رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 6
دن پر لگا کر اڑ رہے تھے زینیہ زرک اور زوئ کے ساتھ کبھی کبھی بڑوں کی اجازت سے گھومنے چلی جاتی تھی ایگزامز قریب آئے تو گھومنا پھرنا سب ترک کر کے وہ پڑھائ میں جت گئ تھی ,زرک کا کافی دن سے موڈ تھا زینیہ سے ملنے اسکو دیکھنے کا مگر اسکے ایگزام تھے اور گھر وہ جانا نہیں چاھتا تھا آنٹی انکل کیا سوچتے , اسنے زوئ سے زینیہ کا سیل نمبر لینے کا سوچا , وہ زوئ کے کمرے میں گیا تو وہ سونگ لگا کے اپنی cupboard سیٹ کر رھی تھی…
زرک نے زینیہ کا نمبر مانگا ,تو زوئ نے پہلے تو اسے خوب تنگ کیا پھر اسنے زرک سے کافی بنانے کا کہا تھا زرک چائے کا رسیا تھا جبکہ زوئ کافی کی بہت شوقین تھی لیکن زوئ کو اپنے ہاتھ کی نہیں زرک کی بنائ کافی میٹھی لگتی تھی زرک کا کوئ موڈ نہ تھا لیکن اسکو کافی تو بنانی تھی زینیہ کا نمبر بھی تو لینا تھا وہ جاکہ کافی بنا کے لے آیا اور کافی پینے کے بعد زوئ نے کہ دیا کہ اسکے پاس تو صرف زینیہ کا لینڈ لائن نمبر ھے سیل نمبر کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑئ وہ مزید اداس ہوگیا اور بناء کافی پیے زوئ کو یہ کہ کے اٹھ گیا کہ اسکو ٹیسٹ کی تیاری کرنی ھے , کمرے میں جاکر اسنے سیل بیڈ پر پھینکا اور بک کھول لی وہ اپنا دھیان بٹانا چاھتا تھا مگر زہھن پر زینیہ سوار تھی اسنے موبائل اٹھایا وہ معیز کو کال کرنے لگا تھا وہ معیز کے ساتھ باہر جانے کا سوچ رہا تھا, اسنے موبائل ان لاک کیا تو سامنے زینیہ زرک کا نام جگمگا رہا تھا زوئ نے اسکو کافی بنانے بھیج کر خود چپکے سے اسکے موبائل میں زینیہ کا نمبر سیو کر دیا تھا اور اسکو تنگ کرنے کے لیے کہا تھا کہ اسکے پاس نمبر نہیں ھے, وہ مسکرا رھا تھا جیسے کوئ بہت بڑی خوشی ہاتھ آگئ ھو اسے زوئ پر بے اختیار پیار آیا تھا….
۞۞۞۞
: زرک نے سوچا تھا کہ وہ رات کو فری ہوکر زینیہ سے بات کرئے گا اسلیے رات کا کھانا کھا کر وہ روم میں جلدی آگیا تھا اور اسنے بیڈ پر بیٹھ کر بیڈ کراون سے ٹیک لگائ اور موبائل اٹھایا اسنے کال کا سوچا تھا لیکن پھر اسکو شرارت سوجھی اسنے میسج ٹائپ کیا اور زینیہ کے نمبر پر بھیج دیا…..
زینیہ کو ماما ابھی دودھ کا گلاس دے کے گیئں تھیں اور وہ گھونٹ گھونٹ کر کے وہ پی رہی تھی بکس کا ڈھیر ارد گرد بکھرا ہوا تھا ,موبائل کی سکرین روشن ہوئ unknown نمبر سے میسج تھا اسنے موبائل اٹھا کر میسج کھولا
تمنا پھر مچل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
یہ موسم بھی بدل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
یہ دنیا بھر کے جھگڑے،گھر کے قصے،کام کی باتیں
بلا ہر ایک ٹل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
نظم کا ایک ایک لفظ بھیجنے والے کی شدتوں کو ظاہر کر رہا تھا مگر اسکو کون ایسا میسج بھیج سکتا ہے وہ حیران تھی اسنے ابھی کوئ جواب نہیں دیا کہ ایک بار پھر میسج نمودار ہوا
نہیں ملتے ہو مجھ سے تم تو سب ہمدرد ہیں میرے
زمانہ مجھ سے جل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
اسکو فکر ہوئ آخر کون تھا جو شاعری بھیج رہا تھا اسنے آگے سے لکھا
آپ کون?
زرک نے میسج پڑھا اور جواب میں لکھا
اک تم ھو کے سمجھتی ھی نہیں ھم کو
اک ھم ھیں کے تمہارے ھیں تمہیں کیا معلوم
زینیہ کو تو غصہ آگیا اسنے جوابا لکھا
کیا مسئلہ ھے آپکو?ساتھ ایک 😡ایمو جی بھی تھا
زرک میسج پڑھ کر ہنس دیا اور آگے سے لکھا
میری دھڑکن میں آپ حائل ہیں۔ ۔ ۔
میرے دل کے بڑے مسائل ہیں۔ ❤❤❤
زینیہ مزید تپ گئ اسنے جواب میں 😡👿🤛🏻ایمو جی بھیجے اور میسج نہ کرنے کا کہا تھا
زرک نے ہنستے ہوئے میسج ٹائپ کیا اسنے اسکو مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا
سکرین ایک بار پھر روشن ہوئ زینیہ نے میسج پڑھ کر بے اختیار زبان دانتوں تلے دبا لی میسج میں لکھا تھا
مسز میں آپکا اکلوتا معصوم ہبی (hubby) جسکو پڑھائ میں بزی ہوکر آپ بھول چکی ھیں
وہ واقعی پڑھائ میں ایسی مگن تھی کہ زرک کی طرف دھیان نہیں گیا تھا ,
اسنے اپنی غلطی مانتے ہوئے جوابا لکھا اسلام علیکم کیسے ہیں آپ اور گھر سب کیسے ? سوری میں واقعی سٹڈی میں بہت بزی تھی تو دھیان نہیں رہا اور آپکا نمبر بھی سیو نہیں تھا ,
زرک نے میسج کے جواب میں لکھا
سب ٹھیک ہیں سوائے میرے آپ سنائیں آنٹی انکل کیسے ہیں
ماما پاپا ٹھیک ھیں آپکو کیا ہوا آپنے کوے میڈی لی ڈاکٹر کو دکھایا آپ نے وہ فکرمند ہوگئ
میسج پڑھ کر زرک کو اسکی معصومیت پر پیار آیا اسنے آگے سےلکھا
ہماری نبضیں۔۔!!
