رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 9
انہی مشکل دنوں میں ایک دن وہ ہاسپٹل میں بیٹھا تھا ماما سو رھی تھیں ,کہ وقت گزاری کے لیے اسنے نیوز پیپر اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا, وہ پڑھ رہا تھا کہ اسکو ایک ایڈ نے اپنی طرف متوجہ کرلیا,وہ ایک جاب کا اشتہار تھا, باہر کی کسی کمپنی کو ایمپلائز کی ضرورت تھی , اسنے پورا پڑھا پڑھائ کئ کوئ قید نہ تھی اور سیلرئ بھی اچھی خاصی تھی, اسنے سوچا اگر وہ بھی کسی طرح باھر چلا جائے تو نہ صرف ماما کا علاج اچھا ہوسکتا بلکہ اسکی پڑھائ بھی کمپلیٹ ھو سکتی ھے اور پھر اسنے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا
اسنے سوچا تھا فلحال وہ کسی سے بات نہیں کریگا اور جب سارے انتظامات ھوگئے تب ھی سبکو بتائے گا کیونکہ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئ اسکے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنے ,وہ زیادہ پیسے خرچ کرکے نہیں جانا چاھتا تھا ,اسلیے اسنے کافی لوگوں سے بات کی اور پھر اسنے کسی کے توسط سے ایک ایجنٹ سے ملاقات کی جس نے اسکو یقین دلایاتھا کہ اسکو باہر بجھوا دینگے اور بھی کچھ لڑکے تھے جنکو وہ ایجنٹ لے کہ جارھا تھا, اسنے زرک کو کہا تھا کہ ایک مہینے بعد اسنے جانا ھے اسلیے وہ تیاری مکمل کرلے
وہ چاھتا تھا کہ مما اسکے جانے سے پہلے ٹھیک ھوجایئں وہ زوئ کو اکیلا چھوڑ کے نہیں جاسکتا تھا یوں تو زینیہ اور سامعہ بیگم تھیں مگر وہ جانتا تھا اسکی بہن کا دل بہت نازک ھے, مگر ایسا نہ ھوسکا تھا, اسکے جانے کے دن قریب آگئے تھے, اسنے سب سے پہلے معیز کو بتایا وہ پریشان ھوگیا مگر زرک کی مجبوری سمجھ کہ کچھ نہ بولا مگر اسنے زرک کو زوئ, خالہ ,زینیہ اور اسکی ماما کا خیال رکھنے کا یقین دلایا تھا,اسنے معیز کا شکریہ ادا کیا تھا ,اسنے سامعہ بیگم سے بات کی اس سے پہلے کہ وہ اسکو روکتیں اسنے اپنی مجبوریاں بتا کر انکو خاموش کرادیا تھا, وہ نم آنکھوں سے اسکو دعائیں دیتی رھیں, انہوں نے بھی زوئ اور زھراء بیگم کا خیال رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا, ماہم میثم بھی اداس تھے ,زینیہ خفا تھی جبکہ زوئ نے تو رو رو کہ برا حال کر رکھا تھا وہ زینیہ اور زوئ کو سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا ,مگر ان دونوں نے تو جیسے اسکی بات نہ سننے کی قسم کھا لی تھی..
