تمہارے جیسا نہ کوئی از ہادیہ سحر قسط نمبر 8
وہ کچھ سمجھ نہ پایا اس نے پرانی سم نکال کر آن کی جیسے ہی اس نے سم آن کی ایش کی کال آ گٸ اس نے گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا۔
حمزہ میں ایش وہ بولی۔
تعارف کی ضرورت نہیں آپکو پہچانتا ہوں میں اس نے سرد لہجے میں کہا۔
ایش کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گٸ وہ بمشکل گویا ہوٸ مجھ سے ملنے آٶ پلیز اس نے گھر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا گویا اسے یقین تھا کہ وہ ضرور آۓ گا۔
اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ فہام کو فون کیا۔
اس نے کیوں اب تمہیں فون کیا ہے اب کونسی محبت یاد آٸ ہے اس کو وہ مٹھیاں بھینچتے ہوۓ بولا یار تم انسان ہو کوٸ کٹھ پتلی نہیں کہ جب جی چاہا جہاں جی چاہا رخ موڑ لیا تمہیں وہ سب بھول گیا ہو گا مگر نہ میں بھولا ہوں نہ ہی اماں وغیرہ بھولی ہیں تم پھر سے اس کی خاطر ہم سب کو سولی پر نہیں لٹکا سکتے وہ اشتعال سے بولا۔
ریلیکس یار وہ فہام کی اس قدر محبت پر مسکرا دیا۔
اچھا میں جاٶں ملنے وعدہ دوبارہ اس سے تعلق نہیں رکھوں گا بس میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسا کیا ہوا جو وہ اتنے ماہ بعد اسے میرا خیال آیا حمزہ سوچتے ہوۓ بولا۔
ہمممم ٹھیک ہے اور کنیز کا سوچا فہام نے پوچھا۔
اماں سے کہو شادی کی تیاریاں کریں حمزہ
مسکرایا۔
سچی فہام خوشی سے بولا۔
ہاں نا سچی اس نے یقین دلایا۔
وہ ایش سے ملنے گیا اس کی ماں نے بہت شرمندگی کا اظہار کیا کہ وہ اس سے رشتہ نہیں کر پاٸ اس بات کا ان کو بہت افسوس ہے۔
اٹس اوکے آنٹی کوٸ بات نہیں گزری باتوں کو دہرانے کا کیا فاٸدہ۔
انہوں نے اسے ایش کے کمرے میں پہنچا دیا۔
ایش اس کو دیکھ کر بولی مجھے یقین تھا تم ضرور آٶ گے۔
ظاہر ہے میں نے تم سے پیار جو کیا تھا حمزہ اس کو جتا کر بولا۔
تمہیں اپنے پاٶں پر کھڑے دیکھ کر بہت خوشی ہوٸ اس نے بات بدلی۔
تمہیں کیسے پتہ چلا میں ٹھیک ہو گیا ہوں حمزہ نے پوچھا۔
کنیز نے بتایا اس کو فون کیا تھا میں نے ایش نے بتایا۔
مجھے کیوں بلایا اس نے کھڑے کھڑے پوچھا۔
تم بیٹھو نا اس نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔
نہیں میں ٹھیک ہوں تم بولو حمزہ نے خشک انداز میں کہا۔
حمزہ مجھے پتہ ہے تم مجھ سے بے حد خفا ہو تم نے مجھے بد دعا دی تھی تب ہی میں بھی معذور ہو گٸ ہوں وہ شکوہ کناں ہوٸ۔
فہام کو حیرت کا زبردست جھٹکا لگا مگر اس نے تیزی سے خود کو سنبھالا کب اور کیسے اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔
کچھ وقت پہلے وہ بات گول کر گٸ۔
اتنے میں ملازمہ چاۓ کےساتھ دیگر لوازمات لے کر داخل ہوٸ۔
اس سب کی ضرورت نہیں وہ جانے کے لیۓ مڑا۔
حمزہ مجھ سے منہ پھیر کر مت جاٶ ایش تڑپ اٹھی۔
میں دوبارہ آٶں گا وہ اسے زندگی کی نوید سنا کر چلا گیا۔
**************************
الحَمْدُ ِلله آج میری محبت معتبر ہوٸ کنیز فاطمہ بے ساختہ سجدہ ریز ہوٸ دیا فقط اسے دیکھ کر رہ گٸ۔
