نخریلی محبتیں از سیما شاہد قسط نمبر 8
اقبال صاحب کا غصہ سے برا حال تھا ان کی اتنی مکاریوں اور سازشوں کے باوجود مریم زندہ تھی مگر الجھن اس بات کی تھی کہ وہ ایس پی حمزہ کے ہاتھ کیسے لگی ۔۔۔
کچھ دیر بعد اقبال صاحب نے فون اٹھایا اور پولیس کمشنر اسلام آباد کو فون لگایا ۔۔۔ سلام دعا کے بعد اس سے پہلے وہ بات شروع کرتے کمشنر صاحب بول اٹھے
” جی اقبال صاحب اتنے عرصہ بعد آج ہماری یاد کیسے آگئی ۔۔“ کمشنر صاحب نے کہا ” احمد صاحب آپ کے ہوتے ہوئے ہمارے خلاف ایف آئی آر کٹ گئی ہے ۔۔۔“ اقبال صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے
” اقبال انڈسٹریلسٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہمت کس نے کی ؟ “ کمشنر کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی
” ہے ایک جوان سرپھرا ایس پی حمزہ علی جو ہمارے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی بھی دیکر گیا ہے ۔۔“
حمزہ کا نام سن کر کمشنر احمد چونک گئے ۔۔۔ ” اقبال صاحب فون پر ایسی بات کرنا مناسب نہیں ہے آپ ایسا کریں شام کو کلب آجائیں وہی تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔۔۔“ کمشنر احمد نے بات ختم کرکے فون رکھا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم بچوں کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی سارے شاپنگ بیگز میز پر رکھے اب وہ ایک ایک کرکے سارے شاپر کھول کر دیکھ رہی تھی چپل ٹوتھ برش تولیہ ہئیر برش اور بہت سارے برانڈڈ قمیض شلوار جو قیمتی تو تھے مگر بہت شوخ رنگ کے تھے لال میرون سبز نیلے پیلے اس کے چہرے پہ یہ رنگ دیکھ کر مایوسی سی چھا گئی پر کوئی چوائس ہی نہیں تھی ۔۔ ” کیا ہوا بےبی ۔۔۔“گڈو ریموٹ سے ٹی وی آن کرتا ہوا بولا ۔۔
” کچھ نہیں وہ تمہارے تیز طرار چاچو اپنے جیسے ہی تیز چبھتے ہوئے کلر لے لے آئے ہیں۔۔“ مریم نے کپڑوں پر نظر ڈالتے ہوئے مایوسی سے کہا
” بے بی جلدی سے چینج کرکے آؤ جسٹن بیبر کا کنسرٹ شروع ہونے والا ہے ۔۔۔“ گڈو نے کہا پپو جو بہت دیر سے آلتی پالتی مارے بیڈ پر بیٹھا کبھی ٹی وی اور کبھی مریم کو دیکھ رہا تھا اچانک سے اٹھ کر مزے سے ٹی وی سے نشر ہونے والے میوزک پر جھومتا ہوا مریم کے پاس آیا
” بےبی آؤ ڈانس کریں ۔۔۔“ گڈو نے میوزک تیز کردی تھی اور اب وہ دونوں سلینہ کے سانگ “لو یو لائک آ لو سانگ بےبی ” ۔۔۔ پر جھوم رہے تھے ۔۔
مریم تھوڑی دیر دونوں بھائیوں کا عجیب و غریب ڈانس دیکھتی رہی گڈو صاحب کی تو توند بھی ہل رہی تھی اور گولوں سا پپو دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے آنکھیں بند کئیے کسی وجد میں آئے فقیر کی طرح جھوم رہا تھا ان دونوں کو دیکھ کر مریم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور وہ سر جھٹکتی ایک لباس اٹھا کر واش روم چلی گئی ۔
حمزہ بچوں کو دیکھتا گیسٹ روم تک آیا تو تیز میوزک نے اس کا استقبال کیا دروازہ کھولا تو اندر گڈو پپو کا مجرا چل رہا تھا اور سامنے ٹی وی پر سلینہ گومز اچھل رہی تھی اور ان بچوں کی بےبی غائب تھی۔
