عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 11
فاطمہ دیکھو عملی زندگی میں انسان کو جذبات کے ساتھ ساتھ کچھ مصلحتوں اور مجبوریوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے !! اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور اگر تم وہاں گی تو یہ لوگ تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔۔” وہ فاطمہ سے فون پر مخاطب تھا
” تو کیا آپ میری حفاظت نہیں کریں گے ؟؟ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی مجھے مجبور کیسے کرسکتا ہے یا شاید بابا کے بعد !! آپ کو بھی میری ذمہ داری اٹھانا فضول لگنے لگا ہے ۔۔۔” فاطمہ نے پوچھا
“بدگمانی کی بھی حد ہوتی ہے فاطمہ !! ” اس نے بات کاٹی
“میں ایک لمبے عرصے کے لیے ڈیپوٹیشن پر باہر جا رہا ہوں مجھے بتاؤ کیا وہاں رہ کر بھی مجھے تمہاری فکر نہیں رہے گی ؟؟ میں کیسے تمہیں اکیلا چھوڑ دوں ؟؟کم از کم ابھی مجھے ایک اطمینان تو ہے کہ تم گھر میں ہوں محفوظ ہو اور ایک بات بتاؤں تمہیں اسامہ اتنا بھی برا نہیں ہے میں نے اسے اکیڈمی میں چیک کیا ہے اس کی پروگریس پر نظر رکھی ہے ایسے ہی لوگ زمین کا حسن ہوتے ہیں سچے من کے اجلے اور نڈر !! اس دنیا کو اسامہ جیسے سرپھروں کی ضرورت ہے فاطمہ جو اپنی زمین سے اپنے اصل سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔” اس نے سمجھایا
” تو ٹھیک ہے نہ !! آپ جائیں کورس پر میں تو ویسے بھی ہاسٹل میں رہوں گی بالکل بھی باہر نہیں نکلوں گی اپنی پڑھائی پر توجہ دو گی بابا کا خواب پورا کروں گی اس وقت تک آپ واپس بھی آ جائیں گے ۔۔۔” وہی ڈھاک کے تین پاتھ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی
” گڑیا یہ سچ ہے کہ احسن انکل اسامہ سے تمہاری شادی کرانے کا سوچ رہے تھے میں نے انہیں اس دن ہاسپٹل میں تمہاری ساری بات بتا دی تھی اس کے باوجود وہ اس رشتے کو لے کر سیریس تھے تم ایک بار اس بارے میں ٹھنڈے دل سے سوچ کر تو دیکھو ۔۔۔” اسفند نے اسے آگاہ کرنا چاہا
“میں چاہوں بھی تو کچھ نہیں سوچ سکتی میں نہیں چاہتی کہ جذبات میں آ کر کوئی غلط قدم اٹھا لوں مجھے ابھی وقت چاہئیے !! زندگی کی اتنے بڑے فیصلے یوں اچانک نہیں ہو پاتے سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی نہیں پتا کہ اسامہ اچھا لڑکا ہے یا نہیں ، میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا لیکن شاید آپ کی برین واشنگ کا اثر ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ سوچنے کا سوچ سکتی ہو۔۔۔” وہ دھیمے لہجے میں بولی
” کچھ وقت گزرنے دو !! شاید تمہارے دل میں پنپتے جذبے واضح ہو جائیں …” اسفند نے محبت سے سمجھایا
” ٹھیک ہے وعدہ میں سوچوں گی لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد ابھی آپ یہ بتائیں آپ ہیلپ کررہے ہیں یا میں خود کوئی قدم اٹھا لوں ؟؟ ” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” اچھا میں دیکھتا ہوں !! تم کوئی حماقت مت کرنا ۔۔۔” اس نے وارن کیا
” آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟؟ ایپلیکیشن جا چکی ہیں دو دن میں اینٹری ٹیسٹ ہے میں زیادہ ویٹ نہیں کرسکتی ۔۔۔” وہ الجھی
” ایک گھنٹہ تو ویٹ کر سکتی ہوں؟؟ یا نہیں ۔۔۔میں تم کو ٹھیک ایک گھنٹے میں فون کرکے پلان بتاتا ہوں ۔۔۔۔”
اسفند نے فون رکھا اور سوچ میں پڑ گیا فاطمہ کا انداز اٹل تھا اس سے پہلے وہ کوئی حماقت کر بیٹھتی بہتر تھا کے کوئی مصلحت آمیز حل نکال لیا جاتا تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور فون ملاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔ _______________________ زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا تھا اسفند اسے پنڈی لے آیا تھا کچھ دن وہ ویمن ہاسٹل میں رہی ٹیسٹ اس نے امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا تھا ۔۔۔ کالج کے فارم کو پر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی تھی اتنی بڑی کامیابی تھی اور کوئی اپنا اس کی اس خوشی کو سیلیبریٹ کرنے والا نہیں تھا ۔۔۔
“فاطمہ ثنا نقوی ” ۔۔۔۔اس نے داخلہ فارم پر اپنا نام پڑھا اور پژمردگی سے مسکرا دی ۔۔۔
کلاسس شروع ہو چکی تھیں کالج سے منسلک ہاسٹل میں اس کا ٹرانسفر ہو چکا تھا ۔۔۔
کلاس میں بھی اس کی ریزرو نیچر کے باعث اس کے دوستوں کی تعداد خاصی کم تھی لیکن پہلے ہی دن سے ملیحہ سے اس کی اچھی دوستی ہو گئی تھی جس میں زیادہ تر ہاتھ ملیحہ ہی کا تھا ________________ ہواؤں میں اڑان بھرنا ، مشکل سے مشکل ٹاسک مکمل کرنے میں اس کے جذبات کی تسکین ہوتی تھی فائٹر پلینز سے اسے عشق تھا وہ بہت نمایاں کامیابی سے اپنی ٹریننگ کے مراحل مکمل کر چکا تھا بس اب گھر جانے کا انتظار تھا جہاں وہ دشمن جان موجود تھی جس کو پانے کی چاہ نے اسے ایک بگڑے ہوئے انسان سے آج ایک سلجھا ہوا پائیلٹ بنا دیا تھا ۔۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اسے فاطمہ کا انتظار تھا لیکن ڈیڈ اور ممی کو اکیلا دیکھ کر وہ ایک لمحے کو مایوس سا ہوا پھر سر جھٹک کر مسکرا دیا
” کب تک !!! کب تک تم مجھ سے اپنا دامن بچاؤں گی ۔۔۔۔” اس نے اپنے سیل میں فاطمہ کی دو سال پرانی تصویر کو دیکھا
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے
ہم چھوڑ دیں گے تم سے یوں بات چیت کرنا تم پوچھتے پھرو گے اپنا قصور ہم سے ______________________________ وہ سیمپل سبمٹ کروا کر تیزی سے باہر کی جانب لپکی اسے ملیحہ کی خفگی کا بھرپور اندازہ تھا اوپر سے علی بھائی بھی غصہ میں تھے اسی لئیے وہ ان دونوں کو چھوڑ کر تیزی سے خود ہی اندر چلی گئی تھی ۔۔۔ لیب اسسٹنٹ کو سارے سیمپل ڈراپ کر کے پرچہ پر سائن کرنے کے بعد وہ ہسپتال کے مین اینٹرینس کی طرف بڑھی تبھی ریسیپشن پہ کھڑا دراز قامت شخص بات کرتے ہوئے پلٹا تھا اور وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی ۔
اسے زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے تھے وقت کم تھا وہ بھاگتی ہوئی دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔
وہ جو ریسیپشن سے اسفند کی مدر کے بارے میں معلومات لے رہا تھا آئی سی یو جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ اس کی نگاہ سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی کالے اسکارف میں جگمگاتا معصوم پاکیزہ چہرہ ۔۔۔چار سال بعد اس کے سامنے تھا پہلے وہ ایک سولہ سال کی میٹرک کی طالبہ تھی اور آج ایک دوشیزہ کے روپ میں اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ کہیں یہ !!!! ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ لڑکی تیزی سے بھاگتے ہوئے باہر نکل گئی _________________ ” آپ ایک انتہائی ال مینرڈ انسان ہیں !! ۔۔۔۔” کافی دیر سے خاموش بیٹھی ملیحہ نے زبان کھولی
گاڑی کے اسٹیرنگ پر اپنی انگلیوں سے میوزک بجاتے حمزہ علی نے چونک کر اسے دیکھا ۔
” کیا آپ نے مجھ سے کچھ کہا محترمہ ؟؟ ” علی نے اسے گھورا
” جی آپ سے ہی ارشاد فرمایا ہے !! ” وہ تپ کر بولی
” فرمائیے!! اب اس ناچیز نے کیا خطا کردی ہے ۔۔”اس نے پوچھا
” آپ کو شرم نہیں آتی شریف معصوم لڑکیوں کو ہراس کرتے ہوئے ۔۔۔۔” ملیحہ نے پوچھا
حمزہ کے سر پر تو بم سا پھوٹ گیا تھا !!
” خدا کو مانو !! بی بی مجھ شریف پر تم لڑکیوں کو ہراس کرنے کا جھوٹا الزام لگا رہی ہوں ۔۔ ” وہ سیدھا ہوا
” ہاں اس پوری دنیا میں ایک آپ ہی تو شریف ہیں ؟؟؟ہونہہ بڑا آیا نواز شریف کا بھائی ۔۔۔” وہ بڑبڑائی
” آپ بتانا پسند فرمائینگی کے میں نے کب لڑکیوں کو ہراس کیا ؟؟ کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس ۔۔؟؟ ” حمزہ خشک لہجے میں بولا
” ثبوت !! میں خود سب سے بڑا ثبوت ہوں آپ نے مجھے ڈرایا دھمکایا ہے محض آپ کی وجہ سے ثنا کو اکیلے اندر جانا پڑا ۔۔۔” وہ بھی بھری بیٹھی تھی
” میں نے آخر کیا کیا ہے ؟؟ ایک تو ان حالات میں آپ دونوں کو لفٹ دی اور رہی بات ڈاکٹر ثنا کی تو بی بی وہ ڈاکٹر ہیں اور ہسپتال گئی ہیں کوئی لائن آف کنٹرول پر نہیں !! اور رہی آپ کی بات تو میں نے کب ڈرایا دھمکایا ؟؟ ”
” آپ نے ڈرایا ہی نہیں بلکہ بلیک میل بھی کیا ہے ۔۔۔! ” اب کے اس نے ایک اور فرد جرم عائد کی
حمزہ تو آنکھیں پھاڑے اس پٹاخہ حسینہ کو دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے بھیگی بلی بنی ہوئی تھی
” محترمہ آپ مجھے میرے سارے جرائم ایک ساتھ ہی بتا دیں پھر میں دیکھتا ہوں ازالہ کے طور پر کیا کرسکتا ہوں ۔۔۔” وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولا
” آپ کی وجہ سے ہمارا پروگرام خراب ہوا ۔اب ہم جلیبی کھانے کیسے جائینگے ۔۔؟؟ آپ نے مجھے ثنا کے ساتھ جانے کیوں روکا ؟؟ اچھا بھلا ہم آپ کو چکمہ دے کر بیک ڈور سے نکل کر آگے چلے جاتے ۔۔ اور آپ نے دھمکی دی کہ آپ ہمارے سر کو سب بتا کر ہمیں گراؤنڈ کروا دینگے ۔۔اب بولیں جواب دیں یہ ہراسمنٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟؟ ” وہ غصہ سے بول رہی تھی
اس سے پہلے حمزہ اسے جواب دیتا حواس باختہ سی ثنا بھاگتی ہوئی آئی اور پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی
” حمزہ بھائی جلدی کریں جلدی پلیز یہاں سے نکلیں ۔۔۔” وہ بہت ڈری ہوئی تھی
” خیریت ثنا بہن کسی نے کچھ کہا ہے ؟ مجھے بتائیں میں ابھی دماغ درست کرتا ہوں ۔۔” حمزہ اس کی ڈری سہمی حالت دیکھ کر چونکا
” آپ پلیز ادھر سے نکلیں کچھ نہیں ہوا میں بس ۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
حمزہ نے گاڑی اسٹارٹ کی اور زن سے پارکنگ سے نکال کر روڈ پر ڈال دی _________________________ وہ جیسے ہی مڑا آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا وجود بھی ساکت ہوگیا وہ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہا تھا جسے اگر غلطی سے بھی آنکھ جھپکی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا چار سال !! پورے چار سال بعد وہ چہرہ اس کے سامنے تھا ان چار سالوں میں وہ اور بھی نکھر گئی تھی وہ بغور اس کے ہاتھوں کی لرزش کو نوٹ کر رہا تھا اس پہلے وہ اس کی طرف بڑھتا وہ تیزی سے مڑی اور بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔
ایک طلسم سا ٹوٹا تھا یہ خواب یا واہمہ نہیں وہ سچ میں اس کے سامنے تھی وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکا ہی تھا کہ پیچھے سے اسفند نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
” اسامہ !! مجھے پتا ہے تم لیٹ ہو رہے چلو تمہیں بیس چھوڑ دوں ۔۔۔”
” آپ کار اسٹارٹ کریں میں ایک منٹ میں آیا ۔۔” وہ اسفند کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتا ہوا تیزی سے باہر کی طرف لپکا
مین اینٹرینس کی سیڑھیوں پر آ کر چاروں طرف دیکھا پر وہ کہیں نظر نہیں آئی تبھی ایک کار بہت تیز رفتاری سے پارکنگ سے نکلتی نظر آئی جس کی پچھلی نشست پر وہ سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا اور اسفند کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا کافی سالوں کے بعد اس کے لب مسکرائے تھے ۔۔وہ اس گاڑی کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا ________________________ حالات کی کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی تھی کئی بار ناکام ہونے کے باوجود دشمن اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آرہا تھا ۔بھارتی فوج کی جانب سے بھمبر کے مختلف سیکٹرز میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا جبکہ پاکستانی فوج بھی اسکا جواب دے رہی تھی ۔
پاک فوج پوری ذمہ داری سے دشمن کی ہر چال ناکام بنا رہی تھی ۔تو پاک فضائیہ کے شاہین مکمل طور پر دشمن کو منھ توڑ جواب دے رہے تھے ویسے بھی بلاشبہ پاک فضائیہ کو ہمیشہ سے ہی انڈیا پر فضائی برتری حاصل رہی ہے
بڑھتی کشیدگی کے باعث لائن آف کنٹرول کے کئی رہائشی سیفٹی کے لئیے اپنے مکانات چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے تھے بھارتی فوج کی شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری سے کئی افراد زخمی مکانات تباہ ہو چکے تھے تو پاکستان فوج کی جوابی کارروائی سے سرحد پار کئی بھارتی چوکیاں بھی تباہ ہو چکی تھی
چھبیس فروری 2019 ..
دشمن نے ایک بار پھر اپنی چال چلی بھارتی فوج کا ہدف ایک دفعہ پھر شہری آبادی تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے اور پاک افواج کے بروقت رسپانس پر بھارتی طیارے ناکام واپس چلے گئے لیکن جھوٹا دعویٰ کیا کہ بمباری سے تین سو ساٹھ دھشت گرد مارے جب کہ اصل میں جبا کے مقام پر صرف چار بم گرائے گئے کوئی جانی مالی کسی قسم کا نقصان پاکستان کو نہیں پہنچا ۔۔۔
اگربھارتی طیاروں نے کوئی انفراسٹرکچر تباہ کیا ہو تا تو وہاں کوئی ملبہ تو ہوتا حقیقت یہ ہے کے کوئی ایک اینٹ بھی نہیں ٹوٹی تھی بس دشمن حسب عادت جھوٹ بول رہا تھا ۔۔
ستائیس فروری 2019 ۔۔
ستائیس فروری کا تاریخ ساز دن طلوع ہوا جس میں پاک فضائیہ نے بھارت کو ان کی بزدلانہ کارروائیوں پر منھ توڑ جواب دیا ۔۔
پاکستانی حدود سے لائن آف کنٹرول کے پار کارروائی کی گئی جس میں جے ایف 17 تھنڈرطیاروں کو استمال کیا گیا اس کارروائی کے جواب میں بھارتی فضائیہ کے دو مگ 21 طیارے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے جنہیں فوری ٹریک کرکے پاک فضائیہ نے نشانہ بنا لیا تھا۔
جس میں سے ایک طیارہ آزاد کشمیر کے کھوئی رٹہ سیکٹر تحصیل سماہنی اور دوسرا طیارہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں جا کر گرا۔
بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے کا پائلٹ ابھینندن ، پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر ٹارگٹ تلاش کر رہا تھا جب اسے بڑے آرام سے پاک فضائیہ نے ٹریک کیا اور اس کا طیارہ مار گرایا طیارہ ہٹ ہو کر گر کر ٹکڑوں میں بٹ گیا جس کی وجہ سے اسے طیارہ چھوڑنا پڑا ۔ پائلٹ نیچے گرا تو اس کے پاس صرف ایک پستول تھی، وہ جہاز چھوڑ کر بھاگنے لگا آس پاس لوگ زیادہ تھے اسے لگا کہ وہ شاید انڈیا کی حدود میں ہے لوگوں نے اس کو پکڑلیا تھا ۔۔
” میں انڈیا میں ہوں کیا ؟ ” اس نے پوچھا
” ہاں تم انڈیا میں ہو۔ ” ایک بابا نے طنزیہ جواب دیا
” جے ہند ” اس نے جوش میں آکر نعرہ لگایا
جو ایک بزرگ بابا جی برداشت نہ کر پائے اور ان کا ہاتھ اٹھ گیا۔
” نہیں تم پاکستان میں ہو۔” انہوں نے کہا
یہ سن کر ابھینندن کی حالت خراب ہو گئی اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی جس پر لوگوں نے اسے پتھر مارنا شروع کردیے تو وہ رک گیا ۔
” مجھے مت مارو !! دیکھو میں خود کو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ ” اس نے مشتعل ہجوم سے کہا اور یہ کہہ کر ہوشیاری دکھاتے ہوئے اس نے ندی میں چھلانگ لگا دی لیکن اس کے باوجود پکڑا گیا۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ پستول پھینک کر بھاگ پڑتا، لوگ بہت مشتعل تھے اسے مار رہے تھے لیکن پاک آرمی کے جوانوں نے اسے اس مشتعل ہجوم سے بچایا نہ صرف بچایا بلکہ اسکے ساتھ بہترین رویہ رکھا جس کا اعتراف ابھینندن نے خود کیا۔
جاری ہے
” تو کیا آپ میری حفاظت نہیں کریں گے ؟؟ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی مجھے مجبور کیسے کرسکتا ہے یا شاید بابا کے بعد !! آپ کو بھی میری ذمہ داری اٹھانا فضول لگنے لگا ہے ۔۔۔” فاطمہ نے پوچھا
“بدگمانی کی بھی حد ہوتی ہے فاطمہ !! ” اس نے بات کاٹی
“میں ایک لمبے عرصے کے لیے ڈیپوٹیشن پر باہر جا رہا ہوں مجھے بتاؤ کیا وہاں رہ کر بھی مجھے تمہاری فکر نہیں رہے گی ؟؟ میں کیسے تمہیں اکیلا چھوڑ دوں ؟؟کم از کم ابھی مجھے ایک اطمینان تو ہے کہ تم گھر میں ہوں محفوظ ہو اور ایک بات بتاؤں تمہیں اسامہ اتنا بھی برا نہیں ہے میں نے اسے اکیڈمی میں چیک کیا ہے اس کی پروگریس پر نظر رکھی ہے ایسے ہی لوگ زمین کا حسن ہوتے ہیں سچے من کے اجلے اور نڈر !! اس دنیا کو اسامہ جیسے سرپھروں کی ضرورت ہے فاطمہ جو اپنی زمین سے اپنے اصل سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔” اس نے سمجھایا
” تو ٹھیک ہے نہ !! آپ جائیں کورس پر میں تو ویسے بھی ہاسٹل میں رہوں گی بالکل بھی باہر نہیں نکلوں گی اپنی پڑھائی پر توجہ دو گی بابا کا خواب پورا کروں گی اس وقت تک آپ واپس بھی آ جائیں گے ۔۔۔” وہی ڈھاک کے تین پاتھ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی
” گڑیا یہ سچ ہے کہ احسن انکل اسامہ سے تمہاری شادی کرانے کا سوچ رہے تھے میں نے انہیں اس دن ہاسپٹل میں تمہاری ساری بات بتا دی تھی اس کے باوجود وہ اس رشتے کو لے کر سیریس تھے تم ایک بار اس بارے میں ٹھنڈے دل سے سوچ کر تو دیکھو ۔۔۔” اسفند نے اسے آگاہ کرنا چاہا
“میں چاہوں بھی تو کچھ نہیں سوچ سکتی میں نہیں چاہتی کہ جذبات میں آ کر کوئی غلط قدم اٹھا لوں مجھے ابھی وقت چاہئیے !! زندگی کی اتنے بڑے فیصلے یوں اچانک نہیں ہو پاتے سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی نہیں پتا کہ اسامہ اچھا لڑکا ہے یا نہیں ، میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا لیکن شاید آپ کی برین واشنگ کا اثر ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ سوچنے کا سوچ سکتی ہو۔۔۔” وہ دھیمے لہجے میں بولی
” کچھ وقت گزرنے دو !! شاید تمہارے دل میں پنپتے جذبے واضح ہو جائیں …” اسفند نے محبت سے سمجھایا
” ٹھیک ہے وعدہ میں سوچوں گی لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد ابھی آپ یہ بتائیں آپ ہیلپ کررہے ہیں یا میں خود کوئی قدم اٹھا لوں ؟؟ ” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” اچھا میں دیکھتا ہوں !! تم کوئی حماقت مت کرنا ۔۔۔” اس نے وارن کیا
” آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟؟ ایپلیکیشن جا چکی ہیں دو دن میں اینٹری ٹیسٹ ہے میں زیادہ ویٹ نہیں کرسکتی ۔۔۔” وہ الجھی
” ایک گھنٹہ تو ویٹ کر سکتی ہوں؟؟ یا نہیں ۔۔۔میں تم کو ٹھیک ایک گھنٹے میں فون کرکے پلان بتاتا ہوں ۔۔۔۔”
اسفند نے فون رکھا اور سوچ میں پڑ گیا فاطمہ کا انداز اٹل تھا اس سے پہلے وہ کوئی حماقت کر بیٹھتی بہتر تھا کے کوئی مصلحت آمیز حل نکال لیا جاتا تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور فون ملاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔ _______________________ زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا تھا اسفند اسے پنڈی لے آیا تھا کچھ دن وہ ویمن ہاسٹل میں رہی ٹیسٹ اس نے امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا تھا ۔۔۔ کالج کے فارم کو پر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی تھی اتنی بڑی کامیابی تھی اور کوئی اپنا اس کی اس خوشی کو سیلیبریٹ کرنے والا نہیں تھا ۔۔۔
“فاطمہ ثنا نقوی ” ۔۔۔۔اس نے داخلہ فارم پر اپنا نام پڑھا اور پژمردگی سے مسکرا دی ۔۔۔
کلاسس شروع ہو چکی تھیں کالج سے منسلک ہاسٹل میں اس کا ٹرانسفر ہو چکا تھا ۔۔۔
کلاس میں بھی اس کی ریزرو نیچر کے باعث اس کے دوستوں کی تعداد خاصی کم تھی لیکن پہلے ہی دن سے ملیحہ سے اس کی اچھی دوستی ہو گئی تھی جس میں زیادہ تر ہاتھ ملیحہ ہی کا تھا ________________ ہواؤں میں اڑان بھرنا ، مشکل سے مشکل ٹاسک مکمل کرنے میں اس کے جذبات کی تسکین ہوتی تھی فائٹر پلینز سے اسے عشق تھا وہ بہت نمایاں کامیابی سے اپنی ٹریننگ کے مراحل مکمل کر چکا تھا بس اب گھر جانے کا انتظار تھا جہاں وہ دشمن جان موجود تھی جس کو پانے کی چاہ نے اسے ایک بگڑے ہوئے انسان سے آج ایک سلجھا ہوا پائیلٹ بنا دیا تھا ۔۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اسے فاطمہ کا انتظار تھا لیکن ڈیڈ اور ممی کو اکیلا دیکھ کر وہ ایک لمحے کو مایوس سا ہوا پھر سر جھٹک کر مسکرا دیا
” کب تک !!! کب تک تم مجھ سے اپنا دامن بچاؤں گی ۔۔۔۔” اس نے اپنے سیل میں فاطمہ کی دو سال پرانی تصویر کو دیکھا
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے
ہم چھوڑ دیں گے تم سے یوں بات چیت کرنا تم پوچھتے پھرو گے اپنا قصور ہم سے ______________________________ وہ سیمپل سبمٹ کروا کر تیزی سے باہر کی جانب لپکی اسے ملیحہ کی خفگی کا بھرپور اندازہ تھا اوپر سے علی بھائی بھی غصہ میں تھے اسی لئیے وہ ان دونوں کو چھوڑ کر تیزی سے خود ہی اندر چلی گئی تھی ۔۔۔ لیب اسسٹنٹ کو سارے سیمپل ڈراپ کر کے پرچہ پر سائن کرنے کے بعد وہ ہسپتال کے مین اینٹرینس کی طرف بڑھی تبھی ریسیپشن پہ کھڑا دراز قامت شخص بات کرتے ہوئے پلٹا تھا اور وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی ۔
اسے زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے تھے وقت کم تھا وہ بھاگتی ہوئی دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔
وہ جو ریسیپشن سے اسفند کی مدر کے بارے میں معلومات لے رہا تھا آئی سی یو جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ اس کی نگاہ سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی کالے اسکارف میں جگمگاتا معصوم پاکیزہ چہرہ ۔۔۔چار سال بعد اس کے سامنے تھا پہلے وہ ایک سولہ سال کی میٹرک کی طالبہ تھی اور آج ایک دوشیزہ کے روپ میں اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ کہیں یہ !!!! ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ لڑکی تیزی سے بھاگتے ہوئے باہر نکل گئی _________________ ” آپ ایک انتہائی ال مینرڈ انسان ہیں !! ۔۔۔۔” کافی دیر سے خاموش بیٹھی ملیحہ نے زبان کھولی
گاڑی کے اسٹیرنگ پر اپنی انگلیوں سے میوزک بجاتے حمزہ علی نے چونک کر اسے دیکھا ۔
” کیا آپ نے مجھ سے کچھ کہا محترمہ ؟؟ ” علی نے اسے گھورا
” جی آپ سے ہی ارشاد فرمایا ہے !! ” وہ تپ کر بولی
” فرمائیے!! اب اس ناچیز نے کیا خطا کردی ہے ۔۔”اس نے پوچھا
” آپ کو شرم نہیں آتی شریف معصوم لڑکیوں کو ہراس کرتے ہوئے ۔۔۔۔” ملیحہ نے پوچھا
حمزہ کے سر پر تو بم سا پھوٹ گیا تھا !!
” خدا کو مانو !! بی بی مجھ شریف پر تم لڑکیوں کو ہراس کرنے کا جھوٹا الزام لگا رہی ہوں ۔۔ ” وہ سیدھا ہوا
” ہاں اس پوری دنیا میں ایک آپ ہی تو شریف ہیں ؟؟؟ہونہہ بڑا آیا نواز شریف کا بھائی ۔۔۔” وہ بڑبڑائی
” آپ بتانا پسند فرمائینگی کے میں نے کب لڑکیوں کو ہراس کیا ؟؟ کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس ۔۔؟؟ ” حمزہ خشک لہجے میں بولا
” ثبوت !! میں خود سب سے بڑا ثبوت ہوں آپ نے مجھے ڈرایا دھمکایا ہے محض آپ کی وجہ سے ثنا کو اکیلے اندر جانا پڑا ۔۔۔” وہ بھی بھری بیٹھی تھی
” میں نے آخر کیا کیا ہے ؟؟ ایک تو ان حالات میں آپ دونوں کو لفٹ دی اور رہی بات ڈاکٹر ثنا کی تو بی بی وہ ڈاکٹر ہیں اور ہسپتال گئی ہیں کوئی لائن آف کنٹرول پر نہیں !! اور رہی آپ کی بات تو میں نے کب ڈرایا دھمکایا ؟؟ ”
” آپ نے ڈرایا ہی نہیں بلکہ بلیک میل بھی کیا ہے ۔۔۔! ” اب کے اس نے ایک اور فرد جرم عائد کی
حمزہ تو آنکھیں پھاڑے اس پٹاخہ حسینہ کو دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے بھیگی بلی بنی ہوئی تھی
” محترمہ آپ مجھے میرے سارے جرائم ایک ساتھ ہی بتا دیں پھر میں دیکھتا ہوں ازالہ کے طور پر کیا کرسکتا ہوں ۔۔۔” وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولا
” آپ کی وجہ سے ہمارا پروگرام خراب ہوا ۔اب ہم جلیبی کھانے کیسے جائینگے ۔۔؟؟ آپ نے مجھے ثنا کے ساتھ جانے کیوں روکا ؟؟ اچھا بھلا ہم آپ کو چکمہ دے کر بیک ڈور سے نکل کر آگے چلے جاتے ۔۔ اور آپ نے دھمکی دی کہ آپ ہمارے سر کو سب بتا کر ہمیں گراؤنڈ کروا دینگے ۔۔اب بولیں جواب دیں یہ ہراسمنٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟؟ ” وہ غصہ سے بول رہی تھی
اس سے پہلے حمزہ اسے جواب دیتا حواس باختہ سی ثنا بھاگتی ہوئی آئی اور پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی
” حمزہ بھائی جلدی کریں جلدی پلیز یہاں سے نکلیں ۔۔۔” وہ بہت ڈری ہوئی تھی
” خیریت ثنا بہن کسی نے کچھ کہا ہے ؟ مجھے بتائیں میں ابھی دماغ درست کرتا ہوں ۔۔” حمزہ اس کی ڈری سہمی حالت دیکھ کر چونکا
” آپ پلیز ادھر سے نکلیں کچھ نہیں ہوا میں بس ۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
حمزہ نے گاڑی اسٹارٹ کی اور زن سے پارکنگ سے نکال کر روڈ پر ڈال دی _________________________ وہ جیسے ہی مڑا آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا وجود بھی ساکت ہوگیا وہ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہا تھا جسے اگر غلطی سے بھی آنکھ جھپکی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا چار سال !! پورے چار سال بعد وہ چہرہ اس کے سامنے تھا ان چار سالوں میں وہ اور بھی نکھر گئی تھی وہ بغور اس کے ہاتھوں کی لرزش کو نوٹ کر رہا تھا اس پہلے وہ اس کی طرف بڑھتا وہ تیزی سے مڑی اور بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔
ایک طلسم سا ٹوٹا تھا یہ خواب یا واہمہ نہیں وہ سچ میں اس کے سامنے تھی وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکا ہی تھا کہ پیچھے سے اسفند نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
” اسامہ !! مجھے پتا ہے تم لیٹ ہو رہے چلو تمہیں بیس چھوڑ دوں ۔۔۔”
” آپ کار اسٹارٹ کریں میں ایک منٹ میں آیا ۔۔” وہ اسفند کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتا ہوا تیزی سے باہر کی طرف لپکا
مین اینٹرینس کی سیڑھیوں پر آ کر چاروں طرف دیکھا پر وہ کہیں نظر نہیں آئی تبھی ایک کار بہت تیز رفتاری سے پارکنگ سے نکلتی نظر آئی جس کی پچھلی نشست پر وہ سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا اور اسفند کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا کافی سالوں کے بعد اس کے لب مسکرائے تھے ۔۔وہ اس گاڑی کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا ________________________ حالات کی کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی تھی کئی بار ناکام ہونے کے باوجود دشمن اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آرہا تھا ۔بھارتی فوج کی جانب سے بھمبر کے مختلف سیکٹرز میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا جبکہ پاکستانی فوج بھی اسکا جواب دے رہی تھی ۔
پاک فوج پوری ذمہ داری سے دشمن کی ہر چال ناکام بنا رہی تھی ۔تو پاک فضائیہ کے شاہین مکمل طور پر دشمن کو منھ توڑ جواب دے رہے تھے ویسے بھی بلاشبہ پاک فضائیہ کو ہمیشہ سے ہی انڈیا پر فضائی برتری حاصل رہی ہے
بڑھتی کشیدگی کے باعث لائن آف کنٹرول کے کئی رہائشی سیفٹی کے لئیے اپنے مکانات چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے تھے بھارتی فوج کی شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری سے کئی افراد زخمی مکانات تباہ ہو چکے تھے تو پاکستان فوج کی جوابی کارروائی سے سرحد پار کئی بھارتی چوکیاں بھی تباہ ہو چکی تھی
چھبیس فروری 2019 ..
دشمن نے ایک بار پھر اپنی چال چلی بھارتی فوج کا ہدف ایک دفعہ پھر شہری آبادی تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے اور پاک افواج کے بروقت رسپانس پر بھارتی طیارے ناکام واپس چلے گئے لیکن جھوٹا دعویٰ کیا کہ بمباری سے تین سو ساٹھ دھشت گرد مارے جب کہ اصل میں جبا کے مقام پر صرف چار بم گرائے گئے کوئی جانی مالی کسی قسم کا نقصان پاکستان کو نہیں پہنچا ۔۔۔
اگربھارتی طیاروں نے کوئی انفراسٹرکچر تباہ کیا ہو تا تو وہاں کوئی ملبہ تو ہوتا حقیقت یہ ہے کے کوئی ایک اینٹ بھی نہیں ٹوٹی تھی بس دشمن حسب عادت جھوٹ بول رہا تھا ۔۔
ستائیس فروری 2019 ۔۔
ستائیس فروری کا تاریخ ساز دن طلوع ہوا جس میں پاک فضائیہ نے بھارت کو ان کی بزدلانہ کارروائیوں پر منھ توڑ جواب دیا ۔۔
پاکستانی حدود سے لائن آف کنٹرول کے پار کارروائی کی گئی جس میں جے ایف 17 تھنڈرطیاروں کو استمال کیا گیا اس کارروائی کے جواب میں بھارتی فضائیہ کے دو مگ 21 طیارے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے جنہیں فوری ٹریک کرکے پاک فضائیہ نے نشانہ بنا لیا تھا۔
جس میں سے ایک طیارہ آزاد کشمیر کے کھوئی رٹہ سیکٹر تحصیل سماہنی اور دوسرا طیارہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں جا کر گرا۔
بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے کا پائلٹ ابھینندن ، پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر ٹارگٹ تلاش کر رہا تھا جب اسے بڑے آرام سے پاک فضائیہ نے ٹریک کیا اور اس کا طیارہ مار گرایا طیارہ ہٹ ہو کر گر کر ٹکڑوں میں بٹ گیا جس کی وجہ سے اسے طیارہ چھوڑنا پڑا ۔ پائلٹ نیچے گرا تو اس کے پاس صرف ایک پستول تھی، وہ جہاز چھوڑ کر بھاگنے لگا آس پاس لوگ زیادہ تھے اسے لگا کہ وہ شاید انڈیا کی حدود میں ہے لوگوں نے اس کو پکڑلیا تھا ۔۔
” میں انڈیا میں ہوں کیا ؟ ” اس نے پوچھا
” ہاں تم انڈیا میں ہو۔ ” ایک بابا نے طنزیہ جواب دیا
” جے ہند ” اس نے جوش میں آکر نعرہ لگایا
جو ایک بزرگ بابا جی برداشت نہ کر پائے اور ان کا ہاتھ اٹھ گیا۔
” نہیں تم پاکستان میں ہو۔” انہوں نے کہا
یہ سن کر ابھینندن کی حالت خراب ہو گئی اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی جس پر لوگوں نے اسے پتھر مارنا شروع کردیے تو وہ رک گیا ۔
” مجھے مت مارو !! دیکھو میں خود کو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ ” اس نے مشتعل ہجوم سے کہا اور یہ کہہ کر ہوشیاری دکھاتے ہوئے اس نے ندی میں چھلانگ لگا دی لیکن اس کے باوجود پکڑا گیا۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ پستول پھینک کر بھاگ پڑتا، لوگ بہت مشتعل تھے اسے مار رہے تھے لیکن پاک آرمی کے جوانوں نے اسے اس مشتعل ہجوم سے بچایا نہ صرف بچایا بلکہ اسکے ساتھ بہترین رویہ رکھا جس کا اعتراف ابھینندن نے خود کیا۔
جاری ہے