تمہارے جیسا نہ کوئی از ہادیہ سحر قسط نمبر 9
وہ دواٸی نہیں کھا رہی اسے میری ضرورت ہے حمزہ نے اسے روکتے ہوۓ کہا۔
ابے چپ تیری ضرورت ہے جس کے ساتھ کل تیری شادی ہوٸ جو ایک دن کی دلہن ہے تو اسے چھوڑ کر ایش کے پاس جا رہا ہے جس نے تیری معذوری کا سن کر رستہ ہی بدل دیا تھا فہام بھڑک اٹھا۔
پلیز دیکھ بس آج حمزہ نے فہام کے آگے ہاتھ جوڑے۔
وہ بے بس ہوا حمزہ۔۔۔۔
تجھے ہماری دوستی کی قسم حمزہ تیزی سے بولا۔
فہام نے لب بھینچے اب باقی کیا بچتا ہے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔
چند لمحوں بعد وہ اس کے گھر پہنچ گۓ فہام ڈراٸنگ روم میں بیٹھا رہا جبکہ حمزہ ایش کے کمرے میں چلا گیا۔
وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک طرحدار خاتون اسکے سامنے آ کر بیٹھی جو خوبصورتی میں ایش سے بڑھ کر تھی میں ایش کی ممی ہوں وہ مسکراٸ جبکہ وہ مسکرا بھی نہ سکا وہ کنیز کا سوچ کر پریشان ہو رہا تھا جب اسے پتہ چلے گا تو اس پر کیا بیتے گی۔
آپ کیا کرتے ہیں ایش کی ممی نے پوچھا وہ ابھی بولنے ہی والا تھا کہ اس کا فون بجا۔
ایکسکیوزمی اس نے فون دیکھا دیا علی کا فون تھا اس نے بے دلی سے فون اٹھایا۔
کہاں ہیں آپ ہم سب انتظار کر رہے ہیں آٸیں تو ناشتہ کریں اس کی چہکتی ہوٸ آواز آٸ۔
اس کی خوشی کو اداسی میں کیسے بدلوں وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دیا بولی فہام سن رہے ہو۔
ہاں ہاں سن رہا ہوں ہم آتے ہیں اس نے بمشکل کہا اور کال ڈسکنکٹ کر دی۔
آپ حمزہ کو بلا دیں پلیز اس نے ان کے واہیات لباس سے منہ موڑ کر کہا۔
ارے ایسے کیسے آپ پہلی دفعہ ہمارے گھر آۓ ہیں انہوں نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے ملازمہ کھانے پینے کے لوازمات لیۓ آ رہی تھی۔
نہیں شکریہ وہ روکھے انداز میں کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اچھا آپ بیٹھیں میں حمزہ کو بلاتی ہوں وہ بادل نخواستہ اٹھ کر گٸ۔
چند لمحوں بعد ملازمہ نے آ کر بتایا کہ حمزہ صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں وہ اس کی ہمراہی میں اندر چلا گیا۔
ایش لیٹی تھی جبکہ حمزہ اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اسے بہت غصہ آیا۔
ایش اسے دیکھ کر بولی فہام مجھے معاف کر دو میں نے تمہارا دل بہت دکھایا۔
اٹس اوکے اس نے بےنیازی دکھاٸ اگر تم یہ سب نہ کرتے تو مجھے دیا علی کیسے ملتی بہرحال حمزہ چلیں اب دیا نے فون کیا تھا کہ کنیز بھی انتظار کر رہی ہو گی اس نے جتا کر کہا۔
یار میں ایش کے ڈاکٹر کے آنے تک یہیں ہوں تم جاٶ میں آ جاٶں گا حمزہ نے کہا۔
فہام کا پارہ ایک دم ہاٸ ہوا۔
تمہارا دماغ خراب ہے کیا اس کے ماں باپ ہیں اس کے پاس اس کی دیکھ بھال کو تم چلو میرے ساتھ اس نے حمزہ کی بازو تھامی۔
حمزہ نے سہولت سے اپنی بازو چھڑاٸ تم جاٶ میں آ جاٶں گا ابھی ایش کو میری ضرورت ہے اس نے ایش کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
