رشتے پیار کے از فیری ملک قسط نمبر 10
بارڈر ان سے 5 منٹ کے فاصلے پر تھا, زرک ھی ان میں سب سے آگے تھا وہ سب تو گھبرائے ھوئے تھے وہ ھی سب کو حوصلہ دے رھا تھا تھوڑی دیر وہ بیٹھے رھے ڈھائ ھونے والے تھے رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی , ایک دو فوجی ھی ڈیوٹی پر تھے جو ایک سرے سے دوسرے سرے پر چکر لگا رھے تھے , ان سب نے مل کر سوچا تھا کہ جب دایئں والا فوجی بائیں طرف چلے اور بایاں دائیں طرف تو وہ سب رینگتے ھوئے بارڈر لائن کی طرف بڑھیں گےاور جب وہ دونوں ایکدوسرے کو کراس کریں گے تو سب تیزی سے آگے بڑھتے ھوئے بارڈر کراس کرجائیں گے ,زرک نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اور ہشام آخر میں ھونگے کیونکہ وک سب لڑکوں میں ایکٹو اور دلیر تھا, باقی سب کو کراس کروانے کے بعد وہ دونوں دوسرے چکر میں کراس کریںنگے, اور دوسرے لڑکوں نے ضد کر کے یہ بات منوائ تھی کہ وہ سب زرک اور ہشام کا ویٹ کرینگے, ورنہ زرک تو چاھتا تھا کہ وہ سب انکا انتظار کیے بنا آگے بڑھ جائیںزرک اور ہشام کو پلین کامیاب ھوا تھا, 11 لڑکے دوسری طرف پہنچ گئے تھے, اب ان دونوں کی باری تھی, وہ دونوں ویٹ میں تھے کہ فوجی اپنی جگہ تبدیل کریں اور وہ آگے بڑھیں, دور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرھی تھیں, زرک آگے کے لیے لائحہ عمل تیار کر رھا تھاجیسے ھی فوجی نے حرکت کی, وہ دونوں آگے سرکے تھے, انکو لگا تھا کہ اب وہ بھی بس کراس کر جائیں گے مگر زرک کو ایک دم چھینک آئ اور اس سے پہلے کہ وہ کنٹرول کرتا دوبارہ چھینک آگئ وہی لمحہ تھا فوجی واپس پلٹا اور چیختے ھوئے کچھ بولا تھاکسی اینجا است
(is anybody here)
من گفتم کجا هستم
(i said who is there)
زرک اور ہشام کو کچھ سمجھ نہ آئ تھی مگر اسکی غصے بھری آواز نے انکو سمجھا دیا کہ وہ انکی موجودگی کو محسوس کر چکا ھے
وہ دم سادھے پڑے تھے اسنے انکی طرف قدم بڑھائے اور سامنے منہ کیے چلایا
گوش کن عزیزم اینجا هست
( listen ahmii someone is here)
دوسرا فوجی بھاگتے ھوئے آرھا تھا اور چلایا
زرک اور ھشام کو لگا انکے ساتھ کچھ برا ھونے والا ھے
آتش را باز کنید و ساقه بزنید
(open the fire and shoot)
وہ دونوں ایکدوسرے کو دیکھ رھے تھے کہ اچانک فائر ھوا,
زھراء بیگم نے چیخ ماری تھی سامعہ بیگم اور معیز جو ھسپتال میں تھے بھاگ کر انکے پاس پہنچے
انکی زبان کام کرنے لگ گئ تھی وہ ہولے ہولے بول رھی تھیں
زرک,
زرک,
معیز نے کان لگا کر سنا تو اسے سمجھ آئ وہ بولا
