رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 5
ھال میں وائٹ اور آسمانی پھولوں سے سجاوٹ کی گئ تھی اور مہمانوں کے لیے موجود چئیرز پر بھی وائٹ کور اور بلو ربن سے بنے بو لگے ھوئے تھے, تھوڑی دیر بعد نکاح کی رسم شروع کی گئ مولوی صاحب نے دو آدمیوں کے ھمراہ لڑکی سے ایجاب وقبول کروائے
زینیہ فاطمہ آپکو زرک زارون ولد زارون علی بعوض حق مہر 1 لاکھ روپے نکاح میں قبول ھیں
اسکا دل تیز تیز دھڑک رھا تھا اسکی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آرھی تھی وہ کسی کی ھونے جارھی تھی اسکا حقدار بدل رہا تھا اسکے دل کی حالت عجیب تھی, پاپا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے لگا وہ گھنی چھاوں میں آگئ ھے اسے حوصلہ ھوا تھا
اسنے آہستہ آواز میں تین بار جی کہا تھا
پھر زرک کی باری تھی
زرک زارون آپکو زینیہ فاطمہ ولد حسن احمد بعوض ا لاکھ حق مہر نکاح میں قبول ھیں
جی قبول ھیں
قبول ھیں قبول ھیں
اور ساتھ ھی زرک نے سگنیچر کیے تھے ,
مبارک سلامت کا شور ا ٹھا سب ایکدوسرے کو مل رھے تھے زرک سب سے پہلے اپنے پاپا کو ملا پھر حسن صاحب,صارم صاحب ,اور دیگر مردوں کو ملا اور پھر وہ حسن صاحب سے ملکر لیڈیز ہال کی طرف بڑھ گیا معیز بھی اسکے ساتھ تھا جبکہ میثم ماہم وغیرہ کے ساتھ تھا ,وہاں پہنچ کر ماما ,سامعہ آنٹی ,خالہ ,ماہم ,میثم اور دیگر خواتین کو ملا مگر زوئ نہیں تھی اسنے سوچا ماما سے پوچھوں مگر سامعہ آنٹی اسکو سٹیج پر بٹھانے لے گئیں وہ بیٹھا تو آنٹی دروازے کی جانب بڑھ گئیں ابھی وہ زوئ کو ھی ڈھونڈ رھا تھا کہ اسے زوئ نظر آئ وہ دروازے سے اینٹر ھو رھئ تھی اور زوئ سے ھوتی ھوئ اسکی نظر پیچھے آنٹی انکل کا بازو پکڑے سہج سہج چلتی زینیہ پر پڑی , اسنے آسمانی شرارہ اور آسمانی شارٹ فراک پہن رکھی تھی جس پر سلور کام بہت پیارا لگ رھا تھا , آسمانی دوپٹے میں ہائ ھیل پہنے وہ چلتی آرہی تھی, زوئ تیزی سے سٹیج پر آئ اور بھائ کے گلے لگ گئ اور بولی
زرک! بہت بہت مبارک ھو بھابی بہت پیاری ہیں میری دعا ھے کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رھو. لو یو مائ ہیرو
اسنے ہنستے ھوئے زوئ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا
آمیںن تھینکس اینڈ لو یو ٹو مائ ڈول
زینیہ سٹیج کے اوپر چڑھنے ھی والی تھی کہ زرک آگے بڑھا اسنے ھاتھ بڑھایا اور زینیہ کو سہارا دیا وہ اپنی ذمہ داری نبھانا جانتا تھا,وہ اوپر آگئ تو دونوں صوفے پر بیٹھ گئے ,زرک نےجب ہاتھ بڑھایا تھا تو اسکی نظر پڑی وہ آسمانی حور لگ رھی تھی اب وہ سوچ رھا تھا کہ کیا کوئ آسمانی رنگ میں اتنا خوبصورت بھی لگ سکتا ھے, آسمانی کلر اسکا فیورٹ تھا شاید اسلیے ماما لوگوں نے ان دونوں کے ڈریسز میں یہ کلر رکھا تھا, تحفے تحائف کا سلسلہ شروع ھوا زھراء بیگم نے سیٹ دیا ,مہ پارہ بیگم نے دونوں کو انگھوٹھی پہنائ,ماہم اور میثم دونوں کے لیے پین لائے تھے زوئ نے دونوں کو ریسٹ واچز دیں معیز پھول لے کےآیا تھا سب سے آخر میں زرک نے زینیہ ماما کا دیا ھوا بریسلیٹ پہنایا تھا اسکے بعد سب لوگ جانے لگے آخر میں یہ سب خود رہ گئے تو زھراء بیگم اور زارون صاحب نے ضد لگا لی کہ صارم اور حسن صاحب کی فیملیز انکے گھر جائیں گی ,آخر سب کو ماننا ھی پڑی ……………
سب اکٹھے گھر پہنچے تو تھکن کے باوجود سب بڑے محفل جمائے بیٹھ گئے ,زرک نے تو جب سے زینیہ کو دیکھا تھا وہ اسکو قریب سے دیکھنے کے لیے بے چین ھوگیا تھا اسنے زوئ کو کہنے کا سوچا ,مگر سب بڑوں کے سامنے اسکو مشکل لگ رھا تھا ,مگر مہ پارہ بیگم نے زوئ اور ماہم کو بولا تھا کہ زینیہ کو کمرے میں لے جائیں تاکہ زینیہ چینج کر کے ایزی ھوجائے انکا یہ کہنا زرک کے لیے خوشی کا باعث تھا, زوئ نے کپڑوں کا پوچھا تو زینیہ نے بتایا کہ اسکے پاس وہ کپڑے پڑے ہیں ,جو وہ صبح پارلر جاتے پہن کے گئ تھی زوئ زینیہ کو گیسٹ روم میں لے کے جارھی تھی ابھی کہ زوئ کے موبائل کی بپ ھوئ