اتنا پیار کرتی ہو حمزہ سے وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔
یہ تو کچھ بھی نہیں ہے پتہ ہے دیا میرا بس چلے اس کے قدموں کی دھول بن جاٶں اس کی نظر اتاروں جب وہ میرے سامنے ہوتا ہے تو میں سب کو بھول جاتی ہوں نظریں اس کے چہرے سے پلٹنے سے انکاری ہو جاتی ہیں میرا پتہ ہے دل چاہتا ہے میں اسکے نزدیک کوٸ پریشانی نہ آنے دوں وہ بے چین ہو تو مضطرب میں بھی ہو جاتی ہوں پتہ ہے جہاں وہ قدم رکھتا ہے میں بھی وہاں قدم رکھتی ہوں آج اس نے اپنا دل کھول کر دیا کے سامنے رکھ دیا۔
پاگل اس نے ہنس کر کنیز کو گلے لگایا۔
دیکھو تمہاری محبت میں سچاٸ تھی نا سو وہ تمہیں مل گیا دیا نے مسکرا کر کہا۔
*************************
کیوں بلایا تھا اس نے تمہیں فہام نے حمزہ سے پوچھا۔
حمزہ بہت آزردہ دکھاٸ دے رہا تھا۔
فہام وہ معذور ہو گٸ ہے وہ دلگرفتگی سے بولا۔
فہام چونکا۔
اوہ تب ہی اسے تمہاری یاد آٸ فہام طنزیہ انداز میں گویا ہوا اس نے تو اس وقت تم سے بہت اچھا سلوک کیا تھا نا۔
یار اسے میری ضرورت ہے وہ بے بس دکھاٸ دے رہا تھا۔
حمزہ تم کہیں دوبارہ سے اس سے ۔۔۔۔۔۔اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
نہیں مجھے محض اس سے ہمدردی ہے حمزہ نے قطعی انداز میں کہا۔
اوہ پھر ٹھیک ہے ظاہر ہےتم بھی اس فیز سے گزرے ہو تم اس سے ہمدردی محسوس کر رہے ہو گے مگر یہ صرف ہمدردی ہی ہونی چاہیۓ بس اس سے زیادہ کچھ نہ ہو فہام نے اسے تنبیہہ کی۔
شادی کی تیاریاں زوروشور سے چل رہی تھی دیا کی امی بھی حمزہ کے گھر آ چکی تھیں دونوں گھرانوں میں مراسم خاصے خوشگوار تھے۔
حمزہ ایش سے ملنے جاتا رہا اور کنیز اس سے باخبر تھی۔
کل میری شادی ہے شادی میں ضرور آنا حمزہ نے ایش اور اس کی ممی سے کہا اور کارڈ میز پر رکھ کر کھڑا ہوا۔
حمزہ میں مر جاٶں گی تمہارے بنا ایش کی آنکھ سے آنسو نکلا۔
حمزہ بے چین ہوا جو بھی ہوا مگر اس چہرے سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی۔
پلیز ایش کوٸ کسی کے لیۓ نہیں مرتا میں مرا تمہارے بنا نہیں نا زندہ سلامت تمہارے سامنے ہوں حمزہ نے ناگواری سے کہا۔
پر بیٹا ایش کی ممی نے کچھ کہنا چاہا مگر حمزہ نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور بولا ایش میں محض ہمدردی میں تمہارے گھر آتا ہوں اب محبت باقی نہیں رہی یہ کہہ کر وہ چل دیا پیچھے ایش کی آواز آتی رہی مگر وہ نظر انداز کر کے چلا گیا۔
کنیز فاطمہ دلہن بنی حمزہ کا انتظار کر رہی تھی اس کا کمرہ گلاب کے پھولوں سے مہکا ہوا تھا۔
دیا نے کمرہ سجا کر اسے کہا تھا۔
کنیز فاطمہ تمہارا اور میرا حساب برابر تم نے میرے لیۓ کمرہ سجایا تھا آج میں نے تمہارا کمرہ سجایا دیا علی نے اسے چھیڑا۔
وہ یہ سوچ کر مسکراٸ اتنے میں دروازہ کھلا اور حمزہ داخل ہوا
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اس نے آہستگی سے کہا۔
اماں نے کہا ہے دونوں شکرانے کے نفل پڑھ لینا اس نے اماں کا پیغام پہنچایا۔