حمزہ نے ایک نظر دونوں کو بڑے جوش سے سردھنتے دیکھا پھر آگے بڑھ کر ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کردیا ۔۔۔ میوزک کے بند ہوتے ہی پپو اور گڈو بھی سیل سے چلنے والے کھلونے کی طرح اپنی جگہ ساکت ہو گئے اور فوری طور پر گردن گھمائی تو حمزہ کو کھڑے دیکھا ۔۔۔
پپو نے تیزی سے حمزہ کی جانب دوڑ لگائی اور سیدھا اس کے قدموں میں جاکر لڑھک گیا ۔۔حمزہ نے جھک کر خرگوش جیسے سرخ و سفید پپو کو گود میں اٹھایا اور اس کے پھولے پھولے گال چومے ۔۔۔ حمزہ کا شیو چبھنے پر پپو نے بڑا برا سا منہ بنایا
” چاچو ٹی وی سلینہ چاچو ۔۔۔“ پپو حمزہ کا چہرہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں لیتا ہوا بولا
” بیٹا یہ تیرے اے بی سی لکھنے کے دن ہیں ، بابا بابا بلیک شپ پڑھنے کے دن ہیں میرے لاڈلے تھوڑا بڑا تو ہوجا۔۔۔“ حمزہ نے اسے گدگدی کی ” اور تو میرا بگڑا ہوا لاڈلا ادھر آ “ ۔حمزہ نے گڈو کو پکارا
” تم دونوں ادھر اکیلے کیا کررہے تھے چلو گڈو جلدی سے اپنا اور پپو کا بیگ لیکر لیونگ روم میں آؤ ۔۔“
حمزہ پپو کو ہوا میں اچھالتا اس کی کلکاریاں سنتا ہوا باہر نکل گیا اور اس کے پیچھے خراب موڈ میں چلتا ہوا گڈو بھی ۔۔۔ لیونگ روم میں آکر پپو کو صوفہ پر بٹھایا اتنے میں گڈو بھی دو اسکول بیگز گھسیٹتے ہوئے اندر حمزہ کے پاس آیا کتابیں کھول کر حمزہ نے پڑھائی شروع کروائی ہی تھی کہ پپو کا باجا بجا ۔ ”چاچو بھوک کھانا دو ۔۔۔“ ”مجھے بھی بھوک لگی ہے ۔۔“ گڈو نے بھی دہائی دی
” شیطانوں ناچ گانا کرتے بھوک نہیں لگتی اور کتابیں کھلتے ہی کھانا پینا یاد آجاتا ہے ٹھیک ہے پپو تم اے بی سی لکھو اور گڈو تم دو سے پانچ تک کے ٹیبل لکھو میں جب تک کچن سے کچھ بنا کر لاتا ہوں ۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
* مریم نہا کر فریش ہو کر باہر نکلی تو ٹی وی آف تھا اور دونوں بچے غائب وہ سیدھی چلتی ہوئی سنگھار میز تک آئی اور خود کو پیلے لباس میں دیکھ کر ایک برا سا منہ بنایا اس نے برش سے بال سلجھائے پھر بھوک کی آواز پر لبیک کہتی باہر کچن کی جانب نکلی۔۔ کچن میں کھڑا حمزہ فرائی پین میں تیل ڈالکر فرنچ فرائز تل رہا تھا جب مریم کچن میں داخل ہوئی اور سیدھی فرج کی جانب آئی ۔۔ ” او مس یلو کیب کیا چاہئیے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے متوجہ کیا
” تم تم نے مجھے یلو کیب کہا ۔۔“مریم بھنائی
حمزہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا پیلے لباس میں کالا دوپٹہ شانوں پر ڈالے وہ تپی ہوئی کھڑی تھی پیلے رنگ میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی گلابی گال تمتا رہے تھے وہ ایک لمحہ کو مسمرائز سا ہوگیا پھر ہاتھ بڑھا کر حمزہ نے مریم کےچہرے کو چومتی گھنے سیاہ بالوں کی لٹ ہٹائی حمزہ کے ہاتھ کے لمس سے مریم گھبرا کر پیچھے ہٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اسے شانوں سے تھاما اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا گویا ہوا ” مریم آج تو تم واقعی دل کو اچھی لگ رہو بقول میرے بچوں کے کیوٹ بےبی ! بہتر ہے تھوڑا محتاط رہو کہیں پیار نہ ہوجائے کیونکہ میں اگر پیار میں پڑا نہ تو پھر تم چاہوں بھی تو میری زندگی سے نہیں جاسکوں گئی …“
