عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 8
Don’t forget you promised to keep my Daughter Happy and from now on she is your responsibility ..” وہ کہتے ہوئے آنکھیں موند کر لیٹ گئے. میجر احسن کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ایک بیٹی کا باپ ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی انہیں رہ رہ کر اپنی کوتاہی کا احساس ہو رہا تھا وہ فاطمہ کو ابھی بہت وقت ہے کہہ کر بچوں کی طرح پالتے رہے تھے وہ بہت ہی سیدھی اور معصوم تھی زمانے سے انجان بس اپنے بابا کی گڑیا !!! دوسری جانب وہ اسامہ کے اندر تک اتر چکے تھے وہ ایک بہت ہی جوشیلا لڑکا تھا جس کی صلاحیتوں سے انہیں ہرگز انکار نہیں تھا یقیناً وہ فاطمہ کیلئے ایک اچھا انتخاب تھا لیکن ابھی بہت کم عمر تھا اور پتہ نہیں ائیر فورس میں کمیشن بھی لے پاتا یا نہیں وہ سوچے چلے جا رہے تھے ان کا سر پھٹنے لگا تھا طبیعت بگڑ رہی تھی پر وہ خود پر قابو رکھے بند آنکھوں میں اپنی گڑیا فاطمہ کا چہرہ بسائے اس کے مستقبل کو لیکر فکرمند تھے ۔۔۔
فجر کی اذان ہو رہی تھی اسامہ کو عجیب سا احساس ہوا وہ تیزی سے کرسی پر سے اٹھ کر احسن چاچو کے پاس آیا ۔۔۔
ان کے سرہانے لگے ہارٹ مانیٹر میں لکیریں تیزی سے بلنک ہورہی تھی تیز بیپ بجنی شروع ہو چکی تھی تبھی دروازہ کھول کر ایک نرس تیزی سے داخل ہوئی
” سر آپ پیچھے ہٹئیے ۔۔۔۔” اس نے اسامہ سے کہا
ہارٹ مانیٹر کو چیک کرتے ہی اس نے فوری ڈاکٹر کو کال کیا ایک منٹ کے اندر اندر کمرہ ڈیوٹی ڈاکٹرز سے بھر چکا تھا ۔۔۔
” مسٹر آپ باہر جا کر ویٹ کریں ۔۔۔۔” ڈیوٹی ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا
اسامہ نے تیزی سے باہر نکل کر اپنا سیل نکالا اور اپنے ڈیڈ کو فون ملانے لگا
محسن نقوی صاحب کو فوری ہاسپٹل پہنچنے کا کہہ کر وہ تیزی سے روم میں داخل ہوا ۔۔۔
ڈاکٹر ایک طرف مایوسی سے کھڑے تھے نرس احسن صاحب کے جسم سے ڈرپ اور آلات الگ کررہی تھی ۔۔۔۔
” کک کیا ہوا۔ ۔۔۔۔” اس نے وحشت زدہ لہجہ میں پوچھا
” Sorry he is Expired ….”
ڈاکٹر کا جواب سنتے ہی وہ تیزی سے میجر احسن کی طرف بڑھا
وہ بڑے پرسکون انداز میں لیٹے ہوئے تھے اسامہ نے ان کا ہاتھ تھاما جو برف کی طرح سرد تھا ۔۔۔
” چاچو ۔۔۔” اس نے تیزی سے ان کا چہرہ تھپتھپایا سینے پر سر رکھا مگر سب ویران تھا کوئی زندگی کی رمق نہیں تھی ۔۔۔۔۔ _________________________ میجر احسن کے انتقال کو دو دن ہوچکے تھے آج سوئم تھا۔۔۔۔
فاطمہ ابھی تک شاک میں تھی اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کے اس کے بابا اب اس کے ساتھ نہیں رہے وہ اب کبھی بھی انہیں نہیں دیکھ پائے گی غم حد سے سوا تھا آنکھوں سے آنسو بہتے بہتے خشک ہو چکے تھے لگتا تھا ابھی بابا آجائیں گے اسے گلے لگا کر پیار کرینگے اس سے باتیں کرینگے ۔۔۔۔۔۔
” اسلام علیکم سر !! ” سفید قمیض شلوار میں ملبوس اسفند مسجد میں محسن نقوی کے پاس آیا
“وعیکم اسلام بیٹا ۔۔” انہوں نے شفقت سے جواب دیا
میجر احسن کی ڈیڈ باڈی کو پنڈی سے کراچی لانے سے لیکر تدفین تک اسفند ایک پاؤں پر کھڑا ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹا رہا تھا
“سر مجھے کل ڈیوٹی جوائن کرنی ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو جانے سے پہلے فاطمہ سے مل لوں ۔۔”
” کب نکل رہے ہو ؟؟ ”
” بس ایک گھنٹے میں نکلنا ہے سر ۔۔۔”
” ٹھیک تم گھر جا کر مل لو میں تو ابھی قبرستان جاؤنگا ۔۔۔” انہوں نے اجازت دی
اسفند گھر کے اندر داخل ہوا تو مسز نقوی نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔
“تمہارے انکل مجھے کال کر چکے ہیں تم اندر جا کر فاطمہ سے مل لو میں اسنیک اور چائے بھجواتی ہوں کوشش کرنا وہ بھی کچھ کھا پی لے دو روز سے بھوکی ہے ۔۔۔۔”
اسفند سر ہلاتا ہوا ان کے بتائے کمرے کی جانب بڑھا دستک دے کر اندر داخل ہوا
سامنے دیوار سے ٹیک لگائے فاطمہ زمین پر بیٹھی ہوئی تھی چہرے اور آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں ۔۔۔۔
” فاطمہ !!! گڑیا اب بس کرو ۔۔۔” وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا
” بابا بابا چلے گئے ۔۔۔۔” اس نے سسکی بھری
” اگر تم اس طرح روؤ گئی کھانا پینا چھوڑ دوگی تو بابا کو بہت تکلیف ہو گئی ۔۔۔فاطمہ تو اچھی لڑکی ہے اپنے بابا کو تکلیف تو نہیں دیگی نا ۔۔۔” اس نے پوچھا
فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا
” اچھا اب میری بات غور سے سنو !! مجھے بیس رپورٹ کرنی ہے تم میرا فون نمبر لکھ لو بلکہ یاد کر لو کوئی بھی مشکل ہو پریشانی ہو مجھے کال کرنا میں آجاؤں گا خود کو اکیلا مت سمجھنا ۔۔۔۔” اس نے اپنا فون نمبر فاطمہ کو رٹوایا
تھوڑی دیر بعد وہ اجازت لیکر اٹھ کھڑا ہوا ________________________ اسامہ اپنے چاچو کے انتقال کے بعد سے چپ چپ تھا وہ مرنے سے پہلے پوری رات اسامہ سے باتیں کرتے رہے تھے اب اسے ان سے کئیے وعدوں پر پورا اترنا تھا ائیر فورس میں کمیشن حاصل کرنا تھا فاطمہ کا خیال رکھنا تھا وقت گزر رہا تھا وہ انٹر کے امتحان دے چکا تھا اور اب سنجیدگی سے انٹیلیجنس ٹیسٹ اور ایکڈیمک ٹیسٹ کی تیاری کررہا تھا اس کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا بس ایک جنون سوار تھا اس کے سارے دوست اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔۔۔۔۔
وقت گزرتا جا رہا تھا فاطمہ چپ چاپ اپنے کمرے میں ہی زیادہ تر وقت گزارتی تھی جب مسز نقوی نے اس کے ڈاکومینٹ منگوا کر فرسٹ ائیر میں اس کا داخلہ کروایا فاطمہ نے اپنے سبجیکٹ پری میڈیکل کے سلیکٹ کئیے تھے وہ بھی اپنی امی کی طرح ڈاکٹر بن کر اپنے بابا کی خواہش پوری کرنا چاہتی تھی کالج میں اس کا وقت اچھا گزر رہا تھا اور گھر میں بھی سکون تھا وہ اپنا کھانا پینا کمرے میں ہی کرتی تھی اسامہ سے اس کا سامنا کافی عرصے سے نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔
اسامہ انٹیلیجنس ٹیسٹ اور پھر اکیڈیمک ٹیسٹ پاس کرچکا تھا میڈیکل بھی ہوگیا تھا اور اب آئی ایس ایس بی کے ٹیسٹ کی تیاری جاری تھی ۔۔۔
وہ حمزہ سے ملکر واپس آرہا تھا جب اسے اسٹاپ پر کالج یونیفارم میں کھڑی لڑکی پر فاطمہ کا گمان ہوا اس نے تیزی سے چوک پر سے اپنی اسپورٹ بائیک گھمائی اور سیدھی فاطمہ کے سامنے لے جاکر روک دی ۔۔۔۔
” تم ادھر کیوں کھڑی ہو ؟؟ ” وہ سن گلاسز اتار کر سر پر ٹکاتے ہوئے بولا
فاطمہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور منھ پھیر کر کھڑی ہو گئی
وہ تپ کر بائیک سے اترا.. ” تمہیں آواز سنائی نہیں دیتی کیا ؟؟ ” اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ___________________________ اسامہ بہت دیر سے گاڑی میں بیٹھا علی کا انتظار کر رہا تھا اسے بیس ٹائم پر پہنچنا تھا اور علی پتا نہیں کیا کررہا تھا ۔۔۔۔وہ تپ کر گاڑی سے اترا تبھی اس کی نگاہ سامنے گاڑی سے اترتے آدمی پر پڑی وہ شاک کی حالت میں اسے دیکھ رہا تھا چند لمحے بعد وہ تیزی سے اس آدمی کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
” اسفند !!! ” اس نے پکارا گاڑی سے نکلتے اسفند نے چونک کر دیکھا تو اسامہ کو دیکھ حیران ہو گیا
اسامہ تیزی سے چلتا ہوا اسفند تک آیا اور اس کا گریبان پکڑ لیا ۔۔۔ ” فاطمہ کہاں ہے ۔۔۔۔” وہ پھنکارا ____________________ اسفند اپنے سامنے اسامہ کو کھڑا دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔۔ ” تم ادھر کیا کررہے ہو؟؟ ” اسفند نے سوال کیا ” بات مت پلٹو !! تین سال سے مسٹر اسفند تمہیں ٹریک کررہا تھا تم پوسٹنگ پر تھے بتاؤ فاطمہ کدھر ہے ؟؟ ” اسامہ غرایا
” کیپٹن اسامہ !! تم آج بھی ویسے ہی ہوں ٹریننگ بھی تمہیں بدل نہیں سکی خیر حالات کی خرابی کی وجہ سے سب پوسٹٹڈ آفیسر کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے میں آج ہی بھبمر پہنچا ہوں تم میرے ساتھ گھر چلو آرام سے بات کرتے ہیں ۔۔۔” اسفند نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹائے
” گھر ؟؟ ” اسامہ حیران ہوا
” میں آزاد کشمیر سے ہی تعلق رکھتا ہوں اور میرا آبائی گھر ادھر بھمبھر ضلع میں ہی ہے بڑے میدان کے پاس ۔۔۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا
” میرے پاس اس سب کا ٹائم نہیں ہے مجھے ایک گھنٹہ میں بیس رپورٹ کرنا ہے اس لئیے میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔”
” گھر چلو !! تمہیں سارے سوالات کے جوابات مل جائینگے ۔۔۔۔” اسفند نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
اسامہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا وہ اسفند کے گھر میں فاطمہ کی حیثیت دیکھنے سے ڈر رہا تھا _________________________ “کیا بدتمیزی ہے !! میرا ہاتھ چھوڑوں ” ملیحہ کا غصہ سے برا حال تھا
” آپ جیسی سر پھری کو ایسے ہی ڈیل کرنا چاہئیے ۔۔۔” حمزہ علی نے سختی سے کہا
وہ ان دونوں کو لیکر گاڑی کے پاس پہنچ گیا تھا ” اندر بیٹھیں !! میں آپ دونوں کو ہسپتال تک لے چلتا ہوں آپ سیمپل ڈراپ کرلیں پھر میں واپس کیمپ تک چھوڑ دونگا ۔۔۔” حمزہ علی نے دروازہ کھول کر ملیحہ کو اندر دھکیل کر ثنا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
” اب یہ کدھر چلا گیا ؟؟ “وہ اسامہ کو چاروں طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑایا اور جیب سے سیل نکال کر اسامہ کا نمبر ملایا
” ہیلو اسامہ !! کہا ہو یار ؟؟ ” اور دوسری طرف کی بات سننے لگا
” ٹھیک ہے پھر کل پرسوں جب بھی ٹائم ملے ضرور ملنا ۔۔۔”علی نے فون رکھا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
” اب آپ گاڑی چلانے کی زحمت کرینگے یا باہر ہی گھورتے رہینگے ۔۔۔۔” ملیحہ تپ کر بولی
حمزہ علی نے خشمگیں نگاہوں سے ملیحہ کو گھورتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی
” ملیحہ بی بی !! ہر وقت کوئلے چبانا چھوڑ دو لڑکیوں میں اتنا ایٹیٹیوڈ نہیں ہونا چاہئیے نقصان پہنچاتا ہے ۔۔” وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولا
” آپ میرے ابا نہیں ہیں جو میرے نفع نقصان کی فکر کریں ڈرائیور ہیں روڈ پر دھیان دیں اور ہمیں جلد ہسپتال پہنچائیں پہلے ہی اتنی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔” وہ بڑے آرام سے اسے ڈرائیور کا درجہ دیتے ہوئے بولی
” استغفرُللہ !!! میں کیوں تمہارا ابا بننے لگا ؟؟؟ ہاں تمہارے بچوں کے ابا بننے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ۔۔۔۔” حمزہ علی نے کانوں کو ہاتھ لگایا
پیچھے خاموشی سے ان دونوں کی تکرار سنتی ثنا کی ہنسی چھوٹ گئی اور ملیحہ کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا
” تم !!! تم اس قابل ہی نہیں ہو کے تمہارے منھ لگا جائے ۔۔۔” وہ غصہ اور حیا سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ گویا ہوئی
حمزہ علی نے مسکراتے ہوئے اس کا یہ روپ اپنی نظروں میں بسایا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی
” لیجئے گرلز آپ کی منزل آگئی جلدی سے سیمپل جمع کروا کر آجائیں پھر آپ کو کیمپ چھوڑ دونگا ۔۔۔” وہ ہسپتال کی مین اینٹرینس پر گاڑی روکتے ہوئے بولا
” حمزہ بھائی !! آپ واقعی پریشان مت ہوں ہمیں شاید تھوڑا ٹائم لگ جائے ہم واپس خود چلے جائینگے ۔۔۔” ثنا نے متانت سے کہا
” ثنا بہن !! میں پریشان نہیں ہوتا آپ آرام سے اپنا کام ختم کرلیں میں ادھر ہی ہوں ان حالات میں ،میں آپ لوگوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔” اس نے رسان سے جواب دیا
” لیکن بھائی ہمیں آگے ایک جگہ اور بھی جانا ہے ۔۔۔” ثنا جھجکتے ہوئے بولی
” آگے ؟؟ آ گے کدھر جانا ہے؟ وہ بھی ان جنگی حالات میں؟؟ یہ یقیناً آپ کی دوست کی ہی کارستانی ہو گئی جو آپ دونوں ان حالات میں گھومنے نکلی ہیں ۔۔۔” وہ ملیحہ کو گھورتے ہوئے بولا
” چلو ثنا !! تم بھی کس ڈھیٹ انسان کے منھ لگ رہی ہو اور مسٹر !!! ” وہ حمزہ علی کی جانب مڑی ” ہم آرمی میڈیکل کالج سے ہیں اپنے کام سے ادھر آئے ہیں اور آگے بھی اپنے کام سے ہی جائینگے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنا راستہ ناپئیے۔۔۔۔” وہ گاڑی سے اترتے ہوئے بولی
حمزہ کی برداشت کی حد ہو چکی تھی یہ لڑکی ملیحہ اس کے برداشت کا امتحان لینے پر تلی ہوئی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اترا اور آگے جاتی ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔۔۔۔ ” محترمہ !!! آپ اس وقت میری ذمہ داری ہیں اور ابھی کیمپ جا کر میں آپ کے ٹیچرز سے بھی بات کرونگا کہ دو جوان لڑکیوں کو ایسے حالات میں جب عام شہری بھی باہر نہیں نکل رہے فائرنگ گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے انہوں نے کیسے باہر بھیجا جب کے ہمارے لوکل سوشل ورکرز کی پوری ٹیم ان کی مدد کیلئے حاضر تھی ۔۔۔۔” وہ الفاظ چبا چبا کر بولا
” بھائی !! پلیز سر تک مت پہنچیں ۔۔۔۔اچھا آپ اور ملیحہ ادھر ہی رکیں میں بس پانچ منٹ میں یہ سیمپل ڈراپ کر کے آئی ۔۔۔” ثنا تیز رفتاری سے اندر کی طرف بڑھی _________________________ اسفند ،اسامہ کو لیکر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا ہی تھا کہ اس کا سیل بجنے لگا ۔اس نے ایک نظر فون کو دیکھا گھر سے کال تھی ” ہیلو ۔۔۔”
” اسفند !! آپ کدھر ہیں ؟؟ اسپتال سے فون آیا ہے اماں کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے ۔۔۔”دوسری طرف سے روہانسی سی نسوانی آواز گونجی
” تم فکر مت کرو میں ابھی ادھر جا کر تمہیں اطلاع کرتا ہوں ۔۔۔” اسفند نے فون بند کیا
” اسامہ !! ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے مجھے فوری ہاسپٹل پہنچا ہے میں تمہیں بیس چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔تم میرا نمبر نوٹ کرو ٹائم نکال کر ملتے ہیں ۔۔۔” اسفند نے اپنا نمبر اسے بتاتے ہوئے کہا
” کوئی بات نہیں !! بیس ہاسپٹل سے زیادہ دور نہیں ہے آپ ادھر ہی چلیں میں وہاں سے خود ہی چلا جاؤنگا ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
کچھ دیر گاڑی میں سناٹا چھا گیا گاڑی تیز رفتار سے دوڑ رہی تھی ہاسپٹل کی پارکنگ میں پہنچ اسفند نے گم سم بیٹھے اسامہ کو مخاطب کیا
” تمہیں کتنے بجے رپورٹ کرنا ہے ؟؟ ” اسفند نے پوچھا
” رات کی ائیر پٹرولنگ ہے ۔۔۔ابھی ٹائم ہے ۔۔” اس نے جواب دیا
” ٹھیک ہے تو بس میرا ویٹ کرو میں ابھی اماں کو دیکھ کر آیا پھر تمہیں بیس چھوڑ دونگا اور راستے میں بات چیت بھی کرلینگے ۔۔” اسفند نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر کی جانب چلا گیا اسامہ تھوڑی دیر گاڑی میں بیٹھا رہا اسے ایک عجیب سا مانوس سا احساس سا ہو رہا تھا پھر وہ خود بھی نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھا اس کا ارادہ اسفند کی اماں کی طبیعت معلوم کرنے کا تھا ۔
جاری ہے
فجر کی اذان ہو رہی تھی اسامہ کو عجیب سا احساس ہوا وہ تیزی سے کرسی پر سے اٹھ کر احسن چاچو کے پاس آیا ۔۔۔
ان کے سرہانے لگے ہارٹ مانیٹر میں لکیریں تیزی سے بلنک ہورہی تھی تیز بیپ بجنی شروع ہو چکی تھی تبھی دروازہ کھول کر ایک نرس تیزی سے داخل ہوئی
” سر آپ پیچھے ہٹئیے ۔۔۔۔” اس نے اسامہ سے کہا
ہارٹ مانیٹر کو چیک کرتے ہی اس نے فوری ڈاکٹر کو کال کیا ایک منٹ کے اندر اندر کمرہ ڈیوٹی ڈاکٹرز سے بھر چکا تھا ۔۔۔
” مسٹر آپ باہر جا کر ویٹ کریں ۔۔۔۔” ڈیوٹی ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا
اسامہ نے تیزی سے باہر نکل کر اپنا سیل نکالا اور اپنے ڈیڈ کو فون ملانے لگا
محسن نقوی صاحب کو فوری ہاسپٹل پہنچنے کا کہہ کر وہ تیزی سے روم میں داخل ہوا ۔۔۔
ڈاکٹر ایک طرف مایوسی سے کھڑے تھے نرس احسن صاحب کے جسم سے ڈرپ اور آلات الگ کررہی تھی ۔۔۔۔
” کک کیا ہوا۔ ۔۔۔۔” اس نے وحشت زدہ لہجہ میں پوچھا
” Sorry he is Expired ….”
ڈاکٹر کا جواب سنتے ہی وہ تیزی سے میجر احسن کی طرف بڑھا
وہ بڑے پرسکون انداز میں لیٹے ہوئے تھے اسامہ نے ان کا ہاتھ تھاما جو برف کی طرح سرد تھا ۔۔۔
” چاچو ۔۔۔” اس نے تیزی سے ان کا چہرہ تھپتھپایا سینے پر سر رکھا مگر سب ویران تھا کوئی زندگی کی رمق نہیں تھی ۔۔۔۔۔ _________________________ میجر احسن کے انتقال کو دو دن ہوچکے تھے آج سوئم تھا۔۔۔۔
فاطمہ ابھی تک شاک میں تھی اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کے اس کے بابا اب اس کے ساتھ نہیں رہے وہ اب کبھی بھی انہیں نہیں دیکھ پائے گی غم حد سے سوا تھا آنکھوں سے آنسو بہتے بہتے خشک ہو چکے تھے لگتا تھا ابھی بابا آجائیں گے اسے گلے لگا کر پیار کرینگے اس سے باتیں کرینگے ۔۔۔۔۔۔
” اسلام علیکم سر !! ” سفید قمیض شلوار میں ملبوس اسفند مسجد میں محسن نقوی کے پاس آیا
“وعیکم اسلام بیٹا ۔۔” انہوں نے شفقت سے جواب دیا
میجر احسن کی ڈیڈ باڈی کو پنڈی سے کراچی لانے سے لیکر تدفین تک اسفند ایک پاؤں پر کھڑا ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹا رہا تھا
“سر مجھے کل ڈیوٹی جوائن کرنی ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو جانے سے پہلے فاطمہ سے مل لوں ۔۔”
” کب نکل رہے ہو ؟؟ ”
” بس ایک گھنٹے میں نکلنا ہے سر ۔۔۔”
” ٹھیک تم گھر جا کر مل لو میں تو ابھی قبرستان جاؤنگا ۔۔۔” انہوں نے اجازت دی
اسفند گھر کے اندر داخل ہوا تو مسز نقوی نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔
“تمہارے انکل مجھے کال کر چکے ہیں تم اندر جا کر فاطمہ سے مل لو میں اسنیک اور چائے بھجواتی ہوں کوشش کرنا وہ بھی کچھ کھا پی لے دو روز سے بھوکی ہے ۔۔۔۔”
اسفند سر ہلاتا ہوا ان کے بتائے کمرے کی جانب بڑھا دستک دے کر اندر داخل ہوا
سامنے دیوار سے ٹیک لگائے فاطمہ زمین پر بیٹھی ہوئی تھی چہرے اور آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں ۔۔۔۔
” فاطمہ !!! گڑیا اب بس کرو ۔۔۔” وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا
” بابا بابا چلے گئے ۔۔۔۔” اس نے سسکی بھری
” اگر تم اس طرح روؤ گئی کھانا پینا چھوڑ دوگی تو بابا کو بہت تکلیف ہو گئی ۔۔۔فاطمہ تو اچھی لڑکی ہے اپنے بابا کو تکلیف تو نہیں دیگی نا ۔۔۔” اس نے پوچھا
فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا
” اچھا اب میری بات غور سے سنو !! مجھے بیس رپورٹ کرنی ہے تم میرا فون نمبر لکھ لو بلکہ یاد کر لو کوئی بھی مشکل ہو پریشانی ہو مجھے کال کرنا میں آجاؤں گا خود کو اکیلا مت سمجھنا ۔۔۔۔” اس نے اپنا فون نمبر فاطمہ کو رٹوایا
تھوڑی دیر بعد وہ اجازت لیکر اٹھ کھڑا ہوا ________________________ اسامہ اپنے چاچو کے انتقال کے بعد سے چپ چپ تھا وہ مرنے سے پہلے پوری رات اسامہ سے باتیں کرتے رہے تھے اب اسے ان سے کئیے وعدوں پر پورا اترنا تھا ائیر فورس میں کمیشن حاصل کرنا تھا فاطمہ کا خیال رکھنا تھا وقت گزر رہا تھا وہ انٹر کے امتحان دے چکا تھا اور اب سنجیدگی سے انٹیلیجنس ٹیسٹ اور ایکڈیمک ٹیسٹ کی تیاری کررہا تھا اس کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا بس ایک جنون سوار تھا اس کے سارے دوست اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔۔۔۔۔
وقت گزرتا جا رہا تھا فاطمہ چپ چاپ اپنے کمرے میں ہی زیادہ تر وقت گزارتی تھی جب مسز نقوی نے اس کے ڈاکومینٹ منگوا کر فرسٹ ائیر میں اس کا داخلہ کروایا فاطمہ نے اپنے سبجیکٹ پری میڈیکل کے سلیکٹ کئیے تھے وہ بھی اپنی امی کی طرح ڈاکٹر بن کر اپنے بابا کی خواہش پوری کرنا چاہتی تھی کالج میں اس کا وقت اچھا گزر رہا تھا اور گھر میں بھی سکون تھا وہ اپنا کھانا پینا کمرے میں ہی کرتی تھی اسامہ سے اس کا سامنا کافی عرصے سے نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔
اسامہ انٹیلیجنس ٹیسٹ اور پھر اکیڈیمک ٹیسٹ پاس کرچکا تھا میڈیکل بھی ہوگیا تھا اور اب آئی ایس ایس بی کے ٹیسٹ کی تیاری جاری تھی ۔۔۔
وہ حمزہ سے ملکر واپس آرہا تھا جب اسے اسٹاپ پر کالج یونیفارم میں کھڑی لڑکی پر فاطمہ کا گمان ہوا اس نے تیزی سے چوک پر سے اپنی اسپورٹ بائیک گھمائی اور سیدھی فاطمہ کے سامنے لے جاکر روک دی ۔۔۔۔
” تم ادھر کیوں کھڑی ہو ؟؟ ” وہ سن گلاسز اتار کر سر پر ٹکاتے ہوئے بولا
فاطمہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور منھ پھیر کر کھڑی ہو گئی
وہ تپ کر بائیک سے اترا.. ” تمہیں آواز سنائی نہیں دیتی کیا ؟؟ ” اس نے ایک جھٹکے سے فاطمہ کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ___________________________ اسامہ بہت دیر سے گاڑی میں بیٹھا علی کا انتظار کر رہا تھا اسے بیس ٹائم پر پہنچنا تھا اور علی پتا نہیں کیا کررہا تھا ۔۔۔۔وہ تپ کر گاڑی سے اترا تبھی اس کی نگاہ سامنے گاڑی سے اترتے آدمی پر پڑی وہ شاک کی حالت میں اسے دیکھ رہا تھا چند لمحے بعد وہ تیزی سے اس آدمی کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
” اسفند !!! ” اس نے پکارا گاڑی سے نکلتے اسفند نے چونک کر دیکھا تو اسامہ کو دیکھ حیران ہو گیا
اسامہ تیزی سے چلتا ہوا اسفند تک آیا اور اس کا گریبان پکڑ لیا ۔۔۔ ” فاطمہ کہاں ہے ۔۔۔۔” وہ پھنکارا ____________________ اسفند اپنے سامنے اسامہ کو کھڑا دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔۔ ” تم ادھر کیا کررہے ہو؟؟ ” اسفند نے سوال کیا ” بات مت پلٹو !! تین سال سے مسٹر اسفند تمہیں ٹریک کررہا تھا تم پوسٹنگ پر تھے بتاؤ فاطمہ کدھر ہے ؟؟ ” اسامہ غرایا
” کیپٹن اسامہ !! تم آج بھی ویسے ہی ہوں ٹریننگ بھی تمہیں بدل نہیں سکی خیر حالات کی خرابی کی وجہ سے سب پوسٹٹڈ آفیسر کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے میں آج ہی بھبمر پہنچا ہوں تم میرے ساتھ گھر چلو آرام سے بات کرتے ہیں ۔۔۔” اسفند نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹائے
” گھر ؟؟ ” اسامہ حیران ہوا
” میں آزاد کشمیر سے ہی تعلق رکھتا ہوں اور میرا آبائی گھر ادھر بھمبھر ضلع میں ہی ہے بڑے میدان کے پاس ۔۔۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا
” میرے پاس اس سب کا ٹائم نہیں ہے مجھے ایک گھنٹہ میں بیس رپورٹ کرنا ہے اس لئیے میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔”
” گھر چلو !! تمہیں سارے سوالات کے جوابات مل جائینگے ۔۔۔۔” اسفند نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
اسامہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا وہ اسفند کے گھر میں فاطمہ کی حیثیت دیکھنے سے ڈر رہا تھا _________________________ “کیا بدتمیزی ہے !! میرا ہاتھ چھوڑوں ” ملیحہ کا غصہ سے برا حال تھا
” آپ جیسی سر پھری کو ایسے ہی ڈیل کرنا چاہئیے ۔۔۔” حمزہ علی نے سختی سے کہا
وہ ان دونوں کو لیکر گاڑی کے پاس پہنچ گیا تھا ” اندر بیٹھیں !! میں آپ دونوں کو ہسپتال تک لے چلتا ہوں آپ سیمپل ڈراپ کرلیں پھر میں واپس کیمپ تک چھوڑ دونگا ۔۔۔” حمزہ علی نے دروازہ کھول کر ملیحہ کو اندر دھکیل کر ثنا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
” اب یہ کدھر چلا گیا ؟؟ “وہ اسامہ کو چاروں طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑایا اور جیب سے سیل نکال کر اسامہ کا نمبر ملایا
” ہیلو اسامہ !! کہا ہو یار ؟؟ ” اور دوسری طرف کی بات سننے لگا
” ٹھیک ہے پھر کل پرسوں جب بھی ٹائم ملے ضرور ملنا ۔۔۔”علی نے فون رکھا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
” اب آپ گاڑی چلانے کی زحمت کرینگے یا باہر ہی گھورتے رہینگے ۔۔۔۔” ملیحہ تپ کر بولی
حمزہ علی نے خشمگیں نگاہوں سے ملیحہ کو گھورتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی
” ملیحہ بی بی !! ہر وقت کوئلے چبانا چھوڑ دو لڑکیوں میں اتنا ایٹیٹیوڈ نہیں ہونا چاہئیے نقصان پہنچاتا ہے ۔۔” وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولا
” آپ میرے ابا نہیں ہیں جو میرے نفع نقصان کی فکر کریں ڈرائیور ہیں روڈ پر دھیان دیں اور ہمیں جلد ہسپتال پہنچائیں پہلے ہی اتنی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔” وہ بڑے آرام سے اسے ڈرائیور کا درجہ دیتے ہوئے بولی
” استغفرُللہ !!! میں کیوں تمہارا ابا بننے لگا ؟؟؟ ہاں تمہارے بچوں کے ابا بننے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ۔۔۔۔” حمزہ علی نے کانوں کو ہاتھ لگایا
پیچھے خاموشی سے ان دونوں کی تکرار سنتی ثنا کی ہنسی چھوٹ گئی اور ملیحہ کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا
” تم !!! تم اس قابل ہی نہیں ہو کے تمہارے منھ لگا جائے ۔۔۔” وہ غصہ اور حیا سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ گویا ہوئی
حمزہ علی نے مسکراتے ہوئے اس کا یہ روپ اپنی نظروں میں بسایا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی
” لیجئے گرلز آپ کی منزل آگئی جلدی سے سیمپل جمع کروا کر آجائیں پھر آپ کو کیمپ چھوڑ دونگا ۔۔۔” وہ ہسپتال کی مین اینٹرینس پر گاڑی روکتے ہوئے بولا
” حمزہ بھائی !! آپ واقعی پریشان مت ہوں ہمیں شاید تھوڑا ٹائم لگ جائے ہم واپس خود چلے جائینگے ۔۔۔” ثنا نے متانت سے کہا
” ثنا بہن !! میں پریشان نہیں ہوتا آپ آرام سے اپنا کام ختم کرلیں میں ادھر ہی ہوں ان حالات میں ،میں آپ لوگوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔” اس نے رسان سے جواب دیا
” لیکن بھائی ہمیں آگے ایک جگہ اور بھی جانا ہے ۔۔۔” ثنا جھجکتے ہوئے بولی
” آگے ؟؟ آ گے کدھر جانا ہے؟ وہ بھی ان جنگی حالات میں؟؟ یہ یقیناً آپ کی دوست کی ہی کارستانی ہو گئی جو آپ دونوں ان حالات میں گھومنے نکلی ہیں ۔۔۔” وہ ملیحہ کو گھورتے ہوئے بولا
” چلو ثنا !! تم بھی کس ڈھیٹ انسان کے منھ لگ رہی ہو اور مسٹر !!! ” وہ حمزہ علی کی جانب مڑی ” ہم آرمی میڈیکل کالج سے ہیں اپنے کام سے ادھر آئے ہیں اور آگے بھی اپنے کام سے ہی جائینگے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنا راستہ ناپئیے۔۔۔۔” وہ گاڑی سے اترتے ہوئے بولی
حمزہ کی برداشت کی حد ہو چکی تھی یہ لڑکی ملیحہ اس کے برداشت کا امتحان لینے پر تلی ہوئی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اترا اور آگے جاتی ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔۔۔۔ ” محترمہ !!! آپ اس وقت میری ذمہ داری ہیں اور ابھی کیمپ جا کر میں آپ کے ٹیچرز سے بھی بات کرونگا کہ دو جوان لڑکیوں کو ایسے حالات میں جب عام شہری بھی باہر نہیں نکل رہے فائرنگ گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے انہوں نے کیسے باہر بھیجا جب کے ہمارے لوکل سوشل ورکرز کی پوری ٹیم ان کی مدد کیلئے حاضر تھی ۔۔۔۔” وہ الفاظ چبا چبا کر بولا
” بھائی !! پلیز سر تک مت پہنچیں ۔۔۔۔اچھا آپ اور ملیحہ ادھر ہی رکیں میں بس پانچ منٹ میں یہ سیمپل ڈراپ کر کے آئی ۔۔۔” ثنا تیز رفتاری سے اندر کی طرف بڑھی _________________________ اسفند ،اسامہ کو لیکر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا ہی تھا کہ اس کا سیل بجنے لگا ۔اس نے ایک نظر فون کو دیکھا گھر سے کال تھی ” ہیلو ۔۔۔”
” اسفند !! آپ کدھر ہیں ؟؟ اسپتال سے فون آیا ہے اماں کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے ۔۔۔”دوسری طرف سے روہانسی سی نسوانی آواز گونجی
” تم فکر مت کرو میں ابھی ادھر جا کر تمہیں اطلاع کرتا ہوں ۔۔۔” اسفند نے فون بند کیا
” اسامہ !! ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے مجھے فوری ہاسپٹل پہنچا ہے میں تمہیں بیس چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔تم میرا نمبر نوٹ کرو ٹائم نکال کر ملتے ہیں ۔۔۔” اسفند نے اپنا نمبر اسے بتاتے ہوئے کہا
” کوئی بات نہیں !! بیس ہاسپٹل سے زیادہ دور نہیں ہے آپ ادھر ہی چلیں میں وہاں سے خود ہی چلا جاؤنگا ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
کچھ دیر گاڑی میں سناٹا چھا گیا گاڑی تیز رفتار سے دوڑ رہی تھی ہاسپٹل کی پارکنگ میں پہنچ اسفند نے گم سم بیٹھے اسامہ کو مخاطب کیا
” تمہیں کتنے بجے رپورٹ کرنا ہے ؟؟ ” اسفند نے پوچھا
” رات کی ائیر پٹرولنگ ہے ۔۔۔ابھی ٹائم ہے ۔۔” اس نے جواب دیا
” ٹھیک ہے تو بس میرا ویٹ کرو میں ابھی اماں کو دیکھ کر آیا پھر تمہیں بیس چھوڑ دونگا اور راستے میں بات چیت بھی کرلینگے ۔۔” اسفند نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر کی جانب چلا گیا اسامہ تھوڑی دیر گاڑی میں بیٹھا رہا اسے ایک عجیب سا مانوس سا احساس سا ہو رہا تھا پھر وہ خود بھی نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھا اس کا ارادہ اسفند کی اماں کی طبیعت معلوم کرنے کا تھا ۔
جاری ہے
Leave a Reply