۞۞۞۞
اس دن معمول کے مطابق زرک زینیہ کو ہاسپٹل سے لینے اور زوئ کو چھوڑنے گیا تھا تو ڈاکٹر نے ماما کی ٹانگ کے آپریشن کا بولا تھا, اور اسکے لیے خون کا بندوبست کرنے کا کہا تھا, اسنے معیز کو بلایا تھا, پھر زرک کا بلڈ گروپ میچ ھوگیا اور اسنے خود ھی ماما کو خون دیا ,ٹانگ کا آپریشن کامیاب ھوا تھا , ڈاکٹرز کے خیال میں اب وہ کچھ ٹائم بعد چل پھر سکتیں تھیں ,مگر فالج نے ایک بازو, اور دماغ ,زبان سب متاثر کیے تھے,تھراپی جاری تھی, انکے روز وشب ہاسپٹل اور گھر کے بیچ مقید تھے, زینیہ بھی بھرپور ساتھ دے رھئ تھی وہ آنٹی اور زینیہ کا مشکور تھا, آنٹی نے سارا گھر سمبھال رکھا تھا,وہ روز جاب کے سلسلے میں بھی بھاگ دوڑ کر رھا تھا,مگر ابھی تک کچھ نہیں بنا تھا, اگر کہیں ملتی بھی تو اتنی چھوٹی جاب جس میں ٹائم انتہا کا جبکہ سیلرئ نہ ھونے کہ برابر ھوتی, ایسے ھی معمول کے دنوں میں ایک دن وہایک جگہ انٹرویو کے لیے گیا تھا اسکو امید تھی اسکا سلیکشن ھوجائے گا کیونکہ جاب f.s.c کی بیس پر تھی , مگر وہاں ایم اے لیول کے لوگ دیکھ کہ اسکو اندازہ ھوگیا کہ اسکی دال نہیں گل سکتی , اور وہی ھوا اسکو جواب دے دیا گیا, اس رات وہ بہت ٹوٹا ھوا تھا, پے درپے مسائل اور پریشانیوں نے اسکو نچوڑ دیا تھا اور پہلی بار وہ اپنے کمرے میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا, وہ جو اپنی ماں اور بہن کا حوصلہ تھا آج خود حوصلہ چھوڑ بیٹھا تھا,اسنے رورو کر اللہ سے ماما کی زندگی مانگی تھی , وہ تھک چکا تھا اسنے رب کو پکارا تھا اور صبح اسے ایک خوشخبری سننے کو ملی, ہاسپٹل پہنچا تو تھراپسٹ نے بتایا کہ رات ماما نے انگلیوں کو تھوڑی حرکت دی تھی , اور زبان سے بھی کچھ آوازیں نکالیں تھیں, اسے لگا اسکی دعائیں پوری ھوگئ ھیں, وہ بہت خوش تھا ,
اس دن اسنے ماما سے ڈھیروں باتیں کی تھیں ماما کے ھاتھوں کو چوما تھا, وہ ماما کو صحت یاب دیکھنا چاھتا تھا, اس نے بہت کچھ کھو دیا تھا اب جو اسکے پاس تھا وہ انکو دور نہیں دیکھ سکتا تھا, اس دن گھر جاکے اسنے زوئ ,زینیہ اور آنٹی کو ماما کے بارے میں بتایا تھا اس دن اسنے دیکھا زینیہ بہت ویک ھوگئ تھی ,زوئ بھی چپ چپ تھی اسنے انکے ساتھ کھانا کھایا اور ان دونوں کو تسلی بھی دی تھی,
پھر اپنے کمرے میں آگیا جاب کے بارے میں اسکی پریشانی برقرار تھی, اسنے سوچنا شروع کیا ,بزنس سے نہ اسکو لگاو تھا بہ وسائل تھے ,جاب اسکو مل نہیں رھئ تھئ,
انہی مشکل دنوں میں ایک دن وہ ہاسپٹل میں بیٹھا تھا ماما سو رھی تھیں ,کہ وقت گزاری کے لیے اسنے نیوز پیپر اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا, وہ پڑھ رہا تھا کہ اسکو ایک ایڈ نے اپنی طرف متوجہ کرلیا,وہ ایک جاب کا اشتہار تھا, باہر کی کسی کمپنی کو ایمپلائز کی ضرورت تھی , اسنے پورا پڑھا پڑھائ کئ کوئ قید نہ تھی اور سیلرئ بھی اچھی خاصی تھی, اسنے سوچا اگر وہ بھی کسی طرح باھر چلا جائے تو نہ صرف ماما کا علاج اچھا ہوسکتا بلکہ اسکی پڑھائ بھی کمپلیٹ ھو سکتی ھے اور پھر اسنے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا
اسنے سوچا تھا فلحال وہ کسی سے بات نہیں کریگا اور جب سارے انتظامات ھوگئے تب ھی سبکو بتائے گا کیونکہ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئ اسکے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنے ,وہ زیادہ پیسے خرچ کرکے نہیں جانا چاھتا تھا ,اسلیے اسنے کافی لوگوں سے بات کی اور پھر اسنے کسی کے توسط سے ایک ایجنٹ سے ملاقات کی جس نے اسکو یقین دلایاتھا کہ اسکو باہر بجھوا دینگے اور بھی کچھ لڑکے تھے جنکو وہ ایجنٹ لے کہ جارھا تھا, اسنے زرک کو کہا تھا کہ ایک مہینے بعد اسنے جانا ھے اسلیے وہ تیاری مکمل کرلے
وہ چاھتا تھا کہ مما اسکے جانے سے پہلے ٹھیک ھوجایئں وہ زوئ کو اکیلا چھوڑ کے نہیں جاسکتا تھا یوں تو زینیہ اور سامعہ بیگم تھیں مگر وہ جانتا تھا اسکی بہن کا دل بہت نازک ھے, مگر ایسا نہ ھوسکا تھا, اسکے جانے کے دن قریب آگئے تھے, اسنے سب سے پہلے معیز کو بتایا وہ پریشان ھوگیا مگر زرک کی مجبوری سمجھ کہ کچھ نہ بولا مگر اسنے زرک کو زوئ, خالہ ,زینیہ اور اسکی ماما کا خیال رکھنے کا یقین دلایا تھا,اسنے معیز کا شکریہ ادا کیا تھا ,اسنے سامعہ بیگم سے بات کی اس سے پہلے کہ وہ اسکو روکتیں اسنے اپنی مجبوریاں بتا کر انکو خاموش کرادیا تھا, وہ نم آنکھوں سے اسکو دعائیں دیتی رھیں, انہوں نے بھی زوئ اور زھراء بیگم کا خیال رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا, ماہم میثم بھی اداس تھے ,زینیہ خفا تھی جبکہ زوئ نے تو رو رو کہ برا حال کر رکھا تھا وہ زینیہ اور زوئ کو سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا ,مگر ان دونوں نے تو جیسے اسکی بات نہ سننے کی قسم کھا لی تھی…
۞۞۞۞
اسنے مجبورا دل پر پتھر رکھ لیا تھا , وہ بے بس ھوچکا تھا ورنہ زینیہ کو ناراض دیکھنا اسکے لیے بہت مشکل تھا اور زوئ کا تو ایک آنسو بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا, مگر کیا کرتا زندگی نے ایسے دوراھے پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسکے لیے یہ فیصلہ کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا مجبوری بن گئ تھی, پھر اسے زینیہ کی ناراضگی روک سکی نہ زوئ کے آنسو ,اسکے جانے کا دن آن پہنچا وہ ماما کے پاس گیا تھا کافی دیر انکے پاس بیٹھ کہ باتیں کرتا رھا , پھر انکا ماتھا چوم کے باہر نکلا تو دو آنسو نکلے اسنے خود کو کمپوز کیا اور گھر آگیاآج 10 بجے رات اسنے نکلنا تھا, دن میں اسنے کچھ ضروری کام نبٹائے اور شام کو گھر آیا اسکی پیکنگ ھوئ پڑی تھی , وہ تھوڑی دیر سو گیا اور رات کے کھانے پر آیا تو معیز لوگ بھی آئے ھوئے تھے, زینیہ خاموش تھی مگر اسنے سرینڈر کر دیا تھا, مگر زوئ ہنوز خفا تھی, اسنے کھانا کھایا اور اپنے روم میں آگیا کچھ اہم کالز کرنی تھیں, ایجنٹ سے بات وغیرہ کر کے باقی سب کرکے وہ فری ھوا تھا کہ دروازہ ناک ھوا اسنے یس کہا تو زینیہ اندر آئ اور بولی
زرک ! آپکی پیکنگ کردی تھی ایک بار آپ چیک کر لیں کچھ رہ تو نہیں گیا,
زرک نے آگے بڑھ کے بیگ کھولا اور چیک کیا سب اوکے تھا اسنے زپ بند کی اور بولا
تھینک یو زیین سب اوکے ھے تم نے میرا ہر جگہ ساتھ دیا پلیز میرے جانے کہ بعد زوئ اور ماما کا خیال رکھنا میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولونگا اور میرا انتظار کرنازندگی رہی تو میں جلد لوٹ آونگا