تمہارے دم سے،
جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا۔۔!
کہ لکھنے والے نے،
لکھ دیا ہے۔۔!
مریض ہم ہیں،
طبیب تم ہو ♥
میرا علاج اب صرف تمہارے پاس ھے مسز زینیہ زرک 😉زرک نے ایمو جی کے ساتھ میسج بھیجا
زینیہ کو میسج پڑھ کر خوشی کے ساتھ شرم بھی آگئ اسے نکاح کے دن زرک سے ملاقات یاد آگئ اسنے شرماتے ہوئے لکھا
زرک مجھےتنگ نہ کریں مجھے پڑھنے دیں ساتھ🙈ایمو جی بھیجا
زرک میسج دیکھتے ہی سمجھ گیا وہ شرما گئ ہےاسنے آگے سے ٹائپ کیا
نظر اداس ہے
نظر ہی آجاو
زیین کب ملو گی میں تمہیں دیکھنا چاھتا ہوں آئ رئیلی مس یو
زینیہ نے میسج پڑھا تو اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی اسکا بھی دل چاہا زرک ابھی سامنے آجائے اسنے میسج کیا
زرک میرے ایگزام سٹارٹ ھونے والے ہیں بس ایک ھفتہ رہ گیا فلحال مشکل ہے دل تو ضد کر رھا تھا مگر دماغ سمجھا رھا تھا اسنے دل کی آواز کو دبالیا
مگر زرک نے بات ہی ایسی کی کہ اسے ماننا پڑا اسنے لکھاتھا
تمهیں معلوم نهیں….کس طرح بتائیں تمهیں…
تیرے بغیر…😰
سانس چلتی هے لیکن اداس چلتی هے….😷
اسنے زرک کی اداسی کو دیکھتے ھوئے ہامی بھر لی تھی وہ اسکے ساتھ اکیلے باہر جانا چاھتا تھا
اسکے ہامی بھرنے پر زرک نے اسکو میسج کیا کہ وہ پڑھائ کرے کل ملاقات ہوگی تو گپ شپ کریںنگے اللہ حافظ کر کے زرک تو مطمئن سا سونے کے لیے لیٹ گیا جبکہ زینیہ خوش بھی تھی لیکن اسکو فکر بھی تھی ماما اور اسکی ساسو ماں کیا سوچتیں پھر وہ اکیلے کبھی کسی مرد کے ساتھ باہر نہ نکلی تھی اسلیے اسکو عجیب لگ رھا تھا مگر اب تو ہامی بھر لی تھی..
۞۞۞۞
اگلی صبح زرک نے ماما سے بات کی انہوں نے سامعہ بیگم سے بچوں کو اجازت لے دی تھی اور شام میں زرک جب زینیہ کے گھر گیا تو وہ ریڈی تھی وہ آنٹی سے ملکر اسکو لیے باھر آگیا ,پہلے زینیہ کے لیے فرنٹ ڈور کھولا پھر.خود بیٹھا گاڑی میں بیٹھ کر اسنے میوزک لگا دیا اور اسکا ہاتھ گئیر پر رکھوا کر اپنا ہاتھ اوپر رکھ لیا آھے اسنے ہاتھ نکالنا چاھا مگر زرک نے اسکو ایسا نہ کرنے دیا اب وہ گاڑی کی طرف متوجہ تھا,اچانک گانا تبدیل ہوا تھا زینیہ گانے کے بولوں کی وجہ سے بالکل کھو گئ گلوگار گا رھا تھا
Thoda sa bhi shak na karna
Tumse mera jeena-marna
Tum chal rahe ho to saansein
Mere saath chal rahi hai
O humsafar o humnawa
Be-shart main, tera huaa
Paas aao main tumhein
Dekh loon kareeb se
Aankhon ko ye raahtein,
Milti hain naseeb se
زرک نے زینیہ کو دیکھا وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئ تھی اسنے زینیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا وہ بے خبر تھی گانے والا گا رھا تھا
Main sirf tera rahoonga,
Waada raha tujhse mera
Tu maang le muskara ke
Mera pyar haq hai tera
O humsafar o humnawa
Be-shart main, tera hua
زرک کو لگا اسکے دل کی آواز زینیہ تک گانے کے بولوں کے ذریعے پہنچ رہی ھے گاڑی میں صرف گانے کے بول دھیمے سروں میں بج رہے تھے ,
تھوڑی دیر بعد وہ ایک ریستوران کے سامنے پہنچ گئے زرک نے زینیہ کو آواز دی تو وہ جیسے ہوش میں آئ اور بولی
جی !
