عقاب از سیما شاہد قسط نمبر 9
تم ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ ڈرائیور کدھر ہے ۔۔۔” وہ بائیک سے اتر کر فاطمہ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
” اس کا بچہ بیمار تھا اسلئیے اسے منع کردیا تھا ویسے بھی ویگن آتی ہی ہوگئ ۔۔۔” وہ سڑک کی جانب دیکھ رہی تھی ” آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔” وہ اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بائیک کی جانب بڑھا
” نہیں پلیز آپ جائیں میں خود چلی جاؤنگی ۔۔” فاطمہ نے فوراً انکار کیا
” فاطمہ !!! مجھے انکار سننا پسند نہیں تم آرہی ہو یا میں آؤ ؟؟ ” وہ پلٹ کر سرد لہجے میں بولا فاطمہ کوئی نیا تماشہ نہیں چاہتی تھی اسلئیے سانس بھرتے ہوئے اس کی بائیک کے پاس آکر کھڑی ہو گئی
“اب کیا تمہیں بائیک پر بیٹھنے کے لیے کیا باقاعدہ انویٹیشن دینا ہوگا؟؟”وہ گلاسز پہنتے ہوئے تپ کر بولا
“میں آج تک بائیک پر نہیں بیٹھی مجھے ڈر لگتا ہے اور بیٹھنا بھی نہیں آتا!!! ” وہ اٹک اٹک کر بولی
” او گاڈ ۔۔۔۔” وہ نیچے اترا
اس نے فاطمہ کو خود پیچھے بیٹھ کر دکھایا سمجھایا کہ کیسے بیٹھنا ہے ۔۔۔
فاطمہ بہت ہی جھجکتے ہوئے پیچھے بیٹھی فاطمہ کے بیٹھتے ہی اس نے بائیک کو ایک زور سے کک لگائی اسامہ بائیک کو پوری کوشش کر کے اپنے مزاج کے برخلاف کم اسپیڈ پر چلا رہا تھا مگر پھر بھی فاطمہ کی حالت بری تھی وہ پیچھے بیٹھی خوف سے کپکپا رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ وہ اب گری کے اب !!! گھر پر پہنچ کر بائیک کے رکتے ہی وہ اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اتری ۔۔
اسامہ نے بڑی حیرانی سے فاطمہ کے فق چہرے کو دیکھا ۔۔۔ ” کیا ہوا !! سب ٹھیک تو ہے تمہارا منھ کیوں بنا ہوا ہے ؟؟ ایک تو تمہیں اتنی دھوپ میں بسوں کے دھکوں سے بچا کر گھر لے کر آیا ہوں اور تم بجائے شکریہ کے منھ بنائے کھڑی ہو !! ” وہ جاتی ہوئی فاطمہ کی کلائی پکڑ کر روکتے ہوئے بولا
” مم میں ٹھیک ہوں !! ” وہ منمنائی آج تقریباً چار ماہ بعد اس کا سامنا اسامہ سے ہوا تھا
” اچھا یہ بتاؤ کالج کیسا چل رہا ہے اسٹیڈیز میں کوئی ہیلپ چاہئیے کیا ؟؟ ” اسامہ نے نرمی سے پوچھا
” سب ٹھیک ہے پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔” وہ ہاتھ چھڑا کر اس کی بولتی نظروں کے سامنے سے غائب ہو جانا چاہتی تھی
” میں اپنے آ ئی ایس ایس بی ٹیسٹ کی تیاریوں میں اتنا مصروف تھا کہ تم سے بھی ملاقات نہیں کرپایا لیکن یو نو یہ میں ہمارے لئیے ہی کررہا ہوں ۔۔۔” اس نے فاطمہ کے جھکے ہوئے سر کو بغور دیکھا ” اچھا اپنے سبجیکٹ تو بتاؤ ؟؟ میں تمہیں اپنے نوٹس نکال دونگا ۔۔۔” اس نے آ فر کی
” نہیں اس کی ضروت نہیں ہے ۔۔۔” وہ کسی بھی طرح غائب ہو جانا چاہتی تھی
” کیا تمہیں فزکس کیمسٹری کسی بھی سبجیکٹ میں ہیلپ یا ریفرنس بک کی ضرورت نہیں ہے ؟؟” اس نے سوال کیا
” میرے پاس آرٹس کے سبجیکٹ ہیں سب ہی بہت آسان ہیں کوئی ہیلپ کی ضرورت نہیں ۔۔۔”وہ بڑے آرام سے بولی
” آرٹس ؟؟ تم نے سائنس نہیں لی ۔۔۔” وہ حیران ہوا
” نہیں ۔۔” وہ سر جھکائے ہوئے بولی
” چلو کوئی بات نہیں میں ہوں نا !! ویسے بھی مرد کو اسٹرانگ ہونا چاہیے !! تمہیں جو اچھا لگے وہ پڑھو ۔۔۔۔” وہ ہنستے ہوئے اپنی گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے بولا
فاطمہ گرفت ڈھیلی پڑتے ہی اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی تیزی سے اندر بھاگ گئی ________________________ اسامہ کا سلیکشن ہو گیا تھا اس کی خوشی اپنے عروج پر تھی اب جلد ہی اسے اکیڈمی جوائن کرنی تھی وہ آجکل اسی تیاریوں میں مصروف تھا وقت کم تھا کام زیادہ دوستوں سے ملنا ملانا چل رہا تھا علی بھی لندن جا رہا تھا ہائیر اسٹیڈیز کے لئیے ۔۔۔ شام کا وقت تھا محسن نقوی صاحب اور نوشابہ فاطمہ کے ساتھ لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب اسامہ کی گاڑی پورٹیکو میں آکر رکی ۔۔۔