بھاڑ میں جاٶ تم فہام بھنا کر چلا گیا۔
جیسے ہی وہ گھر گیا سب نے سوالیہ نظروں سے اس سے حمزہ کا پوچھا۔
وہ اس کا دوست بیمار ہے وہ اس کے پاس گیا ہے آ جاۓ گا کچھ دیر میں وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا دیا ناشتہ لا دو یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔
دیا ناشتہ لے کر آٸ تو اسے کھوۓ ہوۓ دیکھ کر بولی کیا حمزہ کا دوست زیادہ بیمار ہے؟
اللّٰہ کرے مر ہی جاۓ وہ اس نے ایش کو غاٸبانہ بدعا دی۔
نہیں دیا ادھر بیٹھو مجھے کچھ بتانا ہے تمہیں اس نے دیا کی اپنے قریب جگہ بناٸ۔
پھر اس نے ساری بات بتا کر پوچھا اب بتاٶ کیا ہو گا حمزہ پھر ایش کی جانب لوٹ رہا ہے کنیز کا کیا ہو گا اتنے میں باہر سے کچھ گرنے کی آواز آٸ کنیز جو دیا کو بلانے آٸ تھے اب لٹھے کی مانند سفید چہرہ لیۓ کھڑی تھی اور ہاتھ میں موجود چوڑیاں جو شاید اس نے ابھی اتاری تھی فرش پر گر کر ٹوٹ چکیں تھیں۔
فہام بھی تیزی سے باہر آیا اور اس کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
کنیز اندر آٶ دیا نے اس کا
ہاتھ تھامنا چاہا مگر وہ ایک جھٹکے سے مڑی اور بھاگ کر خود کو کمرے میں بند کر لیا۔
کنیز دیا اس کے پیچھے بھاگی فہام بھی بے ساختہ لپکا۔
کنیز دروازہ کھولو پلیز دیا نے دروازہ بجایا۔
اتنے میں اماں آ گٸیں کیا ہوا کنیز بوہا کیوں بند کیتا ای انہوں نے آواز لگاٸ مگر جواب ندارد۔
کیا ہویا انوں اماں نے دیا علی اور فہام کی جان دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
دیا علی نے روتے ہوۓ ساری بات بتاٸ۔
اماں چند لمحوں کے لیۓ خاموش ہو گٸیں۔
چل پتر فیر رب دی مرضی وہ کہہ کر شکستہ انداز میں لوٹ گیٸں۔
دیا چلو کمرے میں اس سے پہلے کہ کسی اور کو پتہ چلے میں حمزہ کو دوبارہ کال کرتا ہوں فہام بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلا کر اس کے ساتھ چل دی۔
حمزہ نے ایش کی خرابٸ صحت کا بتا کر رات آنے سے معذرت کر لی تھی فہام نے گھر میں بتایا اس کے دوست کی طبیعت بہت خراب ہے وہ آج رات نہیں آ سکے گا۔
حمزہ کے والد نے کنیز کا پوچھا۔
وہ شرما رہی ہے کمرے میں ہے۔
دیا علی کی امی کو کچھ کچھ صورتحال کی سمجھ آ رہی تھی انہوں نے دیا سے پوچھا مگر دیا نے انکو ٹال دیا۔
رات کا اندھیرا چار سو چھایا تھا ہر ذی روح خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا مگر کوٸ ایسا بھی تھا جو سجدے میں گڑگڑا رہا تھا تڑپ رہا تھا اور زبان پہ ایک ہی کلمہ جاری تھا یااللہ اسے میرا محرم بنا دے یا مجھے صبر دے دے اس کا رونا اور تڑپنا ایسا تھا کہ اس مالک نے اس کے لیۓ ایک بہترین فیصلہ کر دیا۔
کنیز کو یاد آیا شادی سے پہلے اس نے کیسے اسے رب سے مانگا تھا اس کے رب نے اس کی دعا تو سن لی تھی مگر شاید کوٸ آزماٸش باقی تھی شاید اللّٰہ اس کے پیار کی گہراٸ کو دیکھنا چاہ رہے تھے۔
حمزہ گھر آٸیں میں انتظار کر رہی ہوں کنیز نے حمزہ کو فون کر کے کہا اور فون بند کر دیا۔