زینیہ اتریں ریسٹورینٹ آگیا ہے زرک بولا پھر وہ دونوں اندر چلے گئے, زینیہ کی مرضی سے آرڈر دے کر زرک اس سے دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگا وہ اسکو بتا رہا تھا کہ وہ اسکو کتنا مس کرتا ہے اور اسکے ساتھ سپینڈ کیا ٹائم وہ کتنا انجوائے کرتا ھے ,
تھوڑی ہی دیر بعد آرڈر آگیا تو وہ دونوں کھانے میں مصروف ہوگئے کھانے کے بعد بل دے کر وہ دونوں ریسٹورینٹ سے باہر نکلے تو زرک کے پوچھنے پر زینیہ پہلے تو منع کرتی رہی پھر آئسکریم کے لیے مان گئ زرک نے گاڑی میں ہی آئسکریم منگوا لی تھی اور آئسکریم کھاتے گپ شپ لگاتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا دیر ہو رہی تھی زرک نے گاڑی زینیہ کے گھر کے راستے پر ڈال دی اور تھوڑی دیر بعد وہ زینیہ کو چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا , وہ بہت خوش تھا سارا راستہ گنگناتے ہوئے وہ گھر داخل ہوا تو زوئ سامنے ہی بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اسکو دیکھ کر ایک شرارتی مسکان اچھالی وہ سمجھ گیا کہ زوئ کو ماما نے بتا دیا ھے اس سے پہلے کے وہ کوئ بہانہ لگا کر کمرے میں جاتا زوئ نے روک لیا پھر تو زوئ نے خوب اسکو تنگ کیا وہ بھی ہنستا رہا,پھر زوئ چائے بنا لائ وہ دونوں چائے کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے , آخر ماما اٹھ کر آیئں اور ان دونوں کو ڈانٹ کر کمرے میں بھیجا کافی دیر ہو رہی تھی وہ دونو ں سونے چلے گئے,,,,,,,,,,,
زینیہ کے ایگزام سٹارٹ ہوگئے تھے , وہ پڑھائ میں مگن تھی اسکو ہوش نہیں تھی سامعہ بیگم نے اسکی غیر موجودگئ میں زرک اور زوئ کو بلوایا تھا زینیہ کی برتھ ڈے تھی اور وہ چاھتیں تھیں کہ بہت اعلی پیمانے پر انتظامات ہوں کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی انوائٹ کرنا چاہ رہی تھیں جو نکاح پر نہ آسکے تھے , زرک نے ساری ذمہ داری اٹھا لی تھی , اور آنٹی اور انکل کو یقین دلایا تھا کہ کوئ کمی نہیں ہوگی , چائے وغیرہ پی کر زوئ اور زرک نے اجازت چاھی اور گھر آگئے ,,,,,,,,,,,
مہ پارہ بیگم اور صارم صاحب عارب کی طرف سے پریشان تھے مگر انہوں نے بچوں سے کوئ بات نہ کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاھتے تھے کہ بچے پریشان ہوں یہ انکے دل میں بڑوں کے خلاف نفرت پیدا ہو, عارب نے بھائ کے بڑے ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا وہ تو دھمکیوں پر اتر آیا تھا ,صارم صاحب بچوں کے لیے ڈرتے تھے ورنہ انھیں خود کی کوئ پرواہ نہیں تھی,,,,,,,,,,,,,,,
زینیہ کے ایگزام ختم ہوئے تو اسنے شکر کا سانس لیا اور اب وہ نیندیں پوری کر رہی تھی اسے کوئ ہوش نہیں تھی زرک نے سب انتظامات کر دیے تھے اور زینیہ کی برتھ ڈے کا دن بھی سر پر آگیا تھا, زوئ اور زرک زینیہ کے لیے گفٹ لے آئے تھے , زرک کے کہنے کے باوجود زوئ نے بلیک سوٹ نہیں لیا تھا اور نہ ہی زرک کو لینے دیا تھا, زرک کو بلیک ڈریس اچھا لگتا تھا مگر زوئ کہتی تھی کہ بلیک کلر تو سوگ کی علامت ہوتا ھے ,خوشیوں میں بھلا بلیک کلر کا کیا تعلق اور ماما بھی اس معاملے میں زوئ کے ساتھ تھیں , زوئ نے پنک ڈریس لیا تھا جبکہ زرک کو بھی اسنے ہی بلیو شرٹ گفٹ کی تھی شاپنگ سے تھکے ہارے گھر لوٹے تو آتے ہی سو گئے کل زینیہ کا برتھ ڈے تھا اسلیے کل سارے کام زرک کو دیکھنے تھے,,,,,
۞۞۞۞
اگلا دن بے حد مصروف تھا زینیہ تو رات لیٹ سوئ تھی اسلیے اسے کوئ ہوش نہ تھا دوپہر کو ماما نے اسے اٹھایا تھا اور اسکو فریش ہونے کا کہا اور اسکے روم میں ہی ناشتہ لے آئیں تھیں ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اسکو شام 6 بجے تک اچھا سا ریڈی ہونے کا بولا تھا
ماما سب خیریت ہے زینیہ نے حیرانی سے پوچھا
جی میری جان ہمیں کہیں جانا ھے تو آپ اچھا سا ریڈی ہونا آپکے بابا نے بولا ہے
