھر کی جانب تھا ۔گاڑی پارک کرکے وه جیسے ہی گھر میں داخل ہوا ایک بال ہوا میں اڑ تی ہوئی اسکے قریب آئی تیزی سے سر جھکا کر اس نے خود کو بچایا ۔
سامنے ہی اسکے بڑ ے جوتے پہنے مریم بی بی بیٹنگ کر رہی تھی ۔گڈو بال کروا رہا تھا اور پپو بھائی الٹی کیپ پہنے فیلڈر بنے ہوئے تھے۔
حمزہ چلتا ہوا مریم کے پاس آیا ۔
“اندر آؤ “۔ اسے حکم دیتا ہوا وه اندر چلا گیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں مریم پپو اور گڈو کے ساتھ اندر داخل ہوئی ۔
“یہ پپو اور گڈو تو اسکے باڈی گارڈ بن کر رہ گئے ہیں ۔”وه بڑبڑایا ۔
“تم میرا مطلب ہے آپ نے بلوایا تھا ۔”مریم نے پوچھا ۔
“یہ تمہارے لئے کچھ کپڑے اور جوتے وغیرہ ہیں رکھ لو “حمزہ اسکی جانب بیگ بڑھاتے ہوئے بولا ۔
“مریم نے اطمینان سے اسکے ہاتھ سے بیگ لئے اور جانے لگی تو پیچھے سے حمزہ نے آواز دی
“کیا زمانہ آگیا ہے سامان لے لیا مگر نا کوئی شکریہ نا کوئی انکساری کا مظاھرہ “مریم پلٹی اور چلتی ہوئی اسکے پاس آئی
“مسٹر حمزہ کیسا شکریہ کیسی انکساری یہ تو آپکا فرض تھا اور میرا حق آخر نکاح کیا ہے ذمہ داری تو اٹھانی ہوگی نا “یہ کہہ کر وه بڑے مزے سے پپو اور گڈو کو لیکر باہر نکل گئی ۔
“یا اللّه اس دنیا کے سارے نخریلے افراد تو نے میری ہی قسمت میں لکھ دئیے ہیں ۔”
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
” گڈو پپو اٹھتے ہو یا میں آؤ ۔۔۔۔۔“
مریم حیرانگی سے بچوں کو اٹھانے کا یہ عجیب و غریب طریقہ دیکھ رہی تھی جب حمزہ چولہے کی آنچ ہلکی کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی کا جگ فرج سے نکالا ۔۔
” اوکے میرے ڈھیٹوں کے سردار گڈو میں آرہا ہو ٹھنڈے پانی کا جگ لیکر جلدی سے اٹھ کر اس خرگوش کو بھی اٹھا ورنہ آج بیڈ پر ہی ٹھنڈے پانی سے نہلاؤنگا ۔۔۔۔“ حمزہ مائک میں بولتا ہوا مڑا اور دروازے میں کھڑی مریم کو دیکھ کرٹھٹک گیا ۔ ننگے پیر ملگجے کپڑے بکھرے بالوں اور نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ اسے مریم پر کسی بدروح کا سا گمان ہوا
” تم ادھر کیا کررہی ہو ؟ اندر جا کر حلیہ درست کرو میرے بچے ڈر جائینگے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا
”یہ صبح صبح کیوں ٹین ڈبہ والے کی طرح چلا رہے ہو سونا مشکل کردیا ایک تو پہلے ہی اتنی مشکل سے نیند آئی تھی اور اس پر تمہاری یہ بھیانک آواز اللہ ان بچوں پر رحم کرے بیچارے معصوم کیسے تمہیں برداشت کرتے ہونگے بیچارے ۔۔۔“ مریم نے تاسف سے کہا
”میں ٹین ڈبہ والا خدا کا خوف کرو میں تمہیں کہاں سے ٹین ڈبہ والا لگ رہا ہوں ۔۔۔“ حمزہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
”مجھے نہیں پتہ بس تم یہ شور بند کرو بچوں کا کمرہ کدھر ہے میں انہیں خود اٹھا دونگی ۔۔۔“ مریم قطعی انداز میں بولی
حمزہ تو اس کے مالکانہ انداز پر عش عش کراٹھا اور ہاتھ کے اشارہ سے کمرے کا بتاتے ہوئے واپس چولہے کی جانب مڑگیا ۔۔۔۔ مریم ننگے پیر احتیاط سے چلتی ہوئی چاروں طرف نگاہ دوڑاتی اس بڑے سے عالیشان محل نما گھر کو ستائشی نگاہوں سے دیکھتی بچوں کے کمرے تک پہنچی اس کمرے کے دروازے پر کوئی لاک کنڈی کچھ نہیں تھا وہ بنا آہٹ دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