نفل کی اداٸیگی کے بعد حمزہ کنیز فاطمہ کے پاس آیا۔
”میرا محبوب میرا صنم آرہا ہے“
کنیز فاطمہ کی دھڑکنوں نے شور برپا کیا۔
حمزہ نے اس کی کلاٸ تھام کر ایک خوبصورت سا بریسلیٹ اس کی کلاٸ کی زینت بنا دیا۔
بہت پیاری لگ رہی ہو ہمیشہ سادہ سے حلیے میں رہنے والی کنیز فاطمہ پہ ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔
حمزہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی
گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
تمہیں معلوم ہے کنیز فاطمہ کہ مجھے ہمیشہ سکون تمہارے پاس آ کر ہی ملتا ہے وہ اس کا ہاتھ اپنے دل پر رکھتے ہوۓ بولا۔
جب میں تکلیف میں تھا تو تم نے مجھے مرہم لگایا تھا میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں مگر میں یہ یقین دلاتا ہوں تمہیں کہ میں تمہارا وفادار رہوں گا تم سے پیار کروں گا اس نے آنکھیں موندے کہا۔
کنیز فاطمہ کی آنکھ سے آنسو نکلا اور حمزہ کے گال پر گرا۔
وہ بے چین ہو کر اٹھا کنیز کیا ہوا حمزہ پریشانی سے بولا۔
کچھ نہیں اس نے تیزی سے خود کو سنبھالا۔
میری کوٸ بات بری لگی وہ شرمندہ ہو گیا۔
نہیں حمزہ وہ بھلا اپنے محبوب کو پریشان دیکھ سکتی تھی یہ خوشی کے آنسو ہیں کہ میرا نام آپ کے نام کے ساتھ جڑ گیا ہے مجھے آپ سے اور کچھ نہیں چاہیۓ وہ کہہ کر اٹھی۔
حمزہ نے تیزی سے اس کی کلاٸ تھامی اور اسے خود سے قریب کر لیا۔
صبح کنیز فاطمہ کی آواز فون کی بیل سے کھلی فون بج بج کر بند ہو چکا تھا اس نے حمزہ کی جانب دیکھا وہ پرسکون انداز میں سو رہا تھا وہ بے ساختہ اس کے قریب گٸ۔
کنیز فاطمہ نے اس کے ماتھےسے بال ہٹا کر اس کی بند آنکھوں کو چوما وہ مضطرب ہوا وہ تیزی سے پیچھے ہوٸ۔
وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا وہ مسکراٸ اور باہر آ گٸ۔
آہمممممم دلہنیا اکیلی ہیں دلہا کہاں ہے دیا علی نے اسے دیکھ کر چھیڑا۔
وہ شرما گیں مسکراہٹ سجا کر بولی وہ سو رہے ہیں۔
فہام اٹھ کر اندر حمزہ کے کمرے میں چلا گیا دروازے پر رک کر بولا۔
بھابھی اندر جانے کی اجازت ہے اس کا انداز سراسر چھیڑنے والا تھا۔
وہ جھینپی۔
اٹھ جا یار اس نےاسے جگایا اتنے میں فون کی بیل بجی اور حمزہ اٹھ گیا۔
کس کا فون ہے اس نے آنکھیں ملتے ہوۓ پوچھا۔
پتہ نہیں اس نے فون اس کے حوالے کیا اور باہر آ گیا۔
باہر آ کر وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ حمزہ تیزی سے آیا فہام گاڑی کی چابی دو وہ بہت مضطرب لگ رہا تھا۔
مگر تم جا کہاں رہے ہو فہام نے سوال داغا۔
تم چلو میرے ساتھ اس نے فہام کو بھی ساتھ گھسیٹا۔
ہم آتے ہیں تھوڑی دیر میں اس نے سب کو حیران دیکھ کر کہا اور چل دیا۔
حمزہ اسے ایڈریس سمجھانے لگا۔
پر ہم جا کہاں رہے ہیں فہام جھنجھلا کر بولا۔
ایش کے گھر حمزہ نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
واٹ تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا فہام کےتو سر پر لگی تلوٶں پہ بھجی۔