6 بجنے میں صرف چار گھنٹے باقی تھے اور اسنے ڈریس بھی سلیکٹ کرنا تھا مگر یہ مشکل بھی مامانے حل کردی انہوں نے اسکو بہت پیارا پرپل ڈریس لا کے دیا تھا کہ وہ یہ پہنے وہ اپنے ڈریس کو پریس کرنے اور ساتھ میچنگ چیزیں دیکھنے میں لگ گئ مگر ساتھ ہی وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کسنے انوائٹ کیا تھا انکو کہیں زرک کی فیملی نے تو نہیں مگر ایسا ہوتا تو زرک زوئ یا ماما اسکو بتاتیں , پھر اور کہاں جانا تھا کیا پاپا کے کوئ فرینڈ اسکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ڈریس پریس کر کے فری ہوئ تو اسنے زوئ کا نمبر ملایا بیل جارہی تھی مگر وہ اٹھا نہیں رہی تھی زرک کو فون کرنے کا سوچا مگر پھر ہمت نہیں ہوئ اسے شرم آرہی تھی اسنے میسج کرنا چاھا مگر پہلی بار تھا اسلیے اس سے نہیں ہوا یہی سوچتے اسکی آنکھ لگ گئ آخر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد اسکی آنکھ کھلی تو وہ
اپنی چیزیں رکھ کے شاور لینے چلی گئ, فری ہوکر آئ تو 4.30 ھورہے تھے اسنے ہیر ڈرائر سے بال ڈرائ کیے , اور پھر تیار ہونے لگا گئ 5.00 بجے تک وہ تیار ہوگئ اب بال سٹریٹ کرنے کی باری تھی اسکے بال کافی ہیوی تھے اسلیے انکو سمبھالنا کافی مشکل تھا اور ان سے الجھتے اسکو 5.35 ھوگئے , جیولری پہن کر اسنے جوتا پہنا اور پرفیوم سپرے کر کے موبائل اٹھایا اور باہر نکلنے لگی وہ ماما سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ اگر وہ ریڈی ہوں تو چلیں یہ ابھی وہ ویٹ کرے مگر باہر آئ تو گھپ اندھیرا تھا اسے سمجھ نہ آئ اسنے ماما ,پاپا کو آوازیں دیں مگر جواب ندارد وہ پریشان ہوگئ ,آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی ,آخر ماما پاپا کہاں گئے ,اسکو بناء بتائے تو وہ کہیں نہیں جاتے تھے مگر پاپا کی طبعیت بھی تو آجکل ایکدم بگڑ جاتی تھی لیکن ماما نے اسکو کیوں نہیں بتایا کہیں اسکو سوتا جان کر اٹھانا مناسب نہ سمجھا ہو اس سے پہلے کہ وہ ماسی کو آواز لگاتی اسے ہال میں ماما کی آواز سنائ دی وہ جیسے ھی ہال کی طرف بڑھی اسے مدھم سی روشنی بھی دکھائ دی وہ بھاگ کے ہال میں پہنچئ …………
اسکے اینٹر ہوتے ہی ہال میں لائٹس آن ھوئیں اور تالیوں کا شور اور ہیپی برتھ ڈے زینیہ کی آواز سے ہال گونج اٹھا ماما پاپا ,زوئ ,زرک انکے ماما پاپا,ماہم اور اسکی فیملی,ماما کے رشتے دار پاپا کے عزیز سب اکٹھے تھے ہر سال کی طرح وہ اس بار بھی اپنا برتھ ڈے بھول گئ تھی مگر اسکے ماما پاپا اور اسکے ان لاز جو اسکے اپنے تھے وہ نہیں بھولے تھے وہ باری باری سب سے ملی پھر اسنے کیک کاٹنا تھا ٹیبل کے قریب آئ تو کیک پر اسکی اور زرک کی نکاح پکچر تھی اور بہت خوبصورت لکھا ہوا تھا ہیپی برتھ مسز زینیہ زرک یہ زر کی طرف سے اسکے لیے گفٹ تھا , ارینجمنٹ اور کھانا ماما پاپا کی طرف سے تھا, زوئ نے اسکو بہت پیارا پین گفٹ کیا تھا آنٹی انکل نے اسکا برتھ ڈے ڈریس اسکو گفٹ کیا مہ پارہ بیگم کی فیملی اسکے لیے بہت سارے گفٹ لائ تھی سب بہت خوش تھے باقی سب نے بھی تحفے دیے ,کیک کاٹنے کے بعد کھانا کھایا گیا,سب اچھے لگ رھے تھے مگر زوئ کی تو بات ہی الگ تھی زینیہ کا کوئ دور کا کزن آنے بہانے زوئ کے قریب سے کئ بار گزر چکا تھا اسنے تو نوٹ کیا یہ نہیں لیکن معیز کو بہت برا لگا تھا اور وہ سوچ ھی رھا تھا کہ آخر اس کے ساتھ مسئلہ کیا ھے کہ زوئ کو ٹیبل سے کھانا ڈالتے دیکھ کر وہ لڑکا بھی ٹیبل کے پاس پہنچ گیا اور اسنے زوئ کو نجانے کیا بولا تھا زوئ نے جواب میں نفی میں سر ہلایا وہ مڑنے لگی تھی کہ وہ پھر کچھ بولا معیز کو تو اور غصہ آگیا پھر سارے فنکشن میں وہ لڑکا زوئ کو گھورتا رھا اور معیز صبر کے گھونٹ بھرتا رھا اسنے ماما سے بات کرنے کا سوچ لیا تھا ,آہستہ آہستہ سب مہمان چلے گئے تھے , زھراء اور مہ پارہ بیگم کی فیملی نے بھی اجازت چاھی تھی, سب مہمان ہنسی خوشی رخصت ہوئے تھے,,,,,,,,
رات گئے زینیہ ماما کی آوازوں سے جاگ گئ تھی پاپا کی طبعیت بگڑ رھی تھی اسنے اسی وقت ڈاکٹر سبحانی کو فون کیا جو اسکے پاپا کے دوست تھے وہ آگئے انہوں نے چیک اپ کے بعد دوا وغیرہ دی تو اسکے پاپا کی طبعیت سمنبھلی ,زینیہ نے انکل سے پوچھا کہ پاپا کی طبعیت آئے دن کیوں خراب ہوجاتی ھے تو وہ ٹال گئے وہ جانتے تھے کہ زینیہ برداشت نہیں کر سکتی مگر انہوں نے بھابی کو کہا تھا کہ اب زینیہ کے پاپا کو ایڈمٹ کروا دینا بتر ہوگا,, جاری ہے