کار کا دروازہ بند کرکے وہ جیسے ہی سیدھا ہوا اس کی نظر ممی ڈیڈ کے ساتھ بیٹھی فاطمہ پر پڑی سبز لباس میں اس کی شہابی رنگت کھلی پڑ رہی تھی دوپٹے سر پر تھا مگر ڈوپٹے سے جھانکتے سیاہ بال ہوا سے شرارت کر رہے تھے ۔۔۔وہ کتنی دیر ساکت سا کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ڈیڈ کی آواز پر چونکتا ہوا ان سب کی جانب بڑھا
” اسلام علیکم !! ” اس نے سب کو سلام کیا اور کرسی گھسیٹ کر فاطمہ کے پاس بیٹھ گیا
” اسامہ بیٹا کہاں مصروف ہو ؟؟ کبھی گھر میں بھی ٹک جایا کرو ۔۔۔” نوشابہ نے شکایت کی
” ڈیڈ مجھے آپ سے ایک بہت امپورٹنٹ بات کرنی ہے ۔۔۔” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
” کیا بات ہے ؟؟ ” انہوں نے چشمہ اتارتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
” آپ جانتے ہیں ایک ہفتے بعد مجھے اکیڈمی جوائن کرنی ہے اس لئیے میں چاہتا ہوں میرے جانے سے پہلے آپ میرا اور فاطمہ کا نکاح کروا دیں ۔۔” وہ مضبوط لہجے میں بولا
فاطمہ تیزی سے ضبط کرتی ہوئی اٹھی اور بنا رکے سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی
محسن نقوی صاحب نے بغور فاطمہ کو جاتے ہوئے دیکھا
“اسامہ نکاح کیلئے لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہوتی ہے ویسے تمہیں اتنی جلدی کیا ہے ؟؟ ” انہوں نے سوال کیا
” ڈیڈ مجھے کچھ نہیں پتا آپ نے کہا تھا کمیشن لے کر دکھاؤ چاچو نے کہا تھا جس دن تمہارا سلیکشن ہوگیا رشتہ طے کر دینگے تو پھر اب آپ انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔” وہ اکھڑ لہجے میں بولا
” نوشابہ آپ کل فاطمہ کی رضامندی لے لیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔” انہوں نے ہدایت دی پھر اسامہ کی طرف پلٹے
” اور صاحبزادے آپ اب آرام کریں کل فاطمہ سے بات کرکے تم سے بات کرونگا ۔۔۔ ________________________ وہ کافی دیر سے بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی پر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اسامہ بہت بدل چکا تھا اور اسامہ کی آنکھوں سے جھانکتے منھ زور جذبات اس سے پوشیدہ نہیں تھے مگر اس کا دل ابھی اسامہ پر بھروسہ کرنے کو راضی نہیں تھا ۔۔۔
” میں بس ان کی ضد ہوں جسے حاصل کرکے وہ نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔۔”
وہ الجھی سلجھی سوچوں سے گھبرا کر اٹھ بیٹھی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ، گھڑی دیکھی رات کے دس بج رہے تھے نوشابہ اور محسن صاحب ایک عشائیہ میں شرکت کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہ اٹھ کر دوپٹہ شانوں پر درست کرتی ہوئی کچن کی جانب بڑھی ارادہ چائے بنانے کا تھا ۔۔۔ ______________ اسامہ گھر واپس آیا تو کچن میں لائٹ جلتی دیکھ کر کچن کے دروازے تک آیا اندر وہی دشمن جان چولہے کے پاس کھڑی بڑے انہماک سے چائے بنا رہی تھی ۔۔۔
” کیا ہو رہا ہے ؟؟ ” وہ بولتے ہوئے اندر داخل ہوا
اسامہ کی آواز سنتے ہی وہ کانپ سی گئی چائے کا کپ اس کے ہاتھوں میں لرز کر رہ گیا
” ارے یار میں کوئی بھوت تھوڑی ہو جو تم مجھے دیکھتے ہی ڈر جاتی ہو !! خیر چھوڑو سب اچھا ہوا تم مجھے ادھر ہی مل گئی مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔” وہ اس کے لرزتے ہاتھوں سے کپ لیکر میز پر رکھتے ہوئے بولا
فاطمہ آج شام اس کی نکاح کی خواہش سن چکی تھی وہ اس سے بچ رہی تھی اس وقت بھی اس کا دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے پیچھے مڑی اور بھاگتی ہوئی اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھی ارادہ خود کو کمرے میں بند کر لینے کا تھا
اسامہ نے حیرت سے اس کے رویہ کو دیکھا پھر ایک جست میں لمبے لمبے قدم اٹھاتا اسے سیڑھیوں پر جا لیا تھا
” یہ کیا حرکت تھی ؟؟ ” وہ اتنے غصے سے بولا کہ فاطمہ کانپ کر رہ گئی
اگلے ہی پل اسامہ نے اس کا بازو دبوچا اور اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لاکر دیوار سے لگا کر اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا
” دیکھو فاطمہ ہر بات کی ہر رویہ کی ایک حد ہوتی ہے ایسا رویہ اختیار کر کے تم دن بدن میری ضد میرا جنون بنتی جا رہی ہو ۔۔۔” وہ غرایا