میسج پڑھ کے وہ مسکرا دی اسنے ماہم کے کان میں کچھ کہا تو اسنے سر ہلا دیا پھر زوئ زینیہ کو بولی
بھابی آپ جائیں اس کمرے میں, میں کھانے کے لیے کچھ لے کہ آتی ھوں , ساتھ ہی ماہم ایکدم بولی او میں تو اپنے کپڑے نیچے سے لانا ھی بھول گئ وہ بھی مڑی تھی اس سے پہلے کے زینیہ کچھ کہتی وہ دونوں اسکو کہ کے مڑ گئیں وہ مجبورا آگے بڑھی ایک کمرہ اسکے سامنے تھا اور دوسرا تھوڑا سا ہٹ کے وہ سامنے والے کمرے میں داخل ھوئ
بلیک اور ڈل گولڈ کی آرائش سے مزین کمرہ اپنے مالکوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھا ,سامنے کی دیوار پر تصویریں لگئ ھوئیں تھیں ,وہ انکو دیکھنے میں مگن ہوگئ کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئ ,زینیہ نے اپنا شغل جاری رکھا قدموں کی چاپ اسکے قریب آگئ اسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تو ماہم یا زوئ کے خیال سے وہ ایک دم مڑئ اور ساکت رہ گئ سامنے ہی زرک کھڑا تھا وہ دو قدم پیچھے ھوئ وہ نزدیک آگیا وہ دیوار سے لگی کھڑئ تھی زرک نے اسکو کلائ سے پکڑ کر قریب کیا اور آہستگی سے بولا
یو آر لکنگ پرنسز
وہ نروس تھی اسے سمجھ نہیں آرھا تھا کیا جواب دے اسکی نیچی نگاہوں کو دیکھتے ھوئے بولا
میری طرف دیکھو اور ہولے سے اسکی تھوڑی اونچی کی ,اسنے اوپر دیکھا تو زرک کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکی اور دوبارہ نظر جھکا گئ
زرک نے اسکے کان میں پڑے جھمکے کو چھیڑا جو بالی سٹائل میں تھے اور چاندی کے تھے ,زرک کیا بول رھا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی زینیہ کو لگا وہ سننا بھول گئ
بقول شاعر
میں سماعت کا ہنر بھول ھی نہ جاوں کہیں
چھو کے دیکھی ھے میرے کان کی بالی اسنے
پھر زرک نے اسکے چہرے پر پڑی لٹ کو پیچھے کیا اور اسکی نظر اچانک ہی زینیہ کے تل پر پڑی اسکے بائیں گال پر تل تھا زرک نے عرصہ پہلے کہیں پڑھا ھوا شعر پڑھا
ایک تو میں پہلے ھی دل کا مریض
اوپر سے اسکے بائیں گال کا تل
اسکے دل نے بے اختیار اسے چھونے کی خواہش کی زرک نے ہاتھ بڑھا کر انگلئ سے اسکے تل کو چھوا وہ مزید نروس ھوگئ اسکی پلکیں لرز رھی تھیں
زرک نے اسے مزید قریب کیا اتنا قریب کے اسکا کان زرک کے منہ کے پاس تھا اسنے بے اختیار آنکھیں بند کر لیں زرک مسکرا دیا اور اسکے کان میں سرگوشی کرتے ھوئے بولا
آئ لو یو مسز زینیہ زرک تم میرے لیے اللہ پاک کا تحفہ ھو
میں آج سے اپنی آخری سانس تک صرف تمہارا ھوں کیا تم اس سفر میں میرے ساتھ رھوگی
اسکے پوچھنے پر زینیہ نے سر ہلایا اور آہستہ سے بولی مجھے چھوڑیں پلیز زوسیا یا ماہم میں سے کوئ آجائے گا تو زرک ہولے سے ھنسا اور بولا انکی فکر نہ کرو مجھے انہوں نے ھی بھیجا ھے وہ تو مزید پریشان ھوگئ اگر بڑوں میں سے کوئ آجاتا تو وہ کیا سوچتا, وہ آنکھیں بند کیے ھوئےہی تھی اسکی پلکیں لرز رھئ تھیں زرک نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا اور اس سے پہلے کے وہ اسے چھوڑتا دروازہ ناک ھوازرک کی توجہ اس سے ہٹی تو وہ فورا اسکی گرفت سے نکلی اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے پھر قریب کیا اور دروازے کی طرف منہ کر کے بولا بولو
ماہم, زوئ کیا بات ھے
زوئ بولی بھائ بس آپ جاو اب بہت تنگ کرلیا میری بھابی کو وہ زوئ اور ماہم کو صرف دو منٹ کہ کے پھر زیینیہ کی طرف مڑا
زینیہ تمہارا گفٹ ادھار رھا یہ سب اتنی جلدی ھوا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں لاسکا اچھا میں چلتا ھوں پھر ملاقات ھوگی وہ اسکو اللہ حافظ کہتا اسکے گال کو تھپتھپا کر چلا گیا….