زرک نے زینیہ کا نمبر مانگا ,تو زوئ نے پہلے تو اسے خوب تنگ کیا پھر اسنے زرک سے کافی بنانے کا کہا تھا زرک چائے کا رسیا تھا جبکہ زوئ کافی کی بہت شوقین تھی لیکن زوئ کو اپنے ہاتھ کی نہیں زرک کی بنائ کافی میٹھی لگتی تھی زرک کا کوئ موڈ نہ تھا لیکن اسکو کافی تو بنانی تھی زینیہ کا نمبر بھی تو لینا تھا وہ جاکہ کافی بنا کے لے آیا اور کافی پینے کے بعد زوئ نے کہ دیا کہ اسکے پاس تو صرف زینیہ کا لینڈ لائن نمبر ھے سیل نمبر کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑئ وہ مزید اداس ہوگیا اور بناء کافی پیے زوئ کو یہ کہ کے اٹھ گیا کہ اسکو ٹیسٹ کی تیاری کرنی ھے , کمرے میں جاکر اسنے سیل بیڈ پر پھینکا اور بک کھول لی وہ اپنا دھیان بٹانا چاھتا تھا مگر زہھن پر زینیہ سوار تھی اسنے موبائل اٹھایا وہ معیز کو کال کرنے لگا تھا وہ معیز کے ساتھ باہر جانے کا سوچ رہا تھا, اسنے موبائل ان لاک کیا تو سامنے زینیہ زرک کا نام جگمگا رہا تھا زوئ نے اسکو کافی بنانے بھیج کر خود چپکے سے اسکے موبائل میں زینیہ کا نمبر سیو کر دیا تھا اور اسکو تنگ کرنے کے لیے کہا تھا کہ اسکے پاس نمبر نہیں ھے, وہ مسکرا رھا تھا جیسے کوئ بہت بڑی خوشی ہاتھ آگئ ھو اسے زوئ پر بے اختیار پیار آیا تھا….
۞۞۞۞
: زرک نے سوچا تھا کہ وہ رات کو فری ہوکر زینیہ سے بات کرئے گا اسلیے رات کا کھانا کھا کر وہ روم میں جلدی آگیا تھا اور اسنے بیڈ پر بیٹھ کر بیڈ کراون سے ٹیک لگائ اور موبائل اٹھایا اسنے کال کا سوچا تھا لیکن پھر اسکو شرارت سوجھی اسنے میسج ٹائپ کیا اور زینیہ کے نمبر پر بھیج دیا…..
زینیہ کو ماما ابھی دودھ کا گلاس دے کے گیئں تھیں اور وہ گھونٹ گھونٹ کر کے وہ پی رہی تھی بکس کا ڈھیر ارد گرد بکھرا ہوا تھا ,موبائل کی سکرین روشن ہوئ unknown نمبر سے میسج تھا اسنے موبائل اٹھا کر میسج کھولا
تمنا پھر مچل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
یہ موسم بھی بدل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
یہ دنیا بھر کے جھگڑے،گھر کے قصے،کام کی باتیں
بلا ہر ایک ٹل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
نظم کا ایک ایک لفظ بھیجنے والے کی شدتوں کو ظاہر کر رہا تھا مگر اسکو کون ایسا میسج بھیج سکتا ہے وہ حیران تھی اسنے ابھی کوئ جواب نہیں دیا کہ ایک بار پھر میسج نمودار ہوا
نہیں ملتے ہو مجھ سے تم تو سب ہمدرد ہیں میرے
زمانہ مجھ سے جل جائے، اگر تم ملنے آ جاؤ
اسکو فکر ہوئ آخر کون تھا جو شاعری بھیج رہا تھا اسنے آگے سے لکھا
آپ کون?
زرک نے میسج پڑھا اور جواب میں لکھا
اک تم ھو کے سمجھتی ھی نہیں ھم کو
اک ھم ھیں کے تمہارے ھیں تمہیں کیا معلوم
زینیہ کو تو غصہ آگیا اسنے جوابا لکھا
کیا مسئلہ ھے آپکو?ساتھ ایک 😡ایمو جی بھی تھا
زرک میسج پڑھ کر ہنس دیا اور آگے سے لکھا
میری دھڑکن میں آپ حائل ہیں۔ ۔ ۔
میرے دل کے بڑے مسائل ہیں۔ ❤❤❤
زینیہ مزید تپ گئ اسنے جواب میں 😡👿🤛🏻ایمو جی بھیجے اور میسج نہ کرنے کا کہا تھا
زرک نے ہنستے ہوئے میسج ٹائپ کیا اسنے اسکو مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا
سکرین ایک بار پھر روشن ہوئ زینیہ نے میسج پڑھ کر بے اختیار زبان دانتوں تلے دبا لی میسج میں لکھا تھا
مسز میں آپکا اکلوتا معصوم ہبی (hubby) جسکو پڑھائ میں بزی ہوکر آپ بھول چکی ھیں
وہ واقعی پڑھائ میں ایسی مگن تھی کہ زرک کی طرف دھیان نہیں گیا تھا ,
اسنے اپنی غلطی مانتے ہوئے جوابا لکھا اسلام علیکم کیسے ہیں آپ اور گھر سب کیسے ? سوری میں واقعی سٹڈی میں بہت بزی تھی تو دھیان نہیں رہا اور آپکا نمبر بھی سیو نہیں تھا ,
زرک نے میسج کے جواب میں لکھا
سب ٹھیک ہیں سوائے میرے آپ سنائیں آنٹی انکل کیسے ہیں
ماما پاپا ٹھیک ھیں آپکو کیا ہوا آپنے کوے میڈی لی ڈاکٹر کو دکھایا آپ نے وہ فکرمند ہوگئ
میسج پڑھ کر زرک کو اسکی معصومیت پر پیار آیا اسنے آگے سےلکھا
ہماری نبضیں۔۔!!
