عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 7
محسن بھائی آپ فاطمہ کو میرے پاس ہی رہنے دیں ۔۔۔” میجر احسن نے فاطمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” لیکن احسن بچی کل سے جاگ رہی ہے ۔۔۔” وہ الجھے
” کوئی بات نہیں اپنے بابا کے پاس سو جائیگی ابھی میرا دل اسے اپنے ساتھ رکھنے کا چاہ رہا ہے ۔۔۔”
اسامہ نوشابہ کے ساتھ خداحافظ کہتا دوپہر میں آنے کا کہہ کر چلا گیا
” فاطمہ گڑیا تم صوفہ پر لیٹ کر ریسٹ کرلو ۔۔۔” میجر احسن نے اپنے بیڈ پر سے سفید چادر اٹھا کر بمشکل فاطمہ کو دی
وہ سر ہلاتے ہوئے چادر سر تک تان کر لیٹ گئی فاطمہ کے سونے کا اطمینان کرنے کے بعد محسن نقوی صاحب احسن سے مخاطب ہوئے
” احسن تمہارے اندرونی زخم میں گولی کا زہر پھیلنے سے انفیکشن ہوگیا ہے میں سوچ رہا ہوں تمہیں کراچی ہاسپٹل ٹرانسفر کروا لوں اس طرح تم میری نظروں کے سامنے رہوگے اور فاطمہ بھی اکیلی نہیں ہوگی ۔۔۔”
” بھائی صاحب کوئی بات ہوئی ہے کیا ؟؟ ” احسن نے سنجیدگی سے پوچھا
” ارے کوئی بات نہیں تم فکریں مت پالو سب ٹھیک ہے بلکہ تم ٹھیک ہو جاؤ تو سوچ رہا ہوں اپنے بچوں کو ایک رشتے میں باندھ دیتے ہیں اس طرح مجھے بھی بیٹی مل جائے گی اور تمہیں بیٹا ۔۔۔” اس سے پہلے احسن کچھ کہتے محسن نقوی صاحب کا فون بجا ۔۔۔
” احسن وزیر اعلی سندھ کا فون ہے کانفرنس کال ہے کانفیڈینشیل میں بات کرکے آتا ہوں ۔۔۔” وہ فون اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئے ۔ _________________________ میجر احسن کو اللہ تعالیٰ نے بہت صبر و برداشت سے نوازا تھا اس وقت وہ شدید درد اور تکلیف میں تھے مگر اپنے پیاروں حتی کہ ڈاکٹروں تک کو کچھ نہیں بتایا تھا
اسامہ جیسے کڑیل جوان کو دیکھ کر جہاں وہ خوش ہوئے تھے وہی فاطمہ کا اسے دیکھ کر سہم جانا ان کا ہاتھ پکڑنا ان کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا ابھی وہ اپنی سوچ میں گم تھے کے دروازہ کھلا اور کیپٹن اسفند اندر داخل ہوا
” اسلام علیکم سر !! ”
” وعلیکم اسلام جوان ۔۔۔کیسے ہوں “ان کی آنکھوں میں اسفند کو دیکھ کر چمک سی دوڑ گئی اسفند اپنی کیپ اتار کر ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا اب وہ دونوں باتیں کر رہے تھے باتوں باتوں میں احسن اپنی پریشانی کا ذکر کر چکے تھے اور محسن نقوی صاحب کی خواہش بھی بتا چکے تھے ۔۔۔
اسفند نے بھی انہیں کل اسامہ سے اپنی ملاقات اور فاطمہ کی بتائی ساری تفصیلات بتائیں
” سر وہ لڑکا فاطمہ کو لیکر بہت سیریس ہے لیکن اس کے اندر ایک جنون ہے اب جو آپ کہیں ۔۔۔” وہ ادب سے بولا
” اسفند فاطمہ میری اکلوتی بیٹی ہے اور مجھے اپنی بیٹی کا مستقبل پر حال میں محفوظ رکھنا ہے وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم فاطمہ کی حفاظت کروگے اور اگر اس رشتے کے لئیے وہ راضی نہیں ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جائیگا ۔۔۔” میجر احسن کی سانس پھول رہی تھی
” سر آپ زیادہ مت بولیں ریسٹ کریں میں ڈاکٹر جو بلاتا ہوں ۔۔۔ ” اسفند ان کی بگڑتی طبیعت دیکھ کر کھڑا ہو گیا
” اسفند !! وعدہ کرو ۔۔۔۔” ” کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے سر ؟؟ فاطمہ میری بھی گڑیا ہے اس کی حفاظت میں کرونگا اس کا ہر خواب پورا ہو گا ۔۔۔” اسفند نے احسن کا ہاتھ تھام کر کہا
میجر احسن اس کی بات سن کر سکون سے آنکھیں موند کر لیٹ گئے ۔۔۔
اسفند نے ڈاکٹر کو کال کر لیا تھا وہ میجر احسن کو انجکشن دے کر چلا گیا تھا محسن صاحب کے آنے سے پہلے اسفند بھی چلا گیا تھا _______________________ دوپہر ڈھل رہی تھی اسامہ اور نوشابہ سوپ لیکر اندر داخل ہوئے ” اسلام علیکم چاچو ۔۔۔” اسامہ اپنے باوقار سے چاچو کو سلام کرتا ہوا ان کے پاس بیٹھ گیا