۞۞۞
جیسے ھی زرک باھر نکلا زوئ اور ماہم ہنستی ھوئ آگئیں,زینیہ رخ پھیر گئ یہ زوئ اور ماہم سے بظاہر ناراضگی کا اظہار تھا مگر اصل میں وہ اپنے دل کی اتھل پتھل سے پریشان تھی , اسنے بمشکل خود کو کمپوز کیا,مگر زوئ کی تو جان پر بن آئ تھی زینیہ اسکو ویسے بھی بہت اچھی لگتی تھی مگر زرک کے حوالے سے وہ اسکو بہت عزیز تھی, وہ اسکے جان سے پیارے بھائ کی لائف پارٹنر تھی وہ اسکو منانے میں لگ گئ اور زینیہ جان بوجھ کر اسکو ستا رھی تھی اچانک زوئ نے زینیہ کو دیکھا تو اسکی آنکھوں میں شرارت دیکھ کر اسکی چالاکی سمجھ گئ ,وہ زوئ اور ماہم کو مصنوعی ناراضگی دکھا رھی تھی, اسلیے زوئ بھی بولی ماہم جاو زرک کو بلاو وہ ہی ہماری بھابی کو منا سکتا ھے ,یہ سن کر زینیہ نے گبھراکر فورا کہا کہ میں تو مذاق کر رھی تھی ,یہ سنتے ھی ماہم نے زوئ کے ہاتھ پر تالی ماری اور بولی اوووو زوئ ہم یوں ھی ڈر رہے تھے کہ بھابئ کو برا لگا ہمارے بھائ سے ملنا مگر یہ تو بہت خوش ہیں , زیینہ نے ماہم کو آنکھیں دکھائیں ,زوئ نے مزید تنگ کرنے کے لیے زینیہ کو گدگدایا تو وہ ہنسنے لگی پھر اسکے بعد تو ان دونوں نے چھیڑ چھیڑ کر زیینہ کے ناک میں دم کردیا وہ زرک کے نام سے ہی مسکرانے لگتی تھی, اسنے ان دونوں کو دھمکایا تھا کہ وہ بھی انکی باری پر انکو ایسے ھی ستائے گی اور وہ دونوں یہ کہ کے ہنسنے لگیں کہ ابھی انکی باری بہت دور ھے,مگر مستقبل کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں ھوتا کہ کیا ھوگا,تھوڑی دیر بعد ان سب کا بلاوہ آگیا تھا انکو کھانے کے لیے بلا لیا گیا تھا, کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا,زرک کے بالکل سامنے والی چیئر پر مہ پارہ بیگم نے زیینہ کو بٹھا دیا وہ نروس ہورہی تھی , جیسے ھی زرک نے کوک اٹھانی چاہی اسی وقت زیینیہ نے بھی کوک پکڑنا چاھی زیینیہ کا ہاتھ کوک کی بوتل پر پہلے پڑا تھا اوپر زرک کس ہاتھ تھا,زرک کی آنکھوں سے اسکا نروس ھونا چھپا نہ تھا اسلیے اسنے زیینیہ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباو ڈال کر اسکو ریلکس رہنے کے لیے تسلی دی,کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر دونوں فیملیز گھر سدھاریں تھیں,سب تھکے ھوئے تھے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے زرک بھی روم میں آیا نائٹ ڈریس میں آکر بیڈ پر لیٹا تو اسے زوئ کا گفٹ یاد آیا اسنے سائیڈ ٹیبل سے گفٹ اٹھایا اور کھولا وہ رول ھوا بلیک پیپر تھا جس پر گولڈن روشنائ سے نظم پرنٹ تھی
“یہ جو ویر ہوتے ہیں نہ
محافظ ہوتے ہیں بہنوں کے
کبھی طاقت بن جاتے ہیں
تو کبھی ہاتھ تھام کے چلاتے ہیں
کبھی چھیڑ کر ہنساتے ہیں
تو کبھی تنگ کر کے رولاتے ہیں
مگر رونق اسی سے ھے
ہر شے سے جان انہی میں ھے
یہی شان ھوتے ہیں بہنوں کی
یہی جان ہوتے ہیں بہنوں کی
یہ جو ویر ہوتے ہیں نہ
“پورا جہان ھوتے ھیں بہنوں کا”……
زرک کی خوشی سے آنکھیں نم ھوگئیں تھیں اسکا مان بڑھ گیا اسکئ بہن اسکی ماں جائ جس کی دھڑکن کے ساتھ زرک کی دھڑکن جڑی تھی وہ اسکی روح کا حصہ تھی وہ دونوں ایکدوسرے سے بہت پیار کرتے تھے ان دونوں بہن بھائ کی جان بستی تھی ایکدوسرے میں مگر زوئ کے اس اظہار نے اسکی روح تک شانت کردی تھی,اسنے بے اختیار اس تحفے کو دل سے لگایا تھا اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ یہ فریم کروا کے اپنے روم میں لگوائے گا اور اب وہ اسکے لگانے کے لیے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھا , اور پھر اسکو وہ جگہ مل گئ تھئ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے عین اوپر والی جگہ اس نظم کو لگانے کے لیے بہت مناسب تھی, ………………
زھراء بیگم تو بے انتہا خوش تھیں, بیٹے کے ساتھ ساتھ بہو سے بھی انکو پیار تھا انکے ہاتھ میں ھوتا تو وہ اب تک رخصتی بھی کرا کے بہو گھر لے آتیں,,,, تو آنا جانا لگا ھی رھنا تھا ,دوستی رشتہ داری میں بدل گئ تھئ سب بے انتہا خوش تھے, زرک پھر سے پڑھائ میں لگ گیا تھا,لیکن زوئ نے سب کزنز کے ساتھ مل کر زرک سے ٹریٹ مانگی تھی…
۞۞۞۞