تمہارے دم سے،
جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا۔۔!
کہ لکھنے والے نے،
لکھ دیا ہے۔۔!
مریض ہم ہیں،
طبیب تم ہو ♥
میرا علاج اب صرف تمہارے پاس ھے مسز زینیہ زرک 😉زرک نے ایمو جی کے ساتھ میسج بھیجا
زینیہ کو میسج پڑھ کر خوشی کے ساتھ شرم بھی آگئ اسے نکاح کے دن زرک سے ملاقات یاد آگئ اسنے شرماتے ہوئے لکھا
زرک مجھےتنگ نہ کریں مجھے پڑھنے دیں ساتھ🙈ایمو جی بھیجا
زرک میسج دیکھتے ہی سمجھ گیا وہ شرما گئ ہےاسنے آگے سے ٹائپ کیا
نظر اداس ہے
نظر ہی آجاو
زیین کب ملو گی میں تمہیں دیکھنا چاھتا ہوں آئ رئیلی مس یو
زینیہ نے میسج پڑھا تو اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی اسکا بھی دل چاہا زرک ابھی سامنے آجائے اسنے میسج کیا
زرک میرے ایگزام سٹارٹ ھونے والے ہیں بس ایک ھفتہ رہ گیا فلحال مشکل ہے دل تو ضد کر رھا تھا مگر دماغ سمجھا رھا تھا اسنے دل کی آواز کو دبالیا
مگر زرک نے بات ہی ایسی کی کہ اسے ماننا پڑا اسنے لکھاتھا
تمهیں معلوم نهیں….کس طرح بتائیں تمهیں…
تیرے بغیر…😰
سانس چلتی هے لیکن اداس چلتی هے….😷
اسنے زرک کی اداسی کو دیکھتے ھوئے ہامی بھر لی تھی وہ اسکے ساتھ اکیلے باہر جانا چاھتا تھا
اسکے ہامی بھرنے پر زرک نے اسکو میسج کیا کہ وہ پڑھائ کرے کل ملاقات ہوگی تو گپ شپ کریںنگے اللہ حافظ کر کے زرک تو مطمئن سا سونے کے لیے لیٹ گیا جبکہ زینیہ خوش بھی تھی لیکن اسکو فکر بھی تھی ماما اور اسکی ساسو ماں کیا سوچتیں پھر وہ اکیلے کبھی کسی مرد کے ساتھ باہر نہ نکلی تھی اسلیے اسکو عجیب لگ رھا تھا مگر اب تو ہامی بھر لی تھی..
۞۞۞۞
اگلی صبح زرک نے ماما سے بات کی انہوں نے سامعہ بیگم سے بچوں کو اجازت لے دی تھی اور شام میں زرک جب زینیہ کے گھر گیا تو وہ ریڈی تھی وہ آنٹی سے ملکر اسکو لیے باھر آگیا ,پہلے زینیہ کے لیے فرنٹ ڈور کھولا پھر.خود بیٹھا گاڑی میں بیٹھ کر اسنے میوزک لگا دیا اور اسکا ہاتھ گئیر پر رکھوا کر اپنا ہاتھ اوپر رکھ لیا آھے اسنے ہاتھ نکالنا چاھا مگر زرک نے اسکو ایسا نہ کرنے دیا اب وہ گاڑی کی طرف متوجہ تھا,اچانک گانا تبدیل ہوا تھا زینیہ گانے کے بولوں کی وجہ سے بالکل کھو گئ گلوگار گا رھا تھا
Thoda sa bhi shak na karna
Tumse mera jeena-marna
Tum chal rahe ho to saansein
Mere saath chal rahi hai
O humsafar o humnawa
Be-shart main, tera huaa
Paas aao main tumhein
Dekh loon kareeb se
Aankhon ko ye raahtein,
Milti hain naseeb se
زرک نے زینیہ کو دیکھا وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئ تھی اسنے زینیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا وہ بے خبر تھی گانے والا گا رھا تھا
Main sirf tera rahoonga,
Waada raha tujhse mera
Tu maang le muskara ke
Mera pyar haq hai tera
O humsafar o humnawa
Be-shart main, tera hua
زرک کو لگا اسکے دل کی آواز زینیہ تک گانے کے بولوں کے ذریعے پہنچ رہی ھے گاڑی میں صرف گانے کے بول دھیمے سروں میں بج رہے تھے ,
تھوڑی دیر بعد وہ ایک ریستوران کے سامنے پہنچ گئے زرک نے زینیہ کو آواز دی تو وہ جیسے ہوش میں آئ اور بولی
جی !