حمزہ نے بڑی نرمی سے اپنی دو انگلیاں اس کے ماتھے پر بجائیں اور واپس چولہے کی جانب پلٹ گیا ۔
مریم چند لمحے خاموشی سے حمزہ کے گھمبیر لہجے اور لمس کے حصار میں قید کھڑی رہی پھر سر جھٹک کر آگئے بڑھی ۔۔۔ ”دیکھو مسٹر پولیس والے مجھے پٹانے کی کوشش بھی مت کرنا اور مجھے بھوک لگی ہے میں بچوں کے پاس جارہی ہوں تم جلدی سے کچھ پکا کر لے آؤ ۔۔“ وہ پلٹ کر جانے ہی لگی تھی کہ حمزہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا ” مس مریم پہلی بات میں اگر چاہوں نہ تو دو سیکنڈ میں تمہیں اپنے عشق میں گرفتار کرسکتا ہوں مگر تم میں وہ بات ہی نہیں ہے جو مجھے ایس پی حمزہ علی کو متاثر کرے اور دوسری بات آج سے کھانا تم بناؤ گی آخر فری میں رہ رہی ہو تو کچھ تو کام کاج کرو ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا ”ایس پی حمزہ تم دو سیکنڈ چھوڑ کر دو ہفتے بلکہ دو مہینے لے لو پر میں نہ آج نہ کل کبھی بھی تمہارے عشق میں گرفتار نہیں ہونگی حد ہوتی ہے خوش فہمی کی ۔۔۔“ مریم نے ہاتھ جھاڑے ” اتنے بڑے دعوے نہ کرو کہ کل کو آنکھ ملانی مشکل ہوجائے ۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا
” اور ساری باتیں ایک طرف شاباش جلدی سے کھانا پکا کر سرو کرو ۔۔“ وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ مریم کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ” سوری مجھے تو کچھ بھی پکانا نہیں آتا ۔۔۔“ حمزہ پلٹا وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے نکمے پن کے اعترافات میں لگی تھی ” او مس بےبی ۔۔۔یہ رہا میرا لیب ٹاپ ۔۔“ اس نے میز کی طرف اشارہ کیا ” یو ٹیوب لگاؤ اور کھانا پکاؤ ۔۔۔بہانے بازی نہیں چلے گئی
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کو کچن میں کام پر لگا کر اندر آیا تو گڈو اور پپو کاغذ کے جہاز بنا کر اڑانے میں مصروف تھے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر پڑھنے بٹھایا تھوڑا ٹائم ہی گزرا تھا کہ اسکا سیل بجنے لگا کمشنر صاحب کا فون تھا ۔۔
” حمزہ مائے بوائے تم سے ایک فیور چاہئیے تھا اور سن لو انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔۔“
”جی سر کہئیے ۔۔۔“ حمزہ ادب سے بولا
” مجھے اور تمہاری بھابھی کو ایمرجنسی میں لندن جانا پڑ رہا ہے کچھ دنوں کی بات ہے کیا تم میری سالی ماہین کو اپنے گھر ٹہرا سکتے ہو ۔۔۔“ ” مگر سر ۔۔۔۔“ ” دیکھوں حمزہ حالات خراب ہیں جوان لڑکی ہے اکیلے گھر میں بھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی کسی رشتہ دار پر بھروسہ کرسکتا ہوں کچھ دن کی تو بات ہے بڈی ہیلپ می ۔۔“ کمشنر حمزہ کی بات کاٹ کر تیزی سے بولے ۔
” ٹھیک ہے سر جیسا آپ کہیں ۔۔“ حمزہ بیدلی سے بولا
” بہت شکریہ پرسوں ہماری فلائٹ ہے ہم ماہین کو تمہاری طرف چھوڑتے ہوئے ائیرپورٹ نکل جائینگے ۔۔۔“