نکاح سے اگلے ویک اینڈ ان سب نے جانا تھا زوئ نے ماما کو کہا تھا کہ آنٹی سے پوچھ لیں زینیہ کو بھی ساتھ لے کے جانا ھے ,زھراء بیگم نے سامعہ بیگم کو فون کیا تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی, اگلے دن شام میں زرک اور زوئ نے ماہم لوگوں کو پک کیا اور پھر زینیہ کو پک کر کے وہ لوگ پہلے مووی دیکھنے گئے وہاں سے سب ریسٹورنٹ گئے تھے کھانا کھانے کے دوران سب نے زینیہ اور زرک کو بہت تنگ کیا تھا زرک تو مسکراتا رھا مگر زینیہ نروس تھی , کھانے کے بعد ماہم اور زوئ نے شاپنگ کا شور مچایا تھا اور سب قریبی مال چلے گئے, زوئ اور ماہم میثم کے ساتھ بہانے سے الگ ھو گئیں اور معیز جینٹس سائیڈ پر چلا گیا ان سب کا مقصد زرک اور زینیہ کو تھوڑی دیر کے لیے پرائیوسی دینا تھا ,زینیہ گھبرا رہی تھی انکے جانے کے بعد زرک نے اسکو ریلکس ھونے کے لیے کہا, اور اسکو شاپنگ کروانے لگا اسکے نہ نہ کرنے کے باوجودزرک نے اسکے لیے کافی کچھ لے کیا تھا ان دونوں نے مشورے سے ماہم اور زوئ کے لیے بھی سوٹ لیے تھے میثم کے لیے بہت پیاری سی شرٹ لی تھی, پھر زرک مال میں موجود گولڈ شاپ پر اسکو لے گیا اور اسنے زینیہ کو نکاح کے گفٹ کے طور پر ڈائمنڈ نوز پن لے کے دیا تھا زینیہ بہت خوش تھی زرک کافی کیرنگ ثابت ھو رہا تھا اسکے لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز اسنے بہت دیکھ کر اور بہت خیال سے لی تھی ,اتنے میں زوئ لوگ بھی آگئے تھے وہ سب گھر کے لیے چل پڑے تھے معیز لوگوں کو ڈراپ کر کے زرک نے گاڑی آگے بڑھائ, زوئ آگے بیٹھی تھی جبکہ زینیہ پیچھے بیٹھی تھی زرک کو شرارت سوجھی اسنے شیشہ زینیہ پر سیٹ کیا اور ہاتھ بڑھا کر ٹیپ ریکاڈر چلا دیا ,
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
گانے کے بول گاڑی میں بج رہے تھے زینیہ نے سر اٹھایا زرک شیشے میں دیکھ رہا تھا نظریں ملیں زرک نے زوئ سے آنکھ بچا کر اسے آنکھ ماری تھی وہ بلش کر گئ زرک کے نام سے اترنے والے رنگوں نے اسکے چہرے کو قوس قزح بنا دیا تھا زرک کے لیے دل سمبھالنا مشکل ھو گیا تھا
Ae haal mera
Ki haal ae tera?
Tu das de mainu mera bina…
Beh ja tu aake mere saamne
Akhiyan ne mangi hai duaa
Ho.. Tu je nahi hai mere kol taan
Har lamha lagda hai sazaa
زرک کو لگا گانے والا اسکے دل کی کیفیت بتا رہا ھے ,
Tennu hi paavaan
Kuch hor na chaavwaan
Sonh teri mennu tere siva…
زرک مسلسل شیشے میں دیکھ رہا تھا زینیہ نے آنکھیں دکھائیں تو وہ قہقہ لگا کہ ہنسا ,زوئ نے ناسمجھی سے زرک کو دیکھا تھا زینیہ نظر جھکا گئ سنگر ریپیٹ کر رھا تھا
Soneyie dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
زرک کو بہت اچھا لگ رہا تھا وہ چاھتا تھا یہ سفر ختم نہ ھو, مگر زینیہ کا گھر آگیا تھا زوئ اور زرک اسکو ڈراپ کر کے گھر پہنچے تھے تو زوئ تو سونے چلی گئ جبکہ زرک ماما کے پاس بیٹھ گیا پاپا کی آج نائٹ ڈیوٹئ تھی وہ ماما کو کمپنی دینے بیٹھا باتیں کر تے کرتے ماما نے اس سے ایکدم سوال کیا ,
زرک ! تم خوش ہو ہمارے کیے گئے فیصلے سے زینیہ کیسی لگئ تمہیں ?
زرک کو لگا اپنے دل کی کیفیت ماما سے شئیر کرنی چاھیے اسلیے وہ بولا
ماما میں نے یہ رشتہ آپ لوگوں کی خوشی کے لیے کیا تھا ورنہ فلحال میں اس بارے میں کچھ نہیں سوچنا چاھتا تھا مگر اب تو مجھے لگتا ھے زینیہ سے اچھی لڑکی شاید مجھے کہیں نہ ملتی وہ بہت انوسینٹ ھے ماما اور میں اسکے بناء اپنی لائف گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا انفیکٹ مجھے لگتا ھے
i m in love with her i don’t know how is it possible in a little time bt it happens mama
وہ بولا تو ماما کو سب بتاتا گیا شائد وہ خود کو بھی یقین دلا رہا تھا کہ ایسا ھو گیا ھے,
ماما ہنسنے لگیں پھر بولیں
زرک میری جان نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ھوتی ھے یہ انسان کو اسکے شریک سفر کی محبت میں مبتلا کر دیتے ہیں انکی ادائیگی کے ساتھ ہی انسان محبت بھرا بندھن باندھ لیتا ھے, جب انسان اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ھے تو اسکے دل میں اسکے لیے نرم گوشہ قدرت خود پیدا کر دیتی ہے,زرک زینیہ بہت پیاری بچی ھے اسکو کبھی رونے نہیں دینا,
وہ ماما کی بات سمجھ گیا تھا اور اسنے ماما سے وعدہ کیا تھا کہ وہ زینیہ کو رونے نہیں دےگا ,
پھر وہ ماما سے اجازت لے کر سونے چلا گیا……
صارم صاحب گھر آئے تو کافی پریشان تھے عارب مسلسل انکو تنگ کر رھا تھا جائیداد میں حصے کے لیے حالانکہ وہ اسکا حصہ دے چکے تھے مگر وہ انکاری تھا اور آج تو وہ دھمکیوں پر اتر آیا تھا , مہ پارہ بیگم کے پوچھنے پر انہوں نے انکو ٹال دیا وہ نہیں چاھتے تھے کہ وہ پریشان ھوں سوچ سوچ کر انکا دماغ ماوف ہوگیا تھا مگر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے..