اسکی آواز سن کر حمزہ بے چین ہوا اسے لگا وہ روٸ ہے کنیز اس نے پکارا مگر فون بند ہو چکا تھا۔
اس نے کال بیک کی مگر کنیز کا فون نمبر بند تھا شاٸد نئے جوڑے گۓ رشتے کا اثر تھا حمزہ ایش کو روتے ہوۓ چھوڑ کر آ گیا۔
کنیز دروازہ کھولو اس نے بے چینی سے دروازہ کھٹکھٹایا اسکی آواز سنتے ہی کنیز نے دروازہ کھولا۔
اسکی صورت دیکھ کر حمزہ کے دل کو کچھ ہوا کنیز تم روٸ ہو۔
روٶں نہ تو کیا کروں میں کل ہماری شادی ہوٸ تھی اور آج مجھے آپ چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلے گے وہ پھٹ پڑی۔
کنیز ایسا نہیں ہے اس کی طبیعت خراب۔۔۔۔۔حمزہ نے کہنا چاہا۔
بھاڑ میں جاۓ اس کی طبیعت وہ بھناٸی
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکی مجھے آپ چاہیٸں ساری زندگی کے لیۓ پلیز حمزہ میں آپ سے ساری زندگی کچھ نہیں مانگوں گی اپنے نام کی طرح ساری زندگی آپ کی کنیز بن کر گزار دوں گی آپ اب ایش کے پاس مت جانا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
حمزہ ساکت رہ گیا وہ کنیز کی محبت میں اس قدر شدت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
اس کا رونا حمزہ کا دل دہلا گیا اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اسکو اٹھایا۔
میں ایش سے محبت۔۔۔دروازے پر دستک ہوٸ حمزہ نے بات ادھوری چھوڑ کر دروازہ کھولا باہر دیا تھی۔
**************************
ایش آج جیسے حمزہ تمہیں چھوڑ کر گیا ہے لگتا تو نہیں کہ اسے تم سے محبت اب بھی ہے ایش کی ممی نے کہا۔
اوہ ممی آپ تو جانتی ہیں نا میرا سحر اتنی جلدی اترنے والا نہیں واپس ضرور آۓ گا وہ مجھے یقین ہے وہ غرور سے بولی۔
کتنی غلط بات ہے ایش پہلے تم نے اس کی معذوری کی بنا پر اس سے شادی نہ کی اور اب اس بیچارے کی شادی ہو گٸ تب بھی تمہیں سکون نہیں ہے اسکے ڈیڈ اندر آتے ہوۓ بولے۔
اوہ ماٸ گاڈ ناٹ اگین ڈیڈ اس نے اکتا کر کہا وہ افسوس سے سر ہلا کر اندر چلے گۓ جبکہ اس کی ممی منہ بنا کر رہ گٸیں ایسے ہی ہیں یہ شروع سے۔
***********************
شاید حمزہ کہہ رہے تھے کہ وہ ایش سے محبت کرتے ہیں شکر ہے یہ سننے سے پہلے ہی دیا آ گٸیں۔
یااللّٰہ حمزہ کے دل سے ایش نکال دے کنیز فاطمہ نے نماز کے بعد دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھاۓ تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گۓ۔
ایسے میں اس فون بجا۔
*****************
جی بھاٸ اس نے فہام کی بات سن کر فون بند کر دیا۔
کنیز کس کا فون تھا دیا نے پیچھے سے آ کر پوچھا۔
فہام بھاٸ کا کہہ رہے تھے حمزہ کو سٹوڈیو بھیجو ہم نہیں کہیں جانا ہے کنیز نے بتایا اور حمزہ کو بتانے چل دی۔
آج دیا،فہام اور امی کی واپسی تھی۔
********************
پر ہم جا کہاں رہے ہیں حمزہ نے جھنجھلا کر کوٸ دسویں بار پوچھا۔
جب پہنچیں گے تو تمہیں بھی پتہ چل جاۓ گا فہام نے اطمینان سے جواب دیا۔
حمزہ نے ناراضگی کے اظہار کے لیۓ چہرہ دوسری جانب موڑ دیا۔
ایک ریسٹورنٹ کے آگے اس نے گاڑی روک دی اترو اس نے حمزہ سے کہا۔
