اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 13
ہوٹل میں چائے کی میز پر ہم پانچوں بیٹھ گئے۔ دوسری میز پر غالباً اُستاد لوگ کھسر پھسر کر رہے تھے۔ بڈھے نے کہا۔’’ ان کی باتیں سنو، یہ اسی کٹم کے لوگ ہیں،‘‘ ایک کہہ رہا تھا!
’’ یہ سب محمد دین کی ہڈیاں ہیں جو ان مکانوں کی بنیاد میں پڑی ہیں ، خدا جانے وہ مرگیا ہے یا زندہ ہے۔ لیکن پچھلے دنوں کوئی کہہ رہا تھا کہ تانگہ چلاتا ہے اب جو یہ خانزادہ پھنسا ہے تو اس کے پاس لے دے کے بیس پچیس ہزار روپیہ ہوگا، اور وہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ روز کی مار ہے۔‘‘
’’ یہ روپیہ کیونکر ہتھیاتی ہیں؟‘‘
’’ یہی تو ان کا فن ہے ۔ سب سے پہلے تماش بین کی حیثیت کا جائزہ لیتی ہیں، پھر اسی کے مطابق اپنی طلب و خواہش کا نقشہ بناتی ہیں۔ ایک گراں قدر رقم ماہانہ مقرر ہوجاتی ہے ، پھر مجرا ہے ، اُستاد جی ہیں ، لگے بندھے ہیں ، جو اپنے آپ بیٹھے ہیں نوکر آتا ہے‘‘
‘‘ بی جی آج کیا پکے گا۔‘‘
’’ مرغا ، بٹیر، متنجن ، بریانی وغیرہ اور اسُ کی جیب خود بخود کھل جاتی ہے۔‘‘
’’ آپ نے کہا چلئے سیر کو چلتے ہیں ، اُس نے شاپنگ پر اصرار کیا، ہر پھیرے میں کئی کئی ہزار اُٹھ جاتا ہے، ان کے ہاں کپڑے کی کئی کئی سو جوڑے ہوتے ہیں ، اور زیور کا تو کہنا ہی کیا ان کی طلب کبھی ختم نہیں ہوتی، ان کے ہاں رات کا عشق بڑا مہنگا ہوتا ہے ، لیکن دن کا عشق کبھی گراں کبھی ارزاں۔‘‘
’ وہ دیکھئے چو بارے پر ایک نائکہ بیٹھی ہے ، بڑی مالداراسامی ہے ۔ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ۔ اِدھر اُدھر سے ایک لڑکی خرید کر جوان کی ہے اور اب اسی کے سہارے جی رہی ہے، اس کی بوٹی بوٹی میں حرام رچا ہوا ہے۔ اُدھر پکھراج منزل کی سج دھج ملاحظہ کیجئے ۔ اس کی مالکن خانہ نشین ہوگئی ہے ، ہے پکاپان، آج ہی مری کل مری ، وہ سامنے ہجرو کنجر کا مکان ہے ، غورفرمایئے ، بلڈنگ کا ناک نقشہ کیا ہے؟ وسط میں کتبہ لگا ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکان حاجی چودھری ہجرو
اور اندر کیا ہوتا ہے؟ اس قطار کو دیکھ لیجئے نیچے اُوپر بازاریوں کے مکان ہیں، کیا بن سنورکر بیٹھتی ہیں، اور وہ مسجد ، ان مکانوں میں ایک مریل دوشیزہ کی طرح دبکی بیٹھی ہے۔ وڑینچ کا مکان ایک بڑا مذبح ہے ، اور وہ سامنے کئی کوٹھی خانے ہیں ہر بڑی عمارت پر سنگ مر مر میں بحروف جلی ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کھدا ہوا ہے ، یا تو ان کے مالکوں کا اسلام مر چکا ہے یا اللہ میاں ڈھیل دے رہے ہیں۔‘‘
’’ یہ ملا لوگ جو ہر لحظہ اسلام اسلام کرتے ہیں وہ بھی تو آیات الٰہی کی اس امانت پر نہیں بولتے۔‘‘
’’ اور وہاں یہ دیکھئے۔ وہ نوجوانوں کا غول سال ہے ، سب ان کے بھائی بند ہیں ، ہر کوئی دماغ چوٹا ہے۔ یہ تمام بچے ایسے برے اُٹھتے ہیں کہ ان میں کوئی بھی خودکماؤ نہیں، سب بہنوں یا ماؤں کے صدقے میں دندناتے پھرتے ہیں ، ان کی آنکھیں میں روشنی ہے، لیکن غیرت کی دنیا میں اندھیر ہے۔