کمرے میں نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی اے سی کی خنکی سے ماحول اور بھی خواب ناک ہورہاتھا دبیز قالین اور دیواروں پر کارٹون کیریکٹرز کی پکچرز اور تھوڑے فاصلے سے بچھے دو سنگل بیڈز ، مریم نے پورے کمرے کا جائزہ لیا پھر سب سے پہلے لائٹ آن کی پھر بچوں کو آوازیں دینا شروع کی ۔۔۔۔
” گڈو پپو چلو اب اٹھ جاؤ ورنہ وہ تمہارا چاچو چلا چلا کر میرا دماغ خراب کردیگا ۔۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی
پر وہ دونوں ٹس سے مس نہیں ہوئے مریم وقفہ وقفہ سے آوازیں لگاتی رہی اتنے میں حمزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔
”کیا ہوا پپو کی بےبی سے پپو نہیں اٹھا کیا ۔۔۔۔“
وہ مریم کا مذاق اڑاتا ہوا آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا بڑا جگ تھا وہ گڈو کے بیڈ کے پاس آیا اور ہاتھ اونچا کیا ہی تھا کہ مریم تیر کی تیزی سے اس کے سامنے آئی اور حمزہ کے ہاتھ سے گرا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی مریم کے اوپر گر گیا وہ بیچاری جو گڈو کو بھیگنے سے بچانا چاہ رہی تھی خود ٹھنڈے یخ پانی میں تر بتر ہوگئی ۔ ”کیا بدتمیزی ہے تمہیں تمیز نہیں ہے کیا ۔۔۔“ مریم غصہ سے لال ہوتی ہوئی چلائی ۔
”آواز نیچی کرو اور تمیز سے بات کرنا سیکھو ورنہ اگر میں نے تمہیں تمیز سکھائی تو تمہارے اپنے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔“حمزہ دھیرے سے غرایا ۔۔
” یو گدھا۔۔۔۔“ مریم نے غصہ سے مٹھیاں بھینچی۔
حمزہ نے طیش میں آکر مریم کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا حمزہ کی انگلیاں مریم کے بازو میں گڑی جارہی تھی تکلیف کی شدت سے مریم کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔
”آخری بار سمجھا رہا ہوں کہ یہ تو تڑاخ میرے ساتھ مت کرنا آئندہ سے میں تمہارے منہ سے تم نہ سنو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔“حمزہ تنبیہی انداز میں بولا
” آپ سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا ۔۔۔ بازو چھوڑیں مجھیں درد ہورہا ہے ۔۔“ مریم بھرائے ہوئے لہجے میں بولی
حمزہ جو بڑی بیدردی سے اس کے بازو پر دباؤ ڈال رہا تھا اس کی آنکھوں میں پانی آتے دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا اور اب سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا کمر تک لمبے بھیگے بال گلابی بھیگا بھیگا چہرہ دلکش پرکشش وجود ۔۔ جو اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ رہا تھا شاید یہ نکاح کے دوبولوں کا اثر تھا کہ وہ اسے اپنے دل پر دستک سی دیتی محسوس ہورہی تھی اس سے پہلے کہ وہ اس کے بارے میں کچھ سوچتا کہ مریم نے ایک زور دار چھینک ماری اور پھر چھینکیں مارتی چلی گئی ۔۔۔۔۔
مریم کی چھینکوں کی آواز سے حمزہ جیسے کسی ٹرانس سے نکلا ۔۔۔
” اللہ بچائے میں بھی اس بدروح کیلئیے کیا سوچ رہا تھا ۔۔۔“ حمزہ نے جھرجھری لی
” محترمہ بے بی صاحبہ آپ بڑے شوق سے بچوں کو اٹھانے آئی تھی کیا ہوا اٹھا لیا ۔۔۔یہ میرے بچے ہیں میں جانتا ہوں کہ ہر پیر کی صبح یہ کیا کیا تماشے کرتے ہیں ۔۔۔۔“ یہ کہہ کر حمزہ گڈو کی جانب بڑھا لحاف ہٹایا اور اس کے کانوں میں ٹھونسی ہوئی روئی نکال کے مریم کو دکھائی پھر یہی عمل پپو کے ساتھ دہرا کر دونوں کو ایک زور دار آواز لگائی ۔۔۔۔ دونوں آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے ۔۔۔
