تمہارے جیسا نہ کوئی از ہادیہ سحر قسط نمبر 7
ایش ایسے تو بات مت کرو مجھ سے حمزہ نے شکوہ کناں انداز میں کہا۔
یار تم کس قدر بے غیرت ہو میں تمہیں اپنے منہ سے کہہ رہی ہوں چھوڑ دو مجھے ایسے حال پر میں تمہارے ساتھ،ایک معذور شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی مجھے تو اس دن تمہیں دیکھا بھی نہیں جا رہا تھا کجا کہ پوری زندگی تمہارے ساتھ نو وے اٹس امپاسبل وہ قطعی انداز میں بولی۔
ڈاکٹرز نے یقین دلایا ہے کہ میں سال کے اندر اندر اپنے پاٶں پر کھڑا ہو جاٶں گا وہ گڑگڑایا۔
اچھا جب پاٶں پر کھڑے ہوۓ تب دیکھیں گے یہ کہہ کر ایش نے فون بند کر دیا سم نکال کر توڑ دی۔
”نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پر لا کہ چھوڑا ہے کسی نے“
****************************
اچھا دیا میرا ایک دوست ہے حمزہ نام ہے اس کا اس کو دیکھ کر مجھے عمر یاد آتا ہے میں اس کو بلاٶں گا شادی پر تم ملنا اس سے وہ بھی فوج میں ہے فہام نے دیا علی کو بتایا۔
ہمممم اسے محسوس ہوا وہ عمر کے ذکر پر اداس ہوا ہے۔
فہام اگر تم چاہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں اس نے فہام کا دھیان بٹانے کو کہا اور واقعی اس کا دھیان بٹ گیا۔
خود جانا چاہ رہی ہیں میرے ساتھ اور چاہ رہی ہیں کہ میں کہوں کہ آپ بھی چلیں فہام نے اسے چھیڑا۔
اگر ایسا ہے بھی تو کیا غلط ہے میں تمہارے ساتھ جانے کا حق رکھتی ہوں اس نے انگوٹھی اسے دکھا کر کہا جو فہام نے اسے بات پکی ہونے کی خوشی میں تحفتاً دی تھی۔
ہاں سچ میں چلنا میں آج شو کے بعد فون کر کے پوچھوں گا اس سے کیا پتہ وہ ڈیوٹی پر نہ ہو فہام نے اسے کہا۔
***************************
حمزہ فون بج رہا ہے تمہارا کنیز نے حمزہ کو فون پکڑایا۔
اس نے بے دلی سے کان سے لگایا۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کہاں غاٸب ہو یار تم دوسری جانب فہام تھا۔
اسکی آواز سنتے ہی اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گۓ فہام میں ہسپتال میں ہوں۔
خیریت دوسری جانب فہام بے چین ہوا۔
میں اپاہج ہو گیا ہوں حمزہ سسک اٹھا۔
کیا فہام کے حواس اڑ گۓ کہاں ہو اس نے پوچھا
اور کچھ دیر بعد وہ اس کے سامنے تھا۔
کیسے ہوا یہ سب فہام نے کنیز فاطمہ سے پوچھا۔
اس نے ساری بات بتا دی ایش کی بات گول کر دی۔
کنیز یہ بھی بتاٶ نا کہ میری شادی ہونے والی تھی مگر لڑکی نے انکار کر دیا کہ کسی لولے لنگڑے سے شادی نہیں کرونگی حمزہ نے اپنا مذاق اڑایا اور
کنیز روتی ہوٸ کمرے سے باہر چلی گٸ۔
یار دفع کرو اس لڑکی کو اس کی خاطر تم ان کو کیوں پریشان کر رہے ہو کنیز کی حالت دیکھی تم نے فہام نے اسے لتاڑا۔
اپنوں کو تم ان کی خاطر رلا ہو جن کے لیۓ تم کچھ بھی نہیں غلط بات ہے۔
فہام مجھے یقین نہیں آتا وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے تمہیں پتہ ہے وہ دیوانی تھی میری مجھ سے اک پل خفا نہیں رہ سکتی تھی اور اب اس نے مجھے ٹھکرا دیا ہے وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔
چلو یار اچھا ہوا اگر بعد میں ایسا ہوتا تو کٸ زندگیاں برباد ہوتیں دیکھو نا اللّٰہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے محبت میں عیب تو نہیں دیکھے جاتے بلکہ محبت تو عیب کو لباس کی طرح ڈھانپ لیتی ہے میں تو کہتا ہوں شکرانے کے نفل ادا کرو کہ تمہاری جان اس سے چھوٹ گٸ جس نے ذرا سا مشکل وقت کیا دیکھا رستہ ہی بدل دیا فہام نے اسے گہراٸ سے آگاہ کیا۔
ہمممممم اس نے آنکھیں موند لیں۔
حمزہ میں شادی کر رہا ہوں مگر جب تم ٹھیک گے تب فہام نے حمزہ کو بتایا۔
نہیں تم میرے ٹھیک ہونے کو چھوڑو جو تاریخ طے ہوٸ ہے اس کو ہی کرنا حمزہ نے کہا اور ساتھ ہی پوچھا لڑکی کون ہے۔
فہام نے اسے دیا علی کے بارے میں بتایا۔
میں شادی تب ہی کروں گا جب
تم ٹھیک ہو گے اس نے قطعی انداز میں کہا۔
کیوں اگر میں وہیل چٸیر پر تمہاری شادی پر آٶں تو کیا تم شرمندگی محسوس کرو گے کہ تمہارا دوست معذور ہے حمزہ خود اذیتی کی انتہا پر تھا۔
اندر داخل ہوتے ڈاکٹر نے اس کی یہ بات سنی اور بولا اس وقت تو بہت حوصلہ مند تھے اب کیا ہوا۔
اس نے بتایا کہ کیسے ایش نے مجھے ٹھکرایا۔
ویسے میں تمہاری جگہ ہوتا تو شکر کرتا ڈاکٹر نے کہا کیونکہ جس انداز میں اس نے تمہیں چھوڑا صاف پتہ چلتا ہے اسے تم سے محبت کبھی تھی ہی نہیں وہ محض تمہارے ساتھ وقت گزاری کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب پلیز اس نے ناراضگی سے کہا میں اس کے خلاف مزید کچھ نہیں سنوں گا۔
ڈاکٹر نے اس کی بات سنی ان سنی کر کے کہا یوں لگتا ہے گویا وہ موقع کی تلاش میں ہو اور قدرت نے اسے موقع فراہم کر دیا خیر چھوڑو تم بتاٶ کیسا محسوس کر رہے ہو۔
************************
چند ماہ بعد
دیا علی اور فہام کی شادی کے ہنگامے عروج پر ہیں جب ہر طرف سے شور بلند ہوا دولہا کا دوست آ گیا۔
حمزہ اسٹک کے سہارے لنگڑاتے ہوۓ آ رہا تھا اسکے ساتھ اس کا پورا خاندان تھا۔
ارے دولہے کا دوست لنگڑا ہے عورتوں میں چہ میگوٸیاں شروع ہو گیٸں۔
فہام
سٹیج سے نیچے اترا حمزہ کا ہاتھ تھام کر اسے سٹیج پر بٹھایا اور خود کھڑا ہو کر لوگوں سے مخاطب ہوا۔
یہ جو لنگڑا شخص میری شادی میں آیا ہے یہ پیداٸشی لنگڑا نہیں بلکہ اس نے آپ سب کی سلامتی کے لیۓ اپنی معذوری کو قبول کیا ہے فہام نے ہال میں نظر دوڑاتے ہوۓ کہا۔
کیا مطلب چاروں طرف سے آواز آٸ اور فہام نے سب کو اس واقعے کا بتایا جہاں سب کی نظروں میں ترحم تھا تمسخر تھا مگر اب سب کی نظروں میں احترام تھا محبت تھی۔
بہت سے لوگ آ کر اس سے ہاتھ ملانے لگے۔
بھابھی آپکو برا تو نہیں لگ رہا آپکا شوہر آپکو چھوڑ کر میری تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے حمزہ نے دیا کی جانب مڑ کر اس سے پوچھا۔
وہ ہنس دی بالکل بھی نہیں۔
حجلہ عروسی کنیز فاطمہ نے سجایا تھا شادی کے انتظامات میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