تم کیا سوچ کر وہاں جا رہے اس نے گاڑی موڑنا چاہی۔
مگر حمزہ نے اسے روک دیا وہ علاج نہیں کروا رہی…
جاری ہے
حمزہ میں ایش وہ بولی۔
تعارف کی ضرورت نہیں آپکو پہچانتا ہوں میں اس نے سرد لہجے میں کہا۔
ایش کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گٸ وہ بمشکل گویا ہوٸ مجھ سے ملنے آٶ پلیز اس نے گھر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا گویا اسے یقین تھا کہ وہ ضرور آۓ گا۔
اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ فہام کو فون کیا۔
اس نے کیوں اب تمہیں فون کیا ہے اب کونسی محبت یاد آٸ ہے اس کو وہ مٹھیاں بھینچتے ہوۓ بولا یار تم انسان ہو کوٸ کٹھ پتلی نہیں کہ جب جی چاہا جہاں جی چاہا رخ موڑ لیا تمہیں وہ سب بھول گیا ہو گا مگر نہ میں بھولا ہوں نہ ہی اماں وغیرہ بھولی ہیں تم پھر سے اس کی خاطر ہم سب کو سولی پر نہیں لٹکا سکتے وہ اشتعال سے بولا۔
ریلیکس یار وہ فہام کی اس قدر محبت پر مسکرا دیا۔
اچھا میں جاٶں ملنے وعدہ دوبارہ اس سے تعلق نہیں رکھوں گا بس میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسا کیا ہوا جو وہ اتنے ماہ بعد اسے میرا خیال آیا حمزہ سوچتے ہوۓ بولا۔
ہمممم ٹھیک ہے اور کنیز کا سوچا فہام نے پوچھا۔
اماں سے کہو شادی کی تیاریاں کریں حمزہ
مسکرایا۔
سچی فہام خوشی سے بولا۔
ہاں نا سچی اس نے یقین دلایا۔
وہ ایش سے ملنے گیا اس کی ماں نے بہت شرمندگی کا اظہار کیا کہ وہ اس سے رشتہ نہیں کر پاٸ اس بات کا ان کو بہت افسوس ہے۔
اٹس اوکے آنٹی کوٸ بات نہیں گزری باتوں کو دہرانے کا کیا فاٸدہ۔
انہوں نے اسے ایش کے کمرے میں پہنچا دیا۔
ایش اس کو دیکھ کر بولی مجھے یقین تھا تم ضرور آٶ گے۔
ظاہر ہے میں نے تم سے پیار جو کیا تھا حمزہ اس کو جتا کر بولا۔
تمہیں اپنے پاٶں پر کھڑے دیکھ کر بہت خوشی ہوٸ اس نے بات بدلی۔
تمہیں کیسے پتہ چلا میں ٹھیک ہو گیا ہوں حمزہ نے پوچھا۔
کنیز نے بتایا اس کو فون کیا تھا میں نے ایش نے بتایا۔
مجھے کیوں بلایا اس نے کھڑے کھڑے پوچھا۔
تم بیٹھو نا اس نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔
نہیں میں ٹھیک ہوں تم بولو حمزہ نے خشک انداز میں کہا۔
حمزہ مجھے پتہ ہے تم مجھ سے بے حد خفا ہو تم نے مجھے بد دعا دی تھی تب ہی میں بھی معذور ہو گٸ ہوں وہ شکوہ کناں ہوٸ۔
فہام کو حیرت کا زبردست جھٹکا لگا مگر اس نے تیزی سے خود کو سنبھالا کب اور کیسے اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔
کچھ وقت پہلے وہ بات گول کر گٸ۔
اتنے میں ملازمہ چاۓ کےساتھ دیگر لوازمات لے کر داخل ہوٸ۔
اس سب کی ضرورت نہیں وہ جانے کے لیۓ مڑا۔
حمزہ مجھ سے منہ پھیر کر مت جاٶ ایش تڑپ اٹھی۔
میں دوبارہ آٶں گا وہ اسے زندگی کی نوید سنا کر چلا گیا۔
**************************
الحَمْدُ ِلله آج میری محبت معتبر ہوٸ کنیز فاطمہ بے ساختہ سجدہ ریز ہوٸ دیا فقط اسے دیکھ کر رہ گٸ۔
اتنا پیار کرتی ہو حمزہ سے وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔
یہ تو کچھ بھی نہیں ہے پتہ ہے دیا میرا بس چلے اس کے قدموں کی دھول بن جاٶں اس کی نظر اتاروں جب وہ میرے سامنے ہوتا ہے تو میں سب کو بھول جاتی ہوں نظریں اس کے چہرے سے پلٹنے سے انکاری ہو جاتی ہیں میرا پتہ ہے دل چاہتا ہے میں اسکے نزدیک کوٸ پریشانی نہ آنے دوں وہ بے چین ہو تو مضطرب میں بھی ہو جاتی ہوں پتہ ہے جہاں وہ قدم رکھتا ہے میں بھی وہاں قدم رکھتی ہوں آج اس نے اپنا دل کھول کر دیا کے سامنے رکھ دیا۔
پاگل اس نے ہنس کر کنیز کو گلے لگایا۔
دیکھو تمہاری محبت میں سچاٸ تھی نا سو وہ تمہیں مل گیا دیا نے مسکرا کر کہا۔
*************************
کیوں بلایا تھا اس نے تمہیں فہام نے حمزہ سے پوچھا۔
حمزہ بہت آزردہ دکھاٸ دے رہا تھا۔
فہام وہ معذور ہو گٸ ہے وہ دلگرفتگی سے بولا۔
فہام چونکا۔
اوہ تب ہی اسے تمہاری یاد آٸ فہام طنزیہ انداز میں گویا ہوا اس نے تو اس وقت تم سے بہت اچھا سلوک کیا تھا نا۔
یار اسے میری ضرورت ہے وہ بے بس دکھاٸ دے رہا تھا۔
حمزہ تم کہیں دوبارہ سے اس سے ۔۔۔۔۔۔اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
نہیں مجھے محض اس سے ہمدردی ہے حمزہ نے قطعی انداز میں کہا۔
اوہ پھر ٹھیک ہے ظاہر ہےتم بھی اس فیز سے گزرے ہو تم اس سے ہمدردی محسوس کر رہے ہو گے مگر یہ صرف ہمدردی ہی ہونی چاہیۓ بس اس سے زیادہ کچھ نہ ہو فہام نے اسے تنبیہہ کی۔
شادی کی تیاریاں زوروشور سے چل رہی تھی دیا کی امی بھی حمزہ کے گھر آ چکی تھیں دونوں گھرانوں میں مراسم خاصے خوشگوار تھے۔
حمزہ ایش سے ملنے جاتا رہا اور کنیز اس سے باخبر تھی۔
کل میری شادی ہے شادی میں ضرور آنا حمزہ نے ایش اور اس کی ممی سے کہا اور کارڈ میز پر رکھ کر کھڑا ہوا۔
حمزہ میں مر جاٶں گی تمہارے بنا ایش کی آنکھ سے آنسو نکلا۔
حمزہ بے چین ہوا جو بھی ہوا مگر اس چہرے سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی۔
پلیز ایش کوٸ کسی کے لیۓ نہیں مرتا میں مرا تمہارے بنا نہیں نا زندہ سلامت تمہارے سامنے ہوں حمزہ نے ناگواری سے کہا۔
پر بیٹا ایش کی ممی نے کچھ کہنا چاہا مگر حمزہ نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور بولا ایش میں محض ہمدردی میں تمہارے گھر آتا ہوں اب محبت باقی نہیں رہی یہ کہہ کر وہ چل دیا پیچھے ایش کی آواز آتی رہی مگر وہ نظر انداز کر کے چلا گیا۔
کنیز فاطمہ دلہن بنی حمزہ کا انتظار کر رہی تھی اس کا کمرہ گلاب کے پھولوں سے مہکا ہوا تھا۔
دیا نے کمرہ سجا کر اسے کہا تھا۔
کنیز فاطمہ تمہارا اور میرا حساب برابر تم نے میرے لیۓ کمرہ سجایا تھا آج میں نے تمہارا کمرہ سجایا دیا علی نے اسے چھیڑا۔
وہ یہ سوچ کر مسکراٸ اتنے میں دروازہ کھلا اور حمزہ داخل ہوا
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اس نے آہستگی سے کہا۔
اماں نے کہا ہے دونوں شکرانے کے نفل پڑھ لینا اس نے اماں کا پیغام پہنچایا۔
نفل کی اداٸیگی کے بعد حمزہ کنیز فاطمہ کے پاس آیا۔
”میرا محبوب میرا صنم آرہا ہے“