“بھائی صاحب فاطمہ ابھی تک سو رہی ہے ؟؟ ” نوشابہ نے حیرت سے چادر میں لپٹے فاطمہ کے وجود کو دیکھا
” کافی دیر ہوگئی ہے بھابھی آپ اسے اٹھا لیں ۔۔۔” احسن نے کہا ” فاطمہ !! اٹھو بیٹی ۔۔۔کچھ کھا لو .” انہوں نے اس کے گال تھپتھپائے کافی دیر سب ادھر ہی بیٹھے رہے ۔۔۔ رات سر پر تھی جب احسن نے نوشابہ کو مخاطب کیا ۔۔ ” بھابھی آپ فاطمہ کو ساتھ لے جائیں تھوڑا ریسٹ کرلیگی ۔۔۔۔”
“بابا ! مجھے کہیں نہیں جانا میں آپ کے پاس رہونگی ۔۔۔” فاطمہ ٹھٹکی
” فاطمہ بری بات بحث نہیں کرتے !! آج رات میرے پاس اسامہ بیٹا رکے گا ۔۔۔کیوں اسامہ اپنے چاچو کے پاس رکو گئے ؟” فاطمہ کو جواب دیکر انہوں نے اسامہ سے پوچھا
” ممی آپ لوگ جائیں میں چاچو کے پاس رہونگا ۔۔۔” اسامہ نے نوشابہ سے کہا _____________________ علی اور اسامہ میرپور چوک پر واک کرتے ہوئے ڈسکاؤنٹ ہوٹل تک پہنچ گئے تھے ۔۔۔
” اسامہ ادھر کا پیزا بڑا زبردست ہے چلو ادھر ہی لنچ کر لیتے ہیں ۔۔۔” علی نے کہا
وہ دونوں اس ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے باتیں کرتے ہوئے پزا برگر انجوائے کر رہے تھے
” اسامہ انٹر کے بعد جب تو نے پی اے ایف اکیڈمی جوائن کی ،پھر کسی سے رابطہ ہی نہیں رکھا اتنے سالوں کے بعد اب تجھے دیکھ رہا ہوں تو بہت سوبر ہوگیا ہے یار ۔۔۔” وہ ستائشی نظروں سے سلجھے ہوئے ڈیشنگ سے اسامہ کو دیکھتا ہوا بولا
” تب ہم نادان تھے علی ایک بچپنا سا تھا اب وقت نے سب سکھا دیا ہے اب میں اس وطن عزیز کا وہ سپاہی ہوں جس کے دل میں شہادت کی پرزور خواہش ہے ۔۔۔” اسامہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا
” اچھا چل ! میرے فوجی جوان تجھے بیس تک چھوڑ دوں ۔۔۔” علی نے ہنستے ہوئے کہا
اسامہ اور علی بل پے کرکے باہر نکلے علی کی گاڑی تھوڑی دور پارک تھی وہ دونوں واک کرکے گاڑی تک پہنچے ۔۔۔
علی نے گاڑی اسٹارٹ کی ہی تھی کے اس کی نظر سامنے پڑی پہلے تو وہ حیران ہوا پھر دانت کچکچاتے ہوئے نیچے اترا
” کدھر ۔۔۔” اسامہ نے پوچھا
” بس ایک منٹ ابھی آیا ۔۔۔” علی کہتا ہوا ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب بڑھا ___________________________ آج کئی زخمی جوان کیمپ میں لائے گئے تھے وہ سب ڈاکٹرز ہی بہت مصروف تھے اپنی ڈیوٹی ختم ہو نے کے بعد ملیحہ میجر ڈاکٹر شبیر احمد کے پاس آئی ۔۔
” سر اگر آپ اجازت دیں تو میں اور ڈاکٹر ثنا سیرلہ تک ہو آئیں شام سے پہلے واپس آجائیں گے سر ۔۔۔” وہ بڑے ہی ادب سے بولی
میجر ڈاکٹر شبیر نے بڑے غور سے اپنی اس شریر اسٹوڈنٹ کو دیکھا
” ٹھیک ہے اب آپ نے ٹھان ہی لی ہے تو ضرور جائیں اور ساتھ میں کچھ بلڈ سیمپل بھی لے جائیے ادھر ڈی ایچ کیو ہسپتال میں دے دیجئیے گا ۔۔۔” وہ مشروط اجازت دیتے ہوئے بولے
” تھینکس سر ہم بس جلدی سے جلیبی کھا کر اوپس آئی مین سیمپل ڈراپ کرکے آجائیں گے۔۔۔” وہ پرجوش لہجے میں کہتی ہوئی پلٹ گئی
ثنا اور ملیحہ دونوں ہی سیرلہ جانے کیلئے نکل پڑی تھی ڈاکٹر احمد نے انہیں میر پور چوک ڈراپ کر دیا تھا بلڈ سیمپل ملیحہ کے بیگ میں تھے ۔۔
وہ دونوں جینز کے اوپر لمبی قمیض سر پر اسکارف اور چادر اوڑھے ہوئے تھی روڈ کراس کر کے وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے سیرلہ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال جانے کا کرایہ طے کر رہی تھی جب میلحہ کے عقب سے حمزہ علی کی بھاری آواز ابھری
” او بھائی ہمیں ٹیکسی نہیں چاہئیے تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔” ٹیکسی والا بڑبڑاتے ہوئے اپنا وقت ضائع ہونے پر تپ کر چلا گیا
