تمہارے جیسا نہ کوئی از ہادیہ سحر آخری قسط نمبر 10
فہام بے بسی سے اسے سمجھانے لگا مگر اس نے زور سے اسے دھکا دیا جاٶ یہاں سے نہیں چاہیۓ مجھے کسی کی ہمدردی وہ بولتے بولتے ہانپا اور ایک جانب لڑھک گیا۔
ہاۓ بیچارے کو لگتا ہے کوٸ روگ لگا ہے لوگ چہ میگوٸیاں کرنے لگے۔
”مجنوں وانگ تماشہ بنے ہاں مارے پتھر زمانے“
اس نے ایک آدمی کی مدد سے حمزہ کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔
ان کا نروس بریک ڈاٶن ہوا ہے۔کیا پریشانی ہے ان کو؟
ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں پوچھا۔
ڈاکٹر سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیۓ اس بات پر عمل کرتے ہوۓ اس نے ڈاکٹر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
اوہ سو سیڈ ڈاکٹر نے افسوس کیا۔
فہام نے گھر فون کر کے اطلاع دی جس پر سب ہسپتال کو دوڑے۔
حمزہ غنودگی میں تھا جب اسے محسوس ہوا ایش اس کے پاس آٸ ہو ”ایش“ اس نے بے تابی سے پکارا۔
کنیز جو اس کے ماتھے پر آۓ بال سنوار رہی تھی اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی روکی اور باہر کی جانب بھاگی۔
”سانوں سدنا ایں نام اودا لے کے
تینوں پیندے اودے پلیکھے“
دیا وہ آج بھی اس کا ہے اس کے آنسو تھمنے میں نہیں آ رہے تھے تم لوگوں نے اسے مجبور کیا ہے مجھ سے شادی کرنے پر مجھے اس کے جسم سے غرض نہیں مجھے اس کا دل چاہیۓ میں اس کے جسم
کی طلبگار نہیں ہوں وہ بے بسی سے بولی۔
دیا نے نفی میں سر ہلایا ہم نے کوٸ زبردستی نہیں کی تھی اس نے خود کہا تھا اور تم جانتی ہو کہ بھولنے میں وقت تو لگتا ہے تم اسے کچھ وقت دو پھر دیکھنا وہ ایک دن تمہارا ہو گا دیا نے اسے پیار سے گلے لگا کر کہا وہ پرسکون ہو گٸ اور شرمندہ بھی کہ اس نے اتنا شدید رد عمل ظاہر کیا اس نے شرمندگی دیا پر ظاہر کی اور دیا نے ہنس کر اسے معاف کر دیا۔
*************************
ایش دو دن ہو گۓ ہیں حمزہ نے کوٸ رابطہ نہیں کیا ایش کی ممی فکرمندی سے بولیں۔
آ جاۓ گا ممی آپ فکر کیوں کرتی ہیں اس نے بے فکری سے کہا اور فون ملا کر اس کے اٹینڈ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
***************************
آج حمزہ کافی بہتر محسوس کر رہا تھا اس نے ایک پل کے لیۓ بھی کنیز کو اپنے پاس سے اٹھنے نہیں دیا تھا وہ جھینپی جھینپی سی اس کے قریب بیٹھی تھی کہ ایسے میں حمزہ کا فون بجا کنیز خوفزدہ ہو گٸ کہ ایش کا فون ہو گا۔
ہاں ایش کیسی ہو حمزہ نے مسکراتے ہوۓ پوچھا کنیز ایک جھٹکے سی اٹھ کھڑی ہوٸ حمزہ نے پھرتی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا اور اسے کھینچ کر پاس بٹھا لیا۔
ایش سے ملاقات طے کر کے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا مقام میں کبھی کسی کو نہیں دوں گا حمزہ نے اسکا ماتھا چوما وہ شرم سے دہری ہو گٸ حمزہ نے مسکرا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ فوراً باہر کی جانب بھاگی۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر آیا وہاں سب موجود تھے حورین نے فوراً اپنے قریب اس کے لیۓ جگہ بناٸ وہ اس کے پاس جا بیٹھا سامنے فہام بیٹھا اماں کی کسی بات پر ہنس رہا تھا یار فہام اویس کی جانب چلنا ہے چلو گے اس نے اسے مخاطب کیا وہ حیران ہوا۔
کیوں اس نے پوچھا؟
یونہی ملنے وہ پراسرار انداز میں مسکرایا۔
اویس کون ہے لالا نے پوچھا۔
وہ فہام کا ایک جاننے والا ہے اچھا لگا مجھے تب ملنا چاہا حمزہ نے بتایا۔
چلو جاٶ تو دھیان سے جانا انہوں نے گویا اجازت دی۔
فہام اسے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا۔
ویسے مجھے لگتا ہے تم نے نروس بریک ڈاٶن کا بہانہ کیا تھا ایکدم ٹھیک کیسے ہو گۓ معجزانہ طور پر فہام نے مشکوک انداز میں کہا۔
یہ معجزہ محبت میں ہو جاتا ہے میرے یار اس نے خوبصورت انداز میں کہا مجھے جب بھی کوٸ تکلیف ہوتی ہے تو کنیز فاطمہ کی محبت اس تکلیف کا مرہم بن جاتی ہے وہ میرے زخموں پر مرہم اس انداز میں رکھتی
ہے کہ وہ مندمل ہونے میں لمحہ لگاتے ہیں تم کیا جانو محرم کی محبت کیا ہوتی ہے آخر پہ اس نے شرارتاً کہا۔
ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ ہم بھی ایک عدد محرم ہونے کا شرف رکھتے ہیں فہام نے ہنس کر کہا۔
ویسے جانا کہاں ہے اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔
ایش سے ملنے حمزہ نے سیٹ پر سر ٹکاتے ہوۓ کہا۔
واٹ؟؟؟
فہام کو چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا تم پاگل تو نہیں ہو گۓ کیا؟
یار اس نے بلایا ہے وہ مسکرایا۔
تم۔۔۔۔تم کتے کی دم ہو جو سو سال نلکی میں رہے پھر بھی ٹیڑھی رہتی ہے اس کی وجہ سے تم مرتے مرتے بچے پھر اس کے پاس جا رہے ہو فہام کو بے انتہا غصہ آیا جاٶ مرو تم میں نہیں جا رہا تمہارے ساتھ اب جب سب حقیقت کا تمہیں پتہ چل گیا کہ وہ محض۔۔۔۔۔۔
میں آج ہر حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں بس۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
چند لمحوں میں وہ اس کے گھر میں تھے۔
آنٹی میں ایش سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں اس نے واضح طور پر ان کو جانے کا اشارہ کیا آ جاٸیں ہم باہر چلتے ہیں انہوں نے حمزہ سے کہا۔ نہیں اس کو رہنے دیں حمزہ نے کہا وہ ایک لمحے کو رکیں مگر پھر چل دیں۔
ایش تمہارا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا تھا حمزہ نے سنجیدگی سے اس کے بیڈ کے قریب جا کر پوچھا۔
وہ۔۔۔۔وہ میرا روڈ ایکسیڈنٹ تھا وہ اداسی سے بولی۔
اگلے ہی لمحے حمزہ نے کھینچ کر اس کے اوپر سے چادر ہٹاٸ جہاں اس کی سلامت ٹانگیں حمزہ کا منہ چڑا رہیں تھیں۔
وہ بھونچکی رہ گٸ۔
کیوں کیا ایش تم نے ایسا وہ تھکے تھکے انداز میں بولا فہام نے حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
وہ یوں اٹھ کھڑی ہوٸ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تمہیں یاد ہے حمزہ تم نے میرا بڑھا ہوا ہاتھ یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا تھا کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا اسی وقت میں نے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ تم سے اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لوں گی وہ میں نے شادی سے انکار کی صورت میں لے لیا تھا مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ تم دوبارہ سے ٹھیک ہو گۓ ہو تو میں نے یہ ڈرامہ کیا اچھا ہوا تمہیں پتہ چل گیا ہے اب جان چھوڑو میری وہ نخوت سے گویا ہوٸ۔
حمزہ کو لگا تھا وہ شرمندہ ہو گی یا معافی مانگے گی وہ طیش میں اٹھا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر مار کر بولا الحَمْدُ ِلله میری بیوی ایک پاکیزہ عورت ہے اور بے شک اللّٰہ بہتر کے بدلے بہترین دیتا ہے۔
اتنا کہہ کر اس نے ہکا بکا کھڑے فہام کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے باہر نکل گیا اس کے جاتے ہے ایش کو ہوش آیا
اور وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکی۔
***********************
پانچ سال بعد۔
آج حورین اور شرجیل کی شادی تھی۔
یار فہام مجھے کہیں ملے اویس تو میں اس کا شکریہ ادا کروں حمزہ نے کہا۔
***************************
پانچ سال پہلے۔
یہ ایک ابھرتا ہوا اداکار ہے اویس نام ہے اس کا۔
فہام نے تعارف کروایا اور دونوں نے مصافحہ کیا۔
چند دن پہلے عاٸشہ نامی ایک لڑکی آٸ تھی میرے پاس اس نے مجھے ایک ڈاکٹر کا رول پلے کرنے کی بھاری رقم دی تھی یوں اس نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا اور ثبوت کے طور پر وہ ویڈیو بھی دکھاٸ جس میں وہ یہ سودا بازی کر رہی تھی۔
**************************
پاپا حمزہ کا بیٹا بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا پاپا گل رعنا میرے ساتھ نہیں کھیل رہی وہ سنی کے ساتھ کھیل رہی ہے چار سالہ روحان نے حمزہ کو بتایا۔
فہام دیکھ لو اپنی بیٹی کو حمزہ نے اسے شکایت لگاٸ۔
بڑے ابو وہ میری بات نہیں سن رہی روحان نے اس کا چہرہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی جانب کیا۔
گل رعنا فہام نے اسے بلایا وہ تیزی سے اس کے پاس آٸ جی بابا۔
بیٹا آپ روحان کی بات کیوں نہیں سن رہی سنی کے ساتھ کیوں کھیل رہی ہو اس کو چھوڑ کر۔
فہام نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔
بابا یہ بھی مجھے چھوڑ کر عریشہ کے ساتھ کھیل رہا تھا اس نے انکشاف کیا۔
اچھا اب جاٶ کھیلو جا کے دونوں حمزہ نےان کو وہاں سے بھگایا۔
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فہام بولا ویسے ایش ڈرامہ کرتے کرتے سچ میں معذور ہو گٸ ہے افسوس ہوا۔
اس روز وہ تیزی سے گاڑی لے کر ان کے پیچھے گٸ اور تیز رفتاری میں ایکسیڈنٹ کے باعث اپنی دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی۔
حمزہ کو کنیز فاطمہ سے عشق ہو گیا تھا وہ جتنی خوبصورت بیوی تھی اس سے کٸ گنا اچھی ماں تھی وہ گل رعنا کو پینٹس نہیں پہناتی تھی اور اس کے وجود کو ڈھکے رکھتی تھی کہ وہ فاطمہ بنت محمدﷺ کے نقش قدم پر چلے۔
*******
یہ تحریر میری دوسری کوشش تھی آپ کی اچھی یا بری راۓ میرا حوصلہ بڑھاۓ گی یا کم کرے گی امید ہے آپ کو میری یہ تحریر پسند آۓ گی اس میں کہیں کوٸی کمی یا زیادتی ہوٸی ہو تو آپ راۓ کا اظہار ضرور کریں جزاك الله
اللّٰہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین۔
ختم شدہ
ہاۓ بیچارے کو لگتا ہے کوٸ روگ لگا ہے لوگ چہ میگوٸیاں کرنے لگے۔
”مجنوں وانگ تماشہ بنے ہاں مارے پتھر زمانے“
اس نے ایک آدمی کی مدد سے حمزہ کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔
ان کا نروس بریک ڈاٶن ہوا ہے۔کیا پریشانی ہے ان کو؟
ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں پوچھا۔
ڈاکٹر سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیۓ اس بات پر عمل کرتے ہوۓ اس نے ڈاکٹر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
اوہ سو سیڈ ڈاکٹر نے افسوس کیا۔
فہام نے گھر فون کر کے اطلاع دی جس پر سب ہسپتال کو دوڑے۔
حمزہ غنودگی میں تھا جب اسے محسوس ہوا ایش اس کے پاس آٸ ہو ”ایش“ اس نے بے تابی سے پکارا۔
کنیز جو اس کے ماتھے پر آۓ بال سنوار رہی تھی اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی روکی اور باہر کی جانب بھاگی۔
”سانوں سدنا ایں نام اودا لے کے
تینوں پیندے اودے پلیکھے“
دیا وہ آج بھی اس کا ہے اس کے آنسو تھمنے میں نہیں آ رہے تھے تم لوگوں نے اسے مجبور کیا ہے مجھ سے شادی کرنے پر مجھے اس کے جسم سے غرض نہیں مجھے اس کا دل چاہیۓ میں اس کے جسم
کی طلبگار نہیں ہوں وہ بے بسی سے بولی۔
دیا نے نفی میں سر ہلایا ہم نے کوٸ زبردستی نہیں کی تھی اس نے خود کہا تھا اور تم جانتی ہو کہ بھولنے میں وقت تو لگتا ہے تم اسے کچھ وقت دو پھر دیکھنا وہ ایک دن تمہارا ہو گا دیا نے اسے پیار سے گلے لگا کر کہا وہ پرسکون ہو گٸ اور شرمندہ بھی کہ اس نے اتنا شدید رد عمل ظاہر کیا اس نے شرمندگی دیا پر ظاہر کی اور دیا نے ہنس کر اسے معاف کر دیا۔
*************************
ایش دو دن ہو گۓ ہیں حمزہ نے کوٸ رابطہ نہیں کیا ایش کی ممی فکرمندی سے بولیں۔
آ جاۓ گا ممی آپ فکر کیوں کرتی ہیں اس نے بے فکری سے کہا اور فون ملا کر اس کے اٹینڈ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
***************************
آج حمزہ کافی بہتر محسوس کر رہا تھا اس نے ایک پل کے لیۓ بھی کنیز کو اپنے پاس سے اٹھنے نہیں دیا تھا وہ جھینپی جھینپی سی اس کے قریب بیٹھی تھی کہ ایسے میں حمزہ کا فون بجا کنیز خوفزدہ ہو گٸ کہ ایش کا فون ہو گا۔
ہاں ایش کیسی ہو حمزہ نے مسکراتے ہوۓ پوچھا کنیز ایک جھٹکے سی اٹھ کھڑی ہوٸ حمزہ نے پھرتی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا اور اسے کھینچ کر پاس بٹھا لیا۔
ایش سے ملاقات طے کر کے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا مقام میں کبھی کسی کو نہیں دوں گا حمزہ نے اسکا ماتھا چوما وہ شرم سے دہری ہو گٸ حمزہ نے مسکرا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ فوراً باہر کی جانب بھاگی۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر آیا وہاں سب موجود تھے حورین نے فوراً اپنے قریب اس کے لیۓ جگہ بناٸ وہ اس کے پاس جا بیٹھا سامنے فہام بیٹھا اماں کی کسی بات پر ہنس رہا تھا یار فہام اویس کی جانب چلنا ہے چلو گے اس نے اسے مخاطب کیا وہ حیران ہوا۔
کیوں اس نے پوچھا؟
یونہی ملنے وہ پراسرار انداز میں مسکرایا۔
اویس کون ہے لالا نے پوچھا۔
وہ فہام کا ایک جاننے والا ہے اچھا لگا مجھے تب ملنا چاہا حمزہ نے بتایا۔
چلو جاٶ تو دھیان سے جانا انہوں نے گویا اجازت دی۔
فہام اسے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا۔
ویسے مجھے لگتا ہے تم نے نروس بریک ڈاٶن کا بہانہ کیا تھا ایکدم ٹھیک کیسے ہو گۓ معجزانہ طور پر فہام نے مشکوک انداز میں کہا۔
یہ معجزہ محبت میں ہو جاتا ہے میرے یار اس نے خوبصورت انداز میں کہا مجھے جب بھی کوٸ تکلیف ہوتی ہے تو کنیز فاطمہ کی محبت اس تکلیف کا مرہم بن جاتی ہے وہ میرے زخموں پر مرہم اس انداز میں رکھتی
ہے کہ وہ مندمل ہونے میں لمحہ لگاتے ہیں تم کیا جانو محرم کی محبت کیا ہوتی ہے آخر پہ اس نے شرارتاً کہا۔
ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ ہم بھی ایک عدد محرم ہونے کا شرف رکھتے ہیں فہام نے ہنس کر کہا۔
ویسے جانا کہاں ہے اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔
ایش سے ملنے حمزہ نے سیٹ پر سر ٹکاتے ہوۓ کہا۔
واٹ؟؟؟
فہام کو چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا تم پاگل تو نہیں ہو گۓ کیا؟
یار اس نے بلایا ہے وہ مسکرایا۔
تم۔۔۔۔تم کتے کی دم ہو جو سو سال نلکی میں رہے پھر بھی ٹیڑھی رہتی ہے اس کی وجہ سے تم مرتے مرتے بچے پھر اس کے پاس جا رہے ہو فہام کو بے انتہا غصہ آیا جاٶ مرو تم میں نہیں جا رہا تمہارے ساتھ اب جب سب حقیقت کا تمہیں پتہ چل گیا کہ وہ محض۔۔۔۔۔۔
میں آج ہر حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں بس۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
چند لمحوں میں وہ اس کے گھر میں تھے۔
آنٹی میں ایش سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں اس نے واضح طور پر ان کو جانے کا اشارہ کیا آ جاٸیں ہم باہر چلتے ہیں انہوں نے حمزہ سے کہا۔ نہیں اس کو رہنے دیں حمزہ نے کہا وہ ایک لمحے کو رکیں مگر پھر چل دیں۔
ایش تمہارا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا تھا حمزہ نے سنجیدگی سے اس کے بیڈ کے قریب جا کر پوچھا۔
وہ۔۔۔۔وہ میرا روڈ ایکسیڈنٹ تھا وہ اداسی سے بولی۔
اگلے ہی لمحے حمزہ نے کھینچ کر اس کے اوپر سے چادر ہٹاٸ جہاں اس کی سلامت ٹانگیں حمزہ کا منہ چڑا رہیں تھیں۔
وہ بھونچکی رہ گٸ۔
کیوں کیا ایش تم نے ایسا وہ تھکے تھکے انداز میں بولا فہام نے حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
وہ یوں اٹھ کھڑی ہوٸ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تمہیں یاد ہے حمزہ تم نے میرا بڑھا ہوا ہاتھ یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا تھا کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا اسی وقت میں نے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ تم سے اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لوں گی وہ میں نے شادی سے انکار کی صورت میں لے لیا تھا مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ تم دوبارہ سے ٹھیک ہو گۓ ہو تو میں نے یہ ڈرامہ کیا اچھا ہوا تمہیں پتہ چل گیا ہے اب جان چھوڑو میری وہ نخوت سے گویا ہوٸ۔
حمزہ کو لگا تھا وہ شرمندہ ہو گی یا معافی مانگے گی وہ طیش میں اٹھا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر مار کر بولا الحَمْدُ ِلله میری بیوی ایک پاکیزہ عورت ہے اور بے شک اللّٰہ بہتر کے بدلے بہترین دیتا ہے۔
اتنا کہہ کر اس نے ہکا بکا کھڑے فہام کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے باہر نکل گیا اس کے جاتے ہے ایش کو ہوش آیا
اور وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکی۔
***********************
پانچ سال بعد۔
آج حورین اور شرجیل کی شادی تھی۔
یار فہام مجھے کہیں ملے اویس تو میں اس کا شکریہ ادا کروں حمزہ نے کہا۔
***************************
پانچ سال پہلے۔
یہ ایک ابھرتا ہوا اداکار ہے اویس نام ہے اس کا۔
فہام نے تعارف کروایا اور دونوں نے مصافحہ کیا۔
چند دن پہلے عاٸشہ نامی ایک لڑکی آٸ تھی میرے پاس اس نے مجھے ایک ڈاکٹر کا رول پلے کرنے کی بھاری رقم دی تھی یوں اس نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا اور ثبوت کے طور پر وہ ویڈیو بھی دکھاٸ جس میں وہ یہ سودا بازی کر رہی تھی۔
**************************
پاپا حمزہ کا بیٹا بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا پاپا گل رعنا میرے ساتھ نہیں کھیل رہی وہ سنی کے ساتھ کھیل رہی ہے چار سالہ روحان نے حمزہ کو بتایا۔
فہام دیکھ لو اپنی بیٹی کو حمزہ نے اسے شکایت لگاٸ۔
بڑے ابو وہ میری بات نہیں سن رہی روحان نے اس کا چہرہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی جانب کیا۔
گل رعنا فہام نے اسے بلایا وہ تیزی سے اس کے پاس آٸ جی بابا۔
بیٹا آپ روحان کی بات کیوں نہیں سن رہی سنی کے ساتھ کیوں کھیل رہی ہو اس کو چھوڑ کر۔
فہام نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔
بابا یہ بھی مجھے چھوڑ کر عریشہ کے ساتھ کھیل رہا تھا اس نے انکشاف کیا۔
اچھا اب جاٶ کھیلو جا کے دونوں حمزہ نےان کو وہاں سے بھگایا۔
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فہام بولا ویسے ایش ڈرامہ کرتے کرتے سچ میں معذور ہو گٸ ہے افسوس ہوا۔
اس روز وہ تیزی سے گاڑی لے کر ان کے پیچھے گٸ اور تیز رفتاری میں ایکسیڈنٹ کے باعث اپنی دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی۔
حمزہ کو کنیز فاطمہ سے عشق ہو گیا تھا وہ جتنی خوبصورت بیوی تھی اس سے کٸ گنا اچھی ماں تھی وہ گل رعنا کو پینٹس نہیں پہناتی تھی اور اس کے وجود کو ڈھکے رکھتی تھی کہ وہ فاطمہ بنت محمدﷺ کے نقش قدم پر چلے۔
*******
یہ تحریر میری دوسری کوشش تھی آپ کی اچھی یا بری راۓ میرا حوصلہ بڑھاۓ گی یا کم کرے گی امید ہے آپ کو میری یہ تحریر پسند آۓ گی اس میں کہیں کوٸی کمی یا زیادتی ہوٸی ہو تو آپ راۓ کا اظہار ضرور کریں جزاك الله
اللّٰہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین۔
ختم شدہ
Leave a Reply