رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 3
ڈاکٹرز کے بتائے ھوئے انجیکشنزاور ڈرپس لے کے آیا تھا وہ بھی بے طرح پریشان تھا زرک نے اسکو بھی تسلی دی وہ تقریبا زرک کا ھم عمر تھا مگر اس میں وہ سمجھ داری اور ذمہ داری نہ تھی جو زرک کئ ذات کا خاصہ تھی ,زرک نے اسکو بابا کو لینے بھیجا اور خود دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑا ھوگیا زرک کے دل کی اسوقت جو حالت تھی وہ صرف اللہ پاک کی ذات جانتی تھی حالانکہ وہ بہت حوصلہ مند اور بہادر تھا مگر اسوقت اسکو بھی رونے کے لیے ایک کندھے کی ضرورت تھی وہ سب کوسہارا دے دے کے اب خود سہارے کی تلاش میں تھا اور ٹھیک 45 منٹ بعد پاپا کو سامنے دیکھ کر اسکے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے وہ پاپا کے گلے لگ کے بے تحاشا رویا تھا کہ وہاں موجود ہر آنکھ اشکبار ھوگئ تھئ
پاپا ! زوئ کو کہیں نہ ھمارے ساتھ ایسا نہ کرے پاپا پلیز اسکو آواز دیں نہ میں اسکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ تو ھماری گڑیا ھے نہ😢
, زارون صاحب تو مزید پریشان ھوگئے گڑیا جیسی بیٹی زندگی موت کی کشمکش میں تھی ,شریک حیات کے دل کی حالت ,جوآن ھوتے بیٹے کا آنسووں سے رونا انکو تڑپا گیا تھا وہ ابھی تک انکے سینے سے لگا بللک رھا تھا ,انھوں نے اسکو بنچ پر بٹھایا اور خود ڈاکٹر سے بات کرنے چلے گئے ڈاکٹر نے انکو بتایا کہ خون ضائع ھونے کی وجہ سے مریض بے ھوش ھے اور مزید خون کی ضرورت ھے خون کا بندوبست ھو گیا تھا خون لگتا رھا زھراء بیگم بھی ھوش میں تھیں سب زوئ کے لیے دعائیں کر رھے تھے کہ اچانک ایک نرس بھاگتی ھوئ آئ….
۞۞۞۞
آپ میں سے زرک کون ھے ?
آپکے پیشنٹ کو تھوڑا تھوڑا ھوش آرھا ھے اور وہ زرک کو پکار رھی ھیں ,ڈاکٹر صاحب کہ رھے کہ اسکے ھوش میں آنے پر زرک صاحب کا سامنے ھونا فائدہ مند ھوسکتا ھے,
یہ سنتے ھی زرک آگے بڑھا نرس اسکو لیکر اندر کی طرف بڑھ گئ زرک جیسے ھی اندر داخل ھوا زوئ نے آنکھیں کھولیں تھیں اور ہولے سے بولی زرک,اسکے لب ھلتے زرک نے دیکھے تھے مگر اسکی آواز نقاہت کے سبب بہت آہستہ تھی آنسو اسکی آنکھوں میں تیزی سے جمع ھو رھے تھے کہ زرک نے آگے بڑھ کے اسکے سر کو سہلایا اور ہمت کر کے بولا
زوئ تم زرک کئ بہن ھو کر رو رھی ھو چچ چچ کتنی بری بات ھے لوگ کیا کہیں گے کہ زرک کی بہن اتنی بزدل ھے..
بولتے ھوئے زوئ کے آنسو صاف کر رھا تھا پھر اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ھوئے بولا زوئ!
تم بلکل فکر نہ کرو تم ٹھیک ھوجاو گی,تمہیں پتہ ھے تم نے ھم سبکو کتنا پریشان کردیا تھا,
باھر سب آئے ھوئے ھیں اور ماما پاپا تو بہت پریشان ھیں اسلیے انکے سامنے نہیں رونا تم نے میں انکو بلا کے لاتا ھوں..