فاطمہ کا چہرا شدت ضبط سے سرخ پڑ گیا تھا اسامہ کا خوف ، اس کی اس پل اتنی نزدیکی ، اس کا غصہ فاطمہ کو ڈرا رہا تھا وہ لرز رہی تھی اسامہ نے بہت افسوس سے اس کی یہ حالت دیکھی
” مانا کہ میں بہت غصہ والا ہوں ، جنونی ہوں مگر تمہارے معاملہ میں میرا دل میرا دماغ بدل چکا ہے تمہیں مجھ سے اسامہ نقوی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔” وہ نرمی سے اس کے چہرے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولا ۔۔
فاطمہ ایک جھرجھری لیکر پیچھے ہوئی
“میں تمہارا بہت خیال رکھوں گا میں سمجھدار ہو بہت جلد ہی اپنا کیریئر بھی بنا لونگا بس تم مجھ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو۔۔۔”وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا
“آپ پلیز راستہ چھوڑیں ۔۔۔” وہ غصہ دباتے ہوئے بولی
“ایک دن !!! تم دیکھنا ایک دن میں بھی تمہارے سوکالڈ ہیرو کی طرح ائیر فورس آفیسر بنوں گا اور دنیا تسلیم کریگی مجھ سے بڑا جنونی پائیلٹ کہیں نہیں دیکھا !! ” وہ جذب سے کہہ رہا تھا
فاطمہ خاموشی سے سر جھکائے اپنے جوتوں کو دیکھ رہی تھی وہ کسی بھی طرح اس گھر سے اس گھر کے مکینوں سے اسامہ سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔
” میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا دنیا کی ہر نعمت تمہارے قدموں میں لا کے ڈال دوں گا تمہارے لئے خوبصورت سا گھر بناؤں گا جہاں ہم دونوں مل کر رہیں گے۔۔۔بس تم شادی کیلئے ایگری کرلو کل جب مام تم سے جواب طلب کریں تو تمہارے لبوں سے صرف اور صرف اقرار کا اظہار ہونا چاہئے !!! انڈر اسٹینڈ ۔۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
” مم میں ۔۔۔” فاطمہ نے ہمت جمع کر کے سر اٹھایا
” مجھے ابھی پڑھنا ہے میں شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔”
“مجھے پتہ ہے تم ابھی بہت چھوٹی ہو میں تمہارے اٹھارہ سال کے ہونے کا ویٹ کروں گا اس طرح مجھے بھی دو سال مل جائیں گے جب میں اکیڈمی سے واپس آؤں گا تو پھر رخصتی کرواؤنگا ابھی ہم صرف نکاح کرینگے ۔۔” اس نے سنجیدگی سے سمجھایا ۔
اس نے فاطمہ کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا
” تم فکر مت کریں ابھی تو میری ٹریننگ میں ہی دوسال لگنے ہیں اس لئیے بیفکر ہو کر اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔۔۔۔” اس نے فاطمہ کو دلاسا دیا
“آپ !!! تو آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ آپ بھی اپنی ٹریننگ کریں اور پلیز مجھے بھی پڑھنے دیں ابھی یہ سب ضروری تو نہیں ؟؟ ” وہ سر اٹھا کر بولی اسامہ نے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیا ۔۔۔
” ضروری ہے !! میں تمہیں اکیلا اس طرح آزاد نہیں چھوڑ سکتا ایک بار بس ایک بار میرے نام ہو جاؤ پھر میں آرام سے اپنا دھیان ٹریننگ پر لگاؤں گا اور تم آرام سے پڑھتی رہنا ۔۔۔”
” آپ پلیز راستہ چھوڑیں ۔۔۔” وہ زچ ہو کر رہ گئی تھی
” جاؤ !! آرام کرو ویسے بھی تمہیں ابھی اپنے اچھے برے کا علم نہیں ہے یہ اہم فیصلہ بھی مجھے ہی کرنا ہوگا ۔۔۔” وہ ایک کونے پر ہو کر اسے راستہ دیتے ہوئے بولا
وہ اس کے سامنے سے ہٹتے ہی تیزی سے کنی کتراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔
__________________________ صبح فجر کا وقت تھا پورا گھر سویا پڑا تھا وہ نماز پڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
آج کافی عرصے بعد اس کے اندر پھر حساسیت کی لہر اٹھ رہی تھی خاموشی سے باہر لان میں آکر چہل قدمی کرنے لگی ہلکی ہلکی ٹھنڈی سی ہوا نے ماحول میں سوگواری اور بھی بڑھا دی تھی وہ خاموشی سے جاکر جھولے پر بیٹھ گئی اسامہ کا جارحانہ انداز دیکھ کر ، اس کی باتیں سن کر اس کا دل مضطرب ہو گیا تھا ۔۔۔
” اللہ میاں آپ نے ایسا کیوں کیا ؟؟؟ میرے بابا مجھ سے لے لئیے اور یہ جنونی انسان میرے پیچھے لگا دیا !! یا اللہ میری محبت اس کے دل سے نکال دے یا اللہ مجھے اس مشکل سے نکال ۔۔۔” وہ فجر کے وقت جھولے پر بیٹھی اللہ سے گلے شکوے کررہی تھی دن چڑھ آیا تھا صبح کے نو بج رہے تھے گھر میں کھٹر پٹر شروع ہو چکی تھی وہ پژمزدہ انداز میں اٹھی اور اندر کمرے کی جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ لیونگ روم سے نوشابہ نے اسے آواز دی ۔۔۔
” فاطمہ بیٹی ذرا ادھر تو آؤ!! ”
” اسلام علیکم آنٹی ۔۔۔” وہ سلام کرتی ہوئی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی انہوں نے ملازمہ کو اس کے لئیے جوس لانے کا کہا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوئیں
” بیٹا بہت پہلے میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے ممی بولا کرو !! تم نے مان بھی لیا تھا مگر پھر …. خیر تم مانو یا نہ مانو میرے لئیے تو تم ہمیشہ ہی میری بیٹی رہوگی ۔۔۔” انہوں نے اس کے شرمندہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بات مکمل کی
” اچھا چھوڑو سب بس ایک بات بتاؤ اسامہ ! تمہیں کیسا لگتا ہے؟” انہوں نے سوال کیا
” جی ” ان کے اس سوال پر وہ ایک دم گھبرا اٹھی
” دیکھو بیٹی اسامہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میں تمہاری اس بارے میں رائے جاننا چاہتی ہوں تم دونوں ہی ابھی بہت چھوٹے ہو اس لئیے ہم سوچ رہے ہیں اگر تم راضی ہو تو ابھی صرف نکاح کر دیتے ہیں !! تم بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟؟ ” انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا
” آنٹی !!! ” فاطمہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی
” کیا واقعی آپ میری بات سنیں گی ؟؟ مانے گی ؟؟ ” وہ بھرائے ہوئے لہجے میں، آنکھوں میں بڑی آس لئیے انہیں دیکھ رہی تھی
” فاطمہ تمہیں بیٹی صرف زبان سے نہیں کہا ہے بلکہ دل سے مانا ہے تم بے جھجک ہو کر بولو ۔۔۔” انہوں نے اس کی ہمت بندھائی
” وہ مجھے !! مجھے ابھی پڑھنا ہے میں ابھی ابھی آپ پلیز انکل کو منع کردیں ابھی کچھ نہیں کریں مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔” وہ الجھے الجھے انداز میں اپنی بات ان تک پہچانے کی کوشش کر رہی تھی
” ٹھیک ہے بیٹا کوئی زبردستی نہیں ہے میں تمہارے انکل کو تمہارا انکار پہنچا دونگی ۔۔۔” نوشابہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ان کے چہرے پر اس وقت بلا کا تفکر چھایا ہوا تھا ___________________________ اسامہ کو آج علی کو سی آف کرنے جانا تھا وہ جلدی جلدی تیار ہو رہا تھا جب دروازہ ہلکا سا ناک کر کے محسن نقوی صاحب اندر داخل ہوئے
” گڈ مارننگ ڈیڈ ۔۔”
” ینگ مین کہاں کی تیاری ہے ؟؟ ”
” ڈیڈ علی لندن لاء اسکول جوائن کررہا ہے اسے ائیر پورٹ ڈراپ کرنے جا رہا ہوں ۔۔۔”
” دس منٹ ہیں تمہارے پاس ؟؟ ”
” کم آن ڈیڈ !! آپ بتائیں کیا بات ہے ؟؟ ”
“ایک بات پوچھنی ہے یہ بتاؤ تم فاطمہ کو پسند کرتے ہو یا وہ بس ایک ضد ہے تمہارے لیے ؟؟ ”
” ڈیڈ میں آپ کو کیا بتاؤں !! میں فاطمہ کو پسند نہیں کرتا بلکہ بات پسندیدگی سے بھی آگے کی ہے میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں اور آپکو پتا ہے پہلی ملاقات سے لیکر کچھ عرصہ تک میں اس سے سخت چڑتا تھا وہ بس ایک چیلنج تھی میرے لئیے پھر اچانک سے وہ مجھے اچھی لگنے لگی میں نہیں چاہتا اسے میرے سوا کوئی اور دیکھے بس آپ جلدی سے اسے میرے نام کر دیں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” اسامہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے ؟؟ ” انہوں نے پوچھا
” کیسی بات کررہے ہیں ڈیڈ آپ ؟؟ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ ”
” اسامہ ابھی تم دو سال کی ٹریننگ پر جا رہے ہو فوج میں اس دوران آپ کا اسٹیٹس سنگل ہونا چاہئیے یہ ایک ریکوارمنٹ ہے اس لئیے ابھی ہم یہ نکاح نہیں کرسکتے ۔۔۔۔” انہوں نے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا
” لیکن ڈیڈ ؟؟ ” وہ الجھا
” وہ اس گھر میں تمہاری امانت ہے تم اپنی ٹریننگ مکمل کرو پھر وعدہ تمہارے آتے ہی نکاح پکا ۔۔۔”
اسامہ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔ ” ٹھیک ہے ڈیڈ !! لیکن دوسال بعد نکاح نہیں مکمل شادی ہوگئی بولئیے منظور ہے..