” آپ نے ہماری ٹیکسی کیوں بھگائی ؟ ” ملیحہ غصہ سے گویا ہوئی
” اور آپ کیا ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں جب بھی ہم کہیں نکلتے ہیں کسی بھوت کی طرح نازل ہو جاتے ہیں ۔۔۔”ملیحہ کا غصہ سے برا حال تھا ایک تو ویسے ہی انہیں بہت کم ٹائم کی پرمیشن ملی تھی دوسرا شریف ٹیکسی ڈرائیور ڈھونڈنے میں خاصا وقت ضائع ہو گیا تھا اور اب یہ حمزہ علی صاحب نازل ہو گئے تھے
” آپ دونوں ادھر کیا کر رہی ہیں ؟؟ ” وہ ملیحہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ثنا سے مخاطب ہوا
” حمزہ بھائی ہمیں سیرلہ جانا ہے کچھ بلڈ سیمپل ڈراپ کرنے ہیں ۔۔۔” ثنا نے شرافت سے جواب دیا
” ٹھیک ہے آپ دونوں میرے ساتھ آئیں میں ڈراپ کر دیتا ہوں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” کیوں آپ کے ساتھ کیوں آ ئیں ؟؟ آپ کیا ہمارے پھوپھی کے بیٹے لگتے ہیں ؟ چلو ثنا دوسری ٹیکسی ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔۔”ملیحہ نے طنز کیا
” ملیحہ بی بی بیفکر رہیں رشتہ بھی جلد بنا لونگا چلیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔” اس نے ملیحہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور ثنا کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے روڈ کراس کرنے لگا ___________________ ڈیوٹی ڈاکٹر میجر احسن کا چیک اپ کر کے جا چکے تھے ان کو ڈرپ لگائی گئی تھی زخموں کی ڈریسنگ تبدیل کر دی گئی تھی ابھی بھی ان کا سانس ٹھیک سے نہیں آرہا تھا مگر وہ بہت حوصلے سے اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اب بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے جب اسامہ لپک کر ان کے پاس آیا ۔۔۔
“چاچو آپ لیٹے رہیں !! کچھ چاہئیے تو مجھے بتائیں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے انہیں لٹاتے ہوئے بولا
میجر حسن نے اسامہ کو بغور دیکھا
” ینگ مین تم بہت چھوٹے تھے جب میں نے تمہیں دیکھا تھا مگر بس میری جاب کی مصروفیات میری پوسٹنگ کی وجہ سے پھر دوبارہ تم سے ملاقات ہی نہیں ہو پائی کبھی کراچی جانا بھی ہوا تو تم نہیں ہوتے تھے اور خاص کر جب مجھے پتہ چلا تم نے جونیئر کراٹے چیمپئن شپ جیتی ہے تو مجھے یقین جانو بہت خوشی ہوئی تھی۔۔۔” میجر احسن نے ٹہرے ہوئے لہجے میں اسامہ کو مخاطب کیا
” مجھے بھی تھوڑا تھوڑا یاد ہے جب آپ یونیفارم میں گھر آتے تھے اور ہمیشہ میرے لئے چاکلیٹس لایا کرتے تھے۔۔۔” اسامہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا
” آج کل کیا کر رہے ہو؟؟ ”
“سیکنڈ ائیر کے امتحان ہونے والے ہیں ایک ہفتے میں اس کے بعد ان شاء اللہ پاک ائیر فورس میں اپلائی کروں گا…”
“بہت خوب ینگ مین !! یہ تو بہت اچھی بات ہے ویسے بھی تم جیسے مضبوط ارادے رکھنے والے مخلص جوانوں کو آگے آنا چاہئیے ۔۔۔مگر ائیر فورس کیوں ؟؟ آرمی کیوں نہیں ۔۔۔”
“چاچو !! کل تک تو مجھے بھی نہیں پتا تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں بس ایک ضد تھی کہ یونیفارم حاصل کرنا ہے خود کو منوانا ہے لیکن آج جب میں صبح آپ سے مل کر ہوٹل گیا تو میں نے بہت سوچا !! مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر بھی وہی خون ہے جو دادا جی کے اندر تھا جو آپ کے اندر ہے بس مجھے احساس نہیں تھا اور سر مجھے آسمان کی وسعتیں بہت پسند ہیں میں عقاب بن کر اڑنا چاہتا ہوں اور سچ تو یہ ہے کے میرے اندر جنون ہے غصہ ہے جسے میں اپنی طاقت بنا کر دشمن پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہوں اپنی انرجی اپنی ذات سے اپنے وطن پاکستان کو فائدہ پہچانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔”اسامہ نے کہا
