عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 10
پورا ہفتہ پر لگا کر اڑ گیا تھا اسامہ کے جانے کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھی دوپہر کے بعد اسے روانہ ہونا تھا وہ محسن نقوی صاحب سے فاطمہ سے ملنے کی اجازت لیکر اس دشمن جان کے کمرے تک آیا اور دروازہ ہلکے سے کھٹکا کر اندر داخل ہو گیا
” آپ !! ” فاطمہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی
” بس تھوڑی دیر میں نکل رہا ہوں پھر نا جانے کب ملاقات ہو اس لئیے تمہیں دیکھنے چلا آیا ۔۔۔” وہ رسان سے کہتا ہوا اس کے پاس آکر کھڑا ہو گیا ان دونوں کے بیچ خاموشی چھائی ہوئی تھی فاطمہ اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے سر جھکا چکی تھی ۔۔۔ ” فاطمہ ” اس کی گھمبیر آواز ابھری اس نے سر جھکائے کھڑی فاطمہ کو بغور دیکھتے ہوئے اس کا دائیاں ہاتھ تھام لیا
فاطمہ !! جو میں تمہارے لئے محسوس کرتا ہوں اس سے پہلے کبھی بھی کسی کے لیے بھی محسوس نہیں کیا !! انفیکٹ میں تو آج تک کسی لڑکی کے چکر میں نہیں پڑا !! مگر تم ….تم سب سے الگ ہو پہلے تم میری پسند تھی اب محبت ہو۔۔۔لیکن تم ہو بڑی ظالم !! جانتی ہو میں جارہا ہوں اس لیے تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں تم سے ملنا چاہتا ہوں اور تم مجھ سے چھپتی پھرتی ہوں۔۔۔۔” وہ اپنا حال بیان کر رہا تھا
“ہاتھ چھوڑئیے میرا۔” وہ خشک لہجے میں بولی
“یہ ہاتھ چھوڑنے کے لئے تو نہیں پکڑا ہے ۔” اس نے اپنی جینز کی جیب سے ایک نازک سی خوبصورت سی رنگ نکالی اور اس کے ہاتھ میں زبردستی پہنا دی ۔
” یہ یہ آپ پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
“شش یہ انگوٹھی میرے جانے کے بعد تمہیں یاد دلاتی رہے گی کہ تم میری امانت ہو ! میری ہو اور غلطی سے بھی اگر یہ انگوٹھی اپنی انگلی سے اتارو گی تو سوچ لینا مجھے فوراً پتا چل جانا ہے اور پھر میں تمہیں سخت سزا دونگا ۔۔۔۔” اس نے دھیرے سے اس کے ہاتھ کو چوما
” آپ آپ بہت بڑے ہیں !! ہاتھ چھوڑیں میرا ۔۔” وہ غصہ دباتے ہوئے بولی
” واللہ اس طرح غصہ کرتی ہوئی بالکل بیوی لگ رہی ہو ۔۔۔” وہ شرارت سے اس کے سر سے سر ٹکراتے ہوئے بولا
” میں آپ کی بیوی نہیں ہو۔۔۔”وہ تپ اٹھی
” کوئی بات نہیں !! نہیں ہوں تو کیا ہوا ؟؟ ہو جاؤں گی بہت جلد !! دیکھنا دو سال پر لگا کر گزر جائینگے بس تم میرا انتظار کرنا !!! بولو کروگی نا ؟؟ ” وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا
” اگر !! اگر میں آپ سے کوئی رشتہ نا رکھنا چاہوں تو ؟؟ ‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولی
” تو !! ” اس نے بغور فاطمہ کو دیکھا پھر ایک جھٹکے سے اسے بازو سے جکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔۔
“مجھے تمہاری ہاں یا ناں سے کوئی فرق نہیں پڑتا !! چاچو تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے چکے تھے وہ مجھ سے وعدہ لے چکے تھے کہ میں تمہارا خیال رکھوں گا !! لہٰذا تم مانو یا نہ مانو شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہوگی اور یاد رکھنا میں ضدی بھی بہت ہوں اور تمہارے معاملہ بنیں تو شدت پسند بھی ہوں !!! تم میرے دل کو اچھی لگتی ہوں تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں کسی کی پروا نہیں کروں گا اس لئیے سویٹ ہارٹ اپنا مائنڈ میک کرنا شروع کرو !! ”
فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اس نے بیچارگی سے سر اٹھا کر اسامہ کو دیکھا جس کی گہری نظر اسی پر مرکوز تھی ۔۔۔
” کیا ہوا مجھ سے ڈر رہی ہو ؟؟ ”
” پلیز بازو چھوڑیں ۔۔”
” نہ چھوڑوں تو ؟؟ ” اس نے گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس کی نم پلکوں کو دھیرے سے چھوا
” پلیز !!!مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔” وہ خود کو اسامہ کی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں ناکام ہو کر روہانسی سی ہو گئی
” پہلے وعدہ کرو !! میرا انتظار کرو گی ۔۔۔” وہ ضدی لہجے میں بولا
” آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟؟ میں میں آپ سے کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتی ہوں آپ پلیز مجھے معاف کردیں ۔۔۔”وہ اٹک اٹک کر بولی
اسامہ کے ماتھے پر رگیں نمایاں ہونے لگی چہرے پر سختی ابھر آئی تھی
” تمہاری ان سو کالڈ باتوں کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے !! اسامہ سے !! جو مسلسل تم سے محبت کا اظہار کر رہا ہے تمہیں ایک اچھی زندگی دینا چاہ رہا ہے تم اسے ٹھکرا رہی ہوں !! تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی؟؟؟ ” اسامہ نے طیش میں آ کر اپنے مھٹیاں بھینچ لی تھی اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔
فاطمہ کو اس سے ڈر محسوس ہورہا تھا وہ تیزی سے ہاتھ چھڑا کے دروازے کی طرف بڑھی لیکن اسامہ نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا
“تم حد سے زیادہ خودپسند لڑکی ہو !! میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہاری ہاں یا ناں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اب تم نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جانے سے پہلے تم سے نکاح پڑھوا کر جاؤ چلو میرے ساتھ !! ہم ابھی مسجد جائیں گے۔۔۔” اسامہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کے دروازے کی جانب بڑھا
فاطمہ کا ڈر و خوف سے برا حال تھا اس جنونی کو وہ غلطی سے چھیڑ بیٹھی تھی ۔۔۔
” ایسا مت کریں ٹھیک ہے آپ جیسا کہیں گے میں کرونگی !! سچی میں آپ کا انتظار کروں گی !! بس آپ ابھی ایسا مت کریں پلیز پلیز پلیز۔۔۔” وہ ہچکیوں سے رونے لگی
” ٹھیک ہے میں آخری بار تم پر بھروسہ کر رہا ہوں آئندہ مجھے شکایت کا موقع مت دینا۔۔۔” وہ اسے ایک جھٹکے سے چھوڑتا ہوا باہر نکل گیا ____________________________ ” کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں مجھے ثنا کے ساتھ اندر جانا ہے ۔۔۔” وہ پھنکاری
” بس اب مزید ایک لفظ نہیں !! تم خود کو سمجھتی کیا ہو؟؟ بدتمیزی کی حد ہوتی ہے کسی بات کو تم سننے کے لئے تیاری نہیں ہوں۔۔۔” علی نے اسے ٹوکا
” آپ ہوتے کون ہیں مجھے روکنے والے ؟؟ مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سنی آپ ہٹیں میرے سامنے سے۔۔۔”
” ملیحہ بی بی !! ” وہ دانت چبا کر بولا
” میں کون ہوں یہ تو تمہیں جلد ہی پتا چل جائیگا ابھی کے لئے تم اپنے اس خالی دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو اگر آج کے بعد تم مجھے کیمپ سے باہر دکھائی دی تو اسی وقت اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ گا اور اسے دھمکی مت سمجھنا !! I am Damn Serious ….
ملیحہ کے چہرے کی رنگت بدل گئی وہ سہم گئی تھی ۔۔ سرخ و سفید رنگت پر سنہری خوف و ہراس سے پھیلی ہوئی آنکھیں کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی تھی اس نے ایک گہری سانس لیکر اس کے سہمے ہوئے دلکش روپ کو نظروں میں سمویا ۔۔۔
علی نے ملیحہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور اسے لے کر تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اس میں بٹھا دیا۔۔۔ ملیحہ اس کو ایک غصیلہ روپ دیکھ کر ڈر گئی تھی وہ جس طرح سے اسے گھور رہا تھا وہ گھبرا کر اپنے سر پہ جمے دوپٹے کو مزید ٹھیک کرنے لگی۔۔۔ ریلیکس ہو جاؤ یار ! تم تو اتنا ڈر رہی ہوں کہ مجھے خود پر دہشتگرد ہونے کا گمان ہونے لگا ہے ۔” وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا
” ویسے جس طرح تم اکڑ رہی تھی مجھے تو لگا تھا کہ تم ایک بہت بولڈ لڑکی ہو اور ہو سکتا ہے مجھے ایک زور کا تھپڑ نا مار دو ۔۔۔” وہ اسے نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو بھی تھا وہ تھی تو ایک نازک سی لڑکی جو اس کے سخت لہجے سے ڈر گئی تھی _______________ تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اسامہ کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا اکیڈمی کی ٹریننگ بہت سخت تھی ڈسپلن ، نفس پر کنٹرول خود پر قابو پانا ۔۔۔اس کے اندر غیر محسوس انداز میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں اسے دوسال یہاں گزارنے تھے اور اس ٹریننگ کے دوران ہی اسے اپنی خامیوں کو جاننے کا موقع ملا ۔اپنے غصہ پر قابو پانا ممکن ہوا تو ساتھ ساتھ اس کی جنونی فطرت کو ایک راہ ایک مقصد ملا ۔۔۔
وہ اکثر گھر فون کرتا تھا ممی سے ڈیڈ سے بات ہوجاتی تھی لیکن فاطمہ کبھی بھی فون پر نہیں آئی اسے دیکھے کافی وقت گزر چکا تھا مگر اسامہ بھی اب اس سے یونیفارم میں ہی ملنا چاہتا تھا اس کی پوری توجہ اپنی ٹریننگ پر تھی وہ اپنے ارادوں میں اٹل تھا ۔۔۔ ________________________ دوسال !!! تقریباً دوسال کا عرصہ گزر چکا تھا فاطمہ کا سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آچکا تھا اس کے مارکس بہت اچھے تھے وہ اپنے آگے کا لائحہ عمل سوچ رہی تھی اس کا ارادہ راولپنڈی میں آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کا تھا وہ آج کل اسی کی ٹیسٹ کی تیاریوں میں مصروف تھی اس کی خواہش تھی کے وہ بھی اپنی ماں کی طرح ڈاکٹر بن کر فورس جوائن کرے اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلے ۔۔۔
” فاطمہ بیٹی کیا سوچ رہی ہوں ؟؟ ” نوشابہ نے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر سوچوں میں گم بیٹھی فاطمہ کو متوجہ کیا
” ارے آنٹی آپ !! آپ کب آئیں ؟؟ پلیز اندر آئیے ..” وہ ان کی آواز سن کر چونک کر کھڑی ہو گئی
” فاطمہ تمہیں محسن اسٹڈی میں بلا رہے ہیں ۔۔۔” انہوں نے اسے پیغام دیا
” جی آنٹی میں جاتی ہوں ۔۔۔” وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے شانوں پر دوپٹہ درست کرتی ہوئی اوپری منزل پر بنے اسٹڈی روم کی طرف بڑھی
” انکل آپ نے بلایا ہے ؟؟ ” وہ دروازہ ناک کرکے اندر جھانکتے ہوئے بولی
محسن نقوی صاحب نے چشمہ اتار کر ہاتھ میں تھامی کتاب میز پر رکھی اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا وہ انہیں سلام کرتی ہوئی سامنے ایک سیٹر صوفہ پر بیٹھ گئی
” فاطمہ بیٹی !! مجھے تم سے ایک اہم بات کرنی ہے اور مجھے پوری امید ہے میری بیٹی میری بات کو غور سے سنے گی اور عمل بھی کریگی ۔۔۔” انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
” جی انکل کہئیے ۔۔۔” وہ تابعداری سے بولی
” بیٹا احسن میرا چھوٹا بھائی تھا جگر کا ٹکڑا تھا آج اس کی وفات کو دوسال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کی وصیت کے مطابق جب اسامہ ٹریننگ مکمل کرلیگا تو تمہیں اس کی زوجیت میں دے دیا جائے گا ۔۔۔”
” لیکن انکل !! ” اس نے تڑپ کر ان کی بات کاٹی
” بیٹی اس دوسال کے عرصے میں اسامہ بہت بدل چکا ہے میں جتنی بار بھی اس سے مل کر آیا ہوں وہ مجھے ایک نیا جوان لگا ہے جوشیلا وطن کی محبت میں چور بالکل تمہارے بابا جیسا ۔۔۔ اور اب تین ماہ میں اس کی ٹریننگ ختم ہو جائے گی اس لئیے بیٹی میں چاہتا ہوں تم شادی کے لئیے اپنا مائنڈ سیٹ کرنا شروع کرو ۔۔۔۔” انہوں نے پیار سے سمجھایا
” انکل !! میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں پلیز ابھی آپ یہ سب مت کریں۔۔۔” اس نے ریکوئسٹ کی
” دیکھو بچے یہ سب تو اسامہ کے ٹریننگ پر جاتے وقت ہی طے ہوچکا تھا ویسے بھی تم شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہوں بی اے ہی تو کرنا ہے کہیں سے بھی کرلو پرائیوٹ پڑھ لو جو تمہیں آسان لگے” انہوں نے آرام سے کہا
فاطمہ سر ہلاتی ہوئی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔
اسے بہت افسوس ہو رہا تھا سگے ماں باپ واقعی سگے ماں باپ ہوتے ہیں ان کی کمی کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا مانا کے محسن انکل اور نوشابہ آ نٹی نے اسے بہت پیار سے رکھا تھا لیکن انہیں تو یہ تک نہیں پتا تھا کہ وہ آرٹس نہیں سائنس پڑھ رہی ہے وہ بی اے نہیں کرنا چاہتی ایم بی بی ایس کرنا چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا آرمی میں ڈاکٹر بننا اس کے بابا کی خواہش تھی اور انہوں نے کبھی بھی اس سے اسامہ یا کسی کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کی تھی وہ کیسے مان لیتی کے یہ شادی اس کے پیارے بابا کی وصیت ہے ؟؟ اس کے دل میں بدگمانی پیدا ہوچکی تھی اسے لگ رہا تھا کہ انکل اور آنٹی صرف اپنے بیٹے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔
تین ماہ !! بس تین ماہ اس کے پاس تھے اس کے بعد اسامہ نے واپس آ جانا تھا بہتر یہی تھا کے وہ اس کی آ مد سے پہلے اپنا ٹھکانا کر لے ۔ یہ سوچ اس کے دماغ میں جڑ پکڑ چکی تھی۔
ان دو سالوں میں وہ ایک مضبوط قوت ارادی رکھنے والی دوشیزہ کے روپ میں ڈھل چکی تھی میجر احسن کا بینک اکاؤنٹ اس کے نام ٹرانسفر ہو چکا تھا ۔ وہ بڑے آرام سے اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھا سکتی تھی۔۔۔
آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں داخلے شروع ہو رہے تھے اس نے بہت سوچ سمجھ کر اسفند سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ ___________________________ ” گڑیا !! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟؟ میری نظر میں اس طرح گھر چھوڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔۔۔” اسفند نے سمجھایا
” تو آپ بتائیں میں کیا کروں ؟؟ انکل آنٹی صرف اپنے بیٹے کا سوچ رہے ہیں میرے ماں باپ نہیں ہیں تو کیا مجھے کوئی حق نہیں کے میں اپنی جائز خواہشات پوری کروں ؟؟ اپنی تعلیم مکمل کروں ؟؟ بتائیے اور آپ !! آپ نے تو وعدہ کیا تھا میرا ساتھ دینے کا ؟؟ ” فاطمہ نے اسے اس کا وعدہ یاد دلایا
” میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں لیکن اس طرح گھر چھوڑنے کے سخت خلاف ہوں تم مجھے ایک بار محسن انکل سے بات کرنے دو مجھے امید ہے وہ میری بات سنیں گے ۔۔۔۔” اسفند نے کہا
” ٹھیک ہے انکل آج گھر میں ہیں آپ فون کرلیں ۔۔۔” فاطمہ نے اسے محسن نقوی صاحب کا سیل نمبر لکھوایا اور پھر خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا _____________________ اسفند نے فون پر بات کرنے کی بجائے خود آ کر بات کرنا مناسب سمجھا ویسے بھی وہ ایک اہم کورس کے لئیے چار روز میں امریکہ جانے والا تھا اس کے پاس وقت کم تھا اسی لئیے وہ کمشنر محسن صاحب سے وقت لیکر ان کے آفس میں ملا
“آؤ جوان !! کیسے آنا ہوا ویسے کتنا اچھا ہوتا اگر تم گھر آتے ۔۔۔” انہوں نے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا
” بس انکل وقت کی کمی ہے ، مجھے ایک اہم کورس کے لیے امریکہ جانا پڑ رہا ہے کچھ عرصے کے لئے ، تو سوچا آپ سے ملتا چلو !! آپ سنائیں فاطمہ کیسی ہیں ۔۔۔اب تو وہ ماشاءاللہ سے آگے داخلہ لینے پر پر تول رہی ہو گئی ۔۔” اس نے بڑے سبھاؤ سے بات شروع کی
” اسفند بیٹا !! اس سال تو فاطمہ کا داخلہ نہیں بھیجوں گا انشاءاللہ اگلے سال اس کی پڑھائی دوبارہ شروع کرواؤں گا اور بس تین ماہ بعد میں فاطمہ کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں گا ۔۔۔” انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا
” مگر انکل !!!” اسفند نے انکو سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا…
جاری ہے
” آپ !! ” فاطمہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی
” بس تھوڑی دیر میں نکل رہا ہوں پھر نا جانے کب ملاقات ہو اس لئیے تمہیں دیکھنے چلا آیا ۔۔۔” وہ رسان سے کہتا ہوا اس کے پاس آکر کھڑا ہو گیا ان دونوں کے بیچ خاموشی چھائی ہوئی تھی فاطمہ اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے سر جھکا چکی تھی ۔۔۔ ” فاطمہ ” اس کی گھمبیر آواز ابھری اس نے سر جھکائے کھڑی فاطمہ کو بغور دیکھتے ہوئے اس کا دائیاں ہاتھ تھام لیا
فاطمہ !! جو میں تمہارے لئے محسوس کرتا ہوں اس سے پہلے کبھی بھی کسی کے لیے بھی محسوس نہیں کیا !! انفیکٹ میں تو آج تک کسی لڑکی کے چکر میں نہیں پڑا !! مگر تم ….تم سب سے الگ ہو پہلے تم میری پسند تھی اب محبت ہو۔۔۔لیکن تم ہو بڑی ظالم !! جانتی ہو میں جارہا ہوں اس لیے تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں تم سے ملنا چاہتا ہوں اور تم مجھ سے چھپتی پھرتی ہوں۔۔۔۔” وہ اپنا حال بیان کر رہا تھا
“ہاتھ چھوڑئیے میرا۔” وہ خشک لہجے میں بولی
“یہ ہاتھ چھوڑنے کے لئے تو نہیں پکڑا ہے ۔” اس نے اپنی جینز کی جیب سے ایک نازک سی خوبصورت سی رنگ نکالی اور اس کے ہاتھ میں زبردستی پہنا دی ۔
” یہ یہ آپ پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
“شش یہ انگوٹھی میرے جانے کے بعد تمہیں یاد دلاتی رہے گی کہ تم میری امانت ہو ! میری ہو اور غلطی سے بھی اگر یہ انگوٹھی اپنی انگلی سے اتارو گی تو سوچ لینا مجھے فوراً پتا چل جانا ہے اور پھر میں تمہیں سخت سزا دونگا ۔۔۔۔” اس نے دھیرے سے اس کے ہاتھ کو چوما
” آپ آپ بہت بڑے ہیں !! ہاتھ چھوڑیں میرا ۔۔” وہ غصہ دباتے ہوئے بولی
” واللہ اس طرح غصہ کرتی ہوئی بالکل بیوی لگ رہی ہو ۔۔۔” وہ شرارت سے اس کے سر سے سر ٹکراتے ہوئے بولا
” میں آپ کی بیوی نہیں ہو۔۔۔”وہ تپ اٹھی
” کوئی بات نہیں !! نہیں ہوں تو کیا ہوا ؟؟ ہو جاؤں گی بہت جلد !! دیکھنا دو سال پر لگا کر گزر جائینگے بس تم میرا انتظار کرنا !!! بولو کروگی نا ؟؟ ” وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا
” اگر !! اگر میں آپ سے کوئی رشتہ نا رکھنا چاہوں تو ؟؟ ‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولی
” تو !! ” اس نے بغور فاطمہ کو دیکھا پھر ایک جھٹکے سے اسے بازو سے جکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔۔
“مجھے تمہاری ہاں یا ناں سے کوئی فرق نہیں پڑتا !! چاچو تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے چکے تھے وہ مجھ سے وعدہ لے چکے تھے کہ میں تمہارا خیال رکھوں گا !! لہٰذا تم مانو یا نہ مانو شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہوگی اور یاد رکھنا میں ضدی بھی بہت ہوں اور تمہارے معاملہ بنیں تو شدت پسند بھی ہوں !!! تم میرے دل کو اچھی لگتی ہوں تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں کسی کی پروا نہیں کروں گا اس لئیے سویٹ ہارٹ اپنا مائنڈ میک کرنا شروع کرو !! ”
فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اس نے بیچارگی سے سر اٹھا کر اسامہ کو دیکھا جس کی گہری نظر اسی پر مرکوز تھی ۔۔۔
” کیا ہوا مجھ سے ڈر رہی ہو ؟؟ ”
” پلیز بازو چھوڑیں ۔۔”
” نہ چھوڑوں تو ؟؟ ” اس نے گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس کی نم پلکوں کو دھیرے سے چھوا
” پلیز !!!مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔” وہ خود کو اسامہ کی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں ناکام ہو کر روہانسی سی ہو گئی
” پہلے وعدہ کرو !! میرا انتظار کرو گی ۔۔۔” وہ ضدی لہجے میں بولا
” آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟؟ میں میں آپ سے کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتی ہوں آپ پلیز مجھے معاف کردیں ۔۔۔”وہ اٹک اٹک کر بولی
اسامہ کے ماتھے پر رگیں نمایاں ہونے لگی چہرے پر سختی ابھر آئی تھی
” تمہاری ان سو کالڈ باتوں کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے !! اسامہ سے !! جو مسلسل تم سے محبت کا اظہار کر رہا ہے تمہیں ایک اچھی زندگی دینا چاہ رہا ہے تم اسے ٹھکرا رہی ہوں !! تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی؟؟؟ ” اسامہ نے طیش میں آ کر اپنے مھٹیاں بھینچ لی تھی اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔
فاطمہ کو اس سے ڈر محسوس ہورہا تھا وہ تیزی سے ہاتھ چھڑا کے دروازے کی طرف بڑھی لیکن اسامہ نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا
“تم حد سے زیادہ خودپسند لڑکی ہو !! میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہاری ہاں یا ناں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اب تم نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جانے سے پہلے تم سے نکاح پڑھوا کر جاؤ چلو میرے ساتھ !! ہم ابھی مسجد جائیں گے۔۔۔” اسامہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کے دروازے کی جانب بڑھا
فاطمہ کا ڈر و خوف سے برا حال تھا اس جنونی کو وہ غلطی سے چھیڑ بیٹھی تھی ۔۔۔
” ایسا مت کریں ٹھیک ہے آپ جیسا کہیں گے میں کرونگی !! سچی میں آپ کا انتظار کروں گی !! بس آپ ابھی ایسا مت کریں پلیز پلیز پلیز۔۔۔” وہ ہچکیوں سے رونے لگی
” ٹھیک ہے میں آخری بار تم پر بھروسہ کر رہا ہوں آئندہ مجھے شکایت کا موقع مت دینا۔۔۔” وہ اسے ایک جھٹکے سے چھوڑتا ہوا باہر نکل گیا ____________________________ ” کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں مجھے ثنا کے ساتھ اندر جانا ہے ۔۔۔” وہ پھنکاری
” بس اب مزید ایک لفظ نہیں !! تم خود کو سمجھتی کیا ہو؟؟ بدتمیزی کی حد ہوتی ہے کسی بات کو تم سننے کے لئے تیاری نہیں ہوں۔۔۔” علی نے اسے ٹوکا
” آپ ہوتے کون ہیں مجھے روکنے والے ؟؟ مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سنی آپ ہٹیں میرے سامنے سے۔۔۔”
” ملیحہ بی بی !! ” وہ دانت چبا کر بولا
” میں کون ہوں یہ تو تمہیں جلد ہی پتا چل جائیگا ابھی کے لئے تم اپنے اس خالی دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو اگر آج کے بعد تم مجھے کیمپ سے باہر دکھائی دی تو اسی وقت اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ گا اور اسے دھمکی مت سمجھنا !! I am Damn Serious ….
ملیحہ کے چہرے کی رنگت بدل گئی وہ سہم گئی تھی ۔۔ سرخ و سفید رنگت پر سنہری خوف و ہراس سے پھیلی ہوئی آنکھیں کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی تھی اس نے ایک گہری سانس لیکر اس کے سہمے ہوئے دلکش روپ کو نظروں میں سمویا ۔۔۔
علی نے ملیحہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور اسے لے کر تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اس میں بٹھا دیا۔۔۔ ملیحہ اس کو ایک غصیلہ روپ دیکھ کر ڈر گئی تھی وہ جس طرح سے اسے گھور رہا تھا وہ گھبرا کر اپنے سر پہ جمے دوپٹے کو مزید ٹھیک کرنے لگی۔۔۔ ریلیکس ہو جاؤ یار ! تم تو اتنا ڈر رہی ہوں کہ مجھے خود پر دہشتگرد ہونے کا گمان ہونے لگا ہے ۔” وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا
” ویسے جس طرح تم اکڑ رہی تھی مجھے تو لگا تھا کہ تم ایک بہت بولڈ لڑکی ہو اور ہو سکتا ہے مجھے ایک زور کا تھپڑ نا مار دو ۔۔۔” وہ اسے نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو بھی تھا وہ تھی تو ایک نازک سی لڑکی جو اس کے سخت لہجے سے ڈر گئی تھی _______________ تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اسامہ کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا اکیڈمی کی ٹریننگ بہت سخت تھی ڈسپلن ، نفس پر کنٹرول خود پر قابو پانا ۔۔۔اس کے اندر غیر محسوس انداز میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں اسے دوسال یہاں گزارنے تھے اور اس ٹریننگ کے دوران ہی اسے اپنی خامیوں کو جاننے کا موقع ملا ۔اپنے غصہ پر قابو پانا ممکن ہوا تو ساتھ ساتھ اس کی جنونی فطرت کو ایک راہ ایک مقصد ملا ۔۔۔
وہ اکثر گھر فون کرتا تھا ممی سے ڈیڈ سے بات ہوجاتی تھی لیکن فاطمہ کبھی بھی فون پر نہیں آئی اسے دیکھے کافی وقت گزر چکا تھا مگر اسامہ بھی اب اس سے یونیفارم میں ہی ملنا چاہتا تھا اس کی پوری توجہ اپنی ٹریننگ پر تھی وہ اپنے ارادوں میں اٹل تھا ۔۔۔ ________________________ دوسال !!! تقریباً دوسال کا عرصہ گزر چکا تھا فاطمہ کا سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آچکا تھا اس کے مارکس بہت اچھے تھے وہ اپنے آگے کا لائحہ عمل سوچ رہی تھی اس کا ارادہ راولپنڈی میں آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کا تھا وہ آج کل اسی کی ٹیسٹ کی تیاریوں میں مصروف تھی اس کی خواہش تھی کے وہ بھی اپنی ماں کی طرح ڈاکٹر بن کر فورس جوائن کرے اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلے ۔۔۔
” فاطمہ بیٹی کیا سوچ رہی ہوں ؟؟ ” نوشابہ نے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر سوچوں میں گم بیٹھی فاطمہ کو متوجہ کیا
” ارے آنٹی آپ !! آپ کب آئیں ؟؟ پلیز اندر آئیے ..” وہ ان کی آواز سن کر چونک کر کھڑی ہو گئی
” فاطمہ تمہیں محسن اسٹڈی میں بلا رہے ہیں ۔۔۔” انہوں نے اسے پیغام دیا
” جی آنٹی میں جاتی ہوں ۔۔۔” وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے شانوں پر دوپٹہ درست کرتی ہوئی اوپری منزل پر بنے اسٹڈی روم کی طرف بڑھی
” انکل آپ نے بلایا ہے ؟؟ ” وہ دروازہ ناک کرکے اندر جھانکتے ہوئے بولی
محسن نقوی صاحب نے چشمہ اتار کر ہاتھ میں تھامی کتاب میز پر رکھی اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا وہ انہیں سلام کرتی ہوئی سامنے ایک سیٹر صوفہ پر بیٹھ گئی
” فاطمہ بیٹی !! مجھے تم سے ایک اہم بات کرنی ہے اور مجھے پوری امید ہے میری بیٹی میری بات کو غور سے سنے گی اور عمل بھی کریگی ۔۔۔” انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
” جی انکل کہئیے ۔۔۔” وہ تابعداری سے بولی
” بیٹا احسن میرا چھوٹا بھائی تھا جگر کا ٹکڑا تھا آج اس کی وفات کو دوسال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کی وصیت کے مطابق جب اسامہ ٹریننگ مکمل کرلیگا تو تمہیں اس کی زوجیت میں دے دیا جائے گا ۔۔۔”
” لیکن انکل !! ” اس نے تڑپ کر ان کی بات کاٹی
” بیٹی اس دوسال کے عرصے میں اسامہ بہت بدل چکا ہے میں جتنی بار بھی اس سے مل کر آیا ہوں وہ مجھے ایک نیا جوان لگا ہے جوشیلا وطن کی محبت میں چور بالکل تمہارے بابا جیسا ۔۔۔ اور اب تین ماہ میں اس کی ٹریننگ ختم ہو جائے گی اس لئیے بیٹی میں چاہتا ہوں تم شادی کے لئیے اپنا مائنڈ سیٹ کرنا شروع کرو ۔۔۔۔” انہوں نے پیار سے سمجھایا
” انکل !! میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں پلیز ابھی آپ یہ سب مت کریں۔۔۔” اس نے ریکوئسٹ کی
” دیکھو بچے یہ سب تو اسامہ کے ٹریننگ پر جاتے وقت ہی طے ہوچکا تھا ویسے بھی تم شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہوں بی اے ہی تو کرنا ہے کہیں سے بھی کرلو پرائیوٹ پڑھ لو جو تمہیں آسان لگے” انہوں نے آرام سے کہا
فاطمہ سر ہلاتی ہوئی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔
اسے بہت افسوس ہو رہا تھا سگے ماں باپ واقعی سگے ماں باپ ہوتے ہیں ان کی کمی کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا مانا کے محسن انکل اور نوشابہ آ نٹی نے اسے بہت پیار سے رکھا تھا لیکن انہیں تو یہ تک نہیں پتا تھا کہ وہ آرٹس نہیں سائنس پڑھ رہی ہے وہ بی اے نہیں کرنا چاہتی ایم بی بی ایس کرنا چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا آرمی میں ڈاکٹر بننا اس کے بابا کی خواہش تھی اور انہوں نے کبھی بھی اس سے اسامہ یا کسی کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کی تھی وہ کیسے مان لیتی کے یہ شادی اس کے پیارے بابا کی وصیت ہے ؟؟ اس کے دل میں بدگمانی پیدا ہوچکی تھی اسے لگ رہا تھا کہ انکل اور آنٹی صرف اپنے بیٹے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔
تین ماہ !! بس تین ماہ اس کے پاس تھے اس کے بعد اسامہ نے واپس آ جانا تھا بہتر یہی تھا کے وہ اس کی آ مد سے پہلے اپنا ٹھکانا کر لے ۔ یہ سوچ اس کے دماغ میں جڑ پکڑ چکی تھی۔
ان دو سالوں میں وہ ایک مضبوط قوت ارادی رکھنے والی دوشیزہ کے روپ میں ڈھل چکی تھی میجر احسن کا بینک اکاؤنٹ اس کے نام ٹرانسفر ہو چکا تھا ۔ وہ بڑے آرام سے اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھا سکتی تھی۔۔۔
آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں داخلے شروع ہو رہے تھے اس نے بہت سوچ سمجھ کر اسفند سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ ___________________________ ” گڑیا !! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟؟ میری نظر میں اس طرح گھر چھوڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔۔۔” اسفند نے سمجھایا
” تو آپ بتائیں میں کیا کروں ؟؟ انکل آنٹی صرف اپنے بیٹے کا سوچ رہے ہیں میرے ماں باپ نہیں ہیں تو کیا مجھے کوئی حق نہیں کے میں اپنی جائز خواہشات پوری کروں ؟؟ اپنی تعلیم مکمل کروں ؟؟ بتائیے اور آپ !! آپ نے تو وعدہ کیا تھا میرا ساتھ دینے کا ؟؟ ” فاطمہ نے اسے اس کا وعدہ یاد دلایا
” میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں لیکن اس طرح گھر چھوڑنے کے سخت خلاف ہوں تم مجھے ایک بار محسن انکل سے بات کرنے دو مجھے امید ہے وہ میری بات سنیں گے ۔۔۔۔” اسفند نے کہا
” ٹھیک ہے انکل آج گھر میں ہیں آپ فون کرلیں ۔۔۔” فاطمہ نے اسے محسن نقوی صاحب کا سیل نمبر لکھوایا اور پھر خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا _____________________ اسفند نے فون پر بات کرنے کی بجائے خود آ کر بات کرنا مناسب سمجھا ویسے بھی وہ ایک اہم کورس کے لئیے چار روز میں امریکہ جانے والا تھا اس کے پاس وقت کم تھا اسی لئیے وہ کمشنر محسن صاحب سے وقت لیکر ان کے آفس میں ملا
“آؤ جوان !! کیسے آنا ہوا ویسے کتنا اچھا ہوتا اگر تم گھر آتے ۔۔۔” انہوں نے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا
” بس انکل وقت کی کمی ہے ، مجھے ایک اہم کورس کے لیے امریکہ جانا پڑ رہا ہے کچھ عرصے کے لئے ، تو سوچا آپ سے ملتا چلو !! آپ سنائیں فاطمہ کیسی ہیں ۔۔۔اب تو وہ ماشاءاللہ سے آگے داخلہ لینے پر پر تول رہی ہو گئی ۔۔” اس نے بڑے سبھاؤ سے بات شروع کی
” اسفند بیٹا !! اس سال تو فاطمہ کا داخلہ نہیں بھیجوں گا انشاءاللہ اگلے سال اس کی پڑھائی دوبارہ شروع کرواؤں گا اور بس تین ماہ بعد میں فاطمہ کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں گا ۔۔۔” انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا
” مگر انکل !!!” اسفند نے انکو سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا…
جاری ہے
Leave a Reply