زینیہ اتریں ریسٹورینٹ آگیا ہے زرک بولا پھر وہ دونوں اندر چلے گئے, زینیہ کی مرضی سے آرڈر دے کر زرک اس سے دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگا وہ اسکو بتا رہا تھا کہ وہ اسکو کتنا مس کرتا ہے اور اسکے ساتھ سپینڈ کیا ٹائم وہ کتنا انجوائے کرتا ھے ,
تھوڑی ہی دیر بعد آرڈر آگیا تو وہ دونوں کھانے میں مصروف ہوگئے کھانے کے بعد بل دے کر وہ دونوں ریسٹورینٹ سے باہر نکلے تو زرک کے پوچھنے پر زینیہ پہلے تو منع کرتی رہی پھر آئسکریم کے لیے مان گئ زرک نے گاڑی میں ہی آئسکریم منگوا لی تھی اور آئسکریم کھاتے گپ شپ لگاتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا دیر ہو رہی تھی زرک نے گاڑی زینیہ کے گھر کے راستے پر ڈال دی اور تھوڑی دیر بعد وہ زینیہ کو چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا , وہ بہت خوش تھا سارا راستہ گنگناتے ہوئے وہ گھر داخل ہوا تو زوئ سامنے ہی بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اسکو دیکھ کر ایک شرارتی مسکان اچھالی وہ سمجھ گیا کہ زوئ کو ماما نے بتا دیا ھے اس سے پہلے کے وہ کوئ بہانہ لگا کر کمرے میں جاتا زوئ نے روک لیا پھر تو زوئ نے خوب اسکو تنگ کیا وہ بھی ہنستا رہا,پھر زوئ چائے بنا لائ وہ دونوں چائے کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے , آخر ماما اٹھ کر آیئں اور ان دونوں کو ڈانٹ کر کمرے میں بھیجا کافی دیر ہو رہی تھی وہ دونو ں سونے چلے گئے,,,,,,,,,,,
زینیہ کے ایگزام سٹارٹ ہوگئے تھے , وہ پڑھائ میں مگن تھی اسکو ہوش نہیں تھی سامعہ بیگم نے اسکی غیر موجودگئ میں زرک اور زوئ کو بلوایا تھا زینیہ کی برتھ ڈے تھی اور وہ چاھتیں تھیں کہ بہت اعلی پیمانے پر انتظامات ہوں کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی انوائٹ کرنا چاہ رہی تھیں جو نکاح پر نہ آسکے تھے , زرک نے ساری ذمہ داری اٹھا لی تھی , اور آنٹی اور انکل کو یقین دلایا تھا کہ کوئ کمی نہیں ہوگی , چائے وغیرہ پی کر زوئ اور زرک نے اجازت چاھی اور گھر آگئے ,,,,,,,,,,,
مہ پارہ بیگم اور صارم صاحب عارب کی طرف سے پریشان تھے مگر انہوں نے بچوں سے کوئ بات نہ کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاھتے تھے کہ بچے پریشان ہوں یہ انکے دل میں بڑوں کے خلاف نفرت پیدا ہو, عارب نے بھائ کے بڑے ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا وہ تو دھمکیوں پر اتر آیا تھا ,صارم صاحب بچوں کے لیے ڈرتے تھے ورنہ انھیں خود کی کوئ پرواہ نہیں تھی,,,,,,,,,,,,,,,
زینیہ کے ایگزام ختم ہوئے تو اسنے شکر کا سانس لیا اور اب وہ نیندیں پوری کر رہی تھی اسے کوئ ہوش نہیں تھی زرک نے سب انتظامات کر دیے تھے اور زینیہ کی برتھ ڈے کا دن بھی سر پر آگیا تھا, زوئ اور زرک زینیہ کے لیے گفٹ لے آئے تھے , زرک کے کہنے کے باوجود زوئ نے بلیک سوٹ نہیں لیا تھا اور نہ ہی زرک کو لینے دیا تھا, زرک کو بلیک ڈریس اچھا لگتا تھا مگر زوئ کہتی تھی کہ بلیک کلر تو سوگ کی علامت ہوتا ھے ,خوشیوں میں بھلا بلیک کلر کا کیا تعلق اور ماما بھی اس معاملے میں زوئ کے ساتھ تھیں , زوئ نے پنک ڈریس لیا تھا جبکہ زرک کو بھی اسنے ہی بلیو شرٹ گفٹ کی تھی شاپنگ سے تھکے ہارے گھر لوٹے تو آتے ہی سو گئے کل زینیہ کا برتھ ڈے تھا اسلیے کل سارے کام زرک کو دیکھنے تھے,,,,,
۞۞۞۞
اگلا دن بے حد مصروف تھا زینیہ تو رات لیٹ سوئ تھی اسلیے اسے کوئ ہوش نہ تھا دوپہر کو ماما نے اسے اٹھایا تھا اور اسکو فریش ہونے کا کہا اور اسکے روم میں ہی ناشتہ لے آئیں تھیں ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اسکو شام 6 بجے تک اچھا سا ریڈی ہونے کا بولا تھا
ماما سب خیریت ہے زینیہ نے حیرانی سے پوچھا
جی میری جان ہمیں کہیں جانا ھے تو آپ اچھا سا ریڈی ہونا آپکے بابا نے بولا ہے
