اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 12
اختر جہاں ایک رئیس کے نکاح میں ہے۔ آفتاب اختر بھی ایک رئیس ابن رئیس کے ملازم ہے۔ نایاب اختر کی کم سختی ضرب المثال ہے۔ لیکن اختر کی ماں او ان کی نانی ایک جہاندیدہ نائکہ ہے۔ ایک زمانہ بتا چکی ہے اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی جھریاں اس کی مرحوم جوانی کے سنگبھار کا پتہ دیتی ہیں۔ وہ اس سن و سال میں بھی ایک شاہی کھنڈر معلوم ہوتی ہے جب کوئی فرد یا جمعیت گانا سننے آتی ہے تو پہلی نظر میں ان کا جائزہ لیتی ہے ، ایک طرف اُستاد فروکش ہوتے ہیں ، دوسری طرف وہ بیٹھتی ہے۔ مراد آبادی پاندان سامنے رکھا ہوتا ہے ، خود پان بناتی اور خود ہی پیش کرتی ہے۔ لیکن جب جانے پہچانے لوگ ہوں تو فوراً ہی نایاب کو بلا لیتی ہے ، نایاب سمٹے ہوئے ریشم کی طرح آتی ، ہاتھ کو قوس بناتے ہوئے سلام کرتی اور سنبل کے ڈھیر کی طرح بیٹھ جاتی ہے ، اُس کی بڑی بڑی گول آنکھوں پر اس کی دراز پلکیں جھکی رہتی ہیں۔
نایاب عادتاً غنچہ دہن ہے ، ستار خوب بجاتی ہے ، پکاراگ بھی گا لیتی ہے۔ لیکن یوپی کے دھان پان شاعروں کی ہلکی پھلی غزلیں خوب گاتی ہے، اس کی صحبت میں اب بھی دہلی کے بعض کرخند ارنواب ، اور وضعدارا اہل قلم بیٹھتے ہیں۔ اختر جہاں بڑی مجلس آرا ہے ۔ تمام کنبہ ٹھیٹھ اُردو بولتا ہے، اختر نے نایاب سے کہا، ’’ چائے بنوالو‘‘ ۔ کچھ وقت ہوگیا تو اختر نے نایاب سے پوچھا چائے بن گئی ہے ؟‘‘ اُس نے کہا اسٹووپر کیتلی رکھی ہے ۔ حمزی پتی لینے گیاہے ‘‘۔ تھوڑی سی دیر ہوئی ، اختر نے کہا ’’ چائے تیار ہو گئی ؟ ‘‘ وہاں ابھی پانی گرم ہو رہا تھا ۔ نایاب بولی۔
’’ ابھی تو پھول بھی نہیں پڑے ہیں۔‘‘
غرضیکہ ان کے ہاں بات چیت نہایت شستہ ہوتی ہے۔ وہ گنوارپن جو اس بازار کی عام خصوصیت ہے ، سارے گھر میں نہیں ، دونوں بہنیں ایک ہفت روزہ جریدہ رقص و سرود ‘‘ نکالتی رہی ہیں ، اب لاہور سے کراچی چلی گئی ہیں، سنا ہے کہ اچھے گھروں میں اُٹھ گئی ہیں۔
نایاب کا خیال ہے کہ حکماء نے موسیقی کا فن موسیقار سے ایجا دکیا ہے اس پرندے کی عمر ایک ہزار برس ہوتی ہے اور اس کی چونچ میں سات سوراخ ہیں، جب اپنی عمر طبعی کو پہنچتا ہے۔ تو گھانس پھونس اکٹھی کر کے اس کے اردگرد ناچتا اور چہکتا ہے۔ اس کی لے سے انبار میں آگ لگ جاتی ہے ، پھر اس میں بھسم ہوجاتا اور اُس خاکستر ہی سے دوبارہ پیدا ہوتا ہے ، اس پرندے کو ققنس ، یونانی میں فینقس ، پارسی میں آتش زن اور سنسکرت میں دیپک لاٹ کہتے ہیں۔
اختر جہاں کا کہنا ہے ہے کہ ساتوں سرسات جانوروں کی آوازون سے نکلے ہیں گھرج مور کی آواز سے ، رکھپ پپہے سے ، گندھار بکری سے ، مدہم کلنگ سے ، پنچم کوئل سے ، دھیوت گھوڑے سے اور نکہار ہاتھی سے۔
خواجہ نے کہا ’’جتنی معلومات بھی موسیقی کے متعلق اس بازار سے حاصل ہوئی ہیں۔ اُن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ موسیقی مردوں کی ایجاد ہے اور مردوں ہی نے اسے پروان چڑھایا ہے۔ ‘‘
’’ جی ہاں، ‘‘ اختر جہاں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ خود یہ بازار بھی مردوں ہی کی تصنیف ہے اوربالا خانوں کو بھی مردوں ہی نے پروان چڑھایا ہے۔ ‘‘
خواجہ نے کہا ، غالباً آپ اس کو تعریض سمجھ رہی ہیں میں تو واقعہ عرض کر رہا ہوں۔‘‘
تو میں نے بھی تعریضاً نہیں کہا۔ یہ بھی واقعہ ہے ‘‘ اختر جہاں نے جواب دیا۔۔۔ !
قاضی بولا ۔’’ دیکھئے نا ، رقص و غنا اس وقت سہ آتشہ ہوجاتے ہیں جب انہیں ایک حسین عورت اختیار کرتی ہے۔‘‘
اختر جہاں بولی ، ’’ آپ درست فرماتے ہیں ، اگر معلمی سے قطع نظر کرلی جائے تو سنگیت عورتوں کی چیز ہے ۔‘‘
’’ یہ رقص کا موجد کون ہے‘‘؟
’’ اس کا موجد بھی انسان ہے ، بظاہر اس کو کوئی تاریخ نہیں لیکن رقص و غنا دونوں ہم عمر اور ہم رشتہ ہیں۔ کبھی رقص منجملہ عبادات تھا۔ اور توریت میں اس کا ذکر موجود ہے۔ لیکن اب اس کی حیثیت فنی ہوگئی ہے ۔ قدم الایام میں بیت المقدس کے ایک یہودی فرمانروانے ہر دو یا نام کے رقاصہ کے نام سے متاثر ہو کر کہا، مانگ کیا مانگتی ہے ‘‘ ؟ اس نے کہا۔۔۔
’’ بپتسمہ دینے والے یوحنا کا سر‘‘ اور لے کے دم لیا۔ مصر کے ابتدائی طائفوں میں جو رقاصائیں تھیں اُن کا دعویٰ تھا کہ دو خاندان برامکہ میں سے ہیں۔ ہندوستان میں رقاصاؤں کو مرلیاں کہتے تھے۔ جب پہلی دفعہ عرب تاجر ملتان میں وارد ہوئے تو ان کا ناچ دیکھ کر اسیر ہوگئے۔ القصہ جیسے جیسے موسیقی میں دُھنیں بنتی گئیں ویسے ویسے رقص میں پیدا ہوتی گئیں۔ اب رقص حد کمال کو پہنچا ہوا ہے ، جہاں موسیقی کو چپ لگتی ہے وہاں رقص بولتا ہے۔ لیکن غنا کی طرح ایک قوم کا رقص بھی دوسری قوم سے مختلف ہوتا ہے۔‘‘
’’ کیا اس بازار میں بھی کوئی رقاصہ ہے‘‘؟
’’ آپ جانتے ہیں ہم لوگ دہلی سے آئے ہیں اور پناہ گزین ہیں، یہ ایک مکان (پکھراج منزل ) دوسو روپیہ ماہوار پر مل گیا ہے۔ کچھ دنوں محکمہ آبادکاری کا دروازہ کھٹ کھٹائی۔ لیکن دفتروں میں تو شرفاخوار پھرتے ہیں اور ہم ٹھیریں طوائفیں۔ چارونا چار اس مکان میں بیٹھ گئے۔ جو کچھ پس انداز کیا وہ کھا رہے ہیں۔ اب جو لوگ آتے ہیں انہیں آداب ہی کا علم نہیں، جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں اور ہاں ۔۔۔ آپ پوچھ رہے تھے کہ اس بازار میں بھی کوئی رقاصہ ہے ۔ دوچار کے متعلق مشہور ہے کہ اچھاناچ لیتی ہیں۔ ‘‘
شہناز ، فریدہ ، الماس ، کاکو۔۔۔‘‘
کاکو گاتی تو واجبی سا ہے ، لیکن تھرکتا خوب جانتی ہے ، یہ جو آپ لوگوں میں مشہور ہے کہ طوائف جونک ہوتی ہے تو یہ واقعی بعض خاندانوں پر صاد آتا ہے ۔وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتے ، ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ مرد کے پاس ہے ، لوٹ لو پھر دھتکار کر رخصت کردو، مثلاً ۔۔۔ سات بہنیں ہیں، اسی بازار میں ان کی حویلیاں کھڑی ہیں، ہر کہین پہنچ سکتی ہیں۔ لیکن گفتگو ہے تو ملمع ، صورتیں ہیں تو سہانی ، دل میں تو سنگی، جب کسی کی جیب پر ہاتھ صاف کرتی ہیں تو خنجر برآں ہوجاتی ہیں۔‘‘
’’ لیکن یہ تو ہر طوائف کا شیوہ ہے ، کوئی رنڈی بہ استشنا کسی مالدار سے محبت نہیں کرتی۔‘‘
’’ آپ کا خیال درست ہے ؟ لیکن فقدان محبت کے باوجود شرافت برتی جا سکتی ہے۔‘‘
’’ اگر شرافت سے مراد زبان کی مٹھاس ہے تو وہ دوچار مکانوں سے قطع نظر ہر کہیں ہے۔ اور اگر شرافت میں دل کا اخلاص بھی شامل ہے تو مجھے اس کی صحت میں شبہ ہے۔ جب لوگ ان مکانوں میں آتے ہیں توشہنشاہ ہوتے ہیں اور جب اُن کی کنی کٹ جاتی ہے تو ان کی زندگی صرف ایک داغ رہ جاتی ہے۔‘‘
الماس کی آواز بڑی گونجدار ہے ، چہرے پہ جوانی کی تمکنت ہے غالب خوب گاتی اور حفیظ غمزے سے پڑھتی ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں
موسیقی سے متعلق اس کی واقفیت کچھ زیادہ نہیں البتہ طبلے کی تھاپ ، طنبورے کی آس، ہارمونیم کے نخرے اور سارنگی کے لہرے کو خوب جانتی ہے، الماس کے ہم نشینوں میں بڑے بڑے لوگ ہیں۔ اس کا وجود ایک ایسی تحریر میں ہے جس پر بہت سے لوگوں کے دستخط ثبت ہیں۔ اس کے سینہ میں کئی راز ہیں ۔ بلکہ خود ایک راز ہے ۔ اس کے نزدیک عورت مرد کی کمزوری سہی لیکن مرد بھی عورت کی کمزوری ہے۔ اس کے رائے میں جذبات کی شادی خود کشی پر منتج ہوتی ہے عورت شادی سے پہلے روتی ہے اور مرد شادی کے بعد۔ وہ طوائف کے حرم میں بیٹھ جانے کی قائل نہیں۔ اس کا خیال ہے جس طوائف میں بیگم بننے کی ہمت نہیں وہ ہر گز ہرگز بیوی نہ بنے۔ ایک طوائف کے لئے جو اس بازار میں ایک عمر بتا چکی ہو۔ گھر کا آنگن جیل خانہ ہے جس طرح ایک گھریلو عورت طوائف کے ماحول کو سمجھنے سے معذور ہے، اسی طرح ایک طوائف گھر کی فضا سے نابلد ہوتی ہے۔‘‘
اس کی باتیں بڑے ہی مزے کی ہیں۔ وہ کہا کرتی ہے ، عورت مرد کو بزدا بناتی ، شراب ذلیل کرتی اور موسیقی سلاتی ہے، اُس کی نظر میں ’’ طوائفیں مدمکھیوں کا جھلڑ ہیں ، کمیائیاں ، مویشیوں کا کھڑک ہیں اور میراثی سہ پہر کی دھوپ کا تڑکا ‘‘ ۔۔۔!
****
بوڑھا کوچوان کوئی بیس برس سے تانگہ ہانکتا ہے وہ دن چڑھے نوگزے کی قبرکے اڈے پر آجاتا اور رات گئے گھر کو لوٹتا ہے ۔ تمام دن وہ شاہی محلہ سے شہر اور شہر سے شاہی محلے کے پھیرے لگاتا ہے۔ چہرہ جھریا چکا ہے، آواز میں کرارا پن ہے ، فامت منحنی جیسے امچور کی سفید پھانک ، بڑی بڑی آنکھوں سے ابھی تک جوانی جھانکتی ہے داڑھی تیموری ہے۔ ناک چنگیزی ، ہاڑ مفلی فی الجملہ کسی گئے ہوئے وقت کی تصویر ہے۔
’’ میاں ! اب جوانوں کی رتی چڑھی ہوئی ہے۔ ہمارا چراغ بڈھا ہوگیا۔ آپ ہفتوں سے آجا رہے ہیں۔ یہ آپ کی شرافت ہے کہ فقیر کے دل میں بھی آپ کے لئے قدر پیدا ہوگئی ہے، ورنہ خوش پوش لوگ جن پر دولت کا جھوٹا جھول چڑھا ہوتا ہے، ان مکانوں سے نکلتے ہیں، تو اُن کے لہجہ کی آب مرچکی ہوتی ہے ، تانگہ میں بیٹھتے ہی ایسی جلی کٹی باتیں کرتے ہیں کہ ان کے حسب نسب کا اختر بختر کھل جاتا ہے۔ بالخصوص نئی تانتی تونٹ کھٹی کی وہ بات کرتی ہے کہ بسا اوقات طبعیت جھنجھلاجاتی ہے۔ جی چاہتا ہے ان سے کہیں میاں آج کے تھپے آج ہی جلا نہیں کرتے لیکن ایک چپ میں بڑی خیر ہے۔‘‘
’’ میری عمر اس وقت ساٹھ سے کچھ اوپر ہے، زندگی جھجھو جھونٹوں میں نہیں بتائی جو کچھ آج نظر آرہا ہے کبھی نہ تھا اور اب توقلندروں کی بادشاہت ہے، ہر کوئی ہتھیلی پہ سرسوں جماتا ہے۔ پھر یہ اس بازار پہ ہی موقوف نہیں ، سارے شہر کی حیا مرچکی ہے جہاں تہاں جھوٹ کے وارے نیارے ہیں۔ آنکھ کا پانی بہہ گیا ہے۔ ہر کسی کا بہرہ کھلا ہوا ہے ، جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔‘‘
بڈھے کی عادت تھی کہ شاذہی بولتا تھا۔ ہر شب ہم اس کے تانگہ ہیں سوار ہوتے اور وہ ہمیں ڈیڑھ روپے میں میکلوڈ روڈ تک چھوڑا آتا، لیکن آج جو قاضی نے چھیڑا تو ایک دفتر کھل گیا ، کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بڈھا جس کے تانگہ میں آپ جاتے ہیں، اس بازار کی پاتال تک جانتا ہے۔ اُس کی دولت یہیں لٹی ہے ، کبھی وہ ایک متمول آدمی تھا ، اس کی حویلیاں تھیں لیکن اب تانگہ ہانکتا اور گزارا کرتا ہے۔
’’ بابا ! ہم تو اس بازار کے حالات پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں اور اسی لئے کئی دنوں سے چکر لگاتے ہیں۔‘‘
بڈھے نے پہلی دفعہ سر اُٹھا کر دیکھا پھر مسکراتی ہوئی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’ جی ہاں ! تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔‘‘
معلوم ہو ا، بڈھے کو مذاقِ بھی ہے ۔۔۔ اتفاق سے اس روز شہنشاہ وغیرہ گھر میں نہیں تھیں اور ہم ان سے ملے بغیر واپس آرہے تھے، جب بڈھے کی یہ باتیں سنیں ، تو ہم نے علامہ اقبالؒ کے مزار پر تانگہ رکوا لیا اور چاہا اس سے کچھ پوچھ گچھ لیں۔
’’ سُنا ہے آپ بھی اس بازار میں بہت کچھ گنوایا ہے۔‘‘
میں نے ؟ اس کا لہجہ قدر توانا ہوگیا ۔۔۔ جی نہیں ! میں نے بہت کچھ کمایا ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا؟ وہ الفن کٹ چکی ہے جس سے ہم نے کبھی پیچ لڑایا تھا ، اس گھر کی پرانی صورتیں گور کنارے ہیں البتہ اکی اولاد میں سے دو بہنیں فلاں فلاں کے گھر میں ہیں۔‘‘
خیر اس قصے کو چھوڑیئے’’ صرف مجھے دیکھئے، عبرت کا مرقع ہوں ، آپ کا خون تازہ ہے اسے ضائع نہ کیجئے۔ ان مکانوں سے کبھی کوئی سلامت نہیں گیا۔ ان بتکدوں میں ایمان کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ یہ عورتیں نہیں جونکیں ہیں ، ان کے مرد بچھو ہیں ، ہر کوئی سنپو لیا بلکہ گھٹیا ہے ، ان کی محبت روپیہ سے شروع ہوتی اور روپیہ پر ختم ہوجاتی یہ ان کی ہاں وفا ، صبر ، شرافت ، خلوص وغیرہ نام کی کوئی سی شے نہیں۔ صرف جسم میں یا بستر ، آپ ان سے ایک ہزار برس رسم و راہ رکھیں اور گنج قاروں بھی لٹادیں تو بھی آپ کے دوست نہیں ہوں گے، یہ انسانوں پر شیروں کی طرح دہارٹے اور ہاتھی کی طرح چنگھاڑتے ہیں اور جب جیبیں کتر چکتے ہیں ، تو ان کی عورتیں بلی کی طرح میاؤں کرتی اور مرد کتوں کی طرح بھونکتے ہیں۔‘‘
’’ ہم یہاں یہی معلومات جمع کرنے آتے ہیں ۔‘‘
’’ میاں ! آپ دفعہ کی چاٹ مدتوں پیچھا چھوڑتی ہے۔ یہ پہلا قدم ہی زنجیر ہوجاتا ہے۔ نظر کی گمراہیاں انسان کی دل و دماغ کو ہلادیتی ہیں ، اور نظر اس وقت تک نہیں تھکتی جب تک ہڈیاں نچڑ نہیں جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ بابا ! آپ بہت کچھ بتا سکتے ہیں ان کی اصلیت آپ کے تجربہ میں ہے آپ کی کہانی کیا ہے۔‘‘
’’ میری کہانی عام انسانوں سے مختلف نہیں ، یہاں ہر ایک سے یکساں بیتتی ہے۔ میرے باپ دادا متمول لوگ تھے، کئی مربعے زمین تھی ، کئی حویلیاں تھیں۔ میں ان کا اکلوتا بچہ تھا جب والد کا انتقال ہوگیا تو ایک لاکھ کے قریب نقدو روپیہ تھا ، اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں امیروں کے بچے عموماً غبی ہوتے ہیں۔ میں بھی پڑھائی میں کچھ زیادہ ذہین نہ تھا۔ طبیعت کا رجحان کھیلوں کی طرف تھا ۔ والد کی موت نے طبیعت کا ہر بند توڑ ڈالا، ایک دن کچھ دوست ہنسی ہنسی میں گانا سنانے لے گئے ، رفتہ رفتہ عشق کا پینچ لڑگیا۔ اُس کا بھی سن آغاز تھا، میرا بھی ، پہلی سہاگ رات کے پندرہ ہزار روپے ادا کیے۔‘‘
’’ سہاگ رات ؟‘‘
’’ جی ہاں یہ ایک شریفانہ لفظ ہے ، ورنہ ان کے ہاں کوئی سہاگ رات نہیں ہوتی ، باجانہ گاجا مہند نہ ڈھولک، براتی نہ دعوت کچھ نہیں صرف روپیہ ، جسم اور بستر۔‘‘
’’ جب نقدروپیہ ختم ہوگیا تو زمینیں گروی رکھی گئیں، وہ بھی بک گئیں پھر حویلیاں رہن رکھیں، آخر ان کا سودا بھی ہوگیا۔ اور جب سب کچھ دے چکا تو دیگ کی کھرچن کو بھی داؤں پر لگایا مگر پانچ برس میں ملا کیا؟ ایک جسم جو ہمیشہ پرایا تھا۔ ہڈیوں میں نقاہت آگئی۔ عزت قہقہوں میں بٹ گئی کچھ دنوں تو ان کے ہاں پڑا رہا وہ بھی اوپر اسا التفات برتتے رہے لیکن وہ دن بھی آگیا جب مجھے پان بنانے کے لئے کہا گیا اور لگے بندھے جو پہلے جھک کے سلام کہتے تھے اب مسکراکر گزرنے لگے۔ میراثی خفے کی نے تک نہ چھوڑتے۔ اب اُس جسم کے کئی گاہک تھے۔ میں عشق کے بے بصری میں سب کچھ دیکھتا رہا اور آخر ایک دن ایسا آگیا کہ میں ان کے ہاں اِکہ چلانے لگا وہ لوگ جو میرے لئے چلمیں بھرتے تھے اب میں ان کے حقے تازہ کرتا تھا ، یہ تانگہ چلانا میں نے انہی کے ہاں سیکھا ہے۔‘‘
بڈھے کی آواز رندھ گئی ۔۔۔ قاضی نے سہارا دینے کے لئے کہا۔
’’ وہ اب کہاں ہے ؟‘‘
’’ وہ مرکھپ گئی ہے ، اس کی ایک بہن نواب ۔۔۔ کے ہاں ہے ، دو بیٹیاں ۔۔۔ کے گھروں میں ہیں ، البتہ خلیری اور چچیری بہنوں کی اولاد اسی بازار میں بیٹھتی ہے۔‘‘
’’ کیا وہ آپ کو پہچانتی ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں ان کے درو دیوار تک پہچانتے ہیں ، آپ بازار میں چلے جائیے وہ تمام بلڈنگیں جو ان کے نام سے منسوب ہیں اس فقیر ہی کے کھنڈر پر تیار ہوئی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان عمارتوں کی نیو محمد دین ۔۔۔ کی دولت پر رکھی گئی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ محمد دین اسی بازار میں تانگہ چلاتا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا؟‘‘
’’ یہ پیشہ نہیں زندگی گزارنے کا بہانہ ہے ، میری کوئی اولاد نہیِ بیوی نہیں ، رشتہ دار نہیں ، اُس نے مجھ پر ترس کھایا تانگہ دے دیا ، میں چلاتا رہا ، کماتا رہا ، کھاتا رہا۔‘‘
’’ یہ وہی تانگہ ہے؟‘‘
’’ جی نہیں ! یہ دوسرا تانگہ ہے لیکن ہے اُسی تانگہ کی کمائی کا۔‘‘
’’ آُ کو چاہیے تھا کہ آپ کی ناک کاٹ ڈالتے لیکن یہ ذلت گوارا نہ کرتے۔۔۔‘‘
بڈھے نے روز کا قہقہہ لگایا جیسے وہ یہ سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
’’ میاں ! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جو لوگ اس بازار میں آتے ہیں ان کی اپنی ناک آتے ہی کٹ جاتی اور غیرت غائب غلہ ہوجاتی ہے، البتہ جو چیز کچھ دنوں کے لئے طبیعت پر بوجھ بن کے رہتی ہے ، وہ ضمیر کا کانٹا ہے جس کو رفتہ رفتہ عیش کی آگ جھلسا دیتی ہے ، اس وقت تو آپ یہاں بیٹھے ہیں ، بازار میں ہوتے تو میں آپ کو دکھاتا ، بیسیوں لوگ لٹ لٹا کر وہاں بیٹھے ہیں کبھی نوگزے کی قبر پر ملئے میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون کس عمارت کی اینٹ ہے؟‘‘
’’ تو ابھی چلئے۔‘‘ ہمارے اصرار پر بڈھا مان گیا ، تانگہ کواڈے میں کھڑا کیا، ایک نعل گیر نوجوان ہے کہا ، ذرا خیال رکھنا ابھی آتا ہوں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
نایاب عادتاً غنچہ دہن ہے ، ستار خوب بجاتی ہے ، پکاراگ بھی گا لیتی ہے۔ لیکن یوپی کے دھان پان شاعروں کی ہلکی پھلی غزلیں خوب گاتی ہے، اس کی صحبت میں اب بھی دہلی کے بعض کرخند ارنواب ، اور وضعدارا اہل قلم بیٹھتے ہیں۔ اختر جہاں بڑی مجلس آرا ہے ۔ تمام کنبہ ٹھیٹھ اُردو بولتا ہے، اختر نے نایاب سے کہا، ’’ چائے بنوالو‘‘ ۔ کچھ وقت ہوگیا تو اختر نے نایاب سے پوچھا چائے بن گئی ہے ؟‘‘ اُس نے کہا اسٹووپر کیتلی رکھی ہے ۔ حمزی پتی لینے گیاہے ‘‘۔ تھوڑی سی دیر ہوئی ، اختر نے کہا ’’ چائے تیار ہو گئی ؟ ‘‘ وہاں ابھی پانی گرم ہو رہا تھا ۔ نایاب بولی۔
’’ ابھی تو پھول بھی نہیں پڑے ہیں۔‘‘
غرضیکہ ان کے ہاں بات چیت نہایت شستہ ہوتی ہے۔ وہ گنوارپن جو اس بازار کی عام خصوصیت ہے ، سارے گھر میں نہیں ، دونوں بہنیں ایک ہفت روزہ جریدہ رقص و سرود ‘‘ نکالتی رہی ہیں ، اب لاہور سے کراچی چلی گئی ہیں، سنا ہے کہ اچھے گھروں میں اُٹھ گئی ہیں۔
نایاب کا خیال ہے کہ حکماء نے موسیقی کا فن موسیقار سے ایجا دکیا ہے اس پرندے کی عمر ایک ہزار برس ہوتی ہے اور اس کی چونچ میں سات سوراخ ہیں، جب اپنی عمر طبعی کو پہنچتا ہے۔ تو گھانس پھونس اکٹھی کر کے اس کے اردگرد ناچتا اور چہکتا ہے۔ اس کی لے سے انبار میں آگ لگ جاتی ہے ، پھر اس میں بھسم ہوجاتا اور اُس خاکستر ہی سے دوبارہ پیدا ہوتا ہے ، اس پرندے کو ققنس ، یونانی میں فینقس ، پارسی میں آتش زن اور سنسکرت میں دیپک لاٹ کہتے ہیں۔
اختر جہاں کا کہنا ہے ہے کہ ساتوں سرسات جانوروں کی آوازون سے نکلے ہیں گھرج مور کی آواز سے ، رکھپ پپہے سے ، گندھار بکری سے ، مدہم کلنگ سے ، پنچم کوئل سے ، دھیوت گھوڑے سے اور نکہار ہاتھی سے۔
خواجہ نے کہا ’’جتنی معلومات بھی موسیقی کے متعلق اس بازار سے حاصل ہوئی ہیں۔ اُن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ موسیقی مردوں کی ایجاد ہے اور مردوں ہی نے اسے پروان چڑھایا ہے۔ ‘‘
’’ جی ہاں، ‘‘ اختر جہاں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ خود یہ بازار بھی مردوں ہی کی تصنیف ہے اوربالا خانوں کو بھی مردوں ہی نے پروان چڑھایا ہے۔ ‘‘
خواجہ نے کہا ، غالباً آپ اس کو تعریض سمجھ رہی ہیں میں تو واقعہ عرض کر رہا ہوں۔‘‘
تو میں نے بھی تعریضاً نہیں کہا۔ یہ بھی واقعہ ہے ‘‘ اختر جہاں نے جواب دیا۔۔۔ !
قاضی بولا ۔’’ دیکھئے نا ، رقص و غنا اس وقت سہ آتشہ ہوجاتے ہیں جب انہیں ایک حسین عورت اختیار کرتی ہے۔‘‘
اختر جہاں بولی ، ’’ آپ درست فرماتے ہیں ، اگر معلمی سے قطع نظر کرلی جائے تو سنگیت عورتوں کی چیز ہے ۔‘‘
’’ یہ رقص کا موجد کون ہے‘‘؟
’’ اس کا موجد بھی انسان ہے ، بظاہر اس کو کوئی تاریخ نہیں لیکن رقص و غنا دونوں ہم عمر اور ہم رشتہ ہیں۔ کبھی رقص منجملہ عبادات تھا۔ اور توریت میں اس کا ذکر موجود ہے۔ لیکن اب اس کی حیثیت فنی ہوگئی ہے ۔ قدم الایام میں بیت المقدس کے ایک یہودی فرمانروانے ہر دو یا نام کے رقاصہ کے نام سے متاثر ہو کر کہا، مانگ کیا مانگتی ہے ‘‘ ؟ اس نے کہا۔۔۔
’’ بپتسمہ دینے والے یوحنا کا سر‘‘ اور لے کے دم لیا۔ مصر کے ابتدائی طائفوں میں جو رقاصائیں تھیں اُن کا دعویٰ تھا کہ دو خاندان برامکہ میں سے ہیں۔ ہندوستان میں رقاصاؤں کو مرلیاں کہتے تھے۔ جب پہلی دفعہ عرب تاجر ملتان میں وارد ہوئے تو ان کا ناچ دیکھ کر اسیر ہوگئے۔ القصہ جیسے جیسے موسیقی میں دُھنیں بنتی گئیں ویسے ویسے رقص میں پیدا ہوتی گئیں۔ اب رقص حد کمال کو پہنچا ہوا ہے ، جہاں موسیقی کو چپ لگتی ہے وہاں رقص بولتا ہے۔ لیکن غنا کی طرح ایک قوم کا رقص بھی دوسری قوم سے مختلف ہوتا ہے۔‘‘
’’ کیا اس بازار میں بھی کوئی رقاصہ ہے‘‘؟
’’ آپ جانتے ہیں ہم لوگ دہلی سے آئے ہیں اور پناہ گزین ہیں، یہ ایک مکان (پکھراج منزل ) دوسو روپیہ ماہوار پر مل گیا ہے۔ کچھ دنوں محکمہ آبادکاری کا دروازہ کھٹ کھٹائی۔ لیکن دفتروں میں تو شرفاخوار پھرتے ہیں اور ہم ٹھیریں طوائفیں۔ چارونا چار اس مکان میں بیٹھ گئے۔ جو کچھ پس انداز کیا وہ کھا رہے ہیں۔ اب جو لوگ آتے ہیں انہیں آداب ہی کا علم نہیں، جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں اور ہاں ۔۔۔ آپ پوچھ رہے تھے کہ اس بازار میں بھی کوئی رقاصہ ہے ۔ دوچار کے متعلق مشہور ہے کہ اچھاناچ لیتی ہیں۔ ‘‘
شہناز ، فریدہ ، الماس ، کاکو۔۔۔‘‘
کاکو گاتی تو واجبی سا ہے ، لیکن تھرکتا خوب جانتی ہے ، یہ جو آپ لوگوں میں مشہور ہے کہ طوائف جونک ہوتی ہے تو یہ واقعی بعض خاندانوں پر صاد آتا ہے ۔وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتے ، ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ مرد کے پاس ہے ، لوٹ لو پھر دھتکار کر رخصت کردو، مثلاً ۔۔۔ سات بہنیں ہیں، اسی بازار میں ان کی حویلیاں کھڑی ہیں، ہر کہین پہنچ سکتی ہیں۔ لیکن گفتگو ہے تو ملمع ، صورتیں ہیں تو سہانی ، دل میں تو سنگی، جب کسی کی جیب پر ہاتھ صاف کرتی ہیں تو خنجر برآں ہوجاتی ہیں۔‘‘
’’ لیکن یہ تو ہر طوائف کا شیوہ ہے ، کوئی رنڈی بہ استشنا کسی مالدار سے محبت نہیں کرتی۔‘‘
’’ آپ کا خیال درست ہے ؟ لیکن فقدان محبت کے باوجود شرافت برتی جا سکتی ہے۔‘‘
’’ اگر شرافت سے مراد زبان کی مٹھاس ہے تو وہ دوچار مکانوں سے قطع نظر ہر کہیں ہے۔ اور اگر شرافت میں دل کا اخلاص بھی شامل ہے تو مجھے اس کی صحت میں شبہ ہے۔ جب لوگ ان مکانوں میں آتے ہیں توشہنشاہ ہوتے ہیں اور جب اُن کی کنی کٹ جاتی ہے تو ان کی زندگی صرف ایک داغ رہ جاتی ہے۔‘‘
الماس کی آواز بڑی گونجدار ہے ، چہرے پہ جوانی کی تمکنت ہے غالب خوب گاتی اور حفیظ غمزے سے پڑھتی ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں
موسیقی سے متعلق اس کی واقفیت کچھ زیادہ نہیں البتہ طبلے کی تھاپ ، طنبورے کی آس، ہارمونیم کے نخرے اور سارنگی کے لہرے کو خوب جانتی ہے، الماس کے ہم نشینوں میں بڑے بڑے لوگ ہیں۔ اس کا وجود ایک ایسی تحریر میں ہے جس پر بہت سے لوگوں کے دستخط ثبت ہیں۔ اس کے سینہ میں کئی راز ہیں ۔ بلکہ خود ایک راز ہے ۔ اس کے نزدیک عورت مرد کی کمزوری سہی لیکن مرد بھی عورت کی کمزوری ہے۔ اس کے رائے میں جذبات کی شادی خود کشی پر منتج ہوتی ہے عورت شادی سے پہلے روتی ہے اور مرد شادی کے بعد۔ وہ طوائف کے حرم میں بیٹھ جانے کی قائل نہیں۔ اس کا خیال ہے جس طوائف میں بیگم بننے کی ہمت نہیں وہ ہر گز ہرگز بیوی نہ بنے۔ ایک طوائف کے لئے جو اس بازار میں ایک عمر بتا چکی ہو۔ گھر کا آنگن جیل خانہ ہے جس طرح ایک گھریلو عورت طوائف کے ماحول کو سمجھنے سے معذور ہے، اسی طرح ایک طوائف گھر کی فضا سے نابلد ہوتی ہے۔‘‘
اس کی باتیں بڑے ہی مزے کی ہیں۔ وہ کہا کرتی ہے ، عورت مرد کو بزدا بناتی ، شراب ذلیل کرتی اور موسیقی سلاتی ہے، اُس کی نظر میں ’’ طوائفیں مدمکھیوں کا جھلڑ ہیں ، کمیائیاں ، مویشیوں کا کھڑک ہیں اور میراثی سہ پہر کی دھوپ کا تڑکا ‘‘ ۔۔۔!
****
بوڑھا کوچوان کوئی بیس برس سے تانگہ ہانکتا ہے وہ دن چڑھے نوگزے کی قبرکے اڈے پر آجاتا اور رات گئے گھر کو لوٹتا ہے ۔ تمام دن وہ شاہی محلہ سے شہر اور شہر سے شاہی محلے کے پھیرے لگاتا ہے۔ چہرہ جھریا چکا ہے، آواز میں کرارا پن ہے ، فامت منحنی جیسے امچور کی سفید پھانک ، بڑی بڑی آنکھوں سے ابھی تک جوانی جھانکتی ہے داڑھی تیموری ہے۔ ناک چنگیزی ، ہاڑ مفلی فی الجملہ کسی گئے ہوئے وقت کی تصویر ہے۔
’’ میاں ! اب جوانوں کی رتی چڑھی ہوئی ہے۔ ہمارا چراغ بڈھا ہوگیا۔ آپ ہفتوں سے آجا رہے ہیں۔ یہ آپ کی شرافت ہے کہ فقیر کے دل میں بھی آپ کے لئے قدر پیدا ہوگئی ہے، ورنہ خوش پوش لوگ جن پر دولت کا جھوٹا جھول چڑھا ہوتا ہے، ان مکانوں سے نکلتے ہیں، تو اُن کے لہجہ کی آب مرچکی ہوتی ہے ، تانگہ میں بیٹھتے ہی ایسی جلی کٹی باتیں کرتے ہیں کہ ان کے حسب نسب کا اختر بختر کھل جاتا ہے۔ بالخصوص نئی تانتی تونٹ کھٹی کی وہ بات کرتی ہے کہ بسا اوقات طبعیت جھنجھلاجاتی ہے۔ جی چاہتا ہے ان سے کہیں میاں آج کے تھپے آج ہی جلا نہیں کرتے لیکن ایک چپ میں بڑی خیر ہے۔‘‘
’’ میری عمر اس وقت ساٹھ سے کچھ اوپر ہے، زندگی جھجھو جھونٹوں میں نہیں بتائی جو کچھ آج نظر آرہا ہے کبھی نہ تھا اور اب توقلندروں کی بادشاہت ہے، ہر کوئی ہتھیلی پہ سرسوں جماتا ہے۔ پھر یہ اس بازار پہ ہی موقوف نہیں ، سارے شہر کی حیا مرچکی ہے جہاں تہاں جھوٹ کے وارے نیارے ہیں۔ آنکھ کا پانی بہہ گیا ہے۔ ہر کسی کا بہرہ کھلا ہوا ہے ، جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔‘‘
بڈھے کی عادت تھی کہ شاذہی بولتا تھا۔ ہر شب ہم اس کے تانگہ ہیں سوار ہوتے اور وہ ہمیں ڈیڑھ روپے میں میکلوڈ روڈ تک چھوڑا آتا، لیکن آج جو قاضی نے چھیڑا تو ایک دفتر کھل گیا ، کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بڈھا جس کے تانگہ میں آپ جاتے ہیں، اس بازار کی پاتال تک جانتا ہے۔ اُس کی دولت یہیں لٹی ہے ، کبھی وہ ایک متمول آدمی تھا ، اس کی حویلیاں تھیں لیکن اب تانگہ ہانکتا اور گزارا کرتا ہے۔
’’ بابا ! ہم تو اس بازار کے حالات پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں اور اسی لئے کئی دنوں سے چکر لگاتے ہیں۔‘‘
بڈھے نے پہلی دفعہ سر اُٹھا کر دیکھا پھر مسکراتی ہوئی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’ جی ہاں ! تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔‘‘
معلوم ہو ا، بڈھے کو مذاقِ بھی ہے ۔۔۔ اتفاق سے اس روز شہنشاہ وغیرہ گھر میں نہیں تھیں اور ہم ان سے ملے بغیر واپس آرہے تھے، جب بڈھے کی یہ باتیں سنیں ، تو ہم نے علامہ اقبالؒ کے مزار پر تانگہ رکوا لیا اور چاہا اس سے کچھ پوچھ گچھ لیں۔
’’ سُنا ہے آپ بھی اس بازار میں بہت کچھ گنوایا ہے۔‘‘
میں نے ؟ اس کا لہجہ قدر توانا ہوگیا ۔۔۔ جی نہیں ! میں نے بہت کچھ کمایا ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا؟ وہ الفن کٹ چکی ہے جس سے ہم نے کبھی پیچ لڑایا تھا ، اس گھر کی پرانی صورتیں گور کنارے ہیں البتہ اکی اولاد میں سے دو بہنیں فلاں فلاں کے گھر میں ہیں۔‘‘
خیر اس قصے کو چھوڑیئے’’ صرف مجھے دیکھئے، عبرت کا مرقع ہوں ، آپ کا خون تازہ ہے اسے ضائع نہ کیجئے۔ ان مکانوں سے کبھی کوئی سلامت نہیں گیا۔ ان بتکدوں میں ایمان کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ یہ عورتیں نہیں جونکیں ہیں ، ان کے مرد بچھو ہیں ، ہر کوئی سنپو لیا بلکہ گھٹیا ہے ، ان کی محبت روپیہ سے شروع ہوتی اور روپیہ پر ختم ہوجاتی یہ ان کی ہاں وفا ، صبر ، شرافت ، خلوص وغیرہ نام کی کوئی سی شے نہیں۔ صرف جسم میں یا بستر ، آپ ان سے ایک ہزار برس رسم و راہ رکھیں اور گنج قاروں بھی لٹادیں تو بھی آپ کے دوست نہیں ہوں گے، یہ انسانوں پر شیروں کی طرح دہارٹے اور ہاتھی کی طرح چنگھاڑتے ہیں اور جب جیبیں کتر چکتے ہیں ، تو ان کی عورتیں بلی کی طرح میاؤں کرتی اور مرد کتوں کی طرح بھونکتے ہیں۔‘‘
’’ ہم یہاں یہی معلومات جمع کرنے آتے ہیں ۔‘‘
’’ میاں ! آپ دفعہ کی چاٹ مدتوں پیچھا چھوڑتی ہے۔ یہ پہلا قدم ہی زنجیر ہوجاتا ہے۔ نظر کی گمراہیاں انسان کی دل و دماغ کو ہلادیتی ہیں ، اور نظر اس وقت تک نہیں تھکتی جب تک ہڈیاں نچڑ نہیں جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ بابا ! آپ بہت کچھ بتا سکتے ہیں ان کی اصلیت آپ کے تجربہ میں ہے آپ کی کہانی کیا ہے۔‘‘
’’ میری کہانی عام انسانوں سے مختلف نہیں ، یہاں ہر ایک سے یکساں بیتتی ہے۔ میرے باپ دادا متمول لوگ تھے، کئی مربعے زمین تھی ، کئی حویلیاں تھیں۔ میں ان کا اکلوتا بچہ تھا جب والد کا انتقال ہوگیا تو ایک لاکھ کے قریب نقدو روپیہ تھا ، اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں امیروں کے بچے عموماً غبی ہوتے ہیں۔ میں بھی پڑھائی میں کچھ زیادہ ذہین نہ تھا۔ طبیعت کا رجحان کھیلوں کی طرف تھا ۔ والد کی موت نے طبیعت کا ہر بند توڑ ڈالا، ایک دن کچھ دوست ہنسی ہنسی میں گانا سنانے لے گئے ، رفتہ رفتہ عشق کا پینچ لڑگیا۔ اُس کا بھی سن آغاز تھا، میرا بھی ، پہلی سہاگ رات کے پندرہ ہزار روپے ادا کیے۔‘‘
’’ سہاگ رات ؟‘‘
’’ جی ہاں یہ ایک شریفانہ لفظ ہے ، ورنہ ان کے ہاں کوئی سہاگ رات نہیں ہوتی ، باجانہ گاجا مہند نہ ڈھولک، براتی نہ دعوت کچھ نہیں صرف روپیہ ، جسم اور بستر۔‘‘
’’ جب نقدروپیہ ختم ہوگیا تو زمینیں گروی رکھی گئیں، وہ بھی بک گئیں پھر حویلیاں رہن رکھیں، آخر ان کا سودا بھی ہوگیا۔ اور جب سب کچھ دے چکا تو دیگ کی کھرچن کو بھی داؤں پر لگایا مگر پانچ برس میں ملا کیا؟ ایک جسم جو ہمیشہ پرایا تھا۔ ہڈیوں میں نقاہت آگئی۔ عزت قہقہوں میں بٹ گئی کچھ دنوں تو ان کے ہاں پڑا رہا وہ بھی اوپر اسا التفات برتتے رہے لیکن وہ دن بھی آگیا جب مجھے پان بنانے کے لئے کہا گیا اور لگے بندھے جو پہلے جھک کے سلام کہتے تھے اب مسکراکر گزرنے لگے۔ میراثی خفے کی نے تک نہ چھوڑتے۔ اب اُس جسم کے کئی گاہک تھے۔ میں عشق کے بے بصری میں سب کچھ دیکھتا رہا اور آخر ایک دن ایسا آگیا کہ میں ان کے ہاں اِکہ چلانے لگا وہ لوگ جو میرے لئے چلمیں بھرتے تھے اب میں ان کے حقے تازہ کرتا تھا ، یہ تانگہ چلانا میں نے انہی کے ہاں سیکھا ہے۔‘‘
بڈھے کی آواز رندھ گئی ۔۔۔ قاضی نے سہارا دینے کے لئے کہا۔
’’ وہ اب کہاں ہے ؟‘‘
’’ وہ مرکھپ گئی ہے ، اس کی ایک بہن نواب ۔۔۔ کے ہاں ہے ، دو بیٹیاں ۔۔۔ کے گھروں میں ہیں ، البتہ خلیری اور چچیری بہنوں کی اولاد اسی بازار میں بیٹھتی ہے۔‘‘
’’ کیا وہ آپ کو پہچانتی ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں ان کے درو دیوار تک پہچانتے ہیں ، آپ بازار میں چلے جائیے وہ تمام بلڈنگیں جو ان کے نام سے منسوب ہیں اس فقیر ہی کے کھنڈر پر تیار ہوئی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان عمارتوں کی نیو محمد دین ۔۔۔ کی دولت پر رکھی گئی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ محمد دین اسی بازار میں تانگہ چلاتا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا؟‘‘
’’ یہ پیشہ نہیں زندگی گزارنے کا بہانہ ہے ، میری کوئی اولاد نہیِ بیوی نہیں ، رشتہ دار نہیں ، اُس نے مجھ پر ترس کھایا تانگہ دے دیا ، میں چلاتا رہا ، کماتا رہا ، کھاتا رہا۔‘‘
’’ یہ وہی تانگہ ہے؟‘‘
’’ جی نہیں ! یہ دوسرا تانگہ ہے لیکن ہے اُسی تانگہ کی کمائی کا۔‘‘
’’ آُ کو چاہیے تھا کہ آپ کی ناک کاٹ ڈالتے لیکن یہ ذلت گوارا نہ کرتے۔۔۔‘‘
بڈھے نے روز کا قہقہہ لگایا جیسے وہ یہ سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
’’ میاں ! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جو لوگ اس بازار میں آتے ہیں ان کی اپنی ناک آتے ہی کٹ جاتی اور غیرت غائب غلہ ہوجاتی ہے، البتہ جو چیز کچھ دنوں کے لئے طبیعت پر بوجھ بن کے رہتی ہے ، وہ ضمیر کا کانٹا ہے جس کو رفتہ رفتہ عیش کی آگ جھلسا دیتی ہے ، اس وقت تو آپ یہاں بیٹھے ہیں ، بازار میں ہوتے تو میں آپ کو دکھاتا ، بیسیوں لوگ لٹ لٹا کر وہاں بیٹھے ہیں کبھی نوگزے کی قبر پر ملئے میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون کس عمارت کی اینٹ ہے؟‘‘
’’ تو ابھی چلئے۔‘‘ ہمارے اصرار پر بڈھا مان گیا ، تانگہ کواڈے میں کھڑا کیا، ایک نعل گیر نوجوان ہے کہا ، ذرا خیال رکھنا ابھی آتا ہوں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