رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 7
اس سے پہلے کہ معیز ماما سے کوئ بات کرتا زینیہ کے اس کزن کے گھر والوں نے سامعہ بیگم کے ساتھ آکر زوئ کے لیے رشتہ ڈالا , لڑکا ایرونائٹیکل اینجینئر تھا زھراء بیگم تو کافی مطمئن تھیں مگر زارون اور بچوں سے مشورے کا کہ کے انہوں نے مہمانوں کی خاطر مدارت کے بعد رخصت کیا تھا شام میں زارون صاحب سے بات کی تو وہ فلحال اس چکر میں زوئ کو ڈالنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ زوئ ابھی چھوٹی تھی پھر انکا خیال تھا کہ آگے مزید کوئ اچھا رشتہ بھی آسکتا ھے سوچا تو زھراء بیگم نے بھی معیز کو داماد کے طور پر تھا مہ پارہ انکی بہن اور دوست دونوں تھی مگر بیٹی کی ماں ہونے کے ناطے خود سے کہنا مناسب نہ تھا انہوں نے بیٹی کے اچھے نصیب کی دعا کی اور بہن سے اس رشتے کے سلسلے میں مشورے کا سوچا فون پر انکو بتایا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں وہ تو ہمیشہ سے زوئ کو معیز کی دلہن بنانا چاھتی تھیں مگر معیز اور صارم سے بات ضروری تھی شام میں صارم صاحب سے بات ہوئ تو وہ تو راضی تھے معیز سے انہوں نے سرسری سا زکر کیا اور ساتھ ہی زوئ کے لیے آنیوالے رشتے کا بتایا تو وہ تو انکے سر ہوگیا کہ ابھی خالہ سے اسکے لیے زوئ کا رشتہ مانگیں مگر مہ پارہ بیگم نے اسکو اگلے دن تک بڑی مشکل ست روکا وہ حیران تھیں کہ انکئ خواہش کیسے ایک دم پوری ہورہی تھی,,
۞۞۞۞
اگلے دن یہ لوگ اچانک زھراء بیگم کے گھر چلے گئے اور جاتے ھی زارون صاحب اور زھراء بیگم سے زوئ کا رشتہ مانگ لیا سب ایگری
تھے زرک بھی ادھر ہی تھا وہ بھی خوش تھا معیز ہر لحاظ سے بہترین تھا ,زوئ سے بھی زھراء بیگم کو اسی وقت مرضی پوچھنے کے لیے بھیجا گیا ,زوئ نے فیصلہ اپنے ماما پاپا اور بھائ پر چھوڑا تھا آنا فانا یہ رشتہ طے ہوگیا تھا , سب بہت خوش تھے مہ پارہ بیگم تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاھتی تھیں, آخر ایک ھفتے بعد نکاح ہونا قرار پایا تھا,,,,,,,,,,,
گھر والے گھر پہنچے تو معیز بے چین تھا اورنکاح کا سن کر تو وہ اچھل پڑا تھا , اسکو امید نہیں تھی یہ سب ایسے ہوجائے گا, وہ اپنے روم میں آگیا تھا اور اسکو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ وہ خوشی میں کیا کرے,,,,,,,
دوسری برف زوئ کو اتنی جلدی نکاح کا پتہ چلا تو وہ اسکی کیفیت عجیب تھی ,اسنے معیز کے بارے میں کبھی ایسا سوچانہیں تھا اسنے ماما کو تو یہ کہ دیا تھا کہ زرک ماما اور پاپا اسکے لیے جو چاھے فیصلہ کریں مگر اتنی جلدی اسکا مانئڈ نکاح کو ایکسیپٹ نہیں کر رھا تھا,اسنے سوچا زرک سے شئیر کرے وہ ہی اسے سمجھا سکتا تھا مگر اس وقت اس کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا وہ زرک کو کیسے بلائے , اسنے زرک کو دل میں پکارا زرک پلیز آجاو , وہ کمرے میں بیٹھی سوچ رھی تھی کہ دروازہ ناک ہوا
یس کم ان وہ بولی تو آنیوالے نے ناب گھمائ اور اندر داخل ہوا وہ جانتی تھی زرک ہوگا, وہ دستک کے انداز,پہچانتی تھی
وہ آہستہ آہستہ چلتا اسکے قریب آکر بیٹھ گیا, زوئ نے اسکے کندھے سے سر ٹکا دیا,زرک نے اسکے گرد بازو پھیلایا وہ جانتا تھا وہ پریشان ہوگی وہ تو نازک دل تھی ذرہ سی بات پر پریشان ہونے والی تو یہ تو اسکی زندگی کا فیصلہ تھا ,
زوئ مائ ڈول کیا بات ھے,خوش نہیں ہو کیا ہمارے فیصلے سے اگر ایسا ھے تو مجھے بتا دو ہمارے لیے تمہاری خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے?