فون بند کر کے وہ بچوں کو ہدایات دیتا باہر نکلا اس کا ارادہ باہر سے لنچ کیلئیے کچھ لانے کا تھا ۔۔۔
تقریباً گھنٹہ بعد حمزہ واپس آیا پیک کئیے کھانے کو کچن میں لاکر رکھا تو میز پر باؤل میں بریانی نما چیز رکھی نظر آئی جو یقیناً مریم کا شاہکار تھی اس نے چمچ سے چکھا ذائقہ تو گزارے لائق تھا ۔۔۔ وہ اندر بڑھا تو لیونگ روم میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور برآمدے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے قریب کرسی رکھ کر اس گڈو صاحب چڑھے ہوئے باہر جھانک رہے تھے ۔۔وہ دھیرے سے بنا آواز کئیے چلتا ہوا گڈو کے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہوگیا ۔۔ باہر گارڈن میں حمزہ کے لائے سبز لباس میں مریم پپو کو گود میں اٹھائے چہل قدمی کررہی تھی اور پپو صاحب بار بار مریم کے گال چوم رہے تھے جس پر مریم مسکرا کر اس کے پھولے پھولے گالوں پر چٹکی بھر رہی تھی ۔
”یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ کھڑکی سے جھانکتے گڈو کو دیکھ کر بولا ”چاچو مریم کو دیکھ رہا ہوں دیکھیں کتنی کیوٹ ہے نا۔۔“ ”شرم کرو نالائق مریم نہیں ۔۔۔مریم آپی یا باجی کہو۔۔۔“ ”باجی ۔۔۔۔“ گڈو نے تڑپ کر حمزہ کو دیکھا ” چاچو دل تو نہ توڑیں پپو اور میں نے فیصلہ کرلیا ہے یا تو آپ مریم کو ہماری چاچی بنا دیں یا پھر میری شادی مریم سے کروادیں ۔۔۔۔“ ”ویسے مریم میرے ساتھ بہت ہیپی رہے گئی میں اپنے سارے ٹوائز بھی انہیں دے دونگا روز ملکر وڈیو گیم بھی کھیلونگا ۔۔“ گڈو صاحب شرما کر بولے۔۔۔ ” کیا واقعی تم دونوں کو مریم بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
کچھ دیر بعد اقبال صاحب نے فون اٹھایا اور پولیس کمشنر اسلام آباد کو فون لگایا ۔۔۔ سلام دعا کے بعد اس سے پہلے وہ بات شروع کرتے کمشنر صاحب بول اٹھے
” جی اقبال صاحب اتنے عرصہ بعد آج ہماری یاد کیسے آگئی ۔۔“ کمشنر صاحب نے کہا ” احمد صاحب آپ کے ہوتے ہوئے ہمارے خلاف ایف آئی آر کٹ گئی ہے ۔۔۔“ اقبال صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے
” اقبال انڈسٹریلسٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہمت کس نے کی ؟ “ کمشنر کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی
” ہے ایک جوان سرپھرا ایس پی حمزہ علی جو ہمارے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی بھی دیکر گیا ہے ۔۔“
حمزہ کا نام سن کر کمشنر احمد چونک گئے ۔۔۔ ” اقبال صاحب فون پر ایسی بات کرنا مناسب نہیں ہے آپ ایسا کریں شام کو کلب آجائیں وہی تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔۔۔“ کمشنر احمد نے بات ختم کرکے فون رکھا ۔
**************************for more books – urdunovels.info
مریم بچوں کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی سارے شاپنگ بیگز میز پر رکھے اب وہ ایک ایک کرکے سارے شاپر کھول کر دیکھ رہی تھی چپل ٹوتھ برش تولیہ ہئیر برش اور بہت سارے برانڈڈ قمیض شلوار جو قیمتی تو تھے مگر بہت شوخ رنگ کے تھے لال میرون سبز نیلے پیلے اس کے چہرے پہ یہ رنگ دیکھ کر مایوسی سی چھا گئی پر کوئی چوائس ہی نہیں تھی ۔۔ ” کیا ہوا بےبی ۔۔۔“گڈو ریموٹ سے ٹی وی آن کرتا ہوا بولا ۔۔