باھر سب زوئ کے لیےدعاگو تھے , انکی دعائیں رنگ لائ تھیں زرک نے باھر آکر یہ خوشخبری سنائ تو سب نے رب کا شکر ادا کیا تھا ,
اور باری باری زوئ کو ملنے گئے تھے , پھر زرک نے باقی سبکو گھر بھیج دیا وہ اور مہ پارہ بیگم رک گئے تھے زھراء بیگم کو زبردستی بھیجا تھا زرک نے مگر گھر جاکے انکا بی پی پھر شوٹ کر گیا…
زارون صاحب نے انکی زبان کے نیچے ٹیبلٹ رکھی اور پھر دودھ کے ساتھ نیند کی ٹیبلٹ دے کے سلا دیا تھا ,اگلے دن زوئ کو فارغ کردیا گیا ,
ہاسپٹل سے تو وہ آگئ لیکن سر کی چوٹ بھی کافی گہری تھی اور بازو بھی فریکچر ھوگئ تھئ, اسکو ڈاکٹر نے مکمل آرام کی تاکید کی تھی ,
2 مہینے تھے اسکے ایگزام میں لیکن ڈاکٹر نے مکمل ریسٹ کا بولا تھا اسکو سیمسٹر ضائع ھونے کی بہت ٹینشن تھی اسکے ایک سال کا خرچہ ھی لاکھوں میں تھا مگر پاپا نے اسکو پریشان ھونے سے منع کردیا یہ کہ کے انکے لیے اپنے بچوں سے اہم کوئ چیز نہیں ھے ,
وہ ریسٹ کر کر کے تھک چکی تھی مگر مجبوری تھی ,زھراء بیگم ہر وقت اسکے ساتھ لگی رھتیں وہ پہلے ھی بچوں کے مامعلے میں بہت کئیرنگ تھیں ,زوئ والے حادثے نے تو انکو کمزور کردیا تھا ,
انکا بی پی آئے دن ہائ رہنے لگا تھا , زوئ کی طبعیت اب کافی بہتر تھی ,بازو جڑ چکا تھا سر کا زخم بھی بھر چکا تھا ,
اسنے دوبارہ سے کالج جوائن کرنا تھا زرک کے بھی ایگزام سر پر تھے اسکا میڈیکل کا فرسٹ ایئر مکمل ھونے کو تھا کہ ایک دن جب زوئ اور زھراء بیگم, مہ پارہ بیگم کی فیملی سے ملنے چلی گئیں زارون صاحب کی نائٹ ڈیوٹی تھی مہ پارہ بیگم اور ماہم نے انکو زبردستی رات کو روک لیا تھا زرک اپنے کسی دوست کی طرف کمبائن سٹڈی کے لیے گیا ھوا تھا اسنے رات کو لیٹ آنا تھا
زوئ ! بھائ کو فون کرکے بتا دو کہ ھم خالہ کی طرف ھیں تو وہ بھی ادھر ھی آجائے ,
زھراء بیگم کے کہنے پر اسنے بھائ کا نمبر ملایا تو نمبر بند جارھا تھا اسنے ماما کو بتایا وہ فکر مند ھورھی تھیں مگر زوئ اور مہ پارہ بیگم کے یہ کہنے پر کہ آجئے گا ابھی تو کافی ٹائم ھے انہوں نے خود کو تسلی دی مگر 9.30 سے 10.00 ھوئے 10.00 سے 11 جب سوئ نے 12 کا ھندسہ عبور کیا تو سبکو تشویش ھونے لگی فون ہنوز بند تھا
,اسکے دوستوں کو فون کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ تو 10.30 بجے کا گھر کا کہ کے چلا گیا ھے ,زھراء بیگم تو یہ سنتے ھی چیخ مار کے بے ھوش ھوگئیں ,انکا بی پی ایک بار پھر شوٹ کرگیا تھا,
ماھم پانی اور انکئ دوائ لے آئ گولی زوئ نے رکھی مہ پارہ بیگم تو بہن کے ہاتھ پاوں مل رھی تھیں جبکہ معیز اور صارم صاحب زرک کو ڈونڈھنے نکل پڑے تھے 12.30 ھوے تو ڈور بیل بجی میثم گیا دروازہ کھولا تو صارم کھڑا تھا اسنے ایک دم بولا
صارم بھائ !