جاری ہے
زینیہ فاطمہ آپکو زرک زارون ولد زارون علی بعوض حق مہر 1 لاکھ روپے نکاح میں قبول ھیں
اسکا دل تیز تیز دھڑک رھا تھا اسکی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آرھی تھی وہ کسی کی ھونے جارھی تھی اسکا حقدار بدل رہا تھا اسکے دل کی حالت عجیب تھی, پاپا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے لگا وہ گھنی چھاوں میں آگئ ھے اسے حوصلہ ھوا تھا
اسنے آہستہ آواز میں تین بار جی کہا تھا
پھر زرک کی باری تھی
زرک زارون آپکو زینیہ فاطمہ ولد حسن احمد بعوض ا لاکھ حق مہر نکاح میں قبول ھیں
جی قبول ھیں
قبول ھیں قبول ھیں
اور ساتھ ھی زرک نے سگنیچر کیے تھے ,
مبارک سلامت کا شور ا ٹھا سب ایکدوسرے کو مل رھے تھے زرک سب سے پہلے اپنے پاپا کو ملا پھر حسن صاحب,صارم صاحب ,اور دیگر مردوں کو ملا اور پھر وہ حسن صاحب سے ملکر لیڈیز ہال کی طرف بڑھ گیا معیز بھی اسکے ساتھ تھا جبکہ میثم ماہم وغیرہ کے ساتھ تھا ,وہاں پہنچ کر ماما ,سامعہ آنٹی ,خالہ ,ماہم ,میثم اور دیگر خواتین کو ملا مگر زوئ نہیں تھی اسنے سوچا ماما سے پوچھوں مگر سامعہ آنٹی اسکو سٹیج پر بٹھانے لے گئیں وہ بیٹھا تو آنٹی دروازے کی جانب بڑھ گئیں ابھی وہ زوئ کو ھی ڈھونڈ رھا تھا کہ اسے زوئ نظر آئ وہ دروازے سے اینٹر ھو رھئ تھی اور زوئ سے ھوتی ھوئ اسکی نظر پیچھے آنٹی انکل کا بازو پکڑے سہج سہج چلتی زینیہ پر پڑی , اسنے آسمانی شرارہ اور آسمانی شارٹ فراک پہن رکھی تھی جس پر سلور کام بہت پیارا لگ رھا تھا , آسمانی دوپٹے میں ہائ ھیل پہنے وہ چلتی آرہی تھی, زوئ تیزی سے سٹیج پر آئ اور بھائ کے گلے لگ گئ اور بولی
زرک! بہت بہت مبارک ھو بھابی بہت پیاری ہیں میری دعا ھے کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رھو. لو یو مائ ہیرو
اسنے ہنستے ھوئے زوئ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا
آمیںن تھینکس اینڈ لو یو ٹو مائ ڈول
زینیہ سٹیج کے اوپر چڑھنے ھی والی تھی کہ زرک آگے بڑھا اسنے ھاتھ بڑھایا اور زینیہ کو سہارا دیا وہ اپنی ذمہ داری نبھانا جانتا تھا,وہ اوپر آگئ تو دونوں صوفے پر بیٹھ گئے ,زرک نےجب ہاتھ بڑھایا تھا تو اسکی نظر پڑی وہ آسمانی حور لگ رھی تھی اب وہ سوچ رھا تھا کہ کیا کوئ آسمانی رنگ میں اتنا خوبصورت بھی لگ سکتا ھے, آسمانی کلر اسکا فیورٹ تھا شاید اسلیے ماما لوگوں نے ان دونوں کے ڈریسز میں یہ کلر رکھا تھا, تحفے تحائف کا سلسلہ شروع ھوا زھراء بیگم نے سیٹ دیا ,مہ پارہ بیگم نے دونوں کو انگھوٹھی پہنائ,ماہم اور میثم دونوں کے لیے پین لائے تھے زوئ نے دونوں کو ریسٹ واچز دیں معیز پھول لے کےآیا تھا سب سے آخر میں زرک نے زینیہ ماما کا دیا ھوا بریسلیٹ پہنایا تھا اسکے بعد سب لوگ جانے لگے آخر میں یہ سب خود رہ گئے تو زھراء بیگم اور زارون صاحب نے ضد لگا لی کہ صارم اور حسن صاحب کی فیملیز انکے گھر جائیں گی ,آخر سب کو ماننا ھی پڑی ……………
سب اکٹھے گھر پہنچے تو تھکن کے باوجود سب بڑے محفل جمائے بیٹھ گئے ,زرک نے تو جب سے زینیہ کو دیکھا تھا وہ اسکو قریب سے دیکھنے کے لیے بے چین ھوگیا تھا اسنے زوئ کو کہنے کا سوچا ,مگر سب بڑوں کے سامنے اسکو مشکل لگ رھا تھا ,مگر مہ پارہ بیگم نے زوئ اور ماہم کو بولا تھا کہ زینیہ کو کمرے میں لے جائیں تاکہ زینیہ چینج کر کے ایزی ھوجائے انکا یہ کہنا زرک کے لیے خوشی کا باعث تھا, زوئ نے کپڑوں کا پوچھا تو زینیہ نے بتایا کہ اسکے پاس وہ کپڑے پڑے ہیں ,جو وہ صبح پارلر جاتے پہن کے گئ تھی زوئ زینیہ کو گیسٹ روم میں لے کے جارھی تھی ابھی کہ زوئ کے موبائل کی بپ ھوئ