” کچھ نہیں وہ تمہارے تیز طرار چاچو اپنے جیسے ہی تیز چبھتے ہوئے کلر لے لے آئے ہیں۔۔“ مریم نے کپڑوں پر نظر ڈالتے ہوئے مایوسی سے کہا
” بے بی جلدی سے چینج کرکے آؤ جسٹن بیبر کا کنسرٹ شروع ہونے والا ہے ۔۔۔“ گڈو نے کہا پپو جو بہت دیر سے آلتی پالتی مارے بیڈ پر بیٹھا کبھی ٹی وی اور کبھی مریم کو دیکھ رہا تھا اچانک سے اٹھ کر مزے سے ٹی وی سے نشر ہونے والے میوزک پر جھومتا ہوا مریم کے پاس آیا
” بےبی آؤ ڈانس کریں ۔۔۔“ گڈو نے میوزک تیز کردی تھی اور اب وہ دونوں سلینہ کے سانگ “لو یو لائک آ لو سانگ بےبی ” ۔۔۔ پر جھوم رہے تھے ۔۔
مریم تھوڑی دیر دونوں بھائیوں کا عجیب و غریب ڈانس دیکھتی رہی گڈو صاحب کی تو توند بھی ہل رہی تھی اور گولوں سا پپو دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے آنکھیں بند کئیے کسی وجد میں آئے فقیر کی طرح جھوم رہا تھا ان دونوں کو دیکھ کر مریم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور وہ سر جھٹکتی ایک لباس اٹھا کر واش روم چلی گئی ۔
حمزہ بچوں کو دیکھتا گیسٹ روم تک آیا تو تیز میوزک نے اس کا استقبال کیا دروازہ کھولا تو اندر گڈو پپو کا مجرا چل رہا تھا اور سامنے ٹی وی پر سلینہ گومز اچھل رہی تھی اور ان بچوں کی بےبی غائب تھی۔
حمزہ نے ایک نظر دونوں کو بڑے جوش سے سردھنتے دیکھا پھر آگے بڑھ کر ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کردیا ۔۔۔ میوزک کے بند ہوتے ہی پپو اور گڈو بھی سیل سے چلنے والے کھلونے کی طرح اپنی جگہ ساکت ہو گئے اور فوری طور پر گردن گھمائی تو حمزہ کو کھڑے دیکھا ۔۔۔
پپو نے تیزی سے حمزہ کی جانب دوڑ لگائی اور سیدھا اس کے قدموں میں جاکر لڑھک گیا ۔۔حمزہ نے جھک کر خرگوش جیسے سرخ و سفید پپو کو گود میں اٹھایا اور اس کے پھولے پھولے گال چومے ۔۔۔ حمزہ کا شیو چبھنے پر پپو نے بڑا برا سا منہ بنایا
” چاچو ٹی وی سلینہ چاچو ۔۔۔“ پپو حمزہ کا چہرہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں لیتا ہوا بولا
” بیٹا یہ تیرے اے بی سی لکھنے کے دن ہیں ، بابا بابا بلیک شپ پڑھنے کے دن ہیں میرے لاڈلے تھوڑا بڑا تو ہوجا۔۔۔“ حمزہ نے اسے گدگدی کی ” اور تو میرا بگڑا ہوا لاڈلا ادھر آ “ ۔حمزہ نے گڈو کو پکارا
” تم دونوں ادھر اکیلے کیا کررہے تھے چلو گڈو جلدی سے اپنا اور پپو کا بیگ لیکر لیونگ روم میں آؤ ۔۔“
حمزہ پپو کو ہوا میں اچھالتا اس کی کلکاریاں سنتا ہوا باہر نکل گیا اور اس کے پیچھے خراب موڈ میں چلتا ہوا گڈو بھی ۔۔۔ لیونگ روم میں آکر پپو کو صوفہ پر بٹھایا اتنے میں گڈو بھی دو اسکول بیگز گھسیٹتے ہوئے اندر حمزہ کے پاس آیا کتابیں کھول کر حمزہ نے پڑھائی شروع کروائی ہی تھی کہ پپو کا باجا بجا ۔ ”چاچو بھوک کھانا دو ۔۔۔“ ”مجھے بھی بھوک لگی ہے ۔۔“ گڈو نے بھی دہائی دی