کنیز فاطمہ کی دھڑکنوں نے شور برپا کیا۔
حمزہ نے اس کی کلاٸ تھام کر ایک خوبصورت سا بریسلیٹ اس کی کلاٸ کی زینت بنا دیا۔
بہت پیاری لگ رہی ہو ہمیشہ سادہ سے حلیے میں رہنے والی کنیز فاطمہ پہ ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔
حمزہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی
گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
تمہیں معلوم ہے کنیز فاطمہ کہ مجھے ہمیشہ سکون تمہارے پاس آ کر ہی ملتا ہے وہ اس کا ہاتھ اپنے دل پر رکھتے ہوۓ بولا۔
جب میں تکلیف میں تھا تو تم نے مجھے مرہم لگایا تھا میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں مگر میں یہ یقین دلاتا ہوں تمہیں کہ میں تمہارا وفادار رہوں گا تم سے پیار کروں گا اس نے آنکھیں موندے کہا۔
کنیز فاطمہ کی آنکھ سے آنسو نکلا اور حمزہ کے گال پر گرا۔
وہ بے چین ہو کر اٹھا کنیز کیا ہوا حمزہ پریشانی سے بولا۔
کچھ نہیں اس نے تیزی سے خود کو سنبھالا۔
میری کوٸ بات بری لگی وہ شرمندہ ہو گیا۔
نہیں حمزہ وہ بھلا اپنے محبوب کو پریشان دیکھ سکتی تھی یہ خوشی کے آنسو ہیں کہ میرا نام آپ کے نام کے ساتھ جڑ گیا ہے مجھے آپ سے اور کچھ نہیں چاہیۓ وہ کہہ کر اٹھی۔
حمزہ نے تیزی سے اس کی کلاٸ تھامی اور اسے خود سے قریب کر لیا۔
صبح کنیز فاطمہ کی آواز فون کی بیل سے کھلی فون بج بج کر بند ہو چکا تھا اس نے حمزہ کی جانب دیکھا وہ پرسکون انداز میں سو رہا تھا وہ بے ساختہ اس کے قریب گٸ۔
کنیز فاطمہ نے اس کے ماتھےسے بال ہٹا کر اس کی بند آنکھوں کو چوما وہ مضطرب ہوا وہ تیزی سے پیچھے ہوٸ۔
وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا وہ مسکراٸ اور باہر آ گٸ۔
آہمممممم دلہنیا اکیلی ہیں دلہا کہاں ہے دیا علی نے اسے دیکھ کر چھیڑا۔
وہ شرما گیں مسکراہٹ سجا کر بولی وہ سو رہے ہیں۔
فہام اٹھ کر اندر حمزہ کے کمرے میں چلا گیا دروازے پر رک کر بولا۔
بھابھی اندر جانے کی اجازت ہے اس کا انداز سراسر چھیڑنے والا تھا۔
وہ جھینپی۔
اٹھ جا یار اس نےاسے جگایا اتنے میں فون کی بیل بجی اور حمزہ اٹھ گیا۔
کس کا فون ہے اس نے آنکھیں ملتے ہوۓ پوچھا۔
پتہ نہیں اس نے فون اس کے حوالے کیا اور باہر آ گیا۔
باہر آ کر وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ حمزہ تیزی سے آیا فہام گاڑی کی چابی دو وہ بہت مضطرب لگ رہا تھا۔
مگر تم جا کہاں رہے ہو فہام نے سوال داغا۔
تم چلو میرے ساتھ اس نے فہام کو بھی ساتھ گھسیٹا۔
ہم آتے ہیں تھوڑی دیر میں اس نے سب کو حیران دیکھ کر کہا اور چل دیا۔
حمزہ اسے ایڈریس سمجھانے لگا۔
پر ہم جا کہاں رہے ہیں فہام جھنجھلا کر بولا۔
ایش کے گھر حمزہ نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
واٹ تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا فہام کےتو سر پر لگی تلوٶں پہ بھجی۔
تم کیا سوچ کر وہاں جا رہے اس نے گاڑی موڑنا چاہی۔
مگر حمزہ نے اسے روک دیا وہ علاج نہیں کروا رہی…
جاری ہے
Leave a Reply