جاری ہے
” اس کا بچہ بیمار تھا اسلئیے اسے منع کردیا تھا ویسے بھی ویگن آتی ہی ہوگئ ۔۔۔” وہ سڑک کی جانب دیکھ رہی تھی ” آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔” وہ اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بائیک کی جانب بڑھا
” نہیں پلیز آپ جائیں میں خود چلی جاؤنگی ۔۔” فاطمہ نے فوراً انکار کیا
” فاطمہ !!! مجھے انکار سننا پسند نہیں تم آرہی ہو یا میں آؤ ؟؟ ” وہ پلٹ کر سرد لہجے میں بولا فاطمہ کوئی نیا تماشہ نہیں چاہتی تھی اسلئیے سانس بھرتے ہوئے اس کی بائیک کے پاس آکر کھڑی ہو گئی
“اب کیا تمہیں بائیک پر بیٹھنے کے لیے کیا باقاعدہ انویٹیشن دینا ہوگا؟؟”وہ گلاسز پہنتے ہوئے تپ کر بولا
“میں آج تک بائیک پر نہیں بیٹھی مجھے ڈر لگتا ہے اور بیٹھنا بھی نہیں آتا!!! ” وہ اٹک اٹک کر بولی
” او گاڈ ۔۔۔۔” وہ نیچے اترا
اس نے فاطمہ کو خود پیچھے بیٹھ کر دکھایا سمجھایا کہ کیسے بیٹھنا ہے ۔۔۔
فاطمہ بہت ہی جھجکتے ہوئے پیچھے بیٹھی فاطمہ کے بیٹھتے ہی اس نے بائیک کو ایک زور سے کک لگائی اسامہ بائیک کو پوری کوشش کر کے اپنے مزاج کے برخلاف کم اسپیڈ پر چلا رہا تھا مگر پھر بھی فاطمہ کی حالت بری تھی وہ پیچھے بیٹھی خوف سے کپکپا رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ وہ اب گری کے اب !!! گھر پر پہنچ کر بائیک کے رکتے ہی وہ اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اتری ۔۔
اسامہ نے بڑی حیرانی سے فاطمہ کے فق چہرے کو دیکھا ۔۔۔ ” کیا ہوا !! سب ٹھیک تو ہے تمہارا منھ کیوں بنا ہوا ہے ؟؟ ایک تو تمہیں اتنی دھوپ میں بسوں کے دھکوں سے بچا کر گھر لے کر آیا ہوں اور تم بجائے شکریہ کے منھ بنائے کھڑی ہو !! ” وہ جاتی ہوئی فاطمہ کی کلائی پکڑ کر روکتے ہوئے بولا
” مم میں ٹھیک ہوں !! ” وہ منمنائی آج تقریباً چار ماہ بعد اس کا سامنا اسامہ سے ہوا تھا
” اچھا یہ بتاؤ کالج کیسا چل رہا ہے اسٹیڈیز میں کوئی ہیلپ چاہئیے کیا ؟؟ ” اسامہ نے نرمی سے پوچھا
” سب ٹھیک ہے پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔” وہ ہاتھ چھڑا کر اس کی بولتی نظروں کے سامنے سے غائب ہو جانا چاہتی تھی
” میں اپنے آ ئی ایس ایس بی ٹیسٹ کی تیاریوں میں اتنا مصروف تھا کہ تم سے بھی ملاقات نہیں کرپایا لیکن یو نو یہ میں ہمارے لئیے ہی کررہا ہوں ۔۔۔” اس نے فاطمہ کے جھکے ہوئے سر کو بغور دیکھا ” اچھا اپنے سبجیکٹ تو بتاؤ ؟؟ میں تمہیں اپنے نوٹس نکال دونگا ۔۔۔” اس نے آ فر کی
” نہیں اس کی ضروت نہیں ہے ۔۔۔” وہ کسی بھی طرح غائب ہو جانا چاہتی تھی
” کیا تمہیں فزکس کیمسٹری کسی بھی سبجیکٹ میں ہیلپ یا ریفرنس بک کی ضرورت نہیں ہے ؟؟” اس نے سوال کیا
” میرے پاس آرٹس کے سبجیکٹ ہیں سب ہی بہت آسان ہیں کوئی ہیلپ کی ضرورت نہیں ۔۔۔”وہ بڑے آرام سے بولی
” آرٹس ؟؟ تم نے سائنس نہیں لی ۔۔۔” وہ حیران ہوا
” نہیں ۔۔” وہ سر جھکائے ہوئے بولی
” چلو کوئی بات نہیں میں ہوں نا !! ویسے بھی مرد کو اسٹرانگ ہونا چاہیے !! تمہیں جو اچھا لگے وہ پڑھو ۔۔۔۔” وہ ہنستے ہوئے اپنی گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے بولا
فاطمہ گرفت ڈھیلی پڑتے ہی اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی تیزی سے اندر بھاگ گئی ________________________ اسامہ کا سلیکشن ہو گیا تھا اس کی خوشی اپنے عروج پر تھی اب جلد ہی اسے اکیڈمی جوائن کرنی تھی وہ آجکل اسی تیاریوں میں مصروف تھا وقت کم تھا کام زیادہ دوستوں سے ملنا ملانا چل رہا تھا علی بھی لندن جا رہا تھا ہائیر اسٹیڈیز کے لئیے ۔۔۔ شام کا وقت تھا محسن نقوی صاحب اور نوشابہ فاطمہ کے ساتھ لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب اسامہ کی گاڑی پورٹیکو میں آکر رکی ۔۔۔
کار کا دروازہ بند کرکے وہ جیسے ہی سیدھا ہوا اس کی نظر ممی ڈیڈ کے ساتھ بیٹھی فاطمہ پر پڑی سبز لباس میں اس کی شہابی رنگت کھلی پڑ رہی تھی دوپٹے سر پر تھا مگر ڈوپٹے سے جھانکتے سیاہ بال ہوا سے شرارت کر رہے تھے ۔۔۔وہ کتنی دیر ساکت سا کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ڈیڈ کی آواز پر چونکتا ہوا ان سب کی جانب بڑھا