”کیا چاچو سونے دیں نا ۔۔۔۔“ گڈو منمنایا
اتنے میں مریم پپو کے پاس آکر اسے اٹھانے لگی ۔۔۔۔ ” بےبی چاچو سے کہو نا کہ آج ہمیں کام پر نہیں جانا ۔۔۔“ پپو نیند میں لڑھکتا ہوا بولا
مریم نے پپو کو احتیاط سے چوم کر دوبارہ بیڈ پر لٹایا اور گڈو کے پاس آکر اسے بھی لٹا کر کمبل درست کیا ۔۔۔۔
” یو آر دی بیسٹ بےبی ۔۔۔لو یو ۔۔“ گڈو نے کہا
مریم مسکراتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی اور لائٹ آف کرتی باہر نکل گئی اس پورے منظر میں ایک کونے پر کھڑے حمزہ کو دونوں بچوں اور مریم نے بھرپور نظرانداز کردیا تھا وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا باہر نکلا اور اپنے کمرے میں تیار ہونے چلا گیا ۔۔۔
مریم اپنے کمرے میں صوفہ پر بیٹھی ٹھٹر رہی تھی جب دروازہ ناک کرکے نک سک سےتیار پولیس یونیفارم پہنے حمزہ اندر داخل ہوا ۔۔
”آج تمہاری شہ کی وجہ سے بچوں کے اسکول کی چھٹی ہوئی ہے آئندہ ایسا نہ ہو اور اب چونکہ بچے گھر میں ہیں تو انکا خیال رکھنا ۔۔۔“ حمزہ نے ہدایت دی
مریم نے جواب دینے کیلئیے سر اٹھایا تو حمزہ کو یونیفارم میں دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔۔۔
حمزہ بھی اسکی آنکھوں میں ابھرتی حیرت پھر ستائش نوٹ کرچکا تھا ۔
” کیا ہوا ۔۔۔“ حمزہ نے مریم کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا
” تم آئی مین آپ پولیس میں ہیں بدمعاش نہیں ہیں ۔۔۔“ مریم نے بوکھلاہٹ میں پوچھا
” جی مس مریم میں ایک ذمہ دار پولیس آفیسر ہوں اب چلتا ہوں بچوں کا خیال رکھنا ۔۔۔۔“ وہ کہتا ہوا مڑا
”سنئیے ۔۔۔“ مریم نے آواز لگائی
”کیا آپ میری مدد نہیں کرسکتےمجھے اپنے تایا کو سزا دلوانی ہے ۔۔۔“
حمزہ مریم کی بات سن کر ایک لمحہ کو رکا پھر تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔
**************************for more books – urdunovels.info
حمزہ نے آفس آکر سب سے پہلے مریم کے تایا اقبال کے خلاف پرچہ کٹوایا پھر اپنے کام نبٹا کر اقبال صاحب کے آفس چلا آیا ۔
اقبال صاحب ابھی آ کر بیٹھے ہی تھے کہ پیون نے ایس پی حمزہ کے آنے کی اطلاع دی انہوں نے کارڈ دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے حمزہ کو اندر بھیجنے کا کہا چند ہی لمحے بعد با وقار سا حمزہ یونیفارم پہنے سر پر کیپ لگائے اندر داخل ہوا ۔ “جی ایس پی صاحب آج ہمیں کیسے یاد کیا “۔اقبال صاحب اپنی کرسی سے اٹھے بغیر بولے
“میں آپ کو آگاہ کرنے آیا ہوں کہ میں نے آپ کے اوپر آپکی بھتیجی اور اپنی بیوی مسز مریم حمزہ پر قاتلانہ حملہ کرنے اور اسکی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کے جرم میں آپکے خلاف ایف آئی آر لکھوا دی ہے اور اب بہت جلد کورٹ کا نوٹس بھی آپکو مل جائیگا ۔خبر خوشی کی تھی تو سوچا خود ہی آکر آپکو سنا دوں “۔ حمزہ نے اقبال صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
”کیا بکواس ہے میری بھتیجی کو مرے دس سال ہوچکے ہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔“ اقبال صاحب نے غصہ سے کہا ” غلط فہمی یا خوش فہمی اسکا فیصلہ عدالت کرے گی اور DNA ٹیسٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیگا ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا اور پلٹ کر واپس چلا گیا ۔