یہاں کیوں آۓ ہیں حمزہ نے پوچھا۔
یہاں ان کو ویٹر کی ضرورت تھی تمہیں لایا ہوں فہام بھنا کر بولا۔
اچھا یار مطلب کھانے کا پروگرام تھا سیدھا بتانا تھا اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔
ہم یہاں کسی سے ملنے آۓ ہیں فہام نے بتایا۔
کس سے حمزہ حیرانی سے بولا۔
صبر کر لو خدا کے لیۓ فہام نے تنگ آ کر کہا۔
چند لمحوں بعد ایک خوبصورت سا جوان ان کے سامنے آ کر بیٹھا۔
یہ ایک ابھرتا ہوا اداکار ہے اویس نام ہے اس کا۔
فہام نے تعارف کروایا اور دونوں نے مصافحہ کیا۔
چند لمحوں بعد اویس نے جو انکشافات کیۓ اس نے حمزہ کی حالت بری کر دی فہام اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا مگر خاموش تھا۔
وہ بمشکل اٹھا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا میں کبھی نہ مانتا مگر وہ تصویریں وہ سب کچھ اس کے آنسووں لگاتار بہے چلے جا رہے تھے فہام نے اسے گلے لگا کر بھینچا۔
💘💘”سانوں چٹیا اے عشق دے تیراں
کپڑے لیراں حال فقیراں
عشق پوایاں زنجیراں عشق پوایاں زنجیراں“💘💘
اس نے گاڑی واپسی کی جانب موڑ دی ایک ویران جگہ دیکھ کر اس نے گاڑی رکوا دی اور نیچے اتر کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
اتنا بڑا دھوکا اس نے سر ہاتھوں پر گرا لیا۔
کوٸ ایسے کیسے کسی کے دل کے ساتھ کھیل سکتا ہے اس نے پیشانی پر زور سے مکا مارا فہام گھبرا گیا سنبھالو خود کو حمزہ پلیز۔
وہ زور زور سے رونے لگا اکا دکا راہگیر رک کر تماشہ دیکھنے لگے۔
جاری ہے
ابے چپ تیری ضرورت ہے جس کے ساتھ کل تیری شادی ہوٸ جو ایک دن کی دلہن ہے تو اسے چھوڑ کر ایش کے پاس جا رہا ہے جس نے تیری معذوری کا سن کر رستہ ہی بدل دیا تھا فہام بھڑک اٹھا۔
پلیز دیکھ بس آج حمزہ نے فہام کے آگے ہاتھ جوڑے۔
وہ بے بس ہوا حمزہ۔۔۔۔
تجھے ہماری دوستی کی قسم حمزہ تیزی سے بولا۔
فہام نے لب بھینچے اب باقی کیا بچتا ہے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔
چند لمحوں بعد وہ اس کے گھر پہنچ گۓ فہام ڈراٸنگ روم میں بیٹھا رہا جبکہ حمزہ ایش کے کمرے میں چلا گیا۔
وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک طرحدار خاتون اسکے سامنے آ کر بیٹھی جو خوبصورتی میں ایش سے بڑھ کر تھی میں ایش کی ممی ہوں وہ مسکراٸ جبکہ وہ مسکرا بھی نہ سکا وہ کنیز کا سوچ کر پریشان ہو رہا تھا جب اسے پتہ چلے گا تو اس پر کیا بیتے گی۔
آپ کیا کرتے ہیں ایش کی ممی نے پوچھا وہ ابھی بولنے ہی والا تھا کہ اس کا فون بجا۔
ایکسکیوزمی اس نے فون دیکھا دیا علی کا فون تھا اس نے بے دلی سے فون اٹھایا۔
کہاں ہیں آپ ہم سب انتظار کر رہے ہیں آٸیں تو ناشتہ کریں اس کی چہکتی ہوٸ آواز آٸ۔
اس کی خوشی کو اداسی میں کیسے بدلوں وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دیا بولی فہام سن رہے ہو۔
ہاں ہاں سن رہا ہوں ہم آتے ہیں اس نے بمشکل کہا اور کال ڈسکنکٹ کر دی۔