اسکی آواز سن کر سب وہاں آگئے تھے زھراء بیگم تو پھر سے رونا شروع ھوگئیں تھیں مہ پارہ بیگم کے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ اسکی بائیک ایک سنسان جگہ خراب ھوگئ تھی
اور اسکی سیل کی بیٹری بھی ڈیڈ تھی وہ بائک کھینچتے ھوئے ورکشاپ تک گیا تھا اور وہاں سے فارغ ھوکے گھر گیا تو گارڈ نے بتایا کہ گھر میں کوئ نہیں تو پھر وہ ادھر آگیا
خالہ کا گھر انکے گھر سے کافی دور تھا اور اسکے دوست کا گھر تو ٹوٹلی مخالف سمت تھا تب ھی اسکو دیر ھوگئ معیز اور صارم صاحب کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا اور اب سب بیٹھے چائے کے ساتھ گپ شپ لگا رھے تھے…
زرک سب سے ایکسکیوز کر چکا تھا لیکن زھراء بیگم کا دل ابھی تک پریشان تھا کچھ انکی طبعیت اب اکثر خراب رھنے لگی تھی انکو لگتا تھا انکے پاس زندگی کم ھے ..
۞۞۞۞
انہی سوچوں میں گھریں وہ بچوں کے ساتھ اگلی صبح ھی گھر واپس آگئیں تھیں
وہ آجکل پریشان اور اداس سی رھتیں تھیں زارون صاحب نوٹ کر رھے تھے
انہوں نے زرک سے ڈسکس کیا تو اسنے بھی انکی بات کو صحیح قراردے دیا زارون صاحب کی اگلے ھی دن ہاسپٹل میں ایوننگ ڈیوٹی تھی
وہ زھراء بیگم کو شاپنگ اور دن کے کھانے پر لے گئے اور واپسی میں پارکنگ میں زھراء بیگم کو انکی بچپن کی دوست سامعہ مل گئ
وہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان کر گلے ملیں دونوں بہت خوش تھیں زارون صاحب بھی سامعہ کو جانتے تھے,
ان سے سلام دعا کے بعد سامعہ نے ان کو بتایا کہ وہ بھی انکے شہر شفٹ ھوگئ ھیں دو سال ھوگئے تو زھراء بیگم کو بہت خوشی ھوئ
کیونکہ سامعہ بیگم کی شادی بالا کوٹ ھوئ تھی اسلیے انکے درمیان رابطے فون پر تھے جو وقت کے ساتھ ختم ھوگے اور اب اچانک اتنے سال بعد قسمت نے انکو ملا دیا تھا
ایڈریس اور نمبرز کے تبادلوں کے بعد دونوں نے اپنی اپنی راہ لی,
اور آنے والے ویک اینڈ پر زھراء بیگم نے سامعہ کے گھر جانے کی ٹھانی…
پاپا کی مصروفیت کے سبب زرک نے انکو پک ڈراپ کرنے کی ذمہ داری اٹھائ تھی,
وہ باھر سے ھی ڈراپ کر کے چلا گیا لیکن واپسی میں انکل آنٹی نے اسکو زبردستی اندر بلایا تھا چائے وغیرہ پی کر انھوں نے اجازت چاھی,
راستے میں سارا راستہ زھراء بیگم سامعہ کی بیٹی زینیہ کے گن گاتی آئ تھیں زرک کو بھلا سامعہ آنٹی کی بیٹی سے کیا دلچسپی ھو سکتی تھی
وہ بہت لیے دیے رہنے والا لڑکا تھا اسکی زندگئ میں فلحال صرف اسکے ایمز کی جگہ تھی…