وہ بولا تو اسکے لہجے میں بہن کی محبت بول رہی تھی ,,
زرک ایسی بات نہیں ہے وہ دھیما سا بولی تھی
تو پھر کیا بات ھے زوئ زرک نے اسکی تھوڑی کو ہلکا سا اونچا کیا اور اسکی طرف دیکھ کر بولا
زرک میں نے معیز کے بارے میں انفیکٹ کسی کے بارے میں ایسا نہیں سوچا فلحال میں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں سوچا تھا پھر اچانک یہ سب اور بات منگنی کی ہوتی تو اور بات تھی زرک نکاح تو بہت بڑی بات ھے
u know how much i love mama papa and how much i love u and i don’t want to go away from u zarak
بولتے ہوئے اسکی آنکھیں بھرا گئیں تو زرک کو بھی سوچ کر ھی گھبراہٹ ھوگئ اسکی ڈول اس سے دور ہوجائے گی اسکے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیااسنے بمشکل خود کو کمپوز کیا اور اسکو ساتھ لگاتے ہوئے بولا پگلی بہنوں کو تو جانا ہی ہوتا ایک نہ ایک دن, اور کون جانے نصیب کہاں لکھا,معیز کوئ غیر نہیں ہمارا دیکھا بھالا ہے اور اسکے ساتھ تمہیں ہم سے دور بھی نہیں ہونا پڑے گا,اور ابھی صرف نکاح ہوگا شادی تو تمہاری سٹڈیز کے بعد ہی ہوگی گڑیا لیکن تم سوچ لو آخری فیصلہ تمہارا ہوگا جو تم چاہو گی کوئ زبردستی نہیں ھے,,,,,,,,وہ اسکا سر تھپتھپا کر جانے لگا تو وہ بولی
زرک مجھے کوئ اعتراض نہیں تم لوگوں کے فیصلے پر جیسے تم لوگوں کی مرضی زرک کو خوشی ہوئ کہ اسکی بہن نے اسکا مان رکھا ھے
۞۞۞۞
ماما پاپا تک زوئ کا جواب پہنچ گیا تھا اور زھراء بیگم نے اگلے ہی دن مہ پارہ کو فون پر خوشخبری سنا دی تھی دونوں گھروں میں نکاح کی تیاریاں شروع ہوچکیں تھیں , مہ پارہ بیگم کے گھر کی پہلی خوشئ تھی اسلیے وہ ہر چیز میں بہت ایکسائیٹڈ تھیں , معیز تو سب سے پہلے جیولرز شاپ پر گیا تھا اور اسنے جاتے ہی وہ انگھوٹھی خرید کر لائ تھی جو زرک کے نکاح پر اسنے زوئ کی انگلی میں دیکھ کے سوچا تھا کہ وہ بنی ہی اس انگلی کے لیے ھے , انگھوٹھی میں اسنے اپنی پسند سے تھوڑی سی تبدیلی کروائ تھی, اسنے زوئ کو وہ انگھوٹھی گفٹ کرنی تھی, باقی کی تیاریاں ماما کر رھی تھیں ,زوئ نے اپنی شاپنگ زینئیہ اور زرک کے ساتھ مل کر کی تھی ,زرک نے اپنے اور زینیہ کے لیے بلیک ڈریس بنوایا تھا لیکن اسنے یہ بات ماما اور زوئ سے خفیہ رکھی تھی , دونوں گھروں میں خوب رونق تھی,,,,,,,,,,,,,
صارم صاحب نے مہ پارہ بیگم کے سمجھانے پر عارب اور اسکی فیملی کو بھی انوائٹ کیا تھا, انکو امید تو نہیں تھی کہ وہ آئیں گے مگر پھر بھی انہوں نے دل بڑا کر کے محبت کا ہاتھ بڑھایا تھا,,,,,,,,,
نکاح کا دن آن پہنچا تھا سب تیار ہو رہے تھے کہ عارب اور اسکی فیملی بھی پہنچ گئ, مہ پارہ بیگم کو خوشی ہوئ کہ عارب شائد سب بھلا کے آیا ھے مگر دل کے حال تو رب سوہنا ہی جانتا تھا مگر انہوں نے کھلے دل سے دیور اور اسکی فیملی کو ویلکم کیا تھا , عارب کے دو بچے تھے ایک بیٹا معیز سے تھوڑا چھوٹا جبکہ بیٹی ماہم کے ہم عمر تھی, بچے آپس میں پہلی بار ملے تھے مہ پارہ بیگم کے بچے تو انکی طرح رشتہ داروں سے مل کے بہت خوش تھے مگر عارب کے بچوں نے کچھ خاص رسپونس نہ دیا تھا , البتہ عارب اور انکی بیگم کا انداز بہت ملنسار تھا ,صارم صاحب کو تو نہ جانے کیوں انکا رویہ فیک معلوم ہورہا تھا,,,,,,,,,
سب تیار ہو کر ہال میں پہنچے زوئ کی فیملی کی طرف سے ہونے والا استقبال قابل دید تھا, نکاح کا مرحلہ سر انجام پایا تو زوئ کے ساتھ ساتھ زھراء بیگم کے آنسو بھی آوٹ آف کنڑول تھے, زرک نے مشکل سے زھراء بیگم کو روم سے باہر بھیجا خود وہ ضبط کی کڑی منزلیں طے کر رھا تھا,
تصاویر اور مووی کا سلسلہ شروع ہوا تو زوئ تو بے انتہا تھک گئ اسنے مددکے لیے ادھر ادھر دیکھا تو زرک نظر آیا اسنے مدد طلب نظروں سے دیکھا تو زرک نے کیمرہ مین کو اپنی طرف بلا لیا اور زینیہ کے ساتھ شوٹ کروانے لگا ,دونوں نے بلیک سوٹ پہن رکھے تھے ہر ایک کی توجہ کا مظہر تھے سب انکی جوڑی کو چاند سورج کی جوڑی قرار دے رہے تھے,زینیہ کے ساتھ شوٹ کے بعد زرک نے ماما پاپا اور پھر باقی سب کے ساتھ بھی پکچرز بنائیں تھیں,زوئ کو سٹیج پر لانے کا مرحلہ تھا زھراء بیگم کے کہنے پر زرک اور زینیہ اسکو پکڑ کر لائے وہ تینوں ساتھ چلتے ہر نگاہ کا مرکز تھے سٹیج کے قریب پہنچے تو زرک نے سہارا دے کے بہن کو اوپر چڑھایا معیز استقبال کے لیے کھڑا ہوا زوئ کو اسکے بائیں جانب بٹھایا گیا, ماہم نے زینیہ کے ساتھ مل کے معیز کے ساتھ دودھ پلائ کی رسم کی حالانکہ بڑوں کے مطابق ابھی صرف نکاح تھا مگر بچے کسی کی ماننے والے کہاں تھے ,زوئ اور معیز ساتھ بیٹھے جچ رہے تھے زوئ کا معصوم حسن اور معیز کی مردانہ وجاہت بہت سی آنکھوں نے انکو رشک سے دیکھا مگر کون جانتا تھا کہ کونسی نگاہ میں رشک ہے اور کونسی میں حسد,,,,,,,,,,