آپ حمزہ کو بلا دیں پلیز اس نے ان کے واہیات لباس سے منہ موڑ کر کہا۔
ارے ایسے کیسے آپ پہلی دفعہ ہمارے گھر آۓ ہیں انہوں نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے ملازمہ کھانے پینے کے لوازمات لیۓ آ رہی تھی۔
نہیں شکریہ وہ روکھے انداز میں کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اچھا آپ بیٹھیں میں حمزہ کو بلاتی ہوں وہ بادل نخواستہ اٹھ کر گٸ۔
چند لمحوں بعد ملازمہ نے آ کر بتایا کہ حمزہ صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں وہ اس کی ہمراہی میں اندر چلا گیا۔
ایش لیٹی تھی جبکہ حمزہ اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اسے بہت غصہ آیا۔
ایش اسے دیکھ کر بولی فہام مجھے معاف کر دو میں نے تمہارا دل بہت دکھایا۔
اٹس اوکے اس نے بےنیازی دکھاٸ اگر تم یہ سب نہ کرتے تو مجھے دیا علی کیسے ملتی بہرحال حمزہ چلیں اب دیا نے فون کیا تھا کہ کنیز بھی انتظار کر رہی ہو گی اس نے جتا کر کہا۔
یار میں ایش کے ڈاکٹر کے آنے تک یہیں ہوں تم جاٶ میں آ جاٶں گا حمزہ نے کہا۔
فہام کا پارہ ایک دم ہاٸ ہوا۔
تمہارا دماغ خراب ہے کیا اس کے ماں باپ ہیں اس کے پاس اس کی دیکھ بھال کو تم چلو میرے ساتھ اس نے حمزہ کی بازو تھامی۔
حمزہ نے سہولت سے اپنی بازو چھڑاٸ تم جاٶ میں آ جاٶں گا ابھی ایش کو میری ضرورت ہے اس نے ایش کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
بھاڑ میں جاٶ تم فہام بھنا کر چلا گیا۔
جیسے ہی وہ گھر گیا سب نے سوالیہ نظروں سے اس سے حمزہ کا پوچھا۔
وہ اس کا دوست بیمار ہے وہ اس کے پاس گیا ہے آ جاۓ گا کچھ دیر میں وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا دیا ناشتہ لا دو یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔
دیا ناشتہ لے کر آٸ تو اسے کھوۓ ہوۓ دیکھ کر بولی کیا حمزہ کا دوست زیادہ بیمار ہے؟
اللّٰہ کرے مر ہی جاۓ وہ اس نے ایش کو غاٸبانہ بدعا دی۔
نہیں دیا ادھر بیٹھو مجھے کچھ بتانا ہے تمہیں اس نے دیا کی اپنے قریب جگہ بناٸ۔
پھر اس نے ساری بات بتا کر پوچھا اب بتاٶ کیا ہو گا حمزہ پھر ایش کی جانب لوٹ رہا ہے کنیز کا کیا ہو گا اتنے میں باہر سے کچھ گرنے کی آواز آٸ کنیز جو دیا کو بلانے آٸ تھے اب لٹھے کی مانند سفید چہرہ لیۓ کھڑی تھی اور ہاتھ میں موجود چوڑیاں جو شاید اس نے ابھی اتاری تھی فرش پر گر کر ٹوٹ چکیں تھیں۔
فہام بھی تیزی سے باہر آیا اور اس کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
کنیز اندر آٶ دیا نے اس کا
ہاتھ تھامنا چاہا مگر وہ ایک جھٹکے سے مڑی اور بھاگ کر خود کو کمرے میں بند کر لیا۔
کنیز دیا اس کے پیچھے بھاگی فہام بھی بے ساختہ لپکا۔
کنیز دروازہ کھولو پلیز دیا نے دروازہ بجایا۔
اتنے میں اماں آ گٸیں کیا ہوا کنیز بوہا کیوں بند کیتا ای انہوں نے آواز لگاٸ مگر جواب ندارد۔
کیا ہویا انوں اماں نے دیا علی اور فہام کی جان دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
دیا علی نے روتے ہوۓ ساری بات بتاٸ۔