میسج پڑھ کے وہ مسکرا دی اسنے ماہم کے کان میں کچھ کہا تو اسنے سر ہلا دیا پھر زوئ زینیہ کو بولی
بھابی آپ جائیں اس کمرے میں, میں کھانے کے لیے کچھ لے کہ آتی ھوں , ساتھ ہی ماہم ایکدم بولی او میں تو اپنے کپڑے نیچے سے لانا ھی بھول گئ وہ بھی مڑی تھی اس سے پہلے کے زینیہ کچھ کہتی وہ دونوں اسکو کہ کے مڑ گئیں وہ مجبورا آگے بڑھی ایک کمرہ اسکے سامنے تھا اور دوسرا تھوڑا سا ہٹ کے وہ سامنے والے کمرے میں داخل ھوئ
بلیک اور ڈل گولڈ کی آرائش سے مزین کمرہ اپنے مالکوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھا ,سامنے کی دیوار پر تصویریں لگئ ھوئیں تھیں ,وہ انکو دیکھنے میں مگن ہوگئ کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئ ,زینیہ نے اپنا شغل جاری رکھا قدموں کی چاپ اسکے قریب آگئ اسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تو ماہم یا زوئ کے خیال سے وہ ایک دم مڑئ اور ساکت رہ گئ سامنے ہی زرک کھڑا تھا وہ دو قدم پیچھے ھوئ وہ نزدیک آگیا وہ دیوار سے لگی کھڑئ تھی زرک نے اسکو کلائ سے پکڑ کر قریب کیا اور آہستگی سے بولا
یو آر لکنگ پرنسز
وہ نروس تھی اسے سمجھ نہیں آرھا تھا کیا جواب دے اسکی نیچی نگاہوں کو دیکھتے ھوئے بولا
میری طرف دیکھو اور ہولے سے اسکی تھوڑی اونچی کی ,اسنے اوپر دیکھا تو زرک کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکی اور دوبارہ نظر جھکا گئ
زرک نے اسکے کان میں پڑے جھمکے کو چھیڑا جو بالی سٹائل میں تھے اور چاندی کے تھے ,زرک کیا بول رھا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی زینیہ کو لگا وہ سننا بھول گئ
بقول شاعر
میں سماعت کا ہنر بھول ھی نہ جاوں کہیں
چھو کے دیکھی ھے میرے کان کی بالی اسنے
پھر زرک نے اسکے چہرے پر پڑی لٹ کو پیچھے کیا اور اسکی نظر اچانک ہی زینیہ کے تل پر پڑی اسکے بائیں گال پر تل تھا زرک نے عرصہ پہلے کہیں پڑھا ھوا شعر پڑھا
ایک تو میں پہلے ھی دل کا مریض
اوپر سے اسکے بائیں گال کا تل
اسکے دل نے بے اختیار اسے چھونے کی خواہش کی زرک نے ہاتھ بڑھا کر انگلئ سے اسکے تل کو چھوا وہ مزید نروس ھوگئ اسکی پلکیں لرز رھی تھیں
زرک نے اسے مزید قریب کیا اتنا قریب کے اسکا کان زرک کے منہ کے پاس تھا اسنے بے اختیار آنکھیں بند کر لیں زرک مسکرا دیا اور اسکے کان میں سرگوشی کرتے ھوئے بولا
آئ لو یو مسز زینیہ زرک تم میرے لیے اللہ پاک کا تحفہ ھو
میں آج سے اپنی آخری سانس تک صرف تمہارا ھوں کیا تم اس سفر میں میرے ساتھ رھوگی
اسکے پوچھنے پر زینیہ نے سر ہلایا اور آہستہ سے بولی مجھے چھوڑیں پلیز زوسیا یا ماہم میں سے کوئ آجائے گا تو زرک ہولے سے ھنسا اور بولا انکی فکر نہ کرو مجھے انہوں نے ھی بھیجا ھے وہ تو مزید پریشان ھوگئ اگر بڑوں میں سے کوئ آجاتا تو وہ کیا سوچتا, وہ آنکھیں بند کیے ھوئےہی تھی اسکی پلکیں لرز رھئ تھیں زرک نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا اور اس سے پہلے کے وہ اسے چھوڑتا دروازہ ناک ھوازرک کی توجہ اس سے ہٹی تو وہ فورا اسکی گرفت سے نکلی اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے پھر قریب کیا اور دروازے کی طرف منہ کر کے بولا بولو
ماہم, زوئ کیا بات ھے
زوئ بولی بھائ بس آپ جاو اب بہت تنگ کرلیا میری بھابی کو وہ زوئ اور ماہم کو صرف دو منٹ کہ کے پھر زیینیہ کی طرف مڑا
زینیہ تمہارا گفٹ ادھار رھا یہ سب اتنی جلدی ھوا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں لاسکا اچھا میں چلتا ھوں پھر ملاقات ھوگی وہ اسکو اللہ حافظ کہتا اسکے گال کو تھپتھپا کر چلا گیا….
۞۞۞
جیسے ھی زرک باھر نکلا زوئ اور ماہم ہنستی ھوئ آگئیں,زینیہ رخ پھیر گئ یہ زوئ اور ماہم سے بظاہر ناراضگی کا اظہار تھا مگر اصل میں وہ اپنے دل کی اتھل پتھل سے پریشان تھی , اسنے بمشکل خود کو کمپوز کیا,مگر زوئ کی تو جان پر بن آئ تھی زینیہ اسکو ویسے بھی بہت اچھی لگتی تھی مگر زرک کے حوالے سے وہ اسکو بہت عزیز تھی, وہ اسکے جان سے پیارے بھائ کی لائف پارٹنر تھی وہ اسکو منانے میں لگ گئ اور زینیہ جان بوجھ کر اسکو ستا رھی تھی اچانک زوئ نے زینیہ کو دیکھا تو اسکی آنکھوں میں شرارت دیکھ کر اسکی چالاکی سمجھ گئ ,وہ زوئ اور ماہم کو مصنوعی ناراضگی دکھا رھی تھی, اسلیے زوئ بھی بولی ماہم جاو زرک کو بلاو وہ ہی ہماری بھابی کو منا سکتا ھے ,یہ سن کر زینیہ نے گبھراکر فورا کہا کہ میں تو مذاق کر رھی تھی ,یہ سنتے ھی ماہم نے زوئ کے ہاتھ پر تالی ماری اور بولی اوووو زوئ ہم یوں ھی ڈر رہے تھے کہ بھابئ کو برا لگا ہمارے بھائ سے ملنا مگر یہ تو بہت خوش ہیں , زیینہ نے ماہم کو آنکھیں دکھائیں ,زوئ نے مزید تنگ کرنے کے لیے زینیہ کو گدگدایا تو وہ ہنسنے لگی پھر اسکے بعد تو ان دونوں نے چھیڑ چھیڑ کر زیینہ کے ناک میں دم کردیا وہ زرک کے نام سے ہی مسکرانے لگتی تھی, اسنے ان دونوں کو دھمکایا تھا کہ وہ بھی انکی باری پر انکو ایسے ھی ستائے گی اور وہ دونوں یہ کہ کے ہنسنے لگیں کہ ابھی انکی باری بہت دور ھے,مگر مستقبل کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں ھوتا کہ کیا ھوگا,تھوڑی دیر بعد ان سب کا بلاوہ آگیا تھا انکو کھانے کے لیے بلا لیا گیا تھا, کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا,زرک کے بالکل سامنے والی چیئر پر مہ پارہ بیگم نے زیینہ کو بٹھا دیا وہ نروس ہورہی تھی , جیسے ھی زرک نے کوک اٹھانی چاہی اسی وقت زیینیہ نے بھی کوک پکڑنا چاھی زیینیہ کا ہاتھ کوک کی بوتل پر پہلے پڑا تھا اوپر زرک کس ہاتھ تھا,زرک کی آنکھوں سے اسکا نروس ھونا چھپا نہ تھا اسلیے اسنے زیینیہ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباو ڈال کر اسکو ریلکس رہنے کے لیے تسلی دی,کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر دونوں فیملیز گھر سدھاریں تھیں,سب تھکے ھوئے تھے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے زرک بھی روم میں آیا نائٹ ڈریس میں آکر بیڈ پر لیٹا تو اسے زوئ کا گفٹ یاد آیا اسنے سائیڈ ٹیبل سے گفٹ اٹھایا اور کھولا وہ رول ھوا بلیک پیپر تھا جس پر گولڈن روشنائ سے نظم پرنٹ تھی
“یہ جو ویر ہوتے ہیں نہ
محافظ ہوتے ہیں بہنوں کے
کبھی طاقت بن جاتے ہیں
تو کبھی ہاتھ تھام کے چلاتے ہیں
کبھی چھیڑ کر ہنساتے ہیں
تو کبھی تنگ کر کے رولاتے ہیں
مگر رونق اسی سے ھے
ہر شے سے جان انہی میں ھے
یہی شان ھوتے ہیں بہنوں کی
یہی جان ہوتے ہیں بہنوں کی
یہ جو ویر ہوتے ہیں نہ
“پورا جہان ھوتے ھیں بہنوں کا”……
زرک کی خوشی سے آنکھیں نم ھوگئیں تھیں اسکا مان بڑھ گیا اسکئ بہن اسکی ماں جائ جس کی دھڑکن کے ساتھ زرک کی دھڑکن جڑی تھی وہ اسکی روح کا حصہ تھی وہ دونوں ایکدوسرے سے بہت پیار کرتے تھے ان دونوں بہن بھائ کی جان بستی تھی ایکدوسرے میں مگر زوئ کے اس اظہار نے اسکی روح تک شانت کردی تھی,اسنے بے اختیار اس تحفے کو دل سے لگایا تھا اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ یہ فریم کروا کے اپنے روم میں لگوائے گا اور اب وہ اسکے لگانے کے لیے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھا , اور پھر اسکو وہ جگہ مل گئ تھئ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے عین اوپر والی جگہ اس نظم کو لگانے کے لیے بہت مناسب تھی, ………………
زھراء بیگم تو بے انتہا خوش تھیں, بیٹے کے ساتھ ساتھ بہو سے بھی انکو پیار تھا انکے ہاتھ میں ھوتا تو وہ اب تک رخصتی بھی کرا کے بہو گھر لے آتیں,,,, تو آنا جانا لگا ھی رھنا تھا ,دوستی رشتہ داری میں بدل گئ تھئ سب بے انتہا خوش تھے, زرک پھر سے پڑھائ میں لگ گیا تھا,لیکن زوئ نے سب کزنز کے ساتھ مل کر زرک سے ٹریٹ مانگی تھی…
۞۞۞۞
نکاح سے اگلے ویک اینڈ ان سب نے جانا تھا زوئ نے ماما کو کہا تھا کہ آنٹی سے پوچھ لیں زینیہ کو بھی ساتھ لے کے جانا ھے ,زھراء بیگم نے سامعہ بیگم کو فون کیا تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی, اگلے دن شام میں زرک اور زوئ نے ماہم لوگوں کو پک کیا اور پھر زینیہ کو پک کر کے وہ لوگ پہلے مووی دیکھنے گئے وہاں سے سب ریسٹورنٹ گئے تھے کھانا کھانے کے دوران سب نے زینیہ اور زرک کو بہت تنگ کیا تھا زرک تو مسکراتا رھا مگر زینیہ نروس تھی , کھانے کے بعد ماہم اور زوئ نے شاپنگ کا شور مچایا تھا اور سب قریبی مال چلے گئے, زوئ اور ماہم میثم کے ساتھ بہانے سے الگ ھو گئیں اور معیز جینٹس سائیڈ پر چلا گیا ان سب کا مقصد زرک اور زینیہ کو تھوڑی دیر کے لیے پرائیوسی دینا تھا ,زینیہ گھبرا رہی تھی انکے جانے کے بعد زرک نے اسکو ریلکس ھونے کے لیے کہا, اور اسکو شاپنگ کروانے لگا اسکے نہ نہ کرنے کے باوجودزرک نے اسکے لیے کافی کچھ لے کیا تھا ان دونوں نے مشورے سے ماہم اور زوئ کے لیے بھی سوٹ لیے تھے میثم کے لیے بہت پیاری سی شرٹ لی تھی, پھر زرک مال میں موجود گولڈ شاپ پر اسکو لے گیا اور اسنے زینیہ کو نکاح کے گفٹ کے طور پر ڈائمنڈ نوز پن لے کے دیا تھا زینیہ بہت خوش تھی زرک کافی کیرنگ ثابت ھو رہا تھا اسکے لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز اسنے بہت دیکھ کر اور بہت خیال سے لی تھی ,اتنے میں زوئ لوگ بھی آگئے تھے وہ سب گھر کے لیے چل پڑے تھے معیز لوگوں کو ڈراپ کر کے زرک نے گاڑی آگے بڑھائ, زوئ آگے بیٹھی تھی جبکہ زینیہ پیچھے بیٹھی تھی زرک کو شرارت سوجھی اسنے شیشہ زینیہ پر سیٹ کیا اور ہاتھ بڑھا کر ٹیپ ریکاڈر چلا دیا ,
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
گانے کے بول گاڑی میں بج رہے تھے زینیہ نے سر اٹھایا زرک شیشے میں دیکھ رہا تھا نظریں ملیں زرک نے زوئ سے آنکھ بچا کر اسے آنکھ ماری تھی وہ بلش کر گئ زرک کے نام سے اترنے والے رنگوں نے اسکے چہرے کو قوس قزح بنا دیا تھا زرک کے لیے دل سمبھالنا مشکل ھو گیا تھا
Ae haal mera
Ki haal ae tera?
Tu das de mainu mera bina…
Beh ja tu aake mere saamne
Akhiyan ne mangi hai duaa
Ho.. Tu je nahi hai mere kol taan
Har lamha lagda hai sazaa
زرک کو لگا گانے والا اسکے دل کی کیفیت بتا رہا ھے ,
Tennu hi paavaan
Kuch hor na chaavwaan
Sonh teri mennu tere siva…
زرک مسلسل شیشے میں دیکھ رہا تھا زینیہ نے آنکھیں دکھائیں تو وہ قہقہ لگا کہ ہنسا ,زوئ نے ناسمجھی سے زرک کو دیکھا تھا زینیہ نظر جھکا گئ سنگر ریپیٹ کر رھا تھا
Soneyie dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
Soniye dil nayi lagda, tere bina…
Dil nahi lagda, tere bina
زرک کو بہت اچھا لگ رہا تھا وہ چاھتا تھا یہ سفر ختم نہ ھو, مگر زینیہ کا گھر آگیا تھا زوئ اور زرک اسکو ڈراپ کر کے گھر پہنچے تھے تو زوئ تو سونے چلی گئ جبکہ زرک ماما کے پاس بیٹھ گیا پاپا کی آج نائٹ ڈیوٹئ تھی وہ ماما کو کمپنی دینے بیٹھا باتیں کر تے کرتے ماما نے اس سے ایکدم سوال کیا ,
زرک ! تم خوش ہو ہمارے کیے گئے فیصلے سے زینیہ کیسی لگئ تمہیں ?
زرک کو لگا اپنے دل کی کیفیت ماما سے شئیر کرنی چاھیے اسلیے وہ بولا
ماما میں نے یہ رشتہ آپ لوگوں کی خوشی کے لیے کیا تھا ورنہ فلحال میں اس بارے میں کچھ نہیں سوچنا چاھتا تھا مگر اب تو مجھے لگتا ھے زینیہ سے اچھی لڑکی شاید مجھے کہیں نہ ملتی وہ بہت انوسینٹ ھے ماما اور میں اسکے بناء اپنی لائف گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا انفیکٹ مجھے لگتا ھے
i m in love with her i don’t know how is it possible in a little time bt it happens mama
وہ بولا تو ماما کو سب بتاتا گیا شائد وہ خود کو بھی یقین دلا رہا تھا کہ ایسا ھو گیا ھے,
ماما ہنسنے لگیں پھر بولیں
زرک میری جان نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ھوتی ھے یہ انسان کو اسکے شریک سفر کی محبت میں مبتلا کر دیتے ہیں انکی ادائیگی کے ساتھ ہی انسان محبت بھرا بندھن باندھ لیتا ھے, جب انسان اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ھے تو اسکے دل میں اسکے لیے نرم گوشہ قدرت خود پیدا کر دیتی ہے,زرک زینیہ بہت پیاری بچی ھے اسکو کبھی رونے نہیں دینا,
وہ ماما کی بات سمجھ گیا تھا اور اسنے ماما سے وعدہ کیا تھا کہ وہ زینیہ کو رونے نہیں دےگا ,
پھر وہ ماما سے اجازت لے کر سونے چلا گیا……
صارم صاحب گھر آئے تو کافی پریشان تھے عارب مسلسل انکو تنگ کر رھا تھا جائیداد میں حصے کے لیے حالانکہ وہ اسکا حصہ دے چکے تھے مگر وہ انکاری تھا اور آج تو وہ دھمکیوں پر اتر آیا تھا , مہ پارہ بیگم کے پوچھنے پر انہوں نے انکو ٹال دیا وہ نہیں چاھتے تھے کہ وہ پریشان ھوں سوچ سوچ کر انکا دماغ ماوف ہوگیا تھا مگر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے..
جاری ہے
Leave a Reply