” ایک بات پوچھوں؟؟ اگر سچ بولو تو ۔۔۔” میجر احسن نے سوال کیا
” جی چاچو۔۔۔” اسامہ نے حیرت سے ان کے پرتفکر چہرے کو دیکھا
“تمہارے اور فاطمہ کے بیچ کیا ہوا ہے؟؟ فاطمہ کی گردن پہ کس کی انگلیوں کے نشان تھے؟؟ وہ تمھیں دیکھ کر ڈر کیوں رہی تھی؟؟ ” میجر احسن کا سانس پھول رہا تھا
اسامہ نے جلدی سے آہستگی سے ان کی گردن اٹھا کر تھوڑا پانی پلایا
“آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہونگے ؟؟ آپ کو میں سب سچ سچ بتا دونگا آپ کو غصہ آئے تو مجھے شوٹ کردیجیے گا لیکن ناراض مت ہوئیے گا اور نا ہی مجھے غلط سمجھئے گا بلکہ نیوٹرل ہو کر میری بات سنئیے گا بولیں سنے گئے نا ۔۔۔” وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولا
میجر احسن نے ایک گہری جانجتی نظر اپنے اکھڑ مزاج بھتیجے پر ڈالی جو بلاشبہ ایک بہترین قد و قامت کا حامل خوشکل ہینڈسم نوجوان تھا ۔۔۔
” جوان تم اپنی بات بتاؤ ! میں ہر بات ٹھنڈے دماغ سے سننے کا عادی ہوں اور حوصلہ بھی رکھتا ہوں شروع کرو ۔۔۔۔”
اسامہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جم خانہ کی پارکنگ لاٹ میں ہوئے فاطمہ سے جھگڑے کو لے کر کمرے میں ہوئی غلط فہمی سے بڑھتی بات بتا کر اب یہاں ہاسپٹل پہنچ کر اس کی گردن دبانے سے لیکر اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے بتا رہا تھا میجر حسن کی مٹھیاں بھینچ چکی تھی وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر ضبط کر رہے تھے۔۔۔۔
” چاچو مجھے کچھ نہیں پتا کہ میں نے کیا کیا ہے لیکن مجھے اتنا پتا ہے کے اب فاطمہ کو لیکر میری فیلنگز بہت عجیب ہیں ۔۔۔” اسامہ نے وقفہ لیا
” میرا دل چاہتا ہے!! اسے کوئی بھی نہیں دیکھے، وہ کسی سے بات نہیں کرے صرف میرے آس پاس رہے صرف میری بات سنے اور اگر کوئی اس سے بات کرتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے اس شخص کا مار مار کر بھرکس نکال دوں ۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکا
” ریلیکس چاچو !! مجھے اتنا پتہ ہے اس رات میں بیہوش ہو چکا تھا اللہ کی قسم فاطمہ کی عزت محفوظ ہے آپ آپ پلیز مجھ پر بھروسہ کریں لیکن اس رات کے بعد سے میں بہت بدل گیا ہوں کیا آپ مجھے ایک موقع نہیں دینگے ؟؟ ” اسامہ کے لہجے میں سچائی تھی کانفیڈینس تھا
” کیسا موقع ؟؟ ” وہ بمشکل بولے
” کیا میں آپ کی بیٹی فاطمہ سے شادی کرسکتا ہوں میں وعدہ کرتا ہوں اسے ساری زندگی خوش رکھوں گا کبھی تنگ نہیں کروں گا۔۔۔”
چند لمحے وہ اسامہ کو جانچتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے رہے ۔۔۔
“تم ابھی بہت کم عمر ہو اور میری بیٹی بھی بہت چھوٹی ہے یہ عمر شادی بیاہ کی نہیں بلکہ کیریئر بنانے کی ہے تم ایئر فورس میں کمیشن لے کر دکھاؤ جس دن فلائنگ لیفٹننٹ کے تین ستارے تمہارے یونیفارم پر جگمگانے لگے گئے اس دن میں تمہاری شادی فاطمہ سے کردونگا ۔۔” انہوں نے اپنی ڈیمانڈ اسامہ کے سامنے رکھی
” مجھے منظور ہے چاچو !! لیکن آپ سے ایک گزارش ہے پلیز ہمارا نکاح کروادیں اس کے بعد جیسا آپ حکم کریں سب منظور ہوگا ۔۔۔” وہ بہت عاجزی سے بولا
” اسامہ مائی بوائے!!! ابھی منگنی نکاح کچھ نہیں تم پہلے اکیڈمی میں سلیکٹ ہوکر دکھاؤ اس کے بعد تمہارے اکیڈمی جوائن کرنے سے پہلے نکاح کردیا جائے گا ۔۔۔۔” میجر احسن نے اپنا فیصلہ سنایا
اسامہ کا چہرہ کھل اٹھا ابھی تک اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ فاطمہ سے اس کی محبت تھی یا ضد ؟؟ یا اسے اپنے کنٹرول میں کر کے اپنے بس میں کر کے اپنا آپ منوانے کی خواہش ۔۔۔۔۔ ” تھینکس چاچو !! فار ٹرسٹنگ آن می..
جاری ہے
” لیکن احسن بچی کل سے جاگ رہی ہے ۔۔۔” وہ الجھے
” کوئی بات نہیں اپنے بابا کے پاس سو جائیگی ابھی میرا دل اسے اپنے ساتھ رکھنے کا چاہ رہا ہے ۔۔۔”
اسامہ نوشابہ کے ساتھ خداحافظ کہتا دوپہر میں آنے کا کہہ کر چلا گیا
” فاطمہ گڑیا تم صوفہ پر لیٹ کر ریسٹ کرلو ۔۔۔” میجر احسن نے اپنے بیڈ پر سے سفید چادر اٹھا کر بمشکل فاطمہ کو دی
وہ سر ہلاتے ہوئے چادر سر تک تان کر لیٹ گئی فاطمہ کے سونے کا اطمینان کرنے کے بعد محسن نقوی صاحب احسن سے مخاطب ہوئے
” احسن تمہارے اندرونی زخم میں گولی کا زہر پھیلنے سے انفیکشن ہوگیا ہے میں سوچ رہا ہوں تمہیں کراچی ہاسپٹل ٹرانسفر کروا لوں اس طرح تم میری نظروں کے سامنے رہوگے اور فاطمہ بھی اکیلی نہیں ہوگی ۔۔۔”
” بھائی صاحب کوئی بات ہوئی ہے کیا ؟؟ ” احسن نے سنجیدگی سے پوچھا
” ارے کوئی بات نہیں تم فکریں مت پالو سب ٹھیک ہے بلکہ تم ٹھیک ہو جاؤ تو سوچ رہا ہوں اپنے بچوں کو ایک رشتے میں باندھ دیتے ہیں اس طرح مجھے بھی بیٹی مل جائے گی اور تمہیں بیٹا ۔۔۔” اس سے پہلے احسن کچھ کہتے محسن نقوی صاحب کا فون بجا ۔۔۔
” احسن وزیر اعلی سندھ کا فون ہے کانفرنس کال ہے کانفیڈینشیل میں بات کرکے آتا ہوں ۔۔۔” وہ فون اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئے ۔ _________________________ میجر احسن کو اللہ تعالیٰ نے بہت صبر و برداشت سے نوازا تھا اس وقت وہ شدید درد اور تکلیف میں تھے مگر اپنے پیاروں حتی کہ ڈاکٹروں تک کو کچھ نہیں بتایا تھا
اسامہ جیسے کڑیل جوان کو دیکھ کر جہاں وہ خوش ہوئے تھے وہی فاطمہ کا اسے دیکھ کر سہم جانا ان کا ہاتھ پکڑنا ان کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا ابھی وہ اپنی سوچ میں گم تھے کے دروازہ کھلا اور کیپٹن اسفند اندر داخل ہوا
” اسلام علیکم سر !! ”
” وعلیکم اسلام جوان ۔۔۔کیسے ہوں “ان کی آنکھوں میں اسفند کو دیکھ کر چمک سی دوڑ گئی اسفند اپنی کیپ اتار کر ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا اب وہ دونوں باتیں کر رہے تھے باتوں باتوں میں احسن اپنی پریشانی کا ذکر کر چکے تھے اور محسن نقوی صاحب کی خواہش بھی بتا چکے تھے ۔۔۔
اسفند نے بھی انہیں کل اسامہ سے اپنی ملاقات اور فاطمہ کی بتائی ساری تفصیلات بتائیں
” سر وہ لڑکا فاطمہ کو لیکر بہت سیریس ہے لیکن اس کے اندر ایک جنون ہے اب جو آپ کہیں ۔۔۔” وہ ادب سے بولا
” اسفند فاطمہ میری اکلوتی بیٹی ہے اور مجھے اپنی بیٹی کا مستقبل پر حال میں محفوظ رکھنا ہے وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم فاطمہ کی حفاظت کروگے اور اگر اس رشتے کے لئیے وہ راضی نہیں ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جائیگا ۔۔۔” میجر احسن کی سانس پھول رہی تھی
” سر آپ زیادہ مت بولیں ریسٹ کریں میں ڈاکٹر جو بلاتا ہوں ۔۔۔ ” اسفند ان کی بگڑتی طبیعت دیکھ کر کھڑا ہو گیا
” اسفند !! وعدہ کرو ۔۔۔۔” ” کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے سر ؟؟ فاطمہ میری بھی گڑیا ہے اس کی حفاظت میں کرونگا اس کا ہر خواب پورا ہو گا ۔۔۔” اسفند نے احسن کا ہاتھ تھام کر کہا
میجر احسن اس کی بات سن کر سکون سے آنکھیں موند کر لیٹ گئے ۔۔۔
اسفند نے ڈاکٹر کو کال کر لیا تھا وہ میجر احسن کو انجکشن دے کر چلا گیا تھا محسن صاحب کے آنے سے پہلے اسفند بھی چلا گیا تھا _______________________ دوپہر ڈھل رہی تھی اسامہ اور نوشابہ سوپ لیکر اندر داخل ہوئے ” اسلام علیکم چاچو ۔۔۔” اسامہ اپنے باوقار سے چاچو کو سلام کرتا ہوا ان کے پاس بیٹھ گیا
“بھائی صاحب فاطمہ ابھی تک سو رہی ہے ؟؟ ” نوشابہ نے حیرت سے چادر میں لپٹے فاطمہ کے وجود کو دیکھا
” کافی دیر ہوگئی ہے بھابھی آپ اسے اٹھا لیں ۔۔۔” احسن نے کہا ” فاطمہ !! اٹھو بیٹی ۔۔۔کچھ کھا لو .” انہوں نے اس کے گال تھپتھپائے کافی دیر سب ادھر ہی بیٹھے رہے ۔۔۔ رات سر پر تھی جب احسن نے نوشابہ کو مخاطب کیا ۔۔ ” بھابھی آپ فاطمہ کو ساتھ لے جائیں تھوڑا ریسٹ کرلیگی ۔۔۔۔”
“بابا ! مجھے کہیں نہیں جانا میں آپ کے پاس رہونگی ۔۔۔” فاطمہ ٹھٹکی
” فاطمہ بری بات بحث نہیں کرتے !! آج رات میرے پاس اسامہ بیٹا رکے گا ۔۔۔کیوں اسامہ اپنے چاچو کے پاس رکو گئے ؟” فاطمہ کو جواب دیکر انہوں نے اسامہ سے پوچھا
” ممی آپ لوگ جائیں میں چاچو کے پاس رہونگا ۔۔۔” اسامہ نے نوشابہ سے کہا _____________________ علی اور اسامہ میرپور چوک پر واک کرتے ہوئے ڈسکاؤنٹ ہوٹل تک پہنچ گئے تھے ۔۔۔
” اسامہ ادھر کا پیزا بڑا زبردست ہے چلو ادھر ہی لنچ کر لیتے ہیں ۔۔۔” علی نے کہا
وہ دونوں اس ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے باتیں کرتے ہوئے پزا برگر انجوائے کر رہے تھے
” اسامہ انٹر کے بعد جب تو نے پی اے ایف اکیڈمی جوائن کی ،پھر کسی سے رابطہ ہی نہیں رکھا اتنے سالوں کے بعد اب تجھے دیکھ رہا ہوں تو بہت سوبر ہوگیا ہے یار ۔۔۔” وہ ستائشی نظروں سے سلجھے ہوئے ڈیشنگ سے اسامہ کو دیکھتا ہوا بولا
” تب ہم نادان تھے علی ایک بچپنا سا تھا اب وقت نے سب سکھا دیا ہے اب میں اس وطن عزیز کا وہ سپاہی ہوں جس کے دل میں شہادت کی پرزور خواہش ہے ۔۔۔” اسامہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا
” اچھا چل ! میرے فوجی جوان تجھے بیس تک چھوڑ دوں ۔۔۔” علی نے ہنستے ہوئے کہا
اسامہ اور علی بل پے کرکے باہر نکلے علی کی گاڑی تھوڑی دور پارک تھی وہ دونوں واک کرکے گاڑی تک پہنچے ۔۔۔
علی نے گاڑی اسٹارٹ کی ہی تھی کے اس کی نظر سامنے پڑی پہلے تو وہ حیران ہوا پھر دانت کچکچاتے ہوئے نیچے اترا
” کدھر ۔۔۔” اسامہ نے پوچھا
” بس ایک منٹ ابھی آیا ۔۔۔” علی کہتا ہوا ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب بڑھا ___________________________ آج کئی زخمی جوان کیمپ میں لائے گئے تھے وہ سب ڈاکٹرز ہی بہت مصروف تھے اپنی ڈیوٹی ختم ہو نے کے بعد ملیحہ میجر ڈاکٹر شبیر احمد کے پاس آئی ۔۔
” سر اگر آپ اجازت دیں تو میں اور ڈاکٹر ثنا سیرلہ تک ہو آئیں شام سے پہلے واپس آجائیں گے سر ۔۔۔” وہ بڑے ہی ادب سے بولی
میجر ڈاکٹر شبیر نے بڑے غور سے اپنی اس شریر اسٹوڈنٹ کو دیکھا
” ٹھیک ہے اب آپ نے ٹھان ہی لی ہے تو ضرور جائیں اور ساتھ میں کچھ بلڈ سیمپل بھی لے جائیے ادھر ڈی ایچ کیو ہسپتال میں دے دیجئیے گا ۔۔۔” وہ مشروط اجازت دیتے ہوئے بولے
” تھینکس سر ہم بس جلدی سے جلیبی کھا کر اوپس آئی مین سیمپل ڈراپ کرکے آجائیں گے۔۔۔” وہ پرجوش لہجے میں کہتی ہوئی پلٹ گئی
ثنا اور ملیحہ دونوں ہی سیرلہ جانے کیلئے نکل پڑی تھی ڈاکٹر احمد نے انہیں میر پور چوک ڈراپ کر دیا تھا بلڈ سیمپل ملیحہ کے بیگ میں تھے ۔۔
وہ دونوں جینز کے اوپر لمبی قمیض سر پر اسکارف اور چادر اوڑھے ہوئے تھی روڈ کراس کر کے وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے سیرلہ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال جانے کا کرایہ طے کر رہی تھی جب میلحہ کے عقب سے حمزہ علی کی بھاری آواز ابھری
” او بھائی ہمیں ٹیکسی نہیں چاہئیے تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔” ٹیکسی والا بڑبڑاتے ہوئے اپنا وقت ضائع ہونے پر تپ کر چلا گیا
” آپ نے ہماری ٹیکسی کیوں بھگائی ؟ ” ملیحہ غصہ سے گویا ہوئی
” اور آپ کیا ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں جب بھی ہم کہیں نکلتے ہیں کسی بھوت کی طرح نازل ہو جاتے ہیں ۔۔۔”ملیحہ کا غصہ سے برا حال تھا ایک تو ویسے ہی انہیں بہت کم ٹائم کی پرمیشن ملی تھی دوسرا شریف ٹیکسی ڈرائیور ڈھونڈنے میں خاصا وقت ضائع ہو گیا تھا اور اب یہ حمزہ علی صاحب نازل ہو گئے تھے
” آپ دونوں ادھر کیا کر رہی ہیں ؟؟ ” وہ ملیحہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ثنا سے مخاطب ہوا
” حمزہ بھائی ہمیں سیرلہ جانا ہے کچھ بلڈ سیمپل ڈراپ کرنے ہیں ۔۔۔” ثنا نے شرافت سے جواب دیا
” ٹھیک ہے آپ دونوں میرے ساتھ آئیں میں ڈراپ کر دیتا ہوں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” کیوں آپ کے ساتھ کیوں آ ئیں ؟؟ آپ کیا ہمارے پھوپھی کے بیٹے لگتے ہیں ؟ چلو ثنا دوسری ٹیکسی ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔۔”ملیحہ نے طنز کیا
” ملیحہ بی بی بیفکر رہیں رشتہ بھی جلد بنا لونگا چلیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔” اس نے ملیحہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور ثنا کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے روڈ کراس کرنے لگا ___________________ ڈیوٹی ڈاکٹر میجر احسن کا چیک اپ کر کے جا چکے تھے ان کو ڈرپ لگائی گئی تھی زخموں کی ڈریسنگ تبدیل کر دی گئی تھی ابھی بھی ان کا سانس ٹھیک سے نہیں آرہا تھا مگر وہ بہت حوصلے سے اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اب بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے جب اسامہ لپک کر ان کے پاس آیا ۔۔۔
“چاچو آپ لیٹے رہیں !! کچھ چاہئیے تو مجھے بتائیں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے انہیں لٹاتے ہوئے بولا
میجر حسن نے اسامہ کو بغور دیکھا
” ینگ مین تم بہت چھوٹے تھے جب میں نے تمہیں دیکھا تھا مگر بس میری جاب کی مصروفیات میری پوسٹنگ کی وجہ سے پھر دوبارہ تم سے ملاقات ہی نہیں ہو پائی کبھی کراچی جانا بھی ہوا تو تم نہیں ہوتے تھے اور خاص کر جب مجھے پتہ چلا تم نے جونیئر کراٹے چیمپئن شپ جیتی ہے تو مجھے یقین جانو بہت خوشی ہوئی تھی۔۔۔” میجر احسن نے ٹہرے ہوئے لہجے میں اسامہ کو مخاطب کیا
” مجھے بھی تھوڑا تھوڑا یاد ہے جب آپ یونیفارم میں گھر آتے تھے اور ہمیشہ میرے لئے چاکلیٹس لایا کرتے تھے۔۔۔” اسامہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا
” آج کل کیا کر رہے ہو؟؟ ”
“سیکنڈ ائیر کے امتحان ہونے والے ہیں ایک ہفتے میں اس کے بعد ان شاء اللہ پاک ائیر فورس میں اپلائی کروں گا…”
“بہت خوب ینگ مین !! یہ تو بہت اچھی بات ہے ویسے بھی تم جیسے مضبوط ارادے رکھنے والے مخلص جوانوں کو آگے آنا چاہئیے ۔۔۔مگر ائیر فورس کیوں ؟؟ آرمی کیوں نہیں ۔۔۔”
“چاچو !! کل تک تو مجھے بھی نہیں پتا تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں بس ایک ضد تھی کہ یونیفارم حاصل کرنا ہے خود کو منوانا ہے لیکن آج جب میں صبح آپ سے مل کر ہوٹل گیا تو میں نے بہت سوچا !! مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر بھی وہی خون ہے جو دادا جی کے اندر تھا جو آپ کے اندر ہے بس مجھے احساس نہیں تھا اور سر مجھے آسمان کی وسعتیں بہت پسند ہیں میں عقاب بن کر اڑنا چاہتا ہوں اور سچ تو یہ ہے کے میرے اندر جنون ہے غصہ ہے جسے میں اپنی طاقت بنا کر دشمن پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہوں اپنی انرجی اپنی ذات سے اپنے وطن پاکستان کو فائدہ پہچانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔”اسامہ نے کہا