” شیطانوں ناچ گانا کرتے بھوک نہیں لگتی اور کتابیں کھلتے ہی کھانا پینا یاد آجاتا ہے ٹھیک ہے پپو تم اے بی سی لکھو اور گڈو تم دو سے پانچ تک کے ٹیبل لکھو میں جب تک کچن سے کچھ بنا کر لاتا ہوں ۔۔“
**************************for more books – urdunovels.info
* مریم نہا کر فریش ہو کر باہر نکلی تو ٹی وی آف تھا اور دونوں بچے غائب وہ سیدھی چلتی ہوئی سنگھار میز تک آئی اور خود کو پیلے لباس میں دیکھ کر ایک برا سا منہ بنایا اس نے برش سے بال سلجھائے پھر بھوک کی آواز پر لبیک کہتی باہر کچن کی جانب نکلی۔۔ کچن میں کھڑا حمزہ فرائی پین میں تیل ڈالکر فرنچ فرائز تل رہا تھا جب مریم کچن میں داخل ہوئی اور سیدھی فرج کی جانب آئی ۔۔ ” او مس یلو کیب کیا چاہئیے ۔۔۔“ حمزہ نے اسے متوجہ کیا
” تم تم نے مجھے یلو کیب کہا ۔۔“مریم بھنائی
حمزہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا پیلے لباس میں کالا دوپٹہ شانوں پر ڈالے وہ تپی ہوئی کھڑی تھی پیلے رنگ میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی گلابی گال تمتا رہے تھے وہ ایک لمحہ کو مسمرائز سا ہوگیا پھر ہاتھ بڑھا کر حمزہ نے مریم کےچہرے کو چومتی گھنے سیاہ بالوں کی لٹ ہٹائی حمزہ کے ہاتھ کے لمس سے مریم گھبرا کر پیچھے ہٹی ہی تھی کہ حمزہ نے اسے شانوں سے تھاما اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا گویا ہوا ” مریم آج تو تم واقعی دل کو اچھی لگ رہو بقول میرے بچوں کے کیوٹ بےبی ! بہتر ہے تھوڑا محتاط رہو کہیں پیار نہ ہوجائے کیونکہ میں اگر پیار میں پڑا نہ تو پھر تم چاہوں بھی تو میری زندگی سے نہیں جاسکوں گئی …“
حمزہ نے بڑی نرمی سے اپنی دو انگلیاں اس کے ماتھے پر بجائیں اور واپس چولہے کی جانب پلٹ گیا ۔
مریم چند لمحے خاموشی سے حمزہ کے گھمبیر لہجے اور لمس کے حصار میں قید کھڑی رہی پھر سر جھٹک کر آگئے بڑھی ۔۔۔ ”دیکھو مسٹر پولیس والے مجھے پٹانے کی کوشش بھی مت کرنا اور مجھے بھوک لگی ہے میں بچوں کے پاس جارہی ہوں تم جلدی سے کچھ پکا کر لے آؤ ۔۔“ وہ پلٹ کر جانے ہی لگی تھی کہ حمزہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا ” مس مریم پہلی بات میں اگر چاہوں نہ تو دو سیکنڈ میں تمہیں اپنے عشق میں گرفتار کرسکتا ہوں مگر تم میں وہ بات ہی نہیں ہے جو مجھے ایس پی حمزہ علی کو متاثر کرے اور دوسری بات آج سے کھانا تم بناؤ گی آخر فری میں رہ رہی ہو تو کچھ تو کام کاج کرو ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا ”ایس پی حمزہ تم دو سیکنڈ چھوڑ کر دو ہفتے بلکہ دو مہینے لے لو پر میں نہ آج نہ کل کبھی بھی تمہارے عشق میں گرفتار نہیں ہونگی حد ہوتی ہے خوش فہمی کی ۔۔۔“ مریم نے ہاتھ جھاڑے ” اتنے بڑے دعوے نہ کرو کہ کل کو آنکھ ملانی مشکل ہوجائے ۔۔“ حمزہ نے اسے ٹوکا
” اور ساری باتیں ایک طرف شاباش جلدی سے کھانا پکا کر سرو کرو ۔۔“ وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ مریم کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ” سوری مجھے تو کچھ بھی پکانا نہیں آتا ۔۔۔“ حمزہ پلٹا وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے نکمے پن کے اعترافات میں لگی تھی ” او مس بےبی ۔۔۔یہ رہا میرا لیب ٹاپ ۔۔“ اس نے میز کی طرف اشارہ کیا ” یو ٹیوب لگاؤ اور کھانا پکاؤ ۔۔۔بہانے بازی نہیں چلے گئی