زرک یہ آپ کیسی باتیں کر رھے ھیں اس میں احسان کی کیا بات ھے اور آپکا انتظار تو میں قیامت تک کرسکتی ھوں
وہ ہولے سے بولی ,اسنے بات برائے بات کی تھی مگر وہ بھول گئ بعض گھڑیاں قبولیت کی ھوتیں ھیں,
زیین تم مجھ سے ناراض تو نہیں ھو زرک نے آگے بڑھ کر اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس سے سوال کیا
اسنے نفی میں سر ہلایا مگر آنسو بھل بھل بہ نکلے زرک نے اسکے آنسو صاف کیے اور بولا
زیین جب تک میں زندہ ہوں تمہاری آنکھ میں آئندہ کبھی آنسو نہ آئے مجھے مسکرا کہ وداع کرو جانے والوں کو رو کے نہیں بھیجتے مگر وہ بھول گیا جانے والے تو آنسووں میں ھئ رخصت ھوتے ھیں
اسنے سر ہلایا اور خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی پھر زرک کو باہر آنے اور زوئ کو تسلی دینے کا کہا جو صبح سے کمرے میں بند تھی سوائے کھانے کے وقت کے وہ زینیہ کے ساتھ ھی زوئ کہ کمرے میں چلا گیا, وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی ھوئ تھی اسنے قریب جاکے پکارا تو وہ اٹھ بیٹھی مگر بولی کچھ نہیں ,
اسنےبات شروع کی
زوئ میں نے یہ فیصلہ ماما کی اور تمہاری وجہ سے کیا ھے میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو میں لوٹ آونگا
اسنے دیکھا زوئ کہ آنسو تیزی سے بہ رھے تھے اور اسنے سر جھکا رکھا تھا ,زرک ضبط کی کڑی منزلیں طے کر رھا تھا, مگر اسکے آنسو اسکے دل پر کچوکے لگا رھے تھے,زرک کی برداشت جواب دے گئ اس نے ہاتھ بڑھا کر زوئ کو گلے لگا لیا اور پھر تو وہ اتنا روئے کہ زینیہ کے لیے آنسو برداشت کرنا مشکل ھوگیا, معیز لوگ بھی سب اکٹھے ھوگئے دونوں بہن بھائ کوسامعہ بیگم نے بہت مشکل سے جدا کیا تھا , تھوڑی دیر بعد زینیہ ماما کہ کہنے پر سب کے لیے جوس لے آئ , زوئ کو زرک نے زبردستی جوس پلایا اور 9 بجے وہ سب کو اداس چھوڑ کر چلا گیا اسکے جاتے ھی زوئ نے اسکے کمرے میں جاکے اسکی گھڑی کی سویاں روک دیں اور اسکا کمرہ بند کردیا ,بھائ کے جانے سے اسے لگا تھا وقت ٹھہر گیا ھے وہ ابھی نکلا تھا مگر وہ اسکی واپسی کی ابھی سے منتظر تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ اتنی جلدی واپس آجایگا,,,,,,,
زرک نے 10 بجے کراچی فلائ کیا تھا ایجنٹ نے انکو بتایا تھا کہ انکی فلائٹ کراچئ سے ھے اور 11 بجے وہ کراچئ تھے, مگر وہاں پہنچنے کہ کافی دیر بعد انکو پتہ چلا کہ انکو آگے سفر پلین پر نہیں بلکہ بائ روڈ کرنا تھا ,زرک کہ ساتھ 12 لڑکے اور بھی تھے ان سب کو غصہ تو آیا لیکن مجبوری تھی اسلیے ایجنٹ اور اسکے بندوں کے ساتھ چل پڑے گوادر سے آگے انھوں نے ایران میں اینٹر ھونا تھا اور وہاں سے بائ بس ترکی جانا تھا, وہ لوگ گوادر پہنچے تو ایجنٹ نے انکو کھانا کھاکر انتظار کرنے کا بولا انکے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ انکا ایک دوست آرھا ھے جو ان 13 لڑکوں کے ساتھ جائے گا اور انتظار طویل ھوتا گیا , 2 گھنٹے گزر گئے 1 سے اوپر کا ٹائم تھا جب لڑکوں کو ایجنٹ نے یہ کہ کر پریشانی میں ڈالدیا کہ وہ آدمی جس نے انکو ساتھ لے کہ جانا تھا اسکے پاس ھی ان سب کہ ڈاکومنٹس تھے ایران پہنچ چکا ھے