کھانا کھل گیا تھا سب لوگ کھانے میں مشغول تھے, کوئ کھانے میں اچھائ بتا رہا تھا تو کسی کو نقص بھی نظر آرہا ہوگا دوسری طرف عارب اور انکی بیگم کے سینے پر زوئ کی خوبصورتی, مہ پارہ بیگم کی فیملی کی خوشیاں اور شان و شوکت دیکھ کے سانپ لوٹ رہے تھے, انکو افسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے اگر جائیداد والا شور نہ مچایا ہوتا تو آج زوئ کئ جگہ معیز کے پہلو میں انکی بیٹی عافیہ ہوتی, مسز عارب کف افسوس مل رہی تھیں جبکہ عارب صاحب کا دماغ سوچ میں مصروف تھا,,,,,,,,,,,,,,,,,,
نکاح خیر وعافیت سے ہوگیا تھا, سب مہمان چلے گئے تھے, مہ پارہ بیگم کی فیملی کو زھراء بیگم نے اپنی طرف انوائٹ کردیا تھا سامعہ بیگم کی فیملی بھی ساتھ ہی تھی عارب صاحب نے ابھی ایک دو دن رکنے کا سوچا تھا اسلیے وہ بھی انکے ساتھ ہی تھے رات کا کھانا باھر سے آرڈر کروایا گیا تھا ,خوب رونق تھی ,بچے الگ بیٹھے ہوئے تھے بڑوں کی الگ محفل جمی ہوئ تھی
معیز نے سب کی نظر بچا کے زوئ کو گفٹ دینے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا وہ تو ملنا بھی چاھتا تھا لیکن زرک کے سامنے اسے اچھا نہیں لگ رھا تھا, اسلیے اسنے ماہم کے ہاتھ گفٹ دے دیا تھا, سب بہت خوش تھے رات دیر تک محفل جاری رہی تھی پھر سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارے,رات میں ماما زوئ کے پاس آئیں دودھ کا گلاس دینے تو وہ ڈریس چینج کر کے بیٹھی ہی تھی مما کو وہ اداس لگی وہ اسکے ساتھ بیٹھ گئیں وہ انکئ گود میں سر رکھے لیٹی تھی کہ زرک زوئ کے کمرے میں آیا وہ جانتا تھا زوئ اکیلی اداس ہوگی مگر ماما بھی ادھر ہی تھیں وہ بھی بیٹھ گیا اور زوئ کو اداس دیکھ کے اسکو باتوں میں لگانا چاھا مگر وہ تو جیسے بھرے دل سے بیٹھئ تھی بھائ اور ماں کا ہاتھ پکڑ کے رونے لگئ تو ان دونوں سے ضبط مشکل ہو گیا پھر تو وہ تینوں بہت دیر روتے رہے پھر زرک نے ہی ماں اور بہن کو سنمبھالا تھا, تھوڑی دیر بعد ماما کے کہنے پر زرک روم میں سونے چلا گیا اور ماما بھی زوئ کو سونے کا کہ کے چلی گئیں ,تھوڑی دیر وہ سونے کی کوشش کرتی رھی مگر جب نیند نہ آئ تو موبائل اٹھایا ایک دم میسج بلنک ہوا معیز کانمبر تھا اسنے میسج کھولا
“کوئی دور ہو کر بہت قریب رہتا ہے
ہم نہیں کہتے، یہ ہمارا دِل کہتا ہے”
دوبارہ میسج آیا
“مرے جزبوں کو صدا یوں ہی مہکائے رکھنا
میں نے تھاما ہے تمہارا ہاتھ بڑے مان کے ساتھ”
امید کرتا ہوں بیگم صاحبہ کو حقیر سا تحفہ پسند آیا ہوگا
اسے خیال آیا اسنے تو گفٹ کھولا ہی نہیں تھا اسنے فورا گفٹ نکالا اس میں ایک باکس تھا جس میں گولڈ کی نازک چینز سے رنگ بنی ہوئ تھئ جس میں جھولتا M اور ایک پرپل سٹون کی رنگ لٹک رہی تھی اسنے وہ فورا پہن لی اور میسج کیا
THANKS FOR A UNIQUE GIFT😊
میسج پڑھ کے معیز نے کال کر دی زوئ بہت گھبرا گئ نئے رشتے کا احساس اسنے کال اٹھا تو لی لیکن بات ہی نہیں کر پارہی تھی , معیز بول رہا تھا وہ ہوں ہاں سے زیادہ نہ بولی آخر نیند کا بہانہ کر کے کال بند کردی,,,,,,,,,,,,,
اگلے دن سب مہ پارہ بیگم کے گھر انوائٹڈ تھے عارب کی فیملی کا بھی واپسی کا کوئ ارادہ نہیں تھا,,,,,,,,,,,,,,,اگلے دن سب مہ پارہ بیگم کے گھر اکٹھے تھے کھانا بہت ہی اعلی پائے کا تھا شہر کے بہت نامی گرامی ہوٹل سے معیز نے کھانا آرڈر کروایا تھا,اسکے سسرال والے پہلے باری اسکے گھر آئے تھے,,,, خوشیاں ہی خوشیاں تھیں زھراء بیگم کی خوشی کا تو کوئ ٹھکانہ نہ تھا وہ تو نظر لگنے کے ڈر سے بچوں کو نظر بھر کے نہیں دیکھ رہی تھیں,,,,,,,وہ چاھتی تھیں یہ خوشیاں جو انکے ارد گرد پھیلی ھیں ہمیشہ قائم رہیں اور انکو کسی کی نظر نہ لگے مگر وہ نہیں جانتی تھیں نظر تو لگ چکی تھی..