” اسلام علیکم !! ” اس نے سب کو سلام کیا اور کرسی گھسیٹ کر فاطمہ کے پاس بیٹھ گیا
” اسامہ بیٹا کہاں مصروف ہو ؟؟ کبھی گھر میں بھی ٹک جایا کرو ۔۔۔” نوشابہ نے شکایت کی
” ڈیڈ مجھے آپ سے ایک بہت امپورٹنٹ بات کرنی ہے ۔۔۔” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
” کیا بات ہے ؟؟ ” انہوں نے چشمہ اتارتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
” آپ جانتے ہیں ایک ہفتے بعد مجھے اکیڈمی جوائن کرنی ہے اس لئیے میں چاہتا ہوں میرے جانے سے پہلے آپ میرا اور فاطمہ کا نکاح کروا دیں ۔۔” وہ مضبوط لہجے میں بولا
فاطمہ تیزی سے ضبط کرتی ہوئی اٹھی اور بنا رکے سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی
محسن نقوی صاحب نے بغور فاطمہ کو جاتے ہوئے دیکھا
“اسامہ نکاح کیلئے لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہوتی ہے ویسے تمہیں اتنی جلدی کیا ہے ؟؟ ” انہوں نے سوال کیا
” ڈیڈ مجھے کچھ نہیں پتا آپ نے کہا تھا کمیشن لے کر دکھاؤ چاچو نے کہا تھا جس دن تمہارا سلیکشن ہوگیا رشتہ طے کر دینگے تو پھر اب آپ انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔” وہ اکھڑ لہجے میں بولا
” نوشابہ آپ کل فاطمہ کی رضامندی لے لیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔” انہوں نے ہدایت دی پھر اسامہ کی طرف پلٹے
” اور صاحبزادے آپ اب آرام کریں کل فاطمہ سے بات کرکے تم سے بات کرونگا ۔۔۔ ________________________ وہ کافی دیر سے بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی پر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اسامہ بہت بدل چکا تھا اور اسامہ کی آنکھوں سے جھانکتے منھ زور جذبات اس سے پوشیدہ نہیں تھے مگر اس کا دل ابھی اسامہ پر بھروسہ کرنے کو راضی نہیں تھا ۔۔۔
” میں بس ان کی ضد ہوں جسے حاصل کرکے وہ نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔۔”
وہ الجھی سلجھی سوچوں سے گھبرا کر اٹھ بیٹھی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ، گھڑی دیکھی رات کے دس بج رہے تھے نوشابہ اور محسن صاحب ایک عشائیہ میں شرکت کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہ اٹھ کر دوپٹہ شانوں پر درست کرتی ہوئی کچن کی جانب بڑھی ارادہ چائے بنانے کا تھا ۔۔۔ ______________ اسامہ گھر واپس آیا تو کچن میں لائٹ جلتی دیکھ کر کچن کے دروازے تک آیا اندر وہی دشمن جان چولہے کے پاس کھڑی بڑے انہماک سے چائے بنا رہی تھی ۔۔۔
” کیا ہو رہا ہے ؟؟ ” وہ بولتے ہوئے اندر داخل ہوا
اسامہ کی آواز سنتے ہی وہ کانپ سی گئی چائے کا کپ اس کے ہاتھوں میں لرز کر رہ گیا
” ارے یار میں کوئی بھوت تھوڑی ہو جو تم مجھے دیکھتے ہی ڈر جاتی ہو !! خیر چھوڑو سب اچھا ہوا تم مجھے ادھر ہی مل گئی مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔” وہ اس کے لرزتے ہاتھوں سے کپ لیکر میز پر رکھتے ہوئے بولا
فاطمہ آج شام اس کی نکاح کی خواہش سن چکی تھی وہ اس سے بچ رہی تھی اس وقت بھی اس کا دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے پیچھے مڑی اور بھاگتی ہوئی اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھی ارادہ خود کو کمرے میں بند کر لینے کا تھا
اسامہ نے حیرت سے اس کے رویہ کو دیکھا پھر ایک جست میں لمبے لمبے قدم اٹھاتا اسے سیڑھیوں پر جا لیا تھا
” یہ کیا حرکت تھی ؟؟ ” وہ اتنے غصے سے بولا کہ فاطمہ کانپ کر رہ گئی
اگلے ہی پل اسامہ نے اس کا بازو دبوچا اور اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لاکر دیوار سے لگا کر اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا
” دیکھو فاطمہ ہر بات کی ہر رویہ کی ایک حد ہوتی ہے ایسا رویہ اختیار کر کے تم دن بدن میری ضد میرا جنون بنتی جا رہی ہو ۔۔۔” وہ غرایا
فاطمہ کا چہرا شدت ضبط سے سرخ پڑ گیا تھا اسامہ کا خوف ، اس کی اس پل اتنی نزدیکی ، اس کا غصہ فاطمہ کو ڈرا رہا تھا وہ لرز رہی تھی اسامہ نے بہت افسوس سے اس کی یہ حالت دیکھی
” مانا کہ میں بہت غصہ والا ہوں ، جنونی ہوں مگر تمہارے معاملہ میں میرا دل میرا دماغ بدل چکا ہے تمہیں مجھ سے اسامہ نقوی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔” وہ نرمی سے اس کے چہرے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولا ۔۔
فاطمہ ایک جھرجھری لیکر پیچھے ہوئی
“میں تمہارا بہت خیال رکھوں گا میں سمجھدار ہو بہت جلد ہی اپنا کیریئر بھی بنا لونگا بس تم مجھ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو۔۔۔”وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا
“آپ پلیز راستہ چھوڑیں ۔۔۔” وہ غصہ دباتے ہوئے بولی
“ایک دن !!! تم دیکھنا ایک دن میں بھی تمہارے سوکالڈ ہیرو کی طرح ائیر فورس آفیسر بنوں گا اور دنیا تسلیم کریگی مجھ سے بڑا جنونی پائیلٹ کہیں نہیں دیکھا !! ” وہ جذب سے کہہ رہا تھا
فاطمہ خاموشی سے سر جھکائے اپنے جوتوں کو دیکھ رہی تھی وہ کسی بھی طرح اس گھر سے اس گھر کے مکینوں سے اسامہ سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔
” میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا دنیا کی ہر نعمت تمہارے قدموں میں لا کے ڈال دوں گا تمہارے لئے خوبصورت سا گھر بناؤں گا جہاں ہم دونوں مل کر رہیں گے۔۔۔بس تم شادی کیلئے ایگری کرلو کل جب مام تم سے جواب طلب کریں تو تمہارے لبوں سے صرف اور صرف اقرار کا اظہار ہونا چاہئے !!! انڈر اسٹینڈ ۔۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
” مم میں ۔۔۔” فاطمہ نے ہمت جمع کر کے سر اٹھایا
” مجھے ابھی پڑھنا ہے میں شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔”
“مجھے پتہ ہے تم ابھی بہت چھوٹی ہو میں تمہارے اٹھارہ سال کے ہونے کا ویٹ کروں گا اس طرح مجھے بھی دو سال مل جائیں گے جب میں اکیڈمی سے واپس آؤں گا تو پھر رخصتی کرواؤنگا ابھی ہم صرف نکاح کرینگے ۔۔” اس نے سنجیدگی سے سمجھایا ۔
اس نے فاطمہ کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا
” تم فکر مت کریں ابھی تو میری ٹریننگ میں ہی دوسال لگنے ہیں اس لئیے بیفکر ہو کر اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔۔۔۔” اس نے فاطمہ کو دلاسا دیا
“آپ !!! تو آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ آپ بھی اپنی ٹریننگ کریں اور پلیز مجھے بھی پڑھنے دیں ابھی یہ سب ضروری تو نہیں ؟؟ ” وہ سر اٹھا کر بولی اسامہ نے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیا ۔۔۔
” ضروری ہے !! میں تمہیں اکیلا اس طرح آزاد نہیں چھوڑ سکتا ایک بار بس ایک بار میرے نام ہو جاؤ پھر میں آرام سے اپنا دھیان ٹریننگ پر لگاؤں گا اور تم آرام سے پڑھتی رہنا ۔۔۔”
” آپ پلیز راستہ چھوڑیں ۔۔۔” وہ زچ ہو کر رہ گئی تھی
” جاؤ !! آرام کرو ویسے بھی تمہیں ابھی اپنے اچھے برے کا علم نہیں ہے یہ اہم فیصلہ بھی مجھے ہی کرنا ہوگا ۔۔۔” وہ ایک کونے پر ہو کر اسے راستہ دیتے ہوئے بولا
وہ اس کے سامنے سے ہٹتے ہی تیزی سے کنی کتراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔
__________________________ صبح فجر کا وقت تھا پورا گھر سویا پڑا تھا وہ نماز پڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
آج کافی عرصے بعد اس کے اندر پھر حساسیت کی لہر اٹھ رہی تھی خاموشی سے باہر لان میں آکر چہل قدمی کرنے لگی ہلکی ہلکی ٹھنڈی سی ہوا نے ماحول میں سوگواری اور بھی بڑھا دی تھی وہ خاموشی سے جاکر جھولے پر بیٹھ گئی اسامہ کا جارحانہ انداز دیکھ کر ، اس کی باتیں سن کر اس کا دل مضطرب ہو گیا تھا ۔۔۔
” اللہ میاں آپ نے ایسا کیوں کیا ؟؟؟ میرے بابا مجھ سے لے لئیے اور یہ جنونی انسان میرے پیچھے لگا دیا !! یا اللہ میری محبت اس کے دل سے نکال دے یا اللہ مجھے اس مشکل سے نکال ۔۔۔” وہ فجر کے وقت جھولے پر بیٹھی اللہ سے گلے شکوے کررہی تھی دن چڑھ آیا تھا صبح کے نو بج رہے تھے گھر میں کھٹر پٹر شروع ہو چکی تھی وہ پژمزدہ انداز میں اٹھی اور اندر کمرے کی جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ لیونگ روم سے نوشابہ نے اسے آواز دی ۔۔۔
