اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 11
ایک سوال کے جواب میں ممتاز نے کہا’’پنجابی خانہ بدوش قسم کے عیاش ہیں ، ان کا متوسط کاروباری طبقہ جسم و آواز کی عارضی عیاشی کرتا ہے ۔ سندھ کے بڑے بڑے زمینداروں کی عیاشی ساون بھادوں کی ہے لیکن سرحد کے بعض لوگ سدا بہار عشق کے قاتل ہیں ان کے ہاں دولت پھٹی پڑتی ہے۔ یہ لوگ نہ صرف کئی کئی بیویاں کرتے ہیں بلکہ ایک آدھ رنڈی کو گھر میں ڈالنا بھی جزوزندگی سمجھتے ہیں ، ان کا کاٹا ہوا پانی نہیں مانگتا ۔پچھلے ایک برس میں کوئی بتیس رنڈیاں ان کے ہاں گئیں، نکاح پڑھوا یا مگر ایک ہی برس کے اندر لوٹ آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک تہائی کو دق ہوگئی ہے ‘‘ممتاز نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا’’ پنجابی کا عشق بھنورے کا عشق ہے ، سندھی کا عشق مکھی کا عشق ہے اور پٹھان کا عشق چمگادڑ کا عشق ہے ۔‘‘ موسیقی
موسیقی تمام بنی نوح انسان کی مشترکہ زبان ہے ۔۔۔ (لانگ فیلو )
شمشاد نے کہا ، ’’ موسیقی اور عورت میں چولی دامن کا ساتھ ہے جن منزلوں سے عورت گزری انہی منزلوں سے موسیقی ، کبھی غناعبادت کا جزو تھا بلکہ بعض روایتوں کے پیش نظر غنا تھا ہی عبادت کے لئے ، لیکن آج اپنی فنی عزت کے باوجود ایک پیشہ ہوگیا ہے ، آواز اور جسم دونوں بکاؤ چیزیں ہیں ہر کوئی گانے کی تاثیر قاتل ہے ‘‘ لیکن سوسائٹی میں جوعزت ایک گویے یا گائن کی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے عوام غنا کو جنس اور مغنی یا مغنیہ کو دوکاندار سمجھتے ہیں۔
یہ معلوم کرنا تو بڑا مشکل ہے کہ چکلے میں عورت پہلے آئی یا موسیقی یا دونوں ایک ساتھ ، لیکن یہ صحیح ہے کہ دونوں میں قافیہ و ردیف کا تعلق رہا۔ عبادت گاہوں میں بھی عورت رقص اور غنا اکٹھے رہے اور بالاخانوں میں بھی اکٹھے ہیں ۔۔۔ جب تک موسیقی کا تعلق دھرم یا مذہب ہے رہا دیوداسیاں باقاعدہ فنی تعلیم حاصل کرتی رہیں اور وہ بہترین مغنیہ ورقاصہ ہوتی تھیں ، اسی طرح رقص و غنا کا حصول کنیزوں کے محاسن یا فرائض میں سے تھا۔ چنانچہ کنیزوں میں بڑی بڑی نامور مغنیہ ہوتی ہیں ، ایک خاص دور میں تو خود شاہی بیگمیں موسیقی میں استعداد بہم پہنچایا کرتی تھیں۔
جہانگیر کی بیوی اور شاہجہان کی ماں مان متی کو موسیقی میں جو استغراق رہا یہ اس کا اعتراف تھا کہ جہانگیر نے خواصوں کا ایک طائفہ تعلیم و تربیت کے لئے اس کے سپرد کر رکھا تھا۔ مامون الرشید کی بہن علیہ کو موسیقی میں مجتہدانہ کمال حاصل تھا ۔اس کے متعلق عربوں کا دعویٰ تھا کہ ساری دنیا میں اس پایہ کی مغنیہ موجود نہیں ہے۔
اورنگ زیب کے جانشینوں میں ۔۔۔ بہت سوں نے گویا عورتیں اپنے حرم میں ڈال رکھی تھیں۔ ان کی دیکھا دیکھی شہزادے بھی اسی ڈگر پر چل نکلے۔ آخری دور میں تویہ حال یہ تھا کہ مغنیہ اور مغنی عام تھے صناع اور سپاہی نا پیدا ۔
یہ تو خیر محلوں کی دُنیا کا حال ہے اور اس کے تذکرے تاریخ کے صفحوں کو کھنگالنے سے مل ہی جاتے ہیں لیکن اس بازار سے بڑے پائے کی گویا اُٹھی ہیں نور جہاں کی آواز میں جادو ہے ۔ منور سلطانہ نے نورانی گلاپایا ہے۔ مختار بیگم اس میں بھی بلا ہے فریدہ افسوں پھونکتی ہے۔ دہلی سے اختر جہاں اور اُس کی دو بیٹیاں نایاب اختر اور آفتاب اختر آئی ہیں انہیں اچھی سوجھ بوجھ ہے۔ اختر جہاں خود تو بڑی سمجھدار ہے لیکن نایاب بھی آواز کے تیور جانتی ہے ، ستاربھی خوب بجاتی ہے اور پکے راگ سے آشنا ہے ۔‘‘
’’پکار اگ ‘‘ ؟
شمشاد نے بات اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ حقیقی راگ تو پکاراگ ہی ہے۔ باقی سب شاعری ہے جن لوگوں کو راگ یا راگنیوں سے آشنائی ہے وہ ان کے سحر کو جانتے ہیں ۔ یہ کمال صرف راگ ہی میں ہے کہ وہ ایک موسم میں دوسرے موسم کی یاد تازہ کرتا اور انسان کے ذہن کو ایک مجرد کیفیت میں منتقل کر دیتا ہے۔ اس وقت بڑے غلام علی خاں اپنے فن میں یگانہ ہیں۔ لیکن وہ نائک یا گند ہرپ نہیں گنی ہیں۔‘‘