۞۞۞۞
محفل رات تک جاری رھی ,مہ پارہ بیگم کے گھر سے سب ھنسی خوشی رخصت ہوئے تھے, مگر کوئ دل تھا جس میں آگ لگی ھوئ تھی , کوئ دماغ تھا جس میں کھچڑی پک رھی تھی ان خوشیوں کو ختم کرنے کی, مسڑ اور مسز عارب مہ پارہ بیگم کے گھر ھی تھے ابھی تک اور سب گھر والے سو چکے تھے مگر ان دونوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رھے تھے , انکو کسی پل قرار نہیں آرھا تھا صارم صاحب کی دولت ,انکے بچوں کی خوشیاں کسی طور ان سے ہضم نہیں ھو رھی تھیں, وہ دونوں گہری سوچ میں تھے یہانتک کہ ایکدوسرے سے بھی کوئ بات نہیں کر رھے تھے,,,,,,,,
زارون صاحب کی فیملی گھر پہنچی تو تھکن کی وجہ سے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے, اگلے دن سب کا کھانا زینیہ لوگوں کے گھر تھا اسلیے سب سونے کے لیے لیٹ گئے زوئ کا دو دن بعد پیپر تھا اسلیے وہ پڑھنے لگ گئ ,لیکن تھوڑی دیربعد ہی اسکو نیند آگئ تو وہ لائٹ آف کرکے سوگئ , زرک روم میں آیا اور زینیہ سے بات کرنے کا سوچا مگر نیند نے موقع ہی نہ دیا موبائل ھاتھ میں پکڑے وہ سو گیا تھا وہ بے خبر سو رھا تھا کہ موبائل کی بیل نے اسکی نیند میں خلل ڈالا اسنے مندی مندی آنکھیں کھولیں سکرین پر مسز زینیہ زرک کے الفاظ تھے گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے ڈھائ بجے کا ٹائم تھا اسے فکر ہوئ اس وقت زینیہ کیوں کال کر رھی ھے اسنے کال اٹھائ
,,,,,,,,,,,,اسلام علیکم زینیہ کیسی ھو سب خیریت ھے نہ ?
اسکے پوچھنے کی دیر تھی زینیہ کی سسکیاں بلند ہوئیں وہ تو پریشان ھوگیا
زینیہ کیا ھوا کچھ تو بولو میری جان اسنے پھر پکارا
زرک وہ پاپا😢
زینیہ کیا ھوا پاپا کو پلیز بولو
زرک وہ پاپا کی طبعیت بہت خراب ھے ھم انکو ہاسپٹل لے کے آئے ھیں پلیز آپ آجائیں
زیینیہ تم رو مت میں ابھی آرھا مجھے بتاو تم کونسے ہاسپٹل ہو
مریم ہاسپٹل
اسنے جواب دیا تو زرک بیڈ سے اٹھا گاڑی کی چابی اٹھائ ماما پاپا کو جاکے جگایا زوئ بھی شور سن کے آگئ اور اب وہ چاروں ہاسپٹل چل پڑے وہاں پہنچے تو زینیہ اور اسکی ماما دونوں رو رھئ تھیں دونوں اکیلی تھیں پریشان بھی, زرک نے آگے بڑھ کے آنٹی کو گلے لگایا
آنٹی پلیز مت روئیں انکل ٹھیک ہوجائیں گے کیاکہتے ھیں ڈاکٹر ?
پتہ نہیں بیٹا کچھ نہیں بتا رھے سامعہ بیگم نے آنسو صاف کرتے ھوئے بتایا
میں آگیا ھوں نہ فکر مت کریں آپ میں خود ڈاکٹر سے بات کرتا ھوں
وہ اٹھا تو سامنے زینیہ ماما کے گلے لگی رو رورھی تھی وہ ضبط کرتا پاپا کے ساتھ ڈاکٹر کے روم میں چلا گیا,مگر ڈاکٹر نے انکو جو بات بتائ اسنے زرک کو حقیقتا ہلا کے رکھ دیا تھا اسنے بتایا کے زینیہ کے پاپا کینسر کی لاسٹ سٹیج پر تھے اور اب انکے پاس وقت بہت کم ھے ,یہ سن کر زارون صاحب اور زرک کو دھچکا لگا مگر زارون صاحب نے زرک کو ہمت کرنے اور زینیہ اور اسکی مما کو کچھ نہ بتانے کا بولا
وہ دونوں باھر آئے تو زارون صاحب زینیہ کی ماما کو تسلی دینے لگے کہ ڈاکٹر کہ رھا ھے بہت مسئلہ نہیں ھے بھائ صاحب ٹھیک ہوجائیں گے ,زرک نے زوئ کو اشارہ کیا تو زوئ زینیہ کو باہر لے گئ زرک بھی پیچھے گیا اسنے زینیہ کو تسلی دی سمجھایا اور انکل کے لیے دعا کا کہا ,
تھوڑی دیر بعد زرک دوا لینے چلا گیا, میڈیکل سٹور سے واپسی پر گاڑی بند ہوگئ تو زرک خود ٹیکسی لی فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی اسنے معیز کو فون کرکے ساری صورتحال بتائ اور اسکو گاڑی ورکشاپ پہنچانے اور خالہ خالو کو ہاسپٹل بھیجنے کا کہا , زھراء بیگم نے سامعہ زینیہ اور زوئ کو وضو کرکے نماز میں بھائ صاحب کے لیے دعا کرنے کا کہا وہ سب وضو کرنے جا ھی رھیں تھیں کہ زارون صاحب بھاگتے روم سے باھر آئے اور زوئ کو ڈاکٹر کو بلانے کو کہا ,وہ سب پریشان ھوگئیں اور اندر کی طرف بھاگیں مگر ڈاکٹر آگیا اسنے کسی کو اندر نہیں جانے دیا زینیہ تو پھر سے رونے لگ گئ تھی ,,, زرک ہاسپٹل میں داخل ھوا اور بھاگتا ھوا کاریڈور عبور کر کے روم کی طرف آیا ,سامنے ھی سب کھڑے تھے زینیہ پھر سے رو رھی تھی اس سے پہلے کہ وہ انکے پاس پہنچتا ڈاکٹر روم سے باھر آیا اور بولا..