اماں چند لمحوں کے لیۓ خاموش ہو گٸیں۔
چل پتر فیر رب دی مرضی وہ کہہ کر شکستہ انداز میں لوٹ گیٸں۔
دیا چلو کمرے میں اس سے پہلے کہ کسی اور کو پتہ چلے میں حمزہ کو دوبارہ کال کرتا ہوں فہام بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلا کر اس کے ساتھ چل دی۔
حمزہ نے ایش کی خرابٸ صحت کا بتا کر رات آنے سے معذرت کر لی تھی فہام نے گھر میں بتایا اس کے دوست کی طبیعت بہت خراب ہے وہ آج رات نہیں آ سکے گا۔
حمزہ کے والد نے کنیز کا پوچھا۔
وہ شرما رہی ہے کمرے میں ہے۔
دیا علی کی امی کو کچھ کچھ صورتحال کی سمجھ آ رہی تھی انہوں نے دیا سے پوچھا مگر دیا نے انکو ٹال دیا۔
رات کا اندھیرا چار سو چھایا تھا ہر ذی روح خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا مگر کوٸ ایسا بھی تھا جو سجدے میں گڑگڑا رہا تھا تڑپ رہا تھا اور زبان پہ ایک ہی کلمہ جاری تھا یااللہ اسے میرا محرم بنا دے یا مجھے صبر دے دے اس کا رونا اور تڑپنا ایسا تھا کہ اس مالک نے اس کے لیۓ ایک بہترین فیصلہ کر دیا۔
کنیز کو یاد آیا شادی سے پہلے اس نے کیسے اسے رب سے مانگا تھا اس کے رب نے اس کی دعا تو سن لی تھی مگر شاید کوٸ آزماٸش باقی تھی شاید اللّٰہ اس کے پیار کی گہراٸ کو دیکھنا چاہ رہے تھے۔
حمزہ گھر آٸیں میں انتظار کر رہی ہوں کنیز نے حمزہ کو فون کر کے کہا اور فون بند کر دیا۔
اسکی آواز سن کر حمزہ بے چین ہوا اسے لگا وہ روٸ ہے کنیز اس نے پکارا مگر فون بند ہو چکا تھا۔
اس نے کال بیک کی مگر کنیز کا فون نمبر بند تھا شاٸد نئے جوڑے گۓ رشتے کا اثر تھا حمزہ ایش کو روتے ہوۓ چھوڑ کر آ گیا۔
کنیز دروازہ کھولو اس نے بے چینی سے دروازہ کھٹکھٹایا اسکی آواز سنتے ہی کنیز نے دروازہ کھولا۔
اسکی صورت دیکھ کر حمزہ کے دل کو کچھ ہوا کنیز تم روٸ ہو۔
روٶں نہ تو کیا کروں میں کل ہماری شادی ہوٸ تھی اور آج مجھے آپ چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلے گے وہ پھٹ پڑی۔
کنیز ایسا نہیں ہے اس کی طبیعت خراب۔۔۔۔۔حمزہ نے کہنا چاہا۔
بھاڑ میں جاۓ اس کی طبیعت وہ بھناٸی
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکی مجھے آپ چاہیٸں ساری زندگی کے لیۓ پلیز حمزہ میں آپ سے ساری زندگی کچھ نہیں مانگوں گی اپنے نام کی طرح ساری زندگی آپ کی کنیز بن کر گزار دوں گی آپ اب ایش کے پاس مت جانا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
حمزہ ساکت رہ گیا وہ کنیز کی محبت میں اس قدر شدت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
اس کا رونا حمزہ کا دل دہلا گیا اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اسکو اٹھایا۔
میں ایش سے محبت۔۔۔دروازے پر دستک ہوٸ حمزہ نے بات ادھوری چھوڑ کر دروازہ کھولا باہر دیا تھی۔
**************************
ایش آج جیسے حمزہ تمہیں چھوڑ کر گیا ہے لگتا تو نہیں کہ اسے تم سے محبت اب بھی ہے ایش کی ممی نے کہا۔