خالہ میں ھوں معیز ,معیز میرا زرک ? انکے لہجے میں سوال تھا معیز اور سامعہ بیگم کو خوشی ھوئ زھراء بیگم کی یاداشت لوٹ آئ ھے, انھوں نے زرک کے بارے میں بتانا مناسب نہ سمجھا, اسلیے معیز بولا خالہ زرک کو بھی بلالیں گے آپ پہلے ہم سے تو باتیں کریں پتہ ھے آپنے ہمیں کتنا پریشان کیا ھے ,کتنا بیمار رھی ھیں آپ , وہ دیکھنا چاھتا تھا کہ کیا زھراء بیگم کو اپنے ساتھ ھونے والا حادثہ یاد ھے مگر فلحال انکو یاد نہیں آرھا تھا کہ انکو کیا ھوا تھا
زوئ کو ایک دم جاگ آگئ وہ بیٹھے بیٹھے سو رھئ تھی, گھبرا کر اٹھ بیٹھی اسنے آس پاس دیکھا زینیہ اسکے پاس سوئ ھوئ تھی اسنے بہت برا خواب دیکھا تھا, وہ گھبرا گئ اسکو ٹھنڈے پسینے آگئے تھے,
یااللہ میرے پیاروں کی خیر کرنا
اسنے بے اختیار دعا مانگی تھی
یااللہ زرک کی خیر کرنا اسے اپنی امان میں رکھنا میری ماما کو صحت دینا وہ دعا مانگ رھی تھی کہ فون کی بجتی گھنٹی سے گھبرا گئ
سکرین پر معیز کا نام چمک رھا تھا ,اسنے ڈرتے ڈرتے کال اٹھائ تو معیز کی چہکتی آواز نے اسکے تن مردہ میں جیسے جان ڈال دی
زوئ خالہ جان کی یاداشت لوٹ آئ ھے انکے دماغ نے %75 کام شروع کردیا ھے فجر کے بعد میں تمہیں اور زینیہ ماہم میثم سب کو لینے آونگا , تم لوگ ناشتہ کرکے ریڈی رھنا
وہ تو خوشی سے چلا اٹھی معیز آپ سچ کہ رھے ھیں یہ تو بہت اچھی خبر ھے
زینیہ بھی اسکی آواز سے جاگ گئ تھئ ماہم ,میثم بھی اسی روم میں تھے وہ بھی اٹھ گئے اوہ اب وہ چاروں خوش ھونے کہ ساتھ زرک کہ لیے اداس بھی تھے کہ کاش وہ نہ گیا ھوتا , انکو معلوم نہیں تھا کہ واقعی یہ کاش انکی زندگی میں ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا
۞۞۞۞
پہلے فوجی نے دیر نہیں کی تھی اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی ,دوسرا فوجی ابھی بھی چلا رھا تھا
هیچ کس را ترک نکن
(don’t leave any one)
زرک نے دیکھا ایک سنسناتی گولی ھشام کے سینے کے آر پار ھوگئ اسنے آخری بار زینیہ کو یاد کیا , اسے ماما یاد آئیں اسے زوئ کی روئ آنکھیں اور باقی سب کے اداس چہرے یاد آئے اسکی آنکھیں اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کہ خوف سے بھر آئیں تھیں,
اسے زینیہ یاد آئ تو اسکے ذہن میں جون کا پڑھا ھوا شعر آگیا
مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں لیکن
ہائے میں تجھ سے بچھڑ جاونگا
ابھی تو انھوں نے ساتھ رھنا تھا, وعدے نبھانے تھے, ابھی تو انہوں نے ایکدوسرے کے سنگ وقت بتانا تھا, مگر اسکو لگا اسکے پاس وقت کم ھے اسنے دل ہی دل میں زینیہ کو مخاطب کرکے معافی مانگی تھی
اسے ماما یاد آئیں کیا وہ ٹھیک ھونگی تو اسکے بناء رہ پائیں گی اسکی سیدھی سادی ماں جو ایک قابل ڈاکٹر تھیں مگر زرک کو کہتی تھیں کہ تم میرا حوصلہ ھو کیا وہ بناء حوصلے کہ جی پائیں گی
