عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 12
شام ڈھل چکی تھی ہلکا ہلکا ملگجا سا اندھیرا پھیلنا شروع ہو چکا تھا تبھی شدید فائرنگ کی آوازوں سے سماہنی گونج اٹھا تھا شیلنگ بھی شروع ہو چکی تھی ۔۔
حمزہ بہت احتیاط سے گاڑی کیمپ تک لے آیا تھا اور اب ان دونوں لڑکیوں کو لیکر میجر ڈاکٹر شبیر کے سامنے کھڑا انہیں ساری تفصیلات بتا رہا تھا ۔۔
” مسٹر حمزہ آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہماری ڈاکٹرز کی مدد کی ۔۔۔” میجر ڈاکٹر شبیر نے حمزہ کا شکریہ ادا کیا
” اٹس اوکے سر !! نیکسٹ ٹائم آپ کو اگر سیمپل یا میڈیسن وغیرہ بھجوانی ہوں تو مجھے بتا دیجئیے گا میں خود یا پھر کوئی کارکن یہ کام کردے گا حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ویسے بھی لیڈیز کا اکیلے نکلنا ان علاقوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔۔۔” وہ بردباری سے کہتا ان سے اجازت لیکر ایک اچٹتی نظر ملیحہ پر ڈالتے ہوئے چلا گیا
” ڈاکٹر ثنا اور ڈاکٹر ملیحہ مجھے آپ دونوں سے ایسی غیر ذمہ داری کی امید نہیں تھی ہاسپٹل کا کہہ کر سماہنی جا رہی تھی آپ ؟؟ ۔۔۔” ڈاکٹر شبیر نے اپنا رخ ان دونوں کی طرف کیا
” پر سر !! آپ میری بات تو سنئیے ” ۔۔۔ملیحہ منمنائی
” نو ایکسکیوز !! کل سے آپ دونوں روزانہ ٹھیک صبح پانچ بجے او پی ڈی میں ہونگی اٹس این آرڈر ۔۔۔۔”
” یس سر !! ” وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گئی _____________________ ” اور کھاؤ جلیبیاں !! دیکھنا اب سر شبیر ہمیں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں دینگے ۔۔” ثنا نے کمرے میں داخل ہو کر اپنا بیگ بستر پر پھینکا اور اسکارف اتارتی منھ دھونے چلی گئی
باتھ روم میں آکر اس نے ایک گہری سانس لی اس کا دل ابھی تک زور زور سے دھڑک رہا تھا اسامہ کی نظریں اپنے وجود میں گڑی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔ ” اگر وہ مجھے پہچان جاتا ؟؟ ” وہ لرز اٹھی
” بس اب کچھ بھی ہو جائے میڈیکل کیمپ سے باہر نہیں نکلنا ۔۔۔” اس نے خود سے عہد کیا اور منھ صاف کرتی باہر نکل آئی ۔۔۔
” تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے میں ہاسپٹل سے نوٹ کررہی ہوں کچھ ڈل سی لگ رہی ہو ۔۔۔” ملیحہ نے اس کی طرف تولیہ بڑھایا
” مجھے کیا ہونا ہے !! میں بالکل ٹھیک ہوں بس شاید تھکان کی وجہ سے سر درد کر رہا ہے ۔۔” وہ اس سے نظریں چراتی ہوئی بولی
ملیحہ نے سائیڈ پر رکھی اناٹومی کی کتاب اٹھائی اور لیمپ جلا لیا ۔۔
” اب یہ کون سا وقت ہے اناٹومی پڑھنے کا ۔۔؟؟ ” ثنا نے اسے گھورا
” تم اچھی طرح جانتی ہو مجھے پڑھے بغیر نیند نہیں آتی اور آج تو میں ویسے بھی اس گھونچو کی وجہ سے شدید غصہ میں ہوں ۔۔۔” ملیحہ نے کتاب کھولتے ہوئے کہا
“اچھا ملیحہ!! ایک بات تو بتاؤ تو تمہیں حمزہ بھائی کیسے لگتے ہیں ” ثنا بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی
“وہ بس ٹھیک ہی ہیں !! ” ملیحہ نے کتاب پڑھتے ہوئے جواب دیا
” بس ٹھیک ؟؟ اللہ اللہ اچھے خاصے تو ہیں حمزہ بھائی اور اس پر وکیل بھی ہیں ۔۔۔” ثنا نے کانوں کو ہاتھ لگایا
“ثنا ! آج پہلے ہی دماغ کی دہی بن چکی ہے تنگ مت کرو یاد نہیں کل سے صبح چار بجے ڈیوٹی لگ گئی ہے ۔۔۔” ملیحہ نے اسے ٹوکا
“اچھا یہ بتاؤ تم ہاسپٹل سے اتنی بوکھلائی ہوئی گھبرائی ہوئی کیوں نکلی تھی جیسے کوئی بھی بلا دیکھ لی ہو ؟؟ ” ملیحہ نے سوال کیا
ثنا اسی سوال سے بچنا چاہ رہی تھی اس کا چہرہ ایک لمحے کو پھیکا پڑ گیا ۔۔۔
” نہیں۔ وہ بس مجھے تمہاری فکر تھی وہ حمزہ بھائی غصہ میں تھے نا تو ۔۔۔” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے بات بناتی ہوئی بولی
“یہ تو ہے وہ تو ہم پر بلاوجہ کی دھونس جمانے لگا تھا آج صرف اسی کی وجہ سے ہم مشہور زمانہ جلیبیاں کھانے سے محروم رہ گئے ۔۔” ملیحہ کے اپنے ہی غم تھے
” ویسے ملیحہ !! مجھے لگتا ہے حمزہ بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں کیا تم بھی ؟؟ ۔۔۔”ثنا نے کہا
” ثنا !! تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟ ” ملیحہ نے کھڑے ہو کر اسے گھورا
” میں صرف یہ کہنا چاہتی ہو کہ تم مان لو حمزہ بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں اور تم بھی ان سے متاثر ہو۔۔۔ویسے بھی تمہیں تو وکیل ہی چاہیے تھا نہ۔۔؟؟ ” ثنا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا
” ثنا پلیز !!! میں نے ابھی ایسا ویسا کچھ نہیں سوچا ہے اور وہ موصوف ویسے بھی جب بھی ملے ہیں مرچیں چباتے ہوئے ہی ملے ہیں۔۔۔” ملیحہ نے ہاتھ چھڑایا
” چلو اب سونے کی کرو !! صبح چار بجے اٹھنا ہے ۔۔۔” ملیحہ سائیڈ لیمپ بجھا کر لیٹ گئی
کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی نیند ثنا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ آنکھیں بند کرتی تو اسامہ کا چہرہ اس کے سامنے آجاتا ۔۔۔
“پتا نہیں !! وہ آج بھی اتنا خود پسند اور گھمنڈی ہے جیسے پہلے تھا یا شاید بدل گیا ہوں؟؟ کیا پتا مجھے بری یاد سمجھ کر بھول گیا ہوں ؟؟ اگر نہیں بھولا تو ؟ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی آپ کا گھمنڈ سے بھرپور لہجہ آپ کا ایک ایک نفرت میں ڈوبا ہوا لفظ میری سماعت میں زندہ ہے ۔۔۔” ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر تکیہ میں جذب ہو گیا
کئی سوالات اس کے ذہن میں ابھر رہے تھے جن کا جواب وقت ہی دے سکتا تھا ۔۔ __________________________ حالات بہتر ہو رہے تھے لیکن کشیدگی ابھی بھی باقی تھی اسکول کالج روز مرہ زندگی کے تمام معاملات اپنی نارمل ڈگر پر آ چکے تھے ۔۔۔
رات بھر کی ڈیوٹی کے بعد وہ ابھی آرام کرنے لیٹا ہوں تھا کہ اس کی نظروں میں اس دشمن جان کا چہرہ ابھر آیا ۔۔۔۔ حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی تین چار دن تک علی سے نہیں مل پایا تھا لیکن اس کے دل کو سکون تھا کہ فاطمہ اس کی دسترس سے باہر نہیں ہے ۔۔۔
کل اس کا آف تھا اس لیے وہ سونے کی بجائے دن کے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا صبح ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے علی کو فون ملایا۔۔۔
” علی تم فاطمہ کو کیسے جانتے ہو ؟؟ ” فون اٹھاتے ہی اس نے فوری پوچھا
“آج تجھے پھر فاطمہ کا دورہ پڑا ہے ۔۔۔سب ٹھیک تو ہے اور میں تو انہیں تیرے ہی ریفرنس سے جانتا تھا ۔۔۔” علی نے کہا
” اگر تو نہیں جانتا تو چار دن پہلے وہ تیری گاڑی میں کیا کررہی تھی ۔۔۔؟؟ “اسامہ نے سرد لہجے میں پوچھا
” یار میں تو کبھی فاطمہ بھابھی سے ملا بھی نہیں ہوں اور اگر انہیں گاڑی میں بٹھا بھی لیتا تو سیدھا تیرے پاس لے کر آتا ۔۔۔” علی کے ذہن میں بولتے بولتے ایک جھماکہ سا ہوا
” اسامہ !! تو کدھر ہے ؟؟ میں آ رہا ہوں ۔۔۔” علی کھڑا ہوا
” نہیں ادھر سویلین کو آنے کی اجازت نہیں ہے مجھے پتہ دو میں خود آرہا ہوں ۔۔۔” اسامہ دو ٹوک لہجے میں بولا
علی کا پتہ اس کے ہاتھ میں تھا جیپ میں بیٹھ کر سماہنی تک کا سفر تو جیسے اس نے غائب دماغی کی حالت میں کیا تھا جانے کیا کچھ اس کے دماغ کے پردے پر چل رہا تھا ۔۔ جیپ کو تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتا وہ اپنے خیالات کے ہجوم سے باہر نکلا سماہنی کا علاقہ آ چکا تھا وہ اپنے مطلوبہ پتے پر پہنچ چکا تھا آس پاس کے خوبصورت مناظر کتنے دلکش تھے یہ آج اس نے محسوس کیا !! آج اس سے اپنی کھوئی ہوئی محبت اور بھولی بھٹکی یادیں یاد آ رہی تھیں ۔۔۔
فاطمہ سے اس نے واقعی محبت کی تھی ایسی محبت جو پہلے نفرت سے شروع ہوئی تھی کہتے ہیں نا کے نفرت پیار کی منزل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے پھر اسے فاطمہ کے وجود سے انسیت سی ہو گئی تھی اور یہ انسیت کب احساس ملکیت میں تبدیل ہوئی اسے پتا تک نہیں چلا تھا اور چاچو کے انتقال کے بعد وہ اسے اپنی ذمہ داری ماننے لگا تھا بس پیار جتانے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اس سے متنفر ہو گئی تھی ۔۔۔۔ چار سال مختلف ٹریننگ پوسٹنگ میں مصروف رہنے کے باوجود اس کا دل ہر وقت تڑپتا رہتا تھا کون سا ایسا شہر تھا جہاں اس نے فاطمہ کو نہیں ڈھونڈا تھا ۔۔۔۔
وہ اپنا سر جھٹکتے ہوئے جیپ بند کر کے نیچے اترا ۔۔۔علی باہر ہی کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا
یہ ندی کے پاس کا علاقہ تھا علی اسے دیکھ کر لپک کر اس کے پاس آیا
” شکر ہے تو آگیا جب سے تو نے فاطمہ بھابھی کے بارے میں پوچھا ہے تب سے ایک پیر پر کھڑا تیرا انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔اب بتا اتنی بڑی بات تو نے مجھے کیسے کہہ دی ؟؟ ” علی نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا
” علی میں نے خود فاطمہ کو تیری گاڑی میں دیکھا ہے ۔۔۔” ” کب دیکھا ؟؟ کدھر دیکھا ؟؟ ” علی نے پوچھا
” چار روز پہلے ہسپتال کی پارکنگ میں وہ پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور تو ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔”
“اسپتال میں ؟؟؟ لیکن وہ تو ڈاکٹر ثنا اور ڈاکٹر ملیحہ تھیں میں نے انہیں لفٹ دی تھی ۔۔۔” علی الجھا
” ڈاکٹر ؟؟ آر یو شیور ؟؟؟ ” اسامہ نے حیرت سے کہا ” ہاں ڈاکٹر !! ۔۔۔” علی نے سر ہلایا
” لیکن فاطمہ تو آرٹس پڑھ رہی تھی وہ ڈاکٹر کیسے بن سکتی ہے ۔۔۔۔” اسامہ الجھا
” ہوسکتا ہے تجھے ڈاکٹر ثنا پر فاطمہ بھابھی کا مغالطہ ہوا ہو ؟؟ ” علی نے نکتہ اٹھایا
” نہیں میری آنکھیں کم از کم فاطمہ کو پہچاننے میں دھوکا نہیں کھا سکتی ہیں اسے تو میں آنکھ بند کرکے بھی پہچان لوں یہ تو پھر بھی کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔” اسامہ مضبوط لہجے میں بولا
” ٹھیک ہے میڈیکل کیمپ چلتے ہیں ادھر جا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا ۔۔۔” علی نے اسامہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا وہ دونوں مجاہد سینٹر کے اطراف میں بنے میڈیکل کیمپ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
وہ دونوں کیمپ پہنچے تو ادھر لوکل ورکرز کام کررہے تھے ۔۔۔
” سنو بھائی وہ جو ڈاکٹروں کی ٹیم آئی ہوئی تھی وہ کدھر ہے ۔؟؟ ” علی نے ایک آدمی کو روک کر پوچھا
” صاحب حالات بہت بہتر ہیں وہ ڈاکٹرز آج ہی واپس گئے ہیں ۔۔۔” اس نے آدمی نے کہا ____________________________ اسامہ کو پھر دیر ہو گئی تھی وہ جا چکی تھی اور اب ایک ہی راستہ بچا تھا میجر اسفند سے مل کر فاطمہ کی ساری معلومات لینے کا ۔۔۔ اس نے جیپ میں بیٹھ کر میجر اسفند کو فون ملایا ۔۔۔۔ ” اگر آپ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو کیا میں آپ سے مل سکتا ہوں ؟؟ ” اسامہ نے چھوٹتے ہی سوال کیا
” لیفٹیننٹ اسامہ !! میں اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال میں ہوں تم ادھر ہی آجاؤ ۔۔۔” اسفند نے سنجیدگی سے کہا
” اوکے !! میں آتا ہوں ۔۔۔” اسامہ نے فون رکھا
” چلو علی اسپتال چلتے ہیں میجر اسفند فاطمہ کے بارے میں یقیناً سب جانتے ہیں اور وہ بھی ان کی پکی مرید تھی ۔۔۔” اسامہ نے جیپ اسٹارٹ کی
” اسپتال جانے سے بہتر نہیں ہے کہ ہم ان کے پیچھے جائیں چوکیدار بتا رہا ہے انہیں نکلے بس بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہے ہم انہیں راستے میں روک لینگے ۔۔۔” علی نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں علی !! میں یہاں پوسٹٹڈ ہوں مانا کے آج آف ہوں لیکن شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔” اسامہ نے سمجھایا
” مجھے تو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے تم ہسپتال جاؤ ! میں بس کے پیچھے جا رہا ہوں اور بھابھی کو لیکر ہی آؤنگا بس تم میرے فون کا انتظار کرنا ۔۔” علی جیپ سے جمپ لگا کر اترا
” علی یار !! ایسا مت کر ، میں نہیں چاہتا کہ وہ اور مجھ سے متنفر ہو جائے ۔۔۔۔”
” اسامہ وہ تیری ہے !! تو نے چار سال اس کی تلاش میں گزارے ہیں اور ابھی پتا نہیں کب تجھے چھٹی ملے اگر وہ پھر کہیں اور شفٹ ہو گئی تو ؟؟ اور ابھی تو یہ بھی کنفرم کرنا ہے کہ وہ فاطمہ بھابھی ہی ہیں یا نہیں ..یار مجھے مت روک تو اسپتال جا میں ان کو ٹریک کرتا ہوں ۔۔۔” علی نے دو ٹوک لہجے میں کہا اور آگے بڑھ گیا اس کا رخ اپنے گیسٹ ہاؤس کی جانب تھا جہاں اس کی گاڑی پارک تھی ۔۔۔ ______________________________ میجر اسفند بڑے آرام سے اپنی ماں جی کو دوا پلا رہے تھے جب دروازہ ناک کر کے اسامہ اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا ۔۔۔
“آؤ اسامہ !! اماں جی ان سے ملئیے یہ لیفٹیننٹ اسامہ ہیں آپ کی گڑیا کا شوہر ۔۔۔۔” اسفند نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کا تعارف کروایا اسامہ کی والدہ بہت ہی گریس فل خاتون تھی انہوں نے بہت ہی پیار سے اسامہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔
” اور اسامہ یہ ہیں میری اور فاطمہ کی پیاری سی اماں جی !! ہم میجر احسن مرحوم کے پڑوسی تھے اور میرے والد میجر احسن کے سینئر تھے
میری چھوٹی بہن ثنا پیدا ہونے کے ایک ماہ بعد انتقال کر گئی تھی اماں سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہو رہا تھا کوئی بھی ماں یا باپ سارے دکھ درد سہہ سکتے ہیں لیکن اولاد کا دکھ بہت جان لیوا ہوتا ہے انہیں دنوں احسن انکل کے گھر فاطمہ کی پیدائش ہوئی اور انہوں نے فاطمہ کو اماں کی گود میں ڈال دیا وہ میری رضائی بہن ہے ۔۔۔یو فاطمہ ہنستے کھیلتے دونوں گھرانوں کی رونق بڑھاتی رہی پھر فاطمہ کی والدہ کے انتقال کے بعد میجر احسن کا تبادلہ ہوا تو وہ ہم سے دور چلی گئی لیکن ملنا ملانا جاری رہا تھا ۔۔” وہ بولتے بولتے رکا
” اسامہ !! میں گزشتہ چار سال سے ملک سے باہر ڈیپوٹیشن پر تھا لیکن مجھے انتہائی حیرت ہے کہ تمہیں محسن انکل نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔ورنہ آج تم فاطمہ کو ایسے نہیں ڈھونڈ رہے ہوتے ۔۔۔”
” ڈیڈ !! ڈیڈ کو پتا تھا ۔۔۔” وہ بے یقینی سے بولا
چار سال پہلے ۔۔۔۔
فاطمہ کسی بھی صورت اس گھر میں رکنے کو تیار نہیں تھی اس نے اسفند سے مدد مانگی تھی اور اسفند اس وقت محسن نقوی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔۔
” سر !! آپ بات کو سمجھیں وہ میری بہن ہے میں ہرگز اس کا برا نہیں چاہتا لیکن زبردستی کرنے سے یہ مسئلہ اور الجھے گا ۔۔۔” وہ انہیں ساری تفصیلات بتا رہا تھا
” ہمم لیکن فاطمہ نے ہمیں اتنا غیر کیوں سمجھا ؟؟ ہم سے کچھ کیوں نہیں کہا ؟؟ “وہ گھمبیر لہجے میں بولے
” سر !! وہ کیا کہتی کیا آپ نے کبھی پوچھا ؟؟ آپ واقعی بہت مصروف رہتے ہیں لیکن وہ آپ کے چھوٹے بھائی کی نشانی ہے اسے شکایت ہے کے آپ کو تو یہ تک نہیں پتا وہ کیا پڑھ رہی ہے کیا کرنا چاہتی ہے ؟۔ پلیز آپ فاطمہ کو آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ کی پرمیشن دے دیجئے یہ میری گزارش ہے ۔۔۔”
انہوں نے سوچتے ہوئے اپنا ماتھا دبایا پھر انٹر کام پر فاطمہ کو اسٹٹڈی میں آنے کا کہا
تھوڑی دیر بعد دروازہ ناک کرکے فاطمہ اندر داخل ہوئی ۔۔۔ ” فاطمہ بیٹی آپ ادھر میرے پاس آئیے ۔۔۔” انہوں نے فاطمہ کو اپنے ساتھ بٹھایا
” مجھے آپ سے شکایت ہے !! آپ نے مجھے اپنا باپ نہیں سمجھا ۔۔۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں انکل آپ ۔۔۔۔” اس نے نظریں اٹھائیں
” نہیں بیٹا آج میں اپنی اولاد جیسے بھائی کی روح کے آگے شرمندہ ہو گیا ہوں جو آپ اس گھر سے بنا بتائے جانے کا فیصلہ کررہی تھیں ۔۔۔” انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” انکل پلیز !!! ” وہ روہانسی ہو گئی
” آپ کو میڈیکل پڑھنا ہے ؟؟ میں راضی ہوں لیکن میری بھی ایک شرط ہے ۔۔۔؟ ” وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولے…
جاری ہے
حمزہ بہت احتیاط سے گاڑی کیمپ تک لے آیا تھا اور اب ان دونوں لڑکیوں کو لیکر میجر ڈاکٹر شبیر کے سامنے کھڑا انہیں ساری تفصیلات بتا رہا تھا ۔۔
” مسٹر حمزہ آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہماری ڈاکٹرز کی مدد کی ۔۔۔” میجر ڈاکٹر شبیر نے حمزہ کا شکریہ ادا کیا
” اٹس اوکے سر !! نیکسٹ ٹائم آپ کو اگر سیمپل یا میڈیسن وغیرہ بھجوانی ہوں تو مجھے بتا دیجئیے گا میں خود یا پھر کوئی کارکن یہ کام کردے گا حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ویسے بھی لیڈیز کا اکیلے نکلنا ان علاقوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔۔۔” وہ بردباری سے کہتا ان سے اجازت لیکر ایک اچٹتی نظر ملیحہ پر ڈالتے ہوئے چلا گیا
” ڈاکٹر ثنا اور ڈاکٹر ملیحہ مجھے آپ دونوں سے ایسی غیر ذمہ داری کی امید نہیں تھی ہاسپٹل کا کہہ کر سماہنی جا رہی تھی آپ ؟؟ ۔۔۔” ڈاکٹر شبیر نے اپنا رخ ان دونوں کی طرف کیا
” پر سر !! آپ میری بات تو سنئیے ” ۔۔۔ملیحہ منمنائی
” نو ایکسکیوز !! کل سے آپ دونوں روزانہ ٹھیک صبح پانچ بجے او پی ڈی میں ہونگی اٹس این آرڈر ۔۔۔۔”
” یس سر !! ” وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گئی _____________________ ” اور کھاؤ جلیبیاں !! دیکھنا اب سر شبیر ہمیں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں دینگے ۔۔” ثنا نے کمرے میں داخل ہو کر اپنا بیگ بستر پر پھینکا اور اسکارف اتارتی منھ دھونے چلی گئی
باتھ روم میں آکر اس نے ایک گہری سانس لی اس کا دل ابھی تک زور زور سے دھڑک رہا تھا اسامہ کی نظریں اپنے وجود میں گڑی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔ ” اگر وہ مجھے پہچان جاتا ؟؟ ” وہ لرز اٹھی
” بس اب کچھ بھی ہو جائے میڈیکل کیمپ سے باہر نہیں نکلنا ۔۔۔” اس نے خود سے عہد کیا اور منھ صاف کرتی باہر نکل آئی ۔۔۔
” تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے میں ہاسپٹل سے نوٹ کررہی ہوں کچھ ڈل سی لگ رہی ہو ۔۔۔” ملیحہ نے اس کی طرف تولیہ بڑھایا
” مجھے کیا ہونا ہے !! میں بالکل ٹھیک ہوں بس شاید تھکان کی وجہ سے سر درد کر رہا ہے ۔۔” وہ اس سے نظریں چراتی ہوئی بولی
ملیحہ نے سائیڈ پر رکھی اناٹومی کی کتاب اٹھائی اور لیمپ جلا لیا ۔۔
” اب یہ کون سا وقت ہے اناٹومی پڑھنے کا ۔۔؟؟ ” ثنا نے اسے گھورا
” تم اچھی طرح جانتی ہو مجھے پڑھے بغیر نیند نہیں آتی اور آج تو میں ویسے بھی اس گھونچو کی وجہ سے شدید غصہ میں ہوں ۔۔۔” ملیحہ نے کتاب کھولتے ہوئے کہا
“اچھا ملیحہ!! ایک بات تو بتاؤ تو تمہیں حمزہ بھائی کیسے لگتے ہیں ” ثنا بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی
“وہ بس ٹھیک ہی ہیں !! ” ملیحہ نے کتاب پڑھتے ہوئے جواب دیا
” بس ٹھیک ؟؟ اللہ اللہ اچھے خاصے تو ہیں حمزہ بھائی اور اس پر وکیل بھی ہیں ۔۔۔” ثنا نے کانوں کو ہاتھ لگایا
“ثنا ! آج پہلے ہی دماغ کی دہی بن چکی ہے تنگ مت کرو یاد نہیں کل سے صبح چار بجے ڈیوٹی لگ گئی ہے ۔۔۔” ملیحہ نے اسے ٹوکا
“اچھا یہ بتاؤ تم ہاسپٹل سے اتنی بوکھلائی ہوئی گھبرائی ہوئی کیوں نکلی تھی جیسے کوئی بھی بلا دیکھ لی ہو ؟؟ ” ملیحہ نے سوال کیا
ثنا اسی سوال سے بچنا چاہ رہی تھی اس کا چہرہ ایک لمحے کو پھیکا پڑ گیا ۔۔۔
” نہیں۔ وہ بس مجھے تمہاری فکر تھی وہ حمزہ بھائی غصہ میں تھے نا تو ۔۔۔” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے بات بناتی ہوئی بولی
“یہ تو ہے وہ تو ہم پر بلاوجہ کی دھونس جمانے لگا تھا آج صرف اسی کی وجہ سے ہم مشہور زمانہ جلیبیاں کھانے سے محروم رہ گئے ۔۔” ملیحہ کے اپنے ہی غم تھے
” ویسے ملیحہ !! مجھے لگتا ہے حمزہ بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں کیا تم بھی ؟؟ ۔۔۔”ثنا نے کہا
” ثنا !! تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟ ” ملیحہ نے کھڑے ہو کر اسے گھورا
” میں صرف یہ کہنا چاہتی ہو کہ تم مان لو حمزہ بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں اور تم بھی ان سے متاثر ہو۔۔۔ویسے بھی تمہیں تو وکیل ہی چاہیے تھا نہ۔۔؟؟ ” ثنا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا
” ثنا پلیز !!! میں نے ابھی ایسا ویسا کچھ نہیں سوچا ہے اور وہ موصوف ویسے بھی جب بھی ملے ہیں مرچیں چباتے ہوئے ہی ملے ہیں۔۔۔” ملیحہ نے ہاتھ چھڑایا
” چلو اب سونے کی کرو !! صبح چار بجے اٹھنا ہے ۔۔۔” ملیحہ سائیڈ لیمپ بجھا کر لیٹ گئی
کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی نیند ثنا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ آنکھیں بند کرتی تو اسامہ کا چہرہ اس کے سامنے آجاتا ۔۔۔
“پتا نہیں !! وہ آج بھی اتنا خود پسند اور گھمنڈی ہے جیسے پہلے تھا یا شاید بدل گیا ہوں؟؟ کیا پتا مجھے بری یاد سمجھ کر بھول گیا ہوں ؟؟ اگر نہیں بھولا تو ؟ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی آپ کا گھمنڈ سے بھرپور لہجہ آپ کا ایک ایک نفرت میں ڈوبا ہوا لفظ میری سماعت میں زندہ ہے ۔۔۔” ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر تکیہ میں جذب ہو گیا
کئی سوالات اس کے ذہن میں ابھر رہے تھے جن کا جواب وقت ہی دے سکتا تھا ۔۔ __________________________ حالات بہتر ہو رہے تھے لیکن کشیدگی ابھی بھی باقی تھی اسکول کالج روز مرہ زندگی کے تمام معاملات اپنی نارمل ڈگر پر آ چکے تھے ۔۔۔
رات بھر کی ڈیوٹی کے بعد وہ ابھی آرام کرنے لیٹا ہوں تھا کہ اس کی نظروں میں اس دشمن جان کا چہرہ ابھر آیا ۔۔۔۔ حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی تین چار دن تک علی سے نہیں مل پایا تھا لیکن اس کے دل کو سکون تھا کہ فاطمہ اس کی دسترس سے باہر نہیں ہے ۔۔۔
کل اس کا آف تھا اس لیے وہ سونے کی بجائے دن کے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا صبح ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے علی کو فون ملایا۔۔۔
” علی تم فاطمہ کو کیسے جانتے ہو ؟؟ ” فون اٹھاتے ہی اس نے فوری پوچھا
“آج تجھے پھر فاطمہ کا دورہ پڑا ہے ۔۔۔سب ٹھیک تو ہے اور میں تو انہیں تیرے ہی ریفرنس سے جانتا تھا ۔۔۔” علی نے کہا
” اگر تو نہیں جانتا تو چار دن پہلے وہ تیری گاڑی میں کیا کررہی تھی ۔۔۔؟؟ “اسامہ نے سرد لہجے میں پوچھا
” یار میں تو کبھی فاطمہ بھابھی سے ملا بھی نہیں ہوں اور اگر انہیں گاڑی میں بٹھا بھی لیتا تو سیدھا تیرے پاس لے کر آتا ۔۔۔” علی کے ذہن میں بولتے بولتے ایک جھماکہ سا ہوا
” اسامہ !! تو کدھر ہے ؟؟ میں آ رہا ہوں ۔۔۔” علی کھڑا ہوا
” نہیں ادھر سویلین کو آنے کی اجازت نہیں ہے مجھے پتہ دو میں خود آرہا ہوں ۔۔۔” اسامہ دو ٹوک لہجے میں بولا
علی کا پتہ اس کے ہاتھ میں تھا جیپ میں بیٹھ کر سماہنی تک کا سفر تو جیسے اس نے غائب دماغی کی حالت میں کیا تھا جانے کیا کچھ اس کے دماغ کے پردے پر چل رہا تھا ۔۔ جیپ کو تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتا وہ اپنے خیالات کے ہجوم سے باہر نکلا سماہنی کا علاقہ آ چکا تھا وہ اپنے مطلوبہ پتے پر پہنچ چکا تھا آس پاس کے خوبصورت مناظر کتنے دلکش تھے یہ آج اس نے محسوس کیا !! آج اس سے اپنی کھوئی ہوئی محبت اور بھولی بھٹکی یادیں یاد آ رہی تھیں ۔۔۔
فاطمہ سے اس نے واقعی محبت کی تھی ایسی محبت جو پہلے نفرت سے شروع ہوئی تھی کہتے ہیں نا کے نفرت پیار کی منزل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے پھر اسے فاطمہ کے وجود سے انسیت سی ہو گئی تھی اور یہ انسیت کب احساس ملکیت میں تبدیل ہوئی اسے پتا تک نہیں چلا تھا اور چاچو کے انتقال کے بعد وہ اسے اپنی ذمہ داری ماننے لگا تھا بس پیار جتانے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اس سے متنفر ہو گئی تھی ۔۔۔۔ چار سال مختلف ٹریننگ پوسٹنگ میں مصروف رہنے کے باوجود اس کا دل ہر وقت تڑپتا رہتا تھا کون سا ایسا شہر تھا جہاں اس نے فاطمہ کو نہیں ڈھونڈا تھا ۔۔۔۔
وہ اپنا سر جھٹکتے ہوئے جیپ بند کر کے نیچے اترا ۔۔۔علی باہر ہی کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا
یہ ندی کے پاس کا علاقہ تھا علی اسے دیکھ کر لپک کر اس کے پاس آیا
” شکر ہے تو آگیا جب سے تو نے فاطمہ بھابھی کے بارے میں پوچھا ہے تب سے ایک پیر پر کھڑا تیرا انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔اب بتا اتنی بڑی بات تو نے مجھے کیسے کہہ دی ؟؟ ” علی نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا
” علی میں نے خود فاطمہ کو تیری گاڑی میں دیکھا ہے ۔۔۔” ” کب دیکھا ؟؟ کدھر دیکھا ؟؟ ” علی نے پوچھا
” چار روز پہلے ہسپتال کی پارکنگ میں وہ پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور تو ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔”
“اسپتال میں ؟؟؟ لیکن وہ تو ڈاکٹر ثنا اور ڈاکٹر ملیحہ تھیں میں نے انہیں لفٹ دی تھی ۔۔۔” علی الجھا
” ڈاکٹر ؟؟ آر یو شیور ؟؟؟ ” اسامہ نے حیرت سے کہا ” ہاں ڈاکٹر !! ۔۔۔” علی نے سر ہلایا
” لیکن فاطمہ تو آرٹس پڑھ رہی تھی وہ ڈاکٹر کیسے بن سکتی ہے ۔۔۔۔” اسامہ الجھا
” ہوسکتا ہے تجھے ڈاکٹر ثنا پر فاطمہ بھابھی کا مغالطہ ہوا ہو ؟؟ ” علی نے نکتہ اٹھایا
” نہیں میری آنکھیں کم از کم فاطمہ کو پہچاننے میں دھوکا نہیں کھا سکتی ہیں اسے تو میں آنکھ بند کرکے بھی پہچان لوں یہ تو پھر بھی کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔” اسامہ مضبوط لہجے میں بولا
” ٹھیک ہے میڈیکل کیمپ چلتے ہیں ادھر جا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا ۔۔۔” علی نے اسامہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا وہ دونوں مجاہد سینٹر کے اطراف میں بنے میڈیکل کیمپ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
وہ دونوں کیمپ پہنچے تو ادھر لوکل ورکرز کام کررہے تھے ۔۔۔
” سنو بھائی وہ جو ڈاکٹروں کی ٹیم آئی ہوئی تھی وہ کدھر ہے ۔؟؟ ” علی نے ایک آدمی کو روک کر پوچھا
” صاحب حالات بہت بہتر ہیں وہ ڈاکٹرز آج ہی واپس گئے ہیں ۔۔۔” اس نے آدمی نے کہا ____________________________ اسامہ کو پھر دیر ہو گئی تھی وہ جا چکی تھی اور اب ایک ہی راستہ بچا تھا میجر اسفند سے مل کر فاطمہ کی ساری معلومات لینے کا ۔۔۔ اس نے جیپ میں بیٹھ کر میجر اسفند کو فون ملایا ۔۔۔۔ ” اگر آپ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو کیا میں آپ سے مل سکتا ہوں ؟؟ ” اسامہ نے چھوٹتے ہی سوال کیا
” لیفٹیننٹ اسامہ !! میں اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال میں ہوں تم ادھر ہی آجاؤ ۔۔۔” اسفند نے سنجیدگی سے کہا
” اوکے !! میں آتا ہوں ۔۔۔” اسامہ نے فون رکھا
” چلو علی اسپتال چلتے ہیں میجر اسفند فاطمہ کے بارے میں یقیناً سب جانتے ہیں اور وہ بھی ان کی پکی مرید تھی ۔۔۔” اسامہ نے جیپ اسٹارٹ کی
” اسپتال جانے سے بہتر نہیں ہے کہ ہم ان کے پیچھے جائیں چوکیدار بتا رہا ہے انہیں نکلے بس بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہے ہم انہیں راستے میں روک لینگے ۔۔۔” علی نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں علی !! میں یہاں پوسٹٹڈ ہوں مانا کے آج آف ہوں لیکن شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔” اسامہ نے سمجھایا
” مجھے تو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے تم ہسپتال جاؤ ! میں بس کے پیچھے جا رہا ہوں اور بھابھی کو لیکر ہی آؤنگا بس تم میرے فون کا انتظار کرنا ۔۔” علی جیپ سے جمپ لگا کر اترا
” علی یار !! ایسا مت کر ، میں نہیں چاہتا کہ وہ اور مجھ سے متنفر ہو جائے ۔۔۔۔”
” اسامہ وہ تیری ہے !! تو نے چار سال اس کی تلاش میں گزارے ہیں اور ابھی پتا نہیں کب تجھے چھٹی ملے اگر وہ پھر کہیں اور شفٹ ہو گئی تو ؟؟ اور ابھی تو یہ بھی کنفرم کرنا ہے کہ وہ فاطمہ بھابھی ہی ہیں یا نہیں ..یار مجھے مت روک تو اسپتال جا میں ان کو ٹریک کرتا ہوں ۔۔۔” علی نے دو ٹوک لہجے میں کہا اور آگے بڑھ گیا اس کا رخ اپنے گیسٹ ہاؤس کی جانب تھا جہاں اس کی گاڑی پارک تھی ۔۔۔ ______________________________ میجر اسفند بڑے آرام سے اپنی ماں جی کو دوا پلا رہے تھے جب دروازہ ناک کر کے اسامہ اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا ۔۔۔
“آؤ اسامہ !! اماں جی ان سے ملئیے یہ لیفٹیننٹ اسامہ ہیں آپ کی گڑیا کا شوہر ۔۔۔۔” اسفند نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کا تعارف کروایا اسامہ کی والدہ بہت ہی گریس فل خاتون تھی انہوں نے بہت ہی پیار سے اسامہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔
” اور اسامہ یہ ہیں میری اور فاطمہ کی پیاری سی اماں جی !! ہم میجر احسن مرحوم کے پڑوسی تھے اور میرے والد میجر احسن کے سینئر تھے
میری چھوٹی بہن ثنا پیدا ہونے کے ایک ماہ بعد انتقال کر گئی تھی اماں سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہو رہا تھا کوئی بھی ماں یا باپ سارے دکھ درد سہہ سکتے ہیں لیکن اولاد کا دکھ بہت جان لیوا ہوتا ہے انہیں دنوں احسن انکل کے گھر فاطمہ کی پیدائش ہوئی اور انہوں نے فاطمہ کو اماں کی گود میں ڈال دیا وہ میری رضائی بہن ہے ۔۔۔یو فاطمہ ہنستے کھیلتے دونوں گھرانوں کی رونق بڑھاتی رہی پھر فاطمہ کی والدہ کے انتقال کے بعد میجر احسن کا تبادلہ ہوا تو وہ ہم سے دور چلی گئی لیکن ملنا ملانا جاری رہا تھا ۔۔” وہ بولتے بولتے رکا
” اسامہ !! میں گزشتہ چار سال سے ملک سے باہر ڈیپوٹیشن پر تھا لیکن مجھے انتہائی حیرت ہے کہ تمہیں محسن انکل نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔ورنہ آج تم فاطمہ کو ایسے نہیں ڈھونڈ رہے ہوتے ۔۔۔”
” ڈیڈ !! ڈیڈ کو پتا تھا ۔۔۔” وہ بے یقینی سے بولا
چار سال پہلے ۔۔۔۔
فاطمہ کسی بھی صورت اس گھر میں رکنے کو تیار نہیں تھی اس نے اسفند سے مدد مانگی تھی اور اسفند اس وقت محسن نقوی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔۔
” سر !! آپ بات کو سمجھیں وہ میری بہن ہے میں ہرگز اس کا برا نہیں چاہتا لیکن زبردستی کرنے سے یہ مسئلہ اور الجھے گا ۔۔۔” وہ انہیں ساری تفصیلات بتا رہا تھا
” ہمم لیکن فاطمہ نے ہمیں اتنا غیر کیوں سمجھا ؟؟ ہم سے کچھ کیوں نہیں کہا ؟؟ “وہ گھمبیر لہجے میں بولے
” سر !! وہ کیا کہتی کیا آپ نے کبھی پوچھا ؟؟ آپ واقعی بہت مصروف رہتے ہیں لیکن وہ آپ کے چھوٹے بھائی کی نشانی ہے اسے شکایت ہے کے آپ کو تو یہ تک نہیں پتا وہ کیا پڑھ رہی ہے کیا کرنا چاہتی ہے ؟۔ پلیز آپ فاطمہ کو آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ کی پرمیشن دے دیجئے یہ میری گزارش ہے ۔۔۔”
انہوں نے سوچتے ہوئے اپنا ماتھا دبایا پھر انٹر کام پر فاطمہ کو اسٹٹڈی میں آنے کا کہا
تھوڑی دیر بعد دروازہ ناک کرکے فاطمہ اندر داخل ہوئی ۔۔۔ ” فاطمہ بیٹی آپ ادھر میرے پاس آئیے ۔۔۔” انہوں نے فاطمہ کو اپنے ساتھ بٹھایا
” مجھے آپ سے شکایت ہے !! آپ نے مجھے اپنا باپ نہیں سمجھا ۔۔۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں انکل آپ ۔۔۔۔” اس نے نظریں اٹھائیں
” نہیں بیٹا آج میں اپنی اولاد جیسے بھائی کی روح کے آگے شرمندہ ہو گیا ہوں جو آپ اس گھر سے بنا بتائے جانے کا فیصلہ کررہی تھیں ۔۔۔” انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” انکل پلیز !!! ” وہ روہانسی ہو گئی
” آپ کو میڈیکل پڑھنا ہے ؟؟ میں راضی ہوں لیکن میری بھی ایک شرط ہے ۔۔۔؟ ” وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولے…
جاری ہے
Leave a Reply