اسنے لڑکوں کو کہا کہ اب رات بہت ھوچکی ھے اسوقت پہرہ سخت نہیں ھوتا اسلیے وہ لوگ بارڈر کراس کرلیں اور ایران میں اینٹر ھوتے ھی وہ آدمی انکو مل جائے گا پھر اس سے اپنے کاغذ لے کر وہ لوگ اسکے ساتھ ترکی جاسکتے ھیں جہاں انکے لیے ایک روشن مستقبل منتظر ھوگا , باقی سب لڑکے تو سیدھے سادے تھے اور نہ ھونے کہ برابر پڑھے لکھے اسلیے ایجنٹ کی بات مان لی مگر زرک کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رھا تھا وہ ایجنٹ سے لڑ پڑا مگر اسنے یہ کہ کر جان چھڑا لی کہ اگر وہ نہیں جانا چاھتا تو واپس چلا جائےاسکو اپنا پیسہ ڈوبتا نظر آرھا تھا پھر جاب اور پیسہ اسکئ ضرورت تھا, اسنے بھی باقی لڑکوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا سوچا, ایجنٹ تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ھولیا جبکہ وہ سب آگے بڑھنے لگے آدھے پونے گھنٹے بعد بارڈر انکے سامنے تھا… جاری ہے
اسنے سوچا تھا فلحال وہ کسی سے بات نہیں کریگا اور جب سارے انتظامات ھوگئے تب ھی سبکو بتائے گا کیونکہ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئ اسکے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنے ,وہ زیادہ پیسے خرچ کرکے نہیں جانا چاھتا تھا ,اسلیے اسنے کافی لوگوں سے بات کی اور پھر اسنے کسی کے توسط سے ایک ایجنٹ سے ملاقات کی جس نے اسکو یقین دلایاتھا کہ اسکو باہر بجھوا دینگے اور بھی کچھ لڑکے تھے جنکو وہ ایجنٹ لے کہ جارھا تھا, اسنے زرک کو کہا تھا کہ ایک مہینے بعد اسنے جانا ھے اسلیے وہ تیاری مکمل کرلے
وہ چاھتا تھا کہ مما اسکے جانے سے پہلے ٹھیک ھوجایئں وہ زوئ کو اکیلا چھوڑ کے نہیں جاسکتا تھا یوں تو زینیہ اور سامعہ بیگم تھیں مگر وہ جانتا تھا اسکی بہن کا دل بہت نازک ھے, مگر ایسا نہ ھوسکا تھا, اسکے جانے کے دن قریب آگئے تھے, اسنے سب سے پہلے معیز کو بتایا وہ پریشان ھوگیا مگر زرک کی مجبوری سمجھ کہ کچھ نہ بولا مگر اسنے زرک کو زوئ, خالہ ,زینیہ اور اسکی ماما کا خیال رکھنے کا یقین دلایا تھا,اسنے معیز کا شکریہ ادا کیا تھا ,اسنے سامعہ بیگم سے بات کی اس سے پہلے کہ وہ اسکو روکتیں اسنے اپنی مجبوریاں بتا کر انکو خاموش کرادیا تھا, وہ نم آنکھوں سے اسکو دعائیں دیتی رھیں, انہوں نے بھی زوئ اور زھراء بیگم کا خیال رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا, ماہم میثم بھی اداس تھے ,زینیہ خفا تھی جبکہ زوئ نے تو رو رو کہ برا حال کر رکھا تھا وہ زینیہ اور زوئ کو سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا ,مگر ان دونوں نے تو جیسے اسکی بات نہ سننے کی قسم کھا لی تھی..
۞۞۞۞
اس دن معمول کے مطابق زرک زینیہ کو ہاسپٹل سے لینے اور زوئ کو چھوڑنے گیا تھا تو ڈاکٹر نے ماما کی ٹانگ کے آپریشن کا بولا تھا, اور اسکے لیے خون کا بندوبست کرنے کا کہا تھا, اسنے معیز کو بلایا تھا, پھر زرک کا بلڈ گروپ میچ ھوگیا اور اسنے خود ھی ماما کو خون دیا ,ٹانگ کا آپریشن کامیاب ھوا تھا , ڈاکٹرز کے خیال میں اب وہ کچھ ٹائم بعد چل پھر سکتیں تھیں ,مگر فالج نے ایک بازو, اور دماغ ,زبان سب متاثر کیے تھے,تھراپی جاری تھی, انکے روز وشب ہاسپٹل اور گھر کے بیچ مقید تھے, زینیہ بھی بھرپور ساتھ دے رھئ تھی وہ آنٹی اور زینیہ کا مشکور تھا, آنٹی نے سارا گھر سمبھال رکھا تھا,وہ روز جاب کے سلسلے میں بھی بھاگ دوڑ کر رھا تھا,مگر ابھی تک کچھ نہیں بنا تھا, اگر