کمرے میں داخل ہو کر حمزہ نے سلام کیا جبکی کنیز فاطمہ کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگی تھیں۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کلاٸ میں کنگن پہنا دیۓ۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو دیا فہام نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوۓ کہا۔
مجھے کچھ کہنا ہے تم سے یہ کہہ کر وہ کمرے کے کونے میں موجود اپنا گٹار اٹھا لایا۔۔
چند دن کے لیے وہ اپنے گھر تھا)اس نے گٹار اٹھایا اور دیا کے سامنے بیٹھ کر اس کا چہرہ نظروں میں رکھ کر بولا
”کناں کردے آں پیار جے تو پچھدا ایں یارا
کناں کردے آں پیار جے تو پچھدا ایں یارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جاں تووی پیارا
رہیۓ ہر ویلے تیریاں خیالاں وچ کھوۓ
تینوں پا کے سانوں لگے اسی بھاگاں والے ہوۓ
ساڈا تیرے نال جہان تو ہی جین دا سہارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جاں تووی پیارا
تینوں دل دے محلے وچ رکھیا لکو کے
ساڈے نیناں ول ویکھیں کدے سامنے کھلو کے
تینوں آپے ساڈے بارے پتہ لگ جاٶ گا سارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جان تو وی پیارا“
دیا نے ذراسی نظر اٹھاٸ مگر فہام کی نظروں میں چاہت کا جہاں آباد دیکھ کر اس کی نظریں جھک گیٸں۔
**************************
حمزہ آخر کنیز سے شادی کرنے میں کیا حرج ہے آج تیسرا دن تھا فہام حمزہ کو مسلسل منانے میں لگا تھا۔
یار مجھے اچھا نہیں لگتا اس کو میں نے ایش کے لیۓ چھوڑا اور اب ایش نے چھوڑا ہے تو میں اس کو اپنا لوں حمزہ اداسی سے بولا۔
اس کا مطلب ہے تم آج بھی اس کے سحر میں گرفتار ہو فہام نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
نہیں مگر وہ رکا۔
کیا مگر فہام نےپوچھا۔
جب تم نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے تمہارا پروپوزل کیسے ریجیکٹ کیا تھا اس کے بعد میرے دل میں اس کی چاہت باقی نہیں رہی حمزہ سنجیدگی سے بولا۔
اچھا مطلب میں تمہاری اور کنیز کی شادی پکی سمجھوں فہام چہکا۔
جی نہیں پہلے بھابھی سے کہو اس سے راۓ لیں اس کے بعد دیکھیں گے حمزہ نے اس کی خوشی ملیامیٹ کر دی۔
یار جیسے اس نے تمہارا خیال رکھا قدم قدم پر سہارا دیا اس کے بعد بھی کوٸ ثبوت باقی ہے؟فہام زچ ہو کر بولا۔
میرے لیۓ اس کی راۓ بہت اہمیت رکھتی ہے ایسا نہ ہو وہ ہمدردی میں یا ترس کھا کر مجھ سے شادی کر لے اور ساری زندگی اسے پچھتاوا ہو حمزہ نے کہا۔
اوکے میں دیا سے کہوں گا فہام نے کہا۔
*************************
ایش تم اس سے معافی مانگو وہ تم سے بے حد پیار کرتا ہے وہ معاف کر دے گا تمہیں ایش کی ماں نے اسے سمجھاتے ہوۓ کیا۔
اس کا نمبر بھی بند رہتا ہے گھر میں جانا نہیں چاہتی ایش پریشانی سے بولی۔
تم نہیں جا سکتی وہ تو آ سکتا ہے نا اس کی ماں معنی خیزی سے مسکراٸ۔
پھر حمزہ کے گھر ایش کا پیغام پہنچ گیا اتفاق کی بات ہے کہ حمزہ کو ہی پیغام رساں ملا۔
پیارے حمزہ۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو تم چلے آٶ محبت کا تقاضا ہے..