جاری ہے
۞۞۞۞
اگلے دن یہ لوگ اچانک زھراء بیگم کے گھر چلے گئے اور جاتے ھی زارون صاحب اور زھراء بیگم سے زوئ کا رشتہ مانگ لیا سب ایگری
تھے زرک بھی ادھر ہی تھا وہ بھی خوش تھا معیز ہر لحاظ سے بہترین تھا ,زوئ سے بھی زھراء بیگم کو اسی وقت مرضی پوچھنے کے لیے بھیجا گیا ,زوئ نے فیصلہ اپنے ماما پاپا اور بھائ پر چھوڑا تھا آنا فانا یہ رشتہ طے ہوگیا تھا , سب بہت خوش تھے مہ پارہ بیگم تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاھتی تھیں, آخر ایک ھفتے بعد نکاح ہونا قرار پایا تھا,,,,,,,,,,,
گھر والے گھر پہنچے تو معیز بے چین تھا اورنکاح کا سن کر تو وہ اچھل پڑا تھا , اسکو امید نہیں تھی یہ سب ایسے ہوجائے گا, وہ اپنے روم میں آگیا تھا اور اسکو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ وہ خوشی میں کیا کرے,,,,,,,
دوسری برف زوئ کو اتنی جلدی نکاح کا پتہ چلا تو وہ اسکی کیفیت عجیب تھی ,اسنے معیز کے بارے میں کبھی ایسا سوچانہیں تھا اسنے ماما کو تو یہ کہ دیا تھا کہ زرک ماما اور پاپا اسکے لیے جو چاھے فیصلہ کریں مگر اتنی جلدی اسکا مانئڈ نکاح کو ایکسیپٹ نہیں کر رھا تھا,اسنے سوچا زرک سے شئیر کرے وہ ہی اسے سمجھا سکتا تھا مگر اس وقت اس کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا وہ زرک کو کیسے بلائے , اسنے زرک کو دل میں پکارا زرک پلیز آجاو , وہ کمرے میں بیٹھی سوچ رھی تھی کہ دروازہ ناک ہوا
یس کم ان وہ بولی تو آنیوالے نے ناب گھمائ اور اندر داخل ہوا وہ جانتی تھی زرک ہوگا, وہ دستک کے انداز,پہچانتی تھی
وہ آہستہ آہستہ چلتا اسکے قریب آکر بیٹھ گیا, زوئ نے اسکے کندھے سے سر ٹکا دیا,زرک نے اسکے گرد بازو پھیلایا وہ جانتا تھا وہ پریشان ہوگی وہ تو نازک دل تھی ذرہ سی بات پر پریشان ہونے والی تو یہ تو اسکی زندگی کا فیصلہ تھا ,
زوئ مائ ڈول کیا بات ھے,خوش نہیں ہو کیا ہمارے فیصلے سے اگر ایسا ھے تو مجھے بتا دو ہمارے لیے تمہاری خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے?
وہ بولا تو اسکے لہجے میں بہن کی محبت بول رہی تھی ,,
زرک ایسی بات نہیں ہے وہ دھیما سا بولی تھی
تو پھر کیا بات ھے زوئ زرک نے اسکی تھوڑی کو ہلکا سا اونچا کیا اور اسکی طرف دیکھ کر بولا
زرک میں نے معیز کے بارے میں انفیکٹ کسی کے بارے میں ایسا نہیں سوچا فلحال میں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں سوچا تھا پھر اچانک یہ سب اور بات منگنی کی ہوتی تو اور بات تھی زرک نکاح تو بہت بڑی بات ھے
u know how much i love mama papa and how much i love u and i don’t want to go away from u zarak
بولتے ہوئے اسکی آنکھیں بھرا گئیں تو زرک کو بھی سوچ کر ھی گھبراہٹ ھوگئ اسکی ڈول اس سے دور ہوجائے گی اسکے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیااسنے بمشکل خود کو کمپوز کیا اور اسکو ساتھ لگاتے ہوئے بولا پگلی بہنوں کو تو جانا ہی ہوتا ایک نہ ایک دن, اور کون جانے نصیب کہاں لکھا,معیز کوئ غیر نہیں ہمارا دیکھا بھالا ہے اور اسکے ساتھ تمہیں ہم سے دور بھی نہیں ہونا پڑے گا,اور ابھی صرف نکاح ہوگا شادی تو تمہاری سٹڈیز کے بعد ہی ہوگی گڑیا لیکن تم سوچ لو آخری فیصلہ تمہارا ہوگا جو تم چاہو گی کوئ زبردستی نہیں ھے,,,,,,,,وہ اسکا سر تھپتھپا کر جانے لگا تو وہ بولی
زرک مجھے کوئ اعتراض نہیں تم لوگوں کے فیصلے پر جیسے تم لوگوں کی مرضی زرک کو خوشی ہوئ کہ اسکی بہن نے اسکا مان رکھا ھے
۞۞۞۞
ماما پاپا تک زوئ کا جواب پہنچ گیا تھا اور زھراء بیگم نے اگلے ہی دن مہ پارہ کو فون پر خوشخبری سنا دی تھی دونوں گھروں میں نکاح کی تیاریاں شروع ہوچکیں تھیں , مہ پارہ بیگم کے گھر کی پہلی خوشئ تھی اسلیے وہ ہر چیز میں بہت ایکسائیٹڈ تھیں , معیز تو سب سے پہلے جیولرز شاپ پر گیا تھا اور اسنے جاتے ہی وہ انگھوٹھی خرید کر لائ تھی جو زرک کے نکاح پر اسنے زوئ کی انگلی میں دیکھ کے سوچا تھا کہ وہ بنی ہی اس انگلی کے لیے ھے , انگھوٹھی میں اسنے اپنی پسند سے تھوڑی سی تبدیلی کروائ تھی, اسنے زوئ کو وہ انگھوٹھی گفٹ کرنی تھی, باقی کی تیاریاں ماما کر رھی تھیں ,زوئ نے اپنی شاپنگ زینئیہ اور زرک کے ساتھ مل کر کی تھی ,زرک نے اپنے اور زینیہ کے لیے بلیک ڈریس بنوایا تھا لیکن اسنے یہ بات ماما اور زوئ سے خفیہ رکھی تھی , دونوں گھروں میں خوب رونق تھی,,,,,,,,,,,,,
صارم صاحب نے مہ پارہ بیگم کے سمجھانے پر عارب اور اسکی فیملی کو بھی انوائٹ کیا تھا, انکو امید تو نہیں تھی کہ وہ آئیں گے مگر پھر بھی انہوں نے دل بڑا کر کے محبت کا ہاتھ بڑھایا تھا,,,,,,,,,
نکاح کا دن آن پہنچا تھا سب تیار ہو رہے تھے کہ عارب اور اسکی فیملی بھی پہنچ گئ, مہ پارہ بیگم کو خوشی ہوئ کہ عارب شائد سب بھلا کے آیا ھے مگر دل کے حال تو رب سوہنا ہی جانتا تھا مگر انہوں نے کھلے دل سے دیور اور اسکی فیملی کو ویلکم کیا تھا , عارب کے دو بچے تھے ایک بیٹا معیز سے تھوڑا چھوٹا جبکہ بیٹی ماہم کے ہم عمر تھی, بچے آپس میں پہلی بار ملے تھے مہ پارہ بیگم کے بچے تو انکی طرح رشتہ داروں سے مل کے بہت خوش تھے مگر عارب کے بچوں نے کچھ خاص رسپونس نہ دیا تھا , البتہ عارب اور انکی بیگم کا انداز بہت ملنسار تھا ,صارم صاحب کو تو نہ جانے کیوں انکا رویہ فیک معلوم ہورہا تھا,,,,,,,,,
سب تیار ہو کر ہال میں پہنچے زوئ کی فیملی کی طرف سے ہونے والا استقبال قابل دید تھا, نکاح کا مرحلہ سر انجام پایا تو زوئ کے ساتھ ساتھ زھراء بیگم کے آنسو بھی آوٹ آف کنڑول تھے, زرک نے مشکل سے زھراء بیگم کو روم سے باہر بھیجا خود وہ ضبط کی کڑی منزلیں طے کر رھا تھا,
تصاویر اور مووی کا سلسلہ شروع ہوا تو زوئ تو بے انتہا تھک گئ اسنے مددکے لیے ادھر ادھر دیکھا تو زرک نظر آیا اسنے مدد طلب نظروں سے دیکھا تو زرک نے کیمرہ مین کو اپنی طرف بلا لیا اور زینیہ کے ساتھ شوٹ کروانے لگا ,دونوں نے بلیک سوٹ پہن رکھے تھے ہر ایک کی توجہ کا مظہر تھے سب انکی جوڑی کو چاند سورج کی جوڑی قرار دے رہے تھے,زینیہ کے ساتھ شوٹ کے بعد زرک نے ماما پاپا اور پھر باقی سب کے ساتھ بھی پکچرز بنائیں تھیں,زوئ کو سٹیج پر لانے کا مرحلہ تھا زھراء بیگم کے کہنے پر زرک اور زینیہ اسکو پکڑ کر لائے وہ تینوں ساتھ چلتے ہر نگاہ کا مرکز تھے سٹیج کے قریب پہنچے تو زرک نے سہارا دے کے بہن کو اوپر چڑھایا معیز استقبال کے لیے کھڑا ہوا زوئ کو اسکے بائیں جانب بٹھایا گیا, ماہم نے زینیہ کے ساتھ مل کے معیز کے ساتھ دودھ پلائ کی رسم کی حالانکہ بڑوں کے مطابق ابھی صرف نکاح تھا مگر بچے کسی کی ماننے والے کہاں تھے ,زوئ اور معیز ساتھ بیٹھے جچ رہے تھے زوئ کا معصوم حسن اور معیز کی مردانہ وجاہت بہت سی آنکھوں نے انکو رشک سے دیکھا مگر کون جانتا تھا کہ کونسی نگاہ میں رشک ہے اور کونسی میں حسد,,,,,,,,,,
کھانا کھل گیا تھا سب لوگ کھانے میں مشغول تھے, کوئ کھانے میں اچھائ بتا رہا تھا تو کسی کو نقص بھی نظر آرہا ہوگا دوسری طرف عارب اور انکی بیگم کے سینے پر زوئ کی خوبصورتی, مہ پارہ بیگم کی فیملی کی خوشیاں اور شان و شوکت دیکھ کے سانپ لوٹ رہے تھے, انکو افسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے اگر جائیداد والا شور نہ مچایا ہوتا تو آج زوئ کئ جگہ معیز کے پہلو میں انکی بیٹی عافیہ ہوتی, مسز عارب کف افسوس مل رہی تھیں جبکہ عارب صاحب کا دماغ سوچ میں مصروف تھا,,,,,,,,,,,,,,,,,,
نکاح خیر وعافیت سے ہوگیا تھا, سب مہمان چلے گئے تھے, مہ پارہ بیگم کی فیملی کو زھراء بیگم نے اپنی طرف انوائٹ کردیا تھا سامعہ بیگم کی فیملی بھی ساتھ ہی تھی عارب صاحب نے ابھی ایک دو دن رکنے کا سوچا تھا اسلیے وہ بھی انکے ساتھ ہی تھے رات کا کھانا باھر سے آرڈر کروایا گیا تھا ,خوب رونق تھی ,بچے الگ بیٹھے ہوئے تھے بڑوں کی الگ محفل جمی ہوئ تھی
معیز نے سب کی نظر بچا کے زوئ کو گفٹ دینے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا وہ تو ملنا بھی چاھتا تھا لیکن زرک کے سامنے اسے اچھا نہیں لگ رھا تھا, اسلیے اسنے ماہم کے ہاتھ گفٹ دے دیا تھا, سب بہت خوش تھے رات دیر تک محفل جاری رہی تھی پھر سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارے,رات میں ماما زوئ کے پاس آئیں دودھ کا گلاس دینے تو وہ ڈریس چینج کر کے بیٹھی ہی تھی مما کو وہ اداس لگی وہ اسکے ساتھ بیٹھ گئیں وہ انکئ گود میں سر رکھے لیٹی تھی کہ زرک زوئ کے کمرے میں آیا وہ جانتا تھا زوئ اکیلی اداس ہوگی مگر ماما بھی ادھر ہی تھیں وہ بھی بیٹھ گیا اور زوئ کو اداس دیکھ کے اسکو باتوں میں لگانا چاھا مگر وہ تو جیسے بھرے دل سے بیٹھئ تھی بھائ اور ماں کا ہاتھ پکڑ کے رونے لگئ تو ان دونوں سے ضبط مشکل ہو گیا پھر تو وہ تینوں بہت دیر روتے رہے پھر زرک نے ہی ماں اور بہن کو سنمبھالا تھا, تھوڑی دیر بعد ماما کے کہنے پر زرک روم میں سونے چلا گیا اور ماما بھی زوئ کو سونے کا کہ کے چلی گئیں ,تھوڑی دیر وہ سونے کی کوشش کرتی رھی مگر جب نیند نہ آئ تو موبائل اٹھایا ایک دم میسج بلنک ہوا معیز کانمبر تھا اسنے میسج کھولا
“کوئی دور ہو کر بہت قریب رہتا ہے
ہم نہیں کہتے، یہ ہمارا دِل کہتا ہے”
دوبارہ میسج آیا
“مرے جزبوں کو صدا یوں ہی مہکائے رکھنا
میں نے تھاما ہے تمہارا ہاتھ بڑے مان کے ساتھ”
امید کرتا ہوں بیگم صاحبہ کو حقیر سا تحفہ پسند آیا ہوگا
اسے خیال آیا اسنے تو گفٹ کھولا ہی نہیں تھا اسنے فورا گفٹ نکالا اس میں ایک باکس تھا جس میں گولڈ کی نازک چینز سے رنگ بنی ہوئ تھئ جس میں جھولتا M اور ایک پرپل سٹون کی رنگ لٹک رہی تھی اسنے وہ فورا پہن لی اور میسج کیا
THANKS FOR A UNIQUE GIFT😊
میسج پڑھ کے معیز نے کال کر دی زوئ بہت گھبرا گئ نئے رشتے کا احساس اسنے کال اٹھا تو لی لیکن بات ہی نہیں کر پارہی تھی , معیز بول رہا تھا وہ ہوں ہاں سے زیادہ نہ بولی آخر نیند کا بہانہ کر کے کال بند کردی,,,,,,,,,,,,,
اگلے دن سب مہ پارہ بیگم کے گھر انوائٹڈ تھے عارب کی فیملی کا بھی واپسی کا کوئ ارادہ نہیں تھا,,,,,,,,,,,,,,,اگلے دن سب مہ پارہ بیگم کے گھر اکٹھے تھے کھانا بہت ہی اعلی پائے کا تھا شہر کے بہت نامی گرامی ہوٹل سے معیز نے کھانا آرڈر کروایا تھا,اسکے سسرال والے پہلے باری اسکے گھر آئے تھے,,,, خوشیاں ہی خوشیاں تھیں زھراء بیگم کی خوشی کا تو کوئ ٹھکانہ نہ تھا وہ تو نظر لگنے کے ڈر سے بچوں کو نظر بھر کے نہیں دیکھ رہی تھیں,,,,,,,وہ چاھتی تھیں یہ خوشیاں جو انکے ارد گرد پھیلی ھیں ہمیشہ قائم رہیں اور انکو کسی کی نظر نہ لگے مگر وہ نہیں جانتی تھیں نظر تو لگ چکی تھی..
۞۞۞۞
محفل رات تک جاری رھی ,مہ پارہ بیگم کے گھر سے سب ھنسی خوشی رخصت ہوئے تھے, مگر کوئ دل تھا جس میں آگ لگی ھوئ تھی , کوئ دماغ تھا جس میں کھچڑی پک رھی تھی ان خوشیوں کو ختم کرنے کی, مسڑ اور مسز عارب مہ پارہ بیگم کے گھر ھی تھے ابھی تک اور سب گھر والے سو چکے تھے مگر ان دونوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رھے تھے , انکو کسی پل قرار نہیں آرھا تھا صارم صاحب کی دولت ,انکے بچوں کی خوشیاں کسی طور ان سے ہضم نہیں ھو رھی تھیں, وہ دونوں گہری سوچ میں تھے یہانتک کہ ایکدوسرے سے بھی کوئ بات نہیں کر رھے تھے,,,,,,,,
زارون صاحب کی فیملی گھر پہنچی تو تھکن کی وجہ سے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے, اگلے دن سب کا کھانا زینیہ لوگوں کے گھر تھا اسلیے سب سونے کے لیے لیٹ گئے زوئ کا دو دن بعد پیپر تھا اسلیے وہ پڑھنے لگ گئ ,لیکن تھوڑی دیربعد ہی اسکو نیند آگئ تو وہ لائٹ آف کرکے سوگئ , زرک روم میں آیا اور زینیہ سے بات کرنے کا سوچا مگر نیند نے موقع ہی نہ دیا موبائل ھاتھ میں پکڑے وہ سو گیا تھا وہ بے خبر سو رھا تھا کہ موبائل کی بیل نے اسکی نیند میں خلل ڈالا اسنے مندی مندی آنکھیں کھولیں سکرین پر مسز زینیہ زرک کے الفاظ تھے گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے ڈھائ بجے کا ٹائم تھا اسے فکر ہوئ اس وقت زینیہ کیوں کال کر رھی ھے اسنے کال اٹھائ
,,,,,,,,,,,,اسلام علیکم زینیہ کیسی ھو سب خیریت ھے نہ ?
اسکے پوچھنے کی دیر تھی زینیہ کی سسکیاں بلند ہوئیں وہ تو پریشان ھوگیا
زینیہ کیا ھوا کچھ تو بولو میری جان اسنے پھر پکارا
زرک وہ پاپا😢
زینیہ کیا ھوا پاپا کو پلیز بولو
زرک وہ پاپا کی طبعیت بہت خراب ھے ھم انکو ہاسپٹل لے کے آئے ھیں پلیز آپ آجائیں
زیینیہ تم رو مت میں ابھی آرھا مجھے بتاو تم کونسے ہاسپٹل ہو
مریم ہاسپٹل
اسنے جواب دیا تو زرک بیڈ سے اٹھا گاڑی کی چابی اٹھائ ماما پاپا کو جاکے جگایا زوئ بھی شور سن کے آگئ اور اب وہ چاروں ہاسپٹل چل پڑے وہاں پہنچے تو زینیہ اور اسکی ماما دونوں رو رھئ تھیں دونوں اکیلی تھیں پریشان بھی, زرک نے آگے بڑھ کے آنٹی کو گلے لگایا
آنٹی پلیز مت روئیں انکل ٹھیک ہوجائیں گے کیاکہتے ھیں ڈاکٹر ?
پتہ نہیں بیٹا کچھ نہیں بتا رھے سامعہ بیگم نے آنسو صاف کرتے ھوئے بتایا
میں آگیا ھوں نہ فکر مت کریں آپ میں خود ڈاکٹر سے بات کرتا ھوں
وہ اٹھا تو سامنے زینیہ ماما کے گلے لگی رو رورھی تھی وہ ضبط کرتا پاپا کے ساتھ ڈاکٹر کے روم میں چلا گیا,مگر ڈاکٹر نے انکو جو بات بتائ اسنے زرک کو حقیقتا ہلا کے رکھ دیا تھا اسنے بتایا کے زینیہ کے پاپا کینسر کی لاسٹ سٹیج پر تھے اور اب انکے پاس وقت بہت کم ھے ,یہ سن کر زارون صاحب اور زرک کو دھچکا لگا مگر زارون صاحب نے زرک کو ہمت کرنے اور زینیہ اور اسکی مما کو کچھ نہ بتانے کا بولا
وہ دونوں باھر آئے تو زارون صاحب زینیہ کی ماما کو تسلی دینے لگے کہ ڈاکٹر کہ رھا ھے بہت مسئلہ نہیں ھے بھائ صاحب ٹھیک ہوجائیں گے ,زرک نے زوئ کو اشارہ کیا تو زوئ زینیہ کو باہر لے گئ زرک بھی پیچھے گیا اسنے زینیہ کو تسلی دی سمجھایا اور انکل کے لیے دعا کا کہا ,
تھوڑی دیر بعد زرک دوا لینے چلا گیا, میڈیکل سٹور سے واپسی پر گاڑی بند ہوگئ تو زرک خود ٹیکسی لی فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی اسنے معیز کو فون کرکے ساری صورتحال بتائ اور اسکو گاڑی ورکشاپ پہنچانے اور خالہ خالو کو ہاسپٹل بھیجنے کا کہا , زھراء بیگم نے سامعہ زینیہ اور زوئ کو وضو کرکے نماز میں بھائ صاحب کے لیے دعا کرنے کا کہا وہ سب وضو کرنے جا ھی رھیں تھیں کہ زارون صاحب بھاگتے روم سے باھر آئے اور زوئ کو ڈاکٹر کو بلانے کو کہا ,وہ سب پریشان ھوگئیں اور اندر کی طرف بھاگیں مگر ڈاکٹر آگیا اسنے کسی کو اندر نہیں جانے دیا زینیہ تو پھر سے رونے لگ گئ تھی ,,, زرک ہاسپٹل میں داخل ھوا اور بھاگتا ھوا کاریڈور عبور کر کے روم کی طرف آیا ,سامنے ھی سب کھڑے تھے زینیہ پھر سے رو رھی تھی اس سے پہلے کہ وہ انکے پاس پہنچتا ڈاکٹر روم سے باھر آیا اور بولا..
جاری ہے