عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 13
جی انکل آپ حکم کریں ۔۔۔” فاطمہ کی آنکھیں اس مشروط اجازت ملے پر جگمگا اٹھیں
” ہم تمہارا اسامہ سے نکاح کر دیتے ہیں تاکہ ہمارے دل کو بھی تسلی رہے نکاح کے بعد تم کالج جوائن کر سکتی ہوں ۔۔۔بولو منظور ہے ؟ ” انہوں نے شرط رکھی
” انکل آپ انہیں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور میں اس طرح سے پڑھ نہیں پاؤنگی وہ وہ بہت روڈ اور سخت ہیں اور میڈیکل کی پڑھائی بہت توجہ مانگتی ہے ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
محسن نقوی صاحب بھی اسامہ کی رگ رگ کو اچھی طرح سے جانتے تھے انہیں احساس تھا کہ وہ کبھی بھی فاطمہ کو خود سے ، گھر سے دور رہنے نہیں دیگا تو دوسری طرف فاطمہ بھی اس سے ڈری ہوئی تھی بہتر تھا کہ اس رشتے کو وقت دیا جاتا
” اسفند بیٹا آپ مولوی صاحب کا انتظام کریں مولوی صاحب کو بلواتا ہوں یہ نکاح آج ہی ہوگا اور کل آپ فاطمہ بیٹی کو پنڈی لے جائیے گا میں ہاسٹل میں انتظام کروا دونگا ۔۔۔” انہوں نے سنجیدگی سے بیٹھے اسفند کو مخاطب کیا
” مگر سر اسامہ تو ۔۔۔۔”
” ہم۔ٹیلی فون پر نکاح پڑھوائیں گئے اسامہ پرسوں آکر دستخط کر دیگا اور فاطمہ بیٹی آج ہی سائن کردینگی ۔۔۔” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر کہا اسفند سر ہلاتا باہر نکل گیا ۔۔۔
” انکل یہ آپ کیا کررہے ہیں پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔” وہ روتے ہوئے بولی
انہوں نے اپنے دوست کو فون ملا کر کچھ دیر بات کی ۔۔۔اس کے بعد وکیل صاحب کو فون ملا کر آنے کو کہا
” انکل!! آپ میری بات تو سنئیے ؟؟ ” فاطمہ نے ان کا ہاتھ پکڑا ۔۔ انہوں نے فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسامہ کو فون ملایا “کیسے ہیں ڈیڈ !! ممی کیسی ہیں ۔۔۔” سلام دعا کے بعد اسامہ کی بھاری ہوئی آواز گونجی
” سب ٹھیک ہے تمہاری ممی تو کسی انوگریشن میں گئی ہوئی ہیں اچھا سنو بیس منٹ میں کرنل رفیق کے گھر پہنچو وہاں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔” انہوں نے ہدایت دی
” خیریت ڈیڈ !! ” اسامہ الجھا
” سب ٹھیک ہے بس بیس منٹ میں تمہارا اور فاطمہ کا نکاح اسکائپ پر پڑھوایا جائیگا ۔۔۔” انہوں نے کہا
” ڈیڈ !! کیا ہوا ہے ؟؟ ایسی بھی کیا ایمرجنسی ہے میں آ تو رہا ہوں ویک اینڈ پر ” وہ ٹھیک ٹھاک الجھ گیا تھا
” ینگ مین !! تمہیں نکاح کرنا ہے یا نہیں ؟؟ ” انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا
” یس ڈیڈ پر ایسے …”
” ٹھیک بیس منٹ میں گواہوں کے ساتھ اسکائپ پر آجاؤ ورنہ فاطمہ کو بھول جانا ۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے بات ختم کرتے ہی فون رکھ دیا
” دیکھو فاطمہ !! تم میرے بھائی کی نشانی ہو !! وہ مرنے سے پہلے اسامہ کو تمہارا خیال رکھنے کا کہہ کر گیا تھا اور اس نکاح کے بعد تم آزادانہ اپنی پڑھائی مکمل کرو تمہارے پاس پورے چار سال ہیں اس وقت تک میں تمہاری آنٹی اسامہ کسی کو بھی تمہارے بارے میں نہیں بتاؤ گا لیکن فائنل ائیر کے بعد میں امید کرتا ہوں تم اس رشتہ کو ایک چانس ضرور دو گی ۔۔۔” انہوں نے اسے سمجھایا __________________________ اسامہ آج بہت خوش تھا چاہے جیسے بھی سہی پر فاطمہ اس کی بن چکی تھی اب ویک اینڈ کا انتظار بہت مشکل تھا ۔۔۔
ہفتے کے روز وہ کراچی پہنچا ممی ڈیڈ سے ملنے کے بعد وہ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھا ارادہ اس ظالم منکوحہ کے کمرے میں جھانکنے کا بھی تھا دو سال سے اس نے فاطمہ کو نہیں دیکھا تھا اور اب نکاح کے بعد تو احساسات ہی بدل گئے تھے ۔۔۔اس نے اوپری منزل پر پہنچ کر فاطمہ کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا لیکن وہ اپنے کمرے میں نہیں تھی ۔۔۔
وہ مایوس ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔ شام کو اسے محسن نقوی صاحب نے اسٹڈی روم میں بلوایا ۔۔
” جی ڈیڈ آپ نے بلوایا ۔۔۔” وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
محسن نقوی صاحب نے ایک نظر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا فوجی کٹ بال مضبوط بازو چوڑا سینہ ان کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی
” اسامہ تمہیں ایک بات بتانی ہے ۔۔۔بیٹا جس دن تمہارا نکاح ہوا تھا اسی دن سے فاطمہ غائب ہے بہت ڈھونڈا ساری سورسز استمال کی پر اس کا کچھ پتا نہیں چلا ۔۔۔”
اسامہ اپنی جگہ کھڑا ہو گیا
” یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈیڈ ؟؟ اور آپ نے مجھے فوراً کیوں نہیں بتایا ۔۔۔” اس کا غصہ سے برا حال تھا
” تم پریشان مت ہو میں ہوں نا میں اس کیس کو دیکھ رہا ہوں اللہ نے چاہا تو فاطمہ وقت آنے پر ہمیں مل جائیگی ۔۔” انہوں نے اس بپھرے ہوئے شیر کو تسلی دینا چاہی
” ڈیڈ وہ میری عزت ہے بیوی ہے میری ایسے کیسے چھوڑ دوں میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالونگا ۔۔۔” وہ غرایا ____________________________ بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے کہ انسان بااختیار ہوتے ہوئے بھی سارے اختیار کھو بیٹھتا ہے اور اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق رکھنے کے باوجود بے بس ہو جاتا ہے ۔۔۔
فاطمہ نے بھلا ایسا کب سوچا تھا کہ یوں بیٹھے بیٹھائے اس کی زندگی بدل جائے گی رشتے بدل جائیں گے وہ تو اپنے بابا کی لاڈلی بیٹی تھی اس کی زندگی کا مقصد اپنے ماں باپ کے خواب پورے کرنا تھا لیکن آج اپنے وارثوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی خود کو لاوارث محسوس کر رہی تھی ۔۔
بہت تابعداری فرماں برداری سے گندھی لڑکی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے تایا کو انکار نہیں کر پائی تھی ۔۔۔ کاتب تقدیر نے تو فیصلہ سنا دیا تھا اسامہ کو اس کے سر کا سائیں بنا دیا تھا یہ اس کا اپنا فیصلہ نہیں تھا یہ قدرت کا فیصلہ تھا جسے وہ دل سے قبول نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔
گزرے وقت کی دھول اڑ چکی تھی اب وہ میڈیکل کالج کے فائنل ائیر میں تھی اسے گھر سے نکلے چار سال ہونے والے تھے اور اب ادھر بھمبر میں اسامہ کو دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھی اسے ڈر تھا کہ وہ اس سے گزرے سالوں کا کڑا حساب لیگا ۔۔۔ اسی لئیے جب کچھ ڈاکٹرز نے واپس کیمپس جانے کا فیصلہ کیا تو وہ سب سے آگے تھی ۔۔۔
” ثنا !! کن سوچوں میں کھوئی ہوئی ہو ؟؟ ” ملیحہ نے اس کا کندھا ہلایا
” کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔” وہ پژمردہ لہجے میں بولی
ابھی وہ دونوں باتیں کر رہی تھی کہ بس ایک جھٹکے سے رکی ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں بس کا دروازہ کھلا اور حمزہ علی اندر داخل ہوا وہ ڈاکٹر شبیر سے بات کر کے ان کی سمت آیا اور عین سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گیا بس دوبارہ چل پڑی تھی ۔۔۔
“آپ دونوں اس طرح بنا بتائے کیسے جا رہی تھی ؟؟ کیوں کسی کے دل سے کھیل کر جانا آپ کی روایت لگتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا ” وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے تیز نظروں سے ملیحہ کو گھور رہا تھا
“آپ کوئی ہمارے سر پرست ہیں جو ہم آپ کو بتا کے جاتے اپنی حد میں رہئیے مسٹر وکیل ۔۔” ملیحہ کہاں تک چپ رہتی اس نے کرارا جواب دیا
” ملیحہ بی بی تمیز سے بات کریں ورنہ اگر مجھے غصہ آیا تو یہ ساری اکٹرفوں دو سیکنڈ میں نکال دونگا ۔۔۔” وہ لب بھینچ کر بولا
” اتنی کمزور نہیں ہوں میں ابھی سر سے آپ کی شکایت لگاتی ہوں ۔۔۔” وہ اٹھتی ہوئی بولی
“اچھا تو شکایت لگانی ہے ۔۔۔۔” اس نے اسے سیٹ پر واپس دھکیلا
” آپ !! آپ اپنی حد میں رہیں تو بہتر ہے ” ملیحہ تلملا اٹھی
” آپ کی حرکات مجھے اپنی حد میں رہنے ہی کہا دیتی ہیں ۔بہرحال ابھی مجھے فاطمہ بہن سے کام ہے ۔۔۔” اس نے اپنا رخ فاطمہ کی طرف کیا جو اپنا نام سن کر چونک اٹھی تھی
” محترم آپ غلط جگہ لائن مار رہے ہیں ادھر کوئی فاطمہ نہیں ہے ۔۔۔” ملیحہ نے ٹوکا
” فاطمہ بھابھی !! آپ اپنی دوست کو چپ کروائینگی یا یہ نیک فریضہ میں انجام دوں ؟؟ ” وہ فاطمہ سے مخاطب ہوا
” یہ آپ ثنا کو کیسے مخاطب کررہے ہیں ؟؟ ” اس نے ٹوکا
” بھابھی آپ ابھی میرے ساتھ چل رہی ہیں میں خود آپ کو ایک دو روز میں پنڈی چھوڑ دونگا ۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولتے ہوئے فون نکال کر اسامہ کو کال ملانے لگا
” سنو اسفند بھائی سے بات کرواؤ ۔۔۔” وہ فون کے اٹھتے ہی بولا
اس نے اسفند کو ساری سچویشن بتائی ۔۔ ” اسفند بھائی آپ ہمیں پک کر لیں میں بھابھی کو لیکر اتر رہا ہوں !! ۔۔ ”
” اوکے ۔۔۔” اس نے بات سن کر فون فاطمہ کی طرف بڑھایا
” فاطمہ بیٹا اماں کی طبیعت بہت خراب ہے وہ ہسپتال میں داخل ہیں اور تم سے ملنا چاہ رہی ہیں میں تمہارے سر سے بات کررہا ہوں تم بس سے اترو میں آرہا ہوں پک کرنے فون حمزہ کو دو ۔۔۔” اسفند نے کہا
حمزہ فون لیکر میجر ڈاکٹر شبیر کے پاس گیا اور چند منٹ کے بعد فاطمہ حمزہ علی کے ساتھ بس سے باہر تھی ۔۔۔ _______________________ اسفند نے علی سے بات کرکے فون رکھا اور چوکس کھڑے اسامہ سے مخاطب ہوئے
” جاؤ اسے لے آؤ لیکن دیکھو اس سے سختی سے پیش مت آنا اور سیدھا ہاسپٹل ہی آنا ۔۔۔۔” اسفند نے کہا
” سر آپ ابھی بھی مجھ پر بھروسہ نہیں کررہے ہیں ؟؟ آپ کو صرف اپنی بہن کی فکر ہے ۔۔۔۔” اسامہ نے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا
” سر نہیں تم مجھے بھائی کہہ سکتے ہو اور وہ اگر میری بہن ہے تو یقین کرو اس کے ناطے سے تم بھی مجھے اتنے ہی عزیز ہو اور جس طرح تم نے خود کو سنبھالا ہے وہ قابل تعریف ہے مجھے تو آج بھی یقین نہیں ہوتا کے تم وہی اسامہ ہو جو مجھے سروس ہاسپٹل میں ملے تھے فاطمہ کو ڈراتے ہوئے ۔۔۔” اسفند نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
” اسفند بھائی !! آپ اگر اجازت دیں تو کیا فاطمہ !!! میرا مطلب کیا میں اسے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں ۔۔۔” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” ایسا نہیں ہوسکتا ، اسامہ تم بیس میں ہو اور ادھر فیملیز الاؤ نہیں ہیں تمہیں تو رولز پتا ہیں نا ؟؟ ۔۔۔” اسفند حیرت دباتے ہوئے بولے
” سر آج میرا آف ہے ۔۔۔۔” وہ بولا
” آف ہے پر اسٹیٹ آف ایمرجنسی بھی نافذ ہے کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے اس لئیے سیدھے سیدھے اس کو لیکر آؤ ۔میں محسن انکل کو فون کردونگا وہ اپنی سہولت سے فاطمہ کو آکر لے جائینگے اور تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ ۔۔” اسفند دو ٹوک لہجے میں بولے ________________________ فاطمہ ثنا نقوی !! اس وقت ایک روڈ کے کنارے حمزہ علی کے ساتھ کھڑی ہوئی اسفند کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
” بھابھی !! آپ کا نام تو فاطمہ ہے نا تو پھر یہ ثنا کیوں ؟؟ ” حمزہ نے پوچھا
” بھائی فاطمہ ثنا نقوی میرا مکمل نام ہے ۔۔۔” وہ دھیرے سے بولی
” بھابھی آپ اتنے عرصے سے فیملی سے الگ کیسے رہ رہی ہیں ؟؟ ادھر تو اسامہ سے ایک پل کاٹنا مشکل تھا میں خود گواہ ہوں ۔۔۔”
” حمزہ بھائی !! آپ پلیز مجھے بھابھی مت کہئیے ۔۔” فاطمہ نے فوراً ٹوکا
” آپ میری بھابھی ہی ہیں میرے سب سے عزیز دوست کی منکوحہ !! میں تو آپ کو بھابھی ہی کہونگا ۔۔۔آپ کے منع کرنے سے رشتہ تو نہیں بدلیگا اس لئیے آپ بھی اب اس رشتہ کو قبول کرلیں ۔۔۔” اس کا انداز ناصحانہ تھا
” حمزہ بھائی !! یہ رشتہ آپ کے دوست نے صرف ضد میں جوڑا ہے وہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے یہ رشتہ محض ایک ضد کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔” وہ نم لہجے میں بولی
” آپ کو پتا ہے گزشتہ چار سال سے اسامہ نے آپکا بنواس لے رکھا ہے ؟؟ اس بندے نے ایک عید تک نہیں منائی ہے ہم سب دوست یاروں تک کو چھوڑ دیا بس آپ کی تلاش میں بھٹکتا رہا اسے آپ سے محبت نہیں عشق ہے عشق اور آپ کہہ رہی کہ یہ رشتہ محض ایک ضد کے سوا اور کچھ نہیں ؟؟ ” حمزہ کا لہجہ تلخ تھا
ان دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی تھی کافی دیر بعد ایک تیز رفتار جیپ دھواں اڑاتی دور سے ان کے نزدیک آتی نظر آئی ۔۔۔ قریب آکر بریک چرچرائے اور چیپ کا انجن بند کرکے اسامہ باہر نکلا ۔۔۔۔
فاطمہ تو اسامہ کو دیکھ کر گنگ رہ گئی وہ تو اسفند کا انتظار کر رہی تھی اور اب اسامہ کو دیکھ کر اس کا سانس اوپر کا اوپر رہ گیا وہ نظریں جھکا کر زمین کو گھورنے لگی ۔۔۔
حمزہ علی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ فاطمہ کے عین سامنے آکر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
آسمانی رنگ کے خوبصورت لباس میں اس کا دلکش سراپا دمک رہا تھا سر پر ہم رنگ اسکارف اور شانوں پر دوپٹہ پھیلائے وہ بڑے ہی انہماک سے زمین کو گھور رہی تھی جیسے اس سے اہم اور کوئی کام نہیں ہوں ۔۔۔ حمزہ علی نے اسامہ کو گڈ لک کا اشارہ کیا اور خود واک کرتے ہوئے وہاں سے کسی سواری کی تلاش میں آگے چلا گیا ۔۔
نا جانے اس لڑکی میں ایسا کیا جادو تھا کہ وہ اس کے حواسوں پر سوار تھی مانا کے وہ بہت خوبصورت تھی لیکن اس کی خوبصورتی نے اسے اپنا اسیر نہیں کیا تھا بلکہ اس کی سادگی اپنے حسن سے بےنیازی اور سب سے بڑھ کر اس کا مضبوط کردار اس نے ٹین ایج میں ہونے کے باوجود کبھی بھی اسامہ کو اہمیت نہیں دی تھی۔۔۔ایک گہرا سانس لیکر اس نے فاطمہ کو کے جھکے سر کو بغور دیکھتے ہوئے مخاطب کیا ۔۔۔
” کیسی ہو ۔۔۔” وہ گھمبیر لہجے میں بولا
وہ چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی اس میں اسامہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی
” چار سال !! پورے چار سال بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں !! نکاح کے بعد کتنا خوش تھا میں !! کتنے جذبوں کے ساتھ تم سے ملنے آیا تھا مگر تم ۔۔۔۔” وہ افسردگی سے ہنسا
فاطمہ سے سر اٹھانا مشکل ہو رہا تھا وہ ہمیشہ سے ہی اس کی ضدی ہٹ دھرم پرسنیلٹی سے گھبراتی تھی اور اب تو وہ چھا جانے والے انداز میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اسامہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بڑے آرام سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” آئیے آپ کو اسپتال چھوڑ دوں ۔۔۔” اس نے ساکت کھڑی فاطمہ کو مخاطب کیا اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا اپنی جیپ کی جانب بڑھا اور فرنٹ ڈور کھول کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ فاطمہ مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی پاس آئی اور اسامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے پیچھے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ اسامہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ” محترمہ منکوحہ صاحبہ !! میں آپ کا ڈرائیور نہیں ہوں آگے بیٹھئے !! ” اس نے فاطمہ کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کیا..
جاری ہے
” ہم تمہارا اسامہ سے نکاح کر دیتے ہیں تاکہ ہمارے دل کو بھی تسلی رہے نکاح کے بعد تم کالج جوائن کر سکتی ہوں ۔۔۔بولو منظور ہے ؟ ” انہوں نے شرط رکھی
” انکل آپ انہیں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور میں اس طرح سے پڑھ نہیں پاؤنگی وہ وہ بہت روڈ اور سخت ہیں اور میڈیکل کی پڑھائی بہت توجہ مانگتی ہے ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
محسن نقوی صاحب بھی اسامہ کی رگ رگ کو اچھی طرح سے جانتے تھے انہیں احساس تھا کہ وہ کبھی بھی فاطمہ کو خود سے ، گھر سے دور رہنے نہیں دیگا تو دوسری طرف فاطمہ بھی اس سے ڈری ہوئی تھی بہتر تھا کہ اس رشتے کو وقت دیا جاتا
” اسفند بیٹا آپ مولوی صاحب کا انتظام کریں مولوی صاحب کو بلواتا ہوں یہ نکاح آج ہی ہوگا اور کل آپ فاطمہ بیٹی کو پنڈی لے جائیے گا میں ہاسٹل میں انتظام کروا دونگا ۔۔۔” انہوں نے سنجیدگی سے بیٹھے اسفند کو مخاطب کیا
” مگر سر اسامہ تو ۔۔۔۔”
” ہم۔ٹیلی فون پر نکاح پڑھوائیں گئے اسامہ پرسوں آکر دستخط کر دیگا اور فاطمہ بیٹی آج ہی سائن کردینگی ۔۔۔” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر کہا اسفند سر ہلاتا باہر نکل گیا ۔۔۔
” انکل یہ آپ کیا کررہے ہیں پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔” وہ روتے ہوئے بولی
انہوں نے اپنے دوست کو فون ملا کر کچھ دیر بات کی ۔۔۔اس کے بعد وکیل صاحب کو فون ملا کر آنے کو کہا
” انکل!! آپ میری بات تو سنئیے ؟؟ ” فاطمہ نے ان کا ہاتھ پکڑا ۔۔ انہوں نے فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسامہ کو فون ملایا “کیسے ہیں ڈیڈ !! ممی کیسی ہیں ۔۔۔” سلام دعا کے بعد اسامہ کی بھاری ہوئی آواز گونجی
” سب ٹھیک ہے تمہاری ممی تو کسی انوگریشن میں گئی ہوئی ہیں اچھا سنو بیس منٹ میں کرنل رفیق کے گھر پہنچو وہاں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔” انہوں نے ہدایت دی
” خیریت ڈیڈ !! ” اسامہ الجھا
” سب ٹھیک ہے بس بیس منٹ میں تمہارا اور فاطمہ کا نکاح اسکائپ پر پڑھوایا جائیگا ۔۔۔” انہوں نے کہا
” ڈیڈ !! کیا ہوا ہے ؟؟ ایسی بھی کیا ایمرجنسی ہے میں آ تو رہا ہوں ویک اینڈ پر ” وہ ٹھیک ٹھاک الجھ گیا تھا
” ینگ مین !! تمہیں نکاح کرنا ہے یا نہیں ؟؟ ” انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا
” یس ڈیڈ پر ایسے …”
” ٹھیک بیس منٹ میں گواہوں کے ساتھ اسکائپ پر آجاؤ ورنہ فاطمہ کو بھول جانا ۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے بات ختم کرتے ہی فون رکھ دیا
” دیکھو فاطمہ !! تم میرے بھائی کی نشانی ہو !! وہ مرنے سے پہلے اسامہ کو تمہارا خیال رکھنے کا کہہ کر گیا تھا اور اس نکاح کے بعد تم آزادانہ اپنی پڑھائی مکمل کرو تمہارے پاس پورے چار سال ہیں اس وقت تک میں تمہاری آنٹی اسامہ کسی کو بھی تمہارے بارے میں نہیں بتاؤ گا لیکن فائنل ائیر کے بعد میں امید کرتا ہوں تم اس رشتہ کو ایک چانس ضرور دو گی ۔۔۔” انہوں نے اسے سمجھایا __________________________ اسامہ آج بہت خوش تھا چاہے جیسے بھی سہی پر فاطمہ اس کی بن چکی تھی اب ویک اینڈ کا انتظار بہت مشکل تھا ۔۔۔
ہفتے کے روز وہ کراچی پہنچا ممی ڈیڈ سے ملنے کے بعد وہ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھا ارادہ اس ظالم منکوحہ کے کمرے میں جھانکنے کا بھی تھا دو سال سے اس نے فاطمہ کو نہیں دیکھا تھا اور اب نکاح کے بعد تو احساسات ہی بدل گئے تھے ۔۔۔اس نے اوپری منزل پر پہنچ کر فاطمہ کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا لیکن وہ اپنے کمرے میں نہیں تھی ۔۔۔
وہ مایوس ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔ شام کو اسے محسن نقوی صاحب نے اسٹڈی روم میں بلوایا ۔۔
” جی ڈیڈ آپ نے بلوایا ۔۔۔” وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
محسن نقوی صاحب نے ایک نظر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا فوجی کٹ بال مضبوط بازو چوڑا سینہ ان کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی
” اسامہ تمہیں ایک بات بتانی ہے ۔۔۔بیٹا جس دن تمہارا نکاح ہوا تھا اسی دن سے فاطمہ غائب ہے بہت ڈھونڈا ساری سورسز استمال کی پر اس کا کچھ پتا نہیں چلا ۔۔۔”
اسامہ اپنی جگہ کھڑا ہو گیا
” یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈیڈ ؟؟ اور آپ نے مجھے فوراً کیوں نہیں بتایا ۔۔۔” اس کا غصہ سے برا حال تھا
” تم پریشان مت ہو میں ہوں نا میں اس کیس کو دیکھ رہا ہوں اللہ نے چاہا تو فاطمہ وقت آنے پر ہمیں مل جائیگی ۔۔” انہوں نے اس بپھرے ہوئے شیر کو تسلی دینا چاہی
” ڈیڈ وہ میری عزت ہے بیوی ہے میری ایسے کیسے چھوڑ دوں میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالونگا ۔۔۔” وہ غرایا ____________________________ بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے کہ انسان بااختیار ہوتے ہوئے بھی سارے اختیار کھو بیٹھتا ہے اور اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق رکھنے کے باوجود بے بس ہو جاتا ہے ۔۔۔
فاطمہ نے بھلا ایسا کب سوچا تھا کہ یوں بیٹھے بیٹھائے اس کی زندگی بدل جائے گی رشتے بدل جائیں گے وہ تو اپنے بابا کی لاڈلی بیٹی تھی اس کی زندگی کا مقصد اپنے ماں باپ کے خواب پورے کرنا تھا لیکن آج اپنے وارثوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی خود کو لاوارث محسوس کر رہی تھی ۔۔
بہت تابعداری فرماں برداری سے گندھی لڑکی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے تایا کو انکار نہیں کر پائی تھی ۔۔۔ کاتب تقدیر نے تو فیصلہ سنا دیا تھا اسامہ کو اس کے سر کا سائیں بنا دیا تھا یہ اس کا اپنا فیصلہ نہیں تھا یہ قدرت کا فیصلہ تھا جسے وہ دل سے قبول نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔
گزرے وقت کی دھول اڑ چکی تھی اب وہ میڈیکل کالج کے فائنل ائیر میں تھی اسے گھر سے نکلے چار سال ہونے والے تھے اور اب ادھر بھمبر میں اسامہ کو دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھی اسے ڈر تھا کہ وہ اس سے گزرے سالوں کا کڑا حساب لیگا ۔۔۔ اسی لئیے جب کچھ ڈاکٹرز نے واپس کیمپس جانے کا فیصلہ کیا تو وہ سب سے آگے تھی ۔۔۔
” ثنا !! کن سوچوں میں کھوئی ہوئی ہو ؟؟ ” ملیحہ نے اس کا کندھا ہلایا
” کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔” وہ پژمردہ لہجے میں بولی
ابھی وہ دونوں باتیں کر رہی تھی کہ بس ایک جھٹکے سے رکی ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں بس کا دروازہ کھلا اور حمزہ علی اندر داخل ہوا وہ ڈاکٹر شبیر سے بات کر کے ان کی سمت آیا اور عین سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گیا بس دوبارہ چل پڑی تھی ۔۔۔
“آپ دونوں اس طرح بنا بتائے کیسے جا رہی تھی ؟؟ کیوں کسی کے دل سے کھیل کر جانا آپ کی روایت لگتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا ” وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے تیز نظروں سے ملیحہ کو گھور رہا تھا
“آپ کوئی ہمارے سر پرست ہیں جو ہم آپ کو بتا کے جاتے اپنی حد میں رہئیے مسٹر وکیل ۔۔” ملیحہ کہاں تک چپ رہتی اس نے کرارا جواب دیا
” ملیحہ بی بی تمیز سے بات کریں ورنہ اگر مجھے غصہ آیا تو یہ ساری اکٹرفوں دو سیکنڈ میں نکال دونگا ۔۔۔” وہ لب بھینچ کر بولا
” اتنی کمزور نہیں ہوں میں ابھی سر سے آپ کی شکایت لگاتی ہوں ۔۔۔” وہ اٹھتی ہوئی بولی
“اچھا تو شکایت لگانی ہے ۔۔۔۔” اس نے اسے سیٹ پر واپس دھکیلا
” آپ !! آپ اپنی حد میں رہیں تو بہتر ہے ” ملیحہ تلملا اٹھی
” آپ کی حرکات مجھے اپنی حد میں رہنے ہی کہا دیتی ہیں ۔بہرحال ابھی مجھے فاطمہ بہن سے کام ہے ۔۔۔” اس نے اپنا رخ فاطمہ کی طرف کیا جو اپنا نام سن کر چونک اٹھی تھی
” محترم آپ غلط جگہ لائن مار رہے ہیں ادھر کوئی فاطمہ نہیں ہے ۔۔۔” ملیحہ نے ٹوکا
” فاطمہ بھابھی !! آپ اپنی دوست کو چپ کروائینگی یا یہ نیک فریضہ میں انجام دوں ؟؟ ” وہ فاطمہ سے مخاطب ہوا
” یہ آپ ثنا کو کیسے مخاطب کررہے ہیں ؟؟ ” اس نے ٹوکا
” بھابھی آپ ابھی میرے ساتھ چل رہی ہیں میں خود آپ کو ایک دو روز میں پنڈی چھوڑ دونگا ۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولتے ہوئے فون نکال کر اسامہ کو کال ملانے لگا
” سنو اسفند بھائی سے بات کرواؤ ۔۔۔” وہ فون کے اٹھتے ہی بولا
اس نے اسفند کو ساری سچویشن بتائی ۔۔ ” اسفند بھائی آپ ہمیں پک کر لیں میں بھابھی کو لیکر اتر رہا ہوں !! ۔۔ ”
” اوکے ۔۔۔” اس نے بات سن کر فون فاطمہ کی طرف بڑھایا
” فاطمہ بیٹا اماں کی طبیعت بہت خراب ہے وہ ہسپتال میں داخل ہیں اور تم سے ملنا چاہ رہی ہیں میں تمہارے سر سے بات کررہا ہوں تم بس سے اترو میں آرہا ہوں پک کرنے فون حمزہ کو دو ۔۔۔” اسفند نے کہا
حمزہ فون لیکر میجر ڈاکٹر شبیر کے پاس گیا اور چند منٹ کے بعد فاطمہ حمزہ علی کے ساتھ بس سے باہر تھی ۔۔۔ _______________________ اسفند نے علی سے بات کرکے فون رکھا اور چوکس کھڑے اسامہ سے مخاطب ہوئے
” جاؤ اسے لے آؤ لیکن دیکھو اس سے سختی سے پیش مت آنا اور سیدھا ہاسپٹل ہی آنا ۔۔۔۔” اسفند نے کہا
” سر آپ ابھی بھی مجھ پر بھروسہ نہیں کررہے ہیں ؟؟ آپ کو صرف اپنی بہن کی فکر ہے ۔۔۔۔” اسامہ نے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا
” سر نہیں تم مجھے بھائی کہہ سکتے ہو اور وہ اگر میری بہن ہے تو یقین کرو اس کے ناطے سے تم بھی مجھے اتنے ہی عزیز ہو اور جس طرح تم نے خود کو سنبھالا ہے وہ قابل تعریف ہے مجھے تو آج بھی یقین نہیں ہوتا کے تم وہی اسامہ ہو جو مجھے سروس ہاسپٹل میں ملے تھے فاطمہ کو ڈراتے ہوئے ۔۔۔” اسفند نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
” اسفند بھائی !! آپ اگر اجازت دیں تو کیا فاطمہ !!! میرا مطلب کیا میں اسے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں ۔۔۔” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” ایسا نہیں ہوسکتا ، اسامہ تم بیس میں ہو اور ادھر فیملیز الاؤ نہیں ہیں تمہیں تو رولز پتا ہیں نا ؟؟ ۔۔۔” اسفند حیرت دباتے ہوئے بولے
” سر آج میرا آف ہے ۔۔۔۔” وہ بولا
” آف ہے پر اسٹیٹ آف ایمرجنسی بھی نافذ ہے کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے اس لئیے سیدھے سیدھے اس کو لیکر آؤ ۔میں محسن انکل کو فون کردونگا وہ اپنی سہولت سے فاطمہ کو آکر لے جائینگے اور تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ ۔۔” اسفند دو ٹوک لہجے میں بولے ________________________ فاطمہ ثنا نقوی !! اس وقت ایک روڈ کے کنارے حمزہ علی کے ساتھ کھڑی ہوئی اسفند کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
” بھابھی !! آپ کا نام تو فاطمہ ہے نا تو پھر یہ ثنا کیوں ؟؟ ” حمزہ نے پوچھا
” بھائی فاطمہ ثنا نقوی میرا مکمل نام ہے ۔۔۔” وہ دھیرے سے بولی
” بھابھی آپ اتنے عرصے سے فیملی سے الگ کیسے رہ رہی ہیں ؟؟ ادھر تو اسامہ سے ایک پل کاٹنا مشکل تھا میں خود گواہ ہوں ۔۔۔”
” حمزہ بھائی !! آپ پلیز مجھے بھابھی مت کہئیے ۔۔” فاطمہ نے فوراً ٹوکا
” آپ میری بھابھی ہی ہیں میرے سب سے عزیز دوست کی منکوحہ !! میں تو آپ کو بھابھی ہی کہونگا ۔۔۔آپ کے منع کرنے سے رشتہ تو نہیں بدلیگا اس لئیے آپ بھی اب اس رشتہ کو قبول کرلیں ۔۔۔” اس کا انداز ناصحانہ تھا
” حمزہ بھائی !! یہ رشتہ آپ کے دوست نے صرف ضد میں جوڑا ہے وہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے یہ رشتہ محض ایک ضد کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔” وہ نم لہجے میں بولی
” آپ کو پتا ہے گزشتہ چار سال سے اسامہ نے آپکا بنواس لے رکھا ہے ؟؟ اس بندے نے ایک عید تک نہیں منائی ہے ہم سب دوست یاروں تک کو چھوڑ دیا بس آپ کی تلاش میں بھٹکتا رہا اسے آپ سے محبت نہیں عشق ہے عشق اور آپ کہہ رہی کہ یہ رشتہ محض ایک ضد کے سوا اور کچھ نہیں ؟؟ ” حمزہ کا لہجہ تلخ تھا
ان دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی تھی کافی دیر بعد ایک تیز رفتار جیپ دھواں اڑاتی دور سے ان کے نزدیک آتی نظر آئی ۔۔۔ قریب آکر بریک چرچرائے اور چیپ کا انجن بند کرکے اسامہ باہر نکلا ۔۔۔۔
فاطمہ تو اسامہ کو دیکھ کر گنگ رہ گئی وہ تو اسفند کا انتظار کر رہی تھی اور اب اسامہ کو دیکھ کر اس کا سانس اوپر کا اوپر رہ گیا وہ نظریں جھکا کر زمین کو گھورنے لگی ۔۔۔
حمزہ علی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ فاطمہ کے عین سامنے آکر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
آسمانی رنگ کے خوبصورت لباس میں اس کا دلکش سراپا دمک رہا تھا سر پر ہم رنگ اسکارف اور شانوں پر دوپٹہ پھیلائے وہ بڑے ہی انہماک سے زمین کو گھور رہی تھی جیسے اس سے اہم اور کوئی کام نہیں ہوں ۔۔۔ حمزہ علی نے اسامہ کو گڈ لک کا اشارہ کیا اور خود واک کرتے ہوئے وہاں سے کسی سواری کی تلاش میں آگے چلا گیا ۔۔
نا جانے اس لڑکی میں ایسا کیا جادو تھا کہ وہ اس کے حواسوں پر سوار تھی مانا کے وہ بہت خوبصورت تھی لیکن اس کی خوبصورتی نے اسے اپنا اسیر نہیں کیا تھا بلکہ اس کی سادگی اپنے حسن سے بےنیازی اور سب سے بڑھ کر اس کا مضبوط کردار اس نے ٹین ایج میں ہونے کے باوجود کبھی بھی اسامہ کو اہمیت نہیں دی تھی۔۔۔ایک گہرا سانس لیکر اس نے فاطمہ کو کے جھکے سر کو بغور دیکھتے ہوئے مخاطب کیا ۔۔۔
” کیسی ہو ۔۔۔” وہ گھمبیر لہجے میں بولا
وہ چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی اس میں اسامہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی
” چار سال !! پورے چار سال بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں !! نکاح کے بعد کتنا خوش تھا میں !! کتنے جذبوں کے ساتھ تم سے ملنے آیا تھا مگر تم ۔۔۔۔” وہ افسردگی سے ہنسا
فاطمہ سے سر اٹھانا مشکل ہو رہا تھا وہ ہمیشہ سے ہی اس کی ضدی ہٹ دھرم پرسنیلٹی سے گھبراتی تھی اور اب تو وہ چھا جانے والے انداز میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اسامہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بڑے آرام سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” آئیے آپ کو اسپتال چھوڑ دوں ۔۔۔” اس نے ساکت کھڑی فاطمہ کو مخاطب کیا اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا اپنی جیپ کی جانب بڑھا اور فرنٹ ڈور کھول کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ فاطمہ مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی پاس آئی اور اسامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے پیچھے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ اسامہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ” محترمہ منکوحہ صاحبہ !! میں آپ کا ڈرائیور نہیں ہوں آگے بیٹھئے !! ” اس نے فاطمہ کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کیا..
جاری ہے
Leave a Reply