گھر آیا تو زرک نے شکر کیا تھا…
زھراء بیگم نے زوئ سے بھی زینیہ کی بہت تعریفیں کی تھیں کہ زوئ اس سے ملنے کو بے چین ھوگئ انھوں نے زوئ سے وعدہ کیا تھا کہ جلد وہ اسکو سامعہ آنٹی کے گھر لے کے جاینگئ…
معمول کے دن تھے زھراء بیگم کی مہ پارہ سے بات ھوئ تو وہ کچھ پریشان لگیں زھراء بیگم کے پوچھنے پر ٹال گئیں تو زھراء بیگم کو فکر ھوئ وہ شام کو ھی بہن کے گھر جاپہنچیں زوئ تو ماہم کے ساتھ اسکے کمرے میں چلی گئ تو زھراء بیگم کے پوچھنے پر پہلے تو ٹالتی رھیں مگر بڑی بہن کے اصرار کے آگے ہار گیئں اور بولیں تو ان کی آواز میں نمی واضح تھی
باجی کل عارب آیا تھا صارم کے پاس آفس ,
ارے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ھے
پری وہ صارم کا بھائ ھے کیا ھوا اگر دونوں بھائوں میں میل جول نہیں ھے تو?
میل جول نہ ھونے سے رشتے تو نہیں ٹوٹتے نہ ……
باجی پریشانئ کی بات تو ھے نہ وہ اس گھر اور بزنس میں سے حصہ مانگ رھا ھے بلکہ اسکے خیال میں تو اس بزنس پر زیادہ حق اسکا ھے ,
آئے غضب خدا کا کونسا حصہ کیسا حصہ پری جانتک مجھے یاد پڑتا ھے تو صارم نے اپنے باھر جانے دے پہلے آبائ گھر اور فیکڑی بیچ کر اسکو اسکا حصہ دے دیا تھا ,,زھراء بیگم بولیں تو انکی آواز میں غصہ نمایاں تھا
باجی یہی تو فکر کی بات ھے صارم نے تو یہ گھر خریدنے کی بعد اپنی ساری پونجی بزنس پر لگا چکے ھیں پھر گھر کے اخراجات,بچوں کی پڑھائ اور ابھی تو بزنس بھی صحیح جما نہیں ھےمیں تو بہت پریشان ھوں
اچھا پری تم فکر نہ کرو ھم مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے,تم بس بچوں کو نہ بتانا زھراء بیگم نے چھوٹی بہن کو سمجھایا ,
نہیں باجی بچوں کو تو ھم ویسے ھی پریشان نہیں کرنا چاھتے ,لیکن صارم آجکل بہت بجھے بجھے رھتے ھیں جس بھائ کو بچوں کی طرح سمجھا اسنے انکو ہر جگہ نیچا دکھانا چاھا
ہمارے باھر جانے پر بھی اس نے شور ڈالا تھا اور صارم کو سب کچھ اونے پونے داموں بیچ کر اسکا حصہ دینا پڑا تھا مگر اب وہ پھر سے انکو تنگ کر رھا ھے مہ پارہ بیگم گلوگیر لہجے میں بولیں
اسی لیے تو ھمارے دین میں لین دین کے معاملات میں لکھنے کا حکم ھے نہ تاکہ ثبوت موجود رھے اور بھول چوک بھی نہ ھو بڑی بہن چھوٹی کو سمجھا رھی تھیں