’’ اُدھر موڑ کی کھٹیا پر ایک کھوسٹ بیٹھا ہے وہ بازار کو چودھری ہے لیکن ان کا با ناغائب ہے اور اب تانا ہی تانارہ گیا ہے۔‘‘
’’ چیت رام روڈ کی بازاریاں اس ڈھائی ڈھوئی کے مینہ کی پیداوار ہیں۔ کنچنوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے ان کے ہاں بے خمیر، ان کا کاروبار کچھ لو او رکچھ دو تک محدود ہے، یہ جو گہما گہمی نظر آتی ہے ان میں کچھ کن رسیے ہیں ، زیادہ تر نظر باز جو اپنی جنسی تندرستی کے لئے آجاتے ہیں! یہاں بڑے بڑوں کی اینٹ سے اینٹ بجی ہے تب کہیں ان عمارتوں کی اینٹیں جڑی ہیں۔ ہر حویلی میں کئی خاندانوں کی اینٹیں ہیں خون ہے گارا ہے لیکن اب جو طوائفیں ہیں وہ غبارے ہیں ، اور جو گویا ہیں وہ میراثی ہیں تو وہ ہنچوں ہنچوں کرتے ہیں‘‘
’’ لیکن بابا ! کچھ تو اچھے گویا ہیں۔ ‘‘
’’ مثلاً‘‘
’’ مثلاً مختار حشروالی۔‘‘
’’ اس کا تلفظ غلط ہے۔‘‘
’’ شمشاد۔‘‘
’’ گالیتی ہے ، لیکن اب اس کا زمانہ بیت گیا ہے۔‘‘
’’ فریدہ۔‘‘
’’ وہ گاتی نہیں رانبھتی ہے۔‘‘
’’ الماس۔‘‘
’’ کبھ کوکتی اور کبھی ممیاتی ہے۔‘‘‘
’’ اختری۔‘‘
’’ وہ غٹرغوں کرتی ہے۔‘‘
’’ انور بائی۔‘‘
’’لاحول و لاقوۃ ، وہ ہنہناتی ہے، یا بھن بھناتی ہے۔‘‘
’’زرینہ۔‘‘
’’کڑکڑاتی ہے۔‘‘
’’الٰہی جان۔‘‘
’’چوں چوں کرتی ہے۔‘‘
’’زہرہ و مشتری۔‘‘
’’ کائیں کائیں کرتی ہیں۔‘‘
’’ عنایت بائی۔‘‘
’’بغ بغاتی ہے۔‘‘
’’ شمیم ۔‘‘
’’ جھنکارتی ہے۔‘‘
’’ گلشن آرا۔‘‘
’’ چنگھاڑتی ہے۔‘‘
’’ اس کی بہن شمشاد۔‘‘
’’ چٹ چٹاتی ہے۔‘‘
’’ اور زاہدہ پروین؟‘‘
’’ طوائف تو نہیں ، پیرنی ہے، بس گالیتی ہے۔‘‘
’’شہناز۔‘‘
’’ تھرک لیتی ہے۔‘‘
’’ توگویا آپ اس بازار کی جڑیں تک جانتے ہیں۔‘‘
’’ جی نہیں! ان کی جڑ تو خاکم بدہن ان کا پروردگار بھی نہیں جانتا ،یہ آپ کو جتنی صورتیں بھی نظر آتی ہیں سب چھوٹے زیور ہیں۔‘‘
اور یہ پہناوے اُودے ہرے نیلے پیلے کالے سفید چمپئی جامنی دھانی شنگرفی فالسائی نارنچی لاجوروی زنگاری سردئی پیازی گلابی یا کاکریز۔ جو آپ کو دریچوں میں اُڑتے نظر آتے ہیں ، یہ سب ہماری اور آپ کی جوانی کاکفن ہے۔‘‘
سوال کیا ’’ اور یہ بعض تانگے والے بھی تو حراف ہوتے ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں حراف کیا ؟ اس سے بھی کئی قدم آگے ‘‘ کچھ تو انہی میں سے ہیں ، کچھ باقاعدہ دلالی کرتے ہیں ، کچھ اس قماش کے ہیں کہ ان پر ایک پنتھ دوکاج کی ضرب المثل صادق آتی ہے ، یعنی خود پیشہ ور ہیں کوٹھی خانہ کھول رکھا ہے ۔ دو چار لڑکیاں ہیں خود گاہک لاتے اور دولت پیدا کرتے ہیں۔‘‘
’’ ایسے کتے ہوں گے؟‘‘
’’ میرے پاس کوئی رجسٹر تو ہے نہیں اور نہ میں نے کبھی گنتی کی ہے لیکن دواڑھائی سو سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں انکی بڑے بڑوں تک رسائی ہے۔ یہ ایک کمپنی کی طرح کام کرتی ہیں ، کچھ تو اس چوک میں رہتے ہیں کچھ میکلوڈ روڈ کے پاس ، کچھ قلعہ گرجر سنگھ کے اڑوس پڑوس ، کچھ میٹرو ہوٹل کے باہر ، کچھ الفنسٹن ہوٹل کے پہلو میں ، اس کے علاوہ مزنگ ، اچھرہ ، مسلم ٹاؤن اور گاف روڈ پر بھی ان کی دوکانداریاں ہیں۔ انہیں ایک اشارہ کافی ہوتا ہے آپ جانتے ہیں گناہ چہرے سے بول اُٹھتا ہے اور خواہش آنکھوں میں جھلک اُٹھتی ہے۔‘‘
’’ اور وہ لوگ جو یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’ ہر چور بازاری یہاں آتا ہے۔‘‘
’’ اور یہ عورتیں ؟‘‘
’’ جو کچھ رات کو کماتی ہیں دن کو کھاپی جاتی ہیں ، بعض نکھٹو شوہر ہوتے ہیں ، وہ ان کے لئے سودا لاتے ہیں ہیں بعض محبت بھی کرتی ہیں۔ لیکن گاہکوں سے نہیں اوباشوں سے ، جو کچھ رات کو ہتھیاتی ہیں دن کو انہیں کھلاپلادیتی ہیں اکثر غنڈے انہی کی کمائی پر اینڈتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ ان غنڈوں کو کھلائیں پلائیں نہیں یا انہیں ہاتھ میں نہ رکھیں تویہ لوگ اکٹھے ہو کر ایسی دھما چوکٹری مچائیں کہ کوئی بتی بھی روشن نہ رہ سکے۔ ‘‘
’’ تو گویا ان کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’ جی ہاں نوے فی صد کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ، زندگی ہی نہیں کمائی بھی ، میرااندازہ ہے ان بازاریوں کو نوے فیصد روپیہ ٹنگاڑے کھا جاتے ہیں ، جو نشہ کہیں دستیاب نہیں ہوتا وہ یہاں ملتا ہے ، شہر میں شراب بن ہے لیکن یہاں وافر ہے۔ کئی چوباروں میں افیون ، چرس ، چانڈو، کوکین کی تجارت ہوتی ہے۔‘‘
’’ بابا کبھی جوانی بھی یاد آتی ہے۔‘‘وہ کھل کھلا کر ہنس پرا۔
’’ جی ہاں! جوانی مجھے ہی نہیں سب کو یاد آتی ہے لیکن انسان ماضی پر ٹسوے ضرور بہاتا ہے اس سے سیکھتا کچھ نہیں آدمی نے کبھی دوسروں کے تجربے سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ ہمیشہ خود تجربہ کرتا ہے ، ہم کرتے ہیں غلطیاں اور نام رکھتے ہیں تجربہ ۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ زندگی کے سبق ہمیں اس وقت ملتے ہیں جب وہ ہمارے لئے بیکار ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو دنیا کے بدترین کام ہمیشہ بہترین نیت کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔‘‘
محمد شریف (یہ لوگ ہمیشہ اپنا صحیح نام چھپاتے ہیں) ایک گٹھیلا نوجوان ہے وجیہہ ہے عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ، یہی کوئی بیس بائیس برس کے پیٹے میں ہوگا، ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر سات آٹھ نوجوانوں کی ایک منڈلی کھڑی ہوتی ہے۔ سبھی حراف ہیں اور یہ اُن کا سرخیل ہے، بڑا خوش اخلاق ہے۔ شہری پنجابی اور گلابی اُردو خوب بولتا ہے ، اس پیشہ پر برہم نے اُسے کئی دفعہ ٹوکا ، پہلے تو عام عذر کرتا رہا کہ بیکاری ہے، پیٹ پالنا ہے ، چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں، باپ مر چکا ہے ماں بوڑھی ہے۔ پھر ایک اور شخص سے پتہ چلا کہ اچھے گھرانے کا نوجوان ہے پہلے گھر کی پونجی ہر ہاتھ صاف کیا اور عیاشی کرتا رہا، جب بڑے بھائی نے نکال دیا تو اپنی ’’ محبوبہ‘‘ کے ہاں رہنے لگا۔ کچھ دنوں اس کی دلالی کرتا رہا اب تقریباً سبھی کوٹھی خانہ کا گماشتہ ہے ، اس قلب ماہیت نے اس کے خیالات پلٹ ڈالے ہیں ، وہ گناہ کے تصور کو محض گفتگو کی چیز سمجھتا ہے، اُس کا خیال ہے جو چیز چوری چھپے کی جاتی ہے وہ گناہ ہے ۔ورنہ اس کے علاوہ گناہ کا تصور محض اضافی ہے ۔
شریف کا کہنا ہے جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کی صورتیں زمانے کے لئے ضرور خوف یا تقدس پیدا کرتی ہیں لیکن ہماری لیے نہیں ، اس حمام میں بڑے بڑے لوگ ننگے ہیں ۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کون آتا اور کون جاتا ہے، جب رات کے گیارہ بجتے ہیں تو شاہی مسجد کی پیٹھ کی سڑک پر رنگ برنگ کاریں آتی اور مال لے کر اُڑ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ جو لوگ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتے وہ کوٹھیوں یا ہوٹلوں میں چلے جاتے ہیں۔ بعض سیرو تفریح ہی میں خوش ہو لیتے ہیں۔بعض دریا کا کنارہ ڈھونڈھتے اور بعض شہر کی طرف نکل جاتے ہیں وغیرہ۔‘‘
یہ بستی تو ثواب کے تصور ہی سے خالی ہے ‘‘ اُس نے کہا ’’ چوری کرنا جرم نہیں پکڑے جانا جرم ہے۔ سب لوگ گناہ کرتے ہیں۔ کوئی چھپ کے کرتا ہے ، کوئی کھلم کھلا ، کچھ اخلاقی یا قانونی دیواریں ہیں جو درمیان میں چُن دی گئی ہیں ، جو لوگ ان دیواروں کو پھاند جاتے ہیں ان کا گناہ گرفت سے باہر ہو جاتاہے ، جوان دیواروں پر کھڑے رہتے ہیں وہ گناہ و ثواب کی گرفت میں رہتے ہیں اور جوان دیواروں سے اس طرف ہوں وہ بے قید ہوتے ہیں۔‘‘
’’ تمہیں کیا ملتا ہے؟‘‘
’’ صرف گذر اوقات ہوجاتی ہے ، ملے گا کیا؟ اس پیشہ میں کوئی عزت تو ہے نہیں۔‘‘
’’ عجیب بات ہے تم لوگ ذلت کا اقرار بھی کرتے ہو اور پھر اسی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ ‘‘
’’ جی ہاں ! لیکن اس میں ہمارا قصور نہیں ایک تو سوسائٹی ایسی ہے دوسری جب ہڈیوں میں حرام سرایت کرجاتا ہے تو غیرت یا احساس غیرت ختم ہوجاتے ہیں بوئی جی دار ہو تو پانچ دس روپے دے جاتا ہے ورنہ ان عورتوں سے دس فی صد کمیشن مشکل سے ملتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس پیسہ نہیں رہا۔ ورنہ مشتاقوں کی قطاریں بندھی رہتی ہیں۔ اب کوئی اکا دکا آنکلتا ہے یا ضرورت مند لوگ رشوت و سفارش کے لئے لے جاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا آپ لوگ خدا کے غضب کو قریب نہیں لا رہے؟‘‘
’’ جی ہاں ، خدا کا نام تو چاروں طرف بکھری ہوئی مسجدوں میں روز گونجتا ہے، لیکن خدا کا غضب کہیں نظرنہیں آتا، وہ دیکھئے عالمگیر مسجد کھڑی ہے، اُس کا گنبد بھی کھڑا ہے ، اُس کے مینار بھی کھڑے ہیں ، کبھی ان کی اینٹوں کی جنبش نہیں ہوئی، وہ سامنے قلعہ والیوں کی بلڈنگ ہے ناں،دیکھیں اسکی لوح پر لکھا ہے’’ ھذا من فضل ربی‘‘
اسکی بات سن کر منہ بند کرنا بنتا ہے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
’’ یہ سب محمد دین کی ہڈیاں ہیں جو ان مکانوں کی بنیاد میں پڑی ہیں ، خدا جانے وہ مرگیا ہے یا زندہ ہے۔ لیکن پچھلے دنوں کوئی کہہ رہا تھا کہ تانگہ چلاتا ہے اب جو یہ خانزادہ پھنسا ہے تو اس کے پاس لے دے کے بیس پچیس ہزار روپیہ ہوگا، اور وہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ روز کی مار ہے۔‘‘
’’ یہ روپیہ کیونکر ہتھیاتی ہیں؟‘‘
’’ یہی تو ان کا فن ہے ۔ سب سے پہلے تماش بین کی حیثیت کا جائزہ لیتی ہیں، پھر اسی کے مطابق اپنی طلب و خواہش کا نقشہ بناتی ہیں۔ ایک گراں قدر رقم ماہانہ مقرر ہوجاتی ہے ، پھر مجرا ہے ، اُستاد جی ہیں ، لگے بندھے ہیں ، جو اپنے آپ بیٹھے ہیں نوکر آتا ہے‘‘
‘‘ بی جی آج کیا پکے گا۔‘‘
’’ مرغا ، بٹیر، متنجن ، بریانی وغیرہ اور اسُ کی جیب خود بخود کھل جاتی ہے۔‘‘
’’ آپ نے کہا چلئے سیر کو چلتے ہیں ، اُس نے شاپنگ پر اصرار کیا، ہر پھیرے میں کئی کئی ہزار اُٹھ جاتا ہے، ان کے ہاں کپڑے کی کئی کئی سو جوڑے ہوتے ہیں ، اور زیور کا تو کہنا ہی کیا ان کی طلب کبھی ختم نہیں ہوتی، ان کے ہاں رات کا عشق بڑا مہنگا ہوتا ہے ، لیکن دن کا عشق کبھی گراں کبھی ارزاں۔‘‘
’ وہ دیکھئے چو بارے پر ایک نائکہ بیٹھی ہے ، بڑی مالداراسامی ہے ۔ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ۔ اِدھر اُدھر سے ایک لڑکی خرید کر جوان کی ہے اور اب اسی کے سہارے جی رہی ہے، اس کی بوٹی بوٹی میں حرام رچا ہوا ہے۔ اُدھر پکھراج منزل کی سج دھج ملاحظہ کیجئے ۔ اس کی مالکن خانہ نشین ہوگئی ہے ، ہے پکاپان، آج ہی مری کل مری ، وہ سامنے ہجرو کنجر کا مکان ہے ، غورفرمایئے ، بلڈنگ کا ناک نقشہ کیا ہے؟ وسط میں کتبہ لگا ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکان حاجی چودھری ہجرو
اور اندر کیا ہوتا ہے؟ اس قطار کو دیکھ لیجئے نیچے اُوپر بازاریوں کے مکان ہیں، کیا بن سنورکر بیٹھتی ہیں، اور وہ مسجد ، ان مکانوں میں ایک مریل دوشیزہ کی طرح دبکی بیٹھی ہے۔ وڑینچ کا مکان ایک بڑا مذبح ہے ، اور وہ سامنے کئی کوٹھی خانے ہیں ہر بڑی عمارت پر سنگ مر مر میں بحروف جلی ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کھدا ہوا ہے ، یا تو ان کے مالکوں کا اسلام مر چکا ہے یا اللہ میاں ڈھیل دے رہے ہیں۔‘‘
’’ یہ ملا لوگ جو ہر لحظہ اسلام اسلام کرتے ہیں وہ بھی تو آیات الٰہی کی اس امانت پر نہیں بولتے۔‘‘
’’ اور وہاں یہ دیکھئے۔ وہ نوجوانوں کا غول سال ہے ، سب ان کے بھائی بند ہیں ، ہر کوئی دماغ چوٹا ہے۔ یہ تمام بچے ایسے برے اُٹھتے ہیں کہ ان میں کوئی بھی خودکماؤ نہیں، سب بہنوں یا ماؤں کے صدقے میں دندناتے پھرتے ہیں ، ان کی آنکھیں میں روشنی ہے، لیکن غیرت کی دنیا میں اندھیر ہے۔
’’ اُدھر موڑ کی کھٹیا پر ایک کھوسٹ بیٹھا ہے وہ بازار کو چودھری ہے لیکن ان کا با ناغائب ہے اور اب تانا ہی تانارہ گیا ہے۔‘‘
’’ چیت رام روڈ کی بازاریاں اس ڈھائی ڈھوئی کے مینہ کی پیداوار ہیں۔ کنچنوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے ان کے ہاں بے خمیر، ان کا کاروبار کچھ لو او رکچھ دو تک محدود ہے، یہ جو گہما گہمی نظر آتی ہے ان میں کچھ کن رسیے ہیں ، زیادہ تر نظر باز جو اپنی جنسی تندرستی کے لئے آجاتے ہیں! یہاں بڑے بڑوں کی اینٹ سے اینٹ بجی ہے تب کہیں ان عمارتوں کی اینٹیں جڑی ہیں۔ ہر حویلی میں کئی خاندانوں کی اینٹیں ہیں خون ہے گارا ہے لیکن اب جو طوائفیں ہیں وہ غبارے ہیں ، اور جو گویا ہیں وہ میراثی ہیں تو وہ ہنچوں ہنچوں کرتے ہیں‘‘
’’ لیکن بابا ! کچھ تو اچھے گویا ہیں۔ ‘‘
’’ مثلاً‘‘
’’ مثلاً مختار حشروالی۔‘‘
’’ اس کا تلفظ غلط ہے۔‘‘
’’ شمشاد۔‘‘
’’ گالیتی ہے ، لیکن اب اس کا زمانہ بیت گیا ہے۔‘‘
’’ فریدہ۔‘‘
’’ وہ گاتی نہیں رانبھتی ہے۔‘‘
’’ الماس۔‘‘
’’ کبھ کوکتی اور کبھی ممیاتی ہے۔‘‘‘
’’ اختری۔‘‘
’’ وہ غٹرغوں کرتی ہے۔‘‘
’’ انور بائی۔‘‘
’’لاحول و لاقوۃ ، وہ ہنہناتی ہے، یا بھن بھناتی ہے۔‘‘
’’زرینہ۔‘‘
’’کڑکڑاتی ہے۔‘‘
’’الٰہی جان۔‘‘
’’چوں چوں کرتی ہے۔‘‘
’’زہرہ و مشتری۔‘‘
’’ کائیں کائیں کرتی ہیں۔‘‘
’’ عنایت بائی۔‘‘
’’بغ بغاتی ہے۔‘‘
’’ شمیم ۔‘‘
’’ جھنکارتی ہے۔‘‘
’’ گلشن آرا۔‘‘
’’ چنگھاڑتی ہے۔‘‘
’’ اس کی بہن شمشاد۔‘‘
’’ چٹ چٹاتی ہے۔‘‘
’’ اور زاہدہ پروین؟‘‘
’’ طوائف تو نہیں ، پیرنی ہے، بس گالیتی ہے۔‘‘
’’شہناز۔‘‘
’’ تھرک لیتی ہے۔‘‘
’’ توگویا آپ اس بازار کی جڑیں تک جانتے ہیں۔‘‘
’’ جی نہیں! ان کی جڑ تو خاکم بدہن ان کا پروردگار بھی نہیں جانتا ،یہ آپ کو جتنی صورتیں بھی نظر آتی ہیں سب چھوٹے زیور ہیں۔‘‘
اور یہ پہناوے اُودے ہرے نیلے پیلے کالے سفید چمپئی جامنی دھانی شنگرفی فالسائی نارنچی لاجوروی زنگاری سردئی پیازی گلابی یا کاکریز۔ جو آپ کو دریچوں میں اُڑتے نظر آتے ہیں ، یہ سب ہماری اور آپ کی جوانی کاکفن ہے۔‘‘
سوال کیا ’’ اور یہ بعض تانگے والے بھی تو حراف ہوتے ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں حراف کیا ؟ اس سے بھی کئی قدم آگے ‘‘ کچھ تو انہی میں سے ہیں ، کچھ باقاعدہ دلالی کرتے ہیں ، کچھ اس قماش کے ہیں کہ ان پر ایک پنتھ دوکاج کی ضرب المثل صادق آتی ہے ، یعنی خود پیشہ ور ہیں کوٹھی خانہ کھول رکھا ہے ۔ دو چار لڑکیاں ہیں خود گاہک لاتے اور دولت پیدا کرتے ہیں۔‘‘
’’ ایسے کتے ہوں گے؟‘‘
’’ میرے پاس کوئی رجسٹر تو ہے نہیں اور نہ میں نے کبھی گنتی کی ہے لیکن دواڑھائی سو سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں انکی بڑے بڑوں تک رسائی ہے۔ یہ ایک کمپنی کی طرح کام کرتی ہیں ، کچھ تو اس چوک میں رہتے ہیں کچھ میکلوڈ روڈ کے پاس ، کچھ قلعہ گرجر سنگھ کے اڑوس پڑوس ، کچھ میٹرو ہوٹل کے باہر ، کچھ الفنسٹن ہوٹل کے پہلو میں ، اس کے علاوہ مزنگ ، اچھرہ ، مسلم ٹاؤن اور گاف روڈ پر بھی ان کی دوکانداریاں ہیں۔ انہیں ایک اشارہ کافی ہوتا ہے آپ جانتے ہیں گناہ چہرے سے بول اُٹھتا ہے اور خواہش آنکھوں میں جھلک اُٹھتی ہے۔‘‘
’’ اور وہ لوگ جو یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’ ہر چور بازاری یہاں آتا ہے۔‘‘
’’ اور یہ عورتیں ؟‘‘
’’ جو کچھ رات کو کماتی ہیں دن کو کھاپی جاتی ہیں ، بعض نکھٹو شوہر ہوتے ہیں ، وہ ان کے لئے سودا لاتے ہیں ہیں بعض محبت بھی کرتی ہیں۔ لیکن گاہکوں سے نہیں اوباشوں سے ، جو کچھ رات کو ہتھیاتی ہیں دن کو انہیں کھلاپلادیتی ہیں اکثر غنڈے انہی کی کمائی پر اینڈتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ ان غنڈوں کو کھلائیں پلائیں نہیں یا انہیں ہاتھ میں نہ رکھیں تویہ لوگ اکٹھے ہو کر ایسی دھما چوکٹری مچائیں کہ کوئی بتی بھی روشن نہ رہ سکے۔ ‘‘
’’ تو گویا ان کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’ جی ہاں نوے فی صد کی زندگی غنڈوں کے ہاتھ میں ، زندگی ہی نہیں کمائی بھی ، میرااندازہ ہے ان بازاریوں کو نوے فیصد روپیہ ٹنگاڑے کھا جاتے ہیں ، جو نشہ کہیں دستیاب نہیں ہوتا وہ یہاں ملتا ہے ، شہر میں شراب بن ہے لیکن یہاں وافر ہے۔ کئی چوباروں میں افیون ، چرس ، چانڈو، کوکین کی تجارت ہوتی ہے۔‘‘
’’ بابا کبھی جوانی بھی یاد آتی ہے۔‘‘وہ کھل کھلا کر ہنس پرا۔
’’ جی ہاں! جوانی مجھے ہی نہیں سب کو یاد آتی ہے لیکن انسان ماضی پر ٹسوے ضرور بہاتا ہے اس سے سیکھتا کچھ نہیں آدمی نے کبھی دوسروں کے تجربے سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ ہمیشہ خود تجربہ کرتا ہے ، ہم کرتے ہیں غلطیاں اور نام رکھتے ہیں تجربہ ۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ زندگی کے سبق ہمیں اس وقت ملتے ہیں جب وہ ہمارے لئے بیکار ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو دنیا کے بدترین کام ہمیشہ بہترین نیت کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔‘‘
محمد شریف (یہ لوگ ہمیشہ اپنا صحیح نام چھپاتے ہیں) ایک گٹھیلا نوجوان ہے وجیہہ ہے عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ، یہی کوئی بیس بائیس برس کے پیٹے میں ہوگا، ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر سات آٹھ نوجوانوں کی ایک منڈلی کھڑی ہوتی ہے۔ سبھی حراف ہیں اور یہ اُن کا سرخیل ہے، بڑا خوش اخلاق ہے۔ شہری پنجابی اور گلابی اُردو خوب بولتا ہے ، اس پیشہ پر برہم نے اُسے کئی دفعہ ٹوکا ، پہلے تو عام عذر کرتا رہا کہ بیکاری ہے، پیٹ پالنا ہے ، چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں، باپ مر چکا ہے ماں بوڑھی ہے۔ پھر ایک اور شخص سے پتہ چلا کہ اچھے گھرانے کا نوجوان ہے پہلے گھر کی پونجی ہر ہاتھ صاف کیا اور عیاشی کرتا رہا، جب بڑے بھائی نے نکال دیا تو اپنی ’’ محبوبہ‘‘ کے ہاں رہنے لگا۔ کچھ دنوں اس کی دلالی کرتا رہا اب تقریباً سبھی کوٹھی خانہ کا گماشتہ ہے ، اس قلب ماہیت نے اس کے خیالات پلٹ ڈالے ہیں ، وہ گناہ کے تصور کو محض گفتگو کی چیز سمجھتا ہے، اُس کا خیال ہے جو چیز چوری چھپے کی جاتی ہے وہ گناہ ہے ۔ورنہ اس کے علاوہ گناہ کا تصور محض اضافی ہے ۔