جاری ہے
یار تم کس قدر بے غیرت ہو میں تمہیں اپنے منہ سے کہہ رہی ہوں چھوڑ دو مجھے ایسے حال پر میں تمہارے ساتھ،ایک معذور شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی مجھے تو اس دن تمہیں دیکھا بھی نہیں جا رہا تھا کجا کہ پوری زندگی تمہارے ساتھ نو وے اٹس امپاسبل وہ قطعی انداز میں بولی۔
ڈاکٹرز نے یقین دلایا ہے کہ میں سال کے اندر اندر اپنے پاٶں پر کھڑا ہو جاٶں گا وہ گڑگڑایا۔
اچھا جب پاٶں پر کھڑے ہوۓ تب دیکھیں گے یہ کہہ کر ایش نے فون بند کر دیا سم نکال کر توڑ دی۔
”نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پر لا کہ چھوڑا ہے کسی نے“
****************************
اچھا دیا میرا ایک دوست ہے حمزہ نام ہے اس کا اس کو دیکھ کر مجھے عمر یاد آتا ہے میں اس کو بلاٶں گا شادی پر تم ملنا اس سے وہ بھی فوج میں ہے فہام نے دیا علی کو بتایا۔
ہمممم اسے محسوس ہوا وہ عمر کے ذکر پر اداس ہوا ہے۔
فہام اگر تم چاہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں اس نے فہام کا دھیان بٹانے کو کہا اور واقعی اس کا دھیان بٹ گیا۔
خود جانا چاہ رہی ہیں میرے ساتھ اور چاہ رہی ہیں کہ میں کہوں کہ آپ بھی چلیں فہام نے اسے چھیڑا۔
اگر ایسا ہے بھی تو کیا غلط ہے میں تمہارے ساتھ جانے کا حق رکھتی ہوں اس نے انگوٹھی اسے دکھا کر کہا جو فہام نے اسے بات پکی ہونے کی خوشی میں تحفتاً دی تھی۔
ہاں سچ میں چلنا میں آج شو کے بعد فون کر کے پوچھوں گا اس سے کیا پتہ وہ ڈیوٹی پر نہ ہو فہام نے اسے کہا۔
***************************
حمزہ فون بج رہا ہے تمہارا کنیز نے حمزہ کو فون پکڑایا۔
اس نے بے دلی سے کان سے لگایا۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کہاں غاٸب ہو یار تم دوسری جانب فہام تھا۔
اسکی آواز سنتے ہی اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گۓ فہام میں ہسپتال میں ہوں۔
خیریت دوسری جانب فہام بے چین ہوا۔
میں اپاہج ہو گیا ہوں حمزہ سسک اٹھا۔
کیا فہام کے حواس اڑ گۓ کہاں ہو اس نے پوچھا
اور کچھ دیر بعد وہ اس کے سامنے تھا۔
کیسے ہوا یہ سب فہام نے کنیز فاطمہ سے پوچھا۔
اس نے ساری بات بتا دی ایش کی بات گول کر دی۔
کنیز یہ بھی بتاٶ نا کہ میری شادی ہونے والی تھی مگر لڑکی نے انکار کر دیا کہ کسی لولے لنگڑے سے شادی نہیں کرونگی حمزہ نے اپنا مذاق اڑایا اور
کنیز روتی ہوٸ کمرے سے باہر چلی گٸ۔
یار دفع کرو اس لڑکی کو اس کی خاطر تم ان کو کیوں پریشان کر رہے ہو کنیز کی حالت دیکھی تم نے فہام نے اسے لتاڑا۔
اپنوں کو تم ان کی خاطر رلا ہو جن کے لیۓ تم کچھ بھی نہیں غلط بات ہے۔
فہام مجھے یقین نہیں آتا وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے تمہیں پتہ ہے وہ دیوانی تھی میری مجھ سے اک پل خفا نہیں رہ سکتی تھی اور اب اس نے مجھے ٹھکرا دیا ہے وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔
چلو یار اچھا ہوا اگر بعد میں ایسا ہوتا تو کٸ زندگیاں برباد ہوتیں دیکھو نا اللّٰہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے محبت میں عیب تو نہیں دیکھے جاتے بلکہ محبت تو عیب کو لباس کی طرح ڈھانپ لیتی ہے میں تو کہتا ہوں شکرانے کے نفل ادا کرو کہ تمہاری جان اس سے چھوٹ گٸ جس نے ذرا سا مشکل وقت کیا دیکھا رستہ ہی بدل دیا فہام نے اسے گہراٸ سے آگاہ کیا۔
ہمممممم اس نے آنکھیں موند لیں۔
حمزہ میں شادی کر رہا ہوں مگر جب تم ٹھیک گے تب فہام نے حمزہ کو بتایا۔
نہیں تم میرے ٹھیک ہونے کو چھوڑو جو تاریخ طے ہوٸ ہے اس کو ہی کرنا حمزہ نے کہا اور ساتھ ہی پوچھا لڑکی کون ہے۔
فہام نے اسے دیا علی کے بارے میں بتایا۔
میں شادی تب ہی کروں گا جب
تم ٹھیک ہو گے اس نے قطعی انداز میں کہا۔
کیوں اگر میں وہیل چٸیر پر تمہاری شادی پر آٶں تو کیا تم شرمندگی محسوس کرو گے کہ تمہارا دوست معذور ہے حمزہ خود اذیتی کی انتہا پر تھا۔
اندر داخل ہوتے ڈاکٹر نے اس کی یہ بات سنی اور بولا اس وقت تو بہت حوصلہ مند تھے اب کیا ہوا۔
اس نے بتایا کہ کیسے ایش نے مجھے ٹھکرایا۔
ویسے میں تمہاری جگہ ہوتا تو شکر کرتا ڈاکٹر نے کہا کیونکہ جس انداز میں اس نے تمہیں چھوڑا صاف پتہ چلتا ہے اسے تم سے محبت کبھی تھی ہی نہیں وہ محض تمہارے ساتھ وقت گزاری کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب پلیز اس نے ناراضگی سے کہا میں اس کے خلاف مزید کچھ نہیں سنوں گا۔
ڈاکٹر نے اس کی بات سنی ان سنی کر کے کہا یوں لگتا ہے گویا وہ موقع کی تلاش میں ہو اور قدرت نے اسے موقع فراہم کر دیا خیر چھوڑو تم بتاٶ کیسا محسوس کر رہے ہو۔
************************
چند ماہ بعد
دیا علی اور فہام کی شادی کے ہنگامے عروج پر ہیں جب ہر طرف سے شور بلند ہوا دولہا کا دوست آ گیا۔
حمزہ اسٹک کے سہارے لنگڑاتے ہوۓ آ رہا تھا اسکے ساتھ اس کا پورا خاندان تھا۔
ارے دولہے کا دوست لنگڑا ہے عورتوں میں چہ میگوٸیاں شروع ہو گیٸں۔
فہام
سٹیج سے نیچے اترا حمزہ کا ہاتھ تھام کر اسے سٹیج پر بٹھایا اور خود کھڑا ہو کر لوگوں سے مخاطب ہوا۔
یہ جو لنگڑا شخص میری شادی میں آیا ہے یہ پیداٸشی لنگڑا نہیں بلکہ اس نے آپ سب کی سلامتی کے لیۓ اپنی معذوری کو قبول کیا ہے فہام نے ہال میں نظر دوڑاتے ہوۓ کہا۔
کیا مطلب چاروں طرف سے آواز آٸ اور فہام نے سب کو اس واقعے کا بتایا جہاں سب کی نظروں میں ترحم تھا تمسخر تھا مگر اب سب کی نظروں میں احترام تھا محبت تھی۔
بہت سے لوگ آ کر اس سے ہاتھ ملانے لگے۔
بھابھی آپکو برا تو نہیں لگ رہا آپکا شوہر آپکو چھوڑ کر میری تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے حمزہ نے دیا کی جانب مڑ کر اس سے پوچھا۔
وہ ہنس دی بالکل بھی نہیں۔
حجلہ عروسی کنیز فاطمہ نے سجایا تھا شادی کے انتظامات میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