اسے معیز,میثم ,ماہم یاد آیے جو کہتے تھا زرک بھائ تمہارے ھوتے ہمیں بڑے بھائ کی کمی فیل نہیں ھوتی
اسے سامعہ آنٹی یاد آئیں جو کہتیں تھیں میں زینیہ تمہیں سونپ کہ چین سے مرونگی زرک تم داماد نہیں میرے بیٹے ھو
اسے زوئ یاد آئ جو اسکی ماں جائ تھی اسکے ساتھ دنیا میں آئ تھی ,اسکے ساتھ پہلا قدم اٹھایا, وہ اسکے بغیر کیسے جی سکتی تھی جب انکی سانسیں ایکدوسرے کہ ساتھ چلتی تھیں, انکی رگیں تک جڑی ھوئ تھیں, اسکی نازک سے دل والی بہن دل پر اتنا بوجھ کہاں برداشت کر سکتی تھی,
مگر اسکو موت سامنے نظر آرھئ تھی اسنے کلمہ پڑھا اور خود کو رب کے سپرد کردیا گولی اسکے جسم کو چیرتی پار ھوگئ,
وہ سب ہسپتال میں زھراء بیگم کے پاس تھے, اور وہ کتنی بار زارون صاحب ,مہ پارہ, زرک کا پوچھ چکی تھیں ,مہ پارہ اور زارون صاحب کا تو معیز نے بہانہ بنا دیا کہ اس حادثے میں انکے فریکچر ھوئے تھے جسکی وجہ سے وہ بیڈ ریسٹ پر ھیں اور زرک کا فلحال یہ کہا کہ وہ اپنے کالج کی ایکٹویٹی کی وجہ سے آج رات ھی کراچی گیا ھے انکو یقین نہیں آرھا تھا مگر معیز کی بات مان لینا بھی مجبوری تھی وہ آنکھیں موندے لیٹ گئیں ,,
معیز نے زوئ کے کہنے پر زرک کو کال کی تو اسکا نمبر بند جارھا تھا مسلسل بند نمبر نے انکو تشویش میں مبتلا کردیا تھا مگر معیز زینیہ اور زوئ کو تسلیاں دے رھا تھا مگر خود بھی پریشان تھا,
ایک سال گزر گیا تھا زرک کہ بس خط آتے فون پر وہ بات نہیں کرتا تھا اور یہ بات زھراء بیگم کو تشویش میں ڈالتی ,ایک سال بعد زوئ اور معیز نے انکو دھیرے دھیرے زرک کہ بارے میں بتا دیا تھا ماں تھیں ہلکان ھوگئیں جوان بیٹے کہ جانے نے تو کمر توڑ دی اسکی قبر سے بھی ھو آئیں مگر یقین نہ آتا اس دن زینیہ کو گلے لگا کہ خوب روئیں, زوئ اور معیز نے بہت مشکل سے سمبھالا تھا, بعد میں سمبھل گیئں مگر انکی ضد پر معیز اور زوئ کی چپ چاپ رخصتی کردی گئ معیز نے سارا انتظام سمبھال لیا اپنا گھر بیچ کر وہ بھی خالہ کے پاس آگئے , زینیہ تو شادی کہ لیے مانتی ھی نہیں تھی مگر زھراء بیگم کو یقین تھا وہ بھی سمبھل جائے گی, ماہم کی سٹڈی کمپلیٹ ھونے والی تھی اسکا رشتہ سامعہ بیگم اور زھراء مل کہ دیکھ رھی تھیں ,میثم ڈاکٹر بن رھا تھا اسے اپنے زرک بھائ کہ خواب پورے کرنے تھے اور وہ زوئ آپی کو زرک بن کہ دکھانا چاھتا تھا, عارب صاحب کا بیٹا نشے میں پڑ گیا جبکہ بیٹی نے مرضی سے شادی کرلی انہوں نے پچھتاوں سے گھبرا کر معیز سے معافی مانگ کہ انکا سب کچھ واپس کردیا تھا, زندگئ معمول پر آچکی تھی مگر جانے والوں کی کمی کوئ پوری نہیں کرسکتا تھا کیونکہ پیار کے رشتے کبھی ختم نہیں ھوتے اور ان رشتوں کہ بناء جینا بہت اذیت کا باعث ھوتا ھے…………..
ختم شد
Leave a Reply