6 بجنے میں صرف چار گھنٹے باقی تھے اور اسنے ڈریس بھی سلیکٹ کرنا تھا مگر یہ مشکل بھی مامانے حل کردی انہوں نے اسکو بہت پیارا پرپل ڈریس لا کے دیا تھا کہ وہ یہ پہنے وہ اپنے ڈریس کو پریس کرنے اور ساتھ میچنگ چیزیں دیکھنے میں لگ گئ مگر ساتھ ہی وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کسنے انوائٹ کیا تھا انکو کہیں زرک کی فیملی نے تو نہیں مگر ایسا ہوتا تو زرک زوئ یا ماما اسکو بتاتیں , پھر اور کہاں جانا تھا کیا پاپا کے کوئ فرینڈ اسکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ڈریس پریس کر کے فری ہوئ تو اسنے زوئ کا نمبر ملایا بیل جارہی تھی مگر وہ اٹھا نہیں رہی تھی زرک کو فون کرنے کا سوچا مگر پھر ہمت نہیں ہوئ اسے شرم آرہی تھی اسنے میسج کرنا چاھا مگر پہلی بار تھا اسلیے اس سے نہیں ہوا یہی سوچتے اسکی آنکھ لگ گئ آخر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد اسکی آنکھ کھلی تو وہ
اپنی چیزیں رکھ کے شاور لینے چلی گئ, فری ہوکر آئ تو 4.30 ھورہے تھے اسنے ہیر ڈرائر سے بال ڈرائ کیے , اور پھر تیار ہونے لگا گئ 5.00 بجے تک وہ تیار ہوگئ اب بال سٹریٹ کرنے کی باری تھی اسکے بال کافی ہیوی تھے اسلیے انکو سمبھالنا کافی مشکل تھا اور ان سے الجھتے اسکو 5.35 ھوگئے , جیولری پہن کر اسنے جوتا پہنا اور پرفیوم سپرے کر کے موبائل اٹھایا اور باہر نکلنے لگی وہ ماما سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ اگر وہ ریڈی ہوں تو چلیں یہ ابھی وہ ویٹ کرے مگر باہر آئ تو گھپ اندھیرا تھا اسے سمجھ نہ آئ اسنے ماما ,پاپا کو آوازیں دیں مگر جواب ندارد وہ پریشان ہوگئ ,آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی ,آخر ماما پاپا کہاں گئے ,اسکو بناء بتائے تو وہ کہیں نہیں جاتے تھے مگر پاپا کی طبعیت بھی تو آجکل ایکدم بگڑ جاتی تھی لیکن ماما نے اسکو کیوں نہیں بتایا کہیں اسکو سوتا جان کر اٹھانا مناسب نہ سمجھا ہو اس سے پہلے کہ وہ ماسی کو آواز لگاتی اسے ہال میں ماما کی آواز سنائ دی وہ جیسے ھی ہال کی طرف بڑھی اسے مدھم سی روشنی بھی دکھائ دی وہ بھاگ کے ہال میں پہنچئ …………
اسکے اینٹر ہوتے ہی ہال میں لائٹس آن ھوئیں اور تالیوں کا شور اور ہیپی برتھ ڈے زینیہ کی آواز سے ہال گونج اٹھا ماما پاپا ,زوئ ,زرک انکے ماما پاپا,ماہم اور اسکی فیملی,ماما کے رشتے دار پاپا کے عزیز سب اکٹھے تھے ہر سال کی طرح وہ اس بار بھی اپنا برتھ ڈے بھول گئ تھی مگر اسکے ماما پاپا اور اسکے ان لاز جو اسکے اپنے تھے وہ نہیں بھولے تھے وہ باری باری سب سے ملی پھر اسنے کیک کاٹنا تھا ٹیبل کے قریب آئ تو کیک پر اسکی اور زرک کی نکاح پکچر تھی اور بہت خوبصورت لکھا ہوا تھا ہیپی برتھ مسز زینیہ زرک یہ زر کی طرف سے اسکے لیے گفٹ تھا , ارینجمنٹ اور کھانا ماما پاپا کی طرف سے تھا, زوئ نے اسکو بہت پیارا پین گفٹ کیا تھا آنٹی انکل نے اسکا برتھ ڈے ڈریس اسکو گفٹ کیا مہ پارہ بیگم کی فیملی اسکے لیے بہت سارے گفٹ لائ تھی سب بہت خوش تھے باقی سب نے بھی تحفے دیے ,کیک کاٹنے کے بعد کھانا کھایا گیا,سب اچھے لگ رھے تھے مگر زوئ کی تو بات ہی الگ تھی زینیہ کا کوئ دور کا کزن آنے بہانے زوئ کے قریب سے کئ بار گزر چکا تھا اسنے تو نوٹ کیا یہ نہیں لیکن معیز کو بہت برا لگا تھا اور وہ سوچ ھی رھا تھا کہ آخر اس کے ساتھ مسئلہ کیا ھے کہ زوئ کو ٹیبل سے کھانا ڈالتے دیکھ کر وہ لڑکا بھی ٹیبل کے پاس پہنچ گیا اور اسنے زوئ کو نجانے کیا بولا تھا زوئ نے جواب میں نفی میں سر ہلایا وہ مڑنے لگی تھی کہ وہ پھر کچھ بولا معیز کو تو اور غصہ آگیا پھر سارے فنکشن میں وہ لڑکا زوئ کو گھورتا رھا اور معیز صبر کے گھونٹ بھرتا رھا اسنے ماما سے بات کرنے کا سوچ لیا تھا ,آہستہ آہستہ سب مہمان چلے گئے تھے , زھراء اور مہ پارہ بیگم کی فیملی نے بھی اجازت چاھی تھی, سب مہمان ہنسی خوشی رخصت ہوئے تھے,,,,,,,,
رات گئے زینیہ ماما کی آوازوں سے جاگ گئ تھی پاپا کی طبعیت بگڑ رھی تھی اسنے اسی وقت ڈاکٹر سبحانی کو فون کیا جو اسکے پاپا کے دوست تھے وہ آگئے انہوں نے چیک اپ کے بعد دوا وغیرہ دی تو اسکے پاپا کی طبعیت سمنبھلی ,زینیہ نے انکل سے پوچھا کہ پاپا کی طبعیت آئے دن کیوں خراب ہوجاتی ھے تو وہ ٹال گئے وہ جانتے تھے کہ زینیہ برداشت نہیں کر سکتی مگر انہوں نے بھابی کو کہا تھا کہ اب زینیہ کے پاپا کو ایڈمٹ کروا دینا بتر ہوگا,, جاری ہے
Leave a Reply