کمرے میں داخل ہو کر حمزہ نے سلام کیا جبکی کنیز فاطمہ کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگی تھیں۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کلاٸ میں کنگن پہنا دیۓ۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو دیا فہام نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوۓ کہا۔
مجھے کچھ کہنا ہے تم سے یہ کہہ کر وہ کمرے کے کونے میں موجود اپنا گٹار اٹھا لایا۔۔
چند دن کے لیے وہ اپنے گھر تھا)اس نے گٹار اٹھایا اور دیا کے سامنے بیٹھ کر اس کا چہرہ نظروں میں رکھ کر بولا
”کناں کردے آں پیار جے تو پچھدا ایں یارا
کناں کردے آں پیار جے تو پچھدا ایں یارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جاں تووی پیارا
رہیۓ ہر ویلے تیریاں خیالاں وچ کھوۓ
تینوں پا کے سانوں لگے اسی بھاگاں والے ہوۓ
ساڈا تیرے نال جہان تو ہی جین دا سہارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جاں تووی پیارا
تینوں دل دے محلے وچ رکھیا لکو کے
ساڈے نیناں ول ویکھیں کدے سامنے کھلو کے
تینوں آپے ساڈے بارے پتہ لگ جاٶ گا سارا
تو تے ساہاں تو وی نیڑے تو تے جان تو وی پیارا“
دیا نے ذراسی نظر اٹھاٸ مگر فہام کی نظروں میں چاہت کا جہاں آباد دیکھ کر اس کی نظریں جھک گیٸں۔
**************************
حمزہ آخر کنیز سے شادی کرنے میں کیا حرج ہے آج تیسرا دن تھا فہام حمزہ کو مسلسل منانے میں لگا تھا۔
یار مجھے اچھا نہیں لگتا اس کو میں نے ایش کے لیۓ چھوڑا اور اب ایش نے چھوڑا ہے تو میں اس کو اپنا لوں حمزہ اداسی سے بولا۔
اس کا مطلب ہے تم آج بھی اس کے سحر میں گرفتار ہو فہام نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
نہیں مگر وہ رکا۔
کیا مگر فہام نےپوچھا۔
جب تم نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے تمہارا پروپوزل کیسے ریجیکٹ کیا تھا اس کے بعد میرے دل میں اس کی چاہت باقی نہیں رہی حمزہ سنجیدگی سے بولا۔
اچھا مطلب میں تمہاری اور کنیز کی شادی پکی سمجھوں فہام چہکا۔
جی نہیں پہلے بھابھی سے کہو اس سے راۓ لیں اس کے بعد دیکھیں گے حمزہ نے اس کی خوشی ملیامیٹ کر دی۔
یار جیسے اس نے تمہارا خیال رکھا قدم قدم پر سہارا دیا اس کے بعد بھی کوٸ ثبوت باقی ہے؟فہام زچ ہو کر بولا۔
میرے لیۓ اس کی راۓ بہت اہمیت رکھتی ہے ایسا نہ ہو وہ ہمدردی میں یا ترس کھا کر مجھ سے شادی کر لے اور ساری زندگی اسے پچھتاوا ہو حمزہ نے کہا۔
اوکے میں دیا سے کہوں گا فہام نے کہا۔
*************************
ایش تم اس سے معافی مانگو وہ تم سے بے حد پیار کرتا ہے وہ معاف کر دے گا تمہیں ایش کی ماں نے اسے سمجھاتے ہوۓ کیا۔
اس کا نمبر بھی بند رہتا ہے گھر میں جانا نہیں چاہتی ایش پریشانی سے بولی۔
تم نہیں جا سکتی وہ تو آ سکتا ہے نا اس کی ماں معنی خیزی سے مسکراٸ۔
پھر حمزہ کے گھر ایش کا پیغام پہنچ گیا اتفاق کی بات ہے کہ حمزہ کو ہی پیغام رساں ملا۔
پیارے حمزہ۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو تم چلے آٶ محبت کا تقاضا ہے..
جاری ہے
Leave a Reply