” فاطمہ بیٹی ذرا ادھر تو آؤ!! ”
” اسلام علیکم آنٹی ۔۔۔” وہ سلام کرتی ہوئی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی انہوں نے ملازمہ کو اس کے لئیے جوس لانے کا کہا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوئیں
” بیٹا بہت پہلے میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے ممی بولا کرو !! تم نے مان بھی لیا تھا مگر پھر …. خیر تم مانو یا نہ مانو میرے لئیے تو تم ہمیشہ ہی میری بیٹی رہوگی ۔۔۔” انہوں نے اس کے شرمندہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بات مکمل کی
” اچھا چھوڑو سب بس ایک بات بتاؤ اسامہ ! تمہیں کیسا لگتا ہے؟” انہوں نے سوال کیا
” جی ” ان کے اس سوال پر وہ ایک دم گھبرا اٹھی
” دیکھو بیٹی اسامہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میں تمہاری اس بارے میں رائے جاننا چاہتی ہوں تم دونوں ہی ابھی بہت چھوٹے ہو اس لئیے ہم سوچ رہے ہیں اگر تم راضی ہو تو ابھی صرف نکاح کر دیتے ہیں !! تم بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟؟ ” انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا
” آنٹی !!! ” فاطمہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی
” کیا واقعی آپ میری بات سنیں گی ؟؟ مانے گی ؟؟ ” وہ بھرائے ہوئے لہجے میں، آنکھوں میں بڑی آس لئیے انہیں دیکھ رہی تھی
” فاطمہ تمہیں بیٹی صرف زبان سے نہیں کہا ہے بلکہ دل سے مانا ہے تم بے جھجک ہو کر بولو ۔۔۔” انہوں نے اس کی ہمت بندھائی
” وہ مجھے !! مجھے ابھی پڑھنا ہے میں ابھی ابھی آپ پلیز انکل کو منع کردیں ابھی کچھ نہیں کریں مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔” وہ الجھے الجھے انداز میں اپنی بات ان تک پہچانے کی کوشش کر رہی تھی
” ٹھیک ہے بیٹا کوئی زبردستی نہیں ہے میں تمہارے انکل کو تمہارا انکار پہنچا دونگی ۔۔۔” نوشابہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ان کے چہرے پر اس وقت بلا کا تفکر چھایا ہوا تھا ___________________________ اسامہ کو آج علی کو سی آف کرنے جانا تھا وہ جلدی جلدی تیار ہو رہا تھا جب دروازہ ہلکا سا ناک کر کے محسن نقوی صاحب اندر داخل ہوئے
” گڈ مارننگ ڈیڈ ۔۔”
” ینگ مین کہاں کی تیاری ہے ؟؟ ”
” ڈیڈ علی لندن لاء اسکول جوائن کررہا ہے اسے ائیر پورٹ ڈراپ کرنے جا رہا ہوں ۔۔۔”
” دس منٹ ہیں تمہارے پاس ؟؟ ”
” کم آن ڈیڈ !! آپ بتائیں کیا بات ہے ؟؟ ”
“ایک بات پوچھنی ہے یہ بتاؤ تم فاطمہ کو پسند کرتے ہو یا وہ بس ایک ضد ہے تمہارے لیے ؟؟ ”
” ڈیڈ میں آپ کو کیا بتاؤں !! میں فاطمہ کو پسند نہیں کرتا بلکہ بات پسندیدگی سے بھی آگے کی ہے میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں اور آپکو پتا ہے پہلی ملاقات سے لیکر کچھ عرصہ تک میں اس سے سخت چڑتا تھا وہ بس ایک چیلنج تھی میرے لئیے پھر اچانک سے وہ مجھے اچھی لگنے لگی میں نہیں چاہتا اسے میرے سوا کوئی اور دیکھے بس آپ جلدی سے اسے میرے نام کر دیں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” اسامہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے ؟؟ ” انہوں نے پوچھا
” کیسی بات کررہے ہیں ڈیڈ آپ ؟؟ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ ”
” اسامہ ابھی تم دو سال کی ٹریننگ پر جا رہے ہو فوج میں اس دوران آپ کا اسٹیٹس سنگل ہونا چاہئیے یہ ایک ریکوارمنٹ ہے اس لئیے ابھی ہم یہ نکاح نہیں کرسکتے ۔۔۔۔” انہوں نے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا
” لیکن ڈیڈ ؟؟ ” وہ الجھا
” وہ اس گھر میں تمہاری امانت ہے تم اپنی ٹریننگ مکمل کرو پھر وعدہ تمہارے آتے ہی نکاح پکا ۔۔۔”
اسامہ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔ ” ٹھیک ہے ڈیڈ !! لیکن دوسال بعد نکاح نہیں مکمل شادی ہوگئی بولئیے منظور ہے..
جاری ہے
Leave a Reply