حمزہ کے جاتے ہی اقبال صاحب کسی ٹرانس سے باہر نکلے اور تیزی سے فون اٹھایا ۔
“زوہیب ایس پی حمزہ ابھی آفس سے نکلا ہے اسکے بارے میں ساری معلومات حاصل کرو مریم زندہ ہے اور اس خبیث ایس پی کے پاس ہے ہمیں ہر حال میں مریم کو وہاں سے واپس لانا ہوگا ۔” زوہیب سے بات کرنے کے بعد انہوں نے اپنے وکیل کو فون ملایا اور ضمانت قبل از گرفتاری کے کاغذات بنوانے کی ہدایت کی ۔
اقبال کے آفس میں اسے دھمکانے کے بعد حمزہ کا موڈ خاصہ خوش گوار تھا اقبال کے چہرے پر چھا ئے پریشانی کے بادل اسکے ذہن اور دماغ کو سکون پہنچا رہے تھے اب اسے گھر جاکر مریم سے ایف آئی آر اور اقبال کے خلاف کمپلین پر دستخط لینے تھے وه مگن انداز میں گاڑی چلا رہا تھا جب اسے شاپنگ مال دکھائی دیا وه گاڑی پارک کرتے ہوئے اترا اسکا ارادہ مریم کے لئے شاپنگ کرنے کا تھا وه ایک مشہور کپڑوں کی بوتیک میں داخل ہوا جہاں چاروں جانب رنگ برنگے کپڑے لہرا رہے تھے تبھی ایک سیلز گرل اسکے پاس آئی ۔
“یس سر کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتی ہوں ۔”
“جی مجھے ریڈی میڈ ڈریسز چاہیے بے بی کے لئے ”
“بےبی سیلز گرل حیران ہوئی
“سر ہم بچوں کے کپڑے نہیں رکھتے ”
“لا حول ولا قوت “حمزہ نے استغفار پڑھی ۔پپو اور گڈو کے انداز میں اسکے منہ سے بھی بےبی نکل گیا تھا ۔
“جی مجھے اپنی وائف کے لئے ڈریس چاہئے “اب کے وہ سنبھل کر بولا
“اوکے سر “۔ وه حمزہ کو ڈریسس دکھا نے لگی
تبھی حمزہ کو یاد آیا کے مریم نے کہا تھا کہ اسے گہرے رنگ پسند نہیں ہیں اسکی آنکھوں میں چمک سی اتری ۔
“جی آپ مجھے چھ سات جوڑے گھر اور پارٹی ویر کے حساب سے پیک کروا دیں مگر خیال رکھےگا سارے رنگ شوخ اور ڈارک ہونے چاہئے “۔ سیلز گرل سر ہلاتی مڑ گئی آدھے گھنٹے بعد حمزہ شاپنگ بیگ پکڑے مال سے نکلا جس میں مریم کے لئے جوتے کپڑے سب کچھ تھا اب اسکا رخ گھر کی جانب تھا ۔گاڑی پارک کرکے وه جیسے ہی گھر میں داخل ہوا ایک بال ہوا میں اڑ تی ہوئی اسکے قریب آئی تیزی سے سر جھکا کر اس نے خود کو بچایا ۔
سامنے ہی اسکے بڑ ے جوتے پہنے مریم بی بی بیٹنگ کر رہی تھی ۔گڈو بال کروا رہا تھا اور پپو بھائی الٹی کیپ پہنے فیلڈر بنے ہوئے تھے۔
حمزہ چلتا ہوا مریم کے پاس آیا ۔
“اندر آؤ “۔ اسے حکم دیتا ہوا وه اندر چلا گیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں مریم پپو اور گڈو کے ساتھ اندر داخل ہوئی ۔
“یہ پپو اور گڈو تو اسکے باڈی گارڈ بن کر رہ گئے ہیں ۔”وه بڑبڑایا ۔
“تم میرا مطلب ہے آپ نے بلوایا تھا ۔”مریم نے پوچھا ۔
“یہ تمہارے لئے کچھ کپڑے اور جوتے وغیرہ ہیں رکھ لو “حمزہ اسکی جانب بیگ بڑھاتے ہوئے بولا ۔
“مریم نے اطمینان سے اسکے ہاتھ سے بیگ لئے اور جانے لگی تو پیچھے سے حمزہ نے آواز دی
“کیا زمانہ آگیا ہے سامان لے لیا مگر نا کوئی شکریہ نا کوئی انکساری کا مظاھرہ “مریم پلٹی اور چلتی ہوئی اسکے پاس آئی
“مسٹر حمزہ کیسا شکریہ کیسی انکساری یہ تو آپکا فرض تھا اور میرا حق آخر نکاح کیا ہے ذمہ داری تو اٹھانی ہوگی نا “یہ کہہ کر وه بڑے مزے سے پپو اور گڈو کو لیکر باہر نکل گئی ۔
“یا اللّه اس دنیا کے سارے نخریلے افراد تو نے میری ہی قسمت میں لکھ دئیے ہیں ۔”
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply