عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 6
ایک لمحے کو خاموشی سی چھا گئی ” ملیحہ میں تھک رہی ہوں یہ بتاؤ سونے کا کیا لوگی ۔۔۔؟ ” ثنا کی تھکی تھکی آواز گونجی
” اوکے وعدہ کرو کل او پی ڈی کے بعد لنچ کرنے سیرلہ چلو گی سنا ہے وہاں کی جلیبیاں بہت مزیدار ہوتی ہیں ۔۔۔” ملیحہ نے فوراً ڈیمانڈ پیش کی
” ملیحہ کی بچی ہم ادھر پکنک منانے نہیں آئے ہیں اور سیرلہ جانے کی اگر سر نے اجازت نہیں دی تو ؟؟ ” ثنا نے سر پیٹا
” سر سے اجازت لینا میرا کام ہے اور ہماری ڈیوٹی بھی صبح چار سے دس ہے ہم آرام سے جا سکتی ہیں اور اب حالات اتنے برے نہیں ہیں اور دیکھو نا ہم زندگی میں دوبارہ ادھر آتے بھی ہیں یا نہیں کم از کم بھمبر تو گھوم لیں ۔۔۔” ملیحہ کا اپنا نظریہ تھا ” اچھا میری ماں !! کل چلینگے ابھی تو سونے دو ” ثنا نے عاجز آ کر کہا
” ہررے تھینکس ثنا ۔۔۔” _________________________ علی دور سے ہی اسامہ کو دیکھ چکا تھا وہ گاڑی بڑی مشکل سے کنارے پر پارک کرکے چائے کے کھوکے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
اسامہ نے علی کو دیکھ لیا تھا علی پاس آتے ہیں بڑی گرم جوشی سے اس سے لپٹ گیا ۔۔۔۔
“چار سال پورے چار سال بعد مل رہے ہیں یار ۔۔۔۔” وہ گرم جوشی سے بولا
” تو تو پہلے سے بھی زیادہ ہینڈسم ہو گیا ہے ۔۔” وہ ستائشی لہجے میں بولا
” اور علی تجھے چشمہ کب لگا ؟؟” اسامہ نے ڈیسنٹ سے علی کو دیکھتے ہوئے پوچھا
” بس یار لگ گیا خیر چھوڑ اسے یہ بتا ادھر بھمبر میں کب تک ہے ۔۔۔” علی نے پوچھا
” کچھ پتہ نہیں حالات بہتری کی طرف ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے کل رات بھی ان دشمنوں نے سمندری راستے سے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔”
اسامہ علی سے بڑی اچھی طرح سے ملا وہ دونوں کالج کی ، موجودہ صورتحال کی باتیں کر رہے تھے جب علی نے اسے روکا
” چل یار یہاں نزدیک ہی سیرلہ میں ایک بہت بڑا ریسٹورنٹ ہے وہاں چلتے ہیں بیٹھ کر باتیں کرینگے ۔۔۔”
“ٹھیک میرے پاس بھی بس دوپہر تک کا ٹائم ہے شام میں مجھے رپورٹ کرنی ہے ۔۔۔۔” ___________________________ وہ دوڑتے ہوئے اس اجنبی کے گلے لگ کر رونے لگی تھی اس کے ضبط کے دھاگے ٹوٹ چکے تھے ۔۔۔
اسامہ نے خونخوار نظروں سے یہ منظر دیکھا ابھی وہ ان دونوں کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اس اجنبی نے فاطمہ کو خود سے الگ کیا
” آپ کی تعریف ۔۔۔” اس نے پاس آتے اسامہ سے پوچھا
” یہ یہ میرے تایا زاد بھائی اسامہ ہیں ۔۔۔۔” فاطمہ جلدی سے بولی
” میں ان کا تایا زاد کزن اور ہونے والا ہسبنڈ ہوں اور آپ کون ہیں اور کس حق سے فاطمہ کو چھو رہے ہیں ؟؟ ” اسامہ کے لہجے سے شعلے لپک رہے تھے اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا
” میں کیپٹن اسفند ہوں ۔۔۔۔” وہ بغور اسامہ کو دیکھتے ہوئے بولا اسی وقت ایک نرس تیزی سے چلتی ہوئی آئی سی یو سے باہر نکلی اسفند سب چھوڑ کر اس کی جانب بڑھا
” میجر احسن کیسے ہیں اب ؟ کوئی اپ ڈیٹ میں انہیں دیکھ سکتا ہوں کیا ”
“سر آپ ڈاکٹر آن ڈیوٹی سے پوچھ لیں ” وہ نرس اسفند سے متاثر ہو کر بولی
” میں ! میں نے بھی ابھی تک بابا کو نہیں دیکھا یہ لوگ اندر جانے ہی نہیں دیتے ۔۔۔” فاطمہ نے اسفند سے کہا
” گڑیا تم فکر مت کرو میں تمہارے اندر جانے کا انتظام کرتا ہوں ۔۔” اسفند نے فاطمہ کے ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا
” How dare you Touch her …” اسامہ نے ایک جھٹکے سے اسفند کا ہاتھ ہٹایا
” فاطمہ تم بینچ پر جاکر بیٹھو ۔۔ ” اسامہ نے فاطمہ کو سختی سے کہا
” اور تم اپنی وردی کا رعب کسے دکھا رہے ہو ؟ وردی پہن کر اکڑتے ہو ” وہ اسفند سے بولا
” یہ وردی ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتی خاص کر تم جیسے بگڑے ہوئے امیرزادے کبھی بھی اس وردی کو حاصل نہیں کرسکتے ۔۔۔” اسفند اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
” یو ۔۔۔” اسامہ نے کہنا چاہا لیکن اسفند نے تیزی سے اس کی بات کاٹی
” ینگ مین ! میرے پاس تم سے الجھنے کا وقت نہیں ہے ورنہ ۔۔۔۔” اسفند بات کر ہی رہا تھا کہ ڈیوٹی ڈاکٹر ادھر ہی آگیا
” کیپٹن اسفند !! کیسے ہیں آپ ؟ ” وہ بڑی گرم جوشی سے اسفند سے ملا
کچھ دیر میجر احسن کی طبیعت ڈسکس کر کے اسفند نے فاطمہ کے اندر ان کے پاس ٹہرنے کی پرمیشن لی اور پھر فاطمہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا ۔۔
فاطمہ تیزی سے اٹھی اور بنا اسامہ کی طرف دیکھے اندر چلی گئی
ڈاکٹر سے فارغ ہو کر اسفند بھی آئی سی یو کی طرف بڑھ گیا اسامہ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ بھی اندر جانے لگا تو اسے روک دیا گیا _______________________ فاطمہ میجر احسن کے قریب کھڑی بے آواز رو رہی تھی جب اسفند اس کے قریب آیا
” فاطمہ یہ باہر سائیکو کون ہے ؟؟ ” فاطمہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسفند کو دیکھا اور ایک ایک بات بتا دی
” میں آجکل میس میں ٹہرا ہوا ہوں ورنہ تمہیں ساتھ لے جاتا ۔۔۔” اسفند نے سنجیدگی سے کہا
” بابا تو ٹھیک ہو جائیں گے نا آپ کی ڈاکٹر سے کیا بات ہوئی ہے ۔۔۔۔” وہ آنکھوں میں امید لئیے اسے دیکھ رہی تھی
” فاطمہ بس دعا کروں اللہ بہتر جانتا ہے اور اس سائیکو سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایک دو روز میں تمہاری رہائش کا بندوست کرتا ہوں ۔۔۔” اسفند نے فاطمہ کو تسلی دی
” خود کو اکیلا مت سمجھنا اور نا ہی آئی سی یو سے باہر نکلنا ، میں ابھی چلتا ہوں میری نائٹ فلائنگ ہے کل صبح ہوتے ہی تم سے ملنے آؤنگا ۔۔۔”وہ اسے ہدایات دیتا میجر احسن کے بیہوش وجود کو سلوٹ کرتا باہر نکل گیا _____________________________ اسامہ کا غصہ سے برا حال تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فاطمہ کو باہر گھسیٹ لائے اس سے پوچھے کے اسفند کون ہے لیکن وہ اندر چھپ کر بیٹھ گئی تھی اسفند بھی لمبے لمبے قدم اٹھاتا اسامہ کی آواز کو اگنور کرتا ہسپتال سے جا چکا تھا ۔۔۔ وہ بہت دیر تک آئی سی یو کے باہر ٹہلتا رہا پھر کچھ سوچ کر اندر بڑھا باہر دروازے پر وارڈ بوائے نے اسے روکنا چاہا مگر اسامہ کا جنونی انداز دیکھ کر وہ چپ سا ہوگیا
فاطمہ میجر احسن کے ہاتھ کو تھامے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی باپ کی موجودگی کا احساس ہی اس کے لئیے بہت تھا ۔۔۔۔
ناجانے کتنا وقت گزر چکا تھا جب کسی نے فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک کر مڑی تو اسامہ کو دیکھ کر سہم گئی
اسامہ نے ایک جھٹکے سے اسے کھڑا کیا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا ۔۔۔
” چھوڑو مجھے ۔۔۔” آئی سی یو سے باہر آتے ہی فاطمہ چلائی
اسامہ نے ایک خشک نظر اس پر ڈالی اور اسے بیدردی سے گھسیٹتا ہوا ہسپتال کے گارڈن میں لے آیا ۔۔۔
” کون تھا وہ آدمی ؟؟ ” اس نے فاطمہ کو گردن سے پکڑا ________________________ فاطمہ کی نازک گردن اسامہ کی سخت گرفت میں تھی وہ تڑپ رہی تھی مچل رہی تھی مگر اسامہ پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔ “بولو کون تھا وہ آدمی ؟؟ جواب دو بولتی کیوں نہیں ہو ؟؟ ” اسامہ غرایا
فاطمہ کی آنکھوں سے تکلیف کی شدت سے آنسو بہنے لگے تھے اسامہ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو کو دیکھ کر تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا۔۔۔۔
“ایک بات کان کھول کر سن لو اور اچھی طرح سے اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو ۔ دیکھو فاطمہ مجھے تم سے کوئی محبت وغیرہ نہیں ہے ، لیکن جانے انجانے میں میرا نام تم سے جڑ چکا ہے میری پرچھائی تم پر پڑ چکی ہے تم میری ضد بن چکی ہو ، اسے جنون مت بناؤ اور جس چیز پر میرا حق ہو اسے کوئی اور دیکھے یا چھوئے یہ مجھے برداشت نہیں۔۔۔۔انڈر اسٹینڈ ۔۔۔” اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کو چھوڑا
فاطمہ دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑے کھانستے ہوئے پیچھے ہوئی اس کا چہرہ تکلیف کی شدت سے سرخ پڑ گیا تھا گردن پر اسامہ کی انگلیوں کے نشانات پڑ چکے تھے وہ آنکھوں میں نفرت لیے اسامہ کو دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھاگتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔۔۔
اسامہ فاطمہ کی سیاہ آنکھوں میں نفرت اور ڈر دیکھ کر اپنا سر تھامتے ہوئے گھاس پر گر گیا وہ اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں اس سے کوئی بھی کام سیدھا بھی نہیں ہو رہا تھا جلن ہو رہی تھی لیکن کیوں ؟؟ اس کیوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔۔
ہلکی ہلکی سی سفیدی پھیلنے لگی تھی فجر کا وقت ہونے والا تھا خدا کے کرم سے میجر حسن کو ہوش آچکا تھا لیکن خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے کمزوری بہت تھی ۔۔۔
ڈاکٹرز نے فاطمہ کو باہر ویٹ کرنے کو کہا وہ سر جھکائے اپنے بابا کو دیکھتی باہر نکل کر بینچ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
محسن نقوی صاحب اور نوشابہ فجر پڑھتے ہی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے ۔ ہاسپٹل کے اندر احاطے میں داخل ہوتے ہی انہیں اتنی ٹھنڈ میں اسامہ گھاس پر بیٹھا نظر آیا وہ دونوں چلتے ہوئے اس کے پاس پہنچے
“اسامہ تم ادھر اتنی ٹھنڈ میں کیا کر رہے ہو ؟؟ فاطمہ کدھر ہے ؟؟ ” محسن نقوی صاحب نے پوچھا
وہ کوئی بھی جواب دیے بنا خالی خالی نظروں سے محسن صاحب کو دیکھتا رہا انہیں اس کا انداز غیر معمولی محسوس ہوا ۔۔۔
“اسامہ مائی سن واٹ ہیپنڈ ؟؟ ” نوشابہ نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا
“نوشابہ آپ اوپر جائیں فاطمہ کو چیک کریں احسن کی طبیعت دیکھیں میں تھوڑی دیر میں اسامہ کو لے کر آتا ہوں۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے نوشابہ کو اوپر آئی سی یو کی جانب جانے کی ہدایت کی
” مگر ۔۔۔۔” نوشابہ نے کچھ کہنا چاہا
” آپ فکر مت کریں میں اسے دیکھ رہا ہوں آپ جائیں ۔۔۔” وہ دوٹوک لہجے میں بولے
نوشابہ کے جاتے ہی وہ اسامہ کے پاس وہی گھاس پر بیٹھ گئے
” اسامہ اپنے ڈیڈ سے شئیر نہیں کروگے ؟؟ ” انہوں نے دوستانہ لہجے میں پوچھا
” ڈیڈ کیا میں بہت برا انسان ہوں ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” نہیں تم تو بہت سمجھدار لڑکے ہو اور سب سے اچھی بات پتہ ہے کیا ہے ؟؟ تم اپنی غلطی سدھارنا جانتے ہو ۔۔۔۔” انہوں نے کہا
“تو پھر وہ مجھے اتنی نفرت اور حقارت سے کیوں دیکھتی ہے ؟؟ وہ میری بات کیوں نہیں سنتی ؟؟ وہ کیوں مجھے اتنا غصہ دلاتی ہے ؟؟ ” وہ ہذیانی انداز میں بولا
” کس کی بات کررہے ہوں ؟؟ ” انہوں نے دل میں اٹھتے خدشات دباتے ہوئے پوچھا
” فاطمہ کی !! میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی لیکن میں قسم کھا کے کہتا ہوں مجھے آج بھی یہ یاد نہیں کہ میں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے ، میں کبھی بھی ایسا کیسے کر سکتا ہوں ؟ لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں آپ کی بات مانتا ہوں اسے اپنے نکاح میں لینے کو تیار ہوتا ہوں اور وہ مجھے نفرت سے دیکھتی ہے میرے اوپر اس وردی والے ایئر فورس کے کیپٹن کو ترجیح دیتی ہے اس کے گلے سے لگتی ہے اور مجھے بتاتی بھی نہیں کہ وہ کون ہے اور وہ کیپٹن !! مجھے کہتا ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کو وردی کبھی نہیں ملتی ۔۔۔” اسامہ اپنا دل کھول رہا تھا جو بھی تھا وہ ابھی اتنا بڑا اور میچیور نہیں تھا کہ معاملے کی باریکیوں کو سمجھتا ۔۔۔
” اسامہ ! مجھے تم پر یقین ہے اور رہی بات فاطمہ سے نکاح کی تو وہ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے تم بھول جاؤ فاطمہ اور نکاح کو ، ریلیکس کرو تمہارے انٹر کے امتحان ہونے والے ہیں میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ کی طرح پر زور کامیابی حاصل کرو اور بیٹا تمہارے تو باپ دادا پر دادا سب کا تعلق فوج سے ہے ! مجھے پورا یقین ہے اگر تم دل سے چاہوں تو آرمی ائیر فورس نیوی جس فیلڈ میں چاہوں جھنڈے گاڑ سکتے ہو ، تمہارے اندر خداداد صلاحیت ہیں وردی پہن کے اپنا آپ پروف کرو ۔۔۔۔” انہوں نے بہت سنجیدگی سے اپنے اکھڑ دماغ بیٹے کو سمجھایا
” ڈیڈ ۔۔۔۔” وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوا
” نکاح تو میں فاطمہ سے ہی کرونگا اور آپ کو ائیر فورس پائیلٹ بن کر دکھاؤں گا ۔۔۔۔” اس کے چہرے پر عزم تھا جنون تھا
” اوکے جیسا تم چاہو لیکن ابھی تم ہوٹل جاؤ تھوڑا آرام کرو میں بھی احسن کو دیکھ کر آتا ہوں ۔۔۔۔” انہوں نے اسے ہدایات دی
” ڈیڈ میں ایک نظر احسن چاچو کو دیکھ لوں پھر ہوٹل جاتا ہوں ۔۔۔” وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے بولا ___________________________ میجر احسن کو مکمل ہوش آچکا تھا انہیں روم میں شفٹ کردیا گیا تھا فاطمہ اور نوشابہ دونوں ان کے پاس تھیں فاطمہ ان کا ہاتھ پکڑ کر روئے چلی جا رہی تھی نوشابہ اسے مسلسل سمجھا رہی تھیں ” فاطمہ گڑیا میں ٹھیک ہوں اب بس کرو تمہارے رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔۔۔۔” وہ بڑی مشکل سے بولے
” بابا اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں ! میں مرجاتی ۔۔۔” وہ ان کا ہاتھ آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی ” فاطمہ !! بڑی بات ایک میجر کی بیٹی اور اتنی کمزور بہت ، بری بات ہے ابھی تو تمہیں اپنی ماں کی طرح ڈاکٹر بننا ہے اس کے اور میرے سپنے پورے کرنے ہیں۔۔۔” میجر احسن نے اسے ڈانٹا
” سوری بابا ۔۔۔” فاطمہ نے کان پکڑ کر کہا
” اسلام علیکم جوان !! یہ کیا حال کرلیا ہے جگر نے ۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے اندر آتے ہوئے کہا
” ارے بھائی صاحب آپ ۔۔۔” احسن کے چہرے پر اپنے بھائی کو دیکھ کر چمک آگئی
” اسلام علیکم چاچو ۔۔۔”تبھی ان کے پیچھے کھڑے اسامہ نے آگے آ کر سلام کیا
فاطمہ اسامہ کو دیکھتے ہی سہم گئی اور اس نے سختی سے میجر احسن کا ہاتھ پکڑ لیا میجر احسن نے ایک نظر فاطمہ کو دیکھا اس کے چہرے پر خوف تھا اس کی گردن پر ثبت سرخ انگلیوں کے نشان میجر احسن کی عقابی نگاہوں سے چھپے نہیں رہے تھے
” وعلیکم السلام یہ جوان یقیناً ہمارا اسامہ بیٹا ہے ۔۔۔” وہ خوشدلی سے بولے
” پانچ سال کے تھے جب تمہیں بورڈنگ اسکول بھیجا تھا بس اس کے بعد سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔۔۔” میجر احسن نے کہا
محسن نقوی اور اسامہ کچھ دیر میجر احسن سے بات کرتے رہے پھر محسن نقوی صاحب نے اسامہ کو مخاطب کیا ” اسامہ بیٹے تم اور فاطمہ کل سے ہاسپٹل میں ہوں ایسا کرو اپنی ممی کے ساتھ ابھی دونوں ہوٹل چلے جاؤ تھوڑا ریسٹ کرکے کپڑے بدل کر آجانا ۔۔۔” ” انکل میں ۔۔۔۔”
جاری یے
” اوکے وعدہ کرو کل او پی ڈی کے بعد لنچ کرنے سیرلہ چلو گی سنا ہے وہاں کی جلیبیاں بہت مزیدار ہوتی ہیں ۔۔۔” ملیحہ نے فوراً ڈیمانڈ پیش کی
” ملیحہ کی بچی ہم ادھر پکنک منانے نہیں آئے ہیں اور سیرلہ جانے کی اگر سر نے اجازت نہیں دی تو ؟؟ ” ثنا نے سر پیٹا
” سر سے اجازت لینا میرا کام ہے اور ہماری ڈیوٹی بھی صبح چار سے دس ہے ہم آرام سے جا سکتی ہیں اور اب حالات اتنے برے نہیں ہیں اور دیکھو نا ہم زندگی میں دوبارہ ادھر آتے بھی ہیں یا نہیں کم از کم بھمبر تو گھوم لیں ۔۔۔” ملیحہ کا اپنا نظریہ تھا ” اچھا میری ماں !! کل چلینگے ابھی تو سونے دو ” ثنا نے عاجز آ کر کہا
” ہررے تھینکس ثنا ۔۔۔” _________________________ علی دور سے ہی اسامہ کو دیکھ چکا تھا وہ گاڑی بڑی مشکل سے کنارے پر پارک کرکے چائے کے کھوکے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
اسامہ نے علی کو دیکھ لیا تھا علی پاس آتے ہیں بڑی گرم جوشی سے اس سے لپٹ گیا ۔۔۔۔
“چار سال پورے چار سال بعد مل رہے ہیں یار ۔۔۔۔” وہ گرم جوشی سے بولا
” تو تو پہلے سے بھی زیادہ ہینڈسم ہو گیا ہے ۔۔” وہ ستائشی لہجے میں بولا
” اور علی تجھے چشمہ کب لگا ؟؟” اسامہ نے ڈیسنٹ سے علی کو دیکھتے ہوئے پوچھا
” بس یار لگ گیا خیر چھوڑ اسے یہ بتا ادھر بھمبر میں کب تک ہے ۔۔۔” علی نے پوچھا
” کچھ پتہ نہیں حالات بہتری کی طرف ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے کل رات بھی ان دشمنوں نے سمندری راستے سے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔”
اسامہ علی سے بڑی اچھی طرح سے ملا وہ دونوں کالج کی ، موجودہ صورتحال کی باتیں کر رہے تھے جب علی نے اسے روکا
” چل یار یہاں نزدیک ہی سیرلہ میں ایک بہت بڑا ریسٹورنٹ ہے وہاں چلتے ہیں بیٹھ کر باتیں کرینگے ۔۔۔”
“ٹھیک میرے پاس بھی بس دوپہر تک کا ٹائم ہے شام میں مجھے رپورٹ کرنی ہے ۔۔۔۔” ___________________________ وہ دوڑتے ہوئے اس اجنبی کے گلے لگ کر رونے لگی تھی اس کے ضبط کے دھاگے ٹوٹ چکے تھے ۔۔۔
اسامہ نے خونخوار نظروں سے یہ منظر دیکھا ابھی وہ ان دونوں کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اس اجنبی نے فاطمہ کو خود سے الگ کیا
” آپ کی تعریف ۔۔۔” اس نے پاس آتے اسامہ سے پوچھا
” یہ یہ میرے تایا زاد بھائی اسامہ ہیں ۔۔۔۔” فاطمہ جلدی سے بولی
” میں ان کا تایا زاد کزن اور ہونے والا ہسبنڈ ہوں اور آپ کون ہیں اور کس حق سے فاطمہ کو چھو رہے ہیں ؟؟ ” اسامہ کے لہجے سے شعلے لپک رہے تھے اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا
” میں کیپٹن اسفند ہوں ۔۔۔۔” وہ بغور اسامہ کو دیکھتے ہوئے بولا اسی وقت ایک نرس تیزی سے چلتی ہوئی آئی سی یو سے باہر نکلی اسفند سب چھوڑ کر اس کی جانب بڑھا
” میجر احسن کیسے ہیں اب ؟ کوئی اپ ڈیٹ میں انہیں دیکھ سکتا ہوں کیا ”
“سر آپ ڈاکٹر آن ڈیوٹی سے پوچھ لیں ” وہ نرس اسفند سے متاثر ہو کر بولی
” میں ! میں نے بھی ابھی تک بابا کو نہیں دیکھا یہ لوگ اندر جانے ہی نہیں دیتے ۔۔۔” فاطمہ نے اسفند سے کہا
” گڑیا تم فکر مت کرو میں تمہارے اندر جانے کا انتظام کرتا ہوں ۔۔” اسفند نے فاطمہ کے ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا
” How dare you Touch her …” اسامہ نے ایک جھٹکے سے اسفند کا ہاتھ ہٹایا
” فاطمہ تم بینچ پر جاکر بیٹھو ۔۔ ” اسامہ نے فاطمہ کو سختی سے کہا
” اور تم اپنی وردی کا رعب کسے دکھا رہے ہو ؟ وردی پہن کر اکڑتے ہو ” وہ اسفند سے بولا
” یہ وردی ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتی خاص کر تم جیسے بگڑے ہوئے امیرزادے کبھی بھی اس وردی کو حاصل نہیں کرسکتے ۔۔۔” اسفند اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
” یو ۔۔۔” اسامہ نے کہنا چاہا لیکن اسفند نے تیزی سے اس کی بات کاٹی
” ینگ مین ! میرے پاس تم سے الجھنے کا وقت نہیں ہے ورنہ ۔۔۔۔” اسفند بات کر ہی رہا تھا کہ ڈیوٹی ڈاکٹر ادھر ہی آگیا
” کیپٹن اسفند !! کیسے ہیں آپ ؟ ” وہ بڑی گرم جوشی سے اسفند سے ملا
کچھ دیر میجر احسن کی طبیعت ڈسکس کر کے اسفند نے فاطمہ کے اندر ان کے پاس ٹہرنے کی پرمیشن لی اور پھر فاطمہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا ۔۔
فاطمہ تیزی سے اٹھی اور بنا اسامہ کی طرف دیکھے اندر چلی گئی
ڈاکٹر سے فارغ ہو کر اسفند بھی آئی سی یو کی طرف بڑھ گیا اسامہ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ بھی اندر جانے لگا تو اسے روک دیا گیا _______________________ فاطمہ میجر احسن کے قریب کھڑی بے آواز رو رہی تھی جب اسفند اس کے قریب آیا
” فاطمہ یہ باہر سائیکو کون ہے ؟؟ ” فاطمہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسفند کو دیکھا اور ایک ایک بات بتا دی
” میں آجکل میس میں ٹہرا ہوا ہوں ورنہ تمہیں ساتھ لے جاتا ۔۔۔” اسفند نے سنجیدگی سے کہا
” بابا تو ٹھیک ہو جائیں گے نا آپ کی ڈاکٹر سے کیا بات ہوئی ہے ۔۔۔۔” وہ آنکھوں میں امید لئیے اسے دیکھ رہی تھی
” فاطمہ بس دعا کروں اللہ بہتر جانتا ہے اور اس سائیکو سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایک دو روز میں تمہاری رہائش کا بندوست کرتا ہوں ۔۔۔” اسفند نے فاطمہ کو تسلی دی
” خود کو اکیلا مت سمجھنا اور نا ہی آئی سی یو سے باہر نکلنا ، میں ابھی چلتا ہوں میری نائٹ فلائنگ ہے کل صبح ہوتے ہی تم سے ملنے آؤنگا ۔۔۔”وہ اسے ہدایات دیتا میجر احسن کے بیہوش وجود کو سلوٹ کرتا باہر نکل گیا _____________________________ اسامہ کا غصہ سے برا حال تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فاطمہ کو باہر گھسیٹ لائے اس سے پوچھے کے اسفند کون ہے لیکن وہ اندر چھپ کر بیٹھ گئی تھی اسفند بھی لمبے لمبے قدم اٹھاتا اسامہ کی آواز کو اگنور کرتا ہسپتال سے جا چکا تھا ۔۔۔ وہ بہت دیر تک آئی سی یو کے باہر ٹہلتا رہا پھر کچھ سوچ کر اندر بڑھا باہر دروازے پر وارڈ بوائے نے اسے روکنا چاہا مگر اسامہ کا جنونی انداز دیکھ کر وہ چپ سا ہوگیا
فاطمہ میجر احسن کے ہاتھ کو تھامے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی باپ کی موجودگی کا احساس ہی اس کے لئیے بہت تھا ۔۔۔۔
ناجانے کتنا وقت گزر چکا تھا جب کسی نے فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک کر مڑی تو اسامہ کو دیکھ کر سہم گئی
اسامہ نے ایک جھٹکے سے اسے کھڑا کیا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا ۔۔۔
” چھوڑو مجھے ۔۔۔” آئی سی یو سے باہر آتے ہی فاطمہ چلائی
اسامہ نے ایک خشک نظر اس پر ڈالی اور اسے بیدردی سے گھسیٹتا ہوا ہسپتال کے گارڈن میں لے آیا ۔۔۔
” کون تھا وہ آدمی ؟؟ ” اس نے فاطمہ کو گردن سے پکڑا ________________________ فاطمہ کی نازک گردن اسامہ کی سخت گرفت میں تھی وہ تڑپ رہی تھی مچل رہی تھی مگر اسامہ پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔ “بولو کون تھا وہ آدمی ؟؟ جواب دو بولتی کیوں نہیں ہو ؟؟ ” اسامہ غرایا
فاطمہ کی آنکھوں سے تکلیف کی شدت سے آنسو بہنے لگے تھے اسامہ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو کو دیکھ کر تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا۔۔۔۔
“ایک بات کان کھول کر سن لو اور اچھی طرح سے اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو ۔ دیکھو فاطمہ مجھے تم سے کوئی محبت وغیرہ نہیں ہے ، لیکن جانے انجانے میں میرا نام تم سے جڑ چکا ہے میری پرچھائی تم پر پڑ چکی ہے تم میری ضد بن چکی ہو ، اسے جنون مت بناؤ اور جس چیز پر میرا حق ہو اسے کوئی اور دیکھے یا چھوئے یہ مجھے برداشت نہیں۔۔۔۔انڈر اسٹینڈ ۔۔۔” اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کو چھوڑا
فاطمہ دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑے کھانستے ہوئے پیچھے ہوئی اس کا چہرہ تکلیف کی شدت سے سرخ پڑ گیا تھا گردن پر اسامہ کی انگلیوں کے نشانات پڑ چکے تھے وہ آنکھوں میں نفرت لیے اسامہ کو دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھاگتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔۔۔
اسامہ فاطمہ کی سیاہ آنکھوں میں نفرت اور ڈر دیکھ کر اپنا سر تھامتے ہوئے گھاس پر گر گیا وہ اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں اس سے کوئی بھی کام سیدھا بھی نہیں ہو رہا تھا جلن ہو رہی تھی لیکن کیوں ؟؟ اس کیوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔۔
ہلکی ہلکی سی سفیدی پھیلنے لگی تھی فجر کا وقت ہونے والا تھا خدا کے کرم سے میجر حسن کو ہوش آچکا تھا لیکن خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے کمزوری بہت تھی ۔۔۔
ڈاکٹرز نے فاطمہ کو باہر ویٹ کرنے کو کہا وہ سر جھکائے اپنے بابا کو دیکھتی باہر نکل کر بینچ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
محسن نقوی صاحب اور نوشابہ فجر پڑھتے ہی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے ۔ ہاسپٹل کے اندر احاطے میں داخل ہوتے ہی انہیں اتنی ٹھنڈ میں اسامہ گھاس پر بیٹھا نظر آیا وہ دونوں چلتے ہوئے اس کے پاس پہنچے
“اسامہ تم ادھر اتنی ٹھنڈ میں کیا کر رہے ہو ؟؟ فاطمہ کدھر ہے ؟؟ ” محسن نقوی صاحب نے پوچھا
وہ کوئی بھی جواب دیے بنا خالی خالی نظروں سے محسن صاحب کو دیکھتا رہا انہیں اس کا انداز غیر معمولی محسوس ہوا ۔۔۔
“اسامہ مائی سن واٹ ہیپنڈ ؟؟ ” نوشابہ نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا
“نوشابہ آپ اوپر جائیں فاطمہ کو چیک کریں احسن کی طبیعت دیکھیں میں تھوڑی دیر میں اسامہ کو لے کر آتا ہوں۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے نوشابہ کو اوپر آئی سی یو کی جانب جانے کی ہدایت کی
” مگر ۔۔۔۔” نوشابہ نے کچھ کہنا چاہا
” آپ فکر مت کریں میں اسے دیکھ رہا ہوں آپ جائیں ۔۔۔” وہ دوٹوک لہجے میں بولے
نوشابہ کے جاتے ہی وہ اسامہ کے پاس وہی گھاس پر بیٹھ گئے
” اسامہ اپنے ڈیڈ سے شئیر نہیں کروگے ؟؟ ” انہوں نے دوستانہ لہجے میں پوچھا
” ڈیڈ کیا میں بہت برا انسان ہوں ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” نہیں تم تو بہت سمجھدار لڑکے ہو اور سب سے اچھی بات پتہ ہے کیا ہے ؟؟ تم اپنی غلطی سدھارنا جانتے ہو ۔۔۔۔” انہوں نے کہا
“تو پھر وہ مجھے اتنی نفرت اور حقارت سے کیوں دیکھتی ہے ؟؟ وہ میری بات کیوں نہیں سنتی ؟؟ وہ کیوں مجھے اتنا غصہ دلاتی ہے ؟؟ ” وہ ہذیانی انداز میں بولا
” کس کی بات کررہے ہوں ؟؟ ” انہوں نے دل میں اٹھتے خدشات دباتے ہوئے پوچھا