باجی آپ بلکل ٹھیک کہتی ھیں مگر صارم نے چھوٹا بھائ سمجھ کر بناء کسی گواہ یا ثبوت کے عارب کو اسکا حصہ دے دیا تھا بعد میں عارب نے بول چال بھی خود ھی چھوڑا اور اب پھر تنگ کر رھا مہ پارہ بیگم بول رھئ تھیں کہ اچانک دروازہ ناک ھوا ملازم چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ اندر آئیں تھی
زوئ اور ماھم دونوں کو بھی بھیج دو زھراء بیگم نے کہا تو ملازمہ جی اچھا کہ کے چلی گئ تھوڑی دیر میں وہ دونوں بھی آگئیں
چائے کا دور چل رھا تھا کہ سامعہ اور اسکی فیملی کا ذکر کیا مہ پارہ بھی بہن کی سہیلی سے واقف تھیں باتیں ھورھئ تھیں کہ زھراء بیگم نے ایک دم سر پکڑ لیا انکا بی پی بڑھ گیا تھا سب ایک دم پریشان ھوگئیں زوئ نے انکی زبان کے نیچے گولی رکھی اور انکو لٹا دیا تھا کافی دیر بعد انکی طبعیت سمبھلی تو وہ اٹھ بیٹھیں ,
باجی آپ نے تو ھماری جان نکال دی تھی آپ اپنا بالکل خیال نہیں رکھتیں
زھراء بیگم مہ پارہ کئ باتوں کے جواب میں بولیں پری کوشش تو کرتی ھوں مگر مجھے لگتا ھے اب زندگی کے دن کم ھیں انکا یہ کہنا زوئ اور ماہم کے ساتھ مہ پارہ بیگم کو تڑپا گیا وہ بولیں
باجی ایسے کیوں سوچتی ھیں اللہ پاک آپکو سلامت رکھے ابھی تو آپ نے زرک کی دلہن لانی ھے اسکے بچوں کو کھلانا ھے ,
انکا یہ کہنا سب کے چہروں پر مسکان لے آیا باقی سب نے یہ بات ھنسی میں اڑا دی لیکن زھراء بیگم نے اس بات کو مذاق نہیں مانا تھا.رات کو وہ گھر آئیں اور آتے کمرے میں چلی گئیں زوئ بھی تھکن کی وجہ سے اپنے کمرے میں چلئ گئ,,,,
زرک کے تو ایگزم سٹارٹ تھے وہ ہر بات سے بے خبر پڑھائ میں مگن تھا انھوں نے سب سے پہلے زارون صاحب سے بات کی وہ پہلے تو نہ مانے مگر زھراء بیگم کی صحت اور انکے اصرار پر مان گئے تھے.
۞۞۞۞
زھراء بیگم نے پہلے زوئ سے بات کی وہ تو خوشی سے اچھل پڑی تھی انہوں نے اسے زرک کو بلانے کے لیے کہا وہ آیا تو ماما کو سلام کر کے بیٹھ گیا,
اسلام علیکم ماما ! آپ نے بلایا تھا خیریت?
وعلیکم اسلام آو بیٹا بیٹھو
وہ بیٹھ گیا تو زھراء بیگم بولیں
زرک میں نے تمہارے لیے لڑکئ پسند کی ھے میں تمہارا رشتہ لے کے جانا چاھتی ھوں تمہیں کوئ اعتراض تو نہیں?
ماما آپ مذاق کر رھیں نہ
اسنےیہ کہ کے ماما کی طرف دیکھا مگر وہ سنجیدہ تھیں زوئ کے چہرے پر بھی مذاق کا کوئ شائبہ نہیں تھا وہ حیران تھا
ماما یہ اچانک آپکو کیا سوجھی آپ جانتی ھیں میری پڑھائ ابھی بہت رھتی ھے ابھی تو میرا سیکنڈ ائر ھے 3 سال بعد مجھے ڈاکٹر کی ڈگری ملے گی پھر میری ہاوس جاب پھر سپیشلائزیشن اسکے بعد کہیں جاکے شادی کی باری آئے گی.
وہ بولا تو نان سٹاپ ساری بات کرتا گیا
اسکی حیرانی کم نہ ھوئ تھی
ماما بولیں تو انکی آواز میں نمی کا عنصر نمایاں تھا زرک زوئ کے ایکسیڈنٹ والے واقعے نے مجھے کمزور کردیا ھے اور میری طبعیت بھی اب خراب رھنے لگی ھے مجھے لگتا ھے میری زندگئ کم ھے میں اپنی زندگی میں تم لوگوں کی خوشی دیکھنا چاھتی ھوں میں نے تمہارے لیے زینیہ کو پسند کیا ھےاس لفافے میں اسکی تصویر ھے تم سوچ کر مجھے کل اپنا جواب بتا دو زبردستی نہیں ھے تمہارا ہر جواب مجھے قبول ھوگا وہ بولیں تو انکا لہجہ دھیما تھا
وہ لفافہ لے کے اپنے کمرے میں آگیا ماما کی بات ٹالنا اسکے لیے بہت مشکل تھا مگر یہ فیصلہ اسکے لیے بہت مشکل تھا وہ کمرے میں ٹہل رھا تھا ماما نے اسکو کل تک سوچنے کا وقت دیا تھا مگر ماما کا نم لہجہ اسے ڈسٹرب کر رھا تھا اور اسنے کل کے بجائے رات کو ہی ماما کو اپنا فیصلہ سنانے کا سوچا,,,,,
رات کو ماما اسکے کمرے میں دودھ کا گلاس رکھنے آئیں تھیں کہ اسنے انکو ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھا دیا اور خود انکے سامنے بیٹھ گیا اسنے انکے ھاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور بولا
ماما یہ فیصلہ اگرچہ بہت مشکل تھا مگر پھر بھی مجھے منظور ھے
ماما تو اسکے اقرار پر نہال ھوگئیں اسکو ساتھ لگایا اور بولیں
زرک اللہ پاک تمیں ہمیشہ خوش رکھیں تم نے میرا مان رکھ لیا زینیہ بہت اچھی بچی ھے تم اسکے ساتھ خوش رہوگے تمہیں پسند آئ وہ اس سے پوچھ رھیں تھیں اسنے اقرار میں سر ہلادیا حالانکہ اسنے تصویر نہیں دیکھی تھی وہ اپنی ماں کو انکار نہیں کر سکتا تھا وہ کافی دیر اس سے زینیہ کی باتیں کرتی رھیں انھوں نے اسکو بتایا کہ وہ سامعہ آنٹی سے بات کرچکیں ھیں اور زینیہ سمیت سب راضی ھیں وہ بالا ھی بالا سب کام کر چکی تھیں اسکی حیرانی پر انہوں نے بتایا کہ وہ جانتی تھیں کے زرک انکو انکار نہیں کر سکتا تھا وہ مسکرا دیا وہ اسکو بتا کر اٹھ کھڑی ھویئں ,وہ اسکو دودھ کا گلاس ختم کرنے کی تلقین کرتی چلی گیئں اسنے دودھ پیا دانت برش کیے اور سونے کے لیے لیٹ گیا پھر اچانک تصویر کا خیال آنے پر لفافے سے نکالی ایک پیاری سی لڑکی جسکی آنکھوں سے ذہانت ٹپک رھی تھیاسکے دل نے بے اختیار اوکے کا سگنل دیا تھا شاید اسنے آج تک کبھی اس حوالے سے کسی کو سوچا نہیں تھا ,وہ مطمئن ھوگیااور سونے کے لیے لیٹ گیازھراء بیگم نے اگلے دن ھی مہ پارہ بیگم کو بلا لیا تھا اور وہ سب جاکے سامعہ بیگم کے گھر پراپر رشتہ ڈال آے اور دو دن بعد ہی انکا ہاں میں جواب آگیا دونوں فیملیز ایک دوسرے کو جانتی تھیں اسلیے رسمی باتوں اور تکلفات کو نظر انداز کر دیا گیا زھراء بیگم نے ایک ھفتے بعد منگنی کا فنکشن کرنا چاھاتھا ,مگر سامعہ بیگم اور انکے شوہر حسن صاحب نے منگنی کے بجائے نکاح کا بولا کیونکہ حسن صاحب کو کینسر تھا یہ بات زینیہ کے علم میں نہیں تھی حسن صاحب اسکو محفوظ ھاتھوں میں سونپنا چاھتے تھے مگر انہوں نے زھراء بیگم اور زارون صاحب کو منع کیا تھا کہ بچوں کو یہ بات نہ بتائ جائے کیونکہوہ نہیں چاھتے تھے کہ زینیہ کو اس بات کی بھنک بھی پڑے وہ اپنی بچی کو دکھی نہیں کر سکتے تھے,زھراء بیگم اور زارون صاحب نے انکو تسلی دی تھی اور گھر آکر سب سے بات کی باقی سب تو راضی تھے مگر زرک کو پتہ چلا تو وہ پریشان ھوگیا وہ فلحال صرف پڑھائ پر توجہ دینا چاھتا تھا مگر سب نے اسکو یہ کہ کر منا لیا کہ نکاح اور منگنی ایک ھی بات ھے رخصتی اسکی پڑھائ مکمل ھونے کے بعد ھی ھوگی آخر اسکو ہار ماننا پڑی,,,,,,,,,,,,,
زھراء بیگم اور زوئ تو خوشی کے مارے پاگل ھورہیں تھیں زارون صاحب تو انکو دیکھ کر ھنستے تھے جبکہ مہ پارہ کی فیملی بھی دل سے خوش تھی دونوں گھروں کی پہلی خوشی تھی سب پرجوش تھے ماہم اور زوئ نے تو اگلے دن سے چھٹیاں لے لیں تھیں اور ماہم اور میثم کو تو زوئ نے ادھر ھی روکا ھوا تھا مہ پارہ بھی روز صبح آجاتی تھیں اور شام کو معیز کالج سے آتے یا صارم صاحب آفس سے فری ھوکے انکو گھر لیتے ھوئے جاتے, 6 دن تھے اور ہزاروں کرنے والے کام تھے زرک نے تو معذرت کرلی تھی وہ پڑھائ کے معاملے میں کمپرمائز نہیں کرتا تھا ,
زارون اور صارم صاحب کے ذمے کیٹرنگ کا کام تھا ,معیز آجکل ڈرائیور بنا ھوا تھا خالہ اور ماما تو پھر بھی تنگ نہ کرتیں مگر زوئ اور ماہم تو بازار گھما گھما کے تھکا دیتیں وہ تنگ ھوجاتالیکن وہ دونوں سنتی کہاں تھیں , آج ماما اور خالہ نے جیولر کے پاس جانا تھا زوئ اور ماہم نے سنا تو وہ بھی ساتھ ھولیں
جیولرز شاپ کے سامنے گاڑی پارک کر کے معیز بھی ان سب کے ساتھ شاپ میں چلا گیا, زھراء بیگم نے اپنی ھونے والی بہو کے لیے سیٹ دیکھنا شروع کیے مگر انکو کچھ پسند ھی نہیں آرھا تھا آخر بڑی مشکلوں سے انکو ایک سیٹ پسند آیا وہ اپنے زرک کی دلہن کے لیے سب کچھ بہترین لینا چاھتی تھیں ,وہ تو اسکو ساتھ لانا چاھتی تھیں مگر وہ بہت شرماتی تھی اسلیے ساتھ نہ آئ, اب وہ زرک کی طرف سے بہو کے لیے بریسلیٹ پسند کر رھی تھیں آخر سب کے مشورے سے انھوں نے ایک نازک سا بریسلیٹ خریدا جس میں دونوں سائیڈ پر چھوٹے چھوٹے دل لٹکے ھوئے تھے اور بیچ میں تھوڑا سا گیپ تھا انھوں نے اس گیپ میں zz ڈلوا لیا تھا, انھوں نے اپنا کام مکمل کرلیا تھا.
جاری ہے
Leave a Reply