**************************for more books – urdunovels.info
مریم کو کچن میں کام پر لگا کر اندر آیا تو گڈو اور پپو کاغذ کے جہاز بنا کر اڑانے میں مصروف تھے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر پڑھنے بٹھایا تھوڑا ٹائم ہی گزرا تھا کہ اسکا سیل بجنے لگا کمشنر صاحب کا فون تھا ۔۔
” حمزہ مائے بوائے تم سے ایک فیور چاہئیے تھا اور سن لو انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔۔“
”جی سر کہئیے ۔۔۔“ حمزہ ادب سے بولا
” مجھے اور تمہاری بھابھی کو ایمرجنسی میں لندن جانا پڑ رہا ہے کچھ دنوں کی بات ہے کیا تم میری سالی ماہین کو اپنے گھر ٹہرا سکتے ہو ۔۔۔“ ” مگر سر ۔۔۔۔“ ” دیکھوں حمزہ حالات خراب ہیں جوان لڑکی ہے اکیلے گھر میں بھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی کسی رشتہ دار پر بھروسہ کرسکتا ہوں کچھ دن کی تو بات ہے بڈی ہیلپ می ۔۔“ کمشنر حمزہ کی بات کاٹ کر تیزی سے بولے ۔
” ٹھیک ہے سر جیسا آپ کہیں ۔۔“ حمزہ بیدلی سے بولا
” بہت شکریہ پرسوں ہماری فلائٹ ہے ہم ماہین کو تمہاری طرف چھوڑتے ہوئے ائیرپورٹ نکل جائینگے ۔۔۔“
فون بند کر کے وہ بچوں کو ہدایات دیتا باہر نکلا اس کا ارادہ باہر سے لنچ کیلئیے کچھ لانے کا تھا ۔۔۔
تقریباً گھنٹہ بعد حمزہ واپس آیا پیک کئیے کھانے کو کچن میں لاکر رکھا تو میز پر باؤل میں بریانی نما چیز رکھی نظر آئی جو یقیناً مریم کا شاہکار تھی اس نے چمچ سے چکھا ذائقہ تو گزارے لائق تھا ۔۔۔ وہ اندر بڑھا تو لیونگ روم میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور برآمدے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے قریب کرسی رکھ کر اس گڈو صاحب چڑھے ہوئے باہر جھانک رہے تھے ۔۔وہ دھیرے سے بنا آواز کئیے چلتا ہوا گڈو کے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہوگیا ۔۔ باہر گارڈن میں حمزہ کے لائے سبز لباس میں مریم پپو کو گود میں اٹھائے چہل قدمی کررہی تھی اور پپو صاحب بار بار مریم کے گال چوم رہے تھے جس پر مریم مسکرا کر اس کے پھولے پھولے گالوں پر چٹکی بھر رہی تھی ۔
”یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔۔“ حمزہ کھڑکی سے جھانکتے گڈو کو دیکھ کر بولا ”چاچو مریم کو دیکھ رہا ہوں دیکھیں کتنی کیوٹ ہے نا۔۔“ ”شرم کرو نالائق مریم نہیں ۔۔۔مریم آپی یا باجی کہو۔۔۔“ ”باجی ۔۔۔۔“ گڈو نے تڑپ کر حمزہ کو دیکھا ” چاچو دل تو نہ توڑیں پپو اور میں نے فیصلہ کرلیا ہے یا تو آپ مریم کو ہماری چاچی بنا دیں یا پھر میری شادی مریم سے کروادیں ۔۔۔۔“ ”ویسے مریم میرے ساتھ بہت ہیپی رہے گئی میں اپنے سارے ٹوائز بھی انہیں دے دونگا روز ملکر وڈیو گیم بھی کھیلونگا ۔۔“ گڈو صاحب شرما کر بولے۔۔۔ ” کیا واقعی تم دونوں کو مریم بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔“ حمزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