’’ یہ نائک ، گندھرپ اور گنی کیا ہیں ؟ ‘‘
’’ نائک موسیقی کے علامہ فہامہ کو کہتے ہیں۔ وہ شخص جو سنگیت کا علم جانتا ہو دوسرے کو پڑھا سکے، خود تمام راگ گا سکتا ہو ، دوسروں کو سکھا سکے، اور جو کچھ اسلاف نے موسیقی میں پیدا کیا ہے اس میں اضافہ کر سکے۔ اس کو نائک کہتے ہیں ۔ آج تک صرف تیس نائک ہوئے ہیں جن میں خسرو ،ہیجو باورا ورواجد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
گندھرپ ، وہ ہے جو کل راگ جانتا ہو لیکن خود مجتہدنہ ہو۔ تان سین ، با خاں ،چاند خاں وغیرہ گندھرپ تھے۔
گُنی ، جو صرف اپنے ہی ملک کے راگ گا سکتا ہو۔ لیکن اس کی نظر مارگ راگوں پر نہیں ہوتی ہے۔ ان سے نیچے کلاونت کا درجہ ہے جو دُھرپد اور تروٹ گاتا ہے۔ ٹپہ ، ٹھمرے ، خیال اور غزل گائے وہ قوال ہوتا ہے ‘‘۔
’’ اور یہ بائی کا مفہوم کیا ہے ‘‘؟
ممتاز نے عادتاً چٹکی لیتے ہوئے کہا بائی کا مفہوم ہے By the way‘‘
’’ لطیفہ اچھا ہے لیکن بائی ہے معزز لفط ‘‘ ۔
’’جی ہاں معزز تو ہے لیکن بعض لفظوں کی شہرت زمانہ کی ٹھوکروں سے داغدار ہوجاتی ہے ، مثلاً خلیفہ کا لفظ ہے اب ہر اُس شخص کو خلیفہ کہتے ہیں جو پاؤں توڑ کے بیٹھا ہو ، ایک بیکار وجود !‘‘
’’ بائی غالباً گجراتی کا لفظ ہے اور اس کا صحیح مادہ ایک گجراتی ہی بتا سکتا ہے لیکن جیسے ترکی میں ہر عورت کو خانم کہتے تھے یا ہمارے ہاں بیگم کا لفظ مروج رہا اسی طرح بائی کا لفظ ہے۔ جو بھارت کے بعض علاقوں اور بعض گوتوں کی عورتوں کے نام کا جزو ہے ۔ گاندھی جی کی اہلیہ محترمہ کا نام کستور ابائی تھا ، راجہ مان سنگھ کی بیٹی جو اکبر کے حرم میں تھی اُس کا نام جودھابائی تھا، ممکن ہے مسلمان اُمراء نے بیگم یا خانم کے الفاظ کی پاسداری میں بائی لفظ استعمال کیا ہو۔؟‘‘
’’ آج کل عورتوں میں اچھی گائک کون ہے ‘‘؟
’’ وہ تو آپا بتا چکی ہیں‘‘۔ ممتاز نے سگریٹ کے دھوئیں کو حلق سے نیچے اتارتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ خود بڑی گنی رہ چکی ہیں‘‘۔
شمشاد نے ایک سرد آہ کھینچی ، جیسے کہہ رہی ہو ۔۔۔
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
اور بات کو اُٹھاتے ہوئے کہا
’’ میں یہ تو نہیں کہتی کہ مجھ سا کوئی نہ تھا ، لیکن زمانہ تھا کہ بڑے بڑے دہلیز سے آگے نہیں بڑھ پاتے تھے۔ ایک دفعہ آنجہانی مہاراجہ اندور ہمارے ہاں امرتسر چلے آئے تھے ۔ کئی دفعہ شہزادہ معظم جاہ کے بلاوے پر حیدر آباد دکن کا سفر کیا ہفتوں قیام رہا ۔ خود میر عثمان علی خاں کئی مجلسوں مین قدم رنجہ فرماتے۔ معظم جاہ کا مزاج شاہانہ تھا ، جب تک قیام ہوتا روزانہ ایک زرتار ساڑھی چند اشرفیاں اور کوئی نہ کوئی طلائی زیور انعام فرماتے۔ لیکن حضور بندگانِ عالی متعالی پر لے درجے کے کنجوس تھے کبھی کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دی۔‘‘
’’ ایک دفعہ میں گا رہی تھی ، غزل کا کوئی شعر پسند آگیا، حضور نے جیب میں ہاتھ ڈالا حکم ہو ا شمشاد آگے آجاؤ۔ میں نے فرشی سلام کیا۔ لوگ متحیر تھے کہ اعلیٰ حضرت زندگی میں پہلی دفعہ کسی کو انعام بخش رہے ہیں لیکن نظام نے جیب میں سے قوام کی ڈبیا نکالی اور پوچھا پان کھاتی ہو؟‘‘
’’عرض کیا ، جہاں پناہ ! عادت تو ہے ؟‘‘
فرمایا ،’’ جاؤ تمہیں پان کھانے کی اجازت ہے اور یہ لو قوام ‘‘۔
’’دستور تھا کہ جب اعلیٰ حضرت کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو اُن کے سامنے کوئی شخص پان کھانے کی ہمت نہ کرپاتا تھا اور یہ میرے لئے ایک بڑا عزاز تھا۔‘‘
شمشاد نے سر د آہ بھری اور بات کو مختصر کرتے ہوئے کہا۔
’’ اب وہ دن خواب کی طرح بیت چکے ہیں ۔ جوانی جا چکی ہے ، بڑھاپا آرہا ہے اور بڑھاپا ہی اصلاً جوانا مرگی ہے‘‘۔
میں نے سوال کیا ’’ آپ موسیقی کی تاریخ جانتی ہیں ؟‘‘ مختار نے یہ سمجھا کہ میں اس سے موسیقی کے اجزا پوچھ رہا ہوں ، اس کا جواب نہایت مختصر تھا۔
’’ موسیقی کا مدارار کانِ ثلاثہ پر ہے ، لے ، تال اور سُر۔‘‘ لیکن جب میں نے اپنے سوال کی وضاحت کی تو اُس نے کہا۔۔۔ !
’’ آپ جانتے ہیں ، میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ آغا حشرکاشمیری کی رفاقت میں بسر کیا ہے وہ میرے راہنما بھی تھے ۔ شوہر بھی ، اُستاد بھی اور محبوب بھی ، وہ ایک فاضل اجل تھے ۔ جب موڈ میں ہوتے تو باتوں کے دھنی تھے۔ کسی موضوع پہ طبیعت بندنہ تھی۔ ہر فن کی روح کو سمجھتے تھے ، ایک دن بہت سے دوست جمع تھے۔ کسی نے سوال کیا۔
’’ آغا جی ! غنا کا موجد کون ہے ‘‘؟
فرمایا۔۔۔ ’’ فطرت ‘‘ ! پھر کیا تھا ایک دریا موج میں آگیا۔ کہنے لگے ’’ انسان کو بولنا ہنسنا اور رونا تو پہلے دن ہی سے ودیعت ہوچکا تھا۔ ان کے امتزاج یا ترکیب سے گانا بھی مل گیا ، فطرت کے مظاہر پر غور کریں ہواؤں کی سر سراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، بادلوں کی گھن گرج لے ، تال اور سُر ہی تو ہیں‘‘۔
’’موسیقی یونانی لفظ ہے ۔ اور موسیٰ سے مشتق ۔ معنی ہیں ایجاد کرنا یا پیدا کرنا۔ جس طرح اُردو ، فارسی عربی میں نسبت کے لئے یائے معروف لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح لاطینی اور یونانی میں ق لگایا جاتا ہے۔ عربوں نے موسیقی کے حرفِ نسبت پر تو غور کیا، لیکن ایک اوریائے نسبتی بڑھا دی جس سے موسیٰ موسیقی ہوگیا۔ بعض نکتہ طرازوں کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ نے پتھر پر جو عصا مارا تھا اور جس سے پانی کی بارہ نہریں یا سات چشمے پھوٹ نکلے تھے اُس سے زیرو بم کی جو مختلف صدائیں پید اہوئی تھیں۔ موسیٰ فی حقی ، حضرت موسیٰ نے انہیں یاد کرلیا اور وہ آوازیں ہی موسیقی کے سات یا بارہ سُر ہیں‘‘۔
’’ فخر الدین راری نے لکھا ہے کہ اہل فارس کے نزدیک موسیقی کا موجد حکیم فیثا غورث ہے جو حضرت سلیمانؑ کا شاگرد تھا، لیکن اس سے بھی پہلے کی کتابوں میں موسیقی کا سراغ ملتا ہے ہندوؤں کے ہاں موسیقی کے لئے سنگیت کا لفظ ہے ، جس کے مفہوم میں گانے کے علاوہ ناچ اور گانا بھی میں ان کا عقیدہ ہے کہ موسیقی موجد دیوتا تھے اور سنگیت کے موجد شوجی مہاراج ۔۔۔ بھرت رشی نے علم اپسراؤں (جنتی رقاصاؤں) کو سکھایا ، نارورشی نے انسان کو سکھایا ، چنانچہ اندر کے دربار میں جو لوگ رقص و غنا پر مامور تھے۔ ان میں سے رقاصہ کو اپسرا، گویے کو گندھر اور سازندے کو کنر کہتے تھے ، اس کے برعکس ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کے موجد مہادیو ہیں ، ان کی خدمت میں چھ دیوا اور تین پریاں رہتی تھیں ان کا کام صرف گانا بجانا تھا۔ چھ دیو ، چھ راگ ہیں ۔ بھیروں ، مالکونس ، ہنڈول ، دیپک ، میگھ اورسری علیٰ ہذالقیاس۔ پریوں کے نام بھیروں ، ٹوڈی ، اساوری اور راسکلی وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ نائکوں کی ایجادیں ہیں جنہیں پتر (بیٹا ) اور بھاوجا(بہو) کہتے ہیں۔ ہندوستان میں موسیقی کا پہلا نقش سام وید کے منتر ہیں جن کو رک کہتے ہیں۔ مصریوں کا دعویٰ ہے کہ موسیقی اور سازوں کے مودجدان کے دیوتا ہیں۔ اور ایک یونانی حکیم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن یونانیوں کا اصرار ہے کہ ان کے دیوتا زیوس کی بیٹیاں ’’ میوزس‘‘ اس کی بانی ہیں اور انہی کے نام پر میوزک یا موسیقی کا لفظ بنا ہے ‘‘۔
’’ تورات سے بنی اسرائیل کے اشغال موسیقی کا پتہ چلتا ہے ، حضرت آدم سے ساتویں پشت میں جو بل نام کا ایک شخص ہوا ہے اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چنگ و ارغنون کا بانی تھا۔ حضرت داؤد کے مزامیر مشہور ہیں انہوں نے مذہبی رسوم کی ادائی کے لئے موسیقی کی چوکیاں مقرر کی تھیں ، چنانچہ اس زمانے میں چنگ ، رباب ، طنبورہ ، جھانجھ ، قرنا ، ترہیون وغیرہ کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے عہد میں بھی موسیقی کا زور بندھا رہا، پھر کچھ دیر کے لئے اس کی ہوا اکھڑ گئی ، اور معابد یہود سے موسیقی کا فن قطعاً علیٰحدہ ہوگیا۔‘‘
’’ یونان کے دور میں موسیقی کو عروج ہوا ، اور وہ بہت کچھ آگے نکل گئے۔ رومیوں ہی سے ایرانی متاثر ہوئے ، اور بڑا نام پایا۔ خود عربوں کا فنِ موسیقی کچھ نہ تھا، اُن کا تمام تر مواد ایران کی ساسانی موسیقی سے ماخوذ ہے۔ ‘‘
’’ ابو مسحج پہلا عرب تھا جس نے فارس اور روم کے شہروں سے موسیقی کاسرمایہ جمع کیا۔ پھر اضافہ سے عربی میں سہل و سادہ دُھنیں قائم کیں۔ اس کے بعد اسحاق موصلی جیسا نا مورمغنی پیدا ہوا، جس کے کمال موسیقی کا شہرہ اُس عہد کے اطراف و اکناف میں تھا۔ ابو نصر فارابی نے قانون پر ایک مستقل رسالہ لکھ ہے، ابنِ سینا اس فن میں بڑا ہی با کمال تھا۔ شہنائی اسی کی ایجاد ہے‘‘۔
’’ چونکہ موسیقی الفاظ و معانی کی چیز نہیں بلکہ اس کا تعلق الحان و ایقاع سے ہے ، اس لئے حرف و لفظ اس پر قادر نہیں ہوسکتے ، یہی وجہ ہے کہ فاتح قو میں کبھی مفتوح قوموں میں اپنا فن موسیقی منتقل نہیں کر سکی ہیں ۔ بلکہ ان میں گھلنے ملنے کی وجہ سے انہی کے رنگ میں رنگی گئی ہیں۔ اس کی بڑی مثال ہندوستان کی مسلمان بادشاہتیں ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی سنگیت کا بڑا اثر قبول کیا۔ چند برائے نام تبدیلیاں کیں۔ لیکن وہ تبدیلیاں جڑ میں نہیں شاخوں میں تھیں چنانچہ مسلمان بادشاہتوں میں خلجی اور تغلق خاندانوں کی موسیقی سے دلچسپی کے واقعات عام ہیں۔ جس شاہی خاندان نے موسیقی سے بحیثیت فن اعتنا کیا وہ شرقی خاندان تھا۔ سلطان حسین شاہ شرقی نے موسیقی میں بعض نئی طرحیں لگائی ہیں ان کے علاوہ بہمنی اور نظام شاہی خاندانوں نے اپنے شوق و ذوق کو نمایاں کیا۔ چنانچہ ابراہیم عادل شاہ کو ظہوری نے جگت گوروکہا ہے‘‘۔
’’ مغلوں میں اکبر کا عہد گویوں اور مغنیوں کی سرپرستی کے لئے مشہور یہ جہانگیر خود موسیقی کی نوک پلک سے واقف تھا ۔ تمام ملک میں دہلی، آگرہ ، لاہور ، بیجاپور ، احمد نگر اور احمد آباد کے گویے امراء کے ہاں ملازم تھے۔ علاالملک تونی اورنگزیب کے وزراء میں سے تھا لیکن موسیقی کا ایسا ماہر سمجھا جاتا تھا کہ بڑے بڑے اساتذہ اس کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ ابو الفضل اور فیضی کے والد ملامبارک موسیقی کے نکتہ شناسوں میں تھے۔ انہوں نے تان سین کا گانا سنا تو صرف یہ کہا تھا۔’’ ہاں گا لیتا ہے‘‘۔
ملا عبدالقادر بدایونی بین بجانے میں مہارت نامہ رکھتا تھا۔ ملا عبدالسلام لاہور ، علامہ سعد اللہ شاہجہانی ، شیخ علاؤالدین موسیقی کے فاضلوں میں سے تھے۔ بیرم خاں کو موسیقی سے جو شغف رہا اس کی شہادت اس کے بیٹے عبدالرحیم خاتحاناں کی فیاضیوں سے ملتی ہے۔ شیخ سلیم چشتی کا پوتا اسلام خاں جہانگیر کے عہد میں بنگال کا گورنر تھا۔ وہ اسی ہزار روپیہ سالانہ صرف رقص و سرود کے طائفوں پر خرچ کرتا تھا۔ شہزادہ مراد بخش کو اورنگ زیب نے قید کیا تو اپنے ہمراہ سرس بائی کو لے گیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس عہد کے خیال گانے والوں میں اُس کا ثانی نہ تھا۔ دورِ آخر میں مظہر جانجاناں اور میردرد بڑے مشتاق تھے ان کے ہاں بڑے بڑے کا اونت اصلاحیں لیتے تھے ‘‘۔
مختار آغا کی تقریرسنا رہی تھی۔ اور میں بڑے غور سے اس کے چہرے کو تک رہا تھا ، جوانی مر چکی ہے لیکن آواز نہیں مری۔ اس میں لدے پھندے دنوں کا کرارا پن باقی ہے۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
موسیقی تمام بنی نوح انسان کی مشترکہ زبان ہے ۔۔۔ (لانگ فیلو )
شمشاد نے کہا ، ’’ موسیقی اور عورت میں چولی دامن کا ساتھ ہے جن منزلوں سے عورت گزری انہی منزلوں سے موسیقی ، کبھی غناعبادت کا جزو تھا بلکہ بعض روایتوں کے پیش نظر غنا تھا ہی عبادت کے لئے ، لیکن آج اپنی فنی عزت کے باوجود ایک پیشہ ہوگیا ہے ، آواز اور جسم دونوں بکاؤ چیزیں ہیں ہر کوئی گانے کی تاثیر قاتل ہے ‘‘ لیکن سوسائٹی میں جوعزت ایک گویے یا گائن کی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے عوام غنا کو جنس اور مغنی یا مغنیہ کو دوکاندار سمجھتے ہیں۔
یہ معلوم کرنا تو بڑا مشکل ہے کہ چکلے میں عورت پہلے آئی یا موسیقی یا دونوں ایک ساتھ ، لیکن یہ صحیح ہے کہ دونوں میں قافیہ و ردیف کا تعلق رہا۔ عبادت گاہوں میں بھی عورت رقص اور غنا اکٹھے رہے اور بالاخانوں میں بھی اکٹھے ہیں ۔۔۔ جب تک موسیقی کا تعلق دھرم یا مذہب ہے رہا دیوداسیاں باقاعدہ فنی تعلیم حاصل کرتی رہیں اور وہ بہترین مغنیہ ورقاصہ ہوتی تھیں ، اسی طرح رقص و غنا کا حصول کنیزوں کے محاسن یا فرائض میں سے تھا۔ چنانچہ کنیزوں میں بڑی بڑی نامور مغنیہ ہوتی ہیں ، ایک خاص دور میں تو خود شاہی بیگمیں موسیقی میں استعداد بہم پہنچایا کرتی تھیں۔
جہانگیر کی بیوی اور شاہجہان کی ماں مان متی کو موسیقی میں جو استغراق رہا یہ اس کا اعتراف تھا کہ جہانگیر نے خواصوں کا ایک طائفہ تعلیم و تربیت کے لئے اس کے سپرد کر رکھا تھا۔ مامون الرشید کی بہن علیہ کو موسیقی میں مجتہدانہ کمال حاصل تھا ۔اس کے متعلق عربوں کا دعویٰ تھا کہ ساری دنیا میں اس پایہ کی مغنیہ موجود نہیں ہے۔
اورنگ زیب کے جانشینوں میں ۔۔۔ بہت سوں نے گویا عورتیں اپنے حرم میں ڈال رکھی تھیں۔ ان کی دیکھا دیکھی شہزادے بھی اسی ڈگر پر چل نکلے۔ آخری دور میں تویہ حال یہ تھا کہ مغنیہ اور مغنی عام تھے صناع اور سپاہی نا پیدا ۔
یہ تو خیر محلوں کی دُنیا کا حال ہے اور اس کے تذکرے تاریخ کے صفحوں کو کھنگالنے سے مل ہی جاتے ہیں لیکن اس بازار سے بڑے پائے کی گویا اُٹھی ہیں نور جہاں کی آواز میں جادو ہے ۔ منور سلطانہ نے نورانی گلاپایا ہے۔ مختار بیگم اس میں بھی بلا ہے فریدہ افسوں پھونکتی ہے۔ دہلی سے اختر جہاں اور اُس کی دو بیٹیاں نایاب اختر اور آفتاب اختر آئی ہیں انہیں اچھی سوجھ بوجھ ہے۔ اختر جہاں خود تو بڑی سمجھدار ہے لیکن نایاب بھی آواز کے تیور جانتی ہے ، ستاربھی خوب بجاتی ہے اور پکے راگ سے آشنا ہے ۔‘‘
’’پکار اگ ‘‘ ؟
شمشاد نے بات اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ حقیقی راگ تو پکاراگ ہی ہے۔ باقی سب شاعری ہے جن لوگوں کو راگ یا راگنیوں سے آشنائی ہے وہ ان کے سحر کو جانتے ہیں ۔ یہ کمال صرف راگ ہی میں ہے کہ وہ ایک موسم میں دوسرے موسم کی یاد تازہ کرتا اور انسان کے ذہن کو ایک مجرد کیفیت میں منتقل کر دیتا ہے۔ اس وقت بڑے غلام علی خاں اپنے فن میں یگانہ ہیں۔ لیکن وہ نائک یا گند ہرپ نہیں گنی ہیں۔‘‘
’’ یہ نائک ، گندھرپ اور گنی کیا ہیں ؟ ‘‘
’’ نائک موسیقی کے علامہ فہامہ کو کہتے ہیں۔ وہ شخص جو سنگیت کا علم جانتا ہو دوسرے کو پڑھا سکے، خود تمام راگ گا سکتا ہو ، دوسروں کو سکھا سکے، اور جو کچھ اسلاف نے موسیقی میں پیدا کیا ہے اس میں اضافہ کر سکے۔ اس کو نائک کہتے ہیں ۔ آج تک صرف تیس نائک ہوئے ہیں جن میں خسرو ،ہیجو باورا ورواجد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
گندھرپ ، وہ ہے جو کل راگ جانتا ہو لیکن خود مجتہدنہ ہو۔ تان سین ، با خاں ،چاند خاں وغیرہ گندھرپ تھے۔
گُنی ، جو صرف اپنے ہی ملک کے راگ گا سکتا ہو۔ لیکن اس کی نظر مارگ راگوں پر نہیں ہوتی ہے۔ ان سے نیچے کلاونت کا درجہ ہے جو دُھرپد اور تروٹ گاتا ہے۔ ٹپہ ، ٹھمرے ، خیال اور غزل گائے وہ قوال ہوتا ہے ‘‘۔
’’ اور یہ بائی کا مفہوم کیا ہے ‘‘؟
ممتاز نے عادتاً چٹکی لیتے ہوئے کہا بائی کا مفہوم ہے By the way‘‘
’’ لطیفہ اچھا ہے لیکن بائی ہے معزز لفط ‘‘ ۔
’’جی ہاں معزز تو ہے لیکن بعض لفظوں کی شہرت زمانہ کی ٹھوکروں سے داغدار ہوجاتی ہے ، مثلاً خلیفہ کا لفظ ہے اب ہر اُس شخص کو خلیفہ کہتے ہیں جو پاؤں توڑ کے بیٹھا ہو ، ایک بیکار وجود !‘‘
’’ بائی غالباً گجراتی کا لفظ ہے اور اس کا صحیح مادہ ایک گجراتی ہی بتا سکتا ہے لیکن جیسے ترکی میں ہر عورت کو خانم کہتے تھے یا ہمارے ہاں بیگم کا لفظ مروج رہا اسی طرح بائی کا لفظ ہے۔ جو بھارت کے بعض علاقوں اور بعض گوتوں کی عورتوں کے نام کا جزو ہے ۔ گاندھی جی کی اہلیہ محترمہ کا نام کستور ابائی تھا ، راجہ مان سنگھ کی بیٹی جو اکبر کے حرم میں تھی اُس کا نام جودھابائی تھا، ممکن ہے مسلمان اُمراء نے بیگم یا خانم کے الفاظ کی پاسداری میں بائی لفظ استعمال کیا ہو۔؟‘‘
’’ آج کل عورتوں میں اچھی گائک کون ہے ‘‘؟
’’ وہ تو آپا بتا چکی ہیں‘‘۔ ممتاز نے سگریٹ کے دھوئیں کو حلق سے نیچے اتارتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ خود بڑی گنی رہ چکی ہیں‘‘۔
شمشاد نے ایک سرد آہ کھینچی ، جیسے کہہ رہی ہو ۔۔۔
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
اور بات کو اُٹھاتے ہوئے کہا
’’ میں یہ تو نہیں کہتی کہ مجھ سا کوئی نہ تھا ، لیکن زمانہ تھا کہ بڑے بڑے دہلیز سے آگے نہیں بڑھ پاتے تھے۔ ایک دفعہ آنجہانی مہاراجہ اندور ہمارے ہاں امرتسر چلے آئے تھے ۔ کئی دفعہ شہزادہ معظم جاہ کے بلاوے پر حیدر آباد دکن کا سفر کیا ہفتوں قیام رہا ۔ خود میر عثمان علی خاں کئی مجلسوں مین قدم رنجہ فرماتے۔ معظم جاہ کا مزاج شاہانہ تھا ، جب تک قیام ہوتا روزانہ ایک زرتار ساڑھی چند اشرفیاں اور کوئی نہ کوئی طلائی زیور انعام فرماتے۔ لیکن حضور بندگانِ عالی متعالی پر لے درجے کے کنجوس تھے کبھی کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دی۔‘‘
’’ ایک دفعہ میں گا رہی تھی ، غزل کا کوئی شعر پسند آگیا، حضور نے جیب میں ہاتھ ڈالا حکم ہو ا شمشاد آگے آجاؤ۔ میں نے فرشی سلام کیا۔ لوگ متحیر تھے کہ اعلیٰ حضرت زندگی میں پہلی دفعہ کسی کو انعام بخش رہے ہیں لیکن نظام نے جیب میں سے قوام کی ڈبیا نکالی اور پوچھا پان کھاتی ہو؟‘‘
’’عرض کیا ، جہاں پناہ ! عادت تو ہے ؟‘‘
فرمایا ،’’ جاؤ تمہیں پان کھانے کی اجازت ہے اور یہ لو قوام ‘‘۔
’’دستور تھا کہ جب اعلیٰ حضرت کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو اُن کے سامنے کوئی شخص پان کھانے کی ہمت نہ کرپاتا تھا اور یہ میرے لئے ایک بڑا عزاز تھا۔‘‘
شمشاد نے سر د آہ بھری اور بات کو مختصر کرتے ہوئے کہا۔
’’ اب وہ دن خواب کی طرح بیت چکے ہیں ۔ جوانی جا چکی ہے ، بڑھاپا آرہا ہے اور بڑھاپا ہی اصلاً جوانا مرگی ہے‘‘۔
میں نے سوال کیا ’’ آپ موسیقی کی تاریخ جانتی ہیں ؟‘‘ مختار نے یہ سمجھا کہ میں اس سے موسیقی کے اجزا پوچھ رہا ہوں ، اس کا جواب نہایت مختصر تھا۔
’’ موسیقی کا مدارار کانِ ثلاثہ پر ہے ، لے ، تال اور سُر۔‘‘ لیکن جب میں نے اپنے سوال کی وضاحت کی تو اُس نے کہا۔۔۔ !
’’ آپ جانتے ہیں ، میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ آغا حشرکاشمیری کی رفاقت میں بسر کیا ہے وہ میرے راہنما بھی تھے ۔ شوہر بھی ، اُستاد بھی اور محبوب بھی ، وہ ایک فاضل اجل تھے ۔ جب موڈ میں ہوتے تو باتوں کے دھنی تھے۔ کسی موضوع پہ طبیعت بندنہ تھی۔ ہر فن کی روح کو سمجھتے تھے ، ایک دن بہت سے دوست جمع تھے۔ کسی نے سوال کیا۔
’’ آغا جی ! غنا کا موجد کون ہے ‘‘؟
فرمایا۔۔۔ ’’ فطرت ‘‘ ! پھر کیا تھا ایک دریا موج میں آگیا۔ کہنے لگے ’’ انسان کو بولنا ہنسنا اور رونا تو پہلے دن ہی سے ودیعت ہوچکا تھا۔ ان کے امتزاج یا ترکیب سے گانا بھی مل گیا ، فطرت کے مظاہر پر غور کریں ہواؤں کی سر سراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، بادلوں کی گھن گرج لے ، تال اور سُر ہی تو ہیں‘‘۔
’’موسیقی یونانی لفظ ہے ۔ اور موسیٰ سے مشتق ۔ معنی ہیں ایجاد کرنا یا پیدا کرنا۔ جس طرح اُردو ، فارسی عربی میں نسبت کے لئے یائے معروف لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح لاطینی اور یونانی میں ق لگایا جاتا ہے۔ عربوں نے موسیقی کے حرفِ نسبت پر تو غور کیا، لیکن ایک اوریائے نسبتی بڑھا دی جس سے موسیٰ موسیقی ہوگیا۔ بعض نکتہ طرازوں کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ نے پتھر پر جو عصا مارا تھا اور جس سے پانی کی بارہ نہریں یا سات چشمے پھوٹ نکلے تھے اُس سے زیرو بم کی جو مختلف صدائیں پید اہوئی تھیں۔ موسیٰ فی حقی ، حضرت موسیٰ نے انہیں یاد کرلیا اور وہ آوازیں ہی موسیقی کے سات یا بارہ سُر ہیں‘‘۔
’’ فخر الدین راری نے لکھا ہے کہ اہل فارس کے نزدیک موسیقی کا موجد حکیم فیثا غورث ہے جو حضرت سلیمانؑ کا شاگرد تھا، لیکن اس سے بھی پہلے کی کتابوں میں موسیقی کا سراغ ملتا ہے ہندوؤں کے ہاں موسیقی کے لئے سنگیت کا لفظ ہے ، جس کے مفہوم میں گانے کے علاوہ ناچ اور گانا بھی میں ان کا عقیدہ ہے کہ موسیقی موجد دیوتا تھے اور سنگیت کے موجد شوجی مہاراج ۔۔۔ بھرت رشی نے علم اپسراؤں (جنتی رقاصاؤں) کو سکھایا ، نارورشی نے انسان کو سکھایا ، چنانچہ اندر کے دربار میں جو لوگ رقص و غنا پر مامور تھے۔ ان میں سے رقاصہ کو اپسرا، گویے کو گندھر اور سازندے کو کنر کہتے تھے ، اس کے برعکس ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کے موجد مہادیو ہیں ، ان کی خدمت میں چھ دیوا اور تین پریاں رہتی تھیں ان کا کام صرف گانا بجانا تھا۔ چھ دیو ، چھ راگ ہیں ۔ بھیروں ، مالکونس ، ہنڈول ، دیپک ، میگھ اورسری علیٰ ہذالقیاس۔ پریوں کے نام بھیروں ، ٹوڈی ، اساوری اور راسکلی وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ نائکوں کی ایجادیں ہیں جنہیں پتر (بیٹا ) اور بھاوجا(بہو) کہتے ہیں۔ ہندوستان میں موسیقی کا پہلا نقش سام وید کے منتر ہیں جن کو رک کہتے ہیں۔ مصریوں کا دعویٰ ہے کہ موسیقی اور سازوں کے مودجدان کے دیوتا ہیں۔ اور ایک یونانی حکیم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن یونانیوں کا اصرار ہے کہ ان کے دیوتا زیوس کی بیٹیاں ’’ میوزس‘‘ اس کی بانی ہیں اور انہی کے نام پر میوزک یا موسیقی کا لفظ بنا ہے ‘‘۔
’’ تورات سے بنی اسرائیل کے اشغال موسیقی کا پتہ چلتا ہے ، حضرت آدم سے ساتویں پشت میں جو بل نام کا ایک شخص ہوا ہے اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چنگ و ارغنون کا بانی تھا۔ حضرت داؤد کے مزامیر مشہور ہیں انہوں نے مذہبی رسوم کی ادائی کے لئے موسیقی کی چوکیاں مقرر کی تھیں ، چنانچہ اس زمانے میں چنگ ، رباب ، طنبورہ ، جھانجھ ، قرنا ، ترہیون وغیرہ کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے عہد میں بھی موسیقی کا زور بندھا رہا، پھر کچھ دیر کے لئے اس کی ہوا اکھڑ گئی ، اور معابد یہود سے موسیقی کا فن قطعاً علیٰحدہ ہوگیا۔‘‘
’’ یونان کے دور میں موسیقی کو عروج ہوا ، اور وہ بہت کچھ آگے نکل گئے۔ رومیوں ہی سے ایرانی متاثر ہوئے ، اور بڑا نام پایا۔ خود عربوں کا فنِ موسیقی کچھ نہ تھا، اُن کا تمام تر مواد ایران کی ساسانی موسیقی سے ماخوذ ہے۔ ‘‘
’’ ابو مسحج پہلا عرب تھا جس نے فارس اور روم کے شہروں سے موسیقی کاسرمایہ جمع کیا۔ پھر اضافہ سے عربی میں سہل و سادہ دُھنیں قائم کیں۔ اس کے بعد اسحاق موصلی جیسا نا مورمغنی پیدا ہوا، جس کے کمال موسیقی کا شہرہ اُس عہد کے اطراف و اکناف میں تھا۔ ابو نصر فارابی نے قانون پر ایک مستقل رسالہ لکھ ہے، ابنِ سینا اس فن میں بڑا ہی با کمال تھا۔ شہنائی اسی کی ایجاد ہے‘‘۔
’’ چونکہ موسیقی الفاظ و معانی کی چیز نہیں بلکہ اس کا تعلق الحان و ایقاع سے ہے ، اس لئے حرف و لفظ اس پر قادر نہیں ہوسکتے ، یہی وجہ ہے کہ فاتح قو میں کبھی مفتوح قوموں میں اپنا فن موسیقی منتقل نہیں کر سکی ہیں ۔ بلکہ ان میں گھلنے ملنے کی وجہ سے انہی کے رنگ میں رنگی گئی ہیں۔ اس کی بڑی مثال ہندوستان کی مسلمان بادشاہتیں ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی سنگیت کا بڑا اثر قبول کیا۔ چند برائے نام تبدیلیاں کیں۔ لیکن وہ تبدیلیاں جڑ میں نہیں شاخوں میں تھیں چنانچہ مسلمان بادشاہتوں میں خلجی اور تغلق خاندانوں کی موسیقی سے دلچسپی کے واقعات عام ہیں۔ جس شاہی خاندان نے موسیقی سے بحیثیت فن اعتنا کیا وہ شرقی خاندان تھا۔ سلطان حسین شاہ شرقی نے موسیقی میں بعض نئی طرحیں لگائی ہیں ان کے علاوہ بہمنی اور نظام شاہی خاندانوں نے اپنے شوق و ذوق کو نمایاں کیا۔ چنانچہ ابراہیم عادل شاہ کو ظہوری نے جگت گوروکہا ہے‘‘۔
’’ مغلوں میں اکبر کا عہد گویوں اور مغنیوں کی سرپرستی کے لئے مشہور یہ جہانگیر خود موسیقی کی نوک پلک سے واقف تھا ۔ تمام ملک میں دہلی، آگرہ ، لاہور ، بیجاپور ، احمد نگر اور احمد آباد کے گویے امراء کے ہاں ملازم تھے۔ علاالملک تونی اورنگزیب کے وزراء میں سے تھا لیکن موسیقی کا ایسا ماہر سمجھا جاتا تھا کہ بڑے بڑے اساتذہ اس کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ ابو الفضل اور فیضی کے والد ملامبارک موسیقی کے نکتہ شناسوں میں تھے۔ انہوں نے تان سین کا گانا سنا تو صرف یہ کہا تھا۔’’ ہاں گا لیتا ہے‘‘۔
ملا عبدالقادر بدایونی بین بجانے میں مہارت نامہ رکھتا تھا۔ ملا عبدالسلام لاہور ، علامہ سعد اللہ شاہجہانی ، شیخ علاؤالدین موسیقی کے فاضلوں میں سے تھے۔ بیرم خاں کو موسیقی سے جو شغف رہا اس کی شہادت اس کے بیٹے عبدالرحیم خاتحاناں کی فیاضیوں سے ملتی ہے۔ شیخ سلیم چشتی کا پوتا اسلام خاں جہانگیر کے عہد میں بنگال کا گورنر تھا۔ وہ اسی ہزار روپیہ سالانہ صرف رقص و سرود کے طائفوں پر خرچ کرتا تھا۔ شہزادہ مراد بخش کو اورنگ زیب نے قید کیا تو اپنے ہمراہ سرس بائی کو لے گیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس عہد کے خیال گانے والوں میں اُس کا ثانی نہ تھا۔ دورِ آخر میں مظہر جانجاناں اور میردرد بڑے مشتاق تھے ان کے ہاں بڑے بڑے کا اونت اصلاحیں لیتے تھے ‘‘۔
مختار آغا کی تقریرسنا رہی تھی۔ اور میں بڑے غور سے اس کے چہرے کو تک رہا تھا ، جوانی مر چکی ہے لیکن آواز نہیں مری۔ اس میں لدے پھندے دنوں کا کرارا پن باقی ہے۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