” ایک بات پوچھوں؟؟ اگر سچ بولو تو ۔۔۔” میجر احسن نے سوال کیا
” جی چاچو۔۔۔” اسامہ نے حیرت سے ان کے پرتفکر چہرے کو دیکھا
“تمہارے اور فاطمہ کے بیچ کیا ہوا ہے؟؟ فاطمہ کی گردن پہ کس کی انگلیوں کے نشان تھے؟؟ وہ تمھیں دیکھ کر ڈر کیوں رہی تھی؟؟ ” میجر احسن کا سانس پھول رہا تھا
اسامہ نے جلدی سے آہستگی سے ان کی گردن اٹھا کر تھوڑا پانی پلایا
“آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہونگے ؟؟ آپ کو میں سب سچ سچ بتا دونگا آپ کو غصہ آئے تو مجھے شوٹ کردیجیے گا لیکن ناراض مت ہوئیے گا اور نا ہی مجھے غلط سمجھئے گا بلکہ نیوٹرل ہو کر میری بات سنئیے گا بولیں سنے گئے نا ۔۔۔” وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولا
میجر احسن نے ایک گہری جانجتی نظر اپنے اکھڑ مزاج بھتیجے پر ڈالی جو بلاشبہ ایک بہترین قد و قامت کا حامل خوشکل ہینڈسم نوجوان تھا ۔۔۔
” جوان تم اپنی بات بتاؤ ! میں ہر بات ٹھنڈے دماغ سے سننے کا عادی ہوں اور حوصلہ بھی رکھتا ہوں شروع کرو ۔۔۔۔”
اسامہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جم خانہ کی پارکنگ لاٹ میں ہوئے فاطمہ سے جھگڑے کو لے کر کمرے میں ہوئی غلط فہمی سے بڑھتی بات بتا کر اب یہاں ہاسپٹل پہنچ کر اس کی گردن دبانے سے لیکر اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے بتا رہا تھا میجر حسن کی مٹھیاں بھینچ چکی تھی وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر ضبط کر رہے تھے۔۔۔۔
” چاچو مجھے کچھ نہیں پتا کہ میں نے کیا کیا ہے لیکن مجھے اتنا پتا ہے کے اب فاطمہ کو لیکر میری فیلنگز بہت عجیب ہیں ۔۔۔” اسامہ نے وقفہ لیا
” میرا دل چاہتا ہے!! اسے کوئی بھی نہیں دیکھے، وہ کسی سے بات نہیں کرے صرف میرے آس پاس رہے صرف میری بات سنے اور اگر کوئی اس سے بات کرتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے اس شخص کا مار مار کر بھرکس نکال دوں ۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکا
” ریلیکس چاچو !! مجھے اتنا پتہ ہے اس رات میں بیہوش ہو چکا تھا اللہ کی قسم فاطمہ کی عزت محفوظ ہے آپ آپ پلیز مجھ پر بھروسہ کریں لیکن اس رات کے بعد سے میں بہت بدل گیا ہوں کیا آپ مجھے ایک موقع نہیں دینگے ؟؟ ” اسامہ کے لہجے میں سچائی تھی کانفیڈینس تھا
” کیسا موقع ؟؟ ” وہ بمشکل بولے
” کیا میں آپ کی بیٹی فاطمہ سے شادی کرسکتا ہوں میں وعدہ کرتا ہوں اسے ساری زندگی خوش رکھوں گا کبھی تنگ نہیں کروں گا۔۔۔”
چند لمحے وہ اسامہ کو جانچتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے رہے ۔۔۔
“تم ابھی بہت کم عمر ہو اور میری بیٹی بھی بہت چھوٹی ہے یہ عمر شادی بیاہ کی نہیں بلکہ کیریئر بنانے کی ہے تم ایئر فورس میں کمیشن لے کر دکھاؤ جس دن فلائنگ لیفٹننٹ کے تین ستارے تمہارے یونیفارم پر جگمگانے لگے گئے اس دن میں تمہاری شادی فاطمہ سے کردونگا ۔۔” انہوں نے اپنی ڈیمانڈ اسامہ کے سامنے رکھی
” مجھے منظور ہے چاچو !! لیکن آپ سے ایک گزارش ہے پلیز ہمارا نکاح کروادیں اس کے بعد جیسا آپ حکم کریں سب منظور ہوگا ۔۔۔” وہ بہت عاجزی سے بولا
” اسامہ مائی بوائے!!! ابھی منگنی نکاح کچھ نہیں تم پہلے اکیڈمی میں سلیکٹ ہوکر دکھاؤ اس کے بعد تمہارے اکیڈمی جوائن کرنے سے پہلے نکاح کردیا جائے گا ۔۔۔۔” میجر احسن نے اپنا فیصلہ سنایا
اسامہ کا چہرہ کھل اٹھا ابھی تک اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ فاطمہ سے اس کی محبت تھی یا ضد ؟؟ یا اسے اپنے کنٹرول میں کر کے اپنے بس میں کر کے اپنا آپ منوانے کی خواہش ۔۔۔۔۔ ” تھینکس چاچو !! فار ٹرسٹنگ آن می..
جاری ہے