” فاطمہ کی !! میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی لیکن میں قسم کھا کے کہتا ہوں مجھے آج بھی یہ یاد نہیں کہ میں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے ، میں کبھی بھی ایسا کیسے کر سکتا ہوں ؟ لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں آپ کی بات مانتا ہوں اسے اپنے نکاح میں لینے کو تیار ہوتا ہوں اور وہ مجھے نفرت سے دیکھتی ہے میرے اوپر اس وردی والے ایئر فورس کے کیپٹن کو ترجیح دیتی ہے اس کے گلے سے لگتی ہے اور مجھے بتاتی بھی نہیں کہ وہ کون ہے اور وہ کیپٹن !! مجھے کہتا ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کو وردی کبھی نہیں ملتی ۔۔۔” اسامہ اپنا دل کھول رہا تھا جو بھی تھا وہ ابھی اتنا بڑا اور میچیور نہیں تھا کہ معاملے کی باریکیوں کو سمجھتا ۔۔۔
” اسامہ ! مجھے تم پر یقین ہے اور رہی بات فاطمہ سے نکاح کی تو وہ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے تم بھول جاؤ فاطمہ اور نکاح کو ، ریلیکس کرو تمہارے انٹر کے امتحان ہونے والے ہیں میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ کی طرح پر زور کامیابی حاصل کرو اور بیٹا تمہارے تو باپ دادا پر دادا سب کا تعلق فوج سے ہے ! مجھے پورا یقین ہے اگر تم دل سے چاہوں تو آرمی ائیر فورس نیوی جس فیلڈ میں چاہوں جھنڈے گاڑ سکتے ہو ، تمہارے اندر خداداد صلاحیت ہیں وردی پہن کے اپنا آپ پروف کرو ۔۔۔۔” انہوں نے بہت سنجیدگی سے اپنے اکھڑ دماغ بیٹے کو سمجھایا
” ڈیڈ ۔۔۔۔” وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوا
” نکاح تو میں فاطمہ سے ہی کرونگا اور آپ کو ائیر فورس پائیلٹ بن کر دکھاؤں گا ۔۔۔۔” اس کے چہرے پر عزم تھا جنون تھا
” اوکے جیسا تم چاہو لیکن ابھی تم ہوٹل جاؤ تھوڑا آرام کرو میں بھی احسن کو دیکھ کر آتا ہوں ۔۔۔۔” انہوں نے اسے ہدایات دی
” ڈیڈ میں ایک نظر احسن چاچو کو دیکھ لوں پھر ہوٹل جاتا ہوں ۔۔۔” وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے بولا ___________________________ میجر احسن کو مکمل ہوش آچکا تھا انہیں روم میں شفٹ کردیا گیا تھا فاطمہ اور نوشابہ دونوں ان کے پاس تھیں فاطمہ ان کا ہاتھ پکڑ کر روئے چلی جا رہی تھی نوشابہ اسے مسلسل سمجھا رہی تھیں ” فاطمہ گڑیا میں ٹھیک ہوں اب بس کرو تمہارے رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔۔۔۔” وہ بڑی مشکل سے بولے
” بابا اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں ! میں مرجاتی ۔۔۔” وہ ان کا ہاتھ آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی ” فاطمہ !! بڑی بات ایک میجر کی بیٹی اور اتنی کمزور بہت ، بری بات ہے ابھی تو تمہیں اپنی ماں کی طرح ڈاکٹر بننا ہے اس کے اور میرے سپنے پورے کرنے ہیں۔۔۔” میجر احسن نے اسے ڈانٹا
” سوری بابا ۔۔۔” فاطمہ نے کان پکڑ کر کہا
” اسلام علیکم جوان !! یہ کیا حال کرلیا ہے جگر نے ۔۔۔” محسن نقوی صاحب نے اندر آتے ہوئے کہا
” ارے بھائی صاحب آپ ۔۔۔” احسن کے چہرے پر اپنے بھائی کو دیکھ کر چمک آگئی
” اسلام علیکم چاچو ۔۔۔”تبھی ان کے پیچھے کھڑے اسامہ نے آگے آ کر سلام کیا
فاطمہ اسامہ کو دیکھتے ہی سہم گئی اور اس نے سختی سے میجر احسن کا ہاتھ پکڑ لیا میجر احسن نے ایک نظر فاطمہ کو دیکھا اس کے چہرے پر خوف تھا اس کی گردن پر ثبت سرخ انگلیوں کے نشان میجر احسن کی عقابی نگاہوں سے چھپے نہیں رہے تھے
” وعلیکم السلام یہ جوان یقیناً ہمارا اسامہ بیٹا ہے ۔۔۔” وہ خوشدلی سے بولے
” پانچ سال کے تھے جب تمہیں بورڈنگ اسکول بھیجا تھا بس اس کے بعد سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔۔۔” میجر احسن نے کہا
محسن نقوی اور اسامہ کچھ دیر میجر احسن سے بات کرتے رہے پھر محسن نقوی صاحب نے اسامہ کو مخاطب کیا ” اسامہ بیٹے تم اور فاطمہ کل سے ہاسپٹل میں ہوں ایسا کرو اپنی ممی کے ساتھ ابھی دونوں ہوٹل چلے جاؤ تھوڑا ریسٹ کرکے کپڑے بدل کر آجانا ۔۔۔” ” انکل میں ۔۔۔۔”
جاری یے
Leave a Reply