کہیں ملتی بھی تو اتنی چھوٹی جاب جس میں ٹائم انتہا کا جبکہ سیلرئ نہ ھونے کہ برابر ھوتی, ایسے ھی معمول کے دنوں میں ایک دن وہایک جگہ انٹرویو کے لیے گیا تھا اسکو امید تھی اسکا سلیکشن ھوجائے گا کیونکہ جاب f.s.c کی بیس پر تھی , مگر وہاں ایم اے لیول کے لوگ دیکھ کہ اسکو اندازہ ھوگیا کہ اسکی دال نہیں گل سکتی , اور وہی ھوا اسکو جواب دے دیا گیا, اس رات وہ بہت ٹوٹا ھوا تھا, پے درپے مسائل اور پریشانیوں نے اسکو نچوڑ دیا تھا اور پہلی بار وہ اپنے کمرے میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا, وہ جو اپنی ماں اور بہن کا حوصلہ تھا آج خود حوصلہ چھوڑ بیٹھا تھا,اسنے رورو کر اللہ سے ماما کی زندگی مانگی تھی , وہ تھک چکا تھا اسنے رب کو پکارا تھا اور صبح اسے ایک خوشخبری سننے کو ملی, ہاسپٹل پہنچا تو تھراپسٹ نے بتایا کہ رات ماما نے انگلیوں کو تھوڑی حرکت دی تھی , اور زبان سے بھی کچھ آوازیں نکالیں تھیں, اسے لگا اسکی دعائیں پوری ھوگئ ھیں, وہ بہت خوش تھا ,
اس دن اسنے ماما سے ڈھیروں باتیں کی تھیں ماما کے ھاتھوں کو چوما تھا, وہ ماما کو صحت یاب دیکھنا چاھتا تھا, اس نے بہت کچھ کھو دیا تھا اب جو اسکے پاس تھا وہ انکو دور نہیں دیکھ سکتا تھا, اس دن گھر جاکے اسنے زوئ ,زینیہ اور آنٹی کو ماما کے بارے میں بتایا تھا اس دن اسنے دیکھا زینیہ بہت ویک ھوگئ تھی ,زوئ بھی چپ چپ تھی اسنے انکے ساتھ کھانا کھایا اور ان دونوں کو تسلی بھی دی تھی,
پھر اپنے کمرے میں آگیا جاب کے بارے میں اسکی پریشانی برقرار تھی, اسنے سوچنا شروع کیا ,بزنس سے نہ اسکو لگاو تھا بہ وسائل تھے ,جاب اسکو مل نہیں رھئ تھئ,
انہی مشکل دنوں میں ایک دن وہ ہاسپٹل میں بیٹھا تھا ماما سو رھی تھیں ,کہ وقت گزاری کے لیے اسنے نیوز پیپر اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا, وہ پڑھ رہا تھا کہ اسکو ایک ایڈ نے اپنی طرف متوجہ کرلیا,وہ ایک جاب کا اشتہار تھا, باہر کی کسی کمپنی کو ایمپلائز کی ضرورت تھی , اسنے پورا پڑھا پڑھائ کئ کوئ قید نہ تھی اور سیلرئ بھی اچھی خاصی تھی, اسنے سوچا اگر وہ بھی کسی طرح باھر چلا جائے تو نہ صرف ماما کا علاج اچھا ہوسکتا بلکہ اسکی پڑھائ بھی کمپلیٹ ھو سکتی ھے اور پھر اسنے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا
اسنے سوچا تھا فلحال وہ کسی سے بات نہیں کریگا اور جب سارے انتظامات ھوگئے تب ھی سبکو بتائے گا کیونکہ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئ اسکے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنے ,وہ زیادہ پیسے خرچ کرکے نہیں جانا چاھتا تھا ,اسلیے اسنے کافی لوگوں سے بات کی اور پھر اسنے کسی کے توسط سے ایک ایجنٹ سے ملاقات کی جس نے اسکو یقین دلایاتھا کہ اسکو باہر بجھوا دینگے اور بھی کچھ لڑکے تھے جنکو وہ ایجنٹ لے کہ جارھا تھا, اسنے زرک کو کہا تھا کہ ایک مہینے بعد اسنے جانا ھے اسلیے وہ تیاری مکمل کرلے