شریف کا کہنا ہے جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کی صورتیں زمانے کے لئے ضرور خوف یا تقدس پیدا کرتی ہیں لیکن ہماری لیے نہیں ، اس حمام میں بڑے بڑے لوگ ننگے ہیں ۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کون آتا اور کون جاتا ہے، جب رات کے گیارہ بجتے ہیں تو شاہی مسجد کی پیٹھ کی سڑک پر رنگ برنگ کاریں آتی اور مال لے کر اُڑ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ جو لوگ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتے وہ کوٹھیوں یا ہوٹلوں میں چلے جاتے ہیں۔ بعض سیرو تفریح ہی میں خوش ہو لیتے ہیں۔بعض دریا کا کنارہ ڈھونڈھتے اور بعض شہر کی طرف نکل جاتے ہیں وغیرہ۔‘‘
یہ بستی تو ثواب کے تصور ہی سے خالی ہے ‘‘ اُس نے کہا ’’ چوری کرنا جرم نہیں پکڑے جانا جرم ہے۔ سب لوگ گناہ کرتے ہیں۔ کوئی چھپ کے کرتا ہے ، کوئی کھلم کھلا ، کچھ اخلاقی یا قانونی دیواریں ہیں جو درمیان میں چُن دی گئی ہیں ، جو لوگ ان دیواروں کو پھاند جاتے ہیں ان کا گناہ گرفت سے باہر ہو جاتاہے ، جوان دیواروں پر کھڑے رہتے ہیں وہ گناہ و ثواب کی گرفت میں رہتے ہیں اور جوان دیواروں سے اس طرف ہوں وہ بے قید ہوتے ہیں۔‘‘
’’ تمہیں کیا ملتا ہے؟‘‘
’’ صرف گذر اوقات ہوجاتی ہے ، ملے گا کیا؟ اس پیشہ میں کوئی عزت تو ہے نہیں۔‘‘
’’ عجیب بات ہے تم لوگ ذلت کا اقرار بھی کرتے ہو اور پھر اسی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ ‘‘
’’ جی ہاں ! لیکن اس میں ہمارا قصور نہیں ایک تو سوسائٹی ایسی ہے دوسری جب ہڈیوں میں حرام سرایت کرجاتا ہے تو غیرت یا احساس غیرت ختم ہوجاتے ہیں بوئی جی دار ہو تو پانچ دس روپے دے جاتا ہے ورنہ ان عورتوں سے دس فی صد کمیشن مشکل سے ملتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس پیسہ نہیں رہا۔ ورنہ مشتاقوں کی قطاریں بندھی رہتی ہیں۔ اب کوئی اکا دکا آنکلتا ہے یا ضرورت مند لوگ رشوت و سفارش کے لئے لے جاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا آپ لوگ خدا کے غضب کو قریب نہیں لا رہے؟‘‘
’’ جی ہاں ، خدا کا نام تو چاروں طرف بکھری ہوئی مسجدوں میں روز گونجتا ہے، لیکن خدا کا غضب کہیں نظرنہیں آتا، وہ دیکھئے عالمگیر مسجد کھڑی ہے، اُس کا گنبد بھی کھڑا ہے ، اُس کے مینار بھی کھڑے ہیں ، کبھی ان کی اینٹوں کی جنبش نہیں ہوئی، وہ سامنے قلعہ والیوں کی بلڈنگ ہے ناں،دیکھیں اسکی لوح پر لکھا ہے’’ ھذا من فضل ربی‘‘
اسکی بات سن کر منہ بند کرنا بنتا ہے
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