اوہ ممی آپ تو جانتی ہیں نا میرا سحر اتنی جلدی اترنے والا نہیں واپس ضرور آۓ گا وہ مجھے یقین ہے وہ غرور سے بولی۔
کتنی غلط بات ہے ایش پہلے تم نے اس کی معذوری کی بنا پر اس سے شادی نہ کی اور اب اس بیچارے کی شادی ہو گٸ تب بھی تمہیں سکون نہیں ہے اسکے ڈیڈ اندر آتے ہوۓ بولے۔
اوہ ماٸ گاڈ ناٹ اگین ڈیڈ اس نے اکتا کر کہا وہ افسوس سے سر ہلا کر اندر چلے گۓ جبکہ اس کی ممی منہ بنا کر رہ گٸیں ایسے ہی ہیں یہ شروع سے۔
***********************
شاید حمزہ کہہ رہے تھے کہ وہ ایش سے محبت کرتے ہیں شکر ہے یہ سننے سے پہلے ہی دیا آ گٸیں۔
یااللّٰہ حمزہ کے دل سے ایش نکال دے کنیز فاطمہ نے نماز کے بعد دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھاۓ تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گۓ۔
ایسے میں اس فون بجا۔
*****************
جی بھاٸ اس نے فہام کی بات سن کر فون بند کر دیا۔
کنیز کس کا فون تھا دیا نے پیچھے سے آ کر پوچھا۔
فہام بھاٸ کا کہہ رہے تھے حمزہ کو سٹوڈیو بھیجو ہم نہیں کہیں جانا ہے کنیز نے بتایا اور حمزہ کو بتانے چل دی۔
آج دیا،فہام اور امی کی واپسی تھی۔
********************
پر ہم جا کہاں رہے ہیں حمزہ نے جھنجھلا کر کوٸ دسویں بار پوچھا۔
جب پہنچیں گے تو تمہیں بھی پتہ چل جاۓ گا فہام نے اطمینان سے جواب دیا۔
حمزہ نے ناراضگی کے اظہار کے لیۓ چہرہ دوسری جانب موڑ دیا۔
ایک ریسٹورنٹ کے آگے اس نے گاڑی روک دی اترو اس نے حمزہ سے کہا۔
یہاں کیوں آۓ ہیں حمزہ نے پوچھا۔
یہاں ان کو ویٹر کی ضرورت تھی تمہیں لایا ہوں فہام بھنا کر بولا۔
اچھا یار مطلب کھانے کا پروگرام تھا سیدھا بتانا تھا اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔
ہم یہاں کسی سے ملنے آۓ ہیں فہام نے بتایا۔
کس سے حمزہ حیرانی سے بولا۔
صبر کر لو خدا کے لیۓ فہام نے تنگ آ کر کہا۔
چند لمحوں بعد ایک خوبصورت سا جوان ان کے سامنے آ کر بیٹھا۔
یہ ایک ابھرتا ہوا اداکار ہے اویس نام ہے اس کا۔
فہام نے تعارف کروایا اور دونوں نے مصافحہ کیا۔
چند لمحوں بعد اویس نے جو انکشافات کیۓ اس نے حمزہ کی حالت بری کر دی فہام اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا مگر خاموش تھا۔
وہ بمشکل اٹھا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا میں کبھی نہ مانتا مگر وہ تصویریں وہ سب کچھ اس کے آنسووں لگاتار بہے چلے جا رہے تھے فہام نے اسے گلے لگا کر بھینچا۔
💘💘”سانوں چٹیا اے عشق دے تیراں
کپڑے لیراں حال فقیراں
عشق پوایاں زنجیراں عشق پوایاں زنجیراں“💘💘
اس نے گاڑی واپسی کی جانب موڑ دی ایک ویران جگہ دیکھ کر اس نے گاڑی رکوا دی اور نیچے اتر کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
اتنا بڑا دھوکا اس نے سر ہاتھوں پر گرا لیا۔
کوٸ ایسے کیسے کسی کے دل کے ساتھ کھیل سکتا ہے اس نے پیشانی پر زور سے مکا مارا فہام گھبرا گیا سنبھالو خود کو حمزہ پلیز۔
وہ زور زور سے رونے لگا اکا دکا راہگیر رک کر تماشہ دیکھنے لگے۔
جاری ہے