وہ چاھتا تھا کہ مما اسکے جانے سے پہلے ٹھیک ھوجایئں وہ زوئ کو اکیلا چھوڑ کے نہیں جاسکتا تھا یوں تو زینیہ اور سامعہ بیگم تھیں مگر وہ جانتا تھا اسکی بہن کا دل بہت نازک ھے, مگر ایسا نہ ھوسکا تھا, اسکے جانے کے دن قریب آگئے تھے, اسنے سب سے پہلے معیز کو بتایا وہ پریشان ھوگیا مگر زرک کی مجبوری سمجھ کہ کچھ نہ بولا مگر اسنے زرک کو زوئ, خالہ ,زینیہ اور اسکی ماما کا خیال رکھنے کا یقین دلایا تھا,اسنے معیز کا شکریہ ادا کیا تھا ,اسنے سامعہ بیگم سے بات کی اس سے پہلے کہ وہ اسکو روکتیں اسنے اپنی مجبوریاں بتا کر انکو خاموش کرادیا تھا, وہ نم آنکھوں سے اسکو دعائیں دیتی رھیں, انہوں نے بھی زوئ اور زھراء بیگم کا خیال رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا, ماہم میثم بھی اداس تھے ,زینیہ خفا تھی جبکہ زوئ نے تو رو رو کہ برا حال کر رکھا تھا وہ زینیہ اور زوئ کو سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا ,مگر ان دونوں نے تو جیسے اسکی بات نہ سننے کی قسم کھا لی تھی…
۞۞۞۞
اسنے مجبورا دل پر پتھر رکھ لیا تھا , وہ بے بس ھوچکا تھا ورنہ زینیہ کو ناراض دیکھنا اسکے لیے بہت مشکل تھا اور زوئ کا تو ایک آنسو بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا, مگر کیا کرتا زندگی نے ایسے دوراھے پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسکے لیے یہ فیصلہ کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا مجبوری بن گئ تھی, پھر اسے زینیہ کی ناراضگی روک سکی نہ زوئ کے آنسو ,اسکے جانے کا دن آن پہنچا وہ ماما کے پاس گیا تھا کافی دیر انکے پاس بیٹھ کہ باتیں کرتا رھا , پھر انکا ماتھا چوم کے باہر نکلا تو دو آنسو نکلے اسنے خود کو کمپوز کیا اور گھر آگیاآج 10 بجے رات اسنے نکلنا تھا, دن میں اسنے کچھ ضروری کام نبٹائے اور شام کو گھر آیا اسکی پیکنگ ھوئ پڑی تھی , وہ تھوڑی دیر سو گیا اور رات کے کھانے پر آیا تو معیز لوگ بھی آئے ھوئے تھے, زینیہ خاموش تھی مگر اسنے سرینڈر کر دیا تھا, مگر زوئ ہنوز خفا تھی, اسنے کھانا کھایا اور اپنے روم میں آگیا کچھ اہم کالز کرنی تھیں, ایجنٹ سے بات وغیرہ کر کے باقی سب کرکے وہ فری ھوا تھا کہ دروازہ ناک ھوا اسنے یس کہا تو زینیہ اندر آئ اور بولی
زرک ! آپکی پیکنگ کردی تھی ایک بار آپ چیک کر لیں کچھ رہ تو نہیں گیا,
زرک نے آگے بڑھ کے بیگ کھولا اور چیک کیا سب اوکے تھا اسنے زپ بند کی اور بولا
تھینک یو زیین سب اوکے ھے تم نے میرا ہر جگہ ساتھ دیا پلیز میرے جانے کہ بعد زوئ اور ماما کا خیال رکھنا میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولونگا اور میرا انتظار کرنازندگی رہی تو میں جلد لوٹ آونگا
زرک یہ آپ کیسی باتیں کر رھے ھیں اس میں احسان کی کیا بات ھے اور آپکا انتظار تو میں قیامت تک کرسکتی ھوں
وہ ہولے سے بولی ,اسنے بات برائے بات کی تھی مگر وہ بھول گئ بعض گھڑیاں قبولیت کی ھوتیں ھیں,
زیین تم مجھ سے ناراض تو نہیں ھو زرک نے آگے بڑھ کر اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس سے سوال کیا
اسنے نفی میں سر ہلایا مگر آنسو بھل بھل بہ نکلے زرک نے اسکے آنسو صاف کیے اور بولا
زیین جب تک میں زندہ ہوں تمہاری آنکھ میں آئندہ کبھی آنسو نہ آئے مجھے مسکرا کہ وداع کرو جانے والوں کو رو کے نہیں بھیجتے مگر وہ بھول گیا جانے والے تو آنسووں میں ھئ رخصت ھوتے ھیں
اسنے سر ہلایا اور خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی پھر زرک کو باہر آنے اور زوئ کو تسلی دینے کا کہا جو صبح سے کمرے میں بند تھی سوائے کھانے کے وقت کے وہ زینیہ کے ساتھ ھی زوئ کہ کمرے میں چلا گیا, وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی ھوئ تھی اسنے قریب جاکے پکارا تو وہ اٹھ بیٹھی مگر بولی کچھ نہیں ,
اسنےبات شروع کی
زوئ میں نے یہ فیصلہ ماما کی اور تمہاری وجہ سے کیا ھے میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو میں لوٹ آونگا
اسنے دیکھا زوئ کہ آنسو تیزی سے بہ رھے تھے اور اسنے سر جھکا رکھا تھا ,زرک ضبط کی کڑی منزلیں طے کر رھا تھا, مگر اسکے آنسو اسکے دل پر کچوکے لگا رھے تھے,زرک کی برداشت جواب دے گئ اس نے ہاتھ بڑھا کر زوئ کو گلے لگا لیا اور پھر تو وہ اتنا روئے کہ زینیہ کے لیے آنسو برداشت کرنا مشکل ھوگیا, معیز لوگ بھی سب اکٹھے ھوگئے دونوں بہن بھائ کوسامعہ بیگم نے بہت مشکل سے جدا کیا تھا , تھوڑی دیر بعد زینیہ ماما کہ کہنے پر سب کے لیے جوس لے آئ , زوئ کو زرک نے زبردستی جوس پلایا اور 9 بجے وہ سب کو اداس چھوڑ کر چلا گیا اسکے جاتے ھی زوئ نے اسکے کمرے میں جاکے اسکی گھڑی کی سویاں روک دیں اور اسکا کمرہ بند کردیا ,بھائ کے جانے سے اسے لگا تھا وقت ٹھہر گیا ھے وہ ابھی نکلا تھا مگر وہ اسکی واپسی کی ابھی سے منتظر تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ اتنی جلدی واپس آجایگا,,,,,,,
زرک نے 10 بجے کراچی فلائ کیا تھا ایجنٹ نے انکو بتایا تھا کہ انکی فلائٹ کراچئ سے ھے اور 11 بجے وہ کراچئ تھے, مگر وہاں پہنچنے کہ کافی دیر بعد انکو پتہ چلا کہ انکو آگے سفر پلین پر نہیں بلکہ بائ روڈ کرنا تھا ,زرک کہ ساتھ 12 لڑکے اور بھی تھے ان سب کو غصہ تو آیا لیکن مجبوری تھی اسلیے ایجنٹ اور اسکے بندوں کے ساتھ چل پڑے گوادر سے آگے انھوں نے ایران میں اینٹر ھونا تھا اور وہاں سے بائ بس ترکی جانا تھا, وہ لوگ گوادر پہنچے تو ایجنٹ نے انکو کھانا کھاکر انتظار کرنے کا بولا انکے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ انکا ایک دوست آرھا ھے جو ان 13 لڑکوں کے ساتھ جائے گا اور انتظار طویل ھوتا گیا , 2 گھنٹے گزر گئے 1 سے اوپر کا ٹائم تھا جب لڑکوں کو ایجنٹ نے یہ کہ کر پریشانی میں ڈالدیا کہ وہ آدمی جس نے انکو ساتھ لے کہ جانا تھا اسکے پاس ھی ان سب کہ ڈاکومنٹس تھے ایران پہنچ چکا ھے
اسنے لڑکوں کو کہا کہ اب رات بہت ھوچکی ھے اسوقت پہرہ سخت نہیں ھوتا اسلیے وہ لوگ بارڈر کراس کرلیں اور ایران میں اینٹر ھوتے ھی وہ آدمی انکو مل جائے گا پھر اس سے اپنے کاغذ لے کر وہ لوگ اسکے ساتھ ترکی جاسکتے ھیں جہاں انکے لیے ایک روشن مستقبل منتظر ھوگا , باقی سب لڑکے تو سیدھے سادے تھے اور نہ ھونے کہ برابر پڑھے لکھے اسلیے ایجنٹ کی بات مان لی مگر زرک کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رھا تھا وہ ایجنٹ سے لڑ پڑا مگر اسنے یہ کہ کر جان چھڑا لی کہ اگر وہ نہیں جانا چاھتا تو واپس چلا جائےاسکو اپنا پیسہ ڈوبتا نظر آرھا تھا پھر جاب اور پیسہ اسکئ ضرورت تھا, اسنے بھی باقی لڑکوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا سوچا, ایجنٹ تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ھولیا جبکہ وہ سب آگے بڑھنے لگے آدھے پونے گھنٹے بعد بارڈر انکے